’’میں ان دنوں ولی عہد سلطنت تھااور سوئٹزر لینڈ کی ایک درس گاہ میں تعلیم پاتا تھا۔ایک دن ہمارے دودھ والے نے مجھ سے پوچھا: آپ کا وطن کون سا ہے ؟ میں نے اسے بتایا کہ میراوطن ایران ہے ۔ یہ جواب سن کر دودھ والے نے کہا : ایران سے تو میں اچھی طرح واقف ہوں،ایران امریکا میں ہے نا!‘‘
ولی عہد محمد رضا پہلوی یہ جواب سن کر بہت حیران اور پریشان ہوئے کہ مغرب ہم سے کس قدر ناواقف ہے۔ ان کے نزدیک ایران کی جوخوبیاں تھیں،وہ ان کے ذہن میںگردش کرنے لگیں۔ وہ بے چین ہو گئے کہ کاش! چند اہل مغر ب ہی کو یہ بتایا جا سکے کہ’’ نوع انسانی کی ترقی کے لیے ایران نے کیا کچھ کیا ہے۔ عرصۂ دراز سے ہماری تہذیب ان ملکوں تک با لکل اسی طرح پہنچتی رہی ہے، جس طرح آج امریکی فنی امداد چار نکاتی پروگرام کے ذریعے سے سمندر پار ملکوں میں پہنچتی ہے…ایران رقبہ کے اعتبار سے الاسکاسے بڑا، ٹیکساس سے دوچند اور فرانس ،سوئٹزر لینڈ، اٹلی، اسپین، پرتگال، بیلجم، لکسمبرگ اور ہالینڈ کے مجموعی رقبہ سے زیادہ ہے۔جغرافیائی اعتبار سے ایران صدیوںسے عالمی گذرگاہوں کا مرکزاتصال رہاہے …ایران اپنے شیریں اور لذیذ پھلوں کے لیے بھی مشہور ہے… نئی دنیا کی دریافت سے صدیوں قبل اہل ایران کے دستر خوان ان دنوں کھانے کے خوب صورت برتنوں سے آراستہ رہتے تھے، جب کہ بہت سے اہل یورپ زمین ہی پر بیٹھ کر ہاتھ سے کھانا کھاتے تھے۔ہماری تہذیب بہ استثنا چین ،دنیاکی قدیم ترین اور مسلسل تہذیب ہے ۔‘‘
بالکل ایسی ہی کیفیت اما م امین احسن اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لوگوںکی بے خبری دیکھ کر ہمارے اندر پیدا ہوتی ہے ۔جو لوگ اس ہستی سے واقف ہیں، ان کی اکثریت بھی یہی جانتی ہے کہ آپ جماعت اسلامی کے نائب امیر تھے اور ماچھی گوٹھ کے اجتماع پر امیر جماعت سے کچھ اختلافات کے باعث جماعت سے الگ ہو گئے تھے۔
کاش ! ہم لوگوں کو یہ بتا سکیں کہ یہ باتیں امین احسن کی شخصیت کا ضمنی ا ورثانوی حصہ ہیں۔ یہ اصل امین احسن اصلاحی نہیںہیں۔امین احسن کو دیکھنا ہے تو انھیں’’تدبر قرآن‘‘ ،’’مبادی تدبر حدیث‘‘ اور ’’دعوت دین اور اس کا طریق کار ‘‘ میں دیکھیے ،امین احسن کو دیکھنا ہے تو انھیں ان کی شخصیت میں موجود تلاش حق، اظہار حق ، اعتراف حق ، جرأت و بے باکی ،انا وخودداری ، لطافت و نفاست ، محبت و شفقت، تفکر و تفنن میں دیکھیے۔ عقل و قلب پکار اٹھیں گے:
بہت قدیم قبائل کے شاعروں کا خیال
روایتوں کی حقیقت، حکایتوں کا وجود
نخیلِ کہنہ کے سایے میں ایک مرد فقیر
نئے زمانوں کی جس کے نفس نفس سے نمود
وہ قافلوں کا تواتر تھا، پھر بھی تنہا تھا
وہ اپنے ذرۂ ہستی میں ایک صحرا تھا
اس کتاب کا بنیا دی مقصد یہی ہے کہ لوگوںکو اصل امین احسن اصلاحی سے متعارف کرایا جائے۔
الطاف گوہر مرحوم نے انتہائی بھرپور طویل عوامی اور سرکاری زندگی گزاری ۔آپ صدر ایوب خان کے سیکرٹری انفارمیشن رہے۔مشہور دانش ور ، شاعر ، ادیب ، صحافی ، مترجم ، براڈ کاسٹر اور متجسس طالب علم تھے ، دینی علوم کی طرف خاص رجحان تھا،دین پر لیکچرز دیا کرتے تھے، لیکن افسوس وہ اصل امین احسن سے ناواقف تھے ۔جب امین احسن کے بارے میںاخص الخواص کی بے خبری کایہ عالم ہے تو خواص اورعوام کی ناواقفیت کا عالم کیاہوگا!
ممتاز صحافی اور دانش ور ارشاد احمد حقانی مرحوم نے اپنے ایک کالم ’’ آہ ! الطاف گوہر‘‘ میں گوہر صاحب کی وفات کے حوالے سے لکھا تھا:آخری سے پہلی ملاقات میں جب ابھی ان کے اندر قدرے طویل گفتگو کرنے کی توانائی موجود تھی ،مجھے کہنے لگے :سورہ ٔ بقرہ کی دوسری آیت میں ’ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ‘ میں ’ ذٰلِکَ‘کے مفہوم پر میرا ذہن پوری طرح صاف نہیں تھا۔ میں نے مختلف تفاسیر دیکھیں ، لیکن جورہنمائی مجھے مولانا امین اصلاحی کی ’’تدبر قرآن‘‘ سے ملی ، اس کا جواب نہیں۔ حقانی صاحب لکھتے ہیں کہ ’’تد بر قرآن ‘‘ کا مطالعہ کرنے کا مشورہ میں نے انھیں دیا تھا۔افسوس کہ اپنی صحت کی حالت کی وجہ سے وہ قرآنی علوم کے اس خزانے سے حسب خواہش استفادہ نہ کر سکے ، لیکن انھیں اس کی قدرو قیمت کا اچھی طرح احساس ہوگیا تھا۔
اصل میں لوگوں کی امین احسن سے ناواقفیت درحقیقت، نبیوں کے اک سچے جانشیں اور دنیاے علم کے ایک امام سے ناواقفیت ہے۔
راقم کا امین احسن سے تعارف ۱۹۸۹ء میں اپنے سسر محترم محمد اسحاق ناگی مرحوم کے باعث ہوا۔ ان کے مختلف دروس اور غیر رسمی نشستوں سے فیض یاب ہونے اورلکھ کر ان سے سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔اس ضمن میں،راقم ناگی صاحب کا ہمیشہ شکر گزار رہے گا۔
اس کتاب کے لیے محترم خالدمسعود مرحوم کے سہ ماہی ’’تدبر‘‘لاہور، محترم جاوید احمد غامدی کے ماہنامہ ’’اشراق ‘‘لاہور اور ڈاکٹر شرف الد ین اصلاحی کی کتاب’’ذکر فراہی‘‘سے بنیادی طور پر استفادہ کیا گیا ہے۔ان تمام شخصیات کا شکریہ ادا کرنا بھی لازم ہے۔اسی پہلو سے یہ واضح کر دینا بھی ضروری محسوس ہوتاہے کہ راقم اس کتاب کا مصنف نہیں ،بلکہ مرتب ہے۔
کتاب میں بعض شخصیات پر امین احسن کی سخت تنقید ی آرابھی شامل کی گئی ہیں۔ان آرا سے کوئی شخص اختلاف کر سکتا ہے۔ راقم کو بھی بعض مقامات پر امین احسن سے اختلاف ہے، لیکن چونکہ یہ کتاب امین احسن کے بارے میں ہے، اس لیے اس میں ان کی آرا کو بیان کیا گیا ہے۔ اختلاف رکھنے والے کسی ردعمل کے اظہار سے قبل براہِ کرم اس نکتے کو ضرور پیش نظر رکھیں۔
خواہش تو یہ تھی کہ امین احسن پر ایک انسائیکلو پیڈ یا تیار کیا جائے، لیکن یہ کام ایک طویل عرصے کا تقاضا کرتا ہے۔ ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی نے امام حمید الدین فراہی پر ایک ایسی ہی کتاب ’’ذکرفراہی‘‘ مرتب کی تھی، جس پر ۱۸ برس صرف ہوئے تھے، مگر پھر بھی ڈاکٹر صاحب نے دیباچے میں لکھا کہ یہ کتاب موجودہ حالت میں خامیوں سے بھری ہوئی ہے۔
امین احسن کہاکرتے تھے کہ عام آدمی خلاصہ پسند ہوتا ہے، اسی لیے یہاں اختصار کو پیش نظر رکھا گیا ہے،اس پہلو سے یہ کوشش بھی کی گئی ہے کہ اس کتاب کی زبان آسان ترین ہو اور بول چال کے قریب ترین ہو۔ اور پھریہ بے قراری بھی ہے کہ لوگوں کی امین احسن کی اصل شخصیت سے ناواقفیت کو ختم کرنے کا جلد از جلد کوئی اہتمام ہو، اس لیے فی الحال مختصر اورعمومی کتاب کو ترجیح دی ہے ۔
ڈاکٹر شہزاد سلیم نے اس کتاب کی تیاری میںخصوصی دل چسپی لی اور مسودے کی اصلاح کاکام کیا،اسی طرح ڈاکٹر شہبازحسین،ڈاکٹر عامر عبداللہ اور ساجد حمید صاحب کا قیمتی تعاون بھی حاصل رہا۔اس موقع پر ان سب حضرات کا شکریہ ادا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں ۔
دعا ہے کہ یہ کتاب لوگوںکوجنگل کی آبشار ، صحراکے کنویں اور پہاڑوں کے چشمے سے آگاہ کرنے کا باعث بنے ۔