باب ۱۳
جب ’’تدبر قرآ ن‘‘ کا کام اپنی تکمیل کی طرف بڑھ رہا تھا تو امین احسن یہ کہا کرتے تھے کہ اس تفسیر کے بعد اگر عمر اور صحت نے اجازت دی تو اس طرح کی ایک کتاب حدیث پر بھی لکھیں گے ۔ وہ اس بارے میں اپنے شاگردوں اور رفقا سے مشورہ بھی کرتے رہتے تھے ۔ان سب کی غالب راے یہی تھی کہ مولانا کو باقی عمر حدیث کے کام کے لیے وقف کرنی چاہیے ۔اس دوران میں جاوید احمد صا حب غامدی نے یہ تجویز دی کہ اس مقصد کے لیے ایک ادارہ قائم کرلیا جائے۔ چنانچہ امین احسن نے فیصلہ کیا کہ حلقۂ تدبر قرآ ن کو جو ان کی اور خالد مسعود صاحب کی نگرانی میں کام کررہا تھا، وسعت دے کر ایک ادارہ کی شکل دے دی جائے اور آیند ہ کا م اس کے تحت کیے جائیں ۔ یہ ادارہ ’’ادارہ ٔ تدبر قرآن و حدیث ‘‘کے نام سے ایک دستور کے تحت یکم محرم ۱۴۰۱ھ کو محمد نعمان علی صاحب کی اقامت گاہ پر قائم ہوا۔امین احسن اس کے صدر اور خالد مسعود صاحب اس کے ناظم مقرر ہوئے ۔
اس ادارے کے تحت امین احسن نے ہفتہ وار درس قرآ ن کاوہی سلسلہ جاری رکھا جس کا آغاز ان کی گاؤں سے واپسی پر ہو چکا تھا۔اس طرح انھوں نے ہفتہ وار نشست میں حدیث کے اصولوں پر لیکچر دیے، جواس وقت’’مبادی تدبر حدیث ‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہو چکے ہیں ۔ حدیث کے حوالے سے پہلے موطا اما م مالک اوراس کے بعد بخاری کا درس ہوا۔موطا تو پوری پڑھائی گئی ،مگر بخاری کا درس ۱۹۹۳ء میں معطل ہوگیا ۔ادارہ کی تحقیقا ت اور امین احسن کے دروس کی اشاعت کے لیے رسالہ ’’تدبر ‘‘ جار ی ہوا، جو ایک سلسلۂ منشورات کے طو ر پر شائع ہو رہا ہے۔ اسی دور میں امین احسن نے فلسفے کے بنیادی مسائل پر قرآ ن کا نقطۂ نظر بیان کیا، جو ’’فلسفہ کے بنیادی مسائل ‘‘کے نام سے کتابی صورت میں چھپا ۔اسی طرح ان کی کتا ب ’’تزکیۂ نفس‘‘ شائع ہوئی ۔
امین احسن کی تمام کتابیں فاران فاؤنڈیشن شائع کرتا ہے، جس کے مالک ان کے شاگر د ماجد خاور صاحب ہیں ۔انھوں نے امین احسن کو کتب کے اشاعت کی پریشانیو ں سے آزاد کیے رکھا۔