آٹھواں باب
چند اصطلاحات وتصورات
سوال: ’’عبادت‘‘ کے کیا معنی ہیں ؟
جواب: عبادت کی روح کسی کے سامنے عاجزی اور پستی کا اظہار ہے۔ جب ایک انسان اپنے آپ کو اللہ کے سامنے آخری حد تک عاجز اور پست بنا کر، اس کی مرضی کے آگے سر تسلیم خم لیتا ہے ، اس کے حضور اس کی حمدوثنا بیان کرتا ہے ، جھک جاتا ہے ، سجدہ کرتا ہے ، اسی سے دعائیں مانگتا ہے اور اس کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے اس کی راہ میں مال کی قربانی دیتا ہے ، اور بالآخر اپنی زندگی کی باگ اللہ کے ہاتھ میں دے دیتا ہے ، تو اس کے اس عمل کو اسلام کی اصطلاح میں عبادت کہا جاتا ہے۔ (السجدہ 41: 15- 16) انسان اسی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔
سوال: ’’طاغوت‘‘ کے کیا معنی ہیں ؟
جواب: ’’طغی‘‘ سے مراد سرکشی ہے ، یعنی جو مخلوق خالق کے سامنے تکبر اور سرکشی کرے اور بغاوت کا رویہ اختیار کرے ، اسے ’’طاغوت‘‘ کہتے ہیں اور یہ شیطان کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔
سوال: شیطان کے کیا معنی ہیں ؟
جواب: ’’شیطان‘‘ اور ’’طاغوت‘‘ بالکل ہم معنی الفاظ ہیں۔ شیاطین انسانوں میں بھی ہو سکتے ہیں اور جنات میں بھی۔
سوال: خشوع وخضوع کے کیامعنی ہیں ؟
جواب: جب ایک انسان اللہ کی صفات کے صحیح شعور کے ساتھ، اپنی حقیقی محبت بھی اسی کے لیے خاص کر لے ، حقیقی خوف بھی صرف اسی سے کرے اور اس کے سامنے عاجزی کے ساتھ جھک جائے تو اس حالت کو خشوع وخضوع کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اس داخلی کیفیت کو بیان کرنے کے لیے چند اور الفاظ بھی استعما ل ہوئے ہیں ، مثلاً اخبات (عاجزی کرنا)، انابت (متوجہ ہونا اور توبہ کرنا)، خشیت (ڈر) ، تضرع اور قنوت (گڑ گڑ انا اور فرماں برداری)۔ یہ سب الفاظ تقریباً ہم معنی ہیں۔ بندہ مومن کی داخلی کیفیت یہی ہونی چاہیے۔
سوال: ’’تقویٰ‘‘ کا مطلب کیا ہے ؟
جواب : یہ ایک باطنی کیفیت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان، حقیقی طور پر، صرف اللہ کی ناراضی سے ڈرے۔ یہ کیفیت انسان کو ہر اس کام سے روکتی ہے جس سے پروردگار کی ناراضگی کا اندیشہ ہو۔ ہر فرماں بردار بندے کو یہی کیفیت اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے۔
سوال: ’’ذکر‘‘ کا کیا مطلب ہے ؟
’ذکر‘ کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے پروردگار کی یاد سے اطمینان حاصل کرے ، خواہ یہ زبان سے ہو، یا عمل کے میدان میں خدا کو یاد رکھنا ہو۔ گویا پروردگار کو حاضر وناظر مان کر، اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے اور اسے ہر وقت یاد رکھنے کا نام ذکر ہے۔
سوال: ’’شکر‘‘ کے کیا معنی ہیں ؟
جواب: ’شکر‘ کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہر وقت اللہ کے احسانات اور نعمتوں کو یاد رکھ کر، اس کے لیے شکریے کے جذبات کو اپنے دل میں موجزن رکھے۔
سوال: ’’اخلاص‘‘ کا کیا مطلب ہے ؟
جواب: ’اخلاص‘ کا مطلب یہ ہے کہ انسان، اپنے دلی جذبات کے لحاظ سے ، اللہ ہی کا ہوکر رہے ، اور اس کی زندگی، خالصۃً، اللہ کی رضا کے لیے ہو۔
سوال: ’’توکل‘‘ کے کیا معنی ہیں ؟
جواب: ’توکل‘ کے معنی یہ ہیں کہ انسان اللہ ہی کے بھروسے سے پرجیے۔
سوال: ’’تفویض‘‘ کے کیا معنی ہیں ؟
جواب: ’تفویض‘ کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنا ہر معاملہ اللہ کے سپرد کرے۔ کوشش خود کرے اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے۔
سوال: ’’تسلیم ورضا‘‘ کا کیا مطلب ہے ؟
جواب: اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے پورے وجود کو اللہ کے حوالے کر دے اور زندگی میں ہر ہر قدم پر اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے بے تاب رہے۔
سوال: ’’اطاعت‘‘ کا کیا مطلب ہے ؟
جواب: ’اطاعت‘ کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو دنیا کی عملی زندگی میں جو بھی معاملہ پیش آجائے ، اس میں وہ اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دے ، یہاں تک کہ اس کی زندگی کے تمام معاملات اللہ کے حکم کے دائرے میں آجائیں۔ گویا اطاعت، عبادت ہی کی ایک قسم ہے۔ یہ بھی ہر مسلمان پر، اپنے دائرے میں ، لازم ہے۔
سوال: ’’دین‘‘ کا کیا مطلب ہے ؟
جواب: زندگی کے فلسفہ وعمل کو دین کہتے ہیں۔ یعنی ہر وہ طریقہ، جو انسان کو یہ بتائے کہ اس کا خدا اور کائنات کے ساتھ کیا رشتہ ہے ، خدا کی پرستش کیسے کی جائے اور زندگی کے معاملات میں کن حدود کی پابندی کی جائے ، دین کہلاتا ہے۔ وہ فلسفہ وعمل، جسے اللہ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے انسان پر واضح کیا، اسے قرآن ’’الدین‘‘ کہتا ہے۔
سوال: ’’الحکمۃ ‘‘کے کیا معنی ہیں ؟
جواب: قرآن کے فلسفے اور اخلاقی تعلیمات کو قرآن مجید ’’الحکمۃ‘‘ کہتا ہے۔
سوال: ’’الکتاب‘‘ کے کیا معنی ہیں ؟
جواب: اسلامی رسوم (یعنی طریقہ، پرستش) اور زندگی گزارنے کے لیے پروردگار کے مقرر کردہ حدود اور ضابطوں کو ’’الکتاب‘‘ کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید ’’الحکمۃ‘‘ اور ’’الکتاب‘‘ دونوں کا مجموعہ ہے۔ بعض اوقات صرف قرآن مجید کے لیے بھی ’’الکتاب‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔
سوال: ’’شریعت‘‘ کے کیا معنی ہیں ؟
جواب: ’شریعت‘ اور ’الکتاب‘ ہم معنی ہیں ، یعنی اللہ کا مقرر کردہ مجموعہ قانون۔گویا اسلام کے سب عملی احکام شریعت کا حصہ ہیں۔
سوال: ’’تزکیہ نفس‘‘ کا کیا مطلب ہے ؟
جواب: تزکیہ نفس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ہر گندگی سے پاک کرے اور اپنے فکر وعمل کو صحیح سمت میں نشو ونما دینے کے لیے جدوجہد کرتا رہے۔ قرآن مجید کے مطابق اللہ کی رضا اور جنت کا حصول صرف تزکیہ نفس کے ذریعے سے ممکن ہے۔ (الاعلیٰ84: 14- 17) اللہ کے پیغمبر انسان کا تزکیہ کرنے کے لیے دنیا میں آئے تھے۔ گویا انسان کا مقصد زندگی بھی اپنے نفس کا تزکیہ ہونا چاہیے۔ (الجمعہ2:62)
سوال: ’’نصح‘‘ کے کیا معنی ہیں ؟
جواب: ’نصح‘ ایک روئے کا نام ہے ، جو قرآن مجید اپنے ماننے والوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ نصح، خیر خواہی کو کہتے ہیں۔ گویا انسان ہر جگہ، ہر معاملے میں ، ہر کسی کی خیر خواہی اور بھلائی کے لیے سوچے۔ اس کے دل میں کسی کے لیے بغض اور دشمنی نہ ہو۔
سواؒل: ’’احسان‘‘ کا کیا مطلب ہے ؟
جواب ’احسان‘ کے معنی کسی کام کو بہترین طریقے پر کرنے کے ہیں۔ قرآن مجید ہمیں ہدایت کرتا ہے کہ ہم ہر عمل ایسے بہترین طریقے سے کریں کہ اس عمل کی روح اور اس کے قالب، دونوں میں صحیح توازن قائم رکھیں اور اسے ہم انتہائی خوب صورت طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ (النساء125:4)
سوال : اظہار دین کا کیا مطلب ہے ؟
جواب: رسولوں کے ضمن میں اللہ کا قانون یہ ہے کہ رسول اپنی قوم پر غالب رہتا، اور اگر اس کی قوم اس کی بات ماننے سے انکار کر دے تو اس قوم پر عذاب آ جاتا ہے ، لیکن پروردگار نے اس قانون میں ایک اضافی بات بھی حضورﷺ کے لیے مقدر کر دی کہ آپ کی قوم، بحیثیت مجموعی، آپ پر ایمان لائے گی۔ آپ کا سیاسی اقتدار سرزمین عرب کے چپے چپے پر قائم ہو گا اور صرف انتہائی نافرمانی اشرار ہی ہلاک کیے جائیں گے۔ قرآن مجیدمیں اس کو اظہار دین کہا گیا ہے۔ (الصف 9:61)
سوال: اقامت دین سے کیا مراد ہے ؟
جواب: اقامت دین کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنی زندگی میں دین کی پوری طرح درست اور ثابت وقائم رکھے۔ دین میں جو چیز ماننے کی ہے ، اسے پوری دیانت داری سے مانا جائے اور جو چیز کرنے کی ہے ، اسے بجا لایا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ دین کے کچھ حصے پر تو عمل کیا جائے اور کچھ حصے کو چھوڑ دیا جائے۔ (الشوریٰ 13:42)گویا یہ پورے دین کے متعلق ایک اصولی ہدایت ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اختیار کی حد تک، ہر انسان اپنی زندگی میں دین پر مکمل عمل پیرا ہو۔ اسی طرح اقامت صلوۃ کا مطلب یہ ہے کہ نماز کو بالکل درست طریقے پر ادا کیا جائے اور اسے اپنی زندگی میں ہمیشہ ثابت وقائم رکھا جائے۔
سوال: نصرت دین کے کیا معنی ہیں ؟
جواب: ہر مسلمان پر لازم ہے کہ جب اسلام کو اپنے فروغ اور اپنی حفاظت کے لیے یہ ضرورت لاحق ہوجائے کہ اس کے ماننے والے اس کی مدد کریں تو وہ اپنی صلاحیت کے مطابق دین کے لیے سعی جدوجہد کرے۔
چونکہ دین کو، عملاً ہر وقت اپنے فروغ اور اپنی حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے دین کا عملی مطالبہ یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنی صلاحیتوں کا بڑ ا حصہ دین ہی کے لیے استعمال کرے۔ اس کا عملی مطالبہ یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنی صلاحیتوں کا بڑ ا حصہ دین ہی کے لیے استعمال کرے۔ اس امت کی تاریخ میں دین کے تحفظ اور تجدید واحیا کے لیے جتنے بھی کام ہوئے ہیں اور لوگوں نے اپنی زبان، اپنے قلم یا مالوں اور جانوں کو جس طرح دین کے لیے قربان کیا ہے ، وہ اسی نصرت دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہے۔ (الصف9:61)نصرت دین کاکام انفرادی اور اجتماعی دونوں شکلوں میں کیا جا سکتا ہے۔ جہاد بمعنی دین دین کے لیے جدوجہد کے معنی بھی یہی ہیں۔
سوال: شہادت علی الناس کا کیا مطلب ہے ؟
اس کے دو مطالب ہیں : ایک رسول اللہ ﷺ سے متعلق اور ایک امت مسلمہ سے متعلق۔ رسول اللہ ﷺ سے متعلق، اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ اپنی ذات میں ، سراسر حق کے گواہ تھے ، یعنی ان کے قول وفعل سے حق اس طرح ثابت ہو گیا تھا کہ پھر اس کے بعد کسی کے لیے حق سے انحراف کا کوئی عذر باقی نہیں رہا۔
امت مسلمہ کے حوالے سے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس امت کا مجموعی فرض ہے کہ وہ اپنے اندر ایک اعلیٰ ترین اجتماعی نظام بنائے جو اس طرح حق اور انصاف کا علم بردار ہو کہ دنیا کی تمام غیر مسلم اقوام، اس کا مشاہدہ کر کے ، اس دین کو اپنی آنکھوں سے عملاً دیکھ لیں۔ گویا اس امت کا مجموعی فرض یہ ہے کہ وہ اپنے عمل سے اسلام کی گواہ بن جائے ، تاکہ غیر مسلم ملتوں پر حجت تمام ہوجائے اور امت جب دوسری امتوں کو دین کی دعوت دے تو ان کے پاس کوئی حقیقی عذر نہ ہو۔
سوال: ’خیر امت‘ کا کیا مطلب ہے۔
جواب: جب امت مسلمہ دین وایمان کی بہترین انفرادی اور اجتماعی حالات میں ہو تو وہ اس وقت خیر امت بن جاتی ہے۔ صحابہ کرامؓ کے وقت میں امت مسلمہ اس درجے پر فائز تھی۔
سوال: ’امت وسط‘ کا کیا مطلب ہے ؟
جواب: ’خیرامت‘ اور ’امت وسط‘ ہم معنی الفاظ ہیں۔
سوال: ’اسلام‘کے اصلاحی معنی کیا ہیں ؟
جواب قرآن مجید میں اسلام کے دو اصطلاحی معنی ہیں : ایک معنی کے لحاظ سے یہ اس ’’الحکمت‘‘ اور ’’الکتاب‘‘ (یعنی فلسفہ وعمل) بالفاظ دیگر، پورے الدین پر مشتمل ہے ، جسے اللہ نے اپنے پیغمبروں کی وساطت سے انسان کو بھیجا ہے۔ (آل عمران19:3)
دوسرے معنی کے لحاظ سے قرآن مجید نے بعض مقامات پر دین کے ظاہری ڈھانچے کو بھی ’’اسلام‘‘سے تعبیر کیا ہے۔ اس ظاہر کے اعتبار سے اسلام پانچ چیزوں پر مشتمل ہے : لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا گواہ بن کر معاشرے میں کھڑ ا ہوجانا، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا۔
سوال : ’’ایمان‘‘ کے کیا معنی ہیں ؟
جواب: دین کا باطن ’’ایمان‘‘ ہے۔ یعنی صدق دل سے پانچ حقیقتوں کو ماننا اور ان کا اقرار کرنا۔ یہ پانچ حقائق، اللہ پر ایمان، فرشتوں پر ایمان، نبیوں پر ایمان، اللہ کی کتابوں پر ایمان اور روز قیامت پر ایمان ہیں۔
حضورﷺ نے اس کی تشریح کرتے ہوئے ایمان با اللہ کی ایک شاخ، یعنی یہ کہ ہر نعمت اور سختی اللہ کی طرف سے ہے ، کو بھی ایمان کی تعریف میں شامل کیا گیا ہے۔
سوال: تقدیر کے خیروشر کا کیا مطلب ہے ؟
جواب: اس کا مطلب یہ ہے کہ پروردگار انسان کو اس دنیا میں آسانی دے کر بھی اس کی آزمائش کرتا ہے اور اسے تکلیف دے کر بھی اس کی آزمائش کرتا ہے۔ (یہ بات ذہن میں رہے کہ یہاں خیروشر کے معنی نیکی اور بدی کے نہیں )
سوال: عمل صالح کا کیا مطلب ہے ؟
جواب: عمل صالح کا مطلب ہے۔ ہر وہ کام جو انسان کی فطرت اور عمل کے لحاظ سے درست قرار پائے۔ خدا کی شریعت انسان کی رہنمائی ایسے ہی اعمال کی طرف کرتی ہے۔
سوال: ’’تواصوابالحق‘‘ اور’’ تواصو ابالصبر‘‘ کے معنی ہیں ؟
جواب:ا س کا مطلب یہ ہے کہ تمام مسلمانوں پر یہ بات لازم ہے کہ وہ اپنے ماحول (اپنے خاندان، دوستوں ، رشتہ داروں اور ہمسایوں ) میں ایک دوسرے کو حق قبول کرنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کی نصیحت کریں۔ (العصر3:103)
سوال: ہجرت کے کیا معنی ہیں ؟
جواب: اگر کسی مسلمان کے لیے کسی جگہ دین پر عمل کرنا جان جوکھم کاکام بن گیا اور اس جگہ کا ماحول، اس کے اور اس کے اہل خاندان کے ایمان پر قائم رہنے کے لیے خطرہ بن گیا ہے ، تو اس کے لیے یہ لازم ہے کہ اس جگہ کو چھوڑ دے اور کسی ایسے مقام پر منتقل ہوجائے جہاں دین پر عمل کرنا اس کے لیے آسان ہو، اسے قرآن مجید کی اصطلاح میں ’’ہجرت‘‘ کہتے ہیں۔ (النسائ97:4)
سوال: ’’قیام بالقسط‘‘کا کیا مطلب ہے ؟
جواب: اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان ہر وقت حق وانصاف پر قائم رہے اور انصاف ہی کی بات کرے۔ خواہ وہ بات خود اس کے رشتہ داروں ، اس کی پارٹی یا اس کی قوم کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔(النساء135:4، المائدہ8:5)
سوال: ’’امر بالمعروف‘‘کا کیا مطلب ہے ؟
جواب: معروف کا مطلب ہے متفق علیہ بھلائی، نیکی، صحیح کام اور معاشرے کا پسندیدہ رسم ورواج۔ گویا معروف میں وہ تمام اچھائیاں شامل ہوجاتی ہیں جنہیں انسانیت بلحاظ مجموعی اچھائی سمجھتی ہے۔ مثلاًسچائی، امانت، دیانت، غریبوں کی مددوغیرہ۔ چنانچہ امر بالمعروف کا مطلب ہر متفق علیہ بھلائی کو پھیلانا، رواج دینا اور اس کی تلقین کرنا۔
سوال: نہی عن المنکر کا کیا مطلب ہے ؟
جواب: منکر کا مطلب ہے ہر وہ کام جو پوری انسانیت کے نزدیک بلحاظ مجموعی غلط اور نقصان دہ ہو۔ مثلاً جھوٹ، خیانت، منشیات، خود غرضی وغیرہ۔ چنانچہ نہی عن المنکر کا مطلب ہے ہر متفق علیہ غلط اور نقصان دہ کام اور رویے سے لوگوں کو روکنا اور انہیں اس سے بچنے کی تلقین کرنا۔
سوال: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے حوالے سے ہم پر کیا چیز لازم ہے ؟
جواب: اس کی دو سطحیں ہیں : ایک سطح ریاست کی ہے ، جس کے تحت مسلمانوں کی ایک ریاست پر لازم ہے کہ ہر بھلائی کو (حکمت کے ساتھ)نافذ کرے ، اور ہر برائی کو (حکمت کے ساتھ) روکے ، حتیٰ کہ وہ ریاست اس زمین پر ایک مثالی ریاست بن جائے۔ بدرجہ آخر تمام ملت مسلمہ کو اسلام کا صحیح نمائندہ جانا چاہیے اور یہ وہ چیز ہے جس کے بغیر وہ ’’خیرامت‘‘ بن ہی نہیں سکتی۔(التوبہ71:9)
ایک عام آدمی کی سطح پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مطلب ہو بہو وہی ہے جوتو ’’اصوابالحق‘‘ اور ’’تواصوا بالصبر‘‘ کا ہے۔ یعنی اپنے گردوپیش اور اپنے ماحول میں ہر بھلائی کی تلقین کرنا اور ہر برائی سے روکنے کی نصیحت کرنا۔ البتہ، چونکہ ہر منکر یعنی غلط کام معاشرے کو بہت نقصان پہنچاتا ہے اس لیے جس آدمی کا جہاں جہاں قانونی اختیار چلے ، (مثلاً والد کا اختیار اپنے بچوں پر) وہاں وہ منکر کا ازالہ قانونی اختیار کے ساتھ بھی کرے۔ (التوبہ 9 : 71- 112)
سوال: ’’تفقہ فی الدین‘‘ کے کیا معنی ہیں ؟
جواب: اس کے معنی ہیں دین کی سمجھ پیدا کرنا، یعنی دین کو اس کی حکمتوں کے ساتھ سمجھنا۔ قرآن مجید کی ہدایت یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے وہ لوگ جنہیں پروردگار اس کام کی توفیق اور صلاحیت دے ، دین کی سمجھ پیدا کریں اور پھر اپنی قوم کی اصلاح کی کوشش کریں۔
سوال: نفس کی حقیقت کیا ہے ؟
جواب: قرآن مجید میں ’’نفس‘‘ بالکل انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے ، جن معنوں میں ہم اپنی زبان میں لفظ ’’روح‘‘ استعما ل کرتے ہیں۔ جب نفس کا لفظ ایک انسان کے لیے استعمال کیا جائے تو اس سے مراد اس کی پوری شخصیت، یعنی اس کی صلاحتیں ، عادتیں ، کردار، اخلاق اور دائرہ اختیار میں اپنی آزادی کے استعمال کے تمام رنگ شامل ہوتے ہیں۔
چونکہ جانوروں میں بھی ’’اختیار کی آزادی‘‘ کے پہلو کے علاوہ، باقی پہلو کسی نہ کسی انداز میں موجود ہوتے ہیں ، اس لیے ہر جانور بھی ایک نفس ہے۔ اس مفہوم سے آگے بڑ ھ کر یہ مطلق ’’ذات‘‘ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
سوال: اگر ’’نفس‘‘ کے معنی ہماری زبان کے لفظ’’روح‘‘ کے ہیں تو پھر قرآن مجید میں جہاں روح کا لفظ استعمال ہے ، اس کے کیا معنی ہیں ؟
جواب: قرآن مجید میں لفظ ’’روح‘‘ ان معنوں میں استعمال نہیں ہوتا، جن معنوں میں ہم اپنی زبان میں روح کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں روح تین معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک لحاظ سے یہ پیغام رسانی، یعنی وحی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے یہ وحی لانے والے فرشتے یعنی حضرت جبریل علیہ السلام کے لیے استعمال ہوا ہے۔ تیسرے معنی کے لحاظ سے یہ لفظ پھونک کے اس عمل کے لیے استعمال ہوا ہے ، جس کے ذریعے سے اللہ نے تخلیق کے ابتدائی عمل کی تکمیل کرتے ہوئے ، مادے کو زندگی بخشی اور جس کے ذریعے سے آج بھی ہر ذی روح کو زندگی بخشی جاتی ہے۔
سوال: ’نفس امارہ‘ کے کیا معنی ہیں ؟
جواب: انسانی سوچ کا وہ حصہ جو انسان کو غلط اور صحیح کی تمیز کیے بغیر فوری لذت کے حصول پر آمادہ کرتا ہے ، نفس امارہ کہلاتا ہے۔
سوال: ’نفس لوامہ‘ کے کیا معنی ہیں ؟
جواب: انسانی سوچ کا وہ حصہ جو ہر وقت انسان کو صحیح راستے پر گامزن رہنے کی تلقین کرتا ہے ، خواہ اس کے لیے اسے لذت سے دست بردار ہونا پڑ ے۔ جب انسان کوئی غلط کام کرتا ہے تو یہی سوچ انسان کو ملامت کرتی ہے۔ اس کو ہم ضمیر کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہ دراصل فطرت انسانی کی ایک آواز ہے ، جو پروردگار نے انسان کے اندر ودیعت کی ہے۔
سوال:’ نفس مطمئنہ‘ کے کیا معنی ہیں ؟
جواب: جب انسان اپنے نفس کو مکمل طور پر اپنے رب کی مرضی کے تابع کر دے ، تو اس کا قلب وذہن بالکل مطمئن ہوجاتا ہے۔ یہ انسان کی کامیابی کی معراج ہے اور ایسے شخص کے لیے آخرت کی کامیابی کی بھی ضمانت ہے۔
سوال: ’توبہ‘ کے کیا معنی ہیں ؟
جواب: ایک انسان اپنے نفس کی اکساہٹ کی وجہ سے جذبات کی رو میں ایک غلط کام کر لیتا ہے ، مگر اسے احساس ہوجاتا ہے کہ اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس لیے وہ فوراً اپنے رب کے حضور اپنی ندامت کا اظہار کرتا ہے ، اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہے اور پروردگار کے ساتھ یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ آئندہ اس غلطی کا ارتکاب نہیں کرے گا، اسے توبہ کہتے ہیں۔ سچے دل سے توبہ کو اللہ قبول کرتا ہے ، البتہ اگر معاملہ حق تلفی سے متعلق ہوتو یہ بھی ضروری ہے کہ انسان ممکنہ حد تک اس کا مداوا کرے۔
سوال: ملائکہ یا فرشتے کیا ہیں ؟
جواب: ملائکہ یا فرشتے اللہ کی اس ذی شعور مخلوق کا نام ہے ، جو سراسر نور سے بنائی گئی ہے۔ اس کائنات میں فرشتے ہی اللہ کے قوانین اور احکام کو نافذ کرنے کا فرض انجام دیتے ہیں۔
سوال: ’’جن‘‘ کسے کہتے ہیں ؟
جواب: ’’جن‘‘ پروردگار کی اس ذی شعور مخلوق کا نام ہے ، جس کی تخلیق انسان سے پہلے ہوئی اور وہ آگ سے بنائے گئے ہیں۔ یہ مخلوق بھی ہماری طرح زندگی گزار رہی ہے۔ ان کے ہاں بھی پیدا ئش اور موت کا سلسلہ جاری ہے۔ ان میں بھی برے اور اچھے لوگ ہوتے ہیں۔ وہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں ، مگر ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ قیامت کے دن ان سے بھی حساب لیا جائے گا۔ ابلیس بھی جنات میں سے تھا۔
سوال: کیا جن انسان پر کوئی اختیار رکھتے ہیں ، یا انسان کو کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں ؟
جواب: ’’جن‘‘ انسانوں کوکوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ، نہ ان پر کوئی بیماری مسلط کرسکتے ہیں۔ وہ انسانوں پر کوئی اختیار نہیں رکھتے ، سوائے اس کے کہ انسان کے دل میں برائی کے راستے پر جانے کے لیے وسوسہ ڈالیں۔ اور گناہ کی طرف اس کا میلان بڑ ھائیں۔
سوال: جنات، انسانی ذہن پر کیسے اثرانداز ہوتے ہیں ؟
جواب: اس کی مثال آپ یوں سمجھ لیں کہ ٹی۔ وی سٹیشن سے لہریں مسلسل منتشر ہوتی ہیں ، لیکن ان لہروں کو کھینچے کے لیے ریسور چاہیے۔ اگر آپ اپنے ٹی۔وی کا سوئچ آن نہیں کریں گے ، تو آپ کے ٹی۔وی پر پروگرام نہیں آ سکے گا۔ بالکل اسی طرح اگر آپ ذہن کا سوئچ برائی کی طرف آن نہیں کریں گے تو کوئی شیطان، جن یا انسان آپ کے قلب پر اثرانداز نہیں ہو سکے گا، لیکن اگر آپ برائی کا سوئچ کھول دیں گے تو آپ کے ذہن پر شیطان، جن اور انسان کے وسوسے اثرانداز ہو سکیں گے۔
سوال: کیا انسان کے لیے جنات سے رابطہ قائم کرنا ممکن ہے ؟
جواب: لیکن اسلام نے اس طرح کی چیزیں کی بہت حوصلہ شکنی کی ہے۔ حضورﷺ کی بعثت کے وقت مشرکین میں ان علوم کا بڑ ا چرچا تھا، لیکن حضورﷺ نے ان چیزوں کی اتنی حوصلہ شکنی کی کہ صحابہ کرامؓ میں سے کسی نے ان چیزوں کی طرف کوئی توجہ نہیں کی۔یہ چیزیں انسان کو ضعیف الاعتقاد اور توہم پرست بنا دیتی ہیں۔ اس لیے ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ویسے بھی ان چیزوں میں مہارت کا دعویٰ کرنے والوں میں سے شاید ایک فی ایک لاکھ بھی مستند اور کھرے نہیں ہوتے۔ یہ سب چیزیں فتنہ ہیں۔ (البقرہ 2: 97- 103)
سوال: جادوٹونے کے متعلق دین کی ہدایت کیا ہے ؟
جواب: جادو ٹونے سیکھنے کو قرآن مجید کفر قرار دیتا ہے ، اس لیے ہر مسلمان کو اس سے بچنا چاہیے۔
سوال: کیا جادوٹونے کا توڑ کرنا چاہیے اور کیسے کرنا چاہیے ؟
جواب: اگر یہ ثابت ہوجائے کہ کسی پر جادو ٹونا ہوا ہے تو خدائی علم یعنی توحید کے ذریعے سے اس کا توڑ کرنا چاہیے۔ اس کا ایک طریقہ قرآن مجید خصوصاً آخری دو سورتوں کے ذریعے سے دم کرنا ، جس کی اجازت حضورﷺ نے دی ہے۔ تاہم جادو ٹونے کا اصل توڑ یہ ہے کہ انسان بندہ مومن بن کر رہے اور اللہ سے اس کی پناہ طلب کرے۔ پھر انشاء اللہ سفلی علوم کوئی اثر نہیں ڈال سکیں گے۔
(ویسے یہ بات قابل ذکر ہے کہ جن مریضوں کے متعلق خیال ہوتا ہے کہ پر جادو ہوا ، ان میں سے نوسونناوے فی ہزار، دراصل نفسیاتی مریض ہوتے ہیں۔ ایک نفسیاتی معالج کی حیثیت سے ، مجھے اپنی طویل پریکٹس کے دوران میں جادوٹونے کا کوئی ایک بھی حقیقی کیس نہیں ملا، حالانکہ اکثر مریض، جو علاج کے لیے لائے گئے ، ان کے بارے میں یقین کی حد تک یہ تصور پایا جاتا تھا کہ وہ جادو وغیرہ کے زیر اثر ہیں )۔
سوال: اسی طرح کے دوسرے علوم، مثلاً فال گیری، علم نجوم اور تعویز گنڈے وغیرہ کے بارے میں ہمارا کیا رویہ ہونا چاہیے ؟
جواب: یہ چیزیں برتاؤ کے اعتبار سے فتنہ ہیں۔ ان کے ذریعے سے انسان ضعیف الاعتقاد اور توہم پرست بن جاتا ہے۔ اس طرح وہ توحید سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ سائنسی اصطلاح میں بھی ان میں سے کوئی چیز علم کا درجہ نہیں پا سکی، اس لیے ایک بندۂ مومن کو ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔
سوال: قرآن مجید میں انسانی فہم کا مرکز قلب یعنی دل کو قرار دیا گیا ہے ، جب کہ سائنس کے مطابق انسانی فہم کا مرکز دماغ ہے۔ اس تضاد کو کیسے رفع کیا جائے ؟
جواب: قرآن مجید کے مطابق انسان کا نفس، جو ایک غیر مرئی چیز ہے ، کا مرکز دل ہے۔ دماغ تو، دراصل وہ کمپیوٹر ہے ، جواس نفس کی مرضی کے مطابق کام انجام دیتا ہے۔
سوال: کیا نجات کے لیے صرف ایمان لانا کافی ہے ، یا عمل بھی ضروری ہے ؟
جواب: حقیقی ایمان درخت کی جڑ کی مانند ہے۔ اگر یہ جڑ زندہ ہو، تو اس سے لازماً تنا بھی پھوٹے گا اور شاخیں بھی نکلیں گی۔ گویا اگر عمل سرے سے موجود ہی نہ ہو، تو حقیقی ایمان موجود ہی نہیں ہو سکتا۔
سوال: جب ہم دین ودنیا کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے اس اصطلاح میں ’’دنیا سے کیا مراد ہے اور ’’دین‘‘ سے کیا مراد ہے ؟
جواب: اس اصطلاح میں دنیا سے مراد وہ سب کچھ ہے ، جسے انسان اپنی عقل استعمال کر کے تجربے اور مشاہدے کے ذریعے سے سیکھتا ہے ، مثلاً تمام سائنسی ایجادات، کاروبار، رہائش اور کاشت کے نئے نئے طریقے وغیرہ۔
اس کے برعکس دین سے مراد وہ فکروعمل ہے ، جسے انسان محض عقل کے استعمال سے دریافت نہیں کرسکتا۔ البتہ اگر یہ دین انسان کو بتادیا جائے تو اس کی عقل اس کے صحیح ہونے کو جان سکتی ہے۔
حضورﷺ ہمیں ، اصلاً دین سکھانے کے لیے آئے تھے ، جو قرآن وسنت میں مکمل طور پر محفوظ ہے۔ جہاں تک دنیا کے تجربے اور مشاہدے کا تعلق ہے ، تو اس کے جواز وعدم جواز کا فیصلہ دین کے اصولوں کے تحت کیا جائے گا۔
سوال: جب ہم ’’دنیا اور آخرت‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں ، تو اس میں دنیا سے کیا مراد ہے اورآخرت سے کیا مراد؟
جواب: قرآن مجید کے مطابق ہماری زندگی دوحصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ زندگی کا ایک حصہ اس کرہ ارض پر موجودہ شکل میں ہے اور اس کا دوسرا حصہ قیامت کے بعد آخرت کی زندگی کی شکل میں شروع ہو گا۔ موجودہ زندگی، امتحان اور آزمائش ہے اور آخرت کی زندگی انعام وا کرام ہے۔
اگر آخرت سے بے خوف ہوکر اس دنیا کی زندگی گزاری جائے تو پھر، یہ محض ایک عارضی کھیل تماشا، تفاخر، زینت اور ایک دوسرے سے آگے بڑ ھنے کی حرص کا نام ہے۔ گویا پھر آخرت کے زاویہ نگاہ سے یہ سراسر دھوکا ہے۔
سوال: ’اجماع‘ کے کیا معنی ہیں ؟
جواب: صحابہ کرامؓ نے دنے کی حیثیت سے جو چیز ہمیں ، اپنے کامل اتفاق سے پہنچائی ہے ، اسے ’اجماع‘ کہتے ہیں اور یہ دین میں حجت ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے ، تو صحابہ کرامؓ نے ہمیں صرف دو ہی چیزیں ، اپنے کامل اتفاق، یعنی اجماع سے پہنچائی ہیں۔ ایک قرآن اور دوسری سنت۔ ان کی پیروی ہر مسلمان کے لیے لازم ہے۔ ان کے علاوہ کسی بھی دوسری چیز کے لیے اجماع کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔
سواؒل: ایک مسلمان کو اس دنیا میں خدا کا بندہ بن کر رہنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دین ایک مسلمان کے بدنی یا حیوانی وجود کا تزکیہ کیسے کرتا ہے ؟
جواب: دنیا میں اسنان کو جو بھی نعمت بآسانی ملتی ہے ، وہ صرف یہ جاننے کے لیے ہے کہ کیا وہ اس پر شکر کا رویہ اختیار کرتا ہے یا نہیں۔ اسی طرح انسان کو یہاں جو بھی تکلیف یا تنگی پہنچتی ہے ، تو وہ بھی اس غرض سے ہے کہ کیا وہ اس پر صبر کا رویہ اختیار کرتا ہے یا نہیں۔ اس حوالے سے ، گویا ساری زندگی صبروشکر کے امتحان کا نام ہے۔
اپنے بدنی وجود کو پاک رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم وہ چیزیں نہ کھائیں اور نہ پئیں ، جن سے پروردگار نے ہمیں روکا ہے ، ہم اپنا بدن اسی طریقے سے پاک وصاف رکھیں ، جو طریقہ ہمیں حضورﷺ نے سکھایا ہے ، ہم اپنے جنسی جذبات کی تسکین صرف اسی طریقے سے کرے ، جو ہمیں دین نے بتایا ہے۔ ہمارا لباس ساد، باوقار اور شرم گاہ کو چھپانے والا ہو۔ ان ہدایات پر اگر ہم شعور کے ساتھ عمل کرتے ہیں ، تو یہ چیز ہمارے حیوانی وجود کے تزکیے کا باعث ہو گی۔
سوال: دین، انسان کے عقلی وجود کا تزکیہ کیسے کرتا ہے ؟
جواب: اس کا طریقہ یہ ہے کہ تعصب اور خواہشات وجذباتیت کا شکار ہونے کے بجائے انسان، شعوری طور پر، یہ فیصلہ کرے کہ وہ عقل کے فیصلے کو برتری دے گا۔اسے قرآن کریم تعقل کا نام دیتا ہے۔ یہ اس راستے کی پہلی چیز ہے۔
یہ تعقل انسان میں اسی وقت آ سکتا ہے ، جب وہ قرآن مجید پر ’’تدبر‘‘ یعنی غوروفکر کرے اور اسی غوروفکر کی روشنی میں اپنے آپ کا اور اس پورے کائنات کا جائزہ لے۔ تدبر اس راہ کی دوسری چیز ہے۔
اس مقصد کے لیے ضروری چیز ، تذکیر ہے ، یعنی انسان ہر وقت ان حقیقتوں اور نتائج کو اپنی سوچ میں تازہ رکھے جو قرآن کریم نے اسے بتائے ہیں۔ یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب قرآن مجید سے ایک زندہ تعلق پیدا کیاجائے۔ اور وہ شب وروز آدمی کے لیے غوروفکر کی سب سے اہم چیز بن جائے۔
سوال: ہم اپنے غیر مادی وجود، یعنی روحانی وجود کو کیسے پاک وصاف کریں ؟
جواب: اس کا راستہ صرف ایک ہے اور وہ ہے تعلق با اللہ۔ اس تعلق کا پہلا اظہار اللہ کا ذکر اور اسی کا شکر ہے۔ اس ذکر وشکر کو ہمیشہ قائم رکھنے کے لیے ہم پر نماز فرض کی گئی ہے۔ صحیح شعور، دھیان اور معنی کی سمجھ کے ساتھ، نماز سب سے بڑ ا شکر ہے۔ سمجھ کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت بھی ’’الذکر‘‘ہے۔
اللہ کے ساتھ وفاداری کا دوسرا اظہار اس کی راہ میں مال خرچ کرنا ہے۔ اسے ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ کہتے ہیں۔ اس کی کم سے کم حد زکواۃ ہے۔
اللہ کے ساتھ تعلق کا تیسرا اظہار پرہیزگاری اور حدود آشنائی ہے۔ اس کے لیے اپنے آپ پر بعض اوقات معمول سے زیادہ پابندیاں لگانی پڑ تی ہیں۔ اس کا طریقہ روزہ اور اعتکاف وغیرہ ہیں۔
اللہ کی وفاداری کا چوتھا اظہار اللہ کے ساتھ محبت ہے۔ حج وعمر ہ کی عبادت اسی محبت الہٰی کی ایک جامع تعبیر ہے۔ اس میں بندہ، دیوانہ وار اللہ کے گھر کی طرف لپکتا ہے۔ اور طواف کی صورت میں شمع وپروانہ کی حکایت تازہ کرتا ہے۔
اسلامی حکومت جب ظلم وعدوان کو ختم کرنے یا انصاف قائم کرنے کے لیے ، مومنوں کو اپنی جان پیش کرنے کے لیے کہتی ہے ، تو اس وقت بھی خدا سے محبت وخلوص واظہار کا ایک بڑ ا موقع قتال فی سبیل اللہ کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
سوال: ہم اپنے اخلاق کو کیسے پاک کرسکتے ہیں ؟
جواب: اخلاق کے ضمن میں حضورﷺ کی زندگی ہمارے لیے مثالی نمونہ ہے۔ اخلاق کا سب سے پہلا اظہار گھر اور خاندان سے ہوتا ہے۔ اس میں قرآن مجید نے ہمیں حسنِ معاملہ، صلہ رحمی اور حیا کا جو حکم دیا ہے اور حضورﷺ کی سنت سے جو تصویر ہمارے سامنے آتی ہے ، وہی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
اخلاق کا دوسرا دائرہ گلی محلے کا ہے۔ چنانچہ دین نے ہمیں پڑ وسیوں اور عزیزوں کے معاملے میں جو تعلیم دی ہے۔ ان کی پابندی کرتے رہنے سے ہمارا اخلاق نکھرتا ہے۔
اخلاق کا تیسرا اظہار معیشت کے دائرے میں ہوتا ہے ، جب انسان اپنے کاروبار یا ملازمت کے سلسلے میں معاشرے سے متعلق ہوتا ہے۔ چنانچہ دین نے اس معاملے میں ہم پر حلال وحرام کی جو پابندیاں عائد کی ہیں ، ہمیں ہر وقت ان سب کا پورا پورا خیال رکھنا چاہیے۔
اخلاق کا چوتھا اظہار اپنے معاشرے سے عمومی تعلق کا ہے۔ ہر مسلمان اپنے ماحول اور معاشرے میں ، اپنے حیثیت کے مطابق، اصلاح کا ذمہ دار ہے جہاں اسے اختیار حاصل نہیں ، وہاں اس کی ذمہ داری نصیحت اور خیر خواہی کی بات کہنے کی ہے اور جہاں اسے اختیار حاصل ہو، وہاں اسے برائی کو روکنے کے لیے عملی اقدام بھی کرنا چاہیے۔
چونکہ ایک انسان، بدرجہ آخر، ریاست سے متعلق ہوتا ہے۔ اس لیے اس پانچویں دائرے میں ہر مسلمان کو اپنی ریاست کا وفادار اور خیرخواہ رہنا چاہیے اور اسے فرماں بردار وقانون پسند شہری ہونا چاہیے۔ اگر ریاست کے حکمران بگڑ جائیں تو ان کے سامنے کلمہ حق کا کہنا بھی ہر مسلمان کے اخلاق کا تقاضا ہے۔ ریاست کا کوئی واضح غیر اسلامی حکم ماننا ضروری نہیں۔ مثلاً اگر ریاست شراب پینے کا حکم دے تو ایسے حکم پر عمل نہ کیا جائے۔