باب ۱۵
امین احسن ظاہری اور باطنی لحاظ سے بڑی پر کشش شخصیت رکھتے تھے۔مثبت شخصی اوصاف اور مزاج رکھنے والے انسان کی ایک نشانی یہ ہوتی ہے کہ لوگ اس کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں ، اس کی صحبت کو غنیمت سمجھتے ہیں ، اس کی غیر موجودگی میں اسے شدت کے ساتھ یاد کر تے ہیں اور اس کی صحبت حاصل کرنے کے لیے بے چین رہتے ہیں ۔میں نے خود ان کی صحبت میں کچھ وقت گزارنے والے حضرات سے یہ سنا کہ ان کی صحبت میں بیٹھنے سے جو علم حاصل ہوتا ہے، وہ تو ہوتا ہی ہے، مگر طبیعت بھی تازہ ہوجاتی ہے۔ان کی نشست میں بیٹھنے سے قبل سر میں اگر کسی قسم کی گرانی ہو تو نشست کے خاتمے تک وہ ختم ہوچکی ہوتی ہے۔
ذیل میں امین احسن کی شخصیت کے اوصاف اور مزاج کا ذکر کیاجاتاہے:
۱۹۲۵ء میں مولانا حمید الدین فراہی کی شاگردی میں آنے کے بعدآخر عمر تک امین احسن کا یہ معمول رہا کہ صبح ۳ بجے بیدار ہوتے ،نماز تہجد ادا کرتے اور پھرقرآن مجید کا مطالعہ کرتے تھے۔وہ قرآن کی ایک ایک آیت اور ایک ایک لفظ پر غور کرتے تھے۔اور پھر دیگر امور انجام دینے کے بعد رات ۹ اور ۱۰ بجے کے درمیان سوجاتے تھے۔
۴ /نومبر ۱۹۸۹ء کو اپنی ہفتہ وار نشست میں گفتگو کرتے ہوئے امین احسن نے بڑھاپے میں اپنے معمولات کی تفصیل کچھ یوں بیان کی :
’’ اس بڑھاپے میں میرا حال یہ ہے کہ میرے چوبیس گھنٹے مصروف رہتے ہیں ۔میرا کوئی وقت ضائع نہیں جاتا۔ چند گھنٹے سوتا ہوں ۔ اس کے بعد اٹھتا ہوں ۔ اوراپنے کام کرتا ہوں ۔ کام کرنے کے بعد تھک جاتا ہوں ۔ اب وہ قوت کار تو باقی نہیں رہی۔ پھر اس کے بعد کچھ دیر تک آرام کرتا ہوں ۔ اس کے بعد پھر کام میں لگ جاتا ہوں ۔ پھر کچھ دیر آرام کرتا ہوں پھر کام میں لگ جاتا ہوں ۔
میرے چوبیس گھنٹے مصروف ہیں ۔ کم از کم روز دو اخبار پڑھنا ضروری ہے میرے لیے۔ ایک اردو کا ایک انگریزی کا۔ اس لیے پڑھتا ہوں تاکہ میں اپنے ملک کے حالات سے با خبر رہوں ۔ یہ واقف رہنا ضروری ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ میں تھک کے چور ہو جاتا ہوں ۔ میں نے اوقات مصروف رکھے اپنے۔ قرآن مجید اور حدیث پر غور کرنے کے لیے کئی کئی گھنٹے صرف کرتاہوں ۔ اور یہ سمجھتا ہوں کہ دین کے کیا کیا مسائل ہیں شریعت کے کہ جن مسائل کے بارے میں لوگوں کے ذہن الجھے ہوئے ہیں ۔‘‘
امین احسن خوش شکل،خوش ہیئت اور خوش لباس تھے۔چہرے کی رنگت سرخ وسفید تھی۔ بسااوقات بیمار ہوجاتے تو چہرہ دیکھ کر لو گ یقین نہ کرتے تو امین احسن مسکراتے ہوئے کہتے: بھئی، میں واقعی بیمار ہوں ۔
ڈاکٹر زاہد منیر عامر اسی پہلو سے لکھتے ہیں :
’’یہ ۱۷ ؍مئی ۱۹۹۰ء کی ایک کم گرم شام تھی۔ مولانا کی رہایش گاہ کا نظر افروز لان اور ڈیفنس کی کشادہ فضا موسم کو خوشگوار بنائے ہوئے تھی ۔ مولانا اس وقت عمر کی ۸۶ ویں حد عبو ر کر چکے تھے لیکن ان کا چہرہ تروتازہ تھا، یادداشت محفوظ ، ذہن براق۔ ثقل سماعت کے سوا، یوں لگتا تھا پیری ان سے کچھ نہیں چھین سکی ہے ۔ ‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۶۵-۶۶)
جناب جاوید احمدغامدی نے ایک دفعہ امین احسن کے لباس پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مولانا مودودی نے ساری زندگی چوڑی دار پاجامہ یا کھلا پاجامہ پہنا اور اپنی وضع داری قائم رکھی، جب کہ امین احسن نے جلد ہی اسے ترک کردیا تھا اوریہاں کی شلوار قمیض اختیار کرلی تھی۔ان کا لباس ہمیشہ صاف ستھرااور استری شدہ ہوتاتھا ۔ٹوپی بھی بہت نفیس ہوتی تھی۔
ایک مرتبہ اپنی ہفتہ وار نشست میں گفتگو کرتے ہوئے امین احسن نے اپنے لباس کے بارے میں بڑے لطیف انداز میں بتایا:
’’اگرچہ یہ کچھ پہلے سے ہی ہے۔ کھجلی سی ہوتی ہے۔ جلد پر خشکی بہت بڑھ جاتی ہے۔ کھرنڈ سی پڑ جاتی ہے اس پر۔ میں جب ہاتھ اس پر پھیرتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ ببول کے درخت کا کوئی تنا ہے۔ اس کے لیے میں صرف ایک کام کرتا ہوں کہ ہفتے میں دو دن نہاتا ہوں ۔ اس سے پہلے تیل کی مالش کر لیتا ہوں ۔ اس سے کچھ آرام آجاتا ہے۔ انڈا اس کے لیے مضر ہو سکتا ہے۔ وہ میں ایک سے زیادہ کبھی کھاتا نہیں ۔ ایک سے زیادہ تومیں جرم سمجھتا ہوں کھانا۔ چائے پیتا ہوں وہ بھی کم۔ ۔ ایک پیالی، آدھی پیالی۔ نہانے کے بعد تیل لگاسکتا ہوں ۔ ویسے یہ ہے اہتمام ذرا مشکل۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پھر یہ کپڑے اتار کے دوسرے پہننا پڑتے ہیں ورنہ تیل چپڑنے کے بعدمشکل ہوجاتی ہے۔آج کل بھی تھوڑا ساجو تیل لگا لیتا ہوں تو اس کی وجہ سے رات کو کپڑے بدلنے پڑتے ہیں اور یہ ایک مسئلہ بن جاتا ہے میرے لیے۔ میری زندگی تو ہمیشہ سے طالب علمانہ رہی ہے۔ جو کپڑا پہنا اسی میں سوتا رہا ہوں ، اسی میں ملاقات کرتا رہا، اسی میں لیڈری بھی کر لیتا رہا ہوں ۔‘‘
امین احسن اپنے استاذ مولانا فراہی کایہ قول سنایا کرتے تھے کہ قرآ ن کو ہمیشہ اپنی ہدایت کے لیے پڑھو۔امین احسن کی زندگی اس بات کابہترین نمونہ تھی۔قرآن مجید میں ہے کہ مصائب و آلام میں :’اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ‘ ۹؎ ( صبر اور نماز سے مدد چاہو) ۔ا مین احسن کے سب سے بڑے اور جوان بیٹے ابو صالح کی اچانک موت کوئی معمولی حادثہ نہ تھا،انھیں جب یہ دردناک خبر ملی تو اپناسر سجدے میں رکھ دیا ۔اپنے رب سے صبر و استقامت کی دعا کی۔لوگ تعزیت کے لیے جمع ہونے لگے ۔ بڑی کرب نا ک صورت حال تھی ۔ان پر غم کا پہاڑ ٹوٹا تھا۔جب یہ بوجھ نا قابل برداشت ہونے لگتا تووہ مجلس سے اٹھ جاتے اور نماز پڑھنے لگتے ۔یوں اس نا گہانی مصیبت کا مقابلہ کرنے کے لیے قرآن کی ہدایت کے مطابق نماز سے خدا کی مدد حاصل کرتے۔ان کی زندگی کا معمول تھا کہ جب کوئی معاملہ پیش آتا تو اس کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے فی الفور قرآن کی طرف متوجہ ہوجاتے اور دیکھتے کہ اس صورت حال کے لیے اس کی تعلیم کیا ہے ۔جب وہ اس بات کا تعین کر لیتے تو اس پر پوری طرح عمل کرتے ، خواہ اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی ہی کیو ں نہ د ینا پڑتی۔
اس سلسلے میں غامدی صاحب لکھتے ہیں :
’’امین احسن کی اقلیم فکر کیا ہے؟ جن لوگوں نے بھی اس کی سیر کے لیے کچھ فرصت پائی ہے، وہ جانتے ہیں کہ مذہبیات کی دنیا میں یہ ایک بالکل نئی اقلیم ہے۔ اس میں ساری حکومت، سارا اقتدار قرآن کے ہاتھ میں ہے۔ اس کی زبان سے جو لفظ بھی نکلتا ہے، قانون بن جاتا ہے۔ ہر جگہ اس نے ایک میزان نصب کر رکھی ہے۔ بو حنیفہ و شافعی، بخاری و مسلم، اشعری و ماتریدی اور جنید و شبلی، سب اپنی اپنی چیزیں لاتے اور اس میزان میں تولتے ہیں ۔ پھر جس کی کوئی چیز ذرا بھی وزن میں کم ہو، اس اقلیم میں وہ اسے کہیں بیچ نہیں سکتا۔ علم و دانش، فلسفہ و حکمت، سب قرآن کے حضور میں دست بستہ کھڑے رہتے ہیں ۔ اس کا ہر لفظ ایک شہرعجائب ہے اور یہ عجائب کبھی ختم نہیں ہوتے۔ وہ پہلے محکم بولتا اور پھر اس کی تفصیل کر دیتا ہے۔ اس کی باتوں کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش آ جائے تو خود اسی کی دوسری باتیں وضاحت کر دیتی ہیں ۔ اس کا ایک ایوانِ خاص ہے جس کے بام و در پر ہر جگہ جلی حرفوں میں لکھا ہوا ہے کہ جو ہماری باتوں میں نظم و ترتیب کو نہیں مانتا، وہ ہمارے اس ایوان میں داخل نہیں ہو سکتا۔ امین احسن کی ساری زندگی اسی اقلیم میں بسر ہوئی ہے:
اس کا اندازِ نظر اپنے زمانے سے جدا
اس کے احوال سے محرم نہیں پیران طریق
(ماہنامہ اشراق ،جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ۲۴)
دور حاضر میں سائنس کی غیر معمولی ترقی نے بڑے بڑے علماے دین کو بھی مرعوب اور مسحور کردیا ہے ۔ وہ سائنس کے ذریعے سے مذہبی حقائق کو ثابت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، بلکہ بعض تو اس قدر شدید احساس کم تر ی میں مبتلا ہوئے کہ مذہب کو سائنسی نظریات کے مطابق ڈھالنے کے کوشش بھی کر ڈالی، مگر امین احسن اس معاملے میں بھی سب سے مختلف دکھائی دیتے ہیں ۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں :
’’ امین احسن نے یہ تفسیرقرآن پر ایمان کی جس کیفیت میں لکھی ہے ، اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ مجھے یاد ہے ، وہ سورۂ رحمن کی تفسیر لکھ رہے تھے۔ ’یَخْرُجُ مِنْھُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ‘ کے تحت جب یہ مسئلہ سامنے آیا کہ عام خیال کے مطابق موتی صرف کھاری پانی سے نکلتے ہیں ، لیکن قرآن بالکل صریح ہے کہ یہ دونوں ہی پانیوں سے نکلتے ہیں ، تو انھوں نے مجھے تحقیق کے لیے کہا ۔ میں نے دیکھا ، ان کے چہرے پر تردد کی کوئی پرچھائیں نہ تھی ، بلکہ ایک عجیب اطمینان تھا اور ایمان کی ایک عجیب روشنی تھی ۔ اس موقع پر انھوں نے جو کچھ کہا میں اسے بعینہٖ تو شاید دہرا نہ سکوں ، لیکن مدعا یہی تھا کہ خدا کی قسم ، اگر موتی خود آ کر بھی مجھے کہیں کہ وہ صرف کھاری پانی ہی سے نکلتے ہیں تو میں ان سے کہہ دوں گا : تمھیں اپنی تخلیق میں شبہ ہوا ہے۔ قرآن کا بیان کبھی غلط نہیں ہو سکتا ۔ ‘‘(ماہنامہ اشراق، جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ۱۴)
ڈاکٹرزاہد منیر عامرنے امین احسن کا انٹرویو کیا ۔ذیل میں چندسوال و جواب پیش کیے جاتے ہیں ۔ ان سے اندازہ کیاجا سکتاہے کہ امین احسن کا قرآن کے ساتھ کیا تعلق تھا۔
’’آپ کے افسانۂ حیات کا مرکزی خیال کیا ہے ؟
میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے متعلق میری کیا رائے ہے ۔ میرا افسانۂ حیات کوئی نہیں ۔ میں صرف سیدھا سادا مسلمان آدمی ہوں اور میرا نقطۂ نظر خالص قرآن رہا ہے ۔ قرآن کو سمجھنا، سمجھانا ۔ اور یہ بات بھی ہے کہ اس کے لیے طریقہ بھی مولانا فراہی کا جوہندوستان کے ایک بڑے فاضل پروفیسر گزرے ہیں ۔ (مولانا نے پروفیسر کا لفظ غالباً میرے شعبے کی رعایت سے استعمال کیا) ۔ ان کے طریقے پر قرآن کریم پر غور کرنا میرا کام رہا ہے ، میں نے زندگی بھر یہی کام کیا ہے اور انھی اصولوں کے مطابق تفسیر تدبر قرآن لکھی ہے ، میں نے اس میں یہ ثابت کیا ہے کہ مولانا کا جو طریقۂ فکر ہے وہی نیچرل ہے۔
میرے اس سوال پر کہ آپ کو زندگی کیسی لگی ، مولانا نے فرمایا :
میری اپنی زندگی کچھ نہیں ہے ۔ میری اپنی زندگی تابع ہے قرآن کے ، یعنی میری زندگی میں بامقصد نصب العین جو کچھ ہے وہ صرف یہ ہے کہ قرآن کے مطابق عقلی ، اخلاقی، سیاسی ، اجتماعی (پہلوؤں سے) زندگی گزاری جائے ، میں ہر چیز اجتماعی ، سیاسی ، اخلاقی، عقلی میں یہ کوشش کرتا ہوں کہ اس کی پیروی کروں ۔
آپ نے اپنی جوانی اور بڑھاپے کی زندگی میں کیا فرق محسوس کیا ؟
میری جوانی کی زندگی کہہ لیجیے اور اب بڑھاپے کی زندگی ایک ہی طرح کی ہیں ، میرا فکر ہے قرآن، قرآن کے فکر کے مطابق میری اجتماعی اخلاقی اصلاحی سیاسی زندگی ہے ۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ زمانے نے آپ کو سمجھ لیا؟
میرا اپنا زندگی میں کوئی خاص اسلوب ، کوئی خاص فلسفہ نہیں ، اگر میری زندگی کا کوئی فلسفہ ہے تو وہ قرآن ہے ۔ اگر کوئی قرآن کو سمجھتا ہے تو اس کے لیے آسان ہے کہ وہ میری زندگی کو بھی سمجھ سکتا ہے ، اور اب (اس سلسلہ میں زیادہ) بتانے کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔ بتانے کی کتاب تو میں نے لکھ دی ہے… تدبر قرآن… اس کا مقصد یہی ہے کہ لوگ قرآن کو سمجھ جائیں اور ممکن ہے (اس طرح) مجھے بھی سمجھ جائیں ۔
مولانا، آپ زمانے سے جو کچھ کہنا چاہتے تھے ، آپ کا کیا خیال ہے ، آپ نے وہ سب کچھ کہا ، آپ کا پیغام زمانے تک پہنچ گیا؟
میرا خیال یہ ہے کہ اس معاملے میں نقطۂ نظر مختلف ہو سکتے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک شخص کے خیالات کے حدود کو صحیح طریقے پر ہر شخص متعین نہیں کر سکتا ۔یہ واقعی ہے کہ قرآن سے میرا جو تعلق ہے اس کا عملی اطلاق میری اپنی زندگی پر ہوتا تھا ، (میرے لیے ضروری تھا کہ) میں اپنی زندگی کو اسی سانچے میں ڈھالوں اور باقی رہ گیا دوسروں کے لیے کوشش کرنا تو یہ (بھی) میرا کام ہے ۔ لیکن میں اس کے متعلق تو فیصلہ نہیں کر سکتا کہ ( اس میں مجھے) کتنی کامیابی رہی۔
مولانا کیا آپ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں ؟
میں ذاتی طور پر بالکل مطمئن ہوں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں جو نقطۂ نظر رکھتا ہوں یہی ہے کہ لوگوں تک اپنے خیالات و افکار کو پہنچا دینا میرا کام ہے ۔ (لوگوں کے) افکار کو تبدیل کرنا میرا کام نہیں ہے ۔
مجھے معلوم ہے کہ جہاں تک میری زندگی کا تعلق ہے میں ایک دفعہ بھی ا س (قرآن) سے الگ نہیں رہ سکا۔ اور میں نے (زندگی بھر)یہی کیا ہے کہ قرآن ہر شخص کو پہنچاؤں ۔ قرآن کیا چاہتا ہے ۔ اس کا نصب العین کیا ہے ، اجتماعی (اور) سیاسی زندگی میں (اس کی) کیوں ضرورت ہے تو (یہ سب) بتایاہے (یہ باتیں ) میں سب کو بتاتا ہوں ، شاگردوں کو بھی اور جو میرے افکار کو پڑھتے ہیں ان کو بھی (اسی مقصد کے لیے میں نے) درجنوں کتابیں لکھی ہیں ۔
اس لیے میر اکام تو بالکل ٹھیک ہو رہا ہے ۔ مجھے کوئی افسوس نہیں ہے ۔ میرا کام صرف بتانے کی کوشش کرنا ہے ۔ آپ کو پڑھا دینا میرا کام نہیں ہے ۔ بتا دینا میرا کام ہے ۔ یہی کر سکتا ہوں ۔
لوگ زندگی کے متعلق (دنیوی حوالوں سے) بہت بڑا نصب العین قائم کر لیتے ہیں ، تو پریشانیوں میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ میں اپنی زندگی کا (یہ) نصب العین رکھتا ہوں کہ پہنچا دو کہ صحیح بات کیا ہے ؟ اس سے میں نے قرآن کو سمجھا اور سمجھانے کی کوشش کی ، زندگی بھر پڑھاتا رہا ہوں ، تفسیر لکھی ہے اور اس کو ثابت کرنے کے لیے نجانے کتنی کتابیں لکھ ڈالی ہیں ۔ شاید آپ نے دیکھا ہو یہ کتابیں انھی موضوعات پر ہیں ۔ اور یہ بات بھی ہے کہ کتابیں پھیل رہی ہیں ۔ تفسیر بھی پھیل رہی ہے ۔
کوئی ایسی بات ، کوئی ایسا کام جسے انجام دینا آپ کی خواہش رہی ہو ،لیکن وہ انجام پذیر نہ ہو سکتا ہو؟
مجھے یہ افسوس نہیں ہے کہ کوئی ایسا پہلو جس میں مزید کام کرنا چاہیے تھا (رہ گیا)۔ میں نے ، اللہ کا شکر ہے کہ اپنے استاد کی رہنمائی میں پہلے زندگی کا نصب العین جانا اور پھر اس پر زندگی بھر قائم رہا۔ اور یہ بات بھی ہے کہ وہ ایسا نصب العین تھا جس نصب العین میں ریا کا کوئی سوال نہیں تھا۔ میں (الحمدللہ)اپنے دائرے میں بالکل صحیح اور موثر ہوں ۔‘‘ (سہ ماہی تدبر ،اپریل ۱۹۹۸ء، ۶۸-۷۰)
امین احسن ابتدا میں فلسفہ کی طرف بڑی رغبت رکھتے تھے ،مگر قرآن مجیدنے ان کی رغبت بالکل بد ل کر رکھ دی ۔ عبد الرزاق صاحب اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں :
’’۲۸جنوری ۱۹۹۴: آج مولانا کافی دیر تک گفتگو کرتے رہے۔ روانی کے ساتھ گفتگو کی ۔ مختلف سوالوں کے جوابات بھی دیے ۔ مولانا نے فرمایا کہ انھیں نوجوانی میں فلسفہ سے خاص لگاؤ رہا ۔ وہ مختلف فلسفیوں کی کتابوں کو بڑے شوق سے پڑھتے تھے ۔ انھوں نے کہا کہ قرآن حکیم کا فہم ہونے کے بعد انھوں نے فلسفہ کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان فلسفیوں کے نام تک بھول گئے جن کی کتابیں وہ بڑے شوق سے پڑھا کرتے تھے ۔ ‘‘(سہ ماہی تدبر ،اپریل ۱۹۹۸ء، ۷۷)
ہمارے ہاں اکثر لوگ قرآن مجید کے بجاے کسی اور مذہبی کتاب کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔ امین احسن اس رویے پر بہت دکھی ہوتے تھے۔ ممتازمدرس قرآن قاضی محمد کفایت اللہ امین احسن کے ساتھ اپنی ایک ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’... میر ی نا دانی دیکھیے کہ میں نے …ا ما م اصلا حی سے یہ گزارش کر دی کہ میری آمد کا ایک اور اہم مقصد یہ بھی تھا لیکن اس کے اظہا ر کی مجھے جرأت نہیں ہو رہی تھی کہ میں آپ سے شاہ ولی اللہ علیہ الرحمۃ کی’’حجۃ اللہ البا لغہ‘‘ سبقاً سبقاََ پڑھنا چا ہتا ہوں ۔ میر ی اس گزارش کا پس منظر یہ تھا کہ میں ان دنوں علا مہ عبید اللہ سندھی کے زیر اثر اما م دہلو ی کی کتب ورسائل کے حصول اور ان کے بیا ن کر دہ حقائق و معارف کے اخذ و کسب کا دیوانگی کی حد تک ورافتہ ہو چکا تھا۔ بہر حا ل جیسے ہی اما م اصلاحی نے میر ی زبا ن سے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے سبقاً سبقاً پڑھا ئے جا نے کی استدعا سنی تو میں نے دیکھا کہ آپ کے چہر ے پر جلا ل کے آثار نمودار ہو گئے ۔آپ جلا لی انداز میں فرما نے لگے کہ اے نو جوان فا ضل ، اللہ تعالیٰ کے آخری کلا م کے آجا نے کے بعد ، آپ ابھی تک انسا نوں کی لکھی ہو ئی کتا بوں اور حجتوں کے سبقاً سبقاً پڑھے جا نے کا اپنے آپ کو محتا ج پاتے ہو ۔ کچھ تو اپنا اور اپنے رب کا مقا م پہچا نو ۔ اللہ تعالیٰ کی آخری حجت کو سبقاََ سبقاََ گہرائی میں اتر کر پڑھنے کے بجائے تم انسا نوں کی حجتوں کو پڑھنے پڑھا نے کے لیے دنیا بھر کی خا ک چھا ن رہے ہو ۔ خدا کے لیے اس دلدل سے نکلو، میرے پا س اللہ کی کتا ب کو پڑھا نے کے علا وہ کسی دوسری کتا ب کو سبقاً سبقاً پڑھا نے کے لیے ایک منٹ بھی فا رغ نہیں ہے ۔ اگر تم نے یہی کا م کر نا ہے تو اس خدمت کے لیے میرے سوا کسی دوسرے شخص کو تلا ش کر و۔ اس معا ملے میں تمھارا یہ انتخاب بہت ہی غلط ہے ۔ لیکن میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھیں جلد انسا نوں کی لکھی ہو ئی حقیر تصنیفا ت کے جنجا ل سے نجا ت دے کر اپنی کتا ب کی طر ف رغبت دے۔
اما م اصلاحی کے اس جلا لی رویے کو دیکھ کر میرے اندر دوبا رہ ان سے براہ ِراست ملا قا ت کرنے کا یا رانہ رہا ۔ البتہ دو چاردفعہ جنا ب ڈا کٹر اسرار احمد کے ہا ں آپ کے درس قرآن کی کچھ نشستوں میں حا ضری کا شرف تو حا صل ہوا لیکن آپ کا قرب حا صل کر نے کا میرے اندر حوصلہ نہ ہوا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس ملا قات نے مجھے خواب ِغفلت سے جگا دیا۔‘‘(ماہنامہ اشراق ،جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ۵۳)
امین احسن سراپا خلوص ومحبت تھے۔وہ صرف اپنوں کے ساتھ ہی نہیں ، بلکہ غیروں کے ساتھ بھی بڑی محبت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ ضیاء الدین اصلاحی لکھتے ہیں :
’’مجھے ان سے ملاقات کاشرف صرف ایک بار اس وقت حاصل ہوا جب وہ اپنے والد کی علالت کی خبر سن کر ۱۹۵۲ء میں ہندوستان اپنے آبائی وطن تشریف لائے تھے ۔ مگر ان کے پہنچنے سے پہلے ہی ان کے والد کا انتقال ہو چکا تھا۔ اس وقت دونوں ملکوں کے تعلقات بہت کشیدہ تھے ۔ پھر ان کا تعلق جس جماعت سے تھا اس کی وجہ سے انھیں گاؤں سے کہیں باہر جانے کی اجازت نہیں تھی ۔ میں ان سے وہیں ملنے گیا تو بڑے لطف و محبت سے پیش آئے ۔ میرے بڑے بھائی مولوی قمر الدین اصلاحی کے بارے میں دریافت کیا جن کا قلمی و ادبی نام قمر اعظمی ہے اور جن کو انھوں نے پڑھایا تھا۔ جب بھائی کے بارے میں انھیں معلوم ہوا کہ ان کا مشغلہ علمی نہیں ہے تو انھیں بڑا افسوس ہوا اور میرے ذریعہ سے انھیں یہ پیغام بھیجا کہ آخر ان کے علم ، ان کی ذہانت و صلاحیت سے ان کی قوم و ملت اور ملک کو کیا فائدہ پہنچا ۔
میری موجودگی میں مغرب کے بعد ان سے ملنے کے لیے مولانا قاضی اطہر مبارک پوری اپنے دو تین ساتھیوں کے ساتھ آئے اور عشا ء سے پہلے واپس جانے لگے تو مولانا نے فرمایا کہ اس وقت رات میں کیوں جا رہے ہیں ؟ قاضی صاحب نے کہا : ہم لوگ قریب کے ہیں ـ ابھی پہنچ جائیں گے ۔ مولانا نے فرمایا کہ قریب کے لوگوں کو ہی روکا جاتا ہے ۔ قاضی صاحب نے ہنس کر کہا : نہیں اجازت دیجیے ، ہم لوگ بس نیاز حاصل کرنے آئے تھے ۔ مولانا نے فرمایا : اجی حضرت ، میں تو خود ہی نیاز مند ہوں ۔
میری ان سے یہی پہلی اور آخری ملاقات تھی ۔ البتہ ان سے کبھی کبھی خط و کتابت رہتی تھی ۔ ’’میثاق‘‘ کے لیے ان کی طلب پر میں نے چند مضامین لکھے ۔ وہ میرے عزیز بھی ہو گئے تھے ۔ ان کے ایک پوتے عزیزی ابو ریحان جو افسوس ہے کہ دادری کے ہوائی حادثہ میں ۱۲ نومبر ۱۹۹۶ء کو جان بحق ہو گئے ان سے میری لڑکی شاہین منسوب تھی ۔ میں نے اپنی طرف سے اس رشتہ اور مولانا بدر الدین اصلاحی مرحوم کے نکاح پڑھانے کی انھیں اطلاع دی تو اس پر خوشی ظاہر کرتے ہوئے لکھا کہ تمھارا خط بہت مختصر تھا۔ اب جب خط لکھو تو دارالمصنفین اور مدرستہ الاصلاح کا مفصل حال لکھو اور دونوں جگہ میرے جو ملنے اور جاننے والے لوگ موجود ہیں ان کا ذکر کرو ۔ اور ان سے میرا سلام کہو۔ چنانچہ تعمیل حکم میں جب میں نے بڑا مفصل خط لکھا تو بہت خوش ہوئے اور جواب میں تحریر فرمایا کہ دراصل میں اسی طرح کا خط چاہتا تھا۔ اسی گرامی نامہ میں یہ بھی تحریر فرمایا تھا ’’میرا جی چاہتا ہے کہ ایک بار پھر وہاں آئوں ۔ چاہے میرے جاننے والے ہوں یا نہ ہوں ۔ مدرستہ الاصلاح کے درو دیوار تو ہوں گے ۔ ان ہی سے لپٹ کر اچھی طرح رو لوں گا۔
اس سے پتا چلتا ہے کہ انھیں مدرستہ الاصلاح سے جو ان کے استاد کی یادگار ہے ، کتنا جذباتی تعلق تھا اور وہ اس کی ترقی و استحکام کے کس قدر آرزو مند رہتے تھے ۔ وہ پاکستان میں ضرور تھے لیکن ان کا دل یہاں اور یہاں کے لوگوں میں بھی اٹکا رہتا تھا۔ اور جب یہاں کے کسی شخص کو پاجاتے تو فرط تعلق سے لپٹ جاتے تھے او ر جو جو یاد آتا سب کاحال دریافت فرماتے ۔
راقم کے ایک استاد مولوی قمر الزمان صاحب اصلاحی مرحوم، جو مولانا امین احسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے عزیز تھے، جس سال حج بیت اللہ کے لیے تشریف لے گئے اسی سال مولانا اصلاحی بھی پاکستان سے حج کے لیے آئے ہوئے تھے ، وہ ان سے ملنے گئے تو ان کے پاس کئی ملکوں کے اہم اور معزز اشخاص بیٹھے ہوئے تھے ،لیکن ان کو دیکھتے ہی باغ باغ ہو گئے اور ان کی ساری توجہ کا مرکز یہی ہو گئے ۔
جناب سید صباح الدین عبد الرحمن مرحوم ایک دفعہ ان سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے تو ان کے اعزاز میں ایک بڑی لمبی اور شان دار دعوت کا اہتمام کیا ۔ سید صاحب فرماتے تھے کہ مجھے ایسی پرتکلف اور شان دار دعوت کھانے کا اتفاق بہت کم ہوا تھا۔ وہ مولانا اصلاحی کے گرم جوشی سے ملنے اور خلوص و محبت کا اکثر ذکر فرماتے اور کہتے کہ جو لوگ ان کے یہاں موجودگی کے وقت دارالمصنفین کے کسی شعبہ سے وابستہ تھے ،ان سب کا نام لے کر ایک ایک شخص کے بارے میں دریافت کرتے رہے ۔
دراصل دارالمصنفین سے بھی ان کو بڑا تعلق تھا۔ مولانا سید سلیمان ندوی اور مولانا عبدالسلام ندوی سے ملاقات کے لیے یہاں برابر آتے رہتے تھے اور خود سید صاحب بھی سرائے میر برابر تشریف لے جاتے تھے اور مولانا امین احسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی صلاحیتوں کے بڑے معترف تھے ۔
مولانا حکیم محمد مختار اصلاحی ان کے عزیز شاگرد ہیں ۔ ایک دفعہ ان کے بڑے صاحب زادے حکیم محمد فیاض پاکستان گئے اور ان سے ملے تو بڑی پذیرائی کی اور کہنے لگے مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو ۔ اگر کبھی بمبئی کے راستہ آیا تو تمھارے یہاں قیام کروں گا اور دہلی سے آنے پر عبد اللطیف اعظمی صاحب کے یہاں قیام کروں گا ۔ یہ بھی ان کے چہیتے شاگرد ہیں ۔
مولانا امین احسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کھانے پینے کے جتنے شوقین تھے اس سے زیادہ دوسروں کو کھلا کر انھیں خوشی ہوتی تھی ۔ ان کے یہاں اکثر دعوتیں ہوتی تھیں ۔ اعظم گڑھ میں حکیم محمد اسحاق صاحب اپنی حذاقتِ فن ، شرافت ِنفس اور جامع صفات ِحسنہ ہونے کی بنا پر ہر طبقہ میں بہت مقبول و محبوب تھے ۔ مدرسۃ الاصلاح اور اس کے ذمہ داروں سے بھی ان کے اچھے تعلقات تھے ۔ مولانا امین احسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان کے بڑے بے تکلف اور خاص دوست تھے ۔ حکیم صاحب کے نورتنوں میں مشہور شاعر جناب یحییٰ اعظمی اور دارالمصنفین کے رفقا اور وابستگان بھی تھے ۔ ان سب کو مولانا اصلاحی سال میں دو مرتبہ اپنے دولت خانے پر مدعو کرتے ۔ ایک تو جاڑے میں ، جب ہرے مٹر اور گنا تیار ہوتا۔ اور دوسرے آموں کے موسم میں ۔ حکیم صاحب کا سفر عموماً کشتی سے ہوتا تھا۔ مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی کو بھی ان دعوتوں میں شریک ہونے کا اتفاق ہوا تھا۔‘‘ (سہ ماہی تدبر ، اپریل ۱۹۹۸ء، ۱۲-۱۴)
امین احسن کے ایک شاگرد جناب محمود احمد لودھی اس ضمن میں لکھتے ہیں :
’’اپنے شاگردوں سے دل بستگی اور ان کے حال پر شفقت اس درجے کی تھی کہ ہر شاگرد بجاطور پر ان کا چہیتا ہونے کا دعویٰ کر سکتا تھا۔ ہمارے درس کے ایک ساتھی شیخ محمد صادق صاحب کو ایک شیخ وقت سے عقیدت ہو چلی تھی ۔ اصلاحی صاحب انھیں ٹوکا کرتے تھے ’’دیکھنا کہیں ان کی بیعت نہ کر بیٹھنا‘‘ شیخ صاحب بالآخر باز نہ رہ سکے اور بیعت کر ڈالی ۔ حلقہ کے درس میں ہمارے ایک ساتھی سلیم کیانی صاحب جماعت اسلامی کے رکن تھے ۔ مولانا کو ان کا پاس خاطر ملحوظ رہتا تھا۔ ان کی آزردگی اور دل آزاری کے مدنظر وہ درس کے دوران جماعت اسلامی پر مشکل ہی سے کوئی چوٹ کرتے تھے البتہ میں چھیڑ خانی کر دیتا اور جماعت اسلامی کے حق میں کوئی کلمۂ خیر شرارتاً کہہ دیا کرتا۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ مجھے مولانا کی ڈانٹ سننی پڑتی ۔ آج میں صرف اس بات پر فخر کر سکتا ہوں کہ میں نے تمام ساتھیوں سے زیادہ استاد کی ڈانٹ کھائی ہے ۔ ‘‘ (سہ ماہی تدبر ، اپریل ۱۹۹۸ء،۹۸)
اسحا ق نا گی صاحب،غامدی صاحب کے حلقے کے بڑے سرگرم رفیق تھے۔ وہ امین احسن کے درس میں با قا عدگی سے شریک ہو تے تھے۔ ایک دفعہ وہ ایک حا دثے کا شکا ر ہو گئے اور ایک درس میں نہ جا سکے تو امین احسن نے ان کے با رے میں دریافت کیا ۔ بتا یا گیا کہ ان کا ایکسیڈینٹ ہو گیا۔ تو پوچھا کہ بھئی، آپ لو گوں میں سے کو ئی ان کی عیا دت کے لیے گیا ہے ؟ ایک صاحب نے کہا: جی، میں گیا تھا۔ امین احسن نے کہا : میری طرف سے بھی پوچھیے گا… راقم نے نوٹ کیا کہ اسحاق صاحب جب انھیں ملنے جاتے اور ان سے مصافحہ کرتے تو وہ بہت دیر تک ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے رکھتے اور بڑی شفقت و محبت سے ا ن کی طرف دیکھتے رہتے ۔ ضعف کے باعث مولانا کہیں تھک نہ جائیں ، یہ سوچ کر اسحاق صاحب بڑی آہستگی سے خود اپنا ہاتھ کھینچ لیتے تھے۔ راقم ان کے حلقۂ ارادت میں نو وارد تھا، لیکن میرے مصا فحہ کر نے پر وہ مجھے بھی اسی شفقت سے نوازتے۔
اس دنیاے فانی میں وہ شخص بہت خوش نصیب ہے جو راضی بہ رضا کا مقام حاصل کر لیتا ہے۔ امین احسن بھی ایسے ہی خوش نصیب لوگوں میں شامل تھے۔ نیو سنٹرل جیل، ملتان سے۲۶ ؍اگست ۱۹۵۰ء کواپنی خوش دامن صاحبہ کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’آپ نے اپنے خط میں ہماری مدت قید کی توسیع پر پریشانی کا اظہار کیا ہے ، لیکن انوار بالکل مطمئن تھیں ۔ اس بات کو خوب یاد رکھیے کہ کوئی شخص خدا کا وفادار بندہ نہیں ہو سکتا جب تک وہ اس کی آزمایشوں میں اپنے آپ کو مستقل مزاج اور ثابت قدم نہ کر دے ۔ مجھے دعویٰ تو کسی چیز کا بھی نہیں ہے ، لیکن دعا برابر کرتا رہتا ہوں کہ قیامت کے دن خدا مجھے منافقین کے ساتھ نہ اٹھائے بلکہ سچے اہل ایمان کے ساتھ اٹھائے ۔ اس کے لیے کم سے کم شرط یہ ہے کہ آدمی اپنے خدا کے ساتھ چالبازی کرنے والا نہ ہو ۔ مجھے خدا کے راستہ سے ہٹ کر جینے کے تصور سے بھی گھن آتی ہے۔ اس وجہ سے ہر آزمایش کے لیے تیار ہوں ۔ اور میری کمزوریوں کے باوجود میرے پروردگار کا معاملہ میرے ساتھ ایسا حوصلہ بڑھانے والا ہے کہ اس کو میں ہی جانتا ہوں ۔ وہ لوگ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے جو خدا کی باتوں سے واقف نہیں ہیں ۔ پس آپ لوگ میرے لیے پریشان نہ ہوں ۔ میں جس جگہ ہوں اپنے پروردگار سے بالکل راضی ہوں اور کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی مجھے یہ خیال نہیں ہوتا کہ اس کا معاملہ میرے ساتھ غیر منصفانہ ہے ۔ میرا جینا اور مرنا اللہ کے لیے ہے اور میں جس طرح دین کی خدمت کے لیے آزادی چاہتا ہوں اسی طرح اس کے راستہ میں قید و بند کو بھی پسند کرتا ہوں ۔‘‘ ( سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۴۷)
ڈاکٹر عبد اللطیف خان کوایک خط میں لکھتے ہیں :
’’میری کتابوں کے چھپنے کا معاملہ اب بالکل مجہول ہو گیا۔ میرے پا س ایسے ذرائع نہیں کہ میں ان کو چھپوا سکوں اور ڈاکٹر صاحب پر مجھے اعتماد نہیں رہا ۔ اس وجہ سے اب اس معاملے کو خدا کے حوالے کرتا ہوں ۔ اگر اس کی مرضی ہو گی تو ان کے چھپنے کی کوئی صورت پیدا ہو جائے گی ورنہ اپنے رب کے فیصلہ پر راضی ہوں ۔ البتہ لکھنا میری ذمہ داری ہے اور یہ کام میں آخر دم تک ان شاء اللہ کرتا رہوں گا ۔ چونکہ آپ اس کام کے سب سے بڑے معاون اور قدر دان ہیں اس وجہ سے آپ کو آگاہ کرنا ضروری ہوا۔
ڈاکٹر صاحب کے اور میرے اختلافات کی نوعیت عقائدی اور نظریاتی ہے اور امید نہیں کہ اب ان کے ساتھ اتفاق ہو سکے ۔ اگرچہ اس حادثہ کا میرے دل و دماغ پر بہت برا اثر پڑا لیکن میں اس کو خدا کی طرف سے آزمایش سمجھتا ہوں اور اس سے صبر کی توفیق مانگتا ہوں ۔
…نقل مکان کا ارادہ فروری کے آخر تک ہے ۔ ابھی سردی بھی زیادہ ہے اور میری طبیعت بھی خراب ہے ۔ تفسیر کا کام بحمد اللہ جاری ہے ۔‘‘ ( سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۸۲)
۶ ؍فروری ۱۹۷۳ء کو لاہور سے شیخ سلطان احمد کو خط میں لکھتے ہیں :
’’ مجھے یہ شکایت نہیں ہے کہ زمانے نے میری قدر نہیں کی۔ واقعہ یہ ہے کہ میرے پاس اہل زمانہ کے ذ وق کی کوئی چیز تھی ہی نہیں ۔ میں اپنے کام پر بالکل مطمئن ہوں ۔ البتہ اس حادثہ (مراد ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے رویے سے بیزاری ہے۔ مدیر) کے بعد اب کسی نئے تجربے کی ہمت نہیں پا رہا ہوں ۔ اس وجہ سے زندگی کے باقی انفاس تنہائی میں گزارنا چاہتا ہوں ۔ بزرگوں نے تنہائی کی بڑی برکتیں گنائی ہیں ۔ چاہتا ہوں کہ اس کا بھی تجربہ ہو جائے ۔ خدا کرے اس کا حق ادا ہو سکے۔
میری اور بعض دوسرے دوستوں کی بھی رائے یہی تھی کہ مارچ کے آخر تک روانگی ہو لیکن اہلیہ مستعجل ہیں ۔ اس وجہ سے اغلب یہی ہے کہ اس مہینے کی آخری تاریخوں تک لاہور چھوڑ دیں گے ۔ خدا کرے کوئی مانع پیش نہ آئے ۔ آج میں نے فون والوں کو اطلاع کر دی ہے کہ میرا فون کاٹ دیا جائے۔
اب کراچی کا سفر کسی دوسرے موقع پر کروں گا ۔ اس وقت تو رحمان آباد دماغ پر مستولی ہے۔ وہاں بڑا مسئلہ سر چھپانے کے لیے کسی جھونپڑے کا ہے ۔ مگر اس سلسلے کا کوئی عملی حل اسی صورت میں ممکن ہے جب وہاں جا کر ڈیرہ ڈال دیں ۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے ۔ کوئی نہ کوئی شکل نکل ہی آئے گی ۔ اب کتابوں کا بوجھ میں نے اپنے سر سے اتار دیا ہے ۔ اب جو کچھ بھی کیجیے اس تصور کے ساتھ کیجیے کہ ان اوراق کا سیاہ کرنے والا دنیا سے رخصت ہوگیا۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۸۲- ۸۳)
امین احسن صبر وتحمل کا وصف کس درجے میں رکھتے تھے ، جسٹس (ر) محمد افضل چیمہ اس کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’میرے نزدیک حضرت مولانا مرحوم سے نصف صدی پر محیط تعلقات کا اہم ترین اور ناقابل فراموش واقعہ مولانا کے وہ چند تاریخی کلمات ہیں جو ان کی زبان سے اپنے صاحب زادے ابو صالح اصلاحی کی قاہرہ کے ہوائی حادثہ میں اچانک وفات کے موقع پر نکلے ۔ حادثہ کی خبر سن کر ہم سب مولانا کی خدمت میں حاضر تھے ۔ غمزدہ نیازمندوں کا ایک ہجوم تھا اور سب خاموش بیٹھے تھے کہ مولانا نے خود ہی مہر سکوت توڑی اور فرمایا ’’حضرات ، میں خود ہی بات کرتا ہوں ۔ مجھے آپ کے جذبات کا پورا پورا احساس ہے جس کے لیے میں بہت ممنون ہوں ۔ اس بات پر تو میرا قلب اور ذہن بالکل مطمئن ہیں کہ اللہ کی مشیت کبھی غلط نہیں ہو سکتی ۔ یہ جو کچھ ہوا ہے ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔بس میری آپ حضرات سے درخواست ہے کہ دعا فرمائیں کہ اللہ کریم مجھے اس عمر میں یہ صدمہ صبر و تحمل سے برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔ ‘‘ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ حضرت مولانا کے یہی الفاظ میں نے اپنی چھوٹی بیٹی کی اچانک وفات کے موقعہ پر اعزہ اور احباب کے تعزیتی اجتماع میں دہرائے اور ان سے دل کو ایک گونہ اطمینان نصیب ہوا۔ مولانا کے یہ تاریخی کلمات جہاں صبر و شکر ، رضا بالقضاء اور توکل علی اللہ کا مظہر ہیں وہیں اللہ تعالیٰ کے نظام تکوینی کے غیر معمولی شعور پر بھی دلالت کرتے ہیں ۔‘‘(سہ ماہی تدبر ،اپریل ۱۹۹۸ء، ۸۳-۸۵)
امین احسن کا اللہ تعالیٰ کے سا تھ بہت مضبوط تعلق تھا۔دنیا داری ان کی کبھی بھی تر جیح اول نہ تھی۔ملک عبد الرشید صاحب عراقی کے نام ۱۳ ؍مئی ۱۹۸۰ء کو لاہور سے ایک مکتوب میں امین احسن لکھتے ہیں :
’’میر ی کو شش اور تمنا تو صرف یہ ہے کہ کسی طر ح والنا س تک پہنچ جاؤ ں ۔ اس کے بعد کا کوئی پر و گرام سا منے نہیں ہے ۔ اب فا ذا فرغت فا نصب والی ربک فار غب پر عمل کر نے کا جی چا ہتا ہے ۔ اور اق بہت سیا ہ کئے۔ اب لکھنے کا حو صلہ با قی نہیں رہا ۔لو گو ں سے داد حا صل کر نے کی بھی کو ئی خواہش نہیں ہے۔ ‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء،۱۷)
حیات امین احسن میں ایک مقام ایسا بھی آیا کہ جب ان کے دل میں مذہبی ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کے لیے یہ خواہش پیدا ہوئی کہ منکرین خدا کا موقف صحیح ثابت ہوجائے ۔صاف گو امین احسن لکھتے ہیں :
’’جب اول اول مجھے اس حقیقت کا شعور ہوا کہ خدا ہے اور ضرور ہے، نیز یہ کہ انسان اس کا انکار نہیں کرسکتا اور اس سے مفر نہیں ہے ، تو اس کے ساتھ ہی مجھے اس بات کا بھی ادراک ہوا کہ اس ماننے سے بہت بھاری ذمہ داریاں انسان پر عائد ہو جاتی ہیں ۔ جب کبھی میں ان ذمہ داریوں کے متعلق سوچتا تو ایسا معلوم ہوتا کہ اس کا بوجھ میری کمر توڑ دے گا۔ جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ کچھ فلسفی ایسے بھی ہیں جو خدا کا انکار کرتے ہیں تو واقعہ یہ ہے کہ مجھے یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ان کی چیزوں کا بھی مطالعہ کروں ۔ اور صاف طور پر عرض کیے دیتا ہوں کہ بغیر کسی تعصب کے میں نے ان چیزوں کا مطالعہ کرنا چاہا ۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ میرے اندر چھپی ہوئی خواہش بھی موجود تھی کہ اگر یہ فلسفی یہ ثابت کردیں کہ خدا نہیں ہے تو میں اس کا خیر مقدم کروں گا اس لیے کہ اس طرح بہت بڑے بوجھ سے نجات مل جائے گی۔ یہ ایک مخفی راز ہے جومیں آپ پر ظاہر کررہا ہوں ۔ ویسے الحمد للہ! مجھ پر الحاد کا کوئی دور نہیں گزرا ہے لیکن مجھ پر ایک ایسا دور ضرور گزرا ہے کہ جب میرے اندر یہ خواہش تھی کہ اگر یہ فلسفی حضرات خدا کا انکار ثابت کردیں اور مجھے مطمئن کر دیں کہ خدا نہیں ہے تو بہر حال ایک اطمینان کا سانس لینے کا موقع ملے گا اور سر سے ایک بھاری بوجھ اتر جائے گا۔ اس خواہش کے تحت میں نے متکلمین کی ، دہریوں کی، منکرین کی، ڈارون کی، مارکس کی، فرائڈ کی، غرض کہ ان سب لوگوں کی کتابیں بڑی دلچسپی سے پڑھیں اور بغیر کسی تعصب کے پڑھیں ، لیکن میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ یہ ساری چیزیں پڑھنے کے بعد مجھ پر یہ حقیقت واضح ہوئی کہ یہ سب خرافات ہیں اور بد یہی حقیقت سے انکار کی خواہش ان سے یہ کام کرا رہی ہے ،باقی رہ گیا یہ کہ خدا کے انکار کے لیے ان لوگوں کے پاس واقعی کوئی دلیل ہے تو اس کی سرے سے گنجائش ہی نہیں !جو بات یہ پیش کرتے ہیں اس سے ہزار گنا مضبوط اور بدیہی بات وہ ہے جو قرآن حکیم پیش کرتا ہے کہ ایک خدا کو، ایک رب کو، ایک رحمان کو، ایک رحیم کو، ایک علیم کو، ایک خبیر کو ، ایک سمیع کو اور ایک بصیر کو مانو! اس بات پر عقل بھی گواہی دیتی ہے اور فطرت بھی گواہی دیتی ہے ۔ ظاہر بھی گواہی دیتا ہے اور باطن بھی گواہی دیتا ہے ۔ آفاق بھی گواہی دیتے ہیں اور انفس بھی گواہی دیتے ہیں ۔ غرض کہ ایک ایک چیز گواہی دیتی ہے۔‘‘ (مقالات اصلاحی ۲/ ۲۸۷)
خوداری اوربے نیازی امین احسن کی شخصیت کے اہم اوصاف تھے۔اس ضمن میں ضیاء الدین اصلاحی لکھتے ہیں :
’’کشادہ دست تھے ، پس انداز کرنے کی کبھی عادت نہیں رہی ، جو پاس ہوتا بے دریغ خرچ کر ڈالتے۔ سائل کو اپنی حیثیت سے زیادہ دیتے تھے ۔ حرص و ہوس کا کوئی شائبہ بھی ان میں نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو جن اعلیٰ و برتر مقاصد کے لیے پیدا کیا تھا انھی میں شب و روز منہمک رہتے ۔ گھرگرہستی کے کاموں سے کوئی سروکار نہ رکھتے ۔ ان کی ضرورتوں کا سامان ان کے عزیز اور احباب مہیا کرتے تھے جن سے کہا کرتے کہ ’أنتم أعلم بأموردنیا کم‘۔ ۱۰؎ ‘‘ (سہ ماہی تدبر ،اپریل ۱۹۹۸ء، ۱۴-۱۵)
ابوسفیان اصلاحی لکھتے ہیں :
’’ایک مرتبہ مولانا نے گفتگو کے درمیان بتایا کہ اسی جگہ صدر مرحوم ضیاء الحق تشریف لائے تھے اور انھوں نے مجھ سے یہ کہا کہ ہم لوگوں کی خواہش ہے کہ آپ ہفتہ میں کسی ایک دن ٹی وی پر درس قرآن دیا کریں ۔ میں نے جواب دیا کہ میرے درس کے بعد رقص کا سلسلہ شروع ہو ، میں ایسا درس دینے سے قاصر ہوں ۔ ضیاء الحق صاحب کے مطالعہ میں ’’تدبر قرآن‘‘ مستقل رہاکرتی تھی۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۸۸)
مدرس قرآن قاضی محمد کفایت اللہ لکھتے ہیں :
’’... ان دنوں مرحوم صدر ایوب خان نے جب مرحومہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں فتح حاصل کرلی تو امام اصلاحی سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ امام اصلاحی نے انھیں ملاقات کا شرف بخشا۔ مولانا کے حوالے سے یہ ملاقات ماضی کے اکابرین امت کی اعلیٰ و شاندار روایات کا احیا تھی۔ امام اصلاحی نے اپنے موقر ماہنامہ ’’میثاق‘‘میں تذکرہ و تبصرہ کے عنوان کے تحت جو لکھا تھا اسے پڑھنے سے مرحوم صدر کو یہ خیال ہوا کہ اصلاحی صاحب نے ان کی بالواسطہ تائید فرمائی ہے، حالانکہ مولانا کے ہاں مسئلہ یہ تھا کہ ’’دین کیا ہے اور کیا نہیں ‘‘، اسے واضح کیا جائے۔
صدر مرحوم نے یہ چاہا کہ وہ اس نصرت و تائید کے لیے امام اصلاحی کے ہاں اپنی ممنونیت کا اظہار کرے ۔ ملاقات کے دوران میں مرحوم صدر نے یہ عندیہ بھی دیا کہ وہ آپ کی خدمت کرنا چاہتے ہیں ۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ صدر ایوب کا کیا طنطنہ تھا اور ان کے ایک اشارۂ ابرو سے کس طرح افراد و جماعات کے بنائو بگاڑ کے نہ صرف فیصلے ہوتے تھے بلکہ وہ فیصلے واقعاتی صورت میں ڈھلتے ہوئے نظر آتے تھے اور مرحوم صدر کے ہاں مخدومیت پانے کے لیے اس وقت کے بڑے بڑے اہل سیاست اور اصحاب ِجبہ و دستار کس کس طرح حیلوں اور بہانوں کی تلاش میں مارے مارے پھرا کرتے تھے۔ لیکن امام اصلاحی نے مالی عدم سازگاریوں کے باوجود جس شانِ استغنا سے مرحوم صدر کی پیش کش کوٹھکرا دیا،وہ آپ جیسے روشن ضمیر اور صاحب دل ہی کا مقام تھا۔آپ کے اس پیش کش کے جواب میں جو کچھ فرمایا وہ رہتی دنیا تک یادگار رہے گا۔ آپ نے فرمایا : جناب صدر، میں نے اپنے ایمانی و اخلاقی فریضے کو انجام دیا ہے۔ میں نے جس چیز کو حق سمجھا ہے اس کا برملا اظہار کر دیا ہے۔میں نے اپنی رائے کے اظہار کے دوران میں اس امر کی قطعاً پروا نہیں کی کہ میری اس رائے کے اظہار سے کس کس کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی۔ کون کون اس سے کیا کیا فائدہ اٹھائے گا یا کس کس کو اس سے کون کون سا نقصان ہوگا۔ میں نے تو ایک ایمانی فریضہ سمجھتے ہوئے جو کچھ صحیح سمجھا اس کا اظہار کردیا ۔اس سے آپ کو فائدہ پہنچا مجھے معلوم نہیں ۔ یہ ایک فریضہ تھا، جو ادا ہوگیا ۔ اس کے بدلے میں آپ سے کوئی خدمت چاہنا یا اسے قبول کرنا ، یہ میرے لیے قطعاً روا نہیں ہے۔ میرے نزدیک حق کا اظہار ، دین کا تقاضا ہے اور حق کا کتمان ، ایمانی جرم ۔ میں نے جو کچھ کیا وہ آپ سے کوئی اجر پانے کے لیے نہیں کیا بلکہ میں نے یہ کام اپنے مالک و مولا کی خوشنودی کے حصول کے لیے کیا ہے اور بس۔ البتہ اگر آپ میری کوئی خدمت کرنا ہی چاہتے ہیں تو اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ آپ پاکستان میں عدل و قسط کی اقدار کو رواج دیں ۔ اپنے اہالی و موالی اور اپنے ماتحت اداروں کو عدل و قسط کا پابند بنائیں ۔ قانون و عدل کی حکمرانی کو ایک محسوس حقیقت بنائیں ۔ کتاب اللہ ،سنت رسول اللہ اور خلفائے راشدین کے طرز حکمرانی کو ایک زندہ حقیقت کے طور پر اپنائیں ۔ اپنے ماتحت تمام انتظامی ادارو ں کو ان نمونوں کے مطابق ڈھالنے کی جدوجہد کو تیز سے تیز تر کردیں ۔ اس کے نتیجے میں مجھے گمان ہی نہیں ، یقین ِواثق ہے کہ آپ کا نام بھی پاکستان کی تاریخ میں تا ابد زندہ رہے گااور آپ کا یہ ایسا صدقۂ جاریہ ہوگا جو رہتی دنیا تک پاکستانیوں کے لیے مینار نور کاکام دیتا رہے گا۔ آنے والے پاکستانی حکمران اس مینار نور سے کسب ِضیا کر کے ملک و ملت کی بہتر سے بہتر انداز میں خدمت انجام دیتے رہیں گے۔
مجھے یہ واقعہ ایک نہایت ثقہ بزرگ نے سنایا تھااور انھوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ آپ کی اس ملاقات کے بعد صدر ایوب کئی دنوں تک ارکان کابینہ اور عمائدین سلطنت کے سامنے فخر کے ساتھ اس ملاقات کا ذکر کرتے رہے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ہمارے ارد گرد ایسے علماے وقت اور صلحاے سیاست کی کمی نہیں جو ہمارے حق میں بولنے سے بہت پہلے اپنے ہر قول کا تول لگوانے کی سعیِ بلیغ میں مصروف رہتے ہیں ۔ لیکن دوسری طرف ہمارے اس علامہ صاحب کو دیکھو کہ جنھوں نے اپنے رسالے میں ہمارے حق میں علم و حکمت کے دریا بہا دیے اور جب ہم نے انھیں اپنی جانب سے کسی خدمت کی کچھ پیش کش کی تو آپ نے شانِ استغنا کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہماری اس پیش کش کی جانب نگاہِ غلط بھی نہیں ڈالی۔ حالانکہ ہمیں علم ہے کہ ان کا جواں سال بیٹا انہی دنوں اندوہناک حادثے میں وفات پاچکا ہے اور اس وفات کی وجہ سے آپ کے ناتواں کندھوں پر گوناگوں ذمہ داریوں کا بوجھ آن پڑا ہے ۔‘‘(ماہنامہ اشراق ،جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ۵۱-۵۲)
امین احسن کی مہمان نوازی صرف کھلانے پلانے تک محدود نہ تھی بلکہ اس کا دائرہ بڑا وسیع تھا۔اس ضمن میں غامدی صاحب لکھتے ہیں :
’’طبیعت میں بڑی تواضع اور بڑی شفقت تھی۔ جن دنوں رحمن آباد میں تھے،میں ایک مرتبہ ملنے کے لیے گیا تو رات وہیں ٹھیرا۔ فجر سے کچھ پہلے میں نے محسوس کیا کہ ذرا دور کوئی ہاتھ کے نل سے پانی کی بالٹی بھرتا اور پھر اسے انڈیل دیتا ہے۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ امین احسن ہوں گے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ میری چارپائی کے پاس آئے اور فرمایا: میں نے تازہ پانی نکال دیا ہے، اٹھیے اور وضو کر لیجیے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کہوں اور کیا کروں ۔‘‘(ماہنامہ اشراق، جنوری / فروری ۱۹۹۸ء، ۲۶)
جناب سلیم کیانی اس بارے میں بتاتے ہیں :
’’میں سات برس تک ان سے مستفیض ہوا ۔ اس دوران میں میں نے مولانا اصلاحی کو انتہائی حساس، بامروت ، ہمدرد، شفیق، بے تکلف لیکن دلیل کو ماننے والا، گرم جوش محبت کرنے والا پایا ۔ جو بھی ان سے ملنے آتا یہ محسوس کرتا کہ مولانا اس کو اہمیت دے رہے ہیں اور پوری توجہ اس پر صرف کر رہے ہیں ـ نہ تو وہ لوگوں کوگُھرکتے[ڈانٹنا ۔ دھتکارنا ۔ تنبیہ کے لیے سخت آواز سے بولنا]اور نہ ہی انھیں بے وقعت سمجھتے ۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۲۷)
محترم ابوسفیان اصلاحی نے لکھا:
’’میں لاہور آنے کی جب انھیں اطلاع دیتا تو وہ کسی نہ کسی کو اسٹیشن بھیج کر اپنی کار سے مجھے منگواتے اور فرماتے کہ یہ تمھارا کمرا ہے اور یہ تمھارے لیے کار ہے ۔ تم جہاں چاہو آ جا سکتے ہو۔ ا کثر ہوا کہ کئی کئی روز مولانا کی خدمت میں قیام رہا … ایک مرتبہ لاہور آنے کی اطلاع میں نے مولانا کو بھی دی اور ساتھ ہی ساتھ مدیر نقوش محمد طفیل صاحب کو بھی ۔ جاوید صاحب مجھے اپنے گھر لے کر چلے گئے ۔ شام کو جب جاوید صاحب کے ایک عزیز کے ساتھ مولانا سے ملنے گیا تو ان سے فرمایا : ’’آپ میرے مہمان کو اغوا کر کے لے گئے ‘‘ اس جملہ سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کس قدر مہمان نواز تھے اور چھوٹوں سے کتنا مشفقانہ برتاؤ کیا کرتے تھے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۸۷-۸۸)
ایک خاتون کوشک پڑ گیا کہ ان پر جادو کیا گیا ہے توامین احسن نے انھیں ایک نصیحت کی۔ غور کریں ، اس خاتو ن کو گھر میں برکت کے لیے نمازاور تعوذ کے بعدکس بات کی نصیحت کررہے ہیں :
’’ان کو میری طرف سے پیغام دیجئے کہ جادو وغیرہ کا وہم اپنے ذہن سے نکال دیں ۔ اس قسم کے اوہام جاہلوں کے اندر ہوتے ہیں ۔ ان جیسی تعلیم یافتہ خاتون کی شان کے یہ بالکل خلاف ہے کہ وہ کسی جاہلانہ وہم میں مبتلا ہوں ۔ اگر ان کو میرے علم پر اطمینان ہے تومیں ان کو یہ اطمینان دلاتا ہوں کہ یہ محض ایک شیطانی وسوسہ ہے جس میں مبتلا ہونا ایمان کے منافی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی شیطانی عمل کسی پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ اور شیطانی اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے نماز کی پابندی اور تعوذ کافی ہے ۔
دوسری بات ان کو یہ پہنچائیے کہ دروازے پر جو مہمان بھی آئے ، جس وقت بھی آئے ، خوش دلی کے ساتھ اس کا خیر مقدم اور حسب توفیق اس کی تواضع ایک اسلامی ذمہ داری ہے ، اور اس ذمہ داری کو حسن و خوبی کے ساتھ ادا کرنا اصلاً گھر کی مالکہ کا کام ہے ۔ اگر اس میں ادنیٰ کوتاہی بھی ہو تو اس سے میاں بیوی بلکہ پورے خاندان کی عزت خاک میں مل جاتی ہے اور ساتھ ہی گھر کی برکت بھی اٹھ جاتی ہے ۔ مہمانوں کے درمیان یہ تفریق بالکل ناجائز ہے کہ وہ بیوی کا مہمان ہے یا شوہر کا ۔ ہر مہمان پورے گھر کا مہمان ہوتا ہے اور خاطر مدارت کی ذمہ داری، جیسا کہ میں نے عرض کیا ، گھر کی مالکہ پر ہوتی ہے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی۱۹۹۸ء، ۲۷)
پڑھنے لکھنے کا ذوق تو ہر عالم فاضل شخصیت کے ہاں ہوتاہی ہے،مگر امین احسن اس معاملے میں بھی منفرد مقام رکھتے تھے۔ ڈاکٹر زاہد منیرعامر اس وصف کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’مولانا اصلاحی کا کتب خانہ دیکھنے کا اشتیاق تھا۔ اب جو مولانا سے ملاقات ہوئی اور وہ بہت شفقت اور محبت سے پیش آئے تو ہمت کر کے اس اشتیاق کا اظہار کر دیا ۔ مولانا نے جواب میں بتایا : میرے پاس تو کوئی کتب خانہ نہیں ۔ مجھے کچھ حیرت ہوئی۔ مولانا فرمانے لگے : میرے پاس (ایک مرتبہ پہلے) ایک صاحب آئے تھے انھیں گمان تھا کہ اصلاحی کے پاس تو بہت بڑا کتب خانہ ہو گا ۔ میں نے انھیں بتایا کہ دو الماریاں ، جن میں چند کتابیں ہیں اور بس۔ دراصل ہم نے اپنے استاد سے یہ بات سیکھی کہ ’’کیا پڑھنا ہے‘‘۔ آپ سارا رطب و یابس پڑھنے کی بجائے منتخب چیزیں پڑھیں ۔ سب کچھ نہیں پڑھنا چاہیے ـ ۔ پھر ایک واقعہ سنایا کہ مجھے ایک صاحب ایک لائبریری میں لے گئے اور بتانے لگے کہ اس لائبریری میں بتیس ہزار(32000)کتابیں ہیں ۔ میں نے ان سے کہا ان میں پڑھنے کی تو چند ایک ہی ہوں گی ۔
میں نے عرض کیا ، لیکن تفسیر لکھتے ہوئے تو آپ کو بہت سی کتب فراہم کرنا پڑی ہوں گی؟ اس کے جواب میں مولانا نے بتایا :تفسیریں اصل میں تین ہیں ۔ باقی سب ان تفسیروں کی تفسیریں ہیں ۔ (میں نے ان تفسیروں کے نام جاننا چاہے تو مولانا نے فرمایا : ’’اسے چھوڑیں اس سے بحث چھڑ جائے گی‘‘) اسی طرح حدیث کی بھی اصل میں دو یا تین کتابیں ہیں ۔ آگے سب تشریح در تشریح ہے ۔ میں نے تفسیر لکھتے وقت اصل چیزوں کو پڑھا ، باقی کو چھوڑ دیا۔
میرا اگلا سوال ادب کے بحر ناپیدا کنار کی غواصی سے متعلق تھا، اس کے جواب میں مولانا نے بتایا کہ تفسیر لکھنے کے دوران میں جتنی مقدار میں عربی ادب سے واقفیت ضروری تھی وہ تو سارا پڑھا لیکن بعض جاہلی شعراء کا کلام جس کی تفسیر کے لیے ضرورت نہیں تھی چھوڑتا رہا ۔ وہ اب پڑھا ہے ۔ اب بعض شعراء کو (جن کے مولانا نے اس وقت نام بھی بتائے) مکمل پڑھا ہے لیکن تفسیر کا کام مکمل کر لینے کے بعد ۔
…نماز کے بعد ہم مولاناسے کسی نصیحت کے خواہاں ہوئے ۔ مولانا ، انتخاب سے پڑھنے کی اہمیت پہلے واضح کر چکے تھے ، اب انھوں نے انتخاب سے لکھنے کی ضرورت کو زور دیا اور اس میں بھی سند اپنے استاد سے لائے ، فرمانے لگے : مولانا فراہی بہت زیادہ لکھنے کو دوسروں کا وقت ضائع کرنے سے تعبیر کرتے تھے اور کہا کرتے تھے : ’’ہمیں کسی کا وقت ضائع کرنے کا کوئی حق نہیں ـ۔‘‘ میں یہ کہتا ہوں ’’یونہی کاغذ سیاہ کرنے کا کیا فائدہ…‘‘ انسان کو بہت سوچ سمجھ کر اور انتخاب سے لکھنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ ہمیشہ طالب علم کی زندگی گزارے ۔ ہمیشہ طالب علم رہو، طالب علم رہنے سے ہی کچھ حاصل ہوتا ہے ، سب سے اچھی حیثیت طالب علم کی ہے ۔ مولانا فراہی اپنے کتب پر ’’المعلم فراہی‘‘ لکھتے تھے ، میں نے اپنی کتب پر ہمیشہ ’’المتعلم اصلاحی‘‘ لکھا۔
طالب علم رہنے کی ضرورت پر مزید زور دیتے ہوئے فرمانے لگے : آج کل علم کم یاب ہو گیا ہے ۔ لوگوں کی تحریریں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے کچھ نہیں پڑھا۔ سطحی سی معلومات ہیں ۔ مختلف مسالک کے لوگ اپنے مسلک کے ایک دو نام ور علما کی کتابیں پڑھ لیتے ہیں اور بس … فتاویٰ کی کتابیں چھپ گئی ہیں ۔ انھی سے سارا دین سمجھ لیا جاتا ہے ۔ اللہ اللہ خیر خیر صلا، اخبارات انھی کو علامہ بنا دیتے ہیں … دین کی صحیح فہم براہ راست حاصل نہیں کرتے ۔‘‘ (سہ ماہی تدبر ،اپریل ۱۹۹۸ء،۶۲-۶۴)
ضیاء الدین اصلاحی لکھتے ہیں :
’’ وہ مدرستہ الاصلاح کے گل سر سبدتھے ہی ، حق یہ ہے کہ پورے برصغیر میں اس پایہ کے عالم، خطیب اور مصنف کم ہی لوگ ہوں گے ۔ان کی کتابوں کی تعداد بعض مصنفین کے مولفات و رسائل کی طرح چاہے سینکڑوں نہ ہو لیکن جن لوگوں کی کمیت کے بجائے کیفیت پر بھی نظر رہتی ہے وہ یہی کہیں گے:
بغاث الطیر أکثر ھا فراخا
و ام الصقر مقلاہ نزور‘‘ ۱۱؎
(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۱۵)
جناب عبدالحمید برایشق کاتعلق ترکی سے ہے۔انھوں نے اردو تفاسیر پر تحقیقی کام کیا ہے۔ وہ ’’تدبر قرآن‘‘ کے ضمن میں امیں احسن سے ملے۔اس ملاقات کی روداد بیان کرتے ہوئے انھوں نے ان کے کچھ شخصی اوصاف پر بھی لکھا:
’’جنوری۱۹۹۴ میں تفسیر پر گفتگو کرنے کے لیے مولانا سے ان کی قیام گاہ پر ملنے جاتا رہا ۔ اس وقت مولانا بہت مشکل سے سنتے تھے ۔ لہٰذا میں نے سوالات لکھ کر کیے اور مولانا نے بڑی تفصیل سے ان کے جوابات دیے ۔ یہ جوابات مدلل بھی تھے ، معقول بھی اور معتدل بھی ۔ بیک وقت یہ تین چیزیں برصغیر پاک و ہند کے علما میں مشکل ہی سے جمع ہوتی ہیں ۔ مولانا کے اس پہلو نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ میں ان کی کتابیں اپنے ساتھ ترکی لایا اور ان کو بڑے غور سے پڑھا۔ میں نے دیکھا کہ اعتدال ہی ان کا اصل مزاج اور سرمایہ ہے اور وہ اپنی بات نہایت مدلل طور پر پیش کرتے ہیں ۔
میرے خیال میں عالم اسلام کے مسلمانوں کا عموماً اور برصغیر کے مسلمانوں کا خصوصاً ایک اہم مسئلہ فرقہ بندی ہے ۔ اپنے فرقہ کی خاطر لوگ صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح بتا دیتے ہیں ۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک فرقہ یا جماعت کی بزرگ شخصیات اپنے فرقہ کے لیے بت بن جاتی ہیں اور اس فرقہ کے علما اور پڑھے لکھے اشخاص اپنا وقت ان کے فضائل لکھنے میں ضائع کر دیتے ہیں ۔ ہر جماعت دوسری جماعت کے ساتھ اس بارہ میں مقابلہ اور مسابقت کرتی ہے ۔ وہ اپنے بزرگوں کے لیے زیادہ سے زیادہ شان دار الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔ یہ طرز عمل کسی طرح بھی صحیح نہیں قرار دیا جا سکتا ۔ جماعت کا وجود اور جماعت کے بزرگوں کا احترام ہونا ایک اچھی بات ہے ، لیکن اس میں ایک توازن اور مدح کی ایک حد ہونی چاہیے ۔ مولانا اصلاحی کے اندر میں نے اس توازن اور اعتدال کا مشاہدہ کیا۔ وہ کہیں کہیں اپنی علمی تحقیق کی رو سے اپنے استاذ یا کسی قریبی دوست سے بھی اختلاف رائے کا اظہار کر دیتے ۔ اگر برصغیر کے تمام علما میں یہ خصوصیت پیدا ہو جائے تو معاشرہ میں ان کا مرتبہ اور مقام بے حد اونچا ہو سکتا ہے ۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۹۱)
عام طور پر روایتی علما حکومتی مناصب حاصل کرنے کے لیے خود کوششیں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ،مگر امین احسن اس معاملے میں بھی سب سے الگ دکھائی دیتے ہیں ۔حکومتی مناصب چل کر ان کے پاس آتے تھے، مگر وہ انھیں ٹھکرا دیتے تھے۔
۱۹۵۶ء میں حکومت نے ملکی آئین کے تقاضے کے تحت ایک اسلامک لاء کمیشن قائم کیا ۔ امین احسن کو بھی اس کا رکن بنایا گیا۔دو سا ل گزر گئے ،مگر کمیشن کام نہ کرسکا ۔ بالآخر جنرل محمدایوب خان کے مارشل لاء نے اسے ختم ہی کردیا۔اس تجربے سے امین احسن اس نتیجے پر پہنچے کہ حکومت اسلامی قانون کے نفاذ میں مخلص نہیں ۔ایسے ادارے قائم کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کوئی کام ڈھنگ سے نہ ہو سکے اور مختلف سوچ رکھنے والے ارکان آپس میں چونچیں لڑاتے رہیں ۔یہ محض دفع الوقتی اور لوگوں کوخاموش کرانے کے لیے ہوتا ہے ۔ چنا نچہ اس کے بعد امین احسن نے ایسی ہر پیشکش کو ٹھکرادیا۔
دور ایوب میں حکومت میں مخالف پارٹیوں نے مل کر مس فاطمہ جناح کو صدارت کے لیے نامزد کیا۔جماعت اسلامی نے اس نامزدگی کی حمایت کی اور اس کے حق میں لٹریچر تیار کیا۔ امین احسن نے اس نامزدگی کی سخت مخالفت کی اور جماعت کے موقف کے تار پود بکھیر دیے۔ یہ مضامین ’’میثاق‘‘ میں شائع ہوئے ۔ظاہر ہے کہ یہ مضامین بالواسطہ طریقے سے ایوب خان کے حق میں جاتے تھے، اس لیے حکومت نے انھیں اپنے اہتمام میں شائع کر کے ملک کے کونے کونے میں پہنچا دیا۔ایوب خان صدر منتخب ہو گئے۔ جب لاہور آئے تو گورنرہاؤس میں امین احسن سے ملاقات کی ۔ ان کا شکریہ ادا کیا کہ ان کی تحریروں کا انھیں بڑا فائدہ ہوا ہے۔اس کے بعد انھوں نے پیش کش کی کہ مولانا، پبلک میں آئیں ۔حکومت ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائے گی ا وران کی پسند کے میدان میں ان کو کسی اہم منصب پر فائز کرے گی۔یہ عجیب اتفاق ہے کہ ان دنوں امین احسن شدید مالی مشکلات میں گھرے ہوئے تھے، مگراس کے باوجودانھوں نے صدرپاکستان کویہ جواب دیا:
’’مضامین میں نے آپ کی حمایت میں نہیں لکھے بلکہ عورت کی سربراہی کے بارے میں دینی موقف کی وضاحت کے لیے لکھے ہیں ۔اس کے علاوہ جو کام اس وقت کررہاہوں وہ میری زندگی کا مشن ہے ۔اس میں ،میں کسی چیز کو رکاوٹ بننے نہیں دینا چاہتا ۔لہٰذاشکریہ کے ساتھ آپ کی پیشکش قبول کرنے سے معذرت چاہتا ہو ں ۔‘‘
جون ۱۹۷۲ء کی بات ہے۔ ان دنو ں امین احسن اپنی بیماری سے اٹھے تھے۔ایک شخص ملنے آیا۔ امین احسن سے ملکی سیاست کے بارے میں پوچھا۔امین احسن نے جواب دیا :
’’میں نے چھ ماہ سے اخبار کو ہاتھ نہیں لگایا ۔ اخبار کی سرخیا ں اب دیکھنے لگاہوں ۔ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم ایک بڑے بحران کے دروازے پر کھڑے ہیں ۔‘‘
وہ شخص بولا:
’’ عوامی حکومت اس بحران کامقابلہ کررہی ہے۔‘‘
پھر اس شخص نے اپنے اصل مقصد کی طرف بڑھناشروع کیا ۔ شاید وہ امین احسن کے حالات سے واقف تھا۔ اس نے ان کے مصارف اور وسائل کے بارے میں پوچھا۔امین احسن نے کہا:
’’مہنگائی کازمانہ ہے ، مصارف کافی زیادہ ہوتے ہیں ، لیکن خدا دیتا ہے ، اسی پر بھروسا ہے۔‘‘
’’آپ جیسے لوگوں کی سر پرستی حکومت بھی کرتی ہے ۔‘‘
اس شخص نے امین احسن کو آسان آدمی سمجھا۔امین احسن نے جواب دیا۔
’’کرتی ہوگی ، لیکن میں نے کبھی کسی حکومت کاساتھ نہیں دیا ۔ہر حکومت پر تنقید کرتا ہوں ۔ کسی کو کیا پڑی ہے کہ ایسے شخص کی سرپرستی کرے۔‘‘
وہ شحص بھی آسانی سے شکست تسلیم کرنے والا نہ تھا۔ بولا:
’’آپ خود اس کے لیے درخواست نہ بھی کریں تو دوسرے لوگ آپ کے لیے تگ و دو کرسکتے ہیں ۔‘‘
امین احسن بھی امین احسن تھے۔ انھوں نے جواب دیا:
’’یہ حرکت وہی شخص کر سکتا ہے جو مجھ سے واقف نہ ہو ۔میرے لیے اس سے بڑھ کر کوئی توہین نہیں ہوسکتی ۔ حکومتوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ان کے خوشامدیوں اور وظیفہ خواروں کے ہاتھوں آج تک کون سا کارنامہ انجام پا یا ہے۔‘‘
اس پر وہ شخص اجازت لے کر چلا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو صاحب کا دور حکومت تھا۔ان دنوں امین احسن رحمٰن آباد میں تھے۔ضلع کے ڈپٹی کمشنر ان کے پاس آئے اوربتایا :
’’ حکومت آپ کی دینی خدمات کے صلے میں سول ایوارڈ دینا چاہتی ہے ۔اس بارے میں آپ کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ ‘‘
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صاحب بھی امین احسن سے کچھ واقف تھے، مگر کچھ ہی واقف تھے زیادہ نہیں ،امین احسن نے یہ پیشکش شکریہ کے ساتھ مسترد کر دی اورکہا:
’’ میں نے جو کچھ کیا ہے ، اپنا فرض سمجھ کر کیا ہے، ایوارڈ حاصل کرنے کے لیے نہیں ۔میں اس کا اجر اپنے ر ب سے چاہتا ہوں ۔‘‘
اگست ۱۹۷۷ء کی بات ہے ۔مولانا ظفر احمدانصاری مرحوم جنر ل ضیاء الحق کی طرف سے آپ کو مشاورتی کونسل کی رکنیت پر آمادہ کرنے کے لیے آئے۔امین احسن نے کہا:
’’ میں تین اسباب کی بنا پر رکن بننا پسند نہیں کرتا۔ ایک یہ کہ مجھے ثقل سماعت کاعارضہ ہے۔ میں جب کسی کی سن نہیں سکتا تو مجھے سنانے کا بھی حق نہیں ۔دوسرے یہ کہ میں ہمہ تن تفسیر لکھنے میں مصروف ہوں ،کسی دوسر ی چیز کی طرف توجہ دوں گا تفسیر لکھنے کا کام متاثر ہو گا جو مجھے قطعاً گوارا نہیں ۔ تیسرے یہ کہ جنر ل صاحب تین ماہ کے لیے حکومت سنبھال رہے ہیں تو اس طرح کے طول طویل کاموں میں کیوں پڑ نا چاہتے ہیں ۔میر ے نزدیک ان کایہ اقدام مناسب نہیں ۔‘‘
جنرل ضیاء الحق نے جب اپنی حکومت مستحکم کر لی تو امین احسن کے پاس ملنے کے لیے آئے اور پیش کش کی کہ وہ ان کی ضروریات پوری کرنا اپنی سعادت سمجھیں گے۔امین احسن کا جواب تھا:
’’میں ایک درویش آدمی ہوں ۔ میری کوئی ضرورت نہیں ۔اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر سہولت دے رکھی ہے اور میں نہایت اطمینان سے زندگی بسرکر رہاہوں ۔‘‘
اردو تفاسیر پر کام کرنے والے ترکی کے محقق جناب عبد الحمید برایشق نے امین احسن کے اس وصف کے بارے میں لکھا:
’’صحیح اسلامی معاشر ے میں علم اور عالم کا رتبہ بہت اونچا ہے ۔ ربۃ العلم العی الرتب۔ عالم کو کسی دنیوی منفعت کے لیے اس کی بے قدری کرنے کا حق حاصل نہیں ۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اشتروا بآیت اللہ ثمنا قلیلا (وہ اللہ کی آیات کا حقیر پونجی کے عوض سودا کرتے ہیں ) کا مصداق بن جاتا ہے ۔ جب میں پاکستان میں تھا تو اس دوران حکومت چار مرتبہ تبدیل ہوئی ۔ ان تبدیلیوں میں کچھ بڑے بڑے عالموں نے معمولی منفعت کی خاطر ایسے لوگوں کا ساتھ دیا جن سے ملک، ملت اور دین اسلام کو کبھی فائدہ نہیں ہو سکتا ۔ مجھے معلوم ہوا کہ مولانا اصلاحی نے اس طرح کی کمزوری بھی کبھی نہیں دکھائی۔ میری معلومات کے مطابق جماعت اسلامی سے ان کی علیحدگی نظم جماعت میں مشاورت کے اصول پر ہوئی۔ جب ایک معاشرہ مشاورت کو حقیقی اہمیت نہ دے تو وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۹۱)
سردار محمد اجمل لغاری کو ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’امید ہے کہ آپ اور جملہ متعلقین بہمہ وجوہ بالکل بعافیت ہوں گے ۔ عرصہ سے آپ کی خیریت نہیں معلوم ہوئی۔ کبھی کبھی دو حرف لکھا دیا کریں تو کیا گناہ ہو !
تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
ہم کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو!
میں الحمد للہ اچھا ہوں اور برابر اپنے کام میں مصروف ۔ تدبر قرآن کی چوتھی جلد مکمل کر کے ڈاکٹر صاحب کے حوالہ کر دی ۔ اب پانچویں پر کام کر رہا ہوں ۔ اس وقت تفسیر سورۂ نمل زیر قلم ہے۔
حکومت کی طرف سے برابر باصرار یہ خواہش ہے کہ مشاورتی کونسل کی رکنیت منظور کر لوں لیکن میں نے بوجوہ گوناگوں معذرت کر دی ہے ۔ اگر آپ کو کوئی اس بیچ میں ڈالے تو براہ کرم آپ بھی معذرت کر دیجیے گا۔ میں نے یہ اس لیے عرض کیا ہے کہ بعض وجوہ سے اس کا امکان ہے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۹۴)
امین احسن دینی فہم وفراست کے ساتھ ساتھ بہت گہرا سماجی و سیاسی شعور بھی رکھتے تھے۔ صحافی اور کالم نگار عطاء الرحمن نے اس حوالے سے لکھا:
’’... انھیں مولانا مودودی کی اس حکمت سے روزِ اول سے اختلاف تھا کہ جماعت کو فوراً انتخابی سیاست میں کود پڑناچاہیے ۔ ان کے نزدیک حقیقی اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے معاشرے کو تیار کرنے میں بڑا وقت اور محنت درکار ہے۔ اس کے بغیر انتخابات کے میدان میں مقابلے کے لیے آکھڑا ہونا الٹے نتائج کا حامل ہو گا۔ اس کے باوجود انھوں نے نظم جماعت کے تحت ۱۹۵۱ء کے انتخاباتِ پنجاب میں حصہ لیا ، لیکن ۱۹۵۷ء میں اپنے ساتھیوں سمیت اسی بنائے اختلاف پر جماعت سے علیحدہ ہوگئے۔ ایک مرتبہ حکمت عملی کے اسی موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے مجھ سے کہا کہ دیکھو عزیز من ! اگر یہ معجزہ رونما ہو بھی جاتا ہے کہ جماعت کو عام انتخابات میں بھر پور کامیابی حاصل ہوجائے حالانکہ مجھے اس کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے تو میں علیٰ وجہ البصیرت تمھیں یہ بتاتا ہوں کہ اسے اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے ایک بہت بڑا اور خونی فوجی انقلاب برپا ہوگا اور کچھ باقی نہ رہے گا۔ یہ غالباً ۱۹۶۸ء کا ذکر ہے ۔ اس وقت تو مجھے مولانا اصلاحی کی بات سمجھ میں نہ آئی لیکن بعد میں جب ۱۹۷۰ء کے انتخابی نتائج سامنے آئے اور آگے چل کر ۱۹۹۲ء میں جو کچھ الجزائر میں ہوا، اس سے میں مرحوم کی بے پناہ سیاسی بصیرت اور دور بینی کا بڑی شدت سے قائل ہوتا چلا گیا ۔ تاہم میں یہاں پر ذاتی معلومات کی بنا پر یہ بات بھی لکھ دینا چاہتا ہوں کہ مولانا مودودی اپنی عظمت و فکر کی بنا پر ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے بعد اس نتیجے تک پہنچ گئے تھے کہ ان کی حکمت عملی غیر نتیجہ خیز رہی ہے۔ وہ جماعت کو دوبارہ اپنے اصلی طریق کار پر واپس لانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے ۱۹۷۲ء میں مجلس شوریٰ کے اجلاس میں ایک قرار داد بھی منظورکرائی تھی لیکن اس پر عمل نہ ہوا۔ حالانکہ جماعت کی قیادت اگر اس وقت بھی اس راہ پر چل نکلتی تو آج ملک میں ایک بہت بڑی عوامی انقلابی قوت بن چکی ہوتی۔ آج جو اسے بار بار شکستوں کے بعد انتخابات کے بائیکاٹ کی بے معنی پالیسی اختیار کرنا پڑی ہے ، اس سے بچی رہتی ۔‘‘(ماہنامہ اشراق، جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ۴۷)
غامدی صاحب، امین احسن کے سیاسی شعور کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’وہ صرف دین ہی کے عالم نہ تھے، دستور وقانون اور سیاست ِدوراں کے مسائل پر بھی ان کی نظر اتنی گہری تھی کہ ان کے ماہرین ان کی صحبت میں بیٹھ کر بہت کچھ سیکھ سکتے تھے۔ ان چیزوں کو دیکھنے کا ان کا اپنا ایک انداز تھا جو اہل زمانہ سے بہت کچھ مختلف تھا۔ بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا ہوئی تو مذہبی حلقوں میں ، بالعموم اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ اس سے اگلے روز میں رحمن آباد حاضر ہوا تو امین احسن کو افسردہ دیکھا۔ میں نے پوچھا توکچھ دیر کے لیے خاموش رہے، پھر فرمایا: مجھے بھٹو صاحب سے کیا ہمدردی ہو سکتی ہے، لیکن جن احمقوں نے ایک قومی رہنما کو ختم کر دینے کا یہ طریقہ اختیار کیا ہے، وہ نہیں جانتے کہ اس طرح انھوں نے اس ملک کی سیاست میں ایک مستقل عناد کی بنیاد رکھ دی ہے۔افغانستان میں جو کچھ ہوا، اس کے مضمرات انھوں نے جس طرح ابتدا ہی میں سمجھ لیے تھے، اسے آج لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ الجزائر، ترکی اور مصر و شام میں اسلامی تحریکوں کے معاملات کو وہ جس نظر سے دیکھتے تھے، ہمارے مذہبی رہنما شاید اس وقت دیکھیں گے، جب بہت کچھ ڈوب چکا ہو گا۔ جماعت ِ اسلامی سے ان کی علیحدگی جس موقف کی بنیاد پر ہوئی، وہ اب اپنی صحت کے لیے کسی بحث و استدلال کا محتاج نہیں رہا۔ اس کی اصابت خود ان لوگوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دی ہے جو اس وقت مولانا مودودی کے مشیروں میں ان کے سب سے بڑے مخالف تھے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سن لیا ہے کہ اپنے امیر سے وہ آج وہی کچھ کہہ رہے ہیں جو آج سے برسوں پہلے امین احسن نے ان کے ’’امیر المومنین‘‘ سے کہا تھا۔‘‘(ماہنامہ اشراق، جنوری / فروری ۱۹۹۸ء، ۲۷-۲۸)
امین احسن کا طنز و مزاح تفکر وتفنن کا حسین امتزاج ہوتا تھا۔ جب ان کی رگِ ظرافت بھڑ کتی تو ان کے چہرے پر مسکراہٹ کھیلنے لگتی ۔ایسی مسکراہٹ دیکھ کر انھیں جاننے والے جان لیتے تھے کہ اب قوس قزح کے رنگ بکھرنے لگے ہیں ، حتیٰ کہ بیماری میں بھی یہ رنگ پھیکے نہیں پڑتے تھے۔ عبدالرزاق صاحب اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں :
’’آج مولانا کی طبیعت اتنی اچھی نہ تھی کہ وہ اٹھ بھی سکتے ، اس لیے ہم خود ہی ان کے کمرے میں چلے گئے ۔ مولانا کمرے میں بیڈ پر آرام فرما رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد تکیے کی ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور آہستہ آہستہ گفتگو کی ۔ میرے لیے یہ بات بڑی حیرت کی ہے کہ اتنی ضعیفی اور کمزوری کے باوجود مولانا کی حسِ مزاح اور شگفتگی ابھی تک برقرار ہے ۔
مولانا کا موقع و محل کے مطابق مزاح بہت ہی اعلیٰ پائے کا ہوتا ہے۔ ‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۷۸)
غامد ی صاحب نے اس ضمن میں لکھا:
’’ایک صاحب نے، جن سے دین کی خدمت کے معاملے میں وہ ایک زمانے میں اچھی توقعات رکھتے تھے، بڑے اہتمام کے ساتھ کانفرنسیں منعقد کرنا شروع کیں ۔ ان میں وہ تمام مکاتب فکر کے علما کو بلاتے اور ان سے تقریریں کراتے تھے۔ دین کی خدمت کا جو تصور امین احسن رکھتے تھے، اس میں ظاہر ہے کہ اس طرح کی چیزوں کے لیے کوئی گنجایش نہ تھی۔ وہ صاحب انھیں بھی دعوت دینے آئے۔ امین احسن نے پوچھا: ان کانفرنسوں سے آپ کا مقصد کیا ہے؟ میں چاہتا ہوں کہ سب نقطہ ہاے نظر کے لوگ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں ۔ انھوں نے جواب دیا تو امین احسن نے بے ساختہ کہا: بھانت بھانت کے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی یہ خدمت تو ریلوے پچھلے سو سال سے انجام دے رہی ہے۔ میرا خیال ہے، اس کے لیے آپ کی کوئی ضرورت نہ تھی۔
اس معاملے میں بھی وہ صاحب ِطرز تھے۔ ایک بڑے عالم اور مصنف سے ناراض ہوئے تو ان پر پڑھے کم، لکھے زیادہ کا فقرہ چست کیا۔ مستشرقین کے اسلوبِ تحقیق پر تنقید کی تو اس کے لیے مکھی کو گھس گھس کر بھینس بنانے اور ٹڈے کی ٹانگ پر ہاتھی کا خول چڑھانے کے محاورے ایجاد کیے۔ فاطمہ جناح کی حمایت میں متحدہ محاذ بنا تو اسے مینڈکوں کی پنسیری باندھنے سے تعبیر کیا۔ اسی زمانے میں مولانا مودودی کا ایک جملہ بہت مشہور ہوا کہ ایک طرف ایک مرد ہے جس میں مرد ہونے کے سوا کوئی خوبی نہیں اوردوسری طرف ایک عورت ہے جس میں عورت ہونے کے سوا کوئی خرابی نہیں ۔ امین احسن نے اس پر تبصرہ کیا: تعجب ہے، ان لوگوں میں کوئی ایک مرد بھی ایسا نہیں نکلا جو ایک ایسے مرد کا مقابلہ کر سکے جس میں مرد ہونے کے سوا کوئی خوبی نہیں ہے۔ ...
... ان کے ایک پرانے ساتھی نے بتایا کہ ’’جماعت‘‘ کی طرف سے انھیں میانوالی بھیجا گیا ۔ میں ان کا رفیق سفر تھا۔ ہم بس کے ذریعے سے جا رہے تھے ۔ سرگودھا کے اڈے پر بس رکی تو انھوں نے مجھ سے کہا : گھی سمجھ کر تیل کھانے سے بہتر ہے کہ تیل سمجھ کر تیل ہی کھایا جائے۔ جاؤ ایک نان اور کچھ پکوڑے لے آؤ۔ ...
... طبیعت میں شگفتگی تھی، اپنی بیماری کا ذکر بھی کرتے تو لب و لہجہ ایسا ہوتا کہ چہروں پر مسکراہٹ پھیل جاتی۔ مذہبی حماقتوں پر ان کی خاص نظر رہتی تھی، یہ ذکر چھڑ جاتا تو ان کی گل افشانیِ گفتار کا عالم دیکھنے کی چیز ہوتا۔ لفظ لفظ میں تلمیح و تعریض سے وہ مضمون پیدا کرتے کہ سننے والا صاحب ِذوق ہوتا تو اش اش کر اٹھتا۔ ان کے پرانے دوستوں میں سے ایک مذہبی رہنما سے اسی طرح کی بعض باتیں سرزد ہوئیں تو ان پر تبصرے کے لیے ایسے خوب صورت اسالیب ایجاد کیے کہ خوف فساد خلق نہ ہوتا تو میں سناتا اور لوگ دیکھتے کہ امین احسن کو قدرت نے لفظ و معنی کو رشتہ بپا کرنے کی کیا صلاحیت بخشی تھی اور کس کمال سے نوازا تھا۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ۲۱،۲۵،۲۸)
ایک دفعہ ڈاکٹر خورشیدرضوی صاحب نے ان کی بعض منفر د آرا کے بارے میں سوال کیا کہ مولانا، آپ سے پہلے بھی کسی نے یہ بات کہی ہے ؟ امین احسن مسکرائے او رکہنے لگے:
’’اگر مجھ سے پہلے بھی کسی نے یہ بات کہی ہوتی تو اللہ تعالیٰ مجھے کیوں پیدا کرتا ۔‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۶۸)
عبد الرزاق صاحب نے اپنی ڈائری میں لکھا:
’’اس بار بھی مولانا نے بڑی دلچسپ باتیں کیں ۔ کہنے لگے کہ میں حیران ہوتا ہوں کہ میں نے اتنی کتابیں لکھ کیسے لیں ۔ آج تو ایک صفحہ تک نہیں لکھ سکتا اور حیرت ہوتی ہے کہ میں نے ۹ جلدوں پر مشتمل تدبر قرآن تک لکھ ڈالی ۔ مولانا نے مزید کہا کہ وہ آج کل اپنی ہی لکھی ہوئی تحریروں کو پڑھ رہے ہیں اور بعض اوقات کو انھیں خود اپنی لکھی ہوئی تحریر پر یقین نہیں آتا کہ میں نے کیسے لکھ لی ۔
مولانا نے مولانا حمید الدین فراہی کی بے حد تعریف کی اور کہا کہ وہ بڑے ذہین شخص تھے ۔ اگر وہ برطانیہ جیسے ملک میں ہوتے تو زیادہ بہتر کام کر سکتے تھے۔‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۷۸)
جسٹس (ر)محمد افضل چیمہ لکھتے ہیں :
’’ایک مرتبہ کافی عرصہ کے بعد ملاقات ہوئی۔ میں نے صحت کا حال دریافت کیا۔ فرمانے لگے : دوران سر کی تکلیف ہے ۔ گراں گوشی بھی ہے ، کسی کی سنتا نہیں اپنی سنائے جاتا ہوں ۔ کراچی گیا تھا۔ وہاں ڈاکٹروں نے جدید آلات سے معائنہ کیا ، دوائیں تجویز کیں مگر چند اں افاقہ نہیں ہوا۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۸۱)
ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی اپنی ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہیں :
’’مو لا نا امین احسن اصلا حی صا حب سے ایک گھنٹہ گفتگو رہی ۔مجھے جو کچھ بھی پو چھنا ہوتا اسے کا غذ پر لکھ کر انہیں پیش کر تا چو نکہ مو لا نا کی قوت سما عت یکسر دم توڑ چکی تھی، البتہ بو لتے بالکل صاف تھے ۔ نقا ہت کا ذکر کر تے ہو ئے بتا یا کہ نما ز میں میرے دونوں جانب دو آدمی اس اندیشہ کے تحت ہو تے ہیں کہ کہیں میں زمین بو س نہ ہو جا ؤں ۔‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۷۴)
امین احسن لاہور سے بیگم توصیف محمود صاحبہ کے نام ایک خط میں دین کی جزوی باتوں کی اہمیت واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’مجھے اس با ت سے اطمینا ن ہو ا کہ آپ داڑھی کو دین کا ایک جزو ما نتی ہیں ۔ اگر ما نتی ہیں تو پھر اس سے کچھ زیادہ فر ق نہیں پیدا ہو تا کہ یہ چھوٹا جزو ہے یابڑا جزو ۔ اگر چھوٹا جزو ہے جب بھی انسا ن کی سعا دت اسی میں ہے کہ اس کا اہتما م کر ے جو با تیں چھوٹی ہوتی ہیں ۔ سچ پوچھئے تو دین کے سا تھ آدمی کے گہر ے تعلق کا اظہار انہی کے اہتما م سے ہو تا ہے جو آدمی دین کے فرائض وو اجبا ت سے غفلت کر تا ہے اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کا اہتما م کر تا ہے ، وہ تو بلا شبہ ، حضرت مسیح ؑ کے ارشا د کے مطا بق، مچھر کو چھا نتا اور او نٹ کو نگلتا ہے ۔ لیکن جو آدمی فرائض و واجبات کو ادا کر تا ہے اس کے لئے چھو ٹی چیزوں سے بے پروائی کی تو قع نہیں کی جا سکتی۔ اگر ایک شخص لو گو ں کی ہزاروں لا کھو ں کی اما نتیں ادا کر تا ہے تو یہ کس طر ح ممکن ہے کہ وہ کسی کے چند روپوں کی اما نت میں خیا نت کر کے خائن اور نا دہند کہلا ئے ۔ چنا نچہ واقعہ یہ ہے کہ جو لو گ دین کی بنیا دی با تو ں میں سر گر م ہو تے ہیں وہ جزئیا ت کے اہتما م میں بھی بڑے سر گر م ہو تے ہیں ۔ وہ یہ نہیں پسند کر تے کہ وہ خدا اور رسول سے کسی معمو لی با ت کے معا ملے میں شر مندہ ہوں ۔ ایک دوسرا پہلو اس سے بھی زیا دہ اہم یہ ہے کہ دین کی کسی با ت کو ، خوا ہ وہ چھو ٹی ہو یا بڑی، اگر لو گ حقیر سمجھنے لگیں اور اس کا اختیا ر کر نا تہذیب اور فیشن کے خلا ف سمجھا جا نے لگے تو ہر صا حب ایما ن پر یہ فر ض ہو جا تا ہے کہ اہل زما نہ کے علی الر غم وہ اس چیز کو زندہ اور قائم رکھنے کی کو شش کر ے ۔ جو مسلمان دین کی کسی چھو ٹی سے چھو ٹی چیز کے لئے یہ غیر ت دکھا تا ہے اور مذاقِ زما نہ سے مر عو ب ہو ئے بغیر اس کا اہتما م کر تا ہے اور اس کی خا طر اندر اور با ہر کے لو گوں کے طعن و تشنیع کا ہدف بنتا ہے ، دین میں اس شخص کا درجہ مجا ہد فی سبیل اللہ کا ہے ۔ چنا نچہ اس دور میں جو تعلیم یا فتہ نو جوان کا لجوں اور یو نیو رسٹیوں کے ما حو ل میں بھی دا ڑھی رکھتے ہیں میں ان کو مجا ہد سمجھتا ہو ں اور انہی سے یہ تو قع رکھتا ہو ں کہ اس زما نے میں وہ اسلا م کی کچھ خدمت کر سکیں گے۔ علی ھٰذاالقیاس جدید تعلیم پائی ہو ئی ان لڑکیوں کے لئے بھی میرے دل میں بڑا احترام ہے جو محض حکمِ شریعت ہو نے کی بنا پر پر دہ کا اہتما م کر تی ہیں ، اس لیے کہ تہذیب ِجدید کے ماحول میں پر دہ بھی اسی طر ح مذا ق بن کے رہ گیا ہے جس طر ح دا ڑھی ۔
در حقیت دین کے احکا م کی قدر و قیمت کے تعین میں ان حا لا ت کو بڑا د خل ہو تا ہے جن حالات میں وہ کا م انجا م دیے جا تے ہیں ۔ اگر دین کا ایک چھو ٹے سے چھو ٹا کا م بھی ایسے زمانے میں کیا جائے جس زما نے میں اس کا م کا کر نے والا ہر محفل میں نکو بن جا تا ہو تو اس کا م کا درجہ بہت او نچا ہو جا تا ہے ۔ اس زما نے میں داڑھی صرف ایک نیکی ہی نہیں بلکہ آدمی کی ایما نی غیرت اور اس کے عز م و رسو خ کا سب سے بڑا نشا ن ہے۔
یہ میں نے جو کچھ کہا ہے اس مفروضے پر کہا ہے کہ دا ڑھی ایک چھو ٹی چیز ہے۔ لیکن میرے نزدیک دا ڑھی چھو ٹی چیز نہیں ہے بلکہ اس کی حیثیت ایک ملی و اسلا می شعار کی ہے ۔ یہ ایک مسلمان کے مسلمان ہو نے کی ظا ہر ی علا مت ہے ۔ اس وجہ سے اگرکوئی شخص اس کو مٹاتا ہے تو وہ ایک اسلا می شعار کو مٹا تا ہے اور یہ اس با ت کی دلیل ہے کہ وہ شخص اپنے مسلمان ہو نے پر احسا سِ فخر کی بجا ئے احسا س ِکمتری میں مبتلا ہے ۔ اب آپ خود فیصلہ کیجئے کہ جو شخص اپنے دین کے معا ملے میں احسا سِ کمتری میں مبتلا ہو ا س سے کس خیر کی امید کی جا سکتی ہے۔
آخر میں یہ بات بھی عرض کر وں کہ جو لو گ دین کی معمو لی با تو ں کی ہمت نہیں رکھتے ان سے دین کے کسی بڑے کا م کی تو قع نہیں کی جا سکتی۔ حضرت مسیح ؑ نے فر ما یا ہے کہ جو شخص ایک پیسے میں چور ہے، ایک لا کھ اما نت کس طر ح ادا کر سکتا ہے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۲۴-۲۵)
امین احسن کے قریبی رفیق ڈاکٹر شہباز حسین روایت کرتے ہیں کہ مولانا امین احسن نے بتایا کہ ایک دفعہ انھوں نے مولانا فراہی سے ڈاڑھی کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ جس طرح دیگ کا ایک چاول پوری دیگ کی کیفیت کی غمازی کرتاہے، اسی طرح ڈاڑھی پوری شخصیت کی غمازی کرتی ہے ۔ اس کے بعد میں نے مولانا فراہی سے ڈاڑھی کے بارے میں کبھی سوال نہیں کیا۔ڈاکٹر شہباز حسین کے بقول مولانا اصلاحی کہا کرتے تھے کہ میں ڈاڑھی کے اندر سے نکلنے کا قائل ہوں ، یعنی لوگ دل سے اور برضا ورغبت رکھیں ۔
امین احسن بڑی تیز حس ِمزاح رکھتے تھے۔بعض اوقات تو محسوس ہوتا تھاکہ انھوں نے جو جملہ کسا ہے، وہ بہت غوروفکر کے بعد تخلیق کیا ہے، مگر عمر کے آخری حصے میں غیر معمولی نسیان کی وجہ سے بعض اوقات ان سے غیر شعوری طور پر مزاح کاصدور ہوجا تا تھا۔مثال کے طور پر چند دن پرانی بات کوبرسوں پرانی بات کہہ کر بیان کررہے ہوتے تھے۔ایک آدمی ان کے ساتھ صبح کسی مسئلے پر بات کر کے گیاتوشام میں اسی آدمی کے ساتھ وہی بات کسی اور آدمی کی بات کہہ کر کر رہے ہوتے تھے۔رجم کے معاملے میں ان کے موقف سے ہماری مذہبی دنیا میں ہلچل پید ا ہوگئی تھی ۔ایک دفعہ میں نے ان سے پوچھا:اب آپ کی رجم کے بارے میں کیا راے ہے؟ تو انھوں نے ذہن پر زور ڈالا، پھر بے بسی کے عالم میں اپنے پرانے رفیق اسحاق ناگی صاحب سے پوچھا: کیوں بھئی، رجم کے بارے میں کیا راے ہے؟کہیں میں اس کا منکر تو نہیں ہوں ؟ ناگی صاحب اس پر ہنسنے لگے۔ پھرامین احسن بولے : بھئی، جو بھی راے ہوگی ، دلائل کی بنیاد پر ہی قائم کی ہوگی ، آج بھی کوئی دلائل کے ساتھ اسے غلط ثابت کر دے تو ڈگیں ڈال دیں گے۔
امین احسن غیرت حق کو جزو ایمان قرار دیتے تھے ۔وہ ہر معا ملے پر بہت غورو فکر کیا کرتے تھے۔ مخالف اور موافق دلائل کا اچھی طرح جائزہ لیا کرتے تھے۔جب حق اچھی طرح واضح ہوجاتا توپھر مخالفین کو کوئی رعایت دینے کے قائل نہ تھے۔رجم کی سزا کے اطلاق کے بارے میں انھوں نے مسئلے کوصحیح معنوں میں قرآن کی روشنی میں دیکھا اور پھر ہر خوف سے بے نیاز ہو کر اپنا موقف کھل کر بیا ن کیا ۔ دوسر ے اہل علم اس مسئلے میں روایا ت کی روشنی میں قرآن کی شرح کرتے تھے ، مگر امین احسن قرآن کی روشنی میں روایا ت کی وضاحت کرتے تھے ۔ اس سے ان کی فطری طور پر رائج موقف سے مختلف راے قائم ہوئی ۔ملک اور بیرون ملک میں تقلید و جمود کے رسیا لوگوں نے ان کے خلاف طوفان کھڑ ا کردیا ۔آداب علم سے بے بہرہ ایک گروہ کی جانب سے انھیں یہ بھی کہا گیا کہ اپنی راے واپس لیں ، ورنہ نقصان اٹھانا پڑے گا، مگر امین احسن اس دھمکی کو بالکل خاطر میں نہ لائے۔پھر انھیں کہا گیا کہ ہم آپ کو عدالتو ں میں گھسیٹیں گے۔امین احسن کا جواب تھا:ضرور ایسا کیجیے تاکہ مجھے اور باتیں کہنے کا موقع ملے، جو میں ابھی تک زبان پر نہیں لایا۔ایک عزیز دوست نے ان کے اپنی راے پراصرارکو خلاف مصلحت قرار دیا تو امین احسن کا جواب تھا:
’’میرے اور آپ کے درمیان ایک اصولی اختلاف ایسا ہے کہ میں آپ کو اپنی رائے کا قائل نہیں کر سکتا ۔ وہ یہ کہ میں کوئی رائے اختیار کرنے میں اصل اہمیت دلیل کودیتا ہوں ، اشخاص کو اہمیت میرے نزدیک ثانوی ہے ۔ اس کے برعکس میں آپ کو اصل اعتماد اشخاص پر ہوتا ہے ، دلیل کو آپ دوسرے درجے میں رکھتے ہیں ۔ میں اس معاملے میں آپ کو ملامت نہیں کرتا۔ اول تو اس میں مزاج کو دخل ہے ۔ثانیاً میری ذمہ داریاں آپ کی ذمہ داریوں سے مختلف ہیں ۔ مجھ پر تحقیق سے اگر کوئی حق واضح ہو جائے تو واجب ہے کہ اس کو عند الضرورت برملا کہو، اگرچہ میرا سر قلم کر دیا جائے ۔ لیکن آپ پر یہ ذمہ داری نہیں ہے۔‘‘ (۲۷)
امین احسن پر ذمہ داری چاہے مالی نوعیت کی ہو یا علمی نوعیت کی ، وہ دونوں پہلوؤں سے بہت حساس تھے۔ ۲۲؍ مارچ ۱۹۷۳ء کو رحمان آباد سے سردار محمد اجمل لغاری کو خط میں لکھتے ہیں :
’’امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہو گا ۔ میں آپ کی حسن و تدبیر و تدبر کا نہایت ممنوں ہوں کہ میں عزت و آبرو کے ساتھ رقبہ پر آ گیا ہوں ۔ الحمد للہ اب میں کسی کا قرض دار نہیں ہوں ۔ سب قرضے آپ کی تدبیر سے اللہ تعالیٰ نے ادا کر دیے ہیں ۔ میں نے یہ قسم کھائی تھی کہ میں جب تک لوگوں کا پائی پائی ادا نہ کر لوں گا اس وقت تک لاہور سے نہ نکلوں گا ۔ قرضوں کے بار کا احساس یوں تو مجھے ہمیشہ رہا لیکن بیماری کے بعد تو اس احساس نے اتنی شدت اختیار کر لی تھی کہ اس سے میری کمر ٹوٹی جا رہی تھی ۔ الحمد للہ اب میں اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا ہوں ۔ اور اس کے لیے تہ دل سے آپ کا شکر گزار ہوں ۔ صورت حال اتنی سنجیدہ ہو گئی تھی کہ آپ کے سوا کوئی دوسرا اس کو حل نہیں کر سکتا تھا۔
یہاں میرے آشیانے پر اگرچہ دن میں چڑیوں ، مکھیوں ، بھڑوں کی یورش رہتی ہے اور شب میں چمگادروں کی ، لیکن الحمد للہ میں لکھنے کا کام پورا کر لیتا ہوں ۔ البتہ شب میں لکھنے کا کام نہیں کر سکتا ، اس لیے کہ لالٹین کی روشنی میں نگاہ پر زور پڑتا ہے ۔ اگر حالات مساعد رہے تو تین ماہ میں چوتھی جلد تیار کر دوں گا جو سورۂ نور پر تمام ہو گی ۔ آدھے سے زیادہ کام اس کا ہو چکا ہے۔‘‘( سہ ماہی تدبر ،جولائی ۱۹۹۸ء، ۸۳)
۲۱؍ اکتوبر ۱۹۶۵ء میں محمود احمد لودھی کے نام ایک خط میں امین احسن نے اپنی جنگجو طبیعت کے بارے میں لکھا:
’’یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ آپ کا مطالعہ قرآن جاری ہے ۔ میں نے بھی کسی نہ کسی شکل میں کچھ نہ کچھ کام جاری رکھ چھوڑا ہے۔ یہ کام اس دور کے لوگوں کے لیے ایک بے مزہ اور غیرمفید کام ہے ۔ اس وجہ سے نہ میں پہلے پرامید تھا نہ اب ہوں ۔ لیکن اداے فرض کے طور پر کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہتا ہوں ۔ کسی کو اس سے نفع پہنچے یا نہ پہنچے ، خود میرے لیے یہ نافع ہے ۔
افسو س ہے کہ ادھر تحریر کے کام میں رکاوٹ پیدا ہو گئی ۔ کچھ تو بار بار مکان کی تبدیلی کے سبب سے ایک الجھن سی رہی ۔ پھر جنگ نے ساری توجہ اپنی طرف جذب کر لی ۔ میں آدمی تو قرطاس و قلم کا ہوں لیکن طبیعت جنگجو پائی ہے ۔ اس وجہ سے اس چیز سے بڑی دلچسپی ہے ۔ ریڈیو اور اخبارات سے اس دوران میں طبیعت کا یہ شوق پورا کرتا رہا ہوں ۔
مجھے امید ہے کہ ڈھاکے کی آب و ہوا آپ کو راس آئی ہو گی اور آپ وہاں زندگی کے نئے تجربات سے آشنا ہوں گے ۔ اس دوران میں اپنے مشرقی بھائیوں سے متعلق میرے علم میں بھی بعض نئے اضافے ہوئے ہیں ـ ۔ اب تک انگریزوں کے پروپیگنڈے کے زیر اثر ہمارا ذہن یہ بنا ہوا تھا کہ بنگال کے لوگ جنگ کے لیے موزوں نہیں ہیں ۔ لیکن اس جنگ میں یہاں جو مشاہدے ہوئے ہیں ان سے یہ ثابت ہو گیا کہ یہ انگریزوں کی شرارت تھی کہ انھوں نے بنگال کے لوگوں کو فوج سے الگ رکھا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی ہو گی کہ سید احمد شہیدؒ کی دعوت جہاد کو سب سے زیادہ آدمی اسی علاقے سے ملے تھے ۔ بہرحال اس جنگ کے فوائد میں سے ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ بنگال کے متعلق یہ دیرینہ غلط فہمی رفع ہو گئی اور دنیا پر یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ اللہ کے فضل سے ہمارے دونوں بازو شمشیر زن ہیں ، ایک سے ایک بڑھ کر۔‘‘(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۹۱)
سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی نے امین احسن کی عالمانہ شان، اندھی تقلید سے بے زاری اور ذوق تحقیق کے بارے میں لکھا:
’’مو لا نا اصلا حی نے بڑی سر گرم زندگی گزاری ۔ وہ قلم کے بھی دھنی تھے اور زبا ن کے بھی۔ اردو تو ان کی ما دری زبا ن تھی ہی عر بی کے رموز وا سرا ر پر بھی وہ ایسی عا لما نہ نظر رکھتے تھے کہ ان کا شا ید ہی کو ئی ہم سر مو جو د ہو ۔ قرآن کی زبا ن اور زما نۂ جاہلیت کے عر بی اد ب پر ان کو بے مثا ل عبورتھا ۔ ان کی تفسیر ’’تدبر قرآن ‘‘کو تفسیر ی ذخیرے میں انتہا ئی اہم مقا م حا صل ہے۔ ...
مو لا نا اصلا حی آنکھ بند کر کے کسی کے پیچھے چلنے والے نہیں تھے۔ وہ کھلی آنکھ سے مسا ئل کا جائزہ لیتے اور پھر اپنی رائے کا بلا جھجک اور بے دھڑک اظہا ر کر دیتے ۔ وہ اپنے شا گردوں اور نیاز مندوں سے اندھی تقلید کا مطا لبہ نہیں کر تے تھے ۔ وہ ان کے ذوقِ تحقیق اور تجسس کو ابھا رتے اور ان سے آزادانہ رائے قائم کر نے کی توقع رکھتے۔ تقلید کا بند دروازہ کھولنے پر انھوں نے بڑا زور دیا، اس پر بڑی طا قت صرف کی۔ ‘‘ (ماہنامہ اشراق ،جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ۲۹)
لاہور سے ۶ ؍جون ۱۹۶۶ء کو محمود احمد لودھی صاحب کو خط میں امین احسن بے عمل ،علم کے بارے میں متنبہ کرتے ہیں :
’’اس میں شبہ نہیں ہے کہ بعض او قا ت زیا دہ تفصیلا ت معلو م کر نے کا شو ق آدمی کے لئے فتنہ بن جا تا ہے۔ اگر چہ علم میں قنا عت پسندی کے بجا ئے حرص کا رویہ صحیح ہے لیکن یہ اسی حالت میں جب اس حرصِ علم کے سا تھ اس کے برابر عمل کا جذبہ بھی ہو ۔یہ نہ ہو تو یہ علم وبا ل بن کے رہتا ہے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۲۰)
کسی بھی محقق کو اپنی راے بڑی عزیز ہوتی ہے۔وہ اس میں نشان زد کی جانے والی کسی غلطی کا جلداعتراف نہیں کر پاتا، مگر امین احسن اس معاملے میں بھی ایک استثنا تھے۔اس ضمن میں غامدی صاحب لکھتے ہیں :
’’فراہی سے انھوں نے قرآن پڑھا، اس کی زبان کا وہ ذوق پایا جو شاید ہی کسی کو نصیب ہوا ہو۔ نظم ِقرآن فراہی کی دریافت ہے، لیکن امین احسن نے اپنی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ میں اسے وہاں پہنچا دیا ہے کہ اس کے منکر بھی اب انکار کے لیے کوئی راہ نہیں پاتے۔ امین احسن کا پایۂ علم وہی تھا جو اس امت میں مختلف علوم و فنون کے ائمۂ مجتہدین کا رہا ہے۔ زبان، ادب، فلسفہ و حکمت اور قرآن کے معارف، ان سب میں وہ جس مقام پر فائز تھے، اس سے آگے کوئی مقام آسانی سے تصور میں نہیں آتا۔ ان علوم میں لاریب، وہ اپنے وقت کے امام تھے۔ ان کی بعض نئی تحقیقات سے متعلق جب کوئی شخص ان سے متقدمین کے کسی حوالے کا تقاضا کرتا تو وہ بڑے اعتماد کے ساتھ کہتے :مطمئن رہیے، کچھ عرصے کے بعد ہم بھی متقدمین ہی ہو جائیں گے۔ میں نے ایک جگہ لکھا تھا کہ میں نے ان کی مجلس میں صدیوں کے عقدے لمحوں میں کھلتے دیکھے اور بارہا اعتراف کیا ہے کہ:
طے می شود ایں رہ بہ درخشیدنِ برقے
ما بے خبراں منتظرِ شمع و چراغیم۱۲؎
ان کا مقام یہی تھا، لیکن اس کے باوجود اپنی کسی عزیز سے عزیز رائے اور تحقیق کے خلاف بھی کوئی حق اگر سامنے آ گیا ہے تو ان کے دل و دماغ کو میں نے اس طرح اس کے سامنے جھکتے دیکھا ہے کہ حیرت ہو جاتی تھی۔ ان کے مدرسۂ علمی کا میں پچھلی صفوں میں بیٹھنے والا ایک طالب علم ہوں ۔ سورۂ توبہ میں ’اشہر حرم‘کا مفہوم انھوں نے جس طرح متعین کیا ہے، اس پر مجھے اطمینان نہیں ہو سکا۔ میرا خیال تھا کہ بات بہت سادہ ہے، لیکن انھوں نے اسے جس طرح دیکھا ہے، اس کے نتیجے میں یہ بہت کچھ الجھ گئی ہے۔ انھی کے فیض تربیت سے جو کچھ پایا ہے، اس کی روشنی میں ایک مرتبہ بہت ڈرتے ڈرتے میں نے اپنا نقطۂ نظر ان کے سامنے رکھ دیا۔ وہ میری بات سنتے رہے، سوالات بھی کیے، اس کے بعد چند لمحوں کے لیے خاموش ہو گئے، پھر فرمایا: میں نے اس آیت پر برسوں غور کیا اور اس کے بعد ایک رائے قائم کی تھی، لیکن تم ٹھیک کہتے ہو۔ پھر بڑے تاثر کے عالم میں یہ شعر پڑھا:
گماں مبرکہ بہ پایاں رسید کار مغاں
ہزار بادۂ ناخوردہ در رگ تاک است‘‘۱۳؎
(اشراق، جنوری / فروری ۱۹۹۸ء، ۱۷-۱۸)
دکھ در د ہر شخص کی زندگی کا لازمی حصہ ہیں ،مگرعام طور پرلوگ ہمت ہار جاتے ہیں اور جزع فزع کرنے لگتے ہیں ،مگر امین احسن اس معاملے میں بہت مضبوط اعصاب رکھتے تھے اور کوئی کم زور بات زبان پر نہ آنے دیتے تھے۔ صحافی اور کالم نگار جناب ارشاد احمد حقانی لکھتے ہیں :
’’ ... جماعت اسلا می حلقۂ لاہور کے ایک اجتما ع کے مو قع پر بھی اس گا ڑی کو سڑک پر حادثہ پیش آگیا تھا جس میں مو لا نا مودودی اور مو لا نا اصلا حی اکٹھے سفر کر رہے تھے۔ مجھے اس تقریب کا ’’نا ظم اجتما ع‘‘مقرر کیا گیا تھا۔ اس حا دثے کے بعد جس میں دونوں بزرگو ں کو چوٹیں آئی تھیں ان کی نگہداشت اور ابتدائی طبی امداد کی فراہمی بھی میرے فرائض میں شامل تھی۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ مو لا نا اصلا حی نے انتہا ئی ضبط ِنفس کا مظا ہر ہ کیا اور تکلیف کے اس وقت میں بھی ان کی زبان اور ادووظائف سے تر تھی اور وہ مسلسل اللہ کا ذکر کر رہے تھے۔ ‘‘(ماہنامہ اشراق، جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ۳۷)
امین احسن کی دنیا میں بڑی بڑی شخصیات کی کوئی حیثیت نہ تھی ،وہ دلیل کی بنیاد پر بات مانتے تھے اور دلیل کی ہی بنیاد پردوسروں کو قائل کرتے تھے۔ لاہور سے ۵ ؍نومبر ۱۹۸۴ء کو امین احسن نے سردار محمد اجمل خان لغاری کے نام خط میں اسی پہلو سے لکھا:
’’عنا یت نا مہ مو صو ل ہوا۔ ایک مد تِ دراز کے بعد اچا نک عطوفت نا مہ کا نزو ل طویل حبس کے بعد ابر ِرحمت کے بر سنے سے زیا دہ خوش آئندہ تھا ۔ اس تو جہ فر مائی کا دلی شکریہ ۔میں نے اس کی رسید بھجوادی تھی اور خط رکھ لیا تھا کہ بعض ضرور ی کا مو ں سے فر صت پا نے کے بعد مفصل جواب لکھو ں گا ۔ لیکن آج جوا ب لکھنا چا ہا تو دو صفحے لکھنے کے بعد یہ اندازہ ہو ا کہ اس طول کلا م سے کوئی فا ئد ہ نہیں ہو گا ۔ میر ے اور آپ کے درمیان ایک اصولی اختلاف ایسا ہے کہ میں آپ کو اپنی کسی رائے کا قا ئل نہیں کر سکتا ۔وہ یہ کہ میں کو ئی رائے اختیا ر کر نے میں اصل اہمیت دلیل کو دیتا ہوں ۔ اشخا ص کی اہمیت میرے نزد یک ثا نو ی ہے۔ اس کے بر عکس آپ کا اصل اعتما د اشخا ص پر ہوتا ہے ، دلیل کو آپ دوسرے درجہ میں رکھتے ہیں ۔
میں اس معا ملہ میں آپ کو ملا مت نہیں کر تا۔ اول تو اس میں مزا ج کو دخل ہے۔ ثا نیاً میر ی ذمہ داریاں آپ کی ذمہ داریوں سے مختلف ہیں ۔ مجھ پر تحقیق سے اگر کو ئی حق وا ضح ہو جائے تو واجب ہے کہ اس کو عند الضرورت بر ملا کہو ں اگر چہ میر ا سرقلم کر دیا جا ئے ۔ لیکن آپ پر یہ ذمہ داری نہیں ہے۔
رجم کے معا ملہ میں آپ کو میر ی رائے سمجھ میں نہیں آئی ، لیکن جو رائے آپ اختیار کیے ہوئے ہیں کیا آپ اس کو سمجھ کر اختیار کیے ہوئے ہیں ؟ ظا ہر ہے کہ نہیں بلکہ محض تقلید کی بنا ء پر اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ آپ تقلید کے سا تھ کسی مسلک کو اختیار کر کے عند اللہ بر ی ہو سکتے ہیں لیکن میں نہیں بری ہو سکتا ۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۲۹)
اصل مسئلہ: آخرت کی نجات
اصل مسئلہ آخرت کی نجات ہے ،یہ بات ہر وقت امین احسن کے پیش نظر ہوتی تھی۔یہی وجہ تھی کہ وہ دنیا سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرتے تھے۔ ۶ ؍ اگست ۱۹۷۰ء کو لاہور سے جناب محمود احمد لودھی کے نام خط میں امین احسن لکھتے ہیں :
’’میر ی صحت ادھر برابر خرا ب رہی اس وجہ سے تقریباً دو ہفتے سے لکھنے کا کا م بالکل بند ہے۔ درس کا کا م کچھ ہو رہا ہے۔
آپ حضرات سے امید یں تو بہت کچھ تھیں لیکن شکا یت الحمد للہ کو ئی نہیں ہے ۔آپ اپنے حا لا ت سے مجھ سے زیادہ واقف ہیں ۔میں یہ گما ن نہیں کر سکتا کہ آپ حا لا ت کے مسا عد ہونے کے باوجود میر ی امیدوں کا سا تھ نہ دے سکے ۔ اب تو میں نے یہ طے کر لیا ہے کہ جو کچھ اپنے سے بن سکے وہ کرو اور مستقبل کا معا ملہ اللہ پر چھو ڑ و۔ اللہ تعا لیٰ کو منظور ہو گا تو کا م جا ری رہے گا نہ منظور ہو گا تو بند ہو جائے گا ۔
میر ی صحت ادھر برا بر خرا ب رہی اور اب بظا ہر یہ تقا ضائے عمر ہے ۔میرے سا منے اب اصل مسئلہ کا مو ں کی تکمیل کا نہیں بلکہ آخرت کی نجا ت کا ہے۔ چا ہتا ہوں کہ مر تے دم تک کچھ خدمت انجام پا تی رہے۔ درس بھی کسی بڑی توقع کے سا تھ نہیں بلکہ محض ادائے فر ض کے لیے دے رہا ہوں اور چا ہتا ہو ں کہ یہ کسی نہ کسی شکل میں آخر دم تک جا ری رہے۔ ‘‘(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۳۴-۳۵)
نفاست امین احسن کی شخصیت کالازمی حصہ تھا۔یہ خوبی ان کے لباس ہی میں نہیں ، بلکہ ماحول میں بھی نمایاں ہوتی تھی۔ ضیاء الدین اصلاحی لکھتے ہیں :
’’مولانا اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ بڑے پر کشش ، وجیہ و شکیل ، جامہ زیب ، بارعب اور نفاست پسند شخص تھے ۔ انھیں صفائی بہت پسند تھی ۔ کبھی ان کے جسم پر میلے کچیلے کپڑے نہیں دیکھے گئے ۔ لباس سفید پہنتے تھے جس پر کہیں داغ دھبہ نہیں ہوتا تھا۔ لباس ہی کی طرح ان کا کمرا بھی چمکتا اور جگمگاتا رہتا تھا۔ ان کی پڑھنے لکھنے کی میز بہت مرتب اور صاف ہوتی ۔ ان کی ہر ہر چیز سے حسن ، نفاست اور سلیقہ مندی ظاہر ہوتی تھی اور کہیں سے بدذوقی اور بے ڈھنگے پن کا پتا نہیں چلتا تھا۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۱۴)
ڈاکٹرزاہدمنیر عامر صاحب اپنی ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہو ئے لکھا:
’’ہم لاؤنج سے گزرکر جس کمرے میں آئے وہ غالباً مولانا ہی کا بیڈ روم تھا ۔ سلیقے اور نفاست سے رکھی ہوئی اشیاء ، صاف ستھرا ماحول اور اس میں اجلے اجلے مولانا امین احسن صاحب کا سراپا، قریب روایتی بزرگوں کی طرح پان کے اسباب دھرے ہوئے ، وہ نقشہ اب بھی آنکھوں کے سامنے ہے ۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۶۸)
امین احسن کو جب کسی شخص پر غصہ آتا تو وہ سخت الفاظ اور اسلوب میں اس کا اظہار کرتے۔اور اگر انھیں احساس ہوتا کہ اس میں ان سے زیادتی ہوگئی ہے تو یہ جلال جمال میں تبدیل ہوجاتاتھا۔
ضیاء الدین اصلاحی لکھتے ہیں :
’’جب کسی پر غصہ آتا اور بہت برہم ہو جاتے تو بعض اوقات کچھ سخت سست اور ناگفتنی بھی کہہ جاتے لیکن جلد ہی ان کا غصہ فرو ہو جاتا۔ کسی سے کینہ کدورت نہ رکھتے ۔ ‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۱۵)
غامدی صاحب امین احسن کی ناراضی کی کیفیت بیان کرتے ہیں :
’’وہ اتنے سچے، اتنے بے لاگ اور اتنے دو ٹوک تھے کہ مصلحت اندیشی کے پیمانے سے اسے خطرناک سمجھا جائے گا۔ جو کچھ کہنا چاہتے، بغیر کسی تردد کے کہہ دیتے۔ اپنے رفقا میں فکر و عمل کا کوئی تضاد کسی حال میں برداشت نہ کرتے۔ ان کی محبت بے پناہ تھی، مگر اخلاص کی گہرائی سے جس طرح یہ محبت چشمہ بن کر پھوٹتی تھی، اسی طرح رنج بھی ابل پڑتا تھا، تاہم دیکھنے والے دیکھتے کہ اس میں کسی بغض، کسی کینے اور کسی دشمنی کا کوئی شائبہ نہ ہوتا۔ گویا وہی معاملہ تھا کہ:
قہر بھی اس کا ہے اللہ کے بندوں پہ شفیق‘‘
(ماہنامہ اشراق، جنوری / فروری ۱۹۹۸ء، ۲۷)
جماعت اسلامی کے قیام کے کچھ عرصہ بعد مولانا محمد منظو ر نعمانی اورمولانا ابوالحسن علی ندوی کوامیر جماعت کی شخصیت سے کچھ شکایتیں پیدا ہو گئیں ۔ان کے نزدیک جماعت کے مقاصد کے لحاظ سے امیر جماعت کو نہایت عبادت گزار اورمتقی ہونا چاہیے تاکہ اس کی ذات سے سلف صالحین کی یاد تازہ ہو جائے ،مگرمولانا مودودی ان کے معیار تقویٰ پر پورے نہیں اترتے تھے۔اس لیے وہ جماعت سے الگ ہو گئے ۔اس معاملے میں انھوں نے امین احسن کو بھی اعتماد میں لیا تھا، مگر وہ ان کی توقع کے برخلاف جماعت ہی میں رہے ۔امین احسن نے انھیں کہا کہ آپ حضرات تقویٰ اور عزیمت کے جس مقام پر ہیں ،آپ کا امیر جماعت کی شخصیت پر اطمینان نہ ہونا سمجھ میں آتا ہے، لیکن میں تو مولانا مودودی سے بھی گیا گزرا ہوں ، میں اس چیز کو جماعت سے علیحدگی کی بنیاد نہیں بنا سکتا ۔ یہ واقعہ امین احسن کے عجز و انکساری کا غماز ہے ۔
جسٹس (ر) محمد افضل چیمہ لکھتے ہیں :
’’فیلڈ مارشل ایوب خان اور مس فاطمہ جناح کے مابین صدارتی انتخاب کے دوران جماعت اسلامی نے حضرت مولانا مودودی کی منظوری سے فیلڈ مارشل کے مقابلہ میں مس فاطمہ جناح کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ اس میں چوہدری محمد علی سابق وزیر اعظم بھی ان کے ہم خیال تھے۔ اس کے برعکس مولانا اصلاحی عورت کی سربراہی کی شرعی ممانعت کے قائل تھے ۔ چوہدری محمد علی نے اپنے متعدد بیانات اور تقاریر میں فیلڈ مارشل پر سخت تنقید کرتے ہوئے مس فاطمہ جناح کی حمایت میں دلائل دیے ، جس سے مولانا اصلاحی کو شدید اختلاف تھا ۔ چنانچہ انھوں نے چوہدری محمد علی کے خلاف سخت تنقیدی بیان دیا جس سے چوہدری صاحب کی تنقیص و تحقیر کا پہلو نمایاں تھا۔ معلوم ہوتا ہے بعد میں حضرت مولانا کو چوہدری صاحب کے جذبات مجروح ہونے کا خیال آیا۔ چنانچہ وہ بہ نفس نفیس چوہدری صاحب کی خدمت میں تشریف لے گئے ، ان سے معذرت بھی کی اور ان کی خدمت میں ’’تدبر قرآن‘‘ کی پہلی جلد بھی پیش کی۔ اس ملاقات میں احقر کو بھی معیت کا شرف حاصل تھا۔ چوہدری صاحب مرحوم مجھ سے بھی ناراض تھے مگر بکمال شفقت صفائی قلب کا اظہار فرمایا۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۸۳)
تفریح ہر انسان کی ضرورت ہے اور ہر انسان کسی نہ کسی ذریعے سے اور کوئی نہ کوئی تفریح حاصل کرتا بھی ہے۔امین احسن کی تفریح کے بارے میں غامدی صاحب لکھتے ہیں :
’’... علم و عمل کے جس مرتبے پر وہ فائز تھے، وہاں کھیل تماشے کا کیا گزر؟ لیکن ملک سے ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ پاکستان اوربھارت اگر کبھی میدان میں اترتے تو بار بار پوچھتے اور اس وقت تک مطمئن نہ ہوتے، جب تک پاکستان کی فتح کا یقین نہ ہو جاتا۔ غالب، اقبال اور شبلی کے بڑے مداح تھے۔ ان کے اشعار اکثر پڑھتے۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ۲۸)
آم اور سینے پر تیر
لاہور سے ۷؍ مئی ۱۹۶۶ء کو جناب محمود احمد لودھی کے نام امین احسن ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’بچو ں کی وجہ سے مصروفیتوں میں بھی کچھ اضا فہ ہوا ہے۔ سعید کی واپسی دسمبر سے پہلے متوقع نہیں ہے۔ آموں کا ذکر کر کے آپ نے سینے پر ایک تیر ما ر ا لیکن اب میں آموں سے دور ہو چکا۔ اب یہ نعمت میرے نصیب میں کہا ں !‘‘(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۴۱)
لاہور سے ۶؍ جون ۱۹۶۶ء کو محمود احمد لودھی صاحب کو خط میں امین احسن مرطوب علاقے کے ساتھ اپنی مناسبت کا ذکر کچھ اس طرح کرتے ہیں :
’’ڈھا کہ دیکھنے کی خواہش تو کبھی کبھی دل میں پیدا ہو تی ہے۔ میں طبعی طور پر اس طر ح کے علا قوں سے بڑی منا سبت رکھتا ہوں جو مر طوب ہیں لیکن اب ہو س سیر و تما شا کا دور ختم ہو چکا ہے۔ اب تو ہر وقت بس فکر یہ ہے کہ چا لیس سا ل کی کا وش سے جو ذخیرہ جمع ہوا ہے اس کا کوئی حامل پیدا ہو کہ یہ ضا ئع ہونے سے بچ جائے اور اس طرز پر فکر کا سلسلہ قائم رہے اب ہما ر ا کیا اعتبار!‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۲۰)
امین احسن تقلید سے بے زارتھے اور دلیل کی بنیاد پر آرا قائم کرتے تھے ،اسی طرح وہ اپنی تحریروں کامخاطب بھی عقل سے کام لینے والوں ہی کو بناتے تھے۔ ۱۶ ؍ستمبر ۱۹۶۴ء کولاہور سے امین احسن سردار محمد اجمل خان لغاری کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’عنا یت نا مہ مو صول ہوا ۔ میر ی خواہش ہے کہ آپ میر ی کتا ب پر جو رائے بھی قائم کریں اپنی صو اب د ید پر قا ئم کریں ۔ ( کتا ب سے اشارہ تفسیر تدبر قرآن کی طرف ہے جو اس وقت ماہنامہ میثا ق میں شا ئع ہو رہی تھی ۔مدیر) اس سے مجھے اطمینا ن ہو گا ۔ اگردو سر وں کی رائے کی روشنی میں آپ جیسے صا حب علم و فہم نے کو ئی رائے بنائی تو اس سے مجھے کو ئی خو شی نہیں ہو گی۔ آپ ان لوگو ں کو زیا دہ اہمیت نہ دیں جن کا طر ز فکر تقلیدی ہے ۔ ایسے لو گو ں کی رایوں کا مجھے مطلق انتظار نہیں ہے۔ مجھے صرف ان لو گوں سے بحث ہے جو اپنی عقل سے کام لیتے ہیں ۔ میں نے یہ چیز انہی لو گوں کے لئے لکھی ہے اور میں جو کچھ بھی لکھتا ہو ں ایسے ہی لو گو ں کے لئے لکھتا ہوں ۔‘‘(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۷)
امین احسن اپنی علمی کاموں میں اس قدر مستغرق رہتے کہ امور دنیا سے آپ سے آپ دور ہوجاتے تھے ۔ صحافی اور کالم نگار جناب ارشاد احمد حقانی نے اس ضمن میں لکھا:
’’... جیسا کہ علم و ادب کی دنیا کے ا کا برین کے سا تھ با لعموم ہو تا ہے ،مو لا نا اصلا حی اپنے میدان میں تو شہسوار تھے اور یکتا ولا جواب تھے، لیکن امورِ دنیا کے سا تھ معا ملے میں ان کا انہماک نہ ہونے کے برابر تھا۔ انھیں کبھی اچھرہ سے شہر جا نا ہو تا تو لا زمی تھا کہ کو ئی کا رکن ان کے سا تھ جائے ، تا نگہ کرائے اور انہیں بٹھا کر واپس آئے ۔ مو لا نا اصلا حی ما شا ء اللہ بہت خوش شکل، خوش ذوق ، خوش اطوار اور خوش کلا م تھے اور ان کی مجلس میں بیٹھنا اور ان کے منہ سے جھڑتے ہوئے الفا ظ کے پھو ل چننا اور دیکھنا ایک بہت بڑی سعا دت کی با ت ہوتی تھی۔‘‘(ماہنامہ اشراق، جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ۳۷)
خط و کتابت کے معاملے میں اپنی ایک کم زوری کاذکر کرتے ہوئے لاہور سے ۲۱ ؍اکتوبر ۱۹۶۵ء کو جناب محمود احمد لودھی کے نام ایک خط ہی میں امین احسن لکھتے ہیں :
’’میرے معاملے میں آپ کو یہ قربانی ہمیشہ کرنی پڑے گی کہ آپ کو میری طرف سے جواب پائے بغیر خط لکھتے رہنا پڑے گا۔ میری یہ کم زوری ایک دیرینہ کم زوری ہے کہ میں عزیزوں اور دوستوں سے خط کا ہمیشہ متوقع رہا ہوں اور خود خط لکھنے میں پرلے درجے کا کاہل ہوں ۔‘‘(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۹۱)
بعض مذہبی شخصیات اپنے لیے ایسی چیزیں بھی ناجائز قرار دے دیتے ہیں جن کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ امین احسن اس معاملے میں بڑی متوازن جگہ پرکھڑے تھے۔ ۱۶ ؍ ستمبر ۱۹۶۴ء کولاہور سے وہ سردار محمد اجمل خان لغاری کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’رائلٹی کے متعلق اب تک کوئی گفتگو نہیں ہو ئی ہے ۔ ویسے میں نے اس سے پہلے اپنی بعض کتا بو ں کی رائلٹی و صول کی ہے اور وہ کتا بیں دینی و اسلا می ہیں ۔ میر ے خیا ل میں اس کے عدم جوازتو درکنار اس کی کراہت کی بھی کوئی وجہ نہیں ہے۔ مجھے کسی ایسے قا بل ذکر آدمی کا علم نہیں ہے جس نے اس کو خلاف ِشر ع قرار دیا ہو ۔ یو ں میر ی خواہش یہ ہے کہ اگر میرے پاس وسائل و ذرائع مو جو د ہو تے تو میں اس کو خود اپنے اہتما م میں چھپواتا اور خریداروں کو معمولی منافع پر دیتا۔ …میں اس با ت کے لئے تیا ر ہوں کہ کوئی صا حب روپیہ دے دیں اور وہ منا فع میں شریک ہو جائیں ۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۷)
بعض لوگ امین احسن کی کتابوں کا ترجمہ ان کی اجازت کے بغیر ہی شائع کر دیتے تھے، مگر امین احسن اس چیز کا صحیح طریقے سے نوٹس نہیں لیتے تھے،اوراس ظلم کو برداشت کر لیتے تھے۔ لاہور سے ۸ ؍ اپریل ۱۹۷۹ء کو ڈاکٹر عبد اللطیف خان کے نام وہ ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’آپ مو لا نا عبد الحسیب صا حب کو لکھ دیں کہ مو لا نا فرا ہیؒ کی عر بی تصنیفا ت کا تعلق تمام تر دائرۂ حمید یہ سے ہے۔ ان کے متعلق کو ئی فیصلہ کر نے کے مجا ز مولانا بدرالدین صاحب ہیں ۔ رہیں میر ی تا لیفا ت تو دعو ت ِدین کے عر بی تر جمہ کی اجا زت میں نے کرامت صاحب کو نہیں دی ہے اگر وہ ترجمہ کرا رہے ہیں تو وہ بطور خود کرا رہے ہیں ۔ میں اپنی کتا بو ں کے معاملے میں شروع ہی سے ایک مظلو م مصنف ہو ں اور اپنی اس مظلو میت پر را ضی ہوں ۔ مولانا عبدالحسیب صاحب کو سلا م لکھ دیجئے اور اپنے ہاں ہم دونوں کی طرف سے سب کو دعاوسلام پہنچائے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۳۹-۴۰)
امین احسن کے تجزیے اور محاکمے کا اسلوب بڑا سخت، قطعی اور مدلل ہوتا تھا۔’’جائزہ کمیٹی ‘‘ پر الزامات کے جواب میں مولانا مودودی کو جو خط انھوں نے لکھا ہے ، اسے شام کے سفیر نے پڑھا تو اس پر اپنے قلم سے لکھ دیا: ’’مولانا ، آپ نے خط نہیں لکھا ،قاضی کافیصلہ لکھا ہے ۔‘‘جماعت اسلامی پر مولانا منظوراحمد نعمانی کی فرد قرارداد جرم کے جواب میں ، مولانا مودودی کے نظریۂ حکمت ِعملی کے تجزیے اور عائلی کمیشن کی رپورٹ پر تبصرے میں ان کا یہی انداز تھا (ماہنامہ اشراق، جنوری / فروری ۱۹۹۸ء، ۲۳)۔
امین احسن حد سے متجاوز مذہبی عقیدت سے بہت بے زار تھے۔ مدرس قرآن قاضی محمد کفایت اللہ ان کے اس وصف کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’... جب میں مو لا نا جعفر شا ہ مر حو م کی توجہ دلا نے پر آپ کے ہاں پہنچا تو علیک سلیک کے بعد آپ نے میر ی آمد کا سبب پو چھا ، میں نے تعزیت اور زیا رت کو اپنی آمد کا سبب بتایا ۔ آپ نے فر مایا : تعزیت کے لیے آنے میں آپ نے بڑی تا خیر کر دی ۔ تا ہم دعا ہے کہ اللہ تعا لیٰ آپ کی اس آمد کو قبو ل کر ے ۔ البتہ آپ کا میرے ہا ں زیا رت کے لیے آنا کسی طر ح بھی صحیح نہیں ، کیونکہ نہ تو میں کو ئی مزار ہو ں ، نہ ہی کسی صا حب مزار سے میرا کچھ تعلق ہے ، اور نہ ہی میں اس حوالے سے مجاز بیعت ہوں کہ جس کی لو گ آکر زیا رت کیا کر یں ۔ لہٰذااس کے علا وہ آپ کی آمد کا کو ئی سبب ہے تو وہ بتا ئیں ورنہ منا سب یہی ہے کہ آپ نہ اپنا وقت ضا ئع کریں اور نہ میرا۔‘‘(ماہنامہ اشراق،جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ۵۲)
امین احسن کی تحریر ادبی خوبیوں کی حامل ہوتی تھی۔ان خوبیوں کاذکرکرتے ہوئے ضیاء الدین اصلاحی لکھتے ہیں :
’’مولانا امین احسن صاحب کی رگ وپے میں علامہ شبلی رحمۃ اللہ علیہ کی صہبائے علم و ادب رقص کر رہی تھی ۔ اور وہ ان کے طرز تحریر کو اردو انشاء پردازی کا اعلیٰ ترین نمونہ سمجھتے تھے۔ ان کی تحریروں کی رعنائی ، د ل کشی اور دلاآویزی کا یہی سبب ہے ۔ لیکن اب ان کی پختگی اور مشاقی سے ان کا اپنا الگ اور جداگانہ رنگ و آہنگ بھی ہو گیا تھا، جس میں سادگی کے باوجود پرکاری ہوتی تھی ۔ طبقۂ علما میں ایسی صاف، شستہ ، سلیس ، شگفتہ اور رواں اردو لکھنے والے کم ملیں گے ۔ ان کو عربی لکھنے پر بھی قدرت تھی ۔ ’’ الضیائ‘‘ (لکھنو) میں ان کے بعض عربی مضامین شائع ہوئے ۔
مولانا کی قلمی زندگی کا آغاز صحافت سے ہوا تھااور تصنیفی زندگی کی بسم اللہ کلمہ لا الٰہ الا اللہ کی تشریح سے ہوئی ۔ پہلے ’’حقیقت ِشرک‘‘ لکھی ۔ پھر ’’حقیقت توحید۔ ‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۱۱-۱۲)
صحافی اور کالم نگار جناب ارشاد احمد حقانی نے لکھا:
’’... مو لا نا اصلا حی کو تحر یر اور تقریر پر ایسی بے پنا ہ قدرت تھی کہ با ید وشا ید ۔مو لا نا مودودی سمیت جما عت میں خطابت کے میدا ن میں کوئی ان کا حریف نہ تھا ۔ مو لا نا کا ذہن انتہا ئی شارپ تھا اور بعض اوقا ت ان کی یہ غیر معمو لی براقی ِ ذہن ان کی تحریر اور تقریر میں بھی نما یا ں ہو کر سامنے آ جا تی تھی۔ مفسرِ قرآن تو ہما رے ہا ں بہت ہو ئے ہیں ، لیکن عر بیِِ مبین پر جس قدر قدرت مو لا نا اصلا حی کو حا صل تھی بہت کم لو گ اس میں ان کے مدِ مقا بل ہو نے کا دعویٰ کرسکتے ہیں ۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ۳۶)
صحافی اور کالم نگار عطاء الرحمن لکھتے ہیں :
’’...مولانا مودودی کی اسلامی فکر میں حد درجہ جامعیت ہے ۔ ان کی انشا میں سلاست اور روانی پائی جاتی ہے۔ ان کا انداز تحریر زیادہ سائنٹیفک ہے ۔ مولانااصلاحی کا امتیاز گہرائی اور گیرائی ہے۔ انھیں قرآنی علوم میں ایک خاص تخصص حاصل ہے ۔ ان کی انشا بہت زوردار ہے ۔مولانا مودودی کی فصاحت کے مقابلے میں اس میں آپ کو زیادہ بلاغت نظر آئے گی۔ مولانا مودودی کھلے میدانوں کے شہسوار ہیں ۔ مولانا اصلاحی باقاعدہ کوہ کنی کر کے عملی پیاس بجھاتے ہیں ۔ وہ اسلام کے احیائی مفکر تھے۔ یہ آیات قرآنی پر تدبر کرنے والے محقق تھے۔ دونوں میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ تقلید و جمود کے اس دور میں اپنی اپنی جگہ اجتہادی صلاحیتیں رکھتے تھے۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ۴۶)
امین احسن بہرحال ایک انسان تھے ۔تحریر میں ان سے غلطیاں بھی سرزد ہوتی تھیں ۔ان غلطیوں کی وجہ بتاتے ہوئے لاہور سے ۱۶ ؍فروری ۱۹۶۷ء کو محمود احمد لودھی صاحب کے نام ایک خط میں وہ لکھتے ہیں :
’’ آپ نے با لکل صحیح گرفت کی ۔خدا جا نے استہزااڑانا ، کس طر ح قلم سے نکل گیا ۔ معلو م ہوتا ہے' استہزا 'اور 'اڑانے'میں کچھ فصل تھا اس وجہ سے قلم نے نا گواری محسوس نہیں کی۔میں لکھتے وقت دما غ کو معنی پر مر کو ز کر کے الفا ظ کے معا ملے کو یکسر قلم پر چھوڑدیتا ہوں ۔ ادیبوں کی طر ح الفاظ پر دھیا ن نہیں دیتا ۔ اس سے بعض مر تبہ عجیب عجیب، بچوں کی سی غلطیاں کر جا تا ہوں ۔ آپ لوگ ان چیزوں پر نگا ہ رکھیں ۔ میں ادیب تو مشہور ہو نا نہیں چا ہتا لیکن بے ادب کہلا نا بھی پسند نہیں کر تا ۔ اس وجہ سے میر ی تحر یروں کی اصلا ح کر نے کا آپ لو گو ں کو نہ صرف حق ہے بلکہ اسے میر ی خا طر فر ض بھی سمجھئے۔‘‘(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۱۱)
اس میں شبہ نہیں کہ ہمارے ہاں لوگ دوسروں پر تنقید کرنے میں بہت جلد باز واقع ہوئے ہیں ۔وہ دوسرے کی تحریر یانقطۂ نظر کو سمجھنے میں مناسب وقت صرف نہیں کرتے اور فوراًتنقیدی قلم اٹھا لیتے ہیں ۔ لاہور رحمان آبادسے ۲۸ ؍ مئی ۱۹۷۹ء کو ملک عبدالرشید عراقی کے نام امین احسن لکھتے ہیں :
’’اس کتا ب سے متعلق مجھے کسی کی تقر یظ یا تنقید کا انتظار نہیں ہے ۔ جن لو گو ں کی رائے پر مجھے اطمینا ن ہے ان کی رائیں مجھے مو صو ل ہوچکی ہیں اور وہ کا فی ہیں ۔ مجھے جو کچھ لکھنا تھا میں نے لکھ دیا اب لو گ جو چاہیں خا مہ فر سا ئی کر تے رہیں ۔ بہتر تو یہ تھا کہ لو گ اس کتا ب کو سمجھنے کی کو شش کر تے لیکن اس کو رذوقی کے دور میں سمجھنے سے زیا دہ لکھنے کا شو ق ہے ۔ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۱۶)
دانا لوگ یہ تو سمجھاتے ہیں کہ کم بولنا چاہیے۔قلت کلام سے کام لینا چاہیے، مگر اس جانب بہت کم لوگوں کی توجہ جاتی ہے کہ کم لکھنا بھی چاہیے۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض لوگوں کی سینکڑوں کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور وہ اس کا بڑے فخر کے ساتھ ان کا ذکر بھی کرتے ہیں ۔تفسیرقرآن اور گنتی کی چند کتب کے مصنف امین احسن شیخ سلطان احمد صاحب کو ان کے ایک خط کے جواب لکھتے ہیں :
’’اس معاملے میں آپ حضرات کا زیادہ حساس ہونا میری سمجھ میں نہیں آیا۔ اگر یہ چیز آدمی کے لیے فتنہ ہے تو ہم گناہ گار تو اس فتنہ میں اس طرح مبتلا ہیں کہ اس سے نجات کی کوئی شکل باقی ہی نہیں رہی ہے ۔ چاہیں یا نہ چاہیں لیکن چھپنے چھپانے سے اپنے کو بچانا ناممکن ہے ۔ میرے نزدیک تو بولنا اور لکھنا دونوں یکساں ہے ۔ جس طرح بے ضرورت بولناگناہ ہے اسی طرح بے ضرورت لکھنا اور چھاپنا بھی گناہ ہے ۔ اور اسی اصول پر جس طرح ضرورت پر نہ بولنا گناہ ہے اسی طرح ضرورت پر نہ لکھنا بھی گناہ ہے ۔ میرے نزدیک یہ نقطۂ نظر زیادہ صحیح ہے ۔ اور آپ حضرات کی شدت احتیاط میں صوفیانہ تقشف کی جھلک ہے جو بجائے خود ایک فتنہ ہے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۳۷)
امین احسن عرب ممالک میں نہ جانے کے باوجود بہت اچھی عربی بول بھی لیا کرتے تھے۔ غامدی صاحب اس ضمن میں لکھتے ہیں :
’’دینی مدارس کے طلبہ بالعموم عربی بولنے پر قدرت نہیں رکھتے ، لیکن وہ جب امام فراہی سے استفادے کے لیے ان کے پاس مقیم تھے ، تو بے تکلف عربی بولتے تھے ۔ مشہور عالم موسیٰ جار اللہ ہندوستان آئے تو امام فراہی سے ملنے مدرستہ الاصلاح بھی گئے ۔ امین احسن ہی ان کے میزبان تھے۔ عربی زبان میں گفتگو اور تقریر پر ان کی قدرت دیکھ کر ایک دن انھوں نے پوچھا : عرب میں کتنے سال گزار کر آئے ہو؟ امین احسن نے جواب دیا : ’ما مست قدمي ھاتین قط بلاد العرب‘ (میرے ان دونوں پاؤں نے کبھی سرزمین عرب کو نہیں چھوا)۔ موسیٰ جار اللہ بڑی دیر تک اپنی حیرت کا اظہار کرتے رہے ۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، جنوری / فروری ۱۹۹۸ء،۱۵)
اسی واقعہ کے حوالے سے مولانا وحیدالدین خاں لکھتے ہیں :
’’کسی روسی آدمی کو پہلی بار میں نے پچاس سال قبل دیکھا تھا۔ اس وقت میں ایک عربی مدرسہ (الاصلاح ، اعظم گڑھ) میں پڑھ رہا تھا۔ ایک روز میں نے دیکھا کہ صدر مدرس مولانا امین احسن اصلاحی اپنے کمرا کی طرف چلے تو ان کے ساتھ نئے حلیہ کا آدمی تھا۔
صاف رنگ، بھاری جسم ، سر پر غیر ہندوستانی وضع کی ٹوپی ۔ میری ان سے ملاقات تو نہ ہو سکی۔ البتہ مولانا امین احسن اصلاحی کے ساتھ انھیں کئی بار مدرسہ کے احاطہ میں چلتے پھرتے دیکھا ۔ اتنا یاد ہے کہ مولانا اصلاحی سے ان کی گفتگو عربی زبان میں ہوتی تھی ۔ اس وقت مدرسہ کی آبادی میں وہ سب سے پرشکوہ شخصیت والے نظر آئے ۔ یہ علامہ موسیٰ جار اللہ روسی تھے … علامہ موسیٰ جار اللہ ۱۹۳۸ کے وسط میں روس سے پناہ گزین کے طور پر ہندوستان آئے تھے ۔ مولانا امین احسن اصلاحی کا ان کے بارہ میں مضمون ’’الاصلاح ‘‘کے شمارہ جون ۱۹۳۸ میں چھپا تھا۔
اس مضمون میں بتایا گیا تھا کہ علامہ موسیٰ جار اللہ عربی ، فارسی ، ترکی ،روسی اور فرنچ زبانیں بخوبی جانتے ہیں ۔ علوم مشرقیہ کی مختلف شاخوں میں اچھی دستگاہ رکھتے ہیں ۔ عالم اسلام کی اس زمانہ کی تمام سیاسی اور مذہبی سرگرمیوں کو قریب سے جانتے ہیں ۔ وہ دو دن مدرستہ الاصلاح (سرائے میر، اعظم گڑھ) میں مقیم رہے ۔
مولانا امین احسن اصلاحی کے مضمون کا ایک اقتباس یہ ہے : ’’علامہ موسیٰ جار اللہ نے مجھ سے سوال کیا کہ ہندوستان میں علوم عربیہ کی تعلیم جس نہج پر ہو رہی ہے ، تمھارے خیال میں اس کا آخری انجام کیا ہونے والا ہے ۔ میں نے کہا کہ عربی تعلیم ،مدارس عربیہ اور ساتھ ہی مذہب کی تباہی۔ مجھے خیال تھا کہ علامہ اس کی تردید کریں گے، لیکن انھوں نے اس کی حرف حرف تائید کی۔‘‘ (سفرنامہ ، غیر ملکی اسفار، ۲/ ۱۴۵- ۱۴۶)
امین احسن ایک دینی مدرسے میں پڑھے، اس کے باوجود ان کی انگریزی زبان میں استعداد اتنی اچھی تھی کہ اس زبان میں اعلیٰ علوم کی کتابیں نہ صرف یہ کہ بغیر کسی دقت کے پڑھتے ، بلکہ ان کے مشکل مطالب دوسروں کو سمجھا نے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے (ماہنامہ اشراق، جنوری ۱۹۹۸ء، ۱۵)۔
امین احسن کو اللہ تعالیٰ نے خوب صورت سراپا دیا تھا۔وہ خوش ذوق اورخوش لباس بھی تھے، لیکن اٹھنے بیٹھنے ، رہنے سہنے اور کھانے پینے میں بہت سادہ تھے۔عبد الرزاق صاحب اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں :
’’۱۲ اکتوبر ۱۹۹۷ :مولانا نے جب ساتھیوں کو دیکھا تو بڑی مشکل سے فقط … آ…پ…!!! ہی کہہ سکے ۔ کسی نے ملازم سے پوچھا کہ مولانا کھانے پینے میں ضد تو نہیں کرتے ۔ ملازم نے جواب دیا جب بھی مولانا سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ کیا کھائیں گے تو وہ بس یہی جواب دیتے ہیں ’’جو مل جائے‘‘۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۹۰)
۱۹۹۰ء میں حکومت پاکستان نے شادی بیاہ کی تقریب میں ون ڈش کا قانون بنایاتو امین احسن نے اسے بہت پسند کیا۔۱۵ ؍دسمبر ۱۹۹۰ء کو اپنی ہفتہ وار نشست میں اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہا:
’’ آپ لوگ اگر سماجی اور سیاسی اصلاحات میں کچھ حصہ لینا چاہتے ہیں تو میری رائے یہ ہے کہ آپ لوگ اس معاملے میں نوازشریف نے شادی بیاہ پر جو ون ڈش کا کہا ہے اس میں اس کی حوصلہ افزائی کریں ۔ یہ اہم بات ہے۔ میں تو چائے کی دو پیالی بھی چھوڑنے کے لیے تیار ہوں ۔میں تو پان بھی چھوڑ دوں گا۔ میں نے گھر میں تو اعلان کر دیا ہے کہ میں ایک سالن استعمال کروں ۔ روٹی اور چاول میں فرق کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک ہی چیز ہے۔گزارہ ہوجائے گا۔ چائے دو پیالی سے زیادہ پینا تو بالکل فضول بات ہے۔ آپ لوگ چونکہ زیادہ پیتے ہیں میں تو پیتا ہی کم ہوں ۔ پان جو ہے اس کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔یہ بوفے کی جو دعوتیں ہیں نا شیطانی نظام ہے۔اگر آپ نے اس کو جلد از جلد نہ مٹا دیا تو پھر آپ کے اوپر جو آفت آئے گی اس کا کوئی علاج نہیں ۔ جلد سے جلد خاتمہ کریں ۔‘‘
معلوم ہوتاہے کہ امین احسن نے اس مسئلے کو بے حد سنجیدگی سے لیا تھا۔۵ ؍جنوری ۱۹۹۱ء کی ہفتہ وار نشست میں پر کلام کیا:
’’ آپ لوگوں کو اس کام میں حصہ لینا چاہیے۔ ضرور حصہ لینا چاہیے، حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اور گھر میں بیٹھ کر نہیں بلکہ پبلک میں ہونا چاہیے۔ اپنے رسالوں میں بھی کیجیے، تقریروں میں بھی کیجیے۔ لوگوں کی مجالس میں اس کا ذکر بھی پھیلائیے۔ ضروری ہے۔ ہمارے ہاں تو سب لوگ راضی ہیں ۔ (بیٹے ) سعید کا مسئلہ ہے سعید جو ہے دن میں تو کھانا نہیں کھاتے وہ تو رات میں کھاتے ہیں دن کا کھانا۔ شام کو وہ اپنے کسی دوست کے ہاں دعوت میں ہوتے ہیں ۔ اب میں نے ان کی بیگم صاحبہ سے کہا ہے کہ ذرا اپنے میاں کو باندھو۔ ان سے کہو کھانا گھر پر کھایا کرے۔ لیکن وہ بیچاری ابھی نئی نئی ہے۔ معلوم نہیں کتنا رعب جما سکے۔ لیکن غالباً وہ بھی کچھ متفق ہے۔ یعنی اس معاملے میں کچھ معلوم ہوا کہ وہ بھی اس چیز سے ہمدردی رکھتی ہے۔ اس معاملے میں امید ہے کہ کامیابی ہوجائے گی۔ تحریک بنائیے اس کو، کالموں میں لکھئے، تقریر بھی کیجیے۔‘‘
غیر ت ووقار ایسا شخصی وصف ہے جسے سخت حالات میں برقرار رکھنا مشکل ہوجاتاہے،مگر امین احسن ہر طرح کے حالات میں بھی کوئی سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہ ہوتے تھے۔اس ضمن میں ضیاء الدین اصلاحی لکھتے ہیں :
’’ان میں حد درجہ غیرت ، خودداری ، استغنا اور بے نیازی تھی ۔ کبھی کسی کا احسان مندہونا گوارانہیں کرتے تھے ۔ وہ جس پایہ اور رتبہ کے شخص تھے ، چاہتے تو ہر بڑا عہدہ اور اعزاز ان کو مل سکتا تھا، لیکن ان کے نزدیک ان چیزوں کی کوئی اہمیت ہی نہ تھی ۔ ان کا قیام رحمن پورہ میں تھا جس کی حیثیت ایک گاؤں جیسی تھی ۔ صدر ضیاء الحق مرحوم نے بہت چاہا کہ ان کے لیے لاہور یا جس بڑے شہر میں وہ پسند کریں ایک اچھا مکان تعمیر کرا دیں ،مگر وہ اس کے لیے کسی طرح آمادہ نہیں ہوئے ۔ وہ عام لوگوں سے بڑی تواضع اور انکسار سے پیش آتے تھے ۔ لیکن امراء اور ذی جاہ و حشمت اشخاص سے کبھی جھک کر نہیں ملے۔ طبیعت شاہانہ پائی تھی ۔ ہمیشہ اچھی اور قیمتی چیزیں استعمال کرتے تھے ۔ کوئی ادنیٰ اور معمولی چیز ان کی نگاہ میں جچتی ہی نہیں تھی ۔ ہمیشہ سکینڈ اور فرسٹ کلاس میں سفر کرتے ۔ تانگے پر اکیلے سوار ہوتے ۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۱۴)
عام طور پر لوگ انا اور تکبر میں فرق نہیں کرتے۔اناکی بنیاد میں کوئی مثبت بات ہوتی ہے اور تکبر کی بنیاد میں کوئی منفی بات۔اسی خوبی کے حوالے سے ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی،امین احسن کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’... انانیت ابتدا سے اصلاحی صاحب کے خمیر کا حصہ تھی۔ لیکن فراہی کی بارگاہ میں وہ باادب آتے تھے۔ وقت کے ساتھ ان کے رویے میں تبدیلی آ تی گئی ۔ فراہی کے متعلق ان کی زیادہ باتیں تدبر کے حوالہ سے ہوتیں جس پر فخر و نازکرنے میں وہ ایک حد تک حق بجانب تھے ۔ ایک ملاقات میں یہ بلیغ اور معنی خیز فقرہ کہا :
’’مولانا فراہی ایک سر مخفی تھے ، میں نے انھیں آشکارا کیا‘‘۔‘‘ (ذکرفراہی ۵۸۱)
امین احسن فطری طور پر ایک علمی شخصیت تھے۔اگرچہ انھیں سیاست دان بنانے کی کوشش کی گئی، مگر ان کا فطری مزاج ہی غالب رہا۔ صحافی اور کالم نگار جناب مجیب الرحمن شامی نے لکھا:
’’مو لا نا اصلا حی جما عت ِاسلا می کے با نیوں میں سے تھے ۔ پا کستا ن بننے کے بعد مو لا نا مودودی کے سا تھ مل کر انھوں نے اسلا می ریا ست کے قیا م کا مطا لبہ کیااور اس کے خدوخا ل واضح کیے ۔ جما عت میں انھیں مو لا نا مودودی کے بعد سب سے نما یا ں مقام حا صل رہا ۔ ان کی غیر مو جودگی میں اما رت کے فرائض انھی نے ادا کیے ، لیکن وہ ایک سیا ست دان نہ بن پا ئے ۔ ان کی علمی شخصیت اس وقت بھی ان کی سیا سی مصروفیا ت پر حا وی رہی۔ وہ آدمی ہی کتا ب وقلم کے تھے۔ مو چی دروازے سے استفادہ تو انھوں نے کیا، مگر اس کا ’’مو چی ‘‘ بن کر رہ جانے سے انکا رکر دیا۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، جنوری / فروری ۱۹۹۸ء، ۳۰)
علمی لوگ بالعموم خلوت پسند ہوتے ہیں ،مگر امین احسن نے جو علم حاصل کیا تھا ،وہ انھیں اجتماعی معاملات سے بے تعلق ہونے سے روکتا تھا۔چنانچہ وہ اجتماعی امورپر گہری نگاہ رکھتے تھے اورقوم کی رہنمائی کا فریضہ پوری طرح ادا کرتے تھے۔ یکم دسمبر ۱۹۴۹ء کو نیو سنٹرل جیل ملتا ن سے حکیم محمد شریف مسلم کے نام ایک خط میں انھوں نے لکھا:
’’آدمی کے لیے یہ با ت تو جا ئز نہیں ہے کہ اپنے آپ کو کسی عہد ہ کے لیے پیش کر ے لیکن یہ بات بھی جا ئز نہیں ہے کہ کسی ایسے عہدہ پر کسی نا اہل کو قا بض ہو جا نے دے جس کا تعلق قوم اور ملک کے مفا دِ عا م سے ہو۔ اجتما عی معا ملا ت میں اسلا م نے بے تعلقی کے رویہ کو پسند نہیں کیا ہے بلکہ ہر شخص پر یہ ذمہ داری عا ئد کی ہے کہ وہ جما عت کو صحیح مشورے برا بر دیتا رہے اور اس کی کسی غلطی پر خامو ش نہ رہے ۔پس اگر ایک شخص ایما ن داری کے سا تھ یہ محسوس کر تا ہے کہ ایک عہد ہ کے لئے کسی نا اہل کا انتخا ب ہو رہا ہے تو وہ بڑھ کر کسی اہل کے انتخا ب کا مشورہ دے اور جس حد تک اس کے امکا ن میں ہو لو گو ں کو اس غلطی سے با ز رکھنے کی کوشش کرے۔ اگر ا س کے بعد بھی لو گ نہ ما نیں تو اس پر کو ئی الزا م نہیں ہے۔ وہ اپنے فر ض سے سبکدوش ہو گیا ۔
تنقید کے متعلق صحیح رویہ یہ ہے کہ اگر فسا د جما عتی ہو تو تنقید بھی بصیغۂ عموم ہو نی چا ہیے۔ آنحضرت ﷺ کا طر یقہ بھی یہی تھا کہ آپ بر ائیو ں پر تنقید کر تے تھے، اشخا ص کو زیر بحث نہیں لا تے تھے ، البتہ اگر فساد شخصی ہو تو اس صورت میں نام لے کر تنقید میں کو ئی حرج نہیں ہے ‘‘(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۴۱)
امین احسن اپنے سینے میں امت مسلمہ کا غیر معمولی درد رکھتے تھے۔جب امریکا کا عراق پرحملہ ہوا توانھیں ہارٹ اٹیک ہوگیا تھا، گویا مسلمانوں پر حملہ ان کے دل پرحملہ بن گیا۔محمود احمد لودھی کے نام ایک خط میں ان کی شخصیت کے اس وصف کا اظہار ہوتا ہے ۔ امین احسن لکھتے ہیں :
’’آپ کا خط عین حالت انتظار میں ملا ۔ اب کے آپ نے اپنی خیریت سے آگاہ کرنے میں بڑی دیر لگائی۔ تشویش رہی ۔ میں اس اثناء میں کچھ بیمار رہا ۔ اب گو اچھا ہوں ۔ لیکن عرب کے حادثے ( مراد مصر اسرائیل جنگ ہے۔ مدیر) نے کمر توڑ دی ۔ کسی کام میں جی نہیں لگتا۔ تفسیر کی تسوید کا کام بھی بے دلی اور افسردگی کی وجہ سے بند ہے ۔ روز ارادہ کرتا ہوں لیکن آمادگی نہیں پیدا ہوتی … خیریت سے برابر آگاہ رکھیں اور اپنے امکان کے حد تک اپنی قوم کے کردار کو بلند کرنی کی کوشش کریں ۔ ہم لوگوں کا وقت تو پورا ہو چکا ہے ۔آپ لوگوں پر بڑی بھاری ذمہ داریاں ہیں ۔ میں تو اب صرف اس امید پر جی رہا ہوں کہ شاید اس حادثے سے عرب بیدار ہوں اور اپنی ذلت کا انتقام لیں ورنہ اب جینے میں کیا مزہ ہے ۔
مجھ پر اس حادثے کا جو اثر پڑا ہے اس کو قلم تعبیر کرنے سے قاصر ہے ۔ کاش میں اس کا دیکھنے سے پہلے نسیاً منسیا ہو چکا ہوتا۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۱۹۹۳)
قومی معاملات میں امین احسن بہت حساس اور رقیق القلب واقع ہوئے تھے۔اخبارات میں قتل وغارت گری کی خبریں پڑھتے تو ان کی نیند اچاٹ ہوجاتی تھی ۔
۴؍ نومبر ۱۹۸۹ء کو اپنی ہفتہ وار نشست میں گفتگو کرتے ہوئے امین احسن نے اپنے مشن کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا:
’’ میرا جو دینی شعو رہے ،میں چاہتا ہوں کہ یہ بہت سے لوگوں کے اندر پیدا کروں ۔ اس کے لیے میں اپنا جہاد جاری رکھے ہوئے ہوں ۔ اس کے لیے کوئی پروپیگنڈا نہیں کرتا۔ کوئی اشتہار نہیں دیتا ۔ کوئی اعلان نہیں کرتا۔ کیسٹ فروشی نہیں کرتا۔ امریکہ و یورپ کا سفر نہیں کرتا۔ اس لیے کہ میرے اوپر جن لوگوں کی ذمہ داری ہے وہ اپنے معاشرے کی ہے۔مجھے اپنے زمانے کے نوجوانوں کو سمجھانا ہے تا کہ ان کاایمان واثق ہو اپنے دین کے اوپر۔ امریکہ کے لوگوں کی ذمہ داری میرے اوپر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے متعلق مجھ سے کچھ نہیں پوچھے گاکہ تم وہاں جا کے کیسٹ فروشی کیوں نہیں کرتے رہے۔ مجھ سے تو جو کچھ خدا پوچھے گا وہ یہ ہے کہ تم نے اپنے ماحول میں کیا کام کیا۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ میں اپنے ماحول کو بیدار کرنے کے لیے ، قرآن کا صحیح فکر دینے کے لیے، حدیث کا صحیح شعور دینے کے لیے میں رات دن کام میں لگا ہوا ہوں ۔ یہی تو ذریعے ہیں آپ کے دین کے۔ اشتہار بازی میں نہیں کرتا کہ اس سے کیا ہوا۔ آپ لوگ اسی کے عادی ہیں کہ میں ان لوگوں کو دوچار بینر پکڑا دوں کہ نکلوجائو۔ یہ فضول حرکتیں کرنے سے کیا فائدہ۔‘‘
امین احسن قوم کے نوجوانوں کو خاص اہمیت دیتے تھے۔ان کی تعلیم کے بارے میں بہت فکر مند رہتے تھے۔ایک موقع پر نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوے کہا:
’’عزیز طلبہ تک اگر ہمارا کوئی مشورہ پہنچ سکے تو ہم انہیں نہایت محبت کے ساتھ یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنی ساری توجہ تعلیم پر مرکوز کریں ۔ ان کا لمحہ لمحہ نہایت قیمتی ہے۔ جب تک کوئی ایسی بات ذمہ داروں کی طرف سے نہ ہو جس کی زد برا ہ راست طلبہ کے ایمان واخلاق پر پڑتی ہو( جس کا اندیشہ بہت کم ہے )اس وقت تک وہ بلاوجہ اپنے آپ کو انتشار میں مبتلا نہ کریں ۔ طالب علمی کے دور میں ان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سیاست سے صرف علمی و نظری حد تک تعلق رکھیں ، اپنے ماحول سے باہر کے سیاسی ہنگاموں سے عملا ًکوئی تعلق نہ رکھیں ۔ ان ہنگاموں میں دلچسپی کے لیے ان کے پاس آئندہ بڑی فرصت ہو گی۔ طالب علمی کے دور میں وہ اپنے آپ کو اس قابل بنائیں کہ اپنے ملک و قوم کی کوئی خدمت کرسکیں ۔ یہ کام بڑی پتہ ماری، بڑی ریاضت اور کامل یکسوئی کا ہے ۔ جو طلبہ طالب علمی کے زمانے میں ہی لیڈری کا دھندا اختیار کرلیتے ہیں وہ مولانا محمد علی جوہر مرحوم کے بقول پکنے سے پہلے ہی سڑ جاتے ہیں ۔ ہماری قوم کو ایسے سڑے ہوئے لیڈروں کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ قابل اور پختہ کا روپختہ کردار لیڈروں کی ضرورت ہے ۔
سیاسی پارٹیوں سے ہم نے پہلے بھی گزارش کی ہے اور آج پھر گزارش کرتے ہیں کہ خدارا! وہ طلبہ کو اپنے سیاسی اغراض کا آلۂ کار نہ بنائیں ۔ اس سے صرف طلبہ ہی کا مستقبل برباد نہیں ہوتا، بلکہ پوری قوم کا مستقبل تاریک ہوتا ہے ۔ تعلیمی پالیسی اور تعلیمی نظام میں جو تبدیلیاں یا اصلاح کسی پارٹی کو مطلوب ہو اس کے لیے وہ جدوجہد کے مناسب طریقے اختیار کرے، لیکن ہر سیاسی پارٹی کا اللہ اور قوم سے یہ مضبوط عہد ہونا چاہیے کہ وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں میں کسی پہلو سے بھی طلبہ کو ملوث نہیں کرے گی اور نہ تعلیمی منتظمین کے بالمقابل طلبہ کی پشت پناہی اور حوصلہ افزائی کرے گی۔ اس دوران میں اپوزیشن پارٹیوں کا رویہ طلبہ کے معاملے میں ہم نے نہایت غیر ذمہ دار انہ نا عاقبت اندیشانہ دیکھا ہے۔ تعلیمی ذمہ داروں کے مقابل میں غیر ذمہ دار سیاسی طالع آزما جب طلبہ کے ساتھ اظہار ہمدردی کی نمائش کرتے ہیں تو یہ چیز ایسی ہی معلوم ہوتی ہے جس طرح حقیقی ماں کی تادیبی تنبیہات کے مقابل میں کسی بچے کی سوتیلی ماں نمائشی شفقت کا اظہار کرے۔ اس طرح کی باتیں حالات کو خراب کرتی اور بچوں کے مزاج کو بگاڑتی ہیں ۔ طلبہ کو سیاسی اغراض کے لیے اکسانا بچوں کے اغوا سے کم جرم نہیں ہے ۔ طلبہ کو عملی سیاست سے الگ ہی رکھنے میں مصلحت ہے، بالخصوص جبکہ قوم کے سامنے مو ت و زیست کا کوئی مسئلہ بھی درپیش نہ ہو ۔
اسی طرح طلبہ کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ استاد اور شاگرد کا رشتہ اجیر اور مستاجر کا رشتہ نہیں بلکہ باپ اور بیٹے یا مرشد ومستر شد کا رشتہ ہے ۔ ہماری مشرقی اور اسلامی روایات تو اس رشتہ کے احترام میں بڑی ہی سخت رہی ہیں ۔ ہمارے ہاں تو جس نے کسی کو کوئی بات بتادی یا سکھا دی زندگی بھر کے لیے اس کے حقوق قائم ہوجاتے تھے اور ان حقوق کا ہمیشہ احترم کیا جاتا تھا، عام اس سے کہ جو بات سکھائی گئی ہے وہ دین و اخلاق کی کوئی بات ہے یا معاش و معیشت کی ،اور سکھانے والا کوئی ہندو، پارسی، عیسائی ہے یا مسلمان! یہاں تک کہ اگر کوئی شخص کسی کو کشتی کا کوئی پیچ یا بنوٹ کا کوئی ہاتھ بھی بتا دیتا تھا تو سیکھنے والا زندگی بھر اس کو گرو اور استاد مان کر اس کا احسان اٹھائے پھرتا تھا۔ ہم نے جس ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں اس کی روایات یہی تھیں اور ہم خود اس کے شاہد ہیں ۔ مجھے کسی زمانے میں ایک ماسٹر صاحب نے ہندی کی کچھ حرف شناسی کرائی تھی، ان کی سکھائی ہوئی ہندی تو میرے ذہن و دماغ سے اب بالکل حرف غلط کی طرح نکل گئی لیکن خود استاد کی تعلیم و محبت اب بھی میرے دل میں جاگزیں ہے اور وہ کبھی نہیں نکلے گی حالانکہ یہ ایک واقعہ ہے کہ وہ ماسٹر صاحب ایک نہایت پختہ زنار ہندو تھے اور مجھے ان کی اس پختہ زناری کا علم تھا۔ اسی طرح مدرستہ الاصلاح کے دور میں مجھے بنوٹ کے ایک استاد نے بنوٹ کے کچھ ہاتھ بتانے کی زحمت اٹھائی تھی ۔اس قسم کے فنون سے مجھے کچھ واجبی واجبی ہی سی مناسبت رہی ہے، لیکن ان کے سارے شاگردان کی عزت ایک استاد ہی کی طرح کرتے تھے حالانکہ و ہ ایک ناخواندہ آدمی تھے اور ہم اپنے آپ کو عالم فاضل سمجھتے تھے۔ میرے جس استاد نے مجھے مکتب میں اردو کا قاعدہ پڑھایا تھا وہ بعد میں گردشِ روزگار کے ہاتھوں یکہ ہانکنے پر مجبور ہوئے ۔اس زمانے میں ہمارے قدیم وطن میں تانگے کی جگہ یکوں کا رواج تھا۔ لیکن اس کے اس پیشہ کے باوجود میں جب کبھی ان کو دیکھتا تو میرا سر فوراََ ان کی تعظیم کے لیے جھک جاتا ۔
تعلیم کے ذمہ داروں سے ہماری گزارش یہ ہے کہ آپ طلبہ کو جو کچھ بنانا چاہتے ہیں پہلے وہی کچھ خود بنیے ۔ طلبہ سے اگر درویشی مطلوب ہے اور ہمارے نزدیک یہ مطلوب ہونی چاہیے، تو آپ بھی دوسری تمام ترغیبات سے بالا تر ہو کر علم و فن اور تحقیق و جستجو کے زاویہ میں معتکف ہونے کی خو پیدا کیجیے ۔ اگر آپ طلبہ سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کو استاد، گرو، باپ اور مرشد مانیں ،بلاشبہ آپ کو یہ چاہنے کا حق ہے تو آپ کو بھی اپنے اندر باپ کی شفقت اور مرشد کی تڑپ پیدا کرنی پڑے گی ۔ یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے کہ طلبہ پر جو عکس بھی نمایاں ہوتا ہے وہ درحقیقت ان کے استادوں اور تعلیمی رہنمائوں ہی کا ہوتا ہے ۔ ماہنامہ میثاق لاہور۔دسمبر۱۹۶۳‘‘ (مقالات اصلاحی ۲/ ۲۶۷-۲۷۲)
کسی بھی قوم کے باشعور رہنما کی ایک پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ مستقبل پر نگاہ رکھتاہے۔ وہ نئی نسل کی اصلاح وتربیت سے کبھی غافل نہیں ہوتا ۔ امین احسن کے درج ذیل خطاب سے بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ وہ کس درجے کے رہنما تھے:
’’میں آپ کی اس ذرہ نوازی کے لیے شکر گزار ہوں کہ آپ نے اپنی اس علمی مجلس میں مجھے تقریر کی دعوت دی۔ میں نے آپ کے نمائندوں سے معذرت کردی تھی کہ میں کوئی تقریر نہیں کروں گا البتہ آپ کے تجویز کردہ عنوان پر کچھ متفر ق باتیں طلبہ و طالبات کے سامنے عرض کردوں گا ۔ تقریر کا معاملہ یہ ہے کہ نوجوانی میں تو آدمی تقریر شوقیہ کرتا ہے، ادھیڑ پن میں فرائض اور ذمہ داریوں کے تحت یہ کام کرنا پڑتا ہے لیکن بڑھاپے میں آکر یہ چیز بوجھ بن جاتی ہے ۔ میرا حال یہ ہے کہ میں جوانی میں بھی اس ذمہ داری سے گھبراتا رہا ہوں اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اب اس دور میں میرے لیے یہ کام کتنا مشکل بن گیا ہوگا۔
ہر قوم کے مستقبل کا انحصار اس کے نوجوانوں پر ہے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ یہ دنیاکی عظیم سچائیوں میں سے ایک عظیم سچائی ہے ۔ خواہ ہم اس کی قدر کریں یا نہ کریں ۔ قومیں اپنے رقبوں ، اپنی عمارتوں ، اپنے باغوں اور چمنوں ، اپنے دریائوں اور پہاڑوں سے باقی نہیں رہتی ہیں بلکہ اپنی آئندہ نسلوں اوراپنے نوجوان سے باقی رہتی ہیں ۔نوجوان اچھے ہوں تو قوم زندہ رہے گی۔ اگر اس کے پاس دریا اور پہاڑ نہ ہوں گے تووہ اپنے لیے نئے دریا اور نئے پہاڑ پیدا کرلے گی۔ برعکس اس کے نوجوان مردہ ہوں تو اشبیلیہ، غرناطہ اور قرطبہ کی عظمتیں تعمیر کرنے والے بھی صرف تاریخ کی ایک داستان عبرت بن کے رہ جاتے ہیں !یہی نکتہ ہے کہ دنیا کی ہر زندہ رہنے والی قوم نے سب سے زیادہ اہمیت اپنے نوجوانوں کی اصلاح و تربیت کو دی ہے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ جن قوموں کو یہ بات عزیز ہوتی ہے کہ صفحۂ عالم میں ان کا مادی وجود بھی قائم رہے اور ان کی معنوی ہستی بھی کار فرما رہے، انہوں نے اپنے بام ودر کی آرائش کی بجائے اپنے آگے آنے والے اخلاف کی تہذیب و تربیت کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے ۔ میں تاریخ کا طالب علم نہیں ہوں لیکن سپارٹا کے لوگوں سے لے کر آج تک قابل ذکر قوموں کے جو حالات سر سری طور پر معلوم ہوئے ہیں ، ان کی بنا پر یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہتا ہوں کہ رومی و یونانی ہوں یا انگریز و امریکن ، دنیا کے نقشے پر کوئی پائیدار نقش اسی قوم نے چھوڑا ہے جس نے اپنی آنے والی نسل کی فکر کی ہے ۔ سپارٹا والوں کے متعلق میں نے کہیں پڑھا ہے کہ وہ اپنی عمارتوں میں کوئی تراشا ہوا پتھر لگانے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ ان کاتصور یہ تھا کہ عمارتوں میں کوئی تراشے ہوئے پتھر لگانا قوم کے اندر تن آسانی ا ور تعیش پسندی کے رجحان کی دلیل ہے ۔ اسی طرح اپنی آئندہ نسلوں کی صحت مندی کے معاملے میں ،میں نے سنا ہے کہ وہ اس قدر حساس تھے کہ اس کے لیے انہوں نے بعض ظالمانہ طریقے بھی اختیار کرلیے تھے، مثلا ًیہ کہ وہ کمزور بچوں کو سرے سے زندہ ہی نہیں رہنے دیتے تھے۔
ہمارے ہاں ، یعنی اسلام میں ، اولاد کی اصلاح و تربیت کا جو اہتما م رہا ہے اس کے لیے دوسری چیزوں سے قطع نظر کر کے اگر صرف قرآن ہی پر نظر ڈالیے تو اس کی اہمیت واضح کردینے کے لیے وہ کافی ہے۔ حضرت ابراہیم کی وصیت اپنی اولاد کوحضرت اسحق و حضرت یعقوب کی وصیت و نصیحت اپنی ذریت کو، حضرت لقمان کی تلقین اپنے بیٹے کو ۔ یہ ساری سرگذشتیں اسی لیے بیان ہوئی ہیں کہ ہم ان سے یہ سبق حاصل کریں کہ اچھے اسلاف کے نام اور کام اچھے اخلاق ہی سے باقی رہتے ہیں ۔ حضرت نوح کی سرگذشت پڑھیے تو دل تڑپ تڑپ جاتا ہے کہ ان کو اپنے بیٹے کی نا اہلی کا کتنا غم تھا اور انہوں نے اصلاح و تربیت کے لیے کیا کیا زحمتیں اٹھائیں اور کس کس طرح اپنے رب کے آگے آہ و فغاں کی۔ ماہنامہ میثاق لاہور۔اپریل ۱۹۶۷‘‘(مقالات اصلاحی ۲/ ۳۶۵)
کسی بھی قوم میں سیاسی اور سماجی سطح پر بہتری اسی وقت آتی ہے جب اس قوم میں فکری سطح پراصلاحی کا م کیا جائے۔امین احسن اس نکتے سے پوری طرح واقف تھے۔ سردار محمد اجمل خان لغاری صاحب کے نام ایک خط میں لاہور سے ۲۴ ؍جنوری ۱۹۶۰ء کو انھوں نے لکھا:
’’میرے سا منے جو دو کا م ہیں وہ یہ ہیں :
ایک ایسے فکری و تربیتی مر کز کا قیا م جو اسلا م کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کے مقا بلہ کے لیے بلند پا یہ تصنیفات بھی تیار کر ے اور اس مقصد کے لیے اشخا ص کی تر بیت بھی کرے۔
دوسرا ذہین اور سر گر م لو گو ں کے ذریعہ سے جس حد تک بھی ممکن ہو معا شرے کو تبا ہی سے بچانے کی کو شش کر نا۔ ان دو نوں کا مو ں کی ذمہ داری ہر اس مسلما ن پر عائد ہو تی ہے جو صورت حال کا احسا س رکھتا ہے۔ اس مقصد کے لیے اگر صا حب ِجذب و تسخیر اشخا ص اٹھیں تو ہما ری خوش قسمتی ہے لیکن ان کا انتظار کر کے ہم اپنے فر ض سے سبک دوش نہیں ہو سکتے ۔
اس دوران میں جو خطوط مجھے مو صو ل ہوئے ہیں ان سے اندازہ ہو تا ہے کہ ان کا موں کے لئے وقت اور ما ل کی قر با نی کر نے والے تو مو جود ہیں لیکن سب اپنے اپنے مقا می میلا نا ت کے تحت سو چ رہے ہیں جس کے سبب سے کو ئی مو ثر کا م نہیں ہو رہا ہے۔ اگر یہ قو تیں ایک بڑے کا م کے لئے مجتمع ہو جائیں تو کچھ مفید اور مو ثر کا م ہو سکتا ہے، میں نے فروری کے ’’میثا ق‘‘ میں اس چیز کی طر ف تو جہ دلا ئی ہے۔ ملا حظہ فرمائیے گا۔
میں درحقیقت موجودہ زما نے کی فا سد عقلیت کو بغیر چیلنج کئے جا نے نہیں دینا چا ہتا۔ ا ب یہ اللہ جا نتا ہے کہ اس کا م کے لئے میر ے اندر صلا حیت ہے یا نہیں اور ہے تو کتنی ہے۔
میرے نزدیک یہ کا م ضرور ہو نا چاہیے اور منظم طور پر ہو نا چاہیے، ورنہ ہمیں ڈوب مر نا چاہیے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۳۴)
لاہور سے۱۵ ؍اگست ۱۹۸۵ء کو ملک عبد الرشید عراقی صاحب کے نام ایک خط میں امین احسن لکھتے ہیں :
’’رمضا ن سے پہلے میں نے اصول ِتفسیر پر اپنے دس لیکچر ز ریکا رڈ کر ائے ہیں ان میں پوری ایک کتا ب کا مواد ہے اور ایسے اہم مبا حث بھی ہیں جو تدبر ِقرآن کے مقد مہ میں نہیں آسکے تھے۔ اب اس مو ضو ع پر میرے تما م افکار ضبط میں آگئے اور ان شا ء اللہ اہل ِ علم کے استفادہ کے لئے شائع ہو جائیں گے۔
اب اصولِ حدیث پر اپنے لیکچرز میں نے ریکا رڈ کرا نے شروع کر دیے ہیں ۔ غا لباًکل پندرہ لیکچر ز اصولی مبا حث پر ہو ں گے۔ یہ اس لیے ریکارڈ کر ا رہا ہوں کہ معلوم نہیں مجھے لکھنے کا موقع ملے نہ ملے افکار کا ضبط میں آ جا نا ضروری ہے ۔ اگر میں ان کو کتا بی شکل میں نہ لا سکا تو شا ید اللہ تعالیٰ دوسروں کو ان کے جمع و ترتیب کی تو فیق بخشے۔ اب اگر چہ ہر سمت سے ایسی کتاب کے لیے مطالبہ ہو رہا ہے لیکن میر ی قوت ِکا ر اب کم ہو گئی ہے۔ دعا فر ما ئیے کہ اللہ تعالیٰ جب تک زندہ رکھے اپنے دین کی کوئی چھوٹی مو ٹی خدمت لیتا رہے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۳۶)
امین احسن اندھی تقلید کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔وہ ایسے لوگوں کو پسند کرتے تھے جو غوروفکر کرتے ہیں ،اگرچہ وہ الجھے ہوئے ہی کیوں نہ ہوں ۔ لاہور سے ۱۶؍ فروری ۱۹۶۷ء کو محمود احمد لودھی صاحب کے نام ایک خط میں امین احسن لکھتے ہیں :
’’خوشی ہو ئی کہ آپ کی بیگم صا حبہ کو میرے بعض مضا مین پسند آئے ۔ خدا کر ے تفسیر بھی پسند آئے ۔ دوسری چیزیں بھی میر ی ان کو پڑھنے کو دیجئے۔ جو لو گ مجھے داد دیتے ہیں ان سے اس پہلو سے مجھے خو شی ہو تی ہے کہ ان کی سمجھ کے با ب میں مجھے حسنِ ظن ہو جاتا ہے ۔ آپ اس کو خودپسندی پر محمول نہ کیجئے گا۔ واقعہ یہی ہے کہ روشِ عا م کے پیر و یا لکیر کے فقیر میر ی چیز یں پسند نہیں کرسکتے ۔ صرف وہی لو گ پسند کر تے ہیں جو ذہنی الجھنوں سے نبرد آزما ہوئے ہوں ۔‘‘(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۱۱)
فراہی جو علمی کا م ادھورے چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے، امین احسن کو ان کی تکمیل کی فکر ہر وقت دامن گیر رہتی تھی ، ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی لکھتے ہیں :
’’ ایک ملاقات میں کہا:
میں نے ایک دھیلا خرچ کیے بغیر وہ کام کر دیا جس کے لیے ڈاکٹر حفیظ اللہ نے پچاس ہزار کا عطیہ دیا تھا۔ اب انھیں مجھ سے یہ شکایت نہیں ہو سکتی کہ میں نے کچھ نہ کیا ۔ اور روز حشر مجھ ان سے شرمندہ نہیں ہونا پڑے گا۔
اصلاحی صاحب کی یہ بات من وجہ صحیح ہے ، لیکن مولانا فراہی کے اصل مسودات آج بھی کسی فرہاد کوہکن کے منتظر ہیں ۔
ایک موقع پر ’’تدبر قرآن‘‘ اور فکر فراہی پر دوسرے کاموں کا ذکر کرتے ہوئے اکیسویں صدی کے حوالے سے کہا ’’یہ فراہی کی صدی ہے ۔‘‘
’’تدبر قرآن‘‘ ہی کے پس منظر کو ذہن میں رکھ کر ایک ملاقات میں کہا:
جنھوں نے تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ پڑھی ہے وہ کہتے ہیں کہ آپ نے اپنی تمام محنت استاد کے کھاتے میں ڈال دی ہے ۔
اصلاحی صاحب پانچ سال شب و روز فراہی کی صحبت میں رہے ہیں اور فراہی کی ایک ایک چیز کو پڑھ ڈالا ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآن کے طالب علم ہی نہیں عالم ہیں ۔ استاذ ہیں ، امام ہیں ۔ ان حالات میں اصلاحی صاحب کی زبان سے ذکر فراہی خوشی کی بات ہے :
ع ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
لیکن موقع و محل اور سیاق و سباق کے لحاظ سے اصلاحی صاحب کا ایک پرانا خواب یہاں درج نہ کیا جائے تو شہادت حق کے منافی اور کتمان حق کے مترادف ہو گا خواب اگرچہ خواب ہی ہوتا ہے ۔ ’’اضغاث احلام‘‘ لیکن کہتے ہیں بزرگوں کے خواب سچے ہوتے ہیں ۔ پہلے خواب سن لیں ۔ اصلاحی صاحب نے مجھ سے بیان کیا :
’’مولانا فراہی کو کبھی کبھی خواب میں دیکھتا ہوں ۔ حال ہی میں وہ مجھے خواب میں نظر آئے۔ ملاقات ہوئی تو فرمایا: میں جا رہا ہوں ، میں نے دوسری جلد لے لی ہے ، بکس خالد کو دے دو۔‘‘
دوسری جلد سے ظاہر ہے مولانا اصلاحی کا اشارہ ’’تدبر قرآن‘‘ کی طرف تھا۔ خالد سے مراد خالد مسعود ،مولانا اصلاحی کے ایک شاگرد ہیں ۔ بکس کے بارے میں مولانا اصلاحی نے مجھ سے پوچھا کہ بکس سے مولانا کی کیا مراد رہی ہو گی ۔ میں نے کہا کہ بکس سے مراد مسودات کا بکس ہو گا، اس کے علاوہ اور کیا چیز ہو سکتی ہے ۔ اصلاحی صاحب نے کہا: ہاں ٹھیک ہے ۔
جو لوگ خوابوں کے بارے میں جانتے ہیں ۔ اور اس خواب کے محولہ امور کے بارے میں بھی معلومات رکھتے ہیں ۔ وہ اس کی بہتر تشریح کر سکتے ہیں ۔ یہ خواب دس بارہ سال پرانا ہے۔ اس کے بعد جوں جوں دن گزرتے گئے اصلاحی صاحب کے ذہن سے ماضی قریب بھی محو ہوتا گیا اور ماضی بعید بھی۔
بات خواب کی ہو یا بیداری کی ہمارے ساتھ ان کی گفتگوؤں میں زیادہ مدرستہ الاصلاح، دائرۂ حمیدیہ ، سرائے میر ، پھریہا، اعظم گڑھ، بمہور اور مولانا فراہی کا تذکرہ ہوتا تھا۔ ایک دن میں گیا تو مولانا کو ہچکیاں آنے لگیں ۔ کہنے لگے: میرے استاد کی موت ہچکیوں میں ہوئی تھی میں بھی اسی میں مروں گا ۔‘‘(ذکر فراہی ۵۸۲)
تفسیر تدبر قرآن کے بارے میں سردار محمد اجمل خان لغاری صاحب کو ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’ میں چا ہتا ہوں کہ ایک جلد میر ی زندگی میں ضرور چھپ جائے تا کہ میر ی روح استا ذ مرحوم سے شرمسار نہ ہو ۔‘‘(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۸)
قمر الدین اعظمی کا نپور کے نام لاہور سے ۱۷ ؍مئی ۱۹۹۰ء کو خط میں امین احسن نے فراہی سیمینار میں اپنی شرکت کو شرعی فریضہ قرار دیا:
’’آپ نے فراہی سیمینا ر کے مو قع پر میری حا ضری کو ضروری قرار دیا ہے ۔میرے نزدیک یہ ضروری ہی نہیں ، بلکہ میرا شرعی فرض بھی تھا، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آپ ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ایک نو ے سا ل کے بوڑھے کی نا توانیوں کا اندازہ کر سکیں ۔میں اس معا ملہ میں آپ لو گوں کو مجبور سمجھتا ہوں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب میں بھا رت کا سفر تو درکنا ر لا ہور کے اندر ہی کسی سفر سے بھی با لکل قا صر ہو ں اگر کسی اہم ضرورت سے گھر سے نکلنا پڑتا ہے تو داہنے بائیں دو مدد گاروں کا سہا را لینا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے اب میری حا ضری کا خیا ل دل سے نکا ل دیجئے۔ ویسے امید ہے کہ یہا ں سے بعض احباب جا ئیں گے اور ان کے ذریعہ سے میر ی نمائندگی ہو جا ئے گی۔ البتہ یہ ذمہ داری میں لیتا ہوں کہ میں برابر دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اس سیمینا ر کو ہر پہلو سے کا میا ب بنائے۔ اب تک آ پ نے طلبا ئے قدیم کی پر زور تر جما نی کی ہے ۔ میں امید کر تا ہوں کہ اب اسی زور کے سا تھ میری ترجما نی کا فریضہ بھی ادا کریں گے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۸۸)
خالد مسعود صاحب اور غامدی صاحب کا امین احسن کے ہاں کیا مقام تھا ،اس کی وضاحت ایک گفتگو سے ہوتی ہے، جو امین احسن نے ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی کے ساتھ کی۔ڈاکٹر ابوسفیان لکھتے ہیں :
’’س۔ فراہی سیمنا ر کے لیے آپ کا پیغا م ریکارڈ کر نا چا ہتا ہوں ؟
ج۔ ابھی سے پیغام ریکا رڈ کر کے کیا کر و گے، جب یہاں سے لو گ جا ئیں گے میں انہیں کچھ نہ کچھ ریکا رڈ کر واکے دے دوں گا اور اگر ہو سکا تو انہیں املا کرا دوں گا۔
س۔فراہی سیمنا ر میں کن کن لو گو ں کو یہاں سے بھیجیں گے؟
ج۔ دیکھو فراہیا ت کے سلسلے میں یہاں دو لو گوں کا خا ص تعلق ہے: ایک خا لد مسعود اور دوسرے جا وید الغا مدی۔ ان دونوں کو میں نے تا کید کی ہے کہ وہ مقا لا ت کے سا تھ سیمنا ر میں شریک ہو ں ۔ با قی ممکن ہے کہ کچھ اور لو گ بھی جا ئیں ۔‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۷۵)
’’تدبر قرآن‘‘ کی تکمیل پر ریڈیو پاکستان نے ۲۳ ؍مارچ ۱۹۸۲ء کو لاہور میں امین احسن کا انٹرویو لیا۔ اس میں امین احسن نے اپنے اہم ترین ساتھیوں کا نام لیا۔
’’سوال:وہ کون لو گ ہیں جن سے آپ کو توقع ہے؟
جواب: میرے سا تھیوں میں سے خا لد مسعود صا حب ہیں ، عبد اللہ صا حب ہیں ، جاوید احمد صا حب ہیں ۔ اسی طرح اعظم گڑھ میں جو لو گ کا م کر رہے ہیں ان میں مو لا نا بدر الدین صاحب ہیں ۔اب ان لو گو ں سے میں یہ چا ہتا ہوں کہ یہ اس کا م میں حصہ لیں ۔‘‘ (ماہنامہ اشراق ،جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ۱۲۴)
علمی کاموں میں کسی صاحب ِعلم کے بہترین ساتھی اس کے شاگرد ہوتے ہیں ۔یہ شاگرد ہی ہوتے ہیں جو استاد کے ادھورے کاموں کی تکمیل کرتے ہیں اور استاد کے مشن کے لیے تسلسل اور دوام کا باعث بنتے ہیں ۔ ۱۹۶۶ء میں لاہور سے جناب محمود احمد لودھی کے نام امین احسن ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’آپ کے لا ہو ر آنے کا آپ سے زیا دہ میں طا لب ہوں ۔ استا ذ مر حو م کو آخر ی دورِ زندگی میں سب سے زیا دہ جستجو چند شا گر دوں کی ہو ئی تھی، یہی حا ل اس دور میں میرا ہے۔ انھی کی طرح میں بھی بہت کم لکھ سکا ۔ پھر میر ے پا س اپنی ہی نہیں بلکہ ان کی بھی اما نت ہے۔ یہ تو اللہ کو علم ہے کہ اب کتنی مہلت با قی ہے، لیکن اب میں اپنی صحت کی طرف سے زیادہ پر امید نہیں ہوں ۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۴۴)
اچھے استاد کو صرف اپنے کاموں کی تکمیل ہی کی فکر نہیں ہوتی، بلکہ وہ اپنے شاگردوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور ان کی نشوونما کے لیے بھی بے چین رہتا ہے۔ لاہور سے ۱۳ ؍فروری ۱۹۶۷ء کو جناب محمود احمد لودھی کے نام امین احسن ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’لکھنے کے معا ملے میں اپنے شر میلے پن کو خدار ا ا ب دور کر دیجئے۔ اب اس کو طول دینے کی گنجائش نہیں ہے ۔اگر آپ نے اس حجا ب کو دور نہ کیا تو مجھے اندیشہ ہے کہ آپ کی یہ صلا حیت جا مد ہو کر رہ جا ئے گی اور یہ ناقابل ِتلا فی نقصا ن ہو گا۔ اس کے لیے میر ی دعا اسی وقت کا ر گر ہوگی جب آپ عملا ًکچھ کریں گے اور کچھ نہیں تو پہلے کچھ تر جمہ و تلخیص ہی کا کا م شر وع کیجئے۔ مولانا ؒ کا کو ئی مسود ہ سا منے رکھ کر لکھئے یا جمہرہ ( مراد اما م فرا ہی ؒ کی کتا ب جمہرۃ البلا غہ ہے۔ مدیر ) کو اردو میں کر ڈ الیے مقصودآپ کے حجا ب کو توڑنا ہے…
ادھر دو ہفتے طبیعت بجھی رہی۔ مجھ پر یہ دور پڑتے رہتے ہیں ۔ شکر گزار ہو ں کہ آپ لو گ میرے لیے دعا کر تے رہتے ہیں ۔‘‘
اسی طرح ۲۷؍ فروری ۱۹۶۷ء کو لودھی صاحب کو خط میں کہتے ہیں :
’’خو شی ہو ئی کہ آپ نے لکھنے کے لیے اسلحہ سنبھا ل لیے ہیں ۔ اصل میں جس سبب سے میں زیا دہ زور دے رہا ہوں وہ یہ ہے کہ اس کا م میں جو جھجک ہو تی ہے اس کے دور ہو نے کا یہی زما نہ ہے اگر آج یہ دور نہ ہو ئی تو پھر اس کا دور ہو نا بڑا مشکل ہو گا۔نتیجہ یہ ہو گا کہ آپ کی افادی حیثیت بہت محدود ہو کر رہ جائے گی۔ شہر ت حاصل کر نے کی خواہش تو بے شک کو ئی اچھی چیز نہیں ہے لیکن حصول ِکما ل کی جدو جہد نہ صرف محمود ہے بلکہ ذی صلا حیت لو گو ں کے لیے فرائض میں ہے۔ آپ اپنی ذہا نت کی قدر کریں اور اس دور میں اس کی صحیح قدر کی شکل یہی ہے کہ قرآن کو اپنی فکر کا مو ضو ع بنا ئیں اور اپنے فکر کو عمدہ اسلو ب سے پیش کر نے کا سلیقہ پیدا کریں ۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۴۵)
لاہور سے ۱۳ ؍مارچ ۱۹۸۶ء کو ایک خط میں لکھا:
’’شا نِ نزول اور احوالِ عرب کے زیا دہ درپے ہو نے کی ضرورت نہیں ہے۔ شا ن نزول اور کلا م کے مو قع و محل کو خود کلا م سے اخذ کر نے کی کو شش کیجئے ۔ایک اعلیٰ کلا م اپنے پس منظر اور ما حو ل کو خود بہتر طریقہ پر واضح کر دیتا ہے ۔اگر اس طر ح کی کوئی چیز پڑھئے تو او نچے درجے کے ذی علم لو گو ں کی چیز پڑھئے ۔گھٹیا قسم کے کتا ب فر و شوں کی چیز یں پڑھنے پر وقت صرف نہ کیجئے۔‘‘(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۳۱)
مولانا وحیدالدین خان ،امین احسن کے طرز تعلیم کا ایک انداز واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ میرے زمانۂ تعلیم میں مولانا امین احسن اصلاحی مدرستہ الاصلاح کے صدر مدرس تھے۔ تجربے کے مطابق مولانا موصوف ایک بہترین مدرس تھے۔ وہ اگر مدرسے میں مستقل قیام کرتے تو وہ زیادہ بڑا کا م کر سکتے تھے۔ تقسیم ملک کے وقت وہ پاکستان چلے گئے اور وہیں ان کا انتقال ہو گیا۔ میرے نزدیک، مولانا موصوف کا مدرستہ الاصلاح چھوڑ کر جانا کوئی درست فیصلہ نہ تھا۔ اگر وہ آخر وقت تک مدرسہ میں قیام کرتے تو وہ تعمیر ِافراد کی صورت میں ملت کو زیادہ بڑا فائدہ پہنچا سکتے تھے۔
مولانا امین احسن اصلاحی کے اندر ایک خاص صفت تھی جو میں نے اپنے تجربے میں کسی اور استاد میں نہیں پائی، وہ ہے تدریس کے دوران ذہنی تربیت کی غذا دیتے رہنا ۔ اس نوعیت کا ایک نمایاں واقعہ یہاں راقم الحروف کی کتاب ’’دین و شریعت ‘‘ سے نقل کیا جاتا ہے:
’’مدرسۃالاصلاح میں قرآن خصوصی طور پر داخلِ نصاب تھا۔ یہاں مجھے یہ موقع ملا کہ میں مشہور عالمِ دین اور مفسر مولانا امین احسن اصلاحی (صاحب تدبر قرآن) سے براہِ راست قرآن کی تعلیم حاصل کروں ۔ مولانا محترم اس مدر سے میں استادِ تفسیر بھی تھے اور صدر مدرس بھی۔ ایک روز درس قرآن کے تیسویں پارہ کی یہ آیت سامنے آئی:
اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ۱۴؎ (سورۃ الغاشیۃ: آیت ۱۷)
استاد محترم امین احسن اصلاحی نے اس موقع پر طلبہ سے سوال کیا کہ اونٹ کے سم پھٹے ہوتے ہیں یا جڑے ہوئے ہوتے ہیں ، یعنی وہ بیل کی مانند ہوتے ہیں یا گھوڑے کی مانند۔ اس وقت ہماری جماعت میں تقریباً ۲۰ طالب ِعلم تھے مگر کوئی بھی شخص یقین کے ساتھ اس کا جواب نہ دے سکا۔ ہر ایک اٹکل سے کبھی ایک جواب دیتا کبھی دوسرا جواب ۔
اس کے بعد استاد محترم نے ایک تقریر کی۔ انہوں نے کہا کہ تمہارے جوابات سے اندازہ ہوتا ہے کہ تم لوگ اونٹ کے سم کی نوعیت کے بارے میں نہیں جانتے ۔ پھر انہوں نے عربی زبان کا یہ مقولہ سنایا: ’’لا ادری نصف العلم‘‘ (میں نہیں جانتا آدھا علم ہے) اس کی تشریح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر تم لوگ یہ جانتے کہ تم اونٹ کے سم کے بارے میں بے خبر ہو تو گویا کہ اس معاملے میں تمہارے پاس آدھا علم موجود ہوتا۔ کیونکہ اپنی لاعلمی کو جاننے کے بعد تمہارے اندر یہ شوق پیدا ہوتا کہ تم اپنے علم کو مکمل کرنے کے لئے یہ معلوم کرو کہ اونٹ کے سم کیسے ہوتے ہیں ۔ ’ لاادری ‘کا شعور تمہارے اندر بیدار ہوتا تو اونٹ پر نظر پڑتے ہی تم اس کے سم کو غور سے دیکھتے اور پھر تم اپنے نہ جاننے کو جاننا بنا لیتے ۔
مدرسے کا یہ واقعہ میرے لئے اتنا موثر ثابت ہوا کہ یہ میرا عمومی مزاج بن گیا کہ میں ہر معاملے میں اپنی ناواقفیت کو جانوں ، تاکہ میں اس کو واقفیت بنا سکوں ۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ، مئی ۲۰۰۹ء، ۳۸)
امین احسن قرآ ن مجید کا مطالعہ ریاضت کے انداز میں کرتے اور اسی کی اپنے شاگردوں کو بھی ہدایت کرتے۔ سلیم کیانی صاحب لکھتے ہیں :
’’مولانا قرآن پرتدبرمیں پوری طرح منہمک رہتے ۔ ان کے شاگردوں کو ان کی اس ریاضت سے بڑا فائدہ ہوتا۔ ان کی ہدایت یہ ہوتی ’’ ایک سورۃ کا اس وقت تک مطالعہ کیا کرو کہ جب تم اپنی آنکھیں بند کرو تو پوری سورۃ کا سراپا اس کے شروع سے آخر تک اپنے پورے جمال کے ساتھ تمھارے ذہن کے سامنے آجائے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۲۷)
انسان نے جس ادارے سے تعلیم پائی ہو، اس کے ساتھ جذباتی تعلق ایک فطری بات ہے، مگر امین احسن کا مدرستہ الاصلاح کے ساتھ تعلق بہت گہرا تھا ۔انھوں نے وہاں سے تعلیم ہی نہیں پائی، بلکہ تعلیم دی بھی اور ا س کے سربراہ بھی رہے۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام انصاری لکھتے ہیں :
’’مولاناامین اصلاحی کی انمول علمی یادگاروں میں مدرستہ الاصلاح بھی شامل ہے ۔ طالب علم اور استاد کی حیثیت سے انھوں نے وہاں تقریباً تیس برس گزارے ۔ مادر علمی سے انھیں فطری طور پر قلبی تعلق تھا اور اس کی تعمیر و ترقی کے لیے وہ ہمیشہ خواہاں و کوشاں رہے ۔ ایک جانب مولانا مرحوم کی صلاحیتوں کو نکھارنے ، ان کے تحریری و تقریری جوہر کو چمکانے اور ان کے علم و فن کو گہرائی و گیرائی عطا کرنے میں مدرسہ کی تعلیم اور مولانا فراہی و دوسرے اساتذہ کی تربیت کا فیض رہا تو دوسری جانب مولانا مرحوم کی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ اور دیگر علمی و دینی خدمات سے مدرسہ کی جو نیک نامی ہوئی، ہند و بیرونِ ہند کے ایک وسیع حلقہ میں اسے جو تعارف ملا، اور اس کے نظامِ تعلیم و تربیت کو جو قدردانی نصیب ہوئی اس سے صرف ِنظر نہیں کیا جا سکتا ۔ مدرسہ کے بہت سے فارغین اپنے نام کے ساتھ ’’اصلاحی‘‘ لکھتے ہیں لیکن مولانا مرحوم کے ساتھ یہ نسبت ایسی پختہ و معروف ہو گئی تھی کہ صرف ’’مولانا اصلاحی‘‘ کہنے پر اول وہلہ ذہن انھی کی طرف جاتا۔‘‘ (سہ ماہی تدبر،اپریل ۱۹۹۸ء، ۲۲)
مدرستہ الاصلاح سے متعلق ایک گروہ شکوہ سنج رہتاہے کہ مولانا امین احسن نے جماعت میں شامل ہوکر مدرسہ کا حق ادا نہیں کیا ۔ بہ الفاظ دیگر مدرسے سے بے وفائی کی ہے، جب کہ ایسے محسوس ہوتاہے کہ جماعت میں ایک تاثر یہ موجود تھاکہ امین احسن کا دل مدرسہ میں لگا رہتاہے ۔اس ضمن میں ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔اس میں امین احسن پر یہ’’ الزام ‘‘مذاق کے انداز میں لگایا گیا ہے، مگر ہر مذاق کے پیچھے کچھ نہ کچھ سنجیدگی ضرور ہوتی ہے۔حکیم مشتاق احمد اصلاحی بتاتے ہیں :
’’۴۶۔۱۹۴۵ء کے ایک اجلاس کا یہ واقعہ مجھے اچھی طرح یاد ہے ۔ اس اجلاس میں زیر بحث موضوع یہ تھا کہ تقسیم ملک کے بعد جماعت اسلامی کا مرکز ہندوستان میں ہونا چاہیے یا پاکستان میں ۔ مسئلہ چونکہ نہایت اہم تھا اور تحریک اسلامی کے مستقبل پر اس فیصلہ کے دورس اثرات مرتب ہونے تھے ، اس لیے امیر جماعت اسلامی سید مودودی ؒنے فیصلہ کیا کہ اس مسئلہ پر بحث کرنے کے لیے مرکزی مجلس شوریٰ کے ارکان کے ساتھ تمام مقامی جماعتوں کے امراء کو بھی اجلاس میں شریک کیا جائے ۔ اس اہم اجلاس میں ، جماعت اسلامی فیروز پور چھاؤنی کا امیر ہونے کی وجہ سے مجھے بھی شریک ہونے کا موقع مل گیا۔ اجلاس مرکز جماعت سرنا (پٹھان کوٹ) میں سید مودودی کی زیر صدارت بعد نماز عشاء منعقد ہوا ۔ مولانا کی دائیں جانب میاں طفیل محمد صاحب ، چودھری محمد اکبر صاحب وغیرہ بیٹھے تھے اور بائیں جانب مولانا امین احسن اصلاحی صاحب ، ملک نصر اللہ خان عزیز، غازی عبد الجبار صاحب تشریف فرما تھے ۔ دائیں جانب کے ارکان جماعت کا مرکز ، پاکستان میں رکھنے کے حق میں تھے اور بائیں جانب کے ارکان ہندوستان کے حق میں تھے ۔ بحث کا آغاز مولانا امین احسن صاحب اصلاحی کی تقریر سے ہوا ۔ انھوں نے اپنے پرجوش خطاب میں جماعت اسلامی کا مرکز بھارت میں قائم رکھنے کے حق میں دلائل دیتے ہوئے فرمایا کہ غیر مسلموں کے اندر اسلام کی دعوت قبول کرنے کے زیادہ امکانات ہیں (اس کے لیے انھوں نے کچھ دعوتی اور تبلیغی تجربات بھی بیان فرمائے کہ کس طرح جماعت اسلامی کا لٹریچر ہندوؤں کے اندر نفوذ کر رہا ہے) انھوں نے فرمایا : ’’اگر جماعت اسلامی کا مرکز پاکستان میں رکھا گیاتو پاکستان کے مسلمان تحریک اسلامی کی زیادہ شدت سے مخالفت کریں گے ، دوسری دینی جماعتیں جماعت اسلامی کو برداشت نہ کر سکیں گی ، اسے خلاف قانون قرار دیے جانے کے مطالبات اٹھیں گے ۔‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔ اس لیے ان کی رائے میں بہتر یہ تھا کہ تقسیم ملک کے بعد جماعت اسلامی کا مرکز بھارت میں ہی رہنے دیا جائے اور پاکستان میں ذیلی د فتر قائم کر لیا جائے ۔ جب مولانا اصلاحی اپنی تقریر ختم کر چکے تو میاں طفیل محمد صاحب نے جو کہ میرے قریب بیٹھے تھے نہایت ہلکے پھلکے مزاحیہ انداز میں فرما دیا کہ چونکہ سرائے میر بھارت میں ہے اس لیے جماعت اسلامی کا مرکز ہندوستان میں ہی ہونا چاہیے ۔ میاں صاحب کا یہ کہنا تھا کہ اصلاحی صاحب غصہ سے لال پیلے ہو گئے اور احتجاجاً یہ کہتے ہوئے اجلاس سے واک آؤٹ کر گئے ۔ ’’اچھا یہ سارے دلائل میں نے اپنے وطن کی وجہ سے دیے ہیں ۔‘‘ حالانکہ نہ میاں طفیل محمد صاحب نے یہ ریمارکس مولانا اصلاحی صاحب کی نیت پر کسی شائبہ کی بنا پر دیے تھے اور نہ حاضرین اجلاس نے میاں محمد طفیل صاحب کے اس فقرہ سے کوئی ایسااثر ہی لیا تھا ۔ کیونکہ تمام ارکان مجلس شوریٰ اور حاضرین اجلاس یہ جانتے تھے کہ کس طرح سید مودودی کے ایک حکم کی اطاعت کرتے ہوئے اپنے گھر بار اور وطن کو چھوڑ کر مولانا امین احسن اصلاحی پرنسپل’’مدرستہ الاصلاح‘‘ سرائے میر ضلع اعظم گڑھ اپنے عہدے اور وطن کو خیر آباد کہہ کر بال بچوں سمیت سرنا (پٹھان کوٹ) میں منتقل ہو گئے تھے ۔ مگر مولانا اصلاحی صاحب کے جذبات کی شدت سمجھیے کہ وہ اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے ۔ حاضرین اجلاس نے انھیں روکنے کی کوشش کی مگر وہ نہ مانے۔ اجلاس ان کی غیر حاضری کی وجہ سے تعطل کا شکار ہو گیا۔ بالآخر مرکزی سٹاف کے دو اصحاب کو مولانا اصلاحی صاحب کو منا کر اجلاس میں لانے کے لیے بھیجا گیا۔ قریباً ایک گھنٹہ کے بعد وہ اصحاب مولانا اصلاحی صاحب کو دوبارہ اجلاس میں لے آئے اور اس طرح اجلاس کی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی۔
متعدد ارکان شوریٰ نے بھارت اور پاکستان میں مرکز جماعت کے حق میں دلائل دیے ۔ ان تقاریر کے بعد مولانا مودودی صاحب نے رائے شماری کرانے کا فیصلہ کیا ۔ رائے شماری میں 3/4حاضرین اجلاس نے جماعت اسلامی کا مرکز بھارت کی بجائے پاکستان میں منتقل کرنے کے فیصلہ کے حق میں ووٹ دیا اور اس طرح یہ مسئلہ حسن و خوبی سے طے ہوگیا۔‘‘(تذکرۂ مودودی ۵۸۱-۵۸۲)
انسا ن دنیا کے کسی بھی خطے میں آباد ہوجائے،اسے اپنا آبائی وطن کبھی نہیں بھولتا۔ امین احسن کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا۔ ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی،امین احسن کے ساتھ اپنی ایک گفتگو نقل کرتے ہیں :
’’س۔مو لا نا ابو اللیث اصلا حی ندوی صاحب کی خواہش ہے کہ آپ ہندو ستا ن تشریف لائیں ؟
ج۔ابو اللیث صاحب سے میر ا ایک خا ص تعلق ہے۔ ہندوستا ن سے اکثر ان کے پیغامات ملتے رہتے ہیں ۔ میں ان کے جذبا ت واشتیا ق کی قدر کر تا ہوں ۔ مجھے خود ان سے ملنے کی شدید خواہش ہے کہ ان سے مل کر کچھ حسرتیں نکا لوں ۔ اگر میں ہندوستا ن میں ہو تا تو آج میرے یہ تما م چا ہنے وا لے میری نظروں کے سا منے ہو تے ۔ انھیں میر ا سلا م کہو کہ وہ دین اِسلام کے لیے کا م کر تے رہیں ۔
س۔نو مبر میں ہو نے والے فراہی سیمنا ر میں ہم آپ کو لے کر چلیں گے ۔ آپ صرف افتتاحی تقریر کر یں ۔
ج۔ابھی میں نے تمھیں اپنی صحت کے با رے میں بتا یا کہ میں اس قا بل نہیں ہوں کہ ہندوستان چلوں ۔ اگر وہاں گیا تو میرے چا ہنے والوں کا تا نتا بند ھ جا ئے گا ۔ جما عت اسلا می دلی ہی میں گھیر لے گی ، اعزہ کو معلو م ہوا کہ میں ہندوستا ن آکر ان سے نہ ملا تو وہ الگ ناراض ہوں گے، مادرِ علمی کے فرزندان بھی مجھے گھیر ے میں لے لیں گے اور اعظم گڑھ میں ایک خاص حلقہ بھی مجھے نہ بخشے گا ۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم مجھے سیدھے لے جاؤ گے اور واپس لا کر لا ہور پہنچا دو گے۔ ایسا لگتا ہے کہ تم مجھے ڈربے میں بند کر کے رکھو گے۔ میرے جا نے پر ایک سیلا ب ٹوٹ پڑے گا اور تم اس سیلا ب کو روک نہیں سکتے ۔‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۷۵)
مولانا کی پہلی شادی ۱۹۲۳ء میں اصیل پور، پھریہا (اعظم گڑھ) کے راجپوت خاندان کی محترمہ رابعہ سے ہوئی، جن سے پانچ بچے: قمرالنساء، شمس النساء، ابوصالح ، ابوسعید اور ابو سعد پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۴ء میں اہلیہ وفات پا گئیں ۔ دوسری شادی ۱۹۴۵ء میں راہوں (جالندھر) کے چودھری عبدالرحمن کی صاحب زادی انوارالرحمت سے ہوئی، جن سے ایک صاحب زادی مریم ہوئیں ۔۱۵؎
امین احسن اپنے بچوں کی ہر پہلو سے تربیت کے بارے میں بہت حساس تھے۔ملتا ن نیو سنٹرل جیل سے ۲۰ / مئی ۱۹۴۹ء کو اپنے بیٹے ابوسعید اصلاحی صاحب کو خط میں لکھتے ہیں :
’’پیا رے بیٹے ! تمہارے اپنے ہا تھ کا لکھا ہو ا خط پا کر بڑی خوشی ہو ئی۔ اللہ تعا لیٰ عزیز سلمہ، کو علم ِنا فع اور عملِ صالح کی دولت دے اور اپنے دین کی خدمت کے لائق بنا ئے۔ امید ہے کہ تم اپنے بھا ئی جا ن کے سا تھ خوش رہو گے اور شو ق سے پڑھو گے اور اپنی تما م عا دتیں ایسی بناؤ گے کہ وہ اللہ تعا لیٰ کو پسند آئیں ۔اپنی امی اور اپنی آپا کو بھی بر ابر خط لکھتے رہو۔ اور اپنے ابو سعد بھا ئی کو بھی کبھی کبھی یا د کیا کر و۔ نما ز پرھنے کی عا دت اب پختہ کر ڈا لو اور غصہ جو تم میں بہت زیا دہ ہے اس کو کم کر و یہ بہت بری چیز ہے ۔اس گر می میں دھو پ میں نہ پھر نا اور روزا نہ کم از کم ایک دفعہ ضرور نہا نا۔
میں خدا کے فضل و کر م سے بہت اچھا ہوں ۔ پچھلے ہفتہ میں طبیعت ذرا خرا ب ہو گئی تھی، اب اس کا کو ئی اثر با قی نہیں ہے۔ دوسرے حضرات بھی بخیر یت ہیں ۔وہا ں تما م حضرات کو میرا سلا م کہو اور اپنے سا تھیوں کو دعا ۔تمھارے بھا ئی جا ن جب خط لکھیں اس میں تم اپنا رقعہ ضرور ڈال دیا کر و اور اگر وہ خط نہ لکھیں تو تم اوپر لکھے ہو ئے پتہ پر خود خط لکھا کر و ۔مجھے تمہا ری خیر یت کے لئے بڑا انتظا ر رہتا ہے ۔‘‘ (سہ ماہی تدبر جولائی ۱۹۹۸ء، ۴۲-۴۳)
اپنے بڑے بیٹے ابو صالح اصلاحی کے نام ملتان نیو سنٹرل جیل سے ۳ ؍فروری ۱۹۵۰ء کو لکھتے ہیں :
’’مجھ پر ہلکا سا حملہ ملیریا کا ہو گیا تھا ، مگر اب اچھا ہوں انگریز ی کتا ب اب تک نہیں ملی۔ یاتو تم نے ہی نہیں بھیجی یا ابھی سنسر والوں کے زیر مطا لعہ ہے۔ دو چار دو پلی ٹو پیا ں بھجواؤ۔ میں جانتا ہوں کہ یہا ں کپڑے کی ٹو پیاں سلوانا ایک جہا ز بنوانے سے زیا دہ مشکل کا م ہے، مگر تو جہ کر و گے توکو ئی مہا جر درزی سی ہی دے گا۔ ابو سعید سلمہٗ کو دعا ۔ معلوم نہیں ان کی ’’عبادت‘‘ کا کیا حا ل ہے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۹۰)
ملک عبد الرشید عراقی صاحب کے نام لاہور سے ۲؍ جنوری ۱۹۸۰ء کو اپنی اہلیہ کی علالت کے باعث اپنی کیفیت بیان کرتے ہیں :
’’میں اہلیہ کی مسلسل علا لت کے سبب سے ۴،۵ ما ہ سے یہیں مقیم ہو ں ( ڈاکٹر زاہدہ درانی کلینک لا ہور میں قیا م مراد ہے ۔ مدیر ) رقبہ پر کسی شدید ضرورت ہی سے جا تا ہو ں اس دوران میں میری ڈاک بر ابرگڑ بڑ رہی بے اطمینا نی کے سبب سے پتہ تبدیل نہ کر ا سکا۔ منشی جب گا ؤں سے آتا ہے تو ڈا ک لا تا ہے اور وہاں بھی ڈا ک کی تقسیم کا کوئی نظم نہیں ہے ۔اس وجہ سے میری ڈاک بیشتر اسکول کے بچوں ہی کی نذر ہو جا تی ہے۔ ڈا کٹر صا حب کی خدمت میں سلا م اور غیرحاضری کی معذرت کیجئے ۔ اگر آپ حضرات نے لا ہور تشریف لا نا ہو تو مذکور ہ پتہ پر ملاقات ہو سکتی ہے اور مجھے اس ملا قا ت سے دلی مسرت ہو گی۔ ‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۹۶)
سب سے بڑے او ر ہونہاربیٹے ابوصالح اصلاحی کی جوانی میں موت کا حادثہ حیات امین احسن کا بڑا درد ناک باب ہے۔امین احسن ایک باپ بھی تھے اور قرآن کے عالم بھی۔ان دونوں حیثیتوں کے باعث اس موقع پر ان کے اندر جذبات کی کیسی کشمکش برپا ہوئی،اس کا اندازہ ان تحریروں سے ہوتا ہے جو انھوں نے اس ضمن لکھیں ۔ اس معاملے میں انھوں نے ایک بے حددل چسپ اور فکر انگیز سچا خواب بھی بیان کیا ہے، جو ایک با پ کے لیے قلبی سکون کا باعث بنا:
’’۲۰ مئی ۱۹۶۵ء کو قاہرہ کے قریب، پی آئی اے کے طیارے کو جو المناک حادثہ پیش آیا وہ یوں تو پورے پاکستان کا ایک المیہ ہے، ہماری پوری قوم کو اس سے صدمہ پہنچا ہے اور میں اس میں قوم کے ساتھ برابر کا شریک ہوں ، لیکن میرے لیے یہ حادثہ دہرے رنج و غم کا باعث ہوا ہے اس لیے کہ میرے جوان بیٹے ابو صالح اصلاحی نے بھی اس حادثے میں شہادت پائی۔میں گوشت پوست کا بنا ہوا ایک کمزور انسان ہوں ۔ عام حوادث سے بھی،جن کی خبریں اخباروں میں روز چھپتی رہتی ہیں ، بہت زیادہ متاثر ہوتا ہوں ، پھر ایک ایسے حادثے کے اثرات سے اپنے دل کو کیسے بچاپاتا جس نے میرے پورے آشیانے کو سوخت کر کے رکھ دیا ۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ یہ دن مجھ پر بہت سخت گزرے ہیں ۔ اتنی عمر میں ایسے سخت دن مجھ پر نہیں گزرے تھے۔ اگرچہ حادثہ کی خبر سنتے ہی میں نے اپنے آپ کو اپنے رب کے حوالہ کردیا تھا کہ اے رب! اگر یہ تیرے غضب کا نتیجہ نہیں ہے تو میں تیرے فیصلے پر راضی ہوں ۔ تو مجھے صبر و رضا کی توفیق عطا فرما! لیکن اس کے باوجود اس دوران میں میری عقل اور میرے دل میں برابر ایک جنگ برپا رہی ہے اور بارہا میں نے شب کی تنہائیوں میں یہ محسوس کیا ہے کہ میرے جذبات میری عقل پر غالب آرہے ہیں ۔ لیکن اب ان جذبات کا ذکر چھیڑکر اپنے اور اپنے ہمدردوں کے غم میں مزید اضافہ کرنا نہیں چاہتا بلکہ تحدیثِ نعمت کے طور پر بعض ایسی باتوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو اس سلسلے میں ربِ کریم کی طرف سے ظہور میں آئی ہیں اور جن سے مجھے اس غم و الم کے بوجھ کو ہلکا کرنے میں بڑی مدد ملی ہے ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس سفر میں ابو صالح مرحوم نے عمرہ کی نیت کی تھی اور اس کے لیے وہ تمام ضروری تیاریاں کر کے گھر سے نکلے تھے ۔ ان کے اس ارادے کی اطلاع میرے برادرِ نسبتی چوہدری فضل الرحمان محمود سلمہٗ کو تو کئی ماہ پہلے سے تھی لیکن سفر سے پہلے پہلے انہوں نے اس کی خوشخبری اپنی امی کو او ران کی وساطت سے گویا مجھے بھی دے دی تھی۔ میں مئی کے شروع میں زمین داری کے انتظامات کے سلسلے میں اپنے رقبے پر چلا گیا تھا۔ وہاں مجھے یکے بعد دیگرے ایسے کام پیش آتے گئے کہ توقع سے زیادہ دن لگ گئے ۔ میری اس غیر معمولی تاخیرسے گھبرا کر میری اہلیہ اور میری چھوٹی لڑکی بھی وہیں پہنچ گئیں ۔ حادثہ سے ایک دن پہلے میری اہلیہ نے ذکر کیا کہ ابو صالح مشرقِ وسطیٰ کے سفر پر جارہے ہیں ۔ میں نے کہا: یہ کیا نئی بات ہوئی، وہ تو چین، ماچین، امریکا اور انگلستان برابر جاتے ہی رہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : نئی بات یہ ہے کہ اب انہوں نے عمرہ کی نیت کی ہے ۔ میرے پاس آئے تو کہتے تھے امی !آپ تو مجھے دین سے بے پروا سمجھتی ہیں لیکن میں عمرہ کی نیت کیے ہوئے ہوں ، اس سفر سے عمرہ کر کے لوٹوں گا۔ میں دن میں دفتر کے کام کرتا ہوں ، رات کو حج کی دعائیں یاد کرتا ہوں ۔ حج کے سفر نامے میں نے کئی ایک پڑھ لیے ہیں ، اگر کوئی ایسا سفر نامہ آپ نے پڑھا ہو جس میں حج کی روحانیت بیان ہوئی ہو تو وہ مجھے بتائیے، ابا جان سے بھی پوچھیے گا۔ میں نے کہا : ہاں ! یہ خبر تو بے شک نئی خبر ہے۔ اس اطلاع سے مجھے فی الواقع بڑی خوشی ہوئی تھی۔
ابو صالح نے اس نوجوانی کی عمر میں اخبار نویسی میں جو ناموری حاصل کر لی تھی اور زندگی کی جدوجہد میں اسے جو کامیابی پر کامیابی حاصل ہو رہی تھی وہ اگر ایک طرف قابل رشک تھی تو دوسری طرف ایک خاص پہلو سے میرے لیے وجۂ تشویش بھی تھی ۔ میرا دل اندر سے ڈر رہا تھا کہ مبادا! ان کامیابیوں کا نشہ اس کوآخرت سے غافل کر دے ۔چنانچہ میں اس کے لیے برابر دعا کرتا رہتا تھا کہ اے رب! تو نے اس کو دنیادی ہے تو دین کی راہ بھی اسے سجھا! اس کی امی برابر، جب وہ ہم سے ملنے آتا ، نماز کی پابندی کی بحث اس سے ضرور چھیڑتیں ۔ میں نے بھی اس سے ایک آدھ بار کہا کہ ابو صالح ! تم قابل فخر بیٹے ہو! اگر تم دین دار بن جائو تو میں تمہارے جیسے بیٹے پر اپنے رب کا شکر بھی ادا کروں ۔ اس میں غفلت ضرور تھی لیکن طبیعت بڑی نصیحت پذیر تھی۔ دین کے لیے اس میں حمیت بھی بہت تھی۔ اب میں اس کی اس غربت کی موت کا خیال کرتا ہوں ، ان آگ کے شعلوں کا تصور کرتا ہوں جن میں اس کا جسم اور میرا دل کباب ہوا ہے، ایک حریق اور غریق مومن کے لیے اس شہادت کو یاد کرتا ہوں جس کا ذکر حدیثوں میں ہے اور پھر اس کی عمرہ کی اس نیت کا دھیان کرتا ہوں تو میرا سینہ اس اچھی امید سے لبریز ہوجاتا ہے کہ کیا عجب ! رب رحیم و کریم نے اس الھڑ نوجوان کو اپنی جنت میں لے جانے کے لیے یہ مختصر راستہ ہی پسند فرمایا ہو! یہ امید میرے غم کو اتنا کم کردیتی ہے کہ بعض اوقات تو میں ایسا محسوس کرنے لگتا ہوں کہ گویا کوئی حادثہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا ۔
ایک اور چیز، جو سب سے زیادہ میرے غم کو دور کرنے میں معین ہوئی، وہ میرے ایک دیرینہ رفیق کا خواب ہے ۔ میں اگرچہ خواب کی باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا لیکن یہ ایک ایسے شخص کا خواب ہے جس کے خوابوں کے سچے ہونے کا مجھے ذاتی تجربہ ہے۔ میں ایک زمانے میں ان کے ساتھ کم و بیش دس ماہ بورسٹل جیل اور لاہور سنٹرل جیل میں گزار چکا ہوں ۔ اس زمانے میں انہوں نے پیش آنے والے معاملات سے متعلق نہایت حیرت انگیزخواب دیکھے اور ان کے سارے خواب سچے ثابت ہوئے۔ انہوں نے ۳۰/۳۱مئی کی درمیانی رات میں ، صبح تقریبا ًچار بجے، مندرجہ ذیل خواب دیکھا جو خود ان کے الفاظ میں نقل کرتا ہوں :
ابو صالح اصلاحی مرحوم، رات کے لباس میں ملگجے رنگ کے بو شرٹ اور پاجامے میں ملبو س ہشاش بشاش نظر آئے ۔ کہنے لگے کہ مجھے صرف آدھ گھنٹہ تکلیف رہی۔ اب میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں )یہ بات انہوں نے دو تین دفعہ کہی(۔ میں نے کہا: آپ کے والد مولانا اصلاحی صاحب اس حادثہ کی وجہ سے سخت غم زدہ ہیں ۔ کہنے لگے ہاں ! ٹھیک ہے ۔انہیں سخت غم ہے اور کیوں نہ ہو، اب پوری ذمہ داریاں ان کے کندھوں پر آن پڑی ہیں ۔نیز کہنے لگے: آپ میرا (پیغام جو اوپر نقل ہوا) میرے گھر والوں کو پہنچادیں ۔ میں نے کہا ( اور احساس یہ تھا کہ میں یہ خواب دیکھ رہا ہوں ) کہ یہ خواب باتیں شاید وہ مانیں یا نہ مانیں ، میں جا کر کیا message دوں گا ۔ لیکن انہوں نے باصرار دو تین دفعہ کہا کہ آپ کو اس سے کیا ، آپ پیغام دے دیں ، وہ مانیں یا نہ مانیں ان کی مرضی!
خواب خاصا لمبا تھا، باتوں کی ترتیب پوری طرح یاد نہیں رہی لیکن گفتگو کے وہ حصے ذہن پر ابھی تک نقش ہیں جو اوپر لکھ دیے ہیں ۔
اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا کہ ان کے تین چار دوست ان کے قریب ادھر ادھر پھر رہے ہیں اور بغیر داڑھی مونچھ کے سفید قمیص اور پتلون میں ملبوس ہیں ۔ ان میں سے ایک نے ابو صالح سے پوچھا: بھئی ! نماز کا وقت ہو رہا ہے (اس وقت واقعی فجر کی نماز کا وقت ہوگیا تھا) ہمیں وضو کرنا ہے جگہ تو بتائو۔ اس پر ابو صالح نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے میز والے کمرے کے ساتھ غسل خانہ ہے،وہاں وضو کرلیں ۔ اس خواب کی تعبیر تو ارباب ِتعبیر بتا سکیں گے لیکن چند باتیں اس کی مجھ پر بالکل واضح ہیں اور وہی میرے لیے موجب اطمینان و تسلی ہیں ۔
ایک تو یہ کہ یہ خواب دیکھنے والے ایک ایسے صاحب ہیں جن سے اگرچہ ایک مدت سے میرا کوئی ربط ضبط نہیں ہے لیکن و ہ واحدشخص ہیں جن کے بارے میں میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ان کے خواب سچے ثابت ہوتے ہیں ، اس وجہ سے ان کے واسطہ سے ابو صالح مرحوم کا کوئی پیغام میرے لیے اطمینان کا پہلو رکھتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ حادثے کے بعد دو تین دنوں کے اندر اندر میں نے غم کے تمام اسباب کا تجزیہ کر کے ان میں سے اکثر پر قابو پالیاتھا۔ لیکن ایک سوال میرے لیے برابر سوہانِ روح رہا ہے کہ حادثہ کے وقت اور حادثہ کے بعد رب کریم نے ابو صالح کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ رات میں جب یہ سوال میرے ذہن پر مسلط ہوجاتا ہے تو نیند اچاٹ ہو جاتی ہے ۔ میرے دل میں یہ خواہش بار بار پیدا ہوئی کہ کوئی بات میرے سامنے ایسی آئے جس سے میرے دل پر سے یہ پہاڑ ذرا سر کے ، خواب ہی میں سہی، لیکن میں خود خواب اول تو دیکھتا کم ہوں اور جو دیکھتا ہوں وہ یاد نہیں رہتے ۔ اب جب سے یہ خواب علم میں آیا ہے ، خیال یہی گزرتا ہے کہ یہ میرے اسی سوال کا جواب ہے اور اگر یہ واقعی میرے سوال کا جواب ہے تو بہت ہی خوب اور نہایت مبارک جواب ہے ۔
بریں مژدہ گر جاں فشانم رواست!
خواب میں ابو صالح کے لباس شب خوابی کا جو رنگ نمایاں ہوا ہے گھر میں دریافت سے معلوم ہوا کہ ان کے سلیپنگ سوٹ کا رنگ فی الواقع وہی تھا۔ اسی طرح ان کا وہ کمرا جس میں ان کے کھانے کی میز ہے ان کے صاف ستھرے غسل خانے سے متصل ہے ۔ ان چیزوں کا کوئی تصور خواب دیکھنے والے صاحب کو پہلے سے نہیں تھا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس حادثے نے مجھے اندر سے بالکل ہلا ڈالا تھا لیکن اب میرے رب نے مجھے سنبھال لیا ہے ۔ کبھی کبھی تنہائی میں رونے کو اب بھی جی چاہتا ہے لیکن الحمد للہ ! اس معاملے میں مجھے اپنے پروردگار سے کوئی شکایت نہیں ہے ۔ میرا دل بالکل مطمئن ہے کہ جو کچھ ہوا ہے اسی میں سب کی بہتری ہے ۔ مرحوم کی بھی، اس کے ننھے ننھے بچوں کی بھی، اس کی غمزدہ بیوہ کی بھی، اس کے غمگین ماں باپ اور بھائیوں بہنوں کی بھی! میں اس موقع پر ان تمام مخلصین اور ہمدردوں کا شکر گزار ہوں جنھوں نے مرحوم کے لیے دعائیں کی ہیں اور تعزیت کے کلمات سے ہمارے غم میں شرکت کی ہے ۔ جن مخلصین نے خطوط لکھے ہیں اگر میرے لیے ممکن ہو سکا تو میں ان کا جواب لکھوں گا اور ان کا شکریہ ادا کروں گا۔ اگر یہ ممکن نہ ہوسکا تو مجھے امید ہے کہ یہ مخلصین مجھے معذور سمجھیں گے اور مرحوم کو اس کے بچوں کو اپنی دعائوں میں برابر یاد رکھیں گے۔ماہنامہ میثاق لاہور جون ۱۹۶۵‘‘(مقالات اصلاحی۲/ ۳۸۴-۳۸۷ )
اس کے علاوہ یہ حادثہ کہاں کہاں اور کیسے کیسے اثرانداز ہوا ،اس کی تفصیل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’میثاق کا یہ شمارہ نہایت پریشانی کے حالات میں مرتب ہوا ہے ۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ کیا لکھا گیا ہے اور کیا چھپا ہے ۔ تا خیر تو عام حالات میں بھی اس رسالہ کا معمول بن چکی تھی ، لیکن اب تو جن حالات و مسائل میں میں گھر گیا ہوں ، نہیں کہہ سکتا کہ بے نظمی و بے قاعدگی کے ساتھ بھی یہ پرچہ جاری رہ سکے گا یا نہیں ۔ اس دوران میں مجھے نقل مکان کی الجھنوں سے بھی دو چار ہونا پڑا ، اس لیے کہ ابو صالح مرحوم کے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے مجھے رحمان پورہ سے منتقل ہو کر فیروز پور روڈ پر آنا پڑا اور اب تک کوئی ایسا مکان حاصل نہیں ہو سکا ہے جس میں ان بچوں کے ساتھ یکجا قیام کی صورت پیدا ہوسکے ۔ میثاق کا دفتر بھی ابھی ایک عارضی جگہ پر ڈال دیا گیا ہے۔ ہر چیز الجھی ہوئی ہے اور صرف اللہ ہی کو علم ہے کہ اس الجھائو کے سلجھنے کی کوئی شکل نکلے گی یانہیں !
میں اب ایک عرصہ سے تفسیر تدبر قرآن اور حلقۂ تدبر قرآن کے سوا دوسرے تمام کاموں سے تقریباً الگ تھلگ ہوگیا تھا۔ذمہ داریاں خواہ گھر کی ہوں یا باہر کی ان سے جی گھبراتا تھا۔ معاشی مجبوریوں کے سبب سے زمین داری کی تھوڑی سی دیکھ بھال کرنی پڑتی تھی لیکن یہ کام بھی مارے باندھے ہی کرتا تھا ۔ لڑکوں نے اپنی ذمہ داریاں خود نہایت خوش اسلوبی سے ساتھ سنبھال لی تھیں اور اب وہ اس قابل تھے کہ مجھے امید تھی کہ مجھ سے متعلق جو بعض ذمہ داریاں باقی رہ گئی ہیں ان سے وہ مجھ سے زیادہ خوبی کے ساتھ عہدہ برآ ہو سکیں گے۔لیکن ابو صالح مرحوم کی ناگہانی موت نے حالات کا سارا نقشہ ہی بدل دیا ۔ اب نہ صرف میری ذمہ داریاں مجھ سے از سر نو توجہ کا مطالبہ کر رہی ہیں بلکہ مرحوم ابو صالح نے اپنی ذمہ داریاں بھی میرے ناتواں کندھوں پر ڈال دی ہیں ۔ اس نے چھوٹے چھوٹے چھ بچے چھوڑے ہیں جن میں سے بڑی بچی کی عمر کل آٹھ سال ہے۔ ان بچوں کی اٹھان ایک خاص نہج پر ہوئی ہے ۔ مجھ سے دور رہنے کے سبب سے یہ مجھ سے اچھی طرح مانوس بھی نہیں ہیں ۔ ان کے بھولے پن کا ہی عالم ہے کہ میری ایک پوتی جو شکل و شباہت اور مزاج و عادات میں اپنے مرحوم باپ کا کامل نمونہ ہے، ایک شب میں سوتے وقت اپنی نانی اماں سے پوچھ بیٹھی کہ، اماں ! اللہ میاں کس چیز کی فراک پہنتے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیاکہ نور کی !، یہ جواب اس کے حافظے میں محفوظ رہ گیا ۔ صبح کو جب و ہ اٹھی اور اس کی نانی نے اس کونہلا کر اس کی فراک بدلنے لگیں تو وہ مچل گئی کہ میں تو نور کی فراک پہنوں گی! اور نور کی فراک کے لیے ایسی بضد ہوئی کہ سارے گھر کے لیے ایک مسئلہ پیدا ہوگیا ۔ یہاں تک کہ مجھے اپنے جدید کلامی دلائل کے ساتھ مداخلات کرنی پڑی تب کہیں جا کر یہ نزاع ختم ہوئی۔
مولانا شبلی نعمانی نے اپنے بھائی مولوی اسحاق مرحوم کا جو درد انگیز مرثیہ لکھا ہے وہ بچپن میں مجھے پورا زبانی یاد تھا اور اس کے جو شعر مجھے خاص طور پر پسند تھے ان میں وہ شعر بھی تھا جس میں مولانا نے مولوی اسحاق مرحوم کے بچوں کی طرف اشارہ کیا ہے:
لاڈلے ہیں کہ کسی اور کے بس کے بھی نہیں
اس کے بچے ابھی سات آٹھ برس کے بھی نہیں
یہ شعر میں اکثر نہایت رقت انگیز انداز میں پڑھا کرتا تھا۔ اب یہ راز کھلا کہ یہ شعر مجھے اس درجہ کیوں پسند تھا۔ معلوم ہوا کہ مولانا نے اس شعر میں اپنے ہی درد دل کی کہانی نہیں سنائی تھی بلکہ اس میں میرا درد دل بھی شامل کردیا تھا۔ میرا یہ ایک مستقل نظریہ ہے کہ آدمی کو شعر وہی پسند ہوتے ہیں جن میں وہ اپنے دل کی صدائیں سنتا ہے ۔
مجھے اچھی طرح علم ہے کہ آدمی پر ذمہ داریاں خدا ڈالتا ہے اور وہی ان کے اٹھانے کی توفیق و ہمت بھی عطا فرماتا ہے ۔ میں جو خوف و ہراس محسوس کر رہا ہوں یہ محض علم کی کمی اور طبیعت کی سہل پسندی کا نتیجہ ہے۔ جو امتحان باقی ہیں و ہ ہو کر رہیں گے۔ وہ اس وجہ سے نہیں ملتوی ہو جائیں گے کہ میں امتحان سے گھبراتا ہوں اور کمر کھول کر اب سستانے اور آرام کرنے کا خواہشمند ہوگیا ہوں ۔ یہ امتحان اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جس سے کسی حال میں مفر نہیں ہے۔ اسی سے بندے کی صلاحتیں اجاگر ہوتی اور اس کی کمزوریاں دور ہوتی ہیں ۔آدمی کا بڑھاپا بھی اس کے لیے کوئی عذر نہیں ہے ۔ بڑھاپے میں جس طرح جسمانی بیماریاں اور کمزوریاں لاحق ہوتی ہیں اسی طرح عقل و ایمانی بھی لاحق ہوتی ہیں ۔ آدمی جب عصائے پیری کا محتاج ہوتا ہے تو بہت سی غلط چیزوں پر تکیہ کرنے لگتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنی توحید کے معاملے میں بڑا غیور ہے۔ وہ یہ نہیں چاہتا کہ اس کا بندہ کسی اور پر اعتماد کرے ۔ میں محسوس کرتاہوں کہ اس عمر آکر میرے اندر بھی غلط قسم کا اعتماد پیداہوچلاتھا، اگرچہ میری کوئی ضرورت ابو صالح سے وابستہ نہیں تھی مگر ایک باپ کو اپنے بیٹے پر جو فخر و ناز ہوتا ہے غیر محسوس طور پر وہ میرے اندر بھی تھا۔ اس کی شہرت و ناموری سے میرے دل کو خوشی ہوتی تھی۔ لوگ اس کی تعریفیں کرتے تھے تو میرے خون میں اضافہ ہوتا تھا ۔ اس کے بھرے گھر کو دیکھ کر میرا دل باغ باغ ہوتا تھا۔ میں جب پیار سے یا غصہ سے اس کو بیوقوف کہتا تھااور وہ مسکرا کر نگاہیں نیچی کر لیتا تھا تو مجھے فخر ہوتا تھا کہ میں ملک کے ایک نامور صاحب قلم اور چوٹی کے صحافی کو بیوقوف کہہ دیتا ہوں اور وہ میرے اس خطاب پر خوش ہوتا ہے ۔ اس طرح غیر محسوس طور پر میں نے ابو صالح کے اعتماد پر اپنے دل کے اندر پندار کا ایک صنم خانہ تعمیر کر لیا تھا۔ قدرت نے ۲۰ ؍ مئی ۱۹۶۵ء کی صبح کو اس صنم خانے کو ڈھادیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ مجھے اس حادثے سے بڑا غم ہوا لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ اس حادثے کے بعد سے میرے اور میرے پر وردگار کے درمیان کوئی حجاب حائل نہیں رہا ۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میراخاتمہ اس حال میں کرے کہ میرا دل اعتماد غیر کے ہرشائبہ سے پاک ہو۔ماہنامہ میثاق لاہور،جولائی۱۹۶۵‘‘ (مقالات اصلاحی ۲/ ۳۸۹-۳۹۱)
ابوصالح کی صالحیت کی وضاحت کرتے ہوئے امین احسن بتاتے ہیں :
’’مرحوم کے بعض دوستوں کی با صرار یہ خواہش ہے کہ میں اس کے ابتدائی حالات اور اس کے مزاج کی خصوصیات پر ایک مضمون لکھ دوں ۔ یہ مضمون میں ان شاء اللہ لکھ دوں گا لیکن ابھی نہیں ۔ ابھی تو میری کوشش یہ ہے کہ دل پر اس کا تصور کا جو غلبہ ہے وہ کچھ کم ہو تاکہ میں کچھ پڑھنے لکھنے اور سوچنے سمجھنے کے قابل ہو سکوں ۔ میرا یہ گمان نہیں ہے کہ ابوصالح میں خوبیاں ہی خوبیاں تھیں ۔ نہیں ! اس میں نقائص بھی تھے لیکن میں ان نقائص میں اپنے نقائص کا عکس دیکھتا تھا۔ اس کی امی جب اس طرح کی کسی چیز کی شکایت کرتیں تو میں ان کو جواب دیتا کہ اس چیز کی فکر نہ کرو، یہ چیز اس نے باپ سے وراثت میں پائی ہے ۔ جس طرح باپ کے دماغ کو عمر اور تجربے نے درست کردیا ہے، اسی طرح عمر اور تجربہ سے اس کا دماغ بھی درست ہوجائے گا۔ مجھ سے، میرے خاندان کی روایات کے زیر اثر، اس کو ایک حجاب سا رہا لیکن یہ حجاب محض ظاہر کا پردہ تھا،اس پردے کے پیچھے جس طرح وہ میرے دل میں بسا ہوا تھا، اسی طرح میں بھی اس کے دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا۔ بھائیوں ، بہنوں ، اور عزیزوں سے اسے نہایت گہر ی محبت تھی۔ اپنی چھوٹی بہن ــــــ مریم صدیقہ ــــــ کو پیا ر سے ہمیشہ منی ! کہتا تھااور اس کی ہر چھوٹی بڑی خواہش بلاتاخیر پور ی کرتا تھا ۔پچھلے دنوں میں بیمار ہوگئی تو تیمارد اری اور دیکھ بھال میں اس نے رات دن ایک کردیے ۔ اس کے آپریشن کی نوبت آئی تو لاہور میں جو بہتر سے بہترانتظام ممکن تھا اس نے وہ کیا ۔ اس کا ایک چھوٹا بھائی ــــــ ابو سعد سلمہٗ ــــــ بھارت میں ہے اس کے لیے وہ مجھ سے زیادہ فکر مند رہتا تھا۔ اپنے دوسرے چھوٹے بھائی ابو سعید سلمہٗ کو اس نے تعلیم دلائی اور اگست ۱۹۶۵ء میں اس کے امریکہ جانے کا پروگرام تھا۔ طبیعت نہایت خود دار، فیاض اور غمگسار پائی تھی ۔ اس کے اخلاق سے متعلق نہ صرف یہ کہ کبھی کوئی شکایت سننے میں نہیں آئی بلکہ اس کے خاص دوستوں نے بقید قسم یہ شہادت دی کہ اس سے زیادہ پاکیزہ نگاہ نوجوان انہوں نے نہیں دیکھا ! میں جانتا ہوں کہ یہ چیز اس میں بربنائے تقویٰ نہیں تھی بلکہ محض طبیعت کے ترفع کا نتیجہ تھی لیکن میں مطمئن تھا کہ اس ترفع نے اسے بہت سے فتنوں سے محفوظ رکھا۔ اس ترفع ہی کا ایک پہلو یہ تھا کہ معیار زندگی اونچا رکھنے کے باوجود مکان پر نام کی تختی نہیں لگواتے تھے، گھر پر فون نہیں رکھتے تھے، اخبار میں اپنی تصویر نہیں چھپواتے تھے، بلکہ تاکید تھی کہ اگر کسی گروپ کے ساتھ ان کی تصویر بھی ہو تو ان کی تصویر کاٹ کر گروپ کی تصویر اخبار میں دی جائے ۔ اسی طرح اپنے مخصوص کالم پر جس کی اخبار ی دنیا میں بڑی دھوم تھی ، کبھی اپنا نام نہیں دیا ۔
صحت بہت اچھی تھی، آنکھیں ہمیشہ ہنستی ہوئی رہتی تھیں ، مطالعہ بہت کرتے تھے اور معلومات بہت وسیع تھیں لیکن مطالعہ اور معلومات کا بوجھ چہرے بشرے سے نمایاں نہیں ہوتا تھا۔ چہرہ ہمیشہ تازہ گلاب کی طرح شگفتہ رہتا ۔ تفریحات میں سے صرف احباب کے ساتھ مجلس آرائی سے دلچسپی تھی۔ ان کے اکثر احباب عمر میں ان سے بڑے تھے لیکن مشہور روایت یہی ہے کہ جس مجلس میں ہوتے اپنے حسن ِبیان، اصابتِ رائے اور وسعت معلومات کی وجہ سے نمایاں رہتے ۔ دل میں دنیا حاصل کرنے کی خواہش تھی لیکن بڑی خود داری اور اصول کے ساتھ! پچھلے دنوں ایک خاص حلقے کی طرف سے بڑی اہم پیشکش ہوئی لیکن انہوں نے نہایت بے نیازی کے ساتھ ٹھکرادی۔ حلقۂ ملاقات و تعلقات ہر طبقے میں بہت وسیع تھا لیکن اس سے ذاتی فوائد حاصل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ البتہ اس سے دوسرے ضرورت مندوں کو فائدے پہنچائے۔ دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی کمزوریوں سے درگذر فرمائے اور اس کی نیکیوں کو قبول فرمائے!ماہنامہ میثاق لاہور،جولائی۱۹۶۵‘‘(مقالات اصلاحی۲/ ۳۹۲)
۹؎ البقرہ ۲: ۱۵۳۔
۱۰؎ ”تم دنیا کے امور زیادہ بہتر جانتے ہو۔“
۱۱؎ ”چھوٹے پرندوں کی اولاد کثیر ہوتی ہے، جب کہ شاہین کی اولاد کم، اس لیے کثرت ِ تعداد کو فضیلت نہ گردانو!“
۱۲؎ ”وہ یہ راہ بجلی کے چمکنے پہ طے کرلیتا ہے، مگر ہم نادان چراغ و شمع کے منتظر رہتے ہیں کہ کوئی روشنی کرے تو چلیں۔“
۱۳؎ ”یہ خیال نہ کرو کہ پیر مغاں کا کام انتہا تک پہنچ گیا ہے، رگ تاک میں ایسے ہزاروں جام پڑے ہیں جن کو ابھی کسی نہیں چھوا۔“
۱۴؎ ”کیا وہ اونٹوں پر نگا ہ نہیں کرتے،وہ کیسے بنائے گئے ہیں۔“
۱۵؎ ماہنامہ شمس الاسلام، بھیرہ، مولانا امین احسن نمبر، دسمبر ۲۰۱۵ء، ۸- ۱۰۔