باب ۱۲
مولانا محمد منظور نعمانی، امین احسن کے نام اپنے خطوط میں تفسیر کی مسلسل تحسین کیا کرتے تھے ۔ وہ لکھتے تھے کہ میں اپنے درس قرآن کے لیے تیاری اسی سے کرتا ہوں ۔ اس کی مدد سے میرا درس بے حد مفید ہوجاتا ہے ۔ میں برابر دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ہاتھوں اس کی تکمیل کرادے۔ ۳۰؍ رمضان المبارک ۱۴۰۰ ھ کو انھوں امین احسن کے نام ایک خط لکھا اور بتایا کہ ان کے لکھنے کا محرک ایک خواب ہوا ہے، جوآ پ اور آپ کی اہلیہ کے لیے خوش کن ہوگا:
’’رات کے ۳ بجے سے کچھ پہلے دیکھا کہ میں آپ کے مکان پر پہنچا ہوں ۔ یہ مکان کسی شہر میں نہیں ہے بلکہ کسی اچھے ترقی یافتہ قسم کے دیہات میں ہے ۔ مکان بہت بڑا ہے جیسے پرانے زمانہ میں دیہات میں زمینداروں میں ہوتے تھے ۔ بالکل پرانے طرز کا ہے ۔ میرے پہنچنے سے آپ کوبے حد خوشی ہوئی ۔ میں مکان میں داخل ہوا تو دیکھا ایک بہت بڑا دیگچہ … یہ کہنا چاہیے کہ چھوٹی قسم کی دیگ … چولہے پر ہے ۔ اس میں زردہ تیار ہو رہا ہے ۔ دیگ کھلی ہوئی ہے ۔ میں نے دیکھا کہ زردہ بہت اعلیٰ قسم کا ہے اور تیاری کے قریب ہے ۔ آپ نے میری وجہ سے بہت سے لوگوں کو مدعو کر رکھا ہے ۔ ایک بڑے کمرے میں دری کا فرش ہے ۔ آپ مجھے وہاں لے گئے اور حضرات بھی آگئے۔ آپ نے مجھے بتایا کہ میری اہلیہ کو آپ کی آمد کی مجھ سے زیادہ خوشی ہے ۔ خواب کے بس یہی اجزا محفوظ رہ گئے ہیں ۔ تعبیر یہی ذہن میں آئی کہ تدبر قرآن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے تیاری کے قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے پوری امید ہے کہ آپ کے ہاتھ سے اس کا اتمام ہو گا اور انشاء اللہ قبول ہو گی ۔ غذاؤں میں زردہ مجھے خاص طو رپر مرغوب ہے ۔ ‘‘ ـ (ماہنامہ شمس ا لاسلام ۲۲)
اور پھر دیکھیے ، امین احسن نے ’’تد بر قرآن ‘‘ کی تکمیل ۲۹ ؍ رمضان المبارک ۱۴۰۰ھ، اگست ۱۹۸۰ء میں کرلی۔ صاحب ’’تدبر قرآن ‘‘ خود لکھتے ہیں :
’’۲۹/ رمضان المبارک ۱۴۰۰ھ کو اس کتاب کی آخری سطریں حوا لۂ قرطاس کرتے ہوئے میں نے صرف یہی نہیں محسوس کیا کہ یہ کتاب میں نے پوری کر دی ہے بلکہ یہ بھی محسوس کیا کہ اپنی زندگی کا آخری ورق الٹ دیا۔ ایک بھاری بوجھ جو تئیس سال اٹھائے لیے پھرا، اس سے سبکدوش ہونے پر ایک گہری مسرت کااحساس تو ایک فطری چیز ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ احساس بھی ہے کہ اب کیا کام کرنے کی صلاحیت باقی رہ گئی ہے جس کے لیے جینے میں لذت ہو ۔ میں نے آخری سطریں لکھ کر اپنا سر اپنے رب کے آگے ڈال دیا اور صرف یہ دعا کی کہ اے رب ، اگر تو نے اپنی کتاب عزیز کی خدمت کی یہ توفیق بخشی تو اس کو قبول فرمااور اس کے اپنے غلام کی نجات کا ذریعہ بنا۔ بس اس کے سوا میں کسی چیز کا متمنی نہیں ۔
مولانا نے تفسیر کی تکمیل کی خبر مولانا نعمانی کو دی تو انھوں نے اصرار کیا کہ ایک جشن کا اہتمام ہونا چاہیے ۔ مولانا نے لکھا کہ میں تو اس طرح کی چیزوں کو اہمیت نہیں دیتا ۔ البتہ اگر آپ صدارت کے لیے تیار ہوں تو میں اس میں شریک ہوں گا اور اس کا اہتمام بھی کروں گا ۔ لیکن مولانا نعمانی کی یہ تجویز عمل میں نہ آ سکی ۔ ‘‘ (ماہنامہ شمس ا لاسلام ۲۲)
’’تدبر قرآن‘‘ کی تالیف کے لیے امین احسن نے بڑی مشقت اٹھائی۔ وہ خود کہا کرتے تھے:
’’ میں نے قرآن کے مفہوم کو اداکرنے کے لیے بڑی محنت کی ہے ۔ میر ی مادری زبان پوربی تھی ، لیکن ۱۰ سال کی عمر میں اردو اختیار کی۔ دلی کے محاوروں کے لیے غالب ، میر ، نذیر احمد، حتیٰ کہ شرر کو بھی پڑھا ۔ شاعروں کے دیوان پڑھ پڑھ کر عربی زبان کے اسالیب کو اردومیں ڈھالا اور ان کو ’’تدبر قرآن‘‘ میں جگہ دی ۔ کلام عرب کوسیکھنے کے لیے بے حد محنت کی ضرورت ہے ۔عام طور پر لوگ عرب ِ جاہلیت کے مزاج سے ناواقف ہیں ،اس لیے وہ آیات کا منشا اور زور سمجھ نہیں پاتے اور تو اور مولانا شبلی بھی قریش کے پینتروں سے واقف نہیں ہوسکے او ر سیرت میں کئی جگہ غلطی کر گئے ۔ ‘‘
لوگ امین احسن سے ان کی تفسیر مشکل ہونے کی شکایت کرتے تووہ یہ جواب دیتے :
’’بڑی ضرورت لوگوں کا اندازفکر بدلنے کی ہے ۔ یہ مقصد اسی سورت میں حاصل کیا جا سکتا ہے کہ میں قرآن مجید کی آیات کا مفہوم ، اسالیب اور نظام ، زبان کی روشنی میں اس قدر مدلل طور پر واضح کر دوں کہ قرآن کا بڑ ے سے بڑا منکر بھی کہہ اٹھے کہ بات وہی ہے جوقرآن کہتا ہے ۔ یہ مقصد افادۂ عام کے لیے لکھی ہوئی تفسیر سے حاصل نہیں ہوسکتا۔‘‘
جناب جاوید احمد صاحب غامد ی کے شاگردپر وفیسرمستنصر میر نے ۱۹۸۳ء میں مشی گن یونیورسٹی (امریکا) سے اس تفسیر پر پی ایچ ڈی مکمل کی ۔ ان کا یہ تحقیقی مقالہ
"COHERENCE IN THE QURAN - A STUDY OF ISLAHI'S CONCEPT OF NAZM IN TADABBUR - E - QURAN" کے نام سے امریکن ٹرسٹ پبلیکیشنز ، انڈیانا پولس، (انڈیانا، امریکا) سے ۱۹۸۶ء میں شائع ہو چکا ہے ۔ (’’کوہیرنس ان دی قرآن‘‘ ادارہ علوم القرآن ، علی گڑھ کی لائبریری میں دستیاب ہے ۔ اس کتاب پر پروفیسر عبید اللہ فراہی کے تبصرہ کے لیے ملاحظہ کریں ششماہی علوم القرآن ۴/۲، جولائی۔ دسمبر ۱۹۸۹ء ۱۲۰۔ ۱۳۱۔ ) ۔ ‘‘(ماہنامہ تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۱۹-۲۰)