باب ۱۶
امین احسن پیروکاروں کی کثرت کے بجاے چند شاگرد بنالینے کو ترجیح دیتے تھے، اور پھر ان کی تربیت کو خاص اہمیت دیتے تھے۔ذیل میں امین احسن کے اہم شاگردوں کا تعارف درج کیا جاتاہے۔
خالد مسعود صاحب کی پیدایش پنجاب کے ضلع جہلم میں ۱۶ ؍دسمبر ۱۹۳۵ء کو ہوئی۔ ۱۹۵۸ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے کیمسٹری میں ماسٹر کیا۔۱۹۶۴ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن گئے۔اور کنگزکالج کیمبرج سے کیمیکل انجینئر نگ میں ڈپلومہ کیا۔ ۱۹۷۵ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اسلامیات میں ماسٹر کیا۔ ۱۹۵۸ء میں حکومت پنجاب میں ملازمت کی اور ۲۷ برس کام کیا۔ ۱۹۸۵ء میں انھیں قائد اعظم لائبریری،باغ جناح لاہور میں ریسرچ اسکالر کے عہدے کی پیش کش ہوئی۔ اس عہدے سے ۱۹۹۶ء میں ریٹائر ہوئے۔ دور طالب علمی (۱۹۵۶ء -۱۹۵۸ء ) میں اسلامی جمعیت طلبہ لاہور کے ناظم رہے، مگر بعد میں جماعت اسلامی میں شامل ہونے کے بجاے امین احسن سے قرآن پڑھنے کو ترجیح دی۔ امین احسن کی وفات تک ان کے سب سے اہم ترین ساتھی اور سینئر شاگردرہے۔ ۲۲ ؍ جون ۲۰۰۲ء کو راقم خالد مسعود صاحب کو ان کے گھر ملا۔مقصد یہ تھا کہ خالد صاحب کا تعارف ان کی زبانی حاصل کیا جائے۔ذیل میں یہ تعارف درج کیا جاتاہے۔
خالد مسعودگورنمنٹ کالج سرگودھا میں پڑھتے تھے ۔وہاں امین احسن نے ایک خصوصی لیکچر دیا۔ اس طرح خالد صاحب مولانا سے متعارف ہو ئے ۔
پھر خالد صاحب بی ایس سی کرنے کی غرض سے گورنمنٹ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہورمیں داخل ہوئے ۔اس کا لج کے قریب ایک مولوی برکت علی ہال تھا ۔ مولانا وہاں درس دیتے تھے ۔ خالد صاحب کا اعلیٰ ذوق انھیں وہاں کھینچ لایا ۔دین کو نسبتاً بہتر سطح پر سمجھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس دوران میں خالد صاحب نے کیمسٹری میں ایم ایس سی کر لی ۔ جلد ہی انھیں گورنمنٹ کالج شیخوپورہ میں لیکچرر کی ملازمت مل گئی، مگر خالد صاحب کی منزل اس سے بہت آگے تھی ۔ایک طرف یہ ملازمت تھی اور دوسری طرف امین احسن کی صحبت۔ایک آزمایش پڑی۔خالد صاحب سرخرو ہوئے۔ امین احسن کی صحبت کو ترجیح دی۔ خالد صاحب نے سماجی اور مالی لحاظ سے بہتر ملازمت چھوڑی اور لاہور میں فروتر ملازمت کر لی،مگر درحقیقت ایک برتر راہ اختیار کرلی۔
پھرخالد صاحب کے شدت شوق میں اضافہ ہوا، انھوں نے محبوب سبحانی صاحب کے سا تھ مولانا کے پاس باقاعدہ جانا شروع کیا، مگر مولانا انھیں ’’باقاعدہ‘‘ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ اس کے باوجود ان کا مولانا کے پاس باقاعدہ حاضر ہونے کا سلسلہ جاری رہا ۔ مولانا اصل میں انھیں آزمارہے تھے ۔ایک دن بولے :
’’ معلوم ہوتاہے آپ لو گ تو قرآن پڑ ھنے کا پکا ارادہ کر چکے ہیں ، ورنہ لوگوں میں قرآن پڑھنے کا ابال پیدا ہوتا رہتا ہے ۔‘‘
یہ وہ زمانہ تھا جب مولانا نے جماعت اسلامی کو ابھی چھوڑا ہی تھا ۔ مولانا اپنا رسالہ ’’میثاق‘‘ جاری کر چکے تھے۔مولانا کو دوسروں کے مضامین پسند نہیں آتے تھے ،اس لیے رسالے کے تمام مضامین خود ہی لکھتے تھے، مگراس قدر سخت معیا ر پسندی کا فطری نتیجہ جلد ہی نکل آیا۔ ایک دن بولے:
’’ بھئی، میں تو تھک جاتا ہوں ۔رسالے کے تمام مضامین لکھنا میرے لیے بہت مشکل ہے۔‘‘
خالد صاحب نے ایک عملی حل پیش کیا :
’’ آپ دوسرے لوگوں سے بھی لکھوائیں ۔‘‘
خالد صاحب رسالے کی پروف ریڈنگ توکرتے ہی تھے ، اب انھوں نے مو لانا کی اجازت سے ایک ترجمہ بھی کیا ۔ اس طرح ’’میثاق‘‘ میں پہلی دفعہ کسی اور شخصیت کاکام شائع ہوا۔اس کے علاوہ خالد صاحب کے کتابوں پر تبصرے بھی شائع ہوئے ۔
خالد صاحب کا کا م دیکھ کر امین احسن کو احساس ہوا :
’’اگر جدید پڑھے لکھے لوگوں پر کام کیا جائے تو اس کے اچھے نتا ئج نکل سکتے ہیں ۔‘‘
چنانچہ انھوں نے خالد صاحب سے کہا:
’’اگر آپ کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہوں تو میری خواہش ہے کہ آپ کو باقاعدہ پڑھاؤں ۔‘‘
خالد صاحب کے دل کی مراد پوری ہوئی۔ انھوں نے کچھ احباب کو جمع کیا ۔ جلد ہی طالب علموں کا ایک گروپ بن گیا ۔۱۹۶۲ء میں یہ گروپ ’’حلقۂ تدبر قرآن‘‘ کے نام سے منظم ہوگیا۔عصر سے عشا تک روزانہ پڑھائی شروع ہوئی ۔مدرستہ الاصلاح کا نصاب اختیار کیا گیا۔ بھارت سے اس مدرسہ کی ایک کتاب ’’اسبا ق النحو‘‘ نمونے کے طور پر آئی ہوئی تھی۔ تدریس کی ابتدا اسی سے ہوئی۔ کتا ب ایک تھی ۔ فوٹو کاپی کی سہولت ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ جیسے تیسے سب ایک کتاب سے استفادہ کرتے تھے ۔بعض احباب نے ہاتھ سے لکھ کر اس کتاب کی نقل تیار کی۔اس کے بعد کہانیوں کی ایک کتاب پڑھائی گئی ۔ پھر ’’کلیلہ و دمنہ‘‘ کی پڑھائی ہوئی۔ تدریس میں حکیمانہ تدریج اختیار کی گئی۔ کہانیوں کے بعد سنجیدہ ادب کی طرف رخ کیا گیا ۔اس کے بعد ’’مقدمہ ابن خلدون‘‘، ’’حماسہ‘‘ اور عربی ادب پڑھایا گیا ۔اس تنوع کا مقصد یہ تھا کہ ہر طر ح کی چیزیں پڑھ لی جائیں ۔ یہ تدریس مغرب تک ہوتی۔ مغرب کے بعد قرآن اورحدیث (صحیح مسلم)کا درس دیا جاتا۔ قرآن اور مسلم کو مکمل طور پر پڑھایاگیا ۔
اس کے بعد خیال ہوا کہ فقہ نہیں پڑھی گئی ، اس کا بھی کچھ آئیڈیا ہونا چاہیے ۔ لہٰذا پھر ’’بدا یۃ المجتہد‘‘ پڑھی گئی۔یہ تدریس جاری تھی کہ امین احسن کے بڑے بیٹے ابوصالح اصلاحی ہوائی جہاز کے ایک حادثے میں انتقال کرگئے ۔امین احسن کے اوپراس حادثے کا غیر معمولی اثر ہوا۔ گھر کی مالی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی ان کے کندھوں پر آ گیا ۔ اس کے علاوہ وہ ایک ذہنی بیماری میں مبتلا ہوگئے ۔حلقہ معطل ہوگیا ۔
’’میثاق‘‘ ڈاکٹر اسرار احمدکے حوالے کردیا گیا۔۱۶؎
مولانا کے لیے یہ بہت مشکل زمانہ تھا ۔بھولنے کا عارضہ اس قدر شدید صورت اختیار کر چکا تھا کہ یہ بھی بھول جاتے تھے کہ یہ جو صاحب ملنے آئیں ہیں ، یہ کون ہیں ۔اندیشہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں ان کی ساری یاد داشت ہی نہ ختم ہو جائے، اور مولانا نے اتنی محنت کر کے جو علم حاصل کیا ہے، وہ اس سے محروم ہی نہ ہو جائیں ۔ڈاکٹر اسرار کہا کرتے تھے کہ اب مولانا کچھ نہیں کر سکتے، اب وہ سب کچھ بھول جائیں گے۔ اور بعض لوگ خط لکھا کرتے تھے کہ اللہ کرے کہ ہماری عمر آپ کو لگ جائے تاکہ آپ اپنا کام کر سکیں ۔’’تدبر قرآن‘‘ سورۂ توبہ تک مکمل ہوچکی تھی۔مولانا کہتے تھے کہ اگر میں مزیدکام نہ بھی کر پایا تو اتنا کا م ہو چکا ہے جو نظم قرآن کو سامنے لے آئے ۔
۱۹۶۸ء میں اس حادثے کا اثر کم ہوا تو تدریس کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔مولانا نے لاہو ر میں ایک کوٹھی کرایے پر لی ہوئی تھی ،دوسرے اخراجات بھی بہت زیادہ تھے ۔شہری زندگی کے رکھ رکھاو ٔ پر بھی بہت زیادہ خرچ کرنا پڑتا تھا۔ مولانا نے کہاکہ لاہور میں گزارہ نہیں ہوتا، لہٰذا مولانا اپنے گاؤں رحمٰن آباد میں چلے گئے ۔وہاں جاکر انھوں نے اپناعلمی کام جاری رکھا۔گاؤں میں وہ آٹھ برس رہے۔
خالد صاحب نے عربی زبان پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ایک مشکل اور دل چسپ طریقہ اختیار کیا ۔انھوں نے کچھ لوگوں کو اپنے گھر جمع کیااور انھیں عربی زبان پڑھانی شروع کردی۔ پڑھاتے ہوئے خالد صاحب کو ایک دل چسپ صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان کے شاگردوں میں ایک پروفیسر صاحب بھی شامل تھے۔ جب تک وہ خود اچھی طرح واضح نہ ہوجاتے، ان کے سوالات جاری رہتے۔مجبوراً خالد صاحب کو بہت زیادہ تیاری کرنی پڑتی تھی۔ صورت حا ل کی اسی سختی نے ان کی عربی زبان کی تفہیم مزید بہتر کردی، حتیٰ کہ ’’اسباق النحو‘‘ اپنے طریقے پر مرتب کردی۔
خالد مسعود صاحب نے راقم کو بتایا کہ ۱۹۶۸ء یا ۱۹۶۹ء میں غامدی صاحب سے میرا تعارف ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنے گھر میں کرایا۔غامدی صاحب وہاں آئے تھے ۔ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ جاوید صاحب گڑھی شاہو میں درس دیتے ہیں ۔ نوجوان آدمی ہیں ۔ انھوں نے ایک بہت اچھا حلقہ بنا لیا ہے۔
خالد مسعود صاحب نے امین احسن کے ترجمۂ قرآن کو ضروری اور مختصر تشریحات کے ساتھ الگ سے مرتب کیا۔ سیرت النبی کی قرآن مجید کو بنیاد بنا کر منفرد کتاب ’’حیات رسول ِ امی‘‘کے مصنف ہیں ۔ عربی گرائمر پر کتاب ’’اسباق النحو‘‘ مرتب کی ۔امین احسن کے ساتھ مل کر یہ کتابیں مرتب کیں : مفردات القرآن،اسالیب القرآن،جمہرۃالبلاغہ،الامعان فی اقسام القرآن، الرأی الصحیح فی من ہوالذبیح، اور نظام القرآن۔
سہ ماہی ’’تدبر‘‘ لاہور کے مدیرتھے۔اس کے علاوہ بچوں کے لیے سائنسی موضوعات پر کتابیں بھی لکھیں ۔
یکم اکتوبر ۲۰۰۳ء کو ہیپاٹائٹس سی کے باعث جناع ہسپتال لاہور میں وفات پائی۔جناب جاوید احمد غامدی نے سمن آباد ،ڈونگی گراؤنڈ میں ان کی نماز جنازہ ادا کی۔ جہلم کے گاؤں لِلہ میں آباو اجداد کے ساتھ تدفین ہوئی۔
جاوید احمد صاحب غامدی کا آبائی وطن اگرچہ ضلع سیالکوٹ کا ایک قصبہ دائود ہے، لیکن پیدایش پنجاب کے ضلع ساہیوال،پاک پتن کے قریب گاؤں شاہ جیون شاہ میں ہوئی۔ان کے والدِ محترم محمدطفیل جنیدی کا تعلق داؤد کے ساتھ تھا جو لاہور سے ۸۰ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ان کے والد قادری جنیدی صوفی سلسلے کے ساتھ تعلق رکھتے تھے۔غامدی صاحب چھٹی یا ساتویں جماعت کے طالب علم تھے کہ مدرسہ کی تعلیم کے ساتھ درس نظامی کی کتابیں بھی پڑھ لی تھیں ۔ میٹر ک تک تعلیم اسلامیہ ہائی اسکول ،پاک پتن سے اورنانگپال کے مولوی نو ر احمد صاحب سے عربی ،فارسی اور قرآن کی تعلیم حاصل کی ۔
غامدی صاحب کے دادا نور الٰہی صاحب کو گائوں میں ایک مصلح کی حیثیت حاصل تھی۔اُن کی نیکی، خدا ترسی اور دانائی کی وجہ سے لوگ اپنے جھگڑے چکانے کے لیے اُن کی طرف رجوع کرتے اور اُن کا ہر فیصلہ مان لیتے تھے۔ غامدی صاحب بزرگوں سے دادا کی باتیں سنتے تو بے حد متاثر ہوتے۔ایک مرتبہ عرب جاہلی کی تاریخ کا قصہ سنا کہ بنو غامد کے ابوالآبا نے صدیوں پہلے کسی معاملے پر پردہ ڈالا اور اِس طرح اصلاح احوال کی کوشش کی تھی۔ چنانچہ اِسی بنا پر اُنھیں ’’غامد‘‘ کا لقب دیا گیا اور ’غمد الأمر‘ کے الفاظ اِس کے بعد عربی زبان میں ’أصلح الأمر‘ کے معنی میں استعمال ہونے لگے۔ یہ قبیلہ جزیرہ نماے عرب میں اِسی نسبت سے غامدی کہلاتا ہے۔ خیال ہوا کہ یہی کام تو میرے دادا کرتے تھے۔ اِس کے لیے یہ نئی تعبیر علم میں آئی تو بے حد مسرت ہوئی۔والد سے ذکر ہوا تو اُنھوں نے بھی پسند کیا۔ چنانچہ اُسی دن فیصلہ کر لیا کہ یہ لفظ ’’غامدی‘‘ اب میرے نام کا حصہ بن جائے گا۔ ساہیوال کے دیہاتی ماحول میں اِس طرح کا نام مذاق بن جاتا، اِس لیے اِسے بہت بعد میں لکھنا شروع کیا۔
گورنمنٹ کالج لاہور سے ۱۹۷۲ ء میں بی اے کیا۔ابتدا میں ادب اور فلسفہ میں دل چسپی تھی۔ پھر جماعت اسلامی میں شامل ہوئے۔مولانا مودودی کے ساتھ قریبی تعلق قائم ہوا، مگر جب امام امین احسن اصلاحی کے ساتھ تعارف ہوا تو اصلاً دل چسپی قرآن مجید اورفراہی مکتب فکر کے ساتھ ہوگئی۔ یوں مذہب کی سیاسی تعبیر کے ساتھ تعلق قصہ ماضی بن گیا۔ ۱۹۸۰ء سے ۱۹۹۱ء تک سول سروسز اکیڈمی میں تدریس کی۔ ۲۸ ؍ جنوری ۲۰۰۶ء سے اسلامی نظریاتی کونسل کے دو سال کے لیے رکن بنے، مگر ستمبر ۲۰۰۶ء میں کونسل سے اس لیے استعفیٰ دے دیاکہ حکومت نے مذہبی جماعتوں کے سیاسی اتحاد،ایم ایم اے کے دباؤ میں آکر علما کی ایک ایسی کمیٹی قائم کر دی جس کا کام کونسل کے مجوزہ حقوق نسواں بل پر نظر ثانی کرنا تھا۔غامدی صاحب نے اسے کونسل کے دائرہ ٔ اختیار میں مداخلت قرار دیا اورکونسل کے مجوزہ حقوق نسواں بل میں علما کمیٹی کی ترمیمات کو اسلامی قانون کے منافی قرار دیا۔
غامدی صاحب کی کتب میں ’’البیان ‘‘ تفسیر قرآن ہے، ’’میزان‘‘ اسلام کی شرح ووضاحت پر مبنی ہے، ’’الاسلام‘‘ ،’’میزان‘‘ کی عام فہم تلخیص ہے، ’’برہان‘‘ معاصر مذہبی فکر پر تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے اور’’مقامات‘‘ ان کے سفر حیات کے واقعات اور احساسات کا بیان۔ ان کے علاوہ ’’خیال وخامہ‘‘ ان کی شاعری کا مجموعہ ہے۔
اردو ماہنامہ ’’اشراق‘ اور انگریزی ماہنامہ’’رینی ساں ‘‘ کے مدیر اعلیٰ ہیں ۔ادارۂ علم و تحقیق، المورد کے بانی صدر ہیں ۔
محمود احمد لودھی۔ عبداللہ غلام احمد ، ماجد خاور ، سعید احمد، سلیم کیانی، صاحب زادہ ابرار احمدبگوی شامل تھے ۔ماجد خاور صاحب تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ اورامین احسن کی دیگر کتب کے پبلشربھی ہیں ۔
داؤد احمد صاحب نے امین احسن کے دروس اور گفتگوؤں کی ریکارڈنگ کے معاملات سنبھال رکھے تھے۔
مولانامرحوم کے تلامذہ میں مولانا ابو اللیث اصلاحی ندوی، مولانا عزیز الرحمن اصلاحی، مولانا عبد الرحمن پرواز اصلاحی، مولانا داؤد اکبر اصلاحی ، مولانا اظہار الدین اصلاحی، مولانا بدر الدین اصلاحی، مولانا صدر الدین اصلاحی، حکیم فیاض احمد اصلاحی، مولانا عبد الرحمن ناصر اصلاحی اور ڈاکٹر عبد اللطیف اعظمی قابل ذکر ہیں (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۲۲)۔
۱۶؎ مولانا کی ڈاکٹر صاحب کے سا تھ ذہنی مناسبت نہیں تھی۔وہ اس میں اپنی طرز کے مضامین شائع کرتے تھے۔مولانا اس پر برہم ہوتے کہ یہ انھوں نے کیا شائع کردیا ہے۔اس طر ح ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اختلافات سامنے آنے لگے۔