باب ۱۰
۱۹۷۱ء کے آخر میں امین احسن کونسیان کی بیماری لاحق ہو گئی ۔بیماری کی شدت ایسی تھی کہ وہ اشیا اورافراد کی پہچان بھی نہ کر پاتے۔ لکھنے لکھانے کا کام بھی بند ہو گیا۔ ان کی تفسیر کی اہمیت سمجھنے والے لوگ اس کی تکمیل سے مایوس ہو گئے ۔ عقیدت مندوں نے صحت کے لیے دعائیں کیں اور منتیں مانیں ۔امین احسن کے لیے یہ بہت مشکل زمانہ تھا ۔بھولنے کا عارضہ اس قدر شدید صورت اختیار کر چکا تھا کہ یہ بھی بھول جاتے تھے کہ یہ جو صاحب ملنے آئیں ہیں ، یہ کون ہیں ۔ اندیشہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں ان کی ساری یاد داشت ہی نہ ختم ہو جائے اور انھوں نے اتنی محنت کر کے جو علم حاصل کیا ہے، وہ اس سے محروم ہی نہ ہو جائیں ۔اور بعض لوگ خط لکھا کرتے تھے کہ اللہ کرے کہ ہماری عمر آپ کو لگ جائے تاکہ آپ اپنا تفسیر کا کام کر سکیں ۔امین احسن کہا کرتے تھے کہ اگر میں مزیدکام نہ بھی کر پایا تو اتنا کا م ہو چکا ہے کہ جو نظم قرآن کو سامنے لے آئے ۔
لاہور کے تمام اہم ڈاکٹروں سے علاج کرایا ، مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ۔پھر کراچی کے نام ور دماغی معالج ڈاکٹر جمعہ سے علاج کرنا طے پایا ۔کراچی میں مقیم امین احسن کے ہم زلف چودھر ی اقبا ل صاحب نے علاج کرانے اور اپنے ہاں قیام کرنے کی پیش کش کی ۔ڈاکٹر جمعہ کی تشخیص کے مطابق بہت زیادہ دماغی محنت نے دماغ کی شریانوں کو سخت کردیا تھا ، جس سے خون کی گردش میں دشواری ہوئی اور اسی سے نسیان کی کیفیت پید ا ہو ئی ۔
ڈاکٹر کے تجویز کردہ علاج سے چند ہفتوں میں افاقہ ہو نا شروع گیا۔الفاظ کی یادداشت بحال ہو گئی ، جملوں میں ربط پیدا ہوگیا اورافراد کی پہچان لو ٹ آئی ۔ صحت پاتے ہی اپنے شاگرد خالد مسعود صاحب کو یا د کیا اورانھیں خط لکھوا کر صورت حا ل سے مطلع کیا۔احباب کو اندیشہ تھا کہ بیماری سے علمی سرمایہ نہ بھول گئے ہوں ۔کراچی میں مقیم امین احسن کے دوست شیخ سلطان احمدصاحب نے ان سے درس کی فرمایش کی ۔ سورۂ حدید کا درس ہوا ۔ شیخ صاحب درس سن کر خوشی سے نہا ل ہو گئے ۔ انھوں نے خالد مسعود صاحب کویہ خوش خبری لکھ بھیجی کہ بیماری نے ان کے علم کو بالکل کوئی نقصان نہیں پہنچایا،درس حسب سابق بہت مدلل اور موثر تھا۔
مئی ۱۹۷۲ء میں امین احسن لاہورواپس آئے ۔اب وہ خا صے صحت مندہوچکے تھے۔ خالدمسعود ملنے گئے توانھوں نے کہاکہ انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت عقل ہے۔ اسی کے باعث انسان اشرف المخلوقات ٹھیرا۔اس بیماری میں مبتلاکر کے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ حقیقت واضح کردی کہ انسان اپنی جس صلاحیت پر ناز کرسکتا ہے، اللہ تعالیٰ پلک جھپکنے میں اس کوسلب کر سکتا ہے۔میری بیماری نے میرے اوپر بعض حقائق منکشف کیے ہیں ۔اگرمیں اس تجربے سے نہ گزرتا تو ان پر میرا اتنا پختہ یقین نہیں ہوسکتا تھا۔مثلاً یہ مسئلہ کھلا کہ قرآن پر گہری نظر سے وہ صحیح ایمان پیدا ہوتا ہے جو مصائب میں سہارا بنتا اور مشکلات میں پریشانی سے بچاتا ہے۔ اگر ایک آزمایش سے گزر کر آدمی کچھ ایسی باتیں سمجھ لے جوبڑھاپے میں سہارا دینے والی ہو ں تو یہ قیمت کچھ زیادہ نہیں ہے۔
۹/ جون ۱۹۷۲ء کو امین احسن نے کئی ماہ بعد نماز جمعہ ادا کی ۔وہ اس پر بے حد مسرور تھے۔ کہنے لگے : اگرچہ مجھے یہ تسلی تھی کہ میں بیماری کے باعث نماز جمعہ کی حاضری سے محروم ہوں ، لیکن مجھے اس حدیث کی وجہ سے وحشت ہوتی تھی جس میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص لگا تا ر جمعہ کی تین نمازوں میں حاضر نہ ہوتو اللہ کو اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ وہ یہودی ہو کر مرتا ہے یانصرانی ہوکر ۔مجھے پریشانی یہ تھی کہ میں کئی ماہ گزر جانے کے باوجوداس پر قادر نہیں ہورہاہوں ۔
جون میں امین احسن کام کرنے کے قابل ہو گئے ۔کہنے لگے : اب میری صحت اچھی ہورہی ہے، لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ اب کام کی کیا شکل ہو گی اور تفسیر کیسے لکھی جائے گی ۔خالد مسعود صاحب نے مشورہ دیا کہ آپ سورۂ کہف اوراس کے بعد کی سورتوں کوزیر مطالعہ رکھیں ۔حلقۂ تدبر قرآن کے ساتھی بھی انھیں پڑھتے رہا کریں اور فی الحال ان کی مشکلات کے بارے میں آپ سے سوالات کریں ۔امین احسن نے اس مشورے پر عمل کیااورعلمی مجالس منعقد ہونے لگیں ۔ ۳؍ جولائی سے امین احسن نے سورۂ کہف کادرس باقاعدہ دینا شروع کیااور اس کے لیے ہفتے میں دو دن مخصوص کیے ۔ چندہفتوں بعد امین احسن نے محسوس کیاکہ اب وہ تفسیر لکھ سکتے ہیں ، بشرطیکہ حلقے کے رفقا بھی اس کام میں شریک ہوجائیں ۔چنانچہ خالد مسعود، غلام احمد اورمحمود احمد لودھی صاحبان کی معاونت سے تفسیر کاکا م پھر سے شروع ہوگیا۔