HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Dr. Farooq Khan

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

اختلافی مسائل میں صحیح رویہ

نواں باب

اختلافی مسائل میں صحیح رویہ

سوال: یہ امر واقع ہے کہ آج مسلمانوں کے مختلف مسالک کے درمیان بہت زیادہ اختلافات ہیں ، جن کی بنیاد پر مسلمان مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا دین اس طرح کی چیز ہے کہ اس کے ماننے والے فرقوں میں بٹتے رہیں ، یا یہ لوگوں کی اپنی غلطی ہے ؟

جواب: ٹکڑ ے ٹکڑ ے ہونے یا گروہ در گروہ تقسیم ہونے کا عمل صرف اس جگہ ہونا چاہیے جہاں تضاد یا ابہام ہو، چونکہ ہمارے دین میں کوئی تضاد یا ابہام نہیں ، بلکہ یہ تو ہمیں اتحاد واتفاق کا حکم دیتا ہے ، لہٰذا اس کے پیروکاروں کا، دین کے بنیاد پر، فرقوں میں بٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

تضادات، دراصل انسان کی اپنی خواہشات یا تعصبات سے جنم لیتے ہیں۔ جب وہ اس پر اصرار کرے کہ اس کی کہی ہوئی ہر بات لازما ً صحیح ہے ، اس میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں اور دوسرے کی بات، لازماً غلط ہے۔ یہاں سے گروہ بندی پیدا ہوجاتی ہے ، جو آہستہ آہستہ فرقہ بندی کی طرف لے جاتی ہے۔ حالانکہ اگر انسان ہی تسلیم کرے کہ حق صرف قرآن وسنت ہے اور ہرآدمی کی بات میں صحیح یا غلط، دونوں طرح کے امکان ہو سکتے ہیں ، تو آپس میں بحث ومباحثے سے اور تبادلہ خیال کے باوجود کوئی فرقہ بندی پیدا نہیں ہوتی۔

سوال: دین کی کون سی چیز ہم پر ماننا بالکل لازم ہے اور کون سی چیزوں اختلاف گوارا ہے ؟

جواب: حضورﷺ سے یہ دین ہمیں دو صورتوں میں ملا ہے ، ایک قرآن مجید کی صورت میں ایسی کتاب جو دنیا کی ہر چیز پر حاکم اور معیار حق وباطل ہے۔ دوسری صورت حضورﷺ کا وہ عملی طریقہ ہے ، جس پر آپﷺ ساری زندگی کاربند رہے اور صحابہ کرامؓ کے درمیان اسے رواج دینے کے لیے ، غیر معمولی اہتمام فرمایا، اسے سنت کہا جاتا ہے۔

گویا کسی فرد کے مسلمان ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ قرآن وسنت کے سامنے سے ، غیر مشروط طور پر سر تسلیم خم کر دے۔ صدق دل سے یہ ایمان رکھے اور زبان سے اس بات کا گواہ بن کر کھڑ ا ہو کہ قرآن وسنت ہی حق ہے اور اس کے کسی لفظ اور کسی عمل کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ گویا قرآن وسنت پر غیر مشروط اور کامل ایمان وہ بنیادی بات ہے جس پر مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اس میں کوئی اختلاف ہے بھی نہیں ، کیونکہ یہ ہمیں صحابہ کرامؓ کے کامل اجماع سے پہنچاہے۔ تاہم یہ ممکن ہے کہ قرآن مجید کے کسی آیت کا مفہوم سمجھنے میں آپس میں اختلاف ہوجائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حضورﷺ سے قرآن وسنت کی تفہیم کے بارے میں جو حدیث پہنچی ہو، اس کا مدعا سمجھنے میں آپس میں اختلاف ہوجائے۔ یہ اختلاف گوارا ہے اور اس میں آپس میں گفتگو اور مباحثہ ہو سکتا ہے۔ خلوص پر مبنی یہ جزوی اختلاف صحابہ کرامؓ کے زمانے میں بھی تھا اور آج بھی ہو سکتا ہے۔

سوال: جب ایک ہی چیز کے متعلق دو مختلف موقف سامنے آتے ہیں ، تو ظاہر ہے ان میں سے ایک صحیح ہو گا اور دوسرا غلط۔ اب جو مسلک، اصلاً غلط ہے ، اس کو اختیار کرنے والوں نے اسے قرآن وسنت کے مطابق سمجھ کر ہی اختیار کیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انتہائی خلوص کے ساتھ ایک غلط موقف رکھنے والوں کی حیثیت خدا کے ہاں کیا ہے ؟ کیا وہ اجر کے مستحق ہوں گے یا سزا کے ؟

جواب: اگر کسی فرد سے کوئی بات سمجھنے میں غلطی ہوجائے ، بشرط یہ کہ خلوص اور جذبہ اطاعت موجود ہو، تو اللہ کی طرف سے اس پر کوئی سزا نہیں۔ سورہ احزاب میں پروردگار نے صاف فرمایا دیا ہے کہ’’نادانستگی میں جو بات تم کہو، اس کے لیے تم پرکوئی گرفت نہیں ہے ، لیکن اس بات پر ضرور گرفت ہے جس کا تم دل سے (نافرمانی کے خیال سے ) ارادہ کر لو۔ اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے ‘‘۔ (سورہ احزاب5:33)

حقیقت تو یہ ہے کہ اگر پورے خلوص کے ساتھ، سوچنے سمجھنے کی پوری صلاحیت استعمال کرنے کے بعد، ایک غلط موقف کو صحیح جان کر اپنایا جائے بشرط یہ کہ اس کی وجہ سے کسی کی جان، مال یا آبرو کو نقصان نہ پہنچے ، تو انشاء اللہ پروردگار اس کے لیے جزادے گا کیونکہ اللہ کے ہاں عمل کی بنیاد نیت ہی پر ہوتی ہے۔ حضورﷺ کے زمانے میں بھی ہمیں اس کی بہت اچھی مثالیں ملتی ہے۔ غزوہ خندق کے دوران میں یہودیوں کے قبیلے بنی قریضہ نے عداری کا ارتکاب کیا تھا، لہٰذا جنگ کے فوراً بعد حضورﷺ نے بنی قریضہ کے قلعے کا محاصرہ کرنے کے لیے ایک دستہ بھیجا۔ دستے کو بھیجتے وقت آپﷺ نے فرمایا کہ وہاں پہنچنے تک عصر کی نماز نہ پڑ ھنا۔ راستے میں عصر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ اس پر ایک گروہ نے یہ کہہ کر عصر کی نماز پڑ ھ لی کہ حضورﷺ کے حکم کا منشا یہ نہیں تھا کہ اگر وقعتا کسی مجبوری کے تحت راستے میں عصر کا وقت ہو جائے تو اسے قضا ہونے دیا جائے بلکہ اصل منشا یہ تھا کہ ہم تیز چلیں ، تاکہ عصر کی نماز تک وہاں لازماً پہنچ جائیں۔ جب کہ دوسرے گروہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے صاف طور پر حکم دیا تھا کہ عصر کی نماز منزل ہی پر پہنچ کر پڑ ھی جائے ، لہٰذا انہوں نے بنی قریضہ کے قلعے پر پہنچ کر قضا نماز ادا کی۔ جب رسول اللہﷺ سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا ’’دونوں نے ٹھیک کیا‘‘۔

چونکہ دونوں گروہوں کا موقف بالکل خلوص پر مبنی تھا اور دونوں ، اپنے اپنے خیال میں ، رسولﷺ کی اطاعت کر رہے تھے ، اس لیے آپﷺ نے دونوں گروہوں کو اپنے رویے میں درست قرار دیا۔ چنانچہ دونوں ہی اللہ کے ہاں اجروثواب کے مستحق ہوں گے۔ اگر اس بات کو آج کی صورت حال پر منطبق کر کے دیکھیں تو ہم پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ اور رسول کی حقیقی اطاعت کی نیت سے ہر حنفی، مالکی، حنبلی، شافعی، اہل حدیث، اہل تشیع اور دوسرے مسالک، باوجود آراء میں باہمی اختلاف کے ، اجروثواب کے مستحق ہیں ، بشرط کہ وہ اپنا اختلاف بیان کرنے میں مہذب طریقہ اپنائیں ، دین کے اصولوں کا خیال رکھیں ، مخالفت کا رویہ نہ اپنائیں ، امت مسلمہ سے اپنے آپ کو نہ کاٹیں اور سب کے ساتھ مل کر نماز قائم کریں۔

حضورا کرمﷺ نے ایک دفعہ فرمایا کہ اگر کوئی جج غلط فیصلہ کرے ، تب بھی وہ خدا کے ہاں اجر وثواب کا مستحق ہو گا، اگر اس نے اپنی طرف سے تحقیق کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی اور اس کی نیت بھی بالکل خالص تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل چیز نیت کی درستگی اور صورت معاملہ کی خوب اچھی طرح تحقیق کرنا ہے۔ اس کے بعد اگر انسان کسی غلط نتیجے پر بھی پہنچ جائے ، تب بھی اللہ اس پر نظر کرم فرمائیں گے ، کیونکہ اللہ رب العزت سینوں میں چھپی ہوئی باتوں کو جانتے ہیں۔

سوال: مختلف فقہی مسالک کیسے وجودمیں آئے ؟

جواب: رسول کریم ﷺ کی وفات کے ایک سو سال بعد تک فقہی مسالک کا کوئی وجود نہیں تھا۔ گویا صحابہؓ کاپورا دور فقہی مسالک سے خالی تھا۔ اس زمانے میں دین کی بس دوہی بنیادیں تھیں۔ قرآن اور سنت۔ جن مسائل کا براہ راست قرآن وسنت میں حل نہ ملتا، اس میں خوب غوروفکر کر کے اجتہاد کیا جاتا۔غوروفکر بھی دراصل قرآن مجید ہی کا حکم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں عقل سے کام لینے ، فکر سے کام لینے اور سوچ سمجھ سے کام لینے کی بات تقریباً ایک سو مرتبہ آئی ہے۔ ریاست کی سطح پر حکمران اپنی مجلس شوریٰ میں اجتہاد کے بعد کوئی معاملہ طے کرتا اور انفرادی طور پر ہر انسان اپنے لیے خود اجتہاد کرتا۔ اجتہاد کرتے وقت احادیث، عقل عام، گردوپیش کے حالات اور تمام دستیاب معلومات کو مدنظر رکھا جاتا تھا۔

جب اسلام تیزی سے پھیلنا شروع ہوا تو کچھ اہل علم نے سوچا کہ دین کے مختلف جزیات کو قانونی زبان میں دو جمع دو چار کی طرح بیان کر دیا جائے تاکہ اسے سمجھنے میں آسانی ہو۔ اسی سوچ سے علم فقہ وجود میں آیا۔ یوں تو فقہ کے معنی فہم اور سمجھ بوجھ پیدا کرنے کے ہیں ، لیکن اصطلاح کے طور پراس سے مراد تمام دینی علوم اور احکام شریعت کا علم ہے جس میں عبادات، معاملات اور قانون وغیرہ آتے ہیں۔ علمی اعتبار سے فقہ کا مطلب درج بالا تمام امور میں تفصیلی قانون ساز ی ہے۔

یوں تو اس امت کی تاریخ میں بہت سے فقہا گزرے ہیں ، مگر زمانے نے چھ فقہی مسالک کو دوام بخشا ہے ، یعنی فقہ حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، جعفریہ اور اہل حدیث۔ کسی بھی قانون سازی کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ اصول مرتب کیے جائیں جن کی بنیاد پر قانون سازی کی جا رہی ہے۔ چنانچہ درج بالا ہر فقہی مکتب فکر کے اپنے اصول ہیں ، جن سے روشنی لے کر تمام معاملات کے متعلق قانون سازی کی گئی ہے۔ مناسب ہو گا کہ ان میں ایک ایک کو لے کر اس کے اصولوں پر روشنی ڈالی جائے۔

عالم اسلام کا سب سے بڑ احصہ حنفی مسلک سے تعلق رکھتا ہے۔ امام ابو حنیفہ (80) ہجری میں کوفہ میں پیدا ہوئے۔ اس زمانے میں کوفہ علم وفضل کا مرکز تھا اور بے شمار صحابہ کرامؓ وہیں رہائش پذیر تھے۔ یہ ممکن ہے کہ امام صاحب نے اپنی زندگی کے ابتدائی دس بارہ برسوں میں صحابہ کرامؓ کو دیکھا ہو اور مساجد میں نماز پڑ ھتے اور درس دیتے ہوئے ان کا مشاہدہ کیا ہو۔ اس اعتبار سے وہ تابعی بھی کہلائے جا سکتے ہیں۔ تاہم یہ بھی یقین ہے کہ علمی اعتبار سے کسی صحابہ سے فیض حاصل کرنا اس اس عمر میں ممکن نہیں تھا، چنانچہ اس لحاظ سے وہ تبع تابعی تھے۔ فقہ حنفی کا پہلا ماخذ قرآن مجید ہے اور دوسرا ماخذ سنت ہے۔ فقہ حنفی میں اسے سنت معلومہ اور سنت متواترہ کہتے ہیں۔ ان کے متعلق امام صاحب کا موقف یہ تھا کہ حضورﷺ کی وفات کو اس وقت سو، ایک سو دس برس ہو چکے ہیں ، ان سو برسوں میں مسلمانوں کی عبادات اور دوسرے عملی امور میں ایک دن کے لیے بھی انقطاع نہیں آیا، اس لیے امت مسلمہ کو ہم جس چیز پر عمل پیرا دیکھتے ہیں ، یہی طریقہ حضورﷺ سے براہ راست ہم تک منتقل ہوا ہے اور اس میں کوئی کھوٹ شامل نہیں۔ اس لیے دین کو جاننے کا ایک ہم ذریعہ یہی سنت متواترہ ہے۔

فقہ حنفی کا تیسرا ماخذ حدیث ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک بات مستند طریقہ سے حضورﷺ سے ثابت ہے اور قرآن مجید اور سنت معلومہ کے خلاف نہیں ہے تو وہ دین کا ایک حصہ ہے ، البتہ ایک خاص معاملہ میں مسلک حنفی، روایات کو زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں۔ وہ یہ ہے کہ جس معاملے کا تعلق بہت سے افراد سے ہو اور وہ روزمرہ زندگی میں لوگوں کو عام طور پر پیش آتا ہو؟(اسے اصطلاح میں عموم بلویٰ کہتے ہیں ) ، تو اس کے متعلق محض ایک دو ذریعوں سے ملی ہوئی روایت کی زیادہ اہمیت نہیں ہے ، کیونکہ اس معاملے کا تقاضا یہ تھا کہ اس کے متعلق بہت سے واسطوں سے بہت سی روایات ملنی چاہیے تھیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو کسی اہم اور روزمرہ سے متعلق معاملہ میں کوئی خبرواحد ہمیں محدود یا پابند نہیں کرسکتی۔ ایسے معاملات میں صحیح راستہ یہ ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں اجتہاد کیا جائے۔ اجتہاد کی شرعی بنیاد واضح ہے جب کہ کوئی روایت یا خبر واحد، سچ اور جھوٹ دونوں کا احتمال رکھتی ہے۔

فقہ حنفی کا چوتھا ماخذ اجماع ہے۔ اجماع کی تعریف میں بہت زیادہ اختلاف ہے ، تاہم آسانی کی خاطر اس کی یہ تعریف کی جا سکتی ہے : کسی زمانے کے مجتہدین کا کسی ایک حکم پر متفق ہوجانا۔ فقہ حنفی کا پانچواں ماخذ قیاس ہے۔ قیاس کا مطلب یہ ہے کہ جن امور میں قرآن وسنت سے کوئی بات واضح طور پر منقول نہ ہو، ان کے متعلق قرآن وسنت کے اصولوں کی روشنی اور ان کی روح کے مطابق کوئی فیصلہ کرنا۔ گویا یہ اجتہاد کی اصطلاح کامترادف ہے۔ فقہ حنفی کا چھٹا ماخذ استحسان ہے۔ اس اصطلاح کی تعریف میں بھی بہت اختلاف ہے ، تاہم آسانی کے لیے یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ استحسان کا مطلب کسی خاص معاملے میں قیاس سے تھوڑ ا ہٹتے ہوئے ایک ایسا فتویٰ دینا ہے جس میں عامۃ المسلمین کے لیے آسانی ہو۔فقہ حنفی کا ساتواں ماخذعرف وعادت ہے۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ قرآن وسنت کے دائرے میں رہتے ہوئے معاشرے میں جو کچھ بھی عام طریقے سے ارائج ہیں ، ان کی بنیاد پر حکم دیا جائے اور لوگوں کے لیے اجنبی راستے نہ نکالے جائیں۔

حنفی مسلک کے اصولوں کی وضاحت کے بعد اب ہم باقی مسالک کا جائزہ لیتے ہیں۔ امام مالک 93ہجری میں مدینے میں پیدا ہوئے۔ گویا وہ امام ابوحنیفہ کے 13 تیرہ سال بعد پید ا ہوئے۔ مالکی فقہ میں کتاب وسنت کے بعد’’تعامل اہل مدینہ‘‘کو ایک اہم اصول کی حیثیت حاصل ہے ، امام صاحب نے اس کا مطلب یہ بیان کیا کہ حضورﷺ ساری زندگی مدینہ منورہ میں رہے ، صحابہ کرامؓ کی ایک بڑ ی جماعت حضورﷺ کی وفات کے بعد بھی مدینہ منورہ ہی میں موجود رہی، اس لیے دین جتنا خالص شکل میں مدینہ منورہ میں موجود ہے ، اتنا اور کہیں نہیں۔ لہٰذا اگر اس وقت (یعنی امام مالک کے وقت) میں کوئی عمل، اہل مدینہ کے ہاں رائج ہے تو یہ دین کے ہم تک پہنچنے کا ایک قابل اعتماد ذریعہ ہے ، کیونکہ اہل مدینہ نے یہ طریقہ براہ راست صحابہ کرامؓ سے اور صحابہ کرامؓ نے حضورﷺ سے سیکھا۔

فقہ مالکی کے ہاں حدیث کا درجہ عملِ اہلِ مدینہ کے بعد ہے۔ اس لیے کہ عملِ اہلِ مدینہ کی حیثیت ہزاروں احادیث کے برابر ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک آدھ روایت یا چند اخبار آحاد کی زیادہ اہمیت نہیں۔ لہٰذا ان حدیثوں کو عمل اہل مدینہ کی روشنی میں دیکھا جائے گا اور ان کی تاویل کی جائے گی۔

فقہ مالکی میں ایک اور اصطلاح ’’مسالح مرسلہ‘‘ کو بھی بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ اس کا مطلب تقریباً وہی ہے جو حنفی فقہ میں قیاس کا ہے۔ اس کو ’’استصلاح‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

امام شافعی ایک سو پچاس ہجری میں پیدا ہوئے۔ گویا وہ امام ابو حنیفہ اور امام مالک کے ستر(70) سال بعد پیدا ہوئے۔ فقہ شافعی کے اصولوں میں قرآن مجید کے بعد حدیث کا درجہ ہے۔ فقہ شافعی میں سنت متواتر عمل اہل مدینہ کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس کے برعکس فقہ شافعی کا اصول یہ ہے کہ اگر کسی معاملے میں کوئی ایک بھی صحیح حدیث مل جائے تو وہ حجت ہے یعنی اس پر عمل کرنا لازم ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بہت اہم اور بنیادی اختلاف ہے۔

فقہ شافعی میں ’’استدلال‘‘ اصول موجودہے جو دراصل حنفی کی اصطلاح ’’قیاس‘‘ ہی کا دوسرا نام ہے۔

امام احمد بن حنبل146ہجری میں بغداد میں پیدا ہوئے۔ ان کے مسلک کا حنفی مسلک سے اہم ترین اختلاف یہ ہے کہ وہ اجتہاد کو بالکل نہیں مانتے اور صرف قرآن وحدیث کو سند مانتے ہیں۔ حدیث سے ان کی مراد صرف صحیح حدیث ہی نہیں ، بلکہ مرسل (یعنی وہ روایات جن کی سند میں ایک کڑ ی ٹوٹی ہوئی ہو) اور ضعیف (یعنی ناقابل اعتماد ذریعوں سے پہنچی ہوئی) روایات بھی ہیں۔ یعنی ان کے نزدیک اگر ضعیف سے ضعیف روایت بھی موجود ہوتو اس کے مقابلے میں اجتہاد نہیں کیا جا سکتا۔ گویا حدیث کے معاملے میں وہ بالکل انتہاپسندانہ مقام پر کھڑ ے ہیں۔ ان کے ہاں ’’استحصاب‘‘ نام کی ایک اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے جس کا مفہوم ’’مصالح مرسلہ‘‘ سے قریب تر ہے۔

پانچواں گروہ مسلک اہل حدیث ہے۔ مسلک اہلِ حدیث کے مطابق دین، قرآن وحدیث کا (نہ کہ قرآن وسنت کا) نام ہے ان کے ہاں بھی سنت متواتر یا عمل اہل مدینہ کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس لحاظ سے اس کے اصول کافی حد تک فقہ شافعی وحنبلی سے قریب ہیں۔ تاہم مسلک اہلِ حدیث اور باقی دو مسالک کے درمیان اصل فرق یہ ہے کہ اہلِ حدیث کسی متعین امام کی پیروی کوجائز نہیں سمجھتے۔

اگر گہری نظر درج بالا بحث کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ درج بالا فقہی مسالک کو ہم دو بڑ ے گروپوں یا کیڈرز میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک گروپ میں فقہ حنفی ومالکی ہیں جو صحابہ وتابعین کے متواتر ومسلسل عمل کو حجت قرار دیتے ہیں اور اسے ہم تک دین پہنچنے کا سب اہم ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ باقی تمام معاملات میں وہ اجتہاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے برعکس دوسرے گروپ میں شافعی، حنبلی اور اہل حدیث شامل ہیں ، جو روایات کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ اس گروپ کے مطابق کسی بھی روایت سے خواہ اس کا راوی بس ایک فرد ہو، دین ثابت ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں کسی دوسری چیز کی کوئی اہمیت نہیں۔ اسی لیے پہلے گروہ کو اہلِ الرائے اور دوسرے گروپ کو بلحاظ مجموعی اہل حدیث بھی کہا گیا ہے۔

مناسب ہو گا کہ ایک نمایاں مثال کے ذریعہ اس فرق کی وضاحت کی جائے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں ، مسلک حنفی ومالکی پر عمل کرنے والا نماز شروع کرتے وقت تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرتے ہیں جب کہ دوسرا گروہ رکوع میں جاتے وقت، رکوع سے اٹھتے وقت اور تیسری رکعت کے لیے کھڑ ے ہوتے وقت بھی رفع یدین کرتا ہے۔ اس ضمن میں پہلے گروہ کی دلیل یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ نے کوفہ میں اور امام مالک نے مدینہ میں تابعین کو بالا تفاق صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین پر عمل پیرا دیکھا۔ اس لیے معیار ی طریقہ یہی ہے۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ تابعین کے وقت میں دین اتنا مسخ ہو چکا ہو کہ وہ دین کا اہم حصہ بھول گئے ہوں۔ اس لیے عمل متواتر اور عمل اہل مدینہ سے صرف یہی ایک تکبیر اولیٰ کے وقت رفع یدین ثابت ہے۔ اس کے برعکس دوسرے گروہ کا موقف یہ ہے کہ صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ نے رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت بھی رفع یدین کیا ہے اس لیے ان موقعوں پر بھی رفع یدین لازم ہے اور اس کے نہ کرنے سے نماز میں نقص واقع ہوتا ہے۔

سوال: فقہ کے اصولوں کی دینی حیثیت کیا ہے ؟ علم فقہ کے فوائد ونقصانات کیا ہیں ؟

جواب: اگر غور سے دیکھا جائے تو قرآن وسنت کے اصول کے علاوہ فقہ میں مزید جتنی بھی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں وہ دراصل اجتہاد کی مختلف شکلیں ہیں جنہیں بلا ضرورت مشکل بنا دیا گیا ہے۔ مثلاً فقہ حنفی کا قیاس واستحسان، فقہ مالکی کا مصالح مرسلہ واستصلاح، فقہ شافعی کا استدلال اور فقہ حنبلی کا رفع حرج اور سد ذریعہ۔ گویا اصلی حقیقت صرف تین چیزوں کی ہے : قرآن، سنت اور اجتہاد۔ صحابہ کرامؓ کا طریقہ بھی یہی تھا اور ہمارا طریقہ بھی یہی ہونا چاہیے کہ دین تو صرف اور صرف قرآن وسنت کا نام ہو اور فقہی مسائل کے حل کے لیے اجتہاد سے کام لیا جائے۔

علم فقہ کے فروغ کا فائدہ یہ ہوا کہ اس کی دلچسپی، استدلال کی قوت اور ندرتِفکر کی وجہ سے اس نے بے شمار اہل علم کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ تاہم علم فقہ میں حددرجہ دلچسپی کی وجہ سے کم ازکم پانچ بہت بڑ ے نقصانات واقع ہوئے۔ اس کا پہلا نقصان یہ ہوا کہ فقہ نے دین کو نہایت پیچیدہ بنادیا۔ ہر مسلک نے سینکڑ وں اصطلاحات کو اپنے معنی، پہنا دیے جس کے نتیجہ میں ایسی بے شمار اصطلاحات وجود میں آ گئیں جن سے قرآن وسنت بالکل بے خبر تھے اور جنہوں نے دین کو بالکل چیستان بنا کر رکھ دیا۔

پھر ہر فقہ نے ہر اصطلاح کو اپنے معنی، پہنچا دیے جس کے نتیجہ میں ہر اصطلاح بھی گنجلک بن گئی۔ ہر جگہ اور ہر قدم پر اتفاق کے بجائے اختلاف ہی اہم چیز بن گئی۔ مثلاً یہ بات سب کی نظر سے گزری ہو گی کہ وضو میں اتنے فرض ، اتنے واجب، اتنی سنتیں ، اتنے مباحات، اتنے ارکان اور اتنی شرائط ہیں۔ اگرچہ یہ باتیں کسی کو بھی یاد نہیں رہتیں ، تاہم دینی علمیت کا تقاضا یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ سب چیزیں ازبرہوں ، حالانکہ دورِ رسالت اور دورِ صحابہ ان پیچیدگیوں سے بالکل بے خبر تھے۔

علم فقہ کا دوسرا نقصان یہ ہوا کہ اس نے دین کو محض قانون بنادیا، جس کی وجہ سے دین کا سیکھنا اور سکھانا دراصل قانون کا سیکھنا بن گیا۔ یہ بات کسی انسان سے مخفی نہیں ہو سکتی کہ زندگی کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہی قانون سے تعلق رکھتا ہے اور زندگی کا بڑ ا حصہ تو تصورات، آداب، طور طریقوں ، اخلاقیات اور عقل عام پر مبنی ہوتا ہے جسے کسی طرح بھی قانون کے شکنجے میں نہیں پھانسا جا سکتا ہے ، نہ انہیں قانونی زبان میں بیان ہی کیا جا سکتا ہے اور نہ ان کے متعلق جزا وسزا کی مقدار اس دنیا میں مقرر کی جا سکتی ہے۔ تاہم بدقسمتی سے ہمارے فقہی مسالک اسی سعی لاحاصل میں پڑ گئے۔ اس کی دلچسپ مثال وضو ہے۔ روزانہ کروڑ وں مسلمان پانچ وقت کی نمازوں کے لیے وضو کرتے ہیں اور انہیں وضو کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی لیکن اگر یہی آسان چیز فقہ کی کتابوں سے سمجھنے سے کوشش کی جائے تو یہ ناممکن حد تک مشکل کام ہے۔ علم فقہ کی ایک جدید کتاب ’’کتاب الفقہ علیٰ مذاہب الاربعہ‘‘ میں وضو کی بحث چھوٹے رسم الخط میں بڑ ے سائز کے 71صفحات پر پھیلی ہوئی ہے اور یہ بھی محض ایک خلاصہ ہے۔ اس کی ساری بحثیں دین کے بجائے عقل عام سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں کہ مثلاً کیا ما تھا چہرے میں شامل ہیں ؟ ماتھے کی تعریف کیا ہے ؟ اگر کوئی انسان گنجا ہوتو اس کا ما تھا کہاں تک ہے ؟ اور اگر کسی مسلمان کے سرکے بال اس کے بھنوؤں تک آئے ہوں یعنی سرے سے اس کا ما تھا ہی نہ ہوتو پھر کیا حکم ہے ؟ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اگر ایک انسان وضوکر کے مرتد ہوجائے اور پھر مسلمان ہوجائے تو اس کا پچھلا وضو برقرار رہتا ہے یا نہیں ؟ ایسے سوالات کو دیکھ کر ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ ان کا دین سے کہاں تک تعلق ہے۔ یہ بات دعوے سے کہی جا سکتی ہے کہ اس وقت عالم اسلام میں کوئی ایک بھی ایسا عالم دین نہیں ہو گا جو وضو کے فقہی مسائل اور ان کے مسلکی تقابلی جائزے پر مکمل عبور رکھتا ہو۔ تمام فقہی بحثوں کا یہی حال ہے۔ ایک عام انسان کو دین سے متنفر کرنے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں کہ اسے مسلکی اختلافات سے روشناس کرایاجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ فقہی بحثوں میں سے ننانوے فی صد کا تعلق اصلاً دین سے نہیں بلکہ عقل عام سے ہے۔

علم فقہ کا تیسرا نقصان ظاہر پرستی کی شکل میں وارد ہوا۔ فقہ کو اس حد تک ٹیکنیکل اور مکینیکل بنا دیا گیا اور تمام عبادات کو اس طرح جکڑ کر رکھ دیا گیا کہ اس کی روح چھن گئی اور ظواہر کے مسائل ہی سب سے زیادہ اہمیت اختیار کرگئے۔ مثلاً تکبیر تحریمہ کے وقت کانوں تک ہاتھ کیسے لے جاتے ہیں ؟ کون سی جگہ مس کرنا ہے ؟ ہاتھ کیسے باندھنے ہیں ؟ پاؤں کی انگلیوں کا رخ کیسے ہونا چاہیے ؟ نتیجتاً عبادات، خصوصاً نماز میں قرب الٰہی کے بجائے ظاہر پرستی آ گئی۔ حضورﷺ اور صحابہ کرامؓ کے دور مبارک میں یہ بالکل واضح اور سادہ دین تھا۔ یہ دین اس وقت ان فقہی مسالک کے بغیر بھی مکمل تھا۔ بلکہ اس وقت ہی مکمل تھا۔ اسی زمانے میں اکثر وبیشتر فتوحات ہوئیں اور دین کے پھیلنے اور نو مسلموں کواسے سیکھنے میں کوئی مشکل نہیں آتی۔

علم فقہ کا چوتھا نقصان مسلکی تعصب کی شکل میں سامنے آیا۔ سب مسالک کے بانیوں (ان پر اللہ کی رحمتیں ہوں ) نے تو انتہائی خلوص دل سے یہ کوشش کی کہ صحیح دین تک پہنچا جائے اور وہ لوگوں کو سمجھایا جائے۔ لیکن ان کے بعد ہرفقہ کے متبعین نے اپنے اپنے مسلک کے ارتقا میں ان کو اتنا پیچیدہ بنادیا جن کی وجہ سے یہ لازم ہو گیا کہ جو انسان فقہ سیکھنا چاہے وہ دنیا کا ہر کام چھوڑ کر صرف اسی کا ہورہے۔ اس کے نتیجے میں عملاً دین ودنیا کی تفریق واقع ہوگئی۔ عام لوگوں نے دین کو برہ راست سمجھنا ایک ناممکن کام گردانا۔ چنانچہ ان کو چاروناچار تقلید پر مجبور ہونا پڑ ا۔ ہر تقلید تعصب کو جنم دیتی ہے۔ چنانچہ یہی تعصب آج ہم سارے عالم اسلام کے مختلف فقہی مسالک کے درمیان میں دیکھ رہے ہیں۔

فقہ میں حددرجہ مشغولیت کا پانچواں اور سب سے بڑ ا نقصان یہ ہوا کہ علمائے دین قرآن مجید سے بیگانہ ہو گئے۔ چونکہ ایک عالم کے لیے فقہ میں دسترس ہی سب سے بڑ ا باعث افتحار ٹھہرا۔ اس لیے ہر دینی مدرسہ نے اسی کو ترجیح دی۔ اس کے نتیجہ میں قرآن مجید کے سیکھنے اور سکھانے سے توجہ ہٹ گئی۔ یہ ٹھیک ہے کہ مسلک میں بنیادی ماخذ قرآن مجید ہی کو مانا گیا ہے ، لیکن قرآن مجید تو بنیادی طور پر نظریات اور افکار وتصورات سے بحث کرتا ہے ، جب کہ یہ سب کچھ فقہ کی سرحدوں سے خارج ہے۔ عملی ہدایات کو قرآن مجید تو اندر ضمناً ہی زیر بحث آئی ہیں اور فقہ کو بس انہی سے دلچسپی ہے۔ چنانچہ جب علماء کے ہاں قرآن مجید کی بنیادی اہمیت نہ رہی تو عام معاشرہ میں بھی یہی کیفیت رونما ہوئی۔ آج بھی دینی مدارس کے اندتدریسی اوقات کا دسواں حصہ بھی قرآن مجید پر غوروفکر کو نہیں دیا جاتا نتیجتاً عوام کو بھی بس انہی چند اختلافی مسائل سے دلچسپی پیدا ہوگئی ہے جن کی بنیاد پر مختلف مسالک کے بازار گرم ہیں۔

سواؒل: درج بالا بحث سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ حدیث کے حیثیت کے بارے میں اختلاف بھی امت کو کئی مسالک میں تقسیم کرنے کی ایک وجہ ہے۔ کیا کوئی ایسا طریقہ ممکن ہے جس سے اہل لرائے اور اہل الحدیث کے درمیان اختلاف کی خلیج ختم ہوجائے یا بہر حال کم ہوجائے ؟

جواب: ایسا طریقہ ممکن ہے اور طریقہ یہ ہے کہ جو کچھ امت کے درمیان متفقہ علیہ ہے ، وہ تو سنت ہے۔ ان کے علاوہ روایات میں جتنے ایسے اعمال کا ذکر ہے جو حضورﷺ نے خود کیے یا کسی خاص فرد کو سکھائے ، مگر امت میں اسے جاری نہیں فرمایا، ایسے تمام اعمال کی حیثیت نفل کی سی ہے۔ اگر صحاحِ ستہ (یعنی حدیث کی مستند چھ کتابوں ) کی تمام روایات کو قرآن مجید اور درج بالا اصول کے تحت پرکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں جمع کردہ روایات کی بہت بڑ ی تعداد اس کسوٹی پر پوری اترتی ہے۔

مثلاً درج بالا اصول کی روشنی میں ان مسائل کو دیکھئے جن میں مسلمان نماز کے اندر ایک دوسرے سے مختلف ہوجاتے ہیں اور اضطراب میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ مثلاً رفع یدین کا مسئلہ لے لیجئے۔ درج بالا اصول کے مطابق تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین سنت ہے کیونکہ اس پر سب کا اتفاق ہے۔ باقی اوقات میں رفع یدین نفل ہے۔ چنانچہ رفع یدین کرنے والوں پر بھی کوئی تنگی نہیں اور نہ کرنے والوں پر بھی کوئی تنگی نہیں ، کیونکہ روایات کے مطابق اس کو حضورﷺ اور بعض صحابہ کرامؓ نے کبھی کبھی کیا ہے۔ مگر حضورﷺ نے اسے سنت کی حیثیت سے امت میں جاری نہیں فرمایا۔ اگر حضورﷺ نے اس کو جاری فرمایا ہوتا توقیام، قعدہ، رکوع، اور سجدہ کی طرح ہر مسلمان اس کا بھی اہتمام کرتا اور یہ کامل اتفاق رائے سے ہم تک منتقل ہوجاتا۔

اس نقطہ نظر سے تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین ایک نفل چیز ہے۔ اس کا کرنا باعث اجر ہے اور اس کے نہ کرنے سے نماز میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ رفع یدین دراصل ہے کیا چیز۔ یہ اس عہد کا نام ہے کہ ایک انسان نے ہر طرف سے منہ موڑ کر اپنے رب کی طرف پوری توجہ کر لی ہے۔ اب اگر آپ ہاتھ اٹھا کر یہ عہد صرف نمازکے شروع میں کر لیتے ہیں ، تو یہ بھی کافی ہے اور اگر شدت احساس کی وجہ سے نماز کے درمیان کسی بھی اللہ اکبر کہنے کے وقت پھر یہ عہد کر لیں تو تب بھی ٹھیک ہے۔ رفع یدین کرنے اور نہ کرنے والے ایک دوسرے کے بھائی ہیں کیونکہ دونوں ہی دین کی پیروی کرنا چاہتے ہیں ، البتہ اگر وہ اس سے آگے بڑ ھ کر اس مسئلے کو وجہ تنازع بنالیں ، اس کی بنا پر گروہ بندی کرتے ہوئے علیحدہ علیحدہ نام رکھنے لگیں اور ایک دوسرے سے مسجدیں علیحدہ کرنے لگیں تو اس صورت میں یہ لوگ صراط مستقیم سے ہٹ کر ایک غلط رویہ اپنالیتے ہیں۔

گویا حدیث کے قرآن وسنت پر صحیح انطباق (application) سے اس امت کے تمام جھگڑ ے ختم ہونے کی راہ نکل آتی ہے۔ اور پھر مسلک کی بنیاد پر لڑ ائی لڑ نے کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی۔

سوال: اجتہاد سے کیا مراد ہے ؟ اجتہاد کا اہل کون ہے ؟ کیا اجتہاد دین کا حصہ ہے ؟

جواب: زمانے کے ارتقا کے نتیجے میں جب نئے سوالات سامنے آجائیں جن کے بارے میں قرآن وسنت نے براہ راست رہنمائی نہیں فرمائی تو ایسے تمام مواقع پر قرآن مجیدنے مسلمانوں کو عقل وفکر اور تجزیہ اور تدبر کی ہدایت کی ہے۔ گویا ہر نئے سوال کے بارے میں قرآن مجید کی ہدایت یہ ہے کہ اس کے تمام پہلوں پر خوب اچھی طرح غوروفکر کر کے اس کے بارے میں رائے بنائی جائے۔ اسی کو اجتہاد کہتے ہیں۔ اجتہاد کے اس کام میں جہاں ایک طرف کے احادیث کے پورے ذخیرہ سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے۔ اسی طرح ا س ضمن میں پچھلے چودہ سو برس میں کیے گئے علمی کام، جدید ترین سائنسی تحقیقات اور موجودہ معاشرتی حالات کو نگاہ میں رکھنا بھی لازم ہے۔

جس طرح ہر بات یا کسی فرد کے لیے ہوتی ہے یا پورے معاشرے کے لیے ، اسی طرح ہر اجتہاد بھی یا کسی انفرادی مسئلے کے لیے ہوتا ہے یا کسی بھی اجتماعی مسئلے کے لیے ، انفرادی مسئلہ کے ضمن میں جس فرد کا جس رائے پر بھی اطمینا ن ہوجائے وہ اسی پر عمل کا مکلف ہے اور اجتماعی مسئلے کے ضمن میں جو بھی ملکی قانون ہے ، اس کی اطاعت ضروری ہے ، گویا اجتہاد کے ضمن میں ہر فرد اپنی بات دلیل کے ساتھ بیان کرسکتا ہے۔ اگر کسی معاشرے کے اجتماعی ضمیر نے وہ بات قبول کر لی تو وہ اجتہاد معاشرے میں خود بخود جاری وساری ہوجاتا ہے ورنہ رد ہوجاتا ہے۔

کوئی بھی اجتہاد دین کا حصہ نہیں بنتا۔ آج کا اجتہاد کل بدل بھی سکتا ہے کیونکہ حالات بدل جاتے ہیں۔ لوگوں کی آرا بدل جاتی ہیں ، جب کہ دین کامل واکمل ہے۔ اس میں نہ تغیر وتبدل ہے ، نہ ارتقا۔ دین صرف اور صرف قرآن وسنت ہے۔ اور یہ ہر اجتہاد پر حاکم ہے۔

بدقسمتی سے ہر مسلک نے اپنے اجتہاد کو دین قرار دے دیا، حالانکہ اجتہاد کی حیثیت رائے یا قانون سازی سے زیادہ نہیں ہوتی۔ لیکن جب اسے دین کا درجہ دیا گیا تو ہر مسلک کے ہاں اپنے اپنے اجتہادات کے معاملے میں سختی اور تعصب آ گیا اور یوں یہ امت ٹکڑ وں میں تقسیم ہو گیا۔

سوال: مختلف مسالک ایک دوسرے کو گمراہ قرار دیتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف لوگوں کے جذبات بھڑ کاتے ہیں۔ اس ضمن میں صحیح طرز عمل کیا ہے ؟

جواب: مختلف مسالک کے قائدین اپنے متبعین کو اکٹھارکھنے اور ان کو اپنے مسلک پر ثابت قدم بنانے کے لیے یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ اشتعال کی فضا پیدا کی جائے اور چھوٹے چھوٹے مسائل کو بڑ ھا چڑ ھا کر پیش کیاجائے۔ اس مقصدکے لیے وہ حقائق کوتوڑ تے موڑ تے ہیں۔ مثلاً کوئی گروہ دوسروں کے متعلق کہتا ہے کہ وہ ’’منکر حدیث‘‘ ہے ، حالانکہ حقیقت صرف اتنی ہو گی کہ دوسرے گروہوں کے کسی روایت کو پرکھنے کے اصول پہلے گروہ سے مختلف ہوں گے۔ یا کوئی کہے کہ فلاں گروہ منکرِ درود ہے ، حالانکہ اصل بات یہ ہو گی کہ ’’فلاں گروہ‘‘اس طریقے پر درود پڑ ھنا پسند نہیں کرتا ہو گا جس طریقے پر صحابہؓ نے نہیں پڑ ھا۔ علیٰ ہذالاقیاس۔

اس طرح کے امور میں قرآن مجید کا واضح فرمان یہ ہے کہ اہل ایمان کو ہر وقت انصاف پر قائم رہنا چاہیے ، خواہ اس کی زداُن کی اپنی ذات ہی پر پڑ ے اور کسی قوم کی دشمنی اہل ایمان کو اس طرح نہ ابھارے کہ وہ عدل سے پھرجائیں۔ (النسائ135:4، المائدہ8:5)گویا دینی اعتبار سے یہ ضروری ہے کہ اگر کوئی فرد کسی موقف پر تنقید کرنا چاہتا ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ پہلے دوسرا موقف، بلا کم وکاست، بیان کر دے اور پھر اس پر دلیل کے ساتھ تنقید وتبصرہ کرے۔ تنقید کرتے ہوئے نہ گمراہی کے فتوے لگائے اورنہ غلط قسم کے جذباتی بیان دے ، بلکہ صرف یہ کہے کہ اس کی رائے میں ، ان دلائل کی بنا پر، فلاں موقف یا فلاں عمل صحیح نہیں ہے۔

اگر تمام مسالک کے قائدین صرف اس حکم وقرآنی پر عمل شروع کر دیں ، تو یقین جانیے کہ مسلک پرستی کی دیواریں آپ سے آپ گر جائیں گی۔ تمام مسالک کے پیرو گار ایک دوسرے کو بھائی بھائی تصور کرنا شروع کر دیں گے اور دشمنی کی فضا چھٹ جائے گی۔

سوال: کچھ گروہ بظاہر بدعات میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ بدعت کیا چیز ہے ؟ بدعتی کون ہے ؟ اور ایسے گروہوں کے متعلق صحیح طرزعمل کیا ہے ؟

جواب: ہر وہ چیز جو دین کی حیثیت سے حضورﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ اسے دین کالازمی حصہ قرار دینا بدعت ہے۔ قرآن کریم کا فرمان ہے کہ دین مکمل ہو چکا ہے اور باہر کی کسی چیزکو اسلام کا حصہ قرار دینا غیر معقول ہے۔ (آل عمران85:3)

لیکن یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ بدعت میں آلودہ ہر شخص، بدعتی نہیں ہوتا، بدعتی صرف وہ شخص ہوتا ہے جو جانتے بوجھتے ایسا کرے۔ عام طور پر جو لوگ بدعت میں آلودہ ہوتے ہیں ، وہ اس فعل کو بدعت کو سمجھتے ہی نہیں ، یا انہیں بدعت کے معنی ہی معلوم نہیں ہوتے ، یا اسے دین کا حصہ سمجھ کر نہیں ، بلکہ محض ایک رسم ورواج کی حیثیت سے اپناتے ہیں۔

ایسے لوگوں کے متعلق صحیح طرزعمل یہ ہے کہ انہیں ، ہر گز بدعتی کہہ کر نہ پکارا جائے ، بلکہ پہلے انہیں دین کی متفق علیہ بنیادوں کی طرف متوجہ کیا جائے۔ پھر بڑ ی متانت کے ساتھ، ان کے موقف کو سمجھ کر، اس پر بڑ ی حکمت اور دل سوزی کے ساتھ ہمدردانہ تنقید کی جائے۔

سوال: کچھ گروہوں کے عقائد اور ان کا طرزعمل بظاہر بالکل کفر نظر آتے ہیں۔ چنانچہ سوال یہ ہے کہ کافر کون ہے ؟ کیا ہر وہ فرد جس کے عقائد وطرزعمل میں کفر کی آمیزش ہے ، کافر ہے ؟

جواب: کفر کے لغوی معنی ڈھانکنے اور چھپانے کے ہیں۔ قرآن کریم میں یہ لفظ شکر اور ایمان کے ضد کی حیثیت سے استعمال ہوا ہے۔ گویا کفر کے معنی ناشکری، کفر ان نعمت اور انکار کے ہیں ، اور کافر وہ شخص ہے جسے دین اسلام کا پیغام اپنی کامل شکل میں اچھی طرح پہنچے اور وہ سوچ سمجھ کرمفاد یا تعصب کی وجہ اسے قبول کرنے سے انکار کر دے۔

ظاہر ہے کہ انکار کے معنی کے لحاظ سے اس وقت مسلمانوں کا کوئی گروہ کفر کا ارتکاب نہیں کرتا، البتہ ناشکری کے معنوں میں بعض مسلمان، زندگی کے بعض گوشوں میں ، اس کا ارتکاب کرتے ہیں۔ لیکن ان کو اصطلاحی معنوں میں کافر کہنا بڑ ی ناسمجھنی کی بات ہے۔ اس ضمن میں صحیح رویہ ہے کہ آپ اس خاص طرزعمل یا عقیدے پر، قرآن وسنت کی روشنی میں دلائل کے ساتھ، سنجیدہ تنقید کریں اور ہر قسم کے طنز وتشنیع یا فتویٰ بازی سے پرہیز کریں۔

سوال: کسی کو غیر مسلم قراردینے کا اختیار کس کے پاس ہے ؟ کیا کسی غیر مسلم کو غیر مسلم کہنا ضروری ہے ؟

جواب: قرآن وسنت نے ہم پر کوئی ایسی پابندی نہیں لگائی جس کی رو سے کسی کو غیر مسلم کہنا ہمارے لیے ضروری ہو۔ کسی کے مومن ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا ہمارا کام ہی نہیں۔ اس کے بالکل برعکس، کسی مسلمان کو غیر مسلم کہہ دینا بہت بڑ ی غلطی ہے ، درحقیقت، ملت اسلامیہ بعض اوقات اس امر پر مجبور ہوجاتی ہے کہ وہ کسی گروہ کے غیر مسلم قرار دیے جانے کا فیصلہ کرے ، اس لیے کہ اس فیصلے پر ایک گروہ کے بہت سے حقوق وفرائض کا دارومدار ہوتا ہے۔ یا پھر کوئی گروہ کبھی امت مسلمہ کے وجود کے لیے اتنا خطرناک بن جاتا ہے کہ اسے ملت سے کاٹ دینا ضروری ہوجاتا ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ایک اسلامی حکومت کسی غیر مسلم گروہ کے غیر مسلم قرار دیے جانے کا فیصلہ لازماً ہی کرے۔ کیونکہ ایسے گروہ کو امت سے کاٹ دینے کا فیصلہ، دعوت کے اعتبار سے اور ان گروہ کو بدرجہ آخر ملت مسلمہ میں ضم کرنے کے اعتبار سے ، بعض اوقات مفید نہیں رہتا۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اگر ایسے گروہ سے حکمت کے ساتھ معاملہ کیا جائے تو یہ اپنے کفری عقائد کو چھوڑ دیتے ہیں ، لیکن اگر ان سے نفرت اور مکمل مقاطعہ کی صورت اختیار کی جائے تو ان گروہوں میں ضد اور ردعمل کی نفسیات جنم لینے لگتی ہیں۔

ایک اسلامی حکومت صرف اور صرف اسی گروہ کے بارے میں خارج از اسلام ہونے کا فیصلہ کرسکتی ہے ، جو دین اسلام کے پانچ بنیادی عقائد میں سے کسی عقیدے کا انکار کرے۔ عام مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑ ھنے سے انکار کرے ، یا اسلامی حکومت کو زکواۃ ادا کرنے سے انکار کرے۔ (التوبہ5:9- 11)

عام مسلمانوں کی تکفیر کرنے والے گروہ بھی دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جا سکتا ہے ، کیونکہ وہ خودبخود، اپنے آپ کو باقی مسلمانوں سے کاٹ دیتے ہیں۔ قادیانیوں کو اسی بنا پر غیر مسلم قرار دیا گیا۔ ہمارے لیے ، انفرادی طورپر، کسی گروہ یا فردکو غیر مسلم قراردینا مناسب ہے نہ ضروری۔

سوال: کچھ گروہ کے عقائد واعمال شرک سے آلودہ ہوتے ہیں حالانکہ یہ گروہ مسلمان ہونے کے مدعی ہوجاتے ہیں۔ کیا ایسے لوگوں کومشرک کہا جا سکتا ہے۔

جواب: قرآن مجید نے صرف اسی گروہ کو مشرک قرار دیا ہے جسے خود اپنے مشرک ہونے کا اقرار تھا۔(النحل35:16)( عیسائیوں اور یہودیوں کے عقائد میں کھلا شرک پایا جاتا ہے۔ قرآن نے بھی ان کے شرک پر تو سخت تنقید کی ہے ، لیکن انہیں مشرک قرار نہیں دیا، بلکہ ان کا لقب اہل کتاب رکھا ہے۔ (آل عمران42:3) اس لیے سورۃ توبہ میں جہاں رسالت کے اتمام حجت کے بعد مشرکین کے لیے موت کی سزا کاحکم سنایا گیا ہے ، وہاں اہل کتاب کو اس سے مستثنا رکھا گیا ہے۔

آج دنیا میں کوئی ایسا مسلمان موجود نہیں جو خود اپنے مشرک ہونے کا مدعی ہو، لہٰذا کسی کو مشرک قرار دینے کا سوال ہی خارج ازبحث ہے۔ جن لوگوں کے عقائد واعمال میں شرک کی آمیزش ہے وہ بھی اسے شرک سمجھ کر نہیں ، بلکہ توحید کے مطابق سمجھ کر اپنائے ہوئے ہیں۔ اگر قرآن مجید، عیسائیوں اور یہودیوں کو بھی مشرک نہیں کہتا، تو بھلا قرآن وسنت کے دعوے داروں کو کیسے مشرک کہا جا سکتا ہے۔

سوال: تفرقہ کیا چیزہے ؟ فرقہ بندی کے متعلق دین کا کیا حکم ہے ؟

جواب: تفرقہ، اپنے مفہوم کے اعتبار سے ، دو پہلو رکھتا ہے۔ ایک پہلو یہ ہے کہ دین کو ٹکڑ ے ٹکڑ ے کر کے اس میں سے کچھ حصہ لے لینا اور کچھ حصہ ترک کر دینا۔(الشوریٰ 13:42، النساء15:4 (دوسرے پہلوکے لحاظ سے اس کا مطلب ہے امت مسلمہ سے اپنے آپ کو کاٹ ڈالنا، عوام کی نمائندہ مسلمان حکومت کے خلاف عدم واطاعت یا بغاوت کا رویہ اختیار کرنا (التوبہ56:9، الانعام159:6، آل عمران103:3) غور سے دیکھا جائے تو دونوں معنی دراصل ایک ہی ہے۔

جب امت کا ایک گروہ دین کو ٹکڑ ے ٹکڑ ے کر کے ، اس میں سے کچھ حصے لے کر، اس پر زیادہ زور دینا شروع کر دیتا ہے ، تو اس طرح وہ آہستہ آہستہ باقی امت سے دور ہوجاتا ہے۔ یوں وہ اپنے آپ کو باقی امت سے مختلف سمجھنے لگتا ہے۔ یہی چیز آگے بڑ ھ کر گروہ بندی، عدم اطاعت اور پھر بغاوت کے روپ میں بدل جاتی ہے۔  

قرآن مجید نے ہمیں صاف الفاظ میں ، ہر قسم کی فرقہ بندی سے منع کیا اور بتایا ہے کہ آپس میں جھگڑ ے نہ کرو، ورنہ تم بزدل بن جاؤگے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ اس لیے تفرقے میں مسلسل ملوث ہونا بہت بڑ ی نادانی اور قابل مواخذہ حرکت ہے۔

سوال: فرقہ بندی کیسے شروع ہوتی ہے ؟

جواب: جب کوئی گروہ یہ سمجھے کہ دین کو جس طرح اس نے سمجھا ہے ، اس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں ہے اور دوسرے گروہوں نے جس طرح دین کو سمجھا ہے اس میں صحت کا کوئی امکان نہیں ہے ، تو یہ فرقہ بندی کی ابتدا ہے۔ جب یہی چیزنمازیں اور مسجدیں الگ کرنے تک جا پہنچی ہے ، تو پھر، دراصل، فرقہ بندی کے اڈے قائم ہوجاتے ہیں۔

سوال: عام اہل سنت اور اہل تشیع میں کیا فرق ہے ؟

جواب: عام اہل سنت کے نزدیک حضورﷺ کے بعد مسلمانوں کے پہلے چار حکمران یعنی خلفائے راشدینؓ کا انتخاب صحیح طور پر عمل آیا تھا کیونکہ وہ سب کے سب جمہوری طریقہ سے منتخب ہوئے تھے۔ اس کے برعکس اہل تشیع سمجھتے ہیں کہ خلیفہ اول کے طور پر حضرت علیؓ کو مقرر ہونا چاہیے تھا۔

سوال: اس اختلاف کی دین میں کیا حیثیت ہے ؟

جواب: یہ درحقیقت کوئی دینی اختلاف نہیں ہے بلکہ سیاسی اختلاف ہے۔ اس لیے دین میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان قرآن وسنت کے معاملے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ البتہ اس سیاسی اختلاف کی وجہ سے دونوں کے ہاں کچھ انتہا پسند گروہوں نے جنم لیا ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو اہل تشیع کی تکفیر کرتے ہیں۔ یہ ایک بھیانک غلطی ہے۔ اسی طرح بعض اوقات اہل تشیع، صحابہ کرامؓ کے خلاف بدگوئی کرتے ہیں۔ یہ بھی بہت براکام ہے۔

درحقیقت عام اہل سنت اور عام اہل تشیع نے ہمیشہ ایک دوسرے کو مسلمان مانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت نے حج کے موقع پر اہل تشیع کے لیے کبھی کوئی رکاوٹ کھڑ ی نہیں کی اور دوسری طرف اہل تشیع بیت اللہ میں اہل سنت کے امام کے پیچھے نماز پڑ ھتے ہیں۔

سوال: اہل سنت اور اہل تشیع کے بعض گروہوں کے درمیان نفرت کی فضا کیسے ختم کی جا سکتی ہے ؟

جواب: اہل سنت کو چاہیے کہ وہ اہل تشیع کی تکفیر نہ کریں۔ ہر بحث میں معیار حق وباطل قرآن مجید کو بنائیں اور دوسری طرف سے اشتعال انگیزی کے مقابلے میں جوابی اشتعال انگیزی کسی حال میں بھی نہ کریں۔

اہل تشیع کو چاہیے کہ وہ صحابہ کرامؓ کی شان میں گستاخی نہ کریں۔ دل آزار نعرے نہ لگائیں اور اپنی تقریر وتحریر میں شائستگی کو مدنظر رکھیں۔

اگر ایسا ہوجائے تو اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان نفرت اور تعصب کی فضا ان شاء اللہ چھٹ جائے گی۔

سوال: کیا حنفی ، شافعی، مالکی، حنبلی اور اہل حدیث وغیرہ فرقے ہیں ؟

جواب: یہ سب مسالک ہیں ، فرقے نہیں ، اس لیے کہ یہ سب ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑ ھتے ہیں۔ ایک دوسرے کا ذبیحہ کھاتے اور آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں۔ تاہم ان تمام مسالک میں سے انتہا پسند لوگ جب اپنی مسجدیں علیحدہ کر لیتے ہیں تو وہ اپنے مسالک کے اندر فرقہ بندی کے جراثیم داخل کر دیتے ہیں۔

سوال: فرقہ بندی سے بچنے کا طریقہ کیا ہے ؟

جواب: اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہر فرد قرآن وسنت ہی کو دین سمجھے۔ اپنے فہم میں غلطی کا امکان تسلیم کرے۔ تمام امت کو مسلمان سمجھے اور سب کے ساتھ نماز پڑ ھے۔ ہر مسلک کے امام کے پیچھے نماز پڑ ھنے میں کوئی عار محسوس نہ کرے۔ اختلافی مسائل پر بحث ومباحثے کو مقصد نہ بنائے ، بلکہ اگر کہیں ضرورت ہوتو حکمت، ادب اور خوب صورت گفتگو کے ساتھ اپنا موقف پیش کرے۔ جو لوگ فرقہ بندی میں ملوث ہوں ، ان کو نہایت درد مندی اور محبت کے ساتھ اس دلدل سے نکالنے کی کوشش کرے۔

سوال: حضورﷺ کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہے کہ میری امت بہتر(72) فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی اور ان میں سے ایک کے سوا باقی سب دوزخ میں جائیں گے۔ جنت میں جانے والا فرقہ کون سا ہے ؟

جواب: اس امت کی تاریخ میں ایسے بے شمار گروہ گزرے ہیں ، جنہوں نے پہلے خود کو مذہبی طور پر امت سے کاٹ ڈالا۔ انہوں نے اپنے فہم دین ہی کو اصل قراردیا اور کہا کہ ان کے علاوہ باقی پوری امت کافر ہے۔ رفتہ رفتہ ان لوگوں نے اپنے آپ کو سیاسی طور پر بھی امت سے کاٹ لیا۔ (اس لیے کہ یہ باقی امت کو مسلمان ہی نہ سمجھتے تھے۔ ) امت کی تاریخ میں اس کی سینکڑ وں مثالیں ملتی ہیں ، مثلاً باطنی، کیسائی، خطابیہ، خرم دینیہ، سبائی، قادیانی وغیرہ۔ یہی وہ لوگ ہو سکتے ہیں کہ حضورﷺ نے جن کے متعلق یہ بات کہی (واضح رہے کہ یہاں ’’بہتر‘‘ کا لفظ، اپنے معروف مفہوم کے مطابق، صرف کثرت کے معنوں میں آیا ہے )۔

جہاں تک اس امت کی عظیم ترین اکثریت کا تعلق ہے ، جو قرآن وسنت ہی کو اپنا دین قرار دیتے ہیں ، ساری امت کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ یہ نظم اجتماعی سے وابستہ رہتے ہیں ، اکٹھے نماز پڑ ھتے ہیں ، آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا ذبیحہ کھاتے ہیں۔ اگرچہ ان میں عمل کے لحاظ سے ہزار خامیاں پائی جاتی ہیں ، مگر بہر حال یہ اپنے آپ کو امت مسلمہ کا حصہ سمجھتے اور قرآن وسنت ہی کے سامنے سرخم تسلیم کرتے ہیں ، یہی لوگ پروردگار کی نظر کرم کے مستحق ہیں۔

سوال: کیا کسی ایسے فرد کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے ، جس کے عقائد یا طرزِ عمل میں کچھ غلطیاں ہوں ؟

جواب: نماز کے ہونے یا نہ ہونے کا تعلق امام سے نہیں ، بلکہ اپنی نیت سے ہے۔ فرض کیجئے ایک امام دل سے پکا کافر ہے ، مگر بظاہر مسلمان ہے اور ہم اس کا مسلمان ہونا ہی جانتے ہیں تو اس کے پیچھے کسی مقتدی کی نماز خراب نہیں ہوتی۔ خدا کے فضل وکرم سے اس امت میں نماز کے اندر کوئی بدعت داخل نہیں ہوئی، اس لیے ہر کسی کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے۔

سوال: فرقہ بندی کے خاتمے کے لیے ایک اسلامی حکومت کو کیا اقدامات کرنے چاہئیں ؟

جواب: ایک اسلامی حکومت پر یہ لازم ہے کہ وہ تمام مساجد کا انتظام خود سنبھالے اور انہیں فرقہ بندوں کے ہاتھ میں دینے کے بجائے مساجد اسلام بنائے۔ جمعہ کا خطبہ دینا حکومت کے سربراہ یا اس کے مقرر کردہ گورنر، وزیراعظم، وزیراعلیٰ یا دوسرے حکام کے لیے دینا لازم ہے۔ اسی طرح ایک اسلامی حکومت میں یہ بھی فرض ہے کہ فرقہ اور مسلک پر مبنی کسی تنظیم کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہ دی جائے۔ 

B