باب۱
امام امین احسن اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدایش ۱۹۰۴ء میں صوبہ اتر پردیش (یو پی) کے ضلع اعظم گڑھ کے مغرب میں واقع ایک چھوٹے سے گاؤں بمہور میں ہوئی۔شبلی متکلم کی طرف منسوب یہ بات مشہور ہے کہ یہ اصل میں بام حور تھا جو بگڑ کر بمہور ہوگیا،مگر امین احسن اسے بے بنیادافسانہ قرار دیتے ہیں ۔
سید سلیمان ندوی کی تحقیق کے مطابق مغلوں کے زمانے میں حکومتوں کی تقسیم ، انگریزوں کی تقسیم سے مختلف تھی۔مغلوں کے زمانے میں اعظم گڑھ کے اکثر قصبات جون پور میں شمار ہوتے تھے، اسی لیے اعظم گڑھ کے اکثر مشاہیر جون پوری کے نام سے مشہور ہوئے۔اعظم گڑ ھ کا ضلع انگریزوں کے دور میں پیدا ہوا۔اعظم گڑھ کے کھلے ہوئے دو حصے ہیں : ایک حصے میں اکثر راجپوتوں یا دوسرے نو مسلموں کی آبادی ہے۔دوسرے حصے میں وہ خاندان آباد ہیں جن کے آباو اسلاف دوسرے اسلامی ملکوں یا شہروں سے ہجرت کر کے یہاں آئے یا آباد ہوئے۔ گڑھ ہندی لفظ ہے، جس کے معنی قلعہ کے ہیں ۔ہندوستان کے اکثر وہ شہر جن کے نام کا آخری جزگڑھ ہو ، ان کی آبادی کا آغازدرحقیقت کسی فوجی آبادی سے ہوا، یعنی کسی زمین دار یا رئیس نے اپنے اور اپنی رعایا کے لیے کوئی گڑھ بنایا اور اس کو اپنے نام کی طرف منسوب کردیا۔اعظم گڑھ ، راجہ اعظم کے نام سے منسوب ہے ،جو مسلما ن راجپوت راجاؤں میں سے تھا۔ روایت ہے کہ جہانگیر کے زمانے میں اس خاندان کا مورث اعلیٰ آگرہ جا کر مسلمان ہو گیا۔جہانگیر نے اس کی بہت قدر کی اور دولت خاں کے خطاب سے نوازا اور ۲۴ پرگنوں کی ریاست عطاکی۔یہ پر گنے زیادہ تر موجودہ اعظم گڑھ میں واقع تھے۔ راجہ دولت خاں لاولدفوت ہوگئے۔وہیں ان کی قبر بنی۔وہ اپنے بعد اپنے ہندو بھتیجے ہربنس کو ریاست کا مالک بنا گئے تھے۔اس کے آگے کے سلسلے میں ایک نام ور بکر ماجیت نامی ہوا، جس نے اسلام قبول کرلیا۔اس کے دو بیٹے ہوئے: اعظم خاں اور عظمت خاں ۔۱۶۶۵ ء میں اعظم خاں نے اعظم گڑھ کی بنیاد ڈالی اور عظمت خاں نے عظمت گڑھ کی (حیات شبلی ۱۲۴-۱۲۷)۔
امین احسن کے والد ماجد کا نا م حافظ محمد مرتضیٰ ولد وزیر علی ہے۔حافظ صاحب کا تعلق اعظم گڑھ کے گاؤں بمہورسے تھا۔ان کی برادری راجپوت تھی ۔علامہ شبلی نعمانی کا تعلق بھی اسی برادری کے ساتھ تھا۔ حافظ صاحب ایک متوسط درجے کے زمین دار تھے ۔برادری کے نیک سیرت اورمعزز فرد تھے۔زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے ۔گھر کی فضا دینی تھی۔ نماز اور روزے کاخاص اہتمام تھا۔حافظ صاحب قراء ت اچھی کر لیتے تھے ۔اس کے علاوہ انھوں نے حج کی سعادت بھی حاصل کر رکھی تھی۔
امین احسن بنیادی طور پر دیہاتی آدمی تھے، اس لیے ان کی ابتدائی تعلیم گاؤں ہی میں ہوئی۔ ۱۹۰۸ء میں تعلیم کا آغاز ہوا۔ابتدائی تعلیم سرکاری مکتب میں مولوی بشیر احمد، جب کہ دینی مکتب میں مولوی فصیح الدین سے قرآن مجید اورفارسی کی تعلیم حاصل کی (ماہنامہ شمس الاسلام، بھیرہ، ۷)۔
ان کے والدانھیں دین کی تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتے تھے۔امین احسن دس برس کے ہوئے توان کے والد صاحب نے مولانا شبلی متکلم ندوی سے اس معاملے میں مشورہ کیا۔ شبلی متکلم رشتے میں امین احسن کے چچا اور گاؤں کے ایک عالم دین تھے۔ انھوں نے امین احسن کو دینی اورعصری تعلیم کے لیے مدرستہ الاصلاح ،سراے میر میں داخل کرا دیا ۔شبلی متکلم اس زمانے میں اس مدرسہ کے صدر مدرس اور مہتمم تھے۔
سید سلمان ندوی سراے میر کے محل وقوع کے بارے میں بتاتے ہیں :
’’شاہ گنج سے جو شاہ عالم کے نام سے آباد ہے اور جون پور میں شامل ہے، دو فرلانگ آگے سے اعظم گڑھ کا ضلع شروع ہوجاتا ہے ۔شاہ گنج سے چند میل دور بہ سمت ِ مشرق سراے میر آتا ہے جس نے حضرت میر عاشقاں علیہ الرحمۃ کی نسبت سے سراے میر کانام پایا ہے ۔یہاں ان کا مزار اب تک یادگار ہے ، اور اب اس کی شہرت کا ذریعہ وہ مدرسہ اسلامیہ ہے جس کا نام ’’مدرستہ الا صلاح ‘‘ ہے، جس کو ۱۹۰۸ء میں یہاں کے مسلمانوں نے قائم کیا تھا اور جس سے مولانا شبلی اور مولانا حمیدالدین کو تعلق خاص رہاہے …سراے میر سے دس میل بہ جانب مشرق نظام آباد کاقصبہ ہے ، یہ بہت سے علما ، اہل اللہ کا مولد و مسکن رہاہے ۔ سنا ہے کہ دیوان عبد الرشید یہ کا اصل وطن یہی تھا، حضرت میر عاشقاں کے پیرحضرت شاہ عبدالقدوس رحمۃ اللہ علیہ عرف شاہ قدّن یہیں مدفون ہیں ۔‘‘ (حیات شبلی۱۲۹- ۱۳۰)
ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی نے بھارت جاکر امین احسن کے داخلے کی تاریخ کی تحقیق کی ہے۔ ان کے مطابق اصلاح میں ان کاداخلہ ۹جنوری ۱۹۱۰ء کو دس برس کی عمر میں درجہ سوم اردو میں ہوا۔ مدرسہ کے رجسٹر داخل خارج کی رو سے اصلاح میں ان کا داخلہ نمبر ۳۲۸ہے ۔داخلے کے وقت نام محمد امین ریکارڈ ہوا۔انھوں نے فراہی کو پہلی بار اس وقت جاناجب وہ اپنے والد کے ہاتھی پر سوار ہوکر مدرسہ آئے۔ وہ ایک اچھے طالب علم تھے (ذکر فراہی ۵۶۶)۔
امین احسن ابتدائی تعلیم کچی پکی اور پہلی اور دوسری گاؤں میں حاصل کر چکے تھے ،اس لیے مدرسہ میں ان کو تیسرے درجے میں داخلہ دیا گیا ۔یہاں وہ ۱۹۱۴ء سے۱۹۲۲ء تک رہے۔بعد میں اسی مدرسے کے نام کی نسبت سے اصلاحی کہلائے۔
بچپن کے مشاغل اور بچوں سے محبت
محمد صفدر میر نے کچھ عرصہ امین احسن کی صحبت میں گزارا۔لکھتے ہیں :
’’ہم پختہ عمر کے لو گ بچوں کی سر گر میوں اور ان کی حرکتوں پر چیں بچیں ہو تے ہی ۔ ایک دفعہ مو لا نا نے اپنے بچپن کی روداد سنا تے ہوئے بتا یا کہ جب مجھے کسی کا م کے لیے ادھر ادھر جا نا پڑتا تو میں دوڑکر جاتا، حالاں کہ دوڑنے کا کو ئی جواز نہ ہوتا۔ میں نے اس مسئلے پر غور کیا کہ میں خواہ مخواہ کیوں دوڑتا ہوں ۔ تو یہ عقدہ یو ں کھلا کہ بچوں میں وافر توانائی ہو تی ہے، یہ توانا ئی انھیں دوڑنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔ اس تجزیے کے بعد میری بچوں کے سا تھ شفقت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ۔ بچوں کی معیت میں مجھے لا زوال سکون ملا ۔ میں بچوں سے خوش رہا اور بچے مجھ سے خوش رہے۔‘‘ (ماہنامہ اشراق ، جنوری / فروری ۱۹۹۸ئ، ۱۰۰)
ڈاکٹرشہزاد سلیم ،امین احسن کے ساتھ خاص تعلق رکھتے تھے۔انھوں نے ان کی ویب سائٹ بھی بنائی ہے۔انھوں نے ایک انٹرویو میں امین احسن سے پوچھا:
’’سوال: بچپن میں آپ کے کیا مشا غل تھے؟
جواب: بچپن میں مجھے تیراکی اور گھڑسواری کا شوق رہا ۔ گا ئوں کے تا لا ب میں تیرا کی سیکھی اور گھڑ سواری بھی دس سا ل کی عمر تک اچھی خا صی سیکھ لی تھی۔ فٹ با ل اوروالی با ل سے بھی شغف رہا ۔ کرکٹ برائے نا م ہی آتی تھی، لڑکے میرے علم کی وجہ سے مجھے احتراماًٹیم میں رکھ لیتے تھے۔ اکثر اپنے ایک دوست الیا س کے سا تھ تا لا ب کے کنا رے سیر کو جا یا کر تا تھا۔ ہم تھوڑے سے چا ول ، کچھ چینی اور ایک ہنڈیا سا تھ لے جا تے ۔ آس پا س کے گڈریوں سے دودھ لے لیتے ۔ لکڑیا ں چن کر لا تے اور کھیر پکا کر مزے سے پیپل کے پتوں پر رکھ کر کھا تے تھے۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، جنوری / فروری ۱۹۹۸ئ، ۱۱۰)
مدرستہ الاصلاح۱۹۰۸ء میں علاقہ کے ایک بزرگ مولانامحمد شفیع نے قائم کیا تھا۔ انجمن اصلاح المسلمین اسے چلا رہی تھی ۔ابتدامیں یہ مدرسہ معمولی نوعیت کا تھا ۔ علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا حمیدالدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ کی دل چسپی سے اس کی حیثیت غیر معمولی ہوتی گئی۔ مولانا شبلی نے اس کے اغراض و مقاصدمتعین کیے اور مولانا فراہی نے اس کا نصاب تعلیم تجویز کیا اور نامکمل شعبوں کی تکمیل کی ۔اس مدرسہ میں دینی تعلیم جدید انداز میں دی جاتی تھی ۔ قرآن مجید کو مرکزو محور کی حیثیت حاصل تھی ۔عربی ادب کو بھی نمایاں مقام دیا گیا تھا۔فقہ کی تعلیم گروہی تعصب سے پاک تھی۔طالب علموں میں شعور پیدا کیا جاتا تھا کہ وہ جس فقہی مسلک کو قرآن وسنت کے موافق پائیں ، اسے اختیار کرلیں ۔ اس کے علاوہ ابتدائی درجہ تک انگریزی سے بھی متعارف کرایا جاتا تھا۔
مولانا عبدالرحمن نگرامی ر حمۃ اللہ علیہ مدرستہ الاصلاح کے بے حد ذہین ،لائق اور محنتی استاذ تھے۔ علامہ شبلی نے انھیں جوہر ِقابل سمجھ کر ان کی تربیت میں خاص دل چسپی لی تھی۔
علامہ سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’ تعلیم سے فارغ ہو کرمرحوم (مولانا نگرامی) بھی وابستگان شبلی کی جماعت میں داخل ہو گئے اور چار برس تک مدرسہ سرائے میر میں رہ کر درس و تدریس کا فرض انجام دیا ۔ اور مدرسہ میں زیر تربیت چند اچھے لڑکے پیدا کیے ۔ جن میں سے ایک آج مولانا امین احسن کے نام سے مشہور ہیں (یاد رفتگان) ۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ئ، ۷)
مولانا نگرامی نے فراہی سے قرآن کی تعلیم بھی حاصل کی ۔ مشرقی اضلاع میں ان کی اصلاحی تقریریں بہت مقبول ہورہی تھیں ، مگر مولانا ابو الکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ نے جامع مسجد کلکتہ میں مدرسہ اسلامیہ قائم کیا تو ان کی دعوت پر وہاں تشریف لے گئے۔اس کے بند ہوجانے پر ۱۹۲۳ء میں ندوۃ العلما، لکھنٔو میں ادب وتفسیر کے استاد ہوکر آئے ، لیکن جلد ہی علیل ہو گئے اور ۱۹۲۶ء میں عین شباب میں وفات پاگئے (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء ، ۷)۔
امین احسن نے مدرسہ میں متعدد اساتذہ سے تعلیم حاصل کی ،مگروہ سب سے زیادہ مولانا نگرامی سے متاثر ہوئے۔وہ خود بتا تے تھے کہ جب میں نے مدرسہ میں داخلہ لیا تو پڑھنے کے معاملے میں بدشوق سا تھا، لیکن مولانا نگرامی کی محنت اور توجہ سے میرے اند ر مطالعہ اور عربی ادب کا شوق پیدا ہوا۔ ان کا فیض صحبت میری زندگی میں انقلاب پیداکرنے کا باعث بنا ۔علم کلام میں امین احسن کے استاذ شبلی نعمانی کے شاگرد خاص مولانا شبلی متکلم تھے ،لیکن ان کے مضمون سے انھیں کبھی دل چسپی پیدانہیں ہوئی ۔امین احسن کا خیال تھا کہ ایک عاقل کے لیے علم کلام کی ضرورت نہیں ہے ۔
امین احسن کے دل میں مولانا نگرامی کے لیے بڑی عقیدت و محبت تھی۔جب وہ ’’سچ‘‘ اخبار سے وابستہ تھے تو امین آبادسے روزانہ پیدل چل کر ندوہ انھیں ملنے کے لیے جایا کرتے تھے۔
اکثر و بیش تر اہل علم و ادب کی طرح امین احسن بھی مدرسہ کی تعلیم کے دوران میں ریاضی کی تعلیم کو ایک بوجھ سمجھتے تھے۔خود فرمایا کرتے تھے کہ اسی لیے میں میراث و فرائض کے مضامین میں کم زور ہی رہا ۔
مد رسہ کی تعلیم کے دوران میں امین احسن نے فن تقریر میں بہت نمایا ں مقام حاصل کر لیا تھا، حتیٰ کہ طالب علمی کے زمانے ہی میں ایک اچھے مقرر کی حیثیت سے ان کی شہرت مدرسہ کے علاوہ دوسرے مقامات میں بھی پھیل گئی تھی۔ضیاء الدین صاحب اصلاحی لکھتے ہیں :
’’مولانا امین احسن اصلاحی کو تحریر ہی کی طرح تقریر کا بھی خدا داد ملکہ تھا۔ ان کا یہ جوہر طالب علمی ہی کے زمانے میں کھل گیا تھا۔ مولانا عبد الرحمن نگرامی کی صحبت میں اسے مزید ترقی ہوئی ۔ وہ خلافت اور مولانا مدنی کے ساتھ جمعیت کے جلسوں میں شریک ہوتے اور اپنی جادوبیانی کا سکہ جما دیتے ۔ بعض ثقہ مشاہدین نے مجھے بتایا کہ ان کی تقریروں کے سامنے مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی تقریریں پھیکی ہو جاتی تھیں ۔ ‘‘(سہ ماہی تدبر ، اپریل ۱۹۹۸ئ، ۱۵)
جب امین احسن نے مولانا فراہی سے خصوصی طور پر قرآن پڑھنا شروع کیا تو تدریس کے آغاز ہی میں فراہی نے انھیں مدرسے کے کام سے سفیر بنا کر سنگا پور بھیجا تھا۔اس کی بنیادی وجہ ان کی خطابت کی صلاحیت تھی (ذکر فراہی ۵۶۹)۔
ایک دفعہ مدرسہ میں مولانا محمدعلی جوہر رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر ہوئی تو ان کے سامنے طلبہ کی نمایندگی کرنے کے لیے امین احسن سے تقریر کرائی گئی۔جوہر نے اس تقریر کی بڑی داد دی ۔ فراہی نے اس کی تحسین ان الفاظ میں کی :’’اس طالب علم نے بہت اچھی تقریر کی ہے۔‘‘اس پر امین احسن کے استاذمولانا عبد الرحمن نگرامی نے عرض کیا:آپ کی اس تحسین کی کوئی یادگار بھی اس کے پاس ہونی چاہیے۔ پھرفراہی نے اپنا ’’مجموعۂ تفاسیر ‘‘ انھیں دیا اوراس پر لکھا:’’بصلۂ حسن تقریر‘‘اور اپنے دستخط ثبت کردیے۔ اسی تقریب کے ضمن میں امین احسن نے ماہنامہ ’’میثاق‘‘ جولائی ۱۹۶۴ء میں ایک مختصر مضمون ’’مولانا محمد علی مدرستہ الاصلاح میں ‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا تھا۔ اس میں انھوں نے جوہر ، فراہی اور مولانا محمد قاسم کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے :
’’اگرچہ بڑوں کے اس ذکر کے درمیان اپنا بیان کچھ مناسب نہیں ، لیکن جن کا کل سرمایۂ زندگی صرف وہ چند چھوٹی بڑی نسبتیں ہی ہوں جو بڑوں سے ان کو حاصل ہوئیں وہ اگر ان کو بیان نہ کریں تو آخر اپنے طرۂ افتخار کی آرایش کے لیے سامان کہاں سے لائیں گے ۔ اس وجہ سے مجھے یہ واقعہ ذکر کرنے کی اجازت دیجیے کہ یہی جلسہ ، جس کا ا وپر ذکر ہوا، اول اول مجھے پبلک میں روشناس کرانے کا ذریعہ بنا ۔ وہ اس طرح کہ مجھے مدرسہ کی تعلیم و تربیت کا نمونہ دکھانے کے لیے مدرسہ کے ذمہ داروں کی طرف سے اس جلسہ میں ایک تقریر کرنے کی ہدایت کی گئی ۔ چنانچہ میں نے اس میں ایک تقریر کی ۔ یہ تقریر میری اپنی ہی تیار کردہ تھی اور اگرچہ کسی پبلک جلسہ میں یہ میری بالکل پہلی تقریر تھی، لیکن میری عمر اور علم کے اعتبار سے نہایت کامیاب رہی ۔ مولانا محمد علی رحمۃ اللہ علیہ اور اسٹیج پر بیٹھے ہوئے دوسرے اکابر نے اس کی بڑی تحسین فرمائی ۔ یہاں تک کہ مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ نے بصلۂ حسن تقریر پر اپنے تفسیری رسائل کا ایک سیٹ اپنے دستخط سے مزین فرما کر مجھے بطور انعام عنایت فرمایا۔ اس کے بعد مجھے دور دور سے جلسوں کی شرکت کے لیے دعوت نامے ملنے لگے۔ اور میں کبھی کبھی جلسوں میں شریک بھی ہونے لگا۔ لیکن میں نے یہ لَے زیادہ بڑھنے نہیں دی، اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے استاذ مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ زیادہ تقریریں کرنے کو سخت ناپسند فرماتے تھے ۔ ایک مرتبہ تو انھو ں نے مجھ سے یہاں تک فرمایا کہ زیادہ تقریریں کرنے سے آدمی کا دل سیاہ ہو جایا کرتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جس چیز کو وہ اس درجہ ناپسند فرماتے ہوں اس کی طرف زیادہ راغب ہونا میرے لیے ممکن نہیں تھا۔ ‘‘ (۴۶)
جاوید احمد صاحب غامدی بیان کرتے ہیں :
’’...ایک مرتبہ محمد علی جوہراور سید سلیمان ندوی جیسے لوگوں کی موجودگی میں ، نوجوان امین احسن نے تقریر کی۔ ان کی خطابت کا جو رنگ بعد میں نمایاں ہوا اور جس کی داد اپنے وقت کے بے مثل خطیب سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے اس طرح دی کہ خطیب تو میں بھی ہوں ، لیکن تم عالم بھی ہو اور خطیب بھی ہو ، اس کی کچھ جھلک اس تقریر میں بھی تھی ۔ لوگوں نے بہت داد دی ، لیکن وہ منتظر تھے کہ استاذ امام کیا کہتے ہیں ۔ شام کو درس کے لیے حاضر ہوئے تو کسی نے امام فراہی سے ذکر کیا۔ وہ کچھ دیر دوسروں کی باتیں سنتے رہے ، پھر اپنے خاص انداز میں فرمایا : ہاں بھئی ، یہ بڑے ابو الکلام آزاد ہیں ۔ امین احسن بتاتے تھے کہ انھوں نے لفظ ’آزاد‘ اس طرح ادا کیا کہ ان کی یہ تعریف میرے لیے تعریف کم اور تنبیہ زیادہ ہو گئی ۔ میرے استاد کی تربیت کا یہی انداز تھا۔‘‘ (ماہنامہ اشراق جنوری /فروری ۱۹۹۸ئ، ۱۵)
۱۹۲۵ء میں فراہی کے حکم پرمدرسہ کے کسی کام سے ملایا(ملائشیا) گئے تو اپنے ہم درس اختر احسن نے واپسی کے بارے میں پوچھاتوامین احسن نے خط لکھاجس میں ایک جملہ یہ بھی تھاکہ :
’’ سمندر کی سر جوشی کے ایام بہار ہیں ۔،آج کل سفر ممکن نہیں ۔ ‘‘
فراہی نے پڑھاتو کہا :
’’امین میاں توادیب ہیں ۔‘‘
امین احسن خود بتایاکرتے تھے کہ زمانہ ٔ طا لب علمی میں اگر کوئی شخص ان سے پوچھتا کہ وہ کیا بننا چاہتے ہیں توکہتے:ادیب الہند۔
اسی زمانے میں شاعر ی کا بھی شوق رہا،مگر یہ شوق جلد ہی ختم ہوگیا، اس کی وجہ ان کی معیار پسندی تھی۔ خود بتایا کرتے تھے کہ میں نے شبلی سے موازنہ کیاتو خیال ہوا کہ میں ان جیسے شعر نہیں کہہ سکتا۔ اس کے بعد پھر میں نے اس کوچے میں قدم نہیں رکھا۔
جن دنوں امین احسن کو شاعری کاشوق تھا، اس وقت کا ایک دل چسپ واقعہ ہے ۔ان کی طبیعت میں شوخی تو شروع سے تھی۔ مدر سہ کے ایک استاد کی ہجو لکھ دی ۔ مولانا نگرامی کو معلو م ہواتو طلب کیا، تنبیہ کی، کچھ جرمانہ بھی کیا ، لیکن ساتھ ہی کہا : اس میں شبہ نہیں کہ تمھاری نظم بہت اچھی ہے۔
مدرسہ کے زمانے میں ’’سبع معلقات‘‘ کا امتحان ہوا۔سید سلیمان ندوی ممتحن تھے۔امین احسن نے پرچہ حل کیا ۔ سید سلیمان نے ان کے پرچے پر لکھا:
’’یہ ایک طالب علم کا پرچہ ہے۔ مجھے’’ندوہ ‘‘ کے لیے اس طرح کے استاد بھی کہاں سے ملیں گے۔‘‘
اگرچہ امین احسن نے شعرو ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا تو نہیں بنایا، مگرآپ کے اندر اس کی بھرپور صلاحیت موجود تھی۔یہی وجہ ہے کہ آپ کی علمی تحریروں ، حتیٰ کہ عام گفتگومیں بھی ادبی رنگ نمایاں ہوتا ہے۔
جناب جاوید احمد غامدی لکھتے ہیں :
’’...ایک مرتبہ (امین احسن نے) بتایا کہ لوگوں نے امام فراہی سے کہا : امین تو کہتے ہیں کہ عربی شاعری بھی کوئی شاعری ہے ۔ کچھ پتا نہیں چلتا کہ اونٹنی کی تعریف کر رہے ہیں یا محبوبہ کی ۔ امام فراہی نے کہا : انھیں کسی نے شعر سمجھایا نہیں ہو گا ۔ میں آیا تو انھوں نے پوچھا ۔ میں نے وہی بات دہرا دی ۔ استاذ امام نے کہا : کوئی شعر پڑھو۔ میں نے معلقۂ امرؤ القیس کا پہلا شعر پڑھ دیا : ’قفا نبک من ذکري حبیب و منزل‘۔ امام نے کہا : ترجمہ کرو ۔ میں نے اسی طرح ترجمہ کر دیا ، جس طرح بالعموم مدرسوں میں کیا جاتا ہے ۔ امام نے کہا : نہیں ، یوں نہیں ، اس طرح ترجمہ کرو کہ : ٹھیرو، ٹھیرو، دوستو، جاناں اور منزل جاناں پہ آنسو بہانے دو۔ میں پکار اٹھا : لاریب ، شعر ہو گیا۔ اب یہ شعر ہو گیا ہے ۔ وہ کہتے تھے، اس کے بعد عربی شاعری ہی میری سب سے زیادہ پسندیدہ شاعری ہو گئی۔‘‘(ماہنامہ اشراق، جنوری /فروری۱۹۹۸ئ، ۱۶)
جاوید احمد صاحب غامدی نے لکھا:
’’مدرسہ میں جن لوگوں کی ان سے چشمک رہتی تھی ، انھوں نے فراہی سے کہا : امین احسن کو نحو سے کچھ زیادہ مناسبت نہیں ہے ۔ بتاتے تھے : میں درس میں حاضر ہوا تو آتے ہی استاذ امام نے پوچھا : امین ، ’ل‘ کیا صیغہ ہے ؟ میں نے جواب دیا ، معنی عرض کیے ، تو بڑے خشمگیں انداز میں لوگوں کی طرف دیکھا، پھر فرمایا : کون کہتا ہے کہ امین کو نحو نہیں آتی ۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، جنوری /فروری۱۹۹۸ئ، ۱۶)
جناب جاوید احمد غامدی لکھتے ہیں :
’’اسی طرح کے ایک موقع پر امام فراہی نے اپنے درس کے حاضرین سے پوچھا : اس درس میں سب سے کم سن کون ہے ؟ لوگوں نے کہا : امین احسن ۔ انھوں نے پوچھا : سب سے بعد میں کون شریک ہوا؟ لوگوں نے کہا : امین احسن ۔ اس پر فرمایا : سیدنامسیح کا ارشاد ہے کہ کتنے ہیں جو پیچھے آنے والے ہیں ، مگر دوسروں سے آگے نکل جائیں گے ۔ ‘‘(ماہنامہ اشراق ،جنوری /فروری ۱۹۹۸ئ، ۱۶)
ڈاکٹرشہزاد سلیم صاحب نے ایک انٹرویو میں امین احسن سے پوچھا:تعلیم سے فراغت کے بعد آپ کی کیا مصروفیات تھی؟
’’جواب:تعلیم سے فراغت کے بعد بھی مدرسہ ہی میں عر بی ادب اور قرآن کا مدرس مقرر ہوا۔ اس زما نے میں میرے معمولا ت با لکل متعین تھے اور میں ہر قیمت پر ان کی پیر وی کرتا۔ صبح ۳ بجے بیدار ہو تا ، نما ز سے فارغ ہو کر پڑھنے میں مشغول ہو جا تا ۔ مدرسہ میں روزانہ ۳ سے ۴گھنٹے کی تدریس کی مصروفیت رہتی ۔ ظہر کی نما ز کے بعد کچھ دیر کے لیے مو لا نا فراہی کے کمرے میں جا تا اور قرآن کے مختلف مقا ما ت کے بارے میں ان سے سوالا ت کر تا ۔ مو لا نا شبلی نعما نی کے بھائی اسحاق نعما نی کے بیٹے فاروق نعما نی سے میر ی بڑی دوستی تھی۔ ان کے ساتھ شا م کے وقت فٹ بال اور والی بال کھیلنے جا تا ۔ جس دن کھیل کا مو قع نہ ملتا، اس دن گھنٹابھر عصر کے بعد سیر ضرور کرتا۔ رات کو پا بند ی سے ۹ بجے سو جاتا۔ اس کے علا وہ دن میں نہ سوتا۔ … ملنے ملا نے میں بہت بخیل تھا کسی نے ایک دن آکر مو لا نا فراہی سے شکا یت کی تو مولانا نے فرمایا: یہ اپنے سے مشغول رہنے والے آدمی ہیں ۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، جنوری /فروری ۱۹۹۸ئ، ۱۱۱)
مدرسہ سے سند فراغ حا صل کرنے کے بعدامین احسن کو اخبار ’’مدینہ‘‘بجنورکے مالک محمد مجید حسن نے اخبار میں کام کرنے کی پیش کش کی۔وہ امین احسن کی تحریری صلاحیت کے معترف تھے۔امین احسن نے اخبا ر کے نائب مدیر کا کام سنبھالا۔اس زمانے میں ’’مدینہ ‘‘ یو پی کا سب سے اچھا اخبار سمجھا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ ان دنوں تحریک ِخلافت کا علم بردار سیاست میں کانگریس کاہم نوا اخبار سمجھا جاتا تھا۔
اس وقت امین احسن کی عمر صرف اٹھارہ برس تھی، اس لیے مولانا ابوالکلام آزاد نے ایک دفعہ کہا تھا کہ اخبار ’’مدینہ ‘‘ کو نابالغ مدیر میسر آگیاہے ۔
مجیدحسن نے بچوں کے ایک ہفت روزہ ’’غنچہ‘‘ کی ادارت بھی امین احسن کے سپرد کردی۔ اس کے علاوہ امین احسن نے مولانا عبدالما جددریا بادی کے اخبار ’’سچ‘‘ کے لیے بھی کام کیا تھا۔
امین احسن کے شاگرد محترم سلیم کیانی لکھتے ہیں :
’’ ... اپنے متعدد ہم عصر مفکرین کی طرح وہ بھی برطانوی سامراج سے ہندوستان کی تحریک آزادی سے متاثر ہوئے اور کچھ عرصہ تک کانگریس پارٹی کی مقامی شاخ کے صدر بھی رہے۔
دوسرے علما کی طرح برطانوی سامراج سے ہندوستان کی آزادی،جس کے معنی مسلمانوں کی آزادی بھی تھی،ان کے نزدیک بڑی اہمیت کی حامل تھی۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ئ، ۲۴)
امام حمیدالدین فراہی ریاست حیدر آبا د میں نظام دکن کے قائم کردہ دارلعلوم عثمانیہ کے پرنسپل تھے۔البتہ اس وقت نظم قرآن کا طرزِ فکر متعارف کرانے کی وجہ سے علمی اور دینی حلقوں میں شہرت پاچکے تھے۔۱۹۲۵ء میں اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا اور اپنے علاقے پھریہا ،ضلع اعظم گڑھ لوٹ آئے۔ امین احسن ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ فراہی بجلی(پروا)میں گھر کے باہر چبوترے پر کھڑے تھے۔ رسمی بات چیت کے بعد فراہی نے مصروفیات کے بارے میں پوچھا :
’’کیا آپ اخبار نویسی ہی کریں گے یا ہم سے قرآن پڑ ھیں گے؟‘‘
امین احسن بتایا کرتے تھے کہ ان دنوں میں ایک اخبار کا مدیر تھااور اچھے مشاہرے پر کام کررہا تھا، لیکن میں نے بغیر کسی توقف کے عرض کیا :
’’اگر آپ قرآن پڑھائیں تو میں حاضر ہوں ۔‘‘
فراہی بولے:’’آپ کا قیام و طعام میر ے ساتھ رہے گا ۔معاملات کو جلدسمیٹ کر آجائیے۔‘‘
یوں امین احسن مولانا عبدالماجد دریابادی کے ’’سچ ‘کی ادارت سے استعفیٰ دے کر لکھنؤ سے پھریہا آگئے اور ایک مرتبہ پھر طالب علم کی زندگی اختیار کرلی۔ ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی لکھتے ہیں :
’’... (امین احسن)لکھنؤ جا کر سامان وغیرہ لے آئے ۔ مولانا کو معلوم تھا کہ اصلاحی صاحب کی سسرال یہیں ہے مگر ان کو یہ بھی معلوم تھا کہ یہاں سسرال میں رہنا معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ علاوہ ازیں مولانا نے انھیں جس مقصد سے بلایا تھا وہ سسرال میں رہ کر کماحقہ ٗ پورا نہیں ہو سکتا تھا۔ مولانا نے فرمایا ۔ آپ یہیں اس بنگلے میں رہیں گے اور کھانا میرے ساتھ کھائیں گے ۔ مولانا نے آبائی مکان کے قریب ہی ذرا ہٹ کر ایک شاندار بنگلہ اپنے صرف سے بنوایا تھا جو موجود تو اب بھی ہے مگر کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے ۔ اس بنگلے کی انجینئرنگ مولانا نے خود ہی کی تھی۔ وہ انجینئر تو تھے نہیں اس لیے بعض سنگین نقائص رہ گئے ۔ چھت اور دیواروں سے پانی رستا تھا۔
مولانا نے اصلاحی صاحب کو بلایا تو تھا اپنے نہج پر قرآن پڑھانے کے لیے اور ابتداء ً ان کا خیال یہی تھا کہ پھریہا میں ان کو اپنے ساتھ رکھیں گے اور یہیں ان کو پڑھائیں گے، مدرسے کے باقی اساتذہ یا سینئر طلبہ کو شریک کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ مگر مدرسے کے اساتذہ کو جب اس کا علم ہوا تو وہ وفد بنا کر پھریہا آئے اور مولانا سے درخواست کی کہ درس کا سلسلہ پھریہا کی بجائے مدرسہ پر شروع کیا جائے تاکہ دوسرے لوگ بھی مستفید ہو سکیں ۔وفد میں مولوی سعید صاحب اور مولوی اختر احسن صاحب بھی تھے ۔ پہلے تو مولانا نے ٹالنا چاہا مگر ان کے اصرار پر انھوں نے یہ تجویز منظور کر لی ۔ اور درس کا سلسلہ مدرسہ پر شروع ہو گیا۔ درس شروع ہونے سے پہلے ہی مولانا اصلاحی مدرسہ کے کام سے ایک وفد کے ساتھ ملایا چلے گئے ۔ اس وفد میں اصلاحی صاحب کے علاوہ مدرسے کے دو استاد مولوی شبلی ندوی متکلم اور مولوی عبد الاحد صاحب اصلاحی بھی تھے ۔ مولانا کے کہنے پر ہی اصلاحی صاحب ملایا گئے ۔ مولانا نے کہا آپ کو پڑھاؤں گا تو لیکن اس سے پہلے آپ سے ایک کام لینا ہے آپ وفد کے ساتھ ملایا چلے جائیں ۔ا صلاحی صاحب ملایا چلے گئے۔ تقریباً ۶ ماہ ملایا میں انھوں نے قیام کیا۔ واپس آئے تو درس جاری تھا۔ اس میں شامل ہو گئے ۔ لیکن باوجود یکہ وہ درس میں بعد میں شریک ہوئے مگر اپنی ذہانت، محنت، طبعی مناسبت اور دلچسپی کی وجہ سے بہت جلد وہ سب کو پیچھے چھوڑ گئے ۔ اس صورت حال کو دیکھ کر مولانا فراہی اکثر حضرت مسیح کا یہ قول دہراتے تھے کہ کتنے ہی بعد میں آنے والے ایسے ہیں کہ پہلے آنے والوں سے آگے نکل جاتے ہیں ۔‘‘ (ذکر فراہی ۵۷۰)
اسی زمانہ میں اصلاحی صاحب نے قرآن مجید کے علاوہ عربی ادب اور فلسفے کی بعض وہ شاخیں بھی پڑھیں جن کا تعلق قرآن اور قرآن فہمی سے تھا۔ اور ظاہر ہے کہ یہ استفادہ حلقہ درس قرآن سے باہر الگ کیا ہوگا۔ فرماتے ہیں :
’’یہ اللہ کا ایک انعام تھا کہ انھوں نے خود مجھے دعوت دی کہ میں ان سے قرآن پڑھوں ۔ پانچ سال پورے ان کے ساتھ گزارے ۔ اس کے بعد جب ان کی وفات ہوئی تو مجھ پر قرآن کی فہم کی راہ کھل چکی تھی۔ اس کے بعد سے قرآن ہی میری دلچسپی کا مرکز و محور رہا ۔ پانچ سال تک ان سے قرآن پڑھا۔ اس کے ساتھ ہی ادب عربی اور فلسفے کے وہ مباحث بھی پڑھے جن کا تعلق قرآن سے ہے۔ الحمد للہ سے لے کر والناس تک پورا قرآن پڑھا۔ میری ہی وجہ سے مدرسے میں انھوں نے درس شروع کیا۔ پانچ سال تک یہ سلسلہ جاری رہا ۔
اس پنچ سالہ دور تلمذ میں ، جرمنی فلا سفر بلنچلی کی ’’تھیوری آف دی اسٹیٹ‘‘ مولانا فراہی نے مولانا اصلاحی کو سبقاً سبقاً پڑھائی تھی۔ جو ان کی کتاب ’’اسلامی ریاست‘‘ کی صورت میں منظر عام پر آئی۔
زبانی ذکر کے علاوہ امین احسن اصلاحی نے ا س کو مجموعۂ تفاسیر فراہی کے دیباچہ میں بھی بیان کیا ہے (۳۵)، لیکن وہاں کتاب ’’اسلامی ریاست‘‘ کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ شاید اس وقت تک لکھی نہ ہو ۔
اسی پنچ سالہ دور میں ، عربی زبان و ادب اور نحو وغیرہ کی ابتدائی خامیاں جو رہ گئی تھیں وہ مولانا کے وقت میں دور ہوئیں ۔
اسی دور تلمذ میں امین احسن اصلاحی کی شاگردانہ کاوشوں کا بھرپور اجمالی اظہار ان کے درج ذیل اقتباس میں ہے ۔
’’میں پورے چھ سال ان کی صحبت میں شب و روز رہا ہوں ۔ اس چھ سال کی صحبت میں شاید ہی کوئی صبح و شام ایسی گزری ہو جس میں مجھے علمی و مذہبی مسائل پر ان سے کھل کر بحث کرنے اور ان کے خیالات معلوم کرنے اور اپنے شبہات ان کے سامنے پیش کرنے کا موقع نہ ملاہو۔‘‘ (ذکر فراہی ۵۷۱)
سراے میر میں تدریس شروع ہوئی ۔ فراہی نے جس عمارت میں قیام کیا ، اس عمارت کے سامنے کا کمرہ امین احسن کا تھا۔ ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی کے مطابق:
’’ ... ’’ہال‘‘ کے ان چار کمروں میں سے ایک میں وہ رہتے تھے جس کے ایک کمرے میں مولانا فراہی رہتے تھے ۔ فراہی کے کمرے میں اور سائبان میں جہاں درس ہوتا تھا خود اپنے ہاتھ سے جھاڑو دیتے تھے۔ حالانکہ جھاڑو دینے کے لیے خاکروب ملازم تھے۔ رہایش کے اعتبار سے مکانی قرب اختر احسن اور امین احسن دونوں کو برابر کے درجے میں حاصل تھا، اس فرق کے ساتھ کہ اختر کا کمرہ فراہی کے مغرب میں مسجد کے قریب تھا اور امین کا کمرہ فراہی کے جنوب میں مسجد سے دور تھا۔ جیسے ایک کنبے کے افراد ایک گھر میں رہتے ہیں ۔ ۲۴ گھنٹے کا ساتھ تھا مدرسے میں مولانا فراہی کا درس تو ایک آدھ گھنٹے کے لیے ہوتا تھا۔ اس کی نوعیت ایک کلاس یا حلقے کی تھی ۔ انفرادی توجہ کے جو مواقع شب و رو زکی یکجائی میں اختر اور امین کو ملے ، اہل نظر کے لیے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ اٹھتے بیٹھتے سوال و جواب ، استفسار ، بحث و نظر، تحقیق و تنقید میں جو وقت گزرتا ہو گا اس کی بات ہی کچھ اور ہے۔ اختر احسن اصلاحی کی زبان سے خلوت تو کیا جلوت کی بھی کوئی بات کبھی سننے کا اتفاق نہیں ہوا ۔ لیکن امین احسن اصلاحی کی زبان سے خلوت و جلوت کی بہت سی باتیں سنیں ۔‘‘(ذکر فراہی ۵۶۸)
اس طرح امین احسن اپنے استاذ کی ضروریا ت کا خیا ل رکھتے ، ان کی خدمت کے لیے ہر وقت حاضر رہتے اور قرآن کے اسبا ق کی بہتر تیاری کرلیتے ۔اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ انھیں فراہی سے فیض یاب ہونے کا زیادہ موقع ملا۔یہ تدریس ۱۹۳۰ء کے اواخر تک جاری رہی ۔
ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی اس درس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’... فکر فراہی یا فراہی مکتب فکر نام کی کوئی چیز اگر موجود ہے تو اس میں یہ درس اصل و اساس کا حکم رکھتا ہے ۔ اس درس کا ذکر مراکشی اسکالر علامہ تقی الدین ہلالی ، مولانا سید سلیمان ندوی، امین احسن اصلاحی کے علاوہ ہر اس شخص نے کیا ہے جس نے فراہی پر قلم اٹھایا۔ یوں تو مولانا فراہی کی سوانح حیات میں درس قرآن کا ایک سلسلہ کوہ نظر آتا ہے مگر مدرسہ پر ان کا درس قرآن ماؤنٹ ایورسٹ کے مانند ہے ۔ یہ درس نہ ہوتا تو اس کے دو خاص شرکاء اختر احسن اور امین احسن نہ ہوتے تو فکر فراہی یا فراہی اسکول آف تھاٹ کا یہ چرچا نہ ہوتا۔ امین احسن اصلاحی راست مولانا فراہی کی تربیت میں آئے تو ان کی عمر بیس سے متجاوز ہو چکی تھی۔‘‘(ذکر فراہی ۵۶۹)
امین احسن نے فراہی سے علوم تفسیر ہی نہیں پڑھے، بلکہ ان کے طرز تفسیر میں مہارت بھی حاصل کی۔ عربی شاعری کی مشکلات کے حل میں ان سے مددلی۔ سیاسیات کی ایک اہم کتاب بلچلی کی ’’تھیوری آف اسٹیٹ‘‘ سبقاً سبقاً پڑھی ۔ فلسفہ کی بعض چیزیں استاذکی نگرانی میں پڑھیں ۔ اس عرصے میں امین احسن Stoics کے فلسفے سے بہت متاثرہوئے۔بتایا کرتے تھے کہ’’ میں ما رکس آریلیئس(Marcus Aurelius) کی تحریریں پڑھ کر رویاکرتا تھا۔ مولانافراہی کو معلوم ہوا تو انھو ں نے اس کے فلسفے پر ایک تقریر کی، جس کے بعد میرے دل کو قرار آگیا ۔‘‘
جناب جاوید احمد غامدی لکھتے ہیں کہ امین احسن بتاتے تھے:
’’... ’’ سبع معلقات ‘‘ پڑھ رہاتھا۔ ایک جگہ ’ لا‘ سمجھ میں نہیں آیا۔ سب شارحین کو دیکھا۔ ادیب الہند مولوی فیض الحسن سہارن پوری کی شرح بھی دیکھی ، لیکن کسی راے پر اطمینان نہیں ہوا۔ کتاب لے کر امام فراہی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ اپنے دارالمطالعہ کے باہر کھڑے تھے۔ میں نے مشکل بیان کی ۔ لمحے بھر کو رکے ۔ جیب سے پنسل نکالی اور میری کتاب پر لکھا : ’لاھي نادرۃ‘۔ میاں ، جس طرح تم لوگ نہیں کہتے کہ جس گھڑی میری موت نہ آ جائے ۔ یہ اسی طرح کا ’لا‘ ہے ۔ زبان کے غوامض تک پہنچنے کا یہ انداز صرف استاد ہی کا حصہ تھا۔‘‘ (ماہنامہ اشراق،جنوری / فروری ۱۹۹۸ئ، ۱۷)
ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی نے لکھاہے:
’’... گمان ہوتا ہے کہ امین احسن مولانا فراہی کے چہیتے نہیں محبوب شاگرد تھے ۔
اسی طرح یہ گمان بھی ہوتا ہے کہ مولانا فراہی ، امین احسن کے محبوب استاد تھے۔ مولانا اصلاحی وقتاً فوقتاً ملاقاتوں میں ایسی باتیں مجھ سے بیان کر جاتے تھے جو استاد اور شاگرد کے مابین ہوتی تھیں ۔ اور جن سے مترشح ہوتا ہے کہ مولانا فراہی ، امین احسن اصلاحی کے لیے پسندیدگی کے جذبات رکھتے تھے ۔ وہ ان کو چاہتے تھے ۔ میں نے اس طرح کی کچھ باتیں نوٹ کر رکھی ہیں ۔ چند باتیں جو اس وقت سامنے موجود ہیں ، نمونہ کے طور پر ان کو درج کرنے میں کوئی ہرج نہیں ۔
امین احسن اصلاحی نے مجھ سے بیان کیا:
’’میں لوگوں کے ساتھ زیادہ خلط ملط نہیں ہوتا تھا۔ اگر کوئی مولانا سے میری اس روش کی شکایت کرتا تو مولانا بجائے مجھے کچھ کہنے کے فرماتے ’’یہ اپنے ہی ساتھ مشغول رہتے ہیں ‘‘ ۔‘‘
امین احسن اصلاحی نے مجھ سے بیان کیا :
’’مولانا کے مسودات میں نے نقل کرنے کے لیے کسی اور کو دے دئیے تو انھوں نے کہا کہ کیوں دے دیا مجھے تمھارا خط بہت پسند ہے ۔ تمھارے خط میں ابو الکلام کے خط کی شان ہے ۔ میں نے کہا میرا ہاتھ ٹھیک کام نہیں کرتا اس لیے میرا خط خراب ہو گیا ہے ۔‘‘
معلوم ہوا کہ اصلاحی صاحب کے ہاتھ میں رعشہ کی جو بیماری تھی اس کی ابتداء بیس کے بعد کے عشرے میں ہو گئی تھی ۔
امین احسن اصلاحی نے مجھ سے بیان کیا:
مدرسے میں صفائی کے لیے آدمی مقرر تھے ۔ مگر اصلاحی صاحب جب مولانا ہوتے ان کے کمرے کی صفائی خود کرتے ۔ پانچو یا جہانگیر کی بجائے کمرے میں اور سائبان میں بچھے ہوئے ٹاٹ پر خود جھاڑو دیتے ۔ مولانا دیکھتے تو اظہار شفقت اور قدر افزائی کے لیے کہتے: ’’یہ تو خود خدمت کئے جانے کے لائق ہیں مگر ہماری خدمت کرتے ہیں ۔‘‘ ‘‘(ذکر فراہی ۵۷۲)
فراہی کی تدریس کے دوران میں امین احسن کے ہم درس تومدرستہ الاصلاح کے کئی اساتذہ تھے،مگر صحیح معنو ں میں ہم درس کہلانے کے مستحق مولانا اختر احسن اصلاحی تھے ۔اختر احسن مدرسہ کی تعلیم کے دوران میں بھی ان کے ہم جماعت تھے۔فراہی کی تدر یس کے زمانے میں دونوں ایک دوسرے کا بھائیوں کی طرح خیال رکھتے تھے۔ فراہی کی خاص توجہ ان دونوں پر رہی۔ بلاشبہ، دونوں نے بڑی محنت سے کسب فیض بھی کیا۔امین احسن اعتراف کرتے ہیں کہ اختر احسن صاحب نے میری علمی خامیا ں دور کرنے میں نہایت فیاضی سے مدد کی۔
امین احسن ، اختر احسن کے بارے میں خود لکھتے ہیں :
’’میں اور مولانااختر احسن اصلاحی مرحوم دونوں ایک ہی ساتھ ۱۹۱۴ء میں مدرستہ الاصلاح (سرائے میر، اعظم گڑھ) کے ابتدائی درجوں میں داخل ہوئے اور مدرسہ کا آٹھ سال کا تعلیمی کورس پورا کر کے ایک ہی ساتھ ۱۹۲۲ء میں فارغ ہوئے ۔ ا س کے بعد مولانا اختر احسن تو مدرسہ ہی میں تدریس کی خدمت پر مامور ہو گئے اور میں دو ڈھائی سال اخبارات میں اخبار نویسی کرتا پھرا۔ ۱۹۲۵ء میں استاذ امام مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے یہ ایماء فرمایا کہ میں اخبار نویسی کا لاطائل مشغلہ چھوڑ کر ان سے قرآن پڑھوں ۔ میرے لیے اس سے بڑا شرف اور کیا ہو سکتا تھا۔ میں فوراً تیار ہو گیا اور مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے مدرسہ ہی میں درس قرآن کا آغاز فرما دیا جس میں مدرسہ کے دوسرے اساتذہ کے ساتھ مولانا اختر احسن مرحوم بھی شریک ہوتے رہے ۔ یہ سلسلہ پورے پانچ سال قائم رہا ۔
طالب علمی کے دور میں تو ہم دونوں کے درمیان ایک قسم کی معاصرانہ چشمک و رقابت رہی، تعلیم کے میدان میں بھی اور کھیل کے میدان میں بھی ، لیکن مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ کے درس میں شریک ہونے کے بعد ہم میں ایسی محبت پیدا ہوگئی کہ اگر میں یہ کہوں تو ذرا بھی مبالغہ نہ ہو گا کہ ہماری یہ محبت دو حقیقی بھائیوں کی محبت تھی ۔ وہ عمر میں مجھ سے غالباً سال ڈیڑھ سال بڑے رہے ہوں گے ۔ انھوں نے اس بڑائی کا حق یوں ادا کیا کہ جن علمی خامیوں کو دور کرنے میں مجھے ان کی مدد کی ضرورت ہوئی اس میں انھوں نے نہایت فیاضی سے میری مدد کی۔ بعض فنی چیزوں میں ان کو مجھ پر نہایت نمایاں تفوق حاصل تھا۔ اس طرح کی چیزوں میں ان کی مدد سے میں نے فائدہ اٹھایا۔ اس پہلو سے اگر میں ان کو اپنا ساتھی ہی نہیں بلکہ استاذ بھی کہوں تو شاید بے جا نہ ہو۔
مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ کے درس میں اگرچہ مدرسہ کے دوسرے اساتذہ بھی شریک ہوتے لیکن میرے واحد ساتھی مولانا اختر احسن ہی تھے ۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی خاص توجہ بھی ہم ہی دونوں پر رہی۔ مولانا اختر احسن اگرچہ بہت کم سخن آدمی تھے لیکن ذہین اور نہایت نیک مزاج۔ اس وجہ سے ان کو برابر مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا خاص قرب اور اعتماد حاصل رہا۔ انھوں نے حضرت استاذ رحمۃ اللہ علیہ کے علم کی طرح ان کے عمل کو بھی اپنانے کی کوشش کی جس کی جھلک ان کی زندگی کے ہر پہلو میں نمایاں ہوئی اور مجھے ان کی اس خصوصیت پر برابر رشک رہا ۔ مولانا اختر احسن کو استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت کا بھی شرف حاصل ہوا حالانکہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کسی کو خدمت کا موقع مشکل ہی سے دیتے تھے ۔ یہ شرف ان کو ان کی طبیعت کی اپنی خوبیوں کی وجہ سے حاصل ہوا جن کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا۔
استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ مدرستہ الاصلاح کے ذریعہ سے جو تعلیمی اور فکری انقلاب پیدا کرنا چاہتے تھے اس میں سب سے بڑی رکاوٹ موزوں اشخاص نہ ملنے کے سبب سے تھی ۔ مولانا اختر احسن مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی تربیت سے اس مقصد کے لیے بہترین آدمی بن گئے تھے ۔ اگر ان کو کام کرنے کی فرصت ملی ہوتی تو توقع تھی کہ ان کی تربیت سے مدرستہ الاصلاح میں نہایت عمدہ صلاحیتوں کے اتنے اشخاص پیدا ہو جاتے جو نہایت وسیع دائرے میں کام کر سکتے لیکن ان کو عمر بہت کم ملی ، اور جو ملی اس میں بھی وہ برابر مختلف امراض کا ہدف رہے ۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑا حوصلہ عطا فرمایا تھا۔ اپنی مختصر زندگی میں انھوں نے مدرستہ الاصلاح کی بڑی خدمت کی اور خاص بات یہ ہے کہ اپنی اس خدمت کا معاوضہ انھوں نے اتنا کم لیا کہ اس ایثار کی کوئی دوسری مثال مشکل ہی سے مل سکے گی ۔
میں نے ۱۹۳۵ء میں استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ کی غیر مطبوعہ تصنیفات کی ترتیب و تہذیب اور اشاعت کے لیے مدرستہ الاصلاح میں دائرۂ حمیدیہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس کے زیر اہتمام ایک اردو ماہنامہ بھی ’الاصلاح‘ کے نام سے جاری کیا تاکہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے افکار سے اردو خواں طبقہ کو بھی آشنا کیا جائے ۔ اس ادارے میں مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے عربی مسودات کی ترتیب و تہذیب کا کام مولانا اختر احسن مرحوم نے اپنے ذمہ لیا اور رسالہ کی ترتیب کی ذمہ داری میں نے اٹھائی۔ مولانا اختر احسن اگرچہ تحریر و تقریر کے میدان کے آدمی نہیں تھے لیکن مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیفات کے ترجمہ کے کام میں انھوں نے میری بڑی مدد فرمائی اور رسالہ میں بھی ان کے مضامین وقتاً فوقتاً نکلتے رہے ۔ رسالہ تو کچھ عرصہ کے بعد بند ہو گیا لیکن دائرۂ حمیدیہ الحمد للہ برابر استاذ امام کی عربی تصنیفات کی اشاعت کا کام کر رہا ہے اور اس کے کرتا دھرتا مولانا اختر احسن مرحوم کے تلامذہ ہی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی سعی مشکور فرمائے ۔
مولانا اختر احسن مرحوم پر یہ چند سطریں میں نے مولانا کے ایک شاگرد کے اصرار پر لکھ دی ہیں ۔ اگر مجھے استاذ مرحوم کی سیرت لکھنے کی سعادت حاصل ہوتی تو اس بسلسلۂ تلامذۂ فراہی کا ذکر تفصیل سے آتا لیکن اب بظاہر اس طرح کے کسی کام کا موقع میسر آنے کی توقع باقی نہیں رہی۔ اب تو بس یہ آرزو ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں استاذ مرحوم کے ساتھ برادر مرحوم کی معیت بھی نصیب کرے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ئ، ۴۲-۴۳)
امام فراہی جیسی شخصیت سے قرآن مجید پڑھنے کے بعد امین احسن کے دل میں خیا ل آیا کہ حد یث بھی کسی غیر معمولی شخصیت سے پڑھی جائے۔ فراہی اس وقت وفات پاچکے تھے۔ یہ امین احسن کی خوش قسمتی تھی کہ ان کے اپنے علاقے ہی میں ایک قصبہ مبارک پور میں شیخ الحدیث مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری رہتے تھے ۔ وہ حدیث میں نہایت عالی سند رکھتے تھے ۔وہ صحاح ستہ کی مشہور کتاب جامع ترمذی کے استاذ تھے اور ان دنوں اس کی شرح ’’تحفۃ الاحوذی ‘‘ کے نا م سے لکھ رہے تھے۔ امین احسن کے والد سلفی المسلک اور مولانا عبد الرحمن کے عقیدت مند اور ان علمی مجالس کے حاضر باش تھے۔وہ امین احسن کو شیخ الحدیث کے پاس لے گئے۔ امین احسن نے انھیں حدیث پڑھانے کی درخواست کی۔امین احسن مدرستہ الاصلاح کے فاضل اور فراہی کے شا گر د تھے، یہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔اسی بات کے پیش نظر شیخ الحدیث نے کہا کہ آپ توسب کچھ پڑھے ہوئے ہیں اور رسمی طور پر ترمذی کی ایک حدیث پڑھاکر کتاب پرسند لکھی ، دستخط کیے اورامین احسن کے حوالے کردی، مگر امین احسن کا اصل مسئلہ تو سند نہیں ، علم تھا ۔ چنانچہ کہا:
’’میں محدثین کرام کا یہ تاج اپنے سر پر سجانے کے لیے محض آپ کی اجازت لینے کے لیے نہیں آیا ، بلکہ علم حدیث کو بطور فن آپ سے سیکھنے کے لیے حاضر ہوا ہوں ۔آپ تر مذی شریف کے ماسٹر ہیں ۔ مجھے باقاعدہ شاگردی میں لیجیے۔‘‘
شیخ الحدیث نے بخوشی اجازت دے دی اور پوچھا :
’’کیا پڑھو گے؟‘‘
عرض کیا:
’’آپ ترمذی کے شارح ہیں ، وہی پڑھاد یجیے ۔‘‘
اورپھرشیخ الحدیث نے اصول حدیث میں ’’نخبۃ الفکر‘‘پڑھائی ،جامع ترمذی کی تدریس کی اوراپنی شرح کے لیے رجال حدیث کی تحقیق میں کام لیا ۔اس طرح امین احسن فن حدیث کے اصول، سند کی تحقیق، رجال کی جرح و تعدیل کے طریق کار ، غرض یہ کہ ہر چیز سے آشنا ہو گئے۔
امین احسن اس زمانے کا ذکرکچھ اس طرح کیا کرتے تھے :
’’مبارک پور میں مجھے جو محنت کرنی پڑی ، اس کو میں کبھی بھو ل نہیں سکا ۔وہ رمضان کا مہینا تھا۔ مجھے اپنے گاؤں سے مبارک پورپیدل آنا جانا پڑتا تھا۔تدریس کی مقدار غیر معمولی تھی، جس کے لیے غیرمعمولی محنت کرنی پڑتی۔نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ مدت کے بعد اس قدر بیما ر ہو گیا کہ افاقہ وصحت کی کوئی صورت ہی نظر نہ آتی تھی۔‘‘
’’کبھی متن حدیث کے بارے میں کوئی اشکال پیش کر کے استاد گرامی سے وضاحت چاہتا تو وہ فرمایا کرتے کہ اس کی سند دیکھو ۔میں کہتا :سند میں کوئی راوی کمزور نہیں ۔توفرماتے:پھر آگے بڑھو ۔ ‘‘
اسی ضمن میں جناب جاوید احمد غامدی بیان کرتے ہیں :
’’اپنے زمانہ ٔ طالب علمی کا ایک واقعہ وہ بڑے لطف میں سنایا کرتے تھے ۔ بتاتے تھے کہ ترمذی کی عبارت پڑھتے ہوئے، میں نے ایک جگہ بہت اعتماد کے ساتھ ’ عرف‘ کو ’ ر‘ کی زیر کے ساتھ پڑھا۔ مولانا نے ٹوکا : ’ أنا لا أعرف عرِف‘ ( میں اسے ’ ر‘ کی زیر کے ساتھ نہیں جانتا) ۔ میں نے اسی اعتماد کے ساتھ جواب دیا : ’ أما أنا فلا أعرف عرَف‘(اور میں اسے ’ر‘ کی زبر کے ساتھ نہیں جانتا)۔ مولانا نے فرمایا: ’ راجع اللغۃ‘ ( لغت دیکھیے)۔ لغت کی کتاب، غالباً ، جوہری کی ’’صحاح‘‘ کھولی تو استاد ہی کی بات لکھی ہوئی تھی۔ میں کچھ خفیف ہوا تو مسکرائے، پھر فرمایا : ’استأنف ، وللجواد زلۃ‘ ( آگے چلو ، اصیل گھوڑا بھی پھسل جاتا ہے)۔‘‘ (ماہنامہ اشراق،جنوری /فروری ۱۹۹۸ئ، ۱۹)
مولاناضیاء الدین اصلاحی لکھتے ہیں :
’’... والد کی خواہش پر مولانااصلاحی نے فن حدیث کی امہات کتب ازسرنو ان سے پڑھیں اور اس میں بڑا کمال حاصل کیا ۔ وہ اپنے جن استادوں کا اکثر تذکرہ کرتے اور جن کے وہ بہت ممنون احسان تھے ان میں مولانا فراہیؒ اور مولانا نگرامیؒ کے ساتھ مولانا مبارک پوریؒ کانام بھی لیتے ۔‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ئ، ۸)
امین احسن نے فقہی تعلیم مدرسہ ہی میں حاصل کی۔مدرسہ فقہی تعصب سے پاک تھا۔تمام فقہی مسالک کو یکساں اہمیت دی جاتی تھی۔بعد میں انھوں نے فقہ کا مطالعہ اپنے طور پر جاری رکھا۔ امہات کتب پر ان کی نظر تھی ۔اصول میں وہ حنفی فقہ کو بہتر سمجھتے تھے ،مگر بعض مسائل میں احنا ف سے اختلاف بھی کرتے تھے۔
جب امین احسن ۱۹۲۵ء میں سراے میر آئے تومدرستہ الاصلاح نے ان کو بطور مدرس مقرر کرلیا۔وہاں آپ نے قرآن مجید ،عربی ادب اور فلسفۂ تاریخ کے مضامین پڑھائے۔ یہ تدریس فراہی کے انتقال کے بعد بھی قائم رہی۔یہ سلسلہ ۱۹۴۳ء میں ختم ہوا۔
مدرسہ کے ساتھ ۱۷سالہ اس وابستگی کے دوران میں امین احسن مدرسہ کے لیے مالی تعاون حاصل کرنے کے لیے ملایا بھی گئے ،جہاں ان کے علاقے کے بعض تاجر مقیم تھے ۔
ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی کے مطابق:
’’مولانا فراہی کی طلبی پرجب وہ مدرسے پر واپس آ گئے تو انھیں مدرسے کے کام سے ایک وفد کے ساتھ سنگاپور جانا پڑا۔ اس کا ذکر کتاب کارروائی مجالس میں اس طرح آیا ہے ۔ ملاحظہ ہو :
وفد سنگاپور حتی الوسع جلد (رجب میں ) روانہ ہو جائے اور دو سو روپیہ کی منظور دی گئی۔ اور مولوی محمد امین صاحب اور حافظ محمد خلیل صاحب اور ایک اور سفیر یا ملازم ساتھ لے کر جائیں ۔(۱۹۔الف)
یہ اندراج ۱۷ جنوری ۱۹۲۶ء کی کارروائی میں ہے ۔ اس کے بعد ۲ مارچ ۱۹۲۶ء کی کارروائی میں یہ اندراج بھی ملتا ہے ۔ مولانا فراہی شریک جلسہ ہیں ۔
’’مولوی محمد امین صاحب کو بجائے مولوی محمد مصطفی کے مقرر کر دیا جائے اور ان کی غیبت میں عبدالستار کو بعد تعطیل رمضان بمشاہرہ ۲۰ روپے مقرر کر دیا جائے‘‘۔‘‘(ذکر فراہی ۵۶۷)