HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Dr. Farooq Khan

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

حدیث

ساتواں باب

حدیث

سوال: حدیث کے معنی کیا ہے ؟

جواب: حدیث، حضورﷺ کے قول وفعل اور تقریر(یعنی کسی بات پر خاموشی) اورتصویب کی وہ روایت ہے ، جس کی اطلاع ہمیں کچھ افراد کے ذریعے سے ملی ہے۔

سوال: حدیث کا قرآن وسنت سے کیا تعلق ہے ؟

جواب: حدیث، قرآن وسنت کی توضیح کرتی ہے۔ مثلاً اگر روایات کے تمام ذخیرے کا بغور جائزہ لیا جائے ، تو معلوم ہوتا ہے کہ عام طور پر کوئی روایت درج ذیل سات چیزوں میں سے کوئی ایک ہوتی ہے :

1 حدیث، براہ راست، قرآن مجید یا سنت رسولﷺ کو بیان کرتی ہے۔ یعنی حضورﷺ نے کسی استفسار کے جواب میں قرآن مجید کا کوئی حصہ یا اپنی کسی سنت کو بیان کیا اور روایوں نے آپ کا یہ ’’بیان‘‘ روایت کیا مثلاً قرآن مجیدنے ایمانیات کا ذکر کیا ہے اور حضورﷺ نے لوگوں کو تعلیم دینے کی غرض سے ان ایمانیات کو مختلف پیرایوں میں بیان کر دیا ہے۔ اسی طرح سنت میں اس کی ایک مثال وہ احادیث ہیں ، جن میں آپؐ نے رات اور دن کی نمازیں ادا کی ہیں۔

2 حدیث، قرآن وسنت پر حضورﷺ کی عمل کا بیان ہوتی ہے ، یعنی کسی صحابی نے آپؐ کو قرآن مجید کے کسی حکم پر یا اپنی ہی جاری کردہ کسی سنت پر عمل کرتے ہوئے دیکھا اور اسے روایت کر دیا۔ قرآن مجید کے حکم پر آپؐ کے عمل کی مثال وہ روایت ہے جس میں تحویل قبلہ کے حکم پر، نماز کے دوران ہی میں عمل کرنا روایت ہوا ہے۔ سنت میں اس کی مثال وہ روایت ہے جس میں حضرت عثمانؓ نے حضورﷺ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا اور انہوں نے آپؐ کا یہ عمل بیان کر دیا۔

3 حدیث، قرآن وسنت میں موجود کسی اصل کی فرع(تنے سے نکلی ہوئی کوئی شاخ) بیان کرتی ہے۔ مثلاً قرآن مجید میں ایمان کے پانچ اجزا بیان کیے گئے ہیں ، جب کہ حدیث میں ایمان با اللہ ہی کی ایک شاخ ، یعنی ایمان بالقدر کو بھی ایمانیات میں شامل کیا گیا ہے۔ اسی طرح قرآن مجید نے وضو کرتے ہوئے ، چہرہ دھونے کا حکم دیا اور حضورﷺ نے بتایا کہ کلی کرنا اور ناک اندر سے صاف کرنا بھی چہرہ دھونے کا ایک حصہ ہے۔

4 حدیث، قرآن وسنت کی کسی بات کی تشریح کرتی ہے ، مثلاً قرآن مجید میں ارشاد ہے :

’’حقیقت میں تو امن انہی کے لیے ہے اور راہ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائیں اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا۔‘‘ (الانعام82-6)

اس پر بعض صحابہ ؓ نے پوچھا کہ ظلم تو ہم میں سے ہر ایک سے کبھی نہ کبھی ہوجاتا ہے ، چنانچہ حضورﷺ نے اس کی تشریح میں ارشاد فرمایا کہ یہاں ظلم سے مراد، دراصل شرک ہے۔

5 حدیث، قرآن کے بیان کردہ حکم کے اصل سبب (یعنی علت) کو بنیاد بنا کر اس میں مزید چیزوں کو بھی قیاس کے ذریعے سے شامل کر لیتی ہے۔ مثلاً قرآن مجید نے شراب نوشی اس وجہ سے حرام کی کہ وہ نشہ آور ہے ، چنانچہ حضورﷺ نے اس حکم کے اصل سبب کو بیان کرتے ہوئے ، اس کی وسعت یہاں تک بیان کی کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔

6 حدیث، قرآن وسنت کے کسی حکم کی حکمت یا حقیقت بیان کرتی ہے۔ مثلاً قرآن مجید نے زکوٰاۃ ادا کرنے کا حکم دیا تو نبیﷺ نے زکواۃ کی حکمت بیان کرتے ہوئے کہ’’زکواۃ اسلام کا خزانہ ہے ‘‘۔ اسی طرح قرآن مجید میں احسان کی اصطلاح باربار آئی ہے۔ حدیث نے اس کی حقیقت واضح کی کہ یہ دراصل، اس بہترین حالت میں کسی عمل کو سرانجام دینا ہے ، گویا آدمی خدا کو دیکھتے ہوئے وہ عمل کر رہا ہے۔

7 حدیث، قرآن وسنت کی پیروی میں حضورﷺ کا اسوہ حسنہ بیان کرتی ہے ، مثلاً آپؐ کا اخلاق وکردار، عبادات کا اہتمام، طریقہ دعوت وسیاست وغیرہ۔

حدیث درجہ بالا سات طریقوں سے قرآن وسنت کی تفہیم کرتی ہے۔ اس کے علاوہ کتب حدیث کی باقی روایات، دراصل غزوات، واقعات یا حضورﷺ کی رسالت سے پہلے کے زمانے سے متعلق ہے۔

سوال: قرآن وسنت کے متعلق تو حضورﷺ نے اتنا اہتمام فرمایا کہ یہ دونوں چیزیں ہمیں صحابہ کرامؓ کے کامل اجماع سے ملیں ، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ حدیث کے ضمن میں آپؐ نے ایسا کوئی اہتمام نہیں فرمایا۔ آپؐ نے عام طور پر نہ تو اپنی گفتگو تحریر کروائی اور نہ ہی کسی کو اس بات کا مکلف ٹھہرایا کہ لازماً آپ کی گفتگودوسروں تک بھی پہنچائے ، ایسا کیوں ہوا؟

جواب: اگر آپ درج بالا جواب کا ایک دفعہ پھر جائزہ لیں ، تو آپ کو معلوم ہو گا کہ احادیث کے کاموں میں سے آخری چار کام، یعنی اصل بنیاد کی شاخ، کسی متن کی شرح، حکم کی حکمت، کسی بات کی حقیقت اور اصل سبب کی وجہ سے کسی حکم کی وسعت، اپنی حقیقت میں قیاس واجتہاد کے کام ہیں۔ حدیث میں ان کا موجود ہونا اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ خود نبیﷺ نے ، ایک نبی کی طرح دین کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ایک عالم اور مجتہد کی طرح اس کی شرح و وضاحت بھی کی ہے۔ یہ واضح ہے کہ آپﷺ نبی ہونے کے ساتھ ساتھ دین کے سب سے بڑ ے عالم اور سب بڑ ے مجتہد بھی تھے۔ آپ ہی اس امت کے معلم اول اور مجتہد اول تھے (مجتہد اسے کہا جاتا ہے جو نئے سے نئے پیش آنے والے حالات میں ، دین کے احکام کو ان کی اصل بنیادوں پر قائم رکھتے ہوئے بیان اور واضح کرتا ہے )، اس لیے حضورﷺ کے زمانے میں جتنے سوالات اٹھے۔ ان کا جواب آپﷺ نے دیا اور قیامت تک یہ کام اس امت کے علماء اور مجتہد کرتے رہیں گے۔ تاہم قیاس واجتہاد کے اس کام میں ، جو رسول ﷺ نے کیا، اور اس میں جو آپؐ کی پیروی میں امت کے علماء نے کیا، ایک اہم فرق ہے۔ آپ، چونکہ معصوم عن الخطا تھے ، آپ کو خدا کی طرف سے حفاظت حاصل تھی اس لیے آپﷺ کاکام خطا سے پاک ہے۔ اس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں ، البتہ علمائے امت، چونکہ نبیﷺ کی طرح معصوم عن الخطا نہیں ، لہٰذا ان کی بیان کردہ رائے میں غلطی ہو سکتی ہے اور اس سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے۔

حدیث کے اس مطالعے اور تجزئے سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ نبیﷺ نے اسے اپنی امت میں قرآن وسنت کی طرح جاری کیوں نہیں فرمایا۔ اگر حدیث میں ، قرآن وسنت کی طرح، دین کی اصل اور بنیاد ہوتی، یعنی اصل اور بنیاد کے اعتبار سے ، دین کا کچھ حصہ حدیث بھی علیحدہ سے موجود ہوتاتو ، یہ ضروری تھا کہ امت کو آپﷺ سے حدیث بھی، قرآن وسنت کی طرح، محفوظ شکل میں ملتی۔ جس طرح قرآن کے کتاب اللہ ہونے میں کوئی نزاع نہیں ہے ، اس طرح کسی حدیث کے قول رسول ہونے میں کوئی تنازع نہ ہوتا۔ لیکن، چونکہ اس میں جو کچھ بھی بیان ہوا ہے ، وہ اپنی اصل اور بنیاد کے اعتبار سے ، قرآن وسنت میں موجود اور محفوظ ہے ، اس لیے حضورﷺنے اسے قرآ ن وسنت کی طرح امت میں جاری نہیں فرمایا۔

اس تفصیل سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کی حفاظت کا اہتمام قرآن وسنت کے درجے میں کیوں نہیں کیا گیا۔ درحقیقت، قرآن وسنت کا تعلق تو ہر مسلمان کے روزمرہ علم وعمل سے ہے ، اس لیے اس کے بارے میں یہ اہتمام لازم ہے کہ یہ ہر انسان تک پہنچے۔ جب کہ حدیث کا تعلق، زیادہ تر علماء ومجتہدین ہی سے ہے اور یہ وہ طبقہ ہے جو اپنے کام کی چیزوں کی حفاظت ، اپنی فطری طبیعت اور مزاج کے باعث، اپنے جان سے بڑ ھ کر کرتا ہے ، اس لیے ان کو یہ کہنے کی ضرورت ہی نہ تھی کہ وہ حدیث کی حفاظت کریں۔ لہٰذا اس کے بارے میں علماء اور محدثین کی وہ محنت، جس کے نتیجے میں احادیث ان مجموعوں کی شکل میں مرتب ہوگئیں ، کفایت کرتی ہے۔

سوال: کیا تمام سنت حدیث کے مجموعوں میں محفوظ ہے ؟

جواب: یہ ضروری نہیں کہ کوئی سنت، احادیث کے مجموعے میں اتنی ہی اہمیت کے ساتھ آئے ، جتنی اہمیت کا وہ تقاضا کرتی ہے۔ مثلاً بچے کا ختنہ کرانا یا اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا اتنی ہی اہم سنت ہے کہ اس امت کا کوئی بچہ اس سے محروم نہیں رہا ہو گا، لیکن ایک آدھ حدیث کے علاوہ اس کا زیادہ تذکرہ نہیں ملتا۔

اگر حدیث زبانی روایت ہے تو سنت عملی روایت ہے۔ جو عملی روایت لاکھوں کروڑ وں مسلمان، اپنے متفقہ عمل کے ذریعے سے انجام دے رہے ہیں ، تو اس کے بارے میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں کہ حدیث میں اس کا مقام کیا ہے ؟

سوال: حدیث کو خبرواحد کہا جاتا ہے ، اس کا کیا مطلب ہے ؟ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حدیث ظنی ہے ، قطعی نہیں ، اس سے کیا مراد ہے ؟

جواب: حدیث ان معنوں میں ایک خبر ہوتی ہے کہ ایک یا بہت ہی محدود افراد نے دوسرے اور تیسرے درجے میں ایک دوسرے سے بات سنی ہوتی ہے ، حتیٰ کہ اس کا سلسلہ حضورﷺ تک پہنچ جاتا ہے۔ چونکہ عام طور پر کسی نہ کسی درجے میں یہ خبر ایک فرد ہمیں پہنچاتا ہے ، اس لیے اسے خبرواحد کہا جاتا ہے۔

یہ ممکن ہے کہ ایک فرد بات پوری طرح یاد نہ رکھ سکے ، یا وہ پوری بات بیان نہ کرے ، یا وہ یہ بیان نہ کرے کہ یہ واقعہ کب اور کہاں پیش آیا؟ یہ بھی ممکن ہے کہ اسے کوئی بات سمجھنے میں غلطی لگی ہو۔ اس طرح یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بیان کرنے والا فرد ناقابل اعتماد ہو، یا اس کے عقیدہ وعمل میں ایسی خرابی ہو، جس کی وجہ سے وہ بھروسے کے لائق نہ ہو۔

اسی طرح ایک بات جتنے زیادہ واسطوں سے ہم تک پہنچے ، اتنا ہی اس میں غلطی کا امکان بڑ ھ جاتا ہے۔ چنانچہ ان تمام نکات کی موجودگی میں یہ بات، بطور اصول کہی جاتی ہے کہ حدیث ظنی ہے ، قطعی نہیں۔ یعنی اس میں صحیح اور غلط دونوں کا امکان موجود ہے۔

سوال: حدیث کو جانچنے اور پرکھنے کا پیمانہ کیا ہے ؟

جواب: یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا کوئی حدیث قابل اعتماد ہے یا نہیں ، مثبت اور منفی دونوں طرح کے پیمانے موجود ہیں۔ وہ پیمانے درج ذیل ہیں :

1 حدیث، قرآن کے کسی حکم کے خلاف نہیں ہونی چاہیے۔ یہ شرط بالکل واضح ہے ، اس لیے کہ ہمارے دین میں حق وباطل کا معیار قرآن مجیدہے۔ ہر چیز کو قرآن مجید ہی کے ترازو میں تولا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کو ’فرقان‘ اور ’میزان‘ کہا گیا ہے۔

2 حدیث کسی سنت کے خلاف نہیں ہونی چاہیے۔ یہ شرط بھی بالکل واضح ہے ، اس لیے کہ حضورﷺ نے عملی دین ہمیں سنت کے ذریعے سے پہنچانے کا اہتمام اس طرح سے کیا کہ اسے بڑ ی کاوش کے ساتھ بڑ ی تعداد میں صحابہ کے سامنے بیان بھی کیا اور اس پر عمل بھی کیا۔ آپ نے دین کا کوئی بھی ضروری حصہ محض چند افراد کو بتادینے پر اکتفا نہیں کیا۔

3 حدیث، لازماً قرآن وسنت ہی کی کسی بات کی تشریح میں ہونی چاہیے۔ یہ شرط بھی بالکل واضح ہے ، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ حضورﷺ نے کوئی بنیادی بات، محض چند افراد کو بتائی ہو اور باقی امت کو اس سے محروم رکھا ہو۔ اس لیے حدیث ہمیں کسی ایسی بات کی خبر نہیں دے سکتی، جو قرآن وسنت کے لیے اجنبی ہو۔

4 قرآن انتہائی قابل اعتماد روایوں کے ذریعے سے ہم تک پہنچنی چاہیے ، جن کا حافظہ مضبوط ہو، جن کے عقیدہ وعمل میں کوئی خرابی نہ ہو اور جن کی گواہی بالکل صاف اور واضح ہو۔ بھلا رسول اللہ ﷺ کی بات کے معاملے میں ہم کسی ناقابل اعتماد انسان کی گواہی کیسے مان سکتے ہیں ؟

5 حدیث کی بات عقل وفطرت کے مسلمہ حقائق کے خلاف نہیں ہونی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ عقل وفطرت کے قوانین بھی خدا کی تخلیق کردہ ہے ، اور دین بھی خداہی کا دیا ہوا ہے ، اس لیے ان دونوں تضاد نہیں ہو سکتا۔

6 ایک حدیث پورے دین کا ایک حصہ بھی ہوتا ہے اور احادیث کے پورے ذخیرے کا بھی۔ اس لیے ہر حدیث کو سارے دین کی روشنی میں سمجھنا چاہیے اور اس کے صرف وہ معنی لینے چاہیں ، جو دین کے پورے نظام سے مطابقت رکھتے ہوں۔

7 یہ معلوم کرنا بھی بہت ضروری ہے کہ زیر بحث حدیث کا موقع ومحل کیا ہے۔ کیا وہ عام ہے یا کسی خاص موقع کے لیے ہے۔ اس میں خطاب کس سے ہے اور حضورﷺ نے وہ بات کب کہی۔

سوال: اگر کوئی حدیث بظاہر قرآن کے خلاف نظر آئے تو کیا کیا جائے ؟

جواب: عام طور پر ایسی صورتوں میں وہ حدیث قرآن کے کسی اور حصے کی تشریح کر رہی ہوتی ہے مگر غلطی سے اسے کہیں اور منطبق(apply) کرنے کی کوشش کی جا رہی ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں کوشش جاری رکھنی چاہیے تا وقت یہ کہ قرآن مجید سے اس کی صحیح تطبیق واضح نہ ہوجائے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ حضورﷺ نے بعض بدکاروں کو سو کوڑ وں کی سزا کے بجائے رجم یعنی عبرت ناک موت کی سزا دی۔ اس سے اس نقطہ نظر نے جنم لیا کہ سورۃ نور میں بیان کردہ سزا کو حضورﷺ نے شادی شدہ بدکاروں کے لیے منسوخ کر کے اس کے بجائے رجم کی سزا مقرر کی۔ حالانکہ اصل صورت یہ تھی کہ حضورﷺ نے ان مجرموں کو سورۃ مائدہ کی آیت محاربہ کے تحت عبرت ناک موت کی سزا دی تھی۔

اس کی ایک اور مثال تصویر اور موسیقی کے ضمن میں ممانعت والی روایات کی ہے۔ قرآن میں ان دونوں چیزوں کے حرام ہونے کا کوئی تذکرہ نہیں۔ اسی لیے یہ تاثر پھیلا کہ ان دونوں چیزوں کی حدیث کی بناپر حرام قرار دیا گیا ہے ، حالانکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ قرآن نے شرک اور بے حیائی سے منع کیا ہے۔ حضورﷺ نے قرآن کی اس ہدایت کے تحت اسی تصویر اور موسیقی کی ممانعت کی جو شرک اور بے حیائی کا باعث ہو (ان امور کی تفصیل اپنے متعلقہ مقام پر آئے گی)۔

گویا حدیث سے کوئی نیا دین ثابت نہیں ہوتا۔ حدیث کو قرآن وسنت کے تحت رکھا جائے تو ہر حدیث کا صحیح مقام متعین ہوجاتا ہے۔ تاہم جو حدیث واضح طور پر قرآن کے خلاف ہو، اسے قبول کرنا ممکن نہیں کیونکہ اسے قبول کرنے کی صورت میں قرآن رد ہوجاتا ہے۔

سوال: اگر کوئی حدیث بظاہر سنت کے خلاف نظر آ رہی ہوتو کیا کیا جائے ؟

جواب: اِس ضمن میں عام طور پر اصل صورت حال یہ ہوتی ہے کہ کسی خاص فعل کو مختلف طریقوں سے انجام دینے کی اجازت ہوتی ہے ، مگر اس کی کسی ایک شکل کو غلط فہمی سے لازمی سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہیں سے ایک بلا ضرورت اختلاف جنم لینے لگتا ہے۔

مثلاً عام طریقہ یہی ہے کہ نماز میں صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کانوں تک اٹھائے جائیں (یعنی رفع یدین کیا جائے )۔ تاہم صحیح روایات سے یہ بھی ثابت ہے کہ حضورﷺ نے مختلف دوسرے اوقات مثلاً رکوع میں جاتے وقت یا رکوع سے اٹھتے وقت بھی ہاتھ کانوں تک اٹھائے ہیں۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سنت تو صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرنے کی ہے ، اس لیے کہ اس پر پوری امت متفق ہے۔ تاہم دوسرے اوقات میں رفع یدین کرنا جائز اور مستحب ہے۔

اگر آپ درج بالا زاویے سے اس مسئلے کو دیکھیں گے تو نہ صرف یہ کہ سنت اور حدیث میں کوئی ٹکراؤ نہیں رہتا بلکہ ہمارے یہاں مختلف مسلکوں کے درمیان اختلافات اور تنگ نظری کی دیواریں بھی ختم ہوجاتی ہیں۔ تاہم اگر کوئی حدیث، سنت سے صریحاً متضاد ہو ہو تو اصول یہی ہے کہ حدیث کو چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ ہزاروں لاکھوں افراد کی گواہی ایک دو افراد کی گواہی سے یقینا زیادہ قوی چیز ہے۔

سوال: مشہور واقعہ ہے کہ حضورﷺ مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ وہاں کھجور کے کاشتکار اپنی فصلوں کو زیادہ بارآور بناے کے لیے ، مادہ پودوں پر نر پودوں کی شاخوں کی چھڑ کتے تھے۔ یعنی Cross polination کرتے تھے۔ حضورﷺ نے انہیں کہا کہ اگر وہ ایسانہ کریں تو ممکن ہے ، فصل زیادہ بہتر ہو۔ لیکن جب کاشت کاروں نے یہ عمل نہ کیا تو فصل اچھی نہیں ہوئی۔ جب حضورﷺ سے اس بارے میں پوچھا گیا، تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ مجھ سے صرف دین سیکھا کرو، دنیا کی باتیں تم مجھ سے بہتر جانتے ہو۔

چنانچہ سوال یہ ہے کہ حضورﷺ کا کون قول وفعل ہمارے لیے حجت ہے اور کون سا نہیں ؟ بلفاظ دیگر دین دین اور دنیا کی حدبندی کیا ہے ؟

جواب: اصول یہ نہیں ہے کہ حضورﷺ کا ہر قول وفعل ہمارے لیے واجب الاتباع ہے ، بلکہ اصول یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو آپﷺ نے دین کی حیثیت سے پیش کی، وہ ہمارے لیے لائق اتباع ہے۔ چونکہ یہ بات تفصیل طلب ہے۔ اس لیے ہم اس کی مزید وضاحت پیش کریں گے :

ہم جانتے ہیں کہ حضورﷺ ایک خاص زمانے میں پیدا ہوا۔ اس وقت سائنسی اور تہذیب وتمدن ایک خاص سٹیج پر تھی۔ لوگ اس زمانے میں موجود طریقوں سے علاج کرتے تھے۔ وہ موجودہ مادی ترقی سے ناواقف تھے اور وہ قوانین فطرت، جنہیں آج پرائمری سکول کا ایک طالب علم جانتا ہے ، اس وقت ذہنوں کی دسترس سے باہر تھے۔ اگر اللہ تعالیٰ اس وقت وحی کے ذریعے سے تمام سائنسی حقائق منکشف کر دیتا تو اس کا ایک نتیجہ تو یہ ہوتا کہ انسان آئندہ کے لیے تجربے اور مشاہدے کو استعمال نہ کرتا اور تمام سائنسی علم، اسے بغیر کسی مشقت کے مل جاتا۔ اس کا دوسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ رسول کی بعثت کا مقصد ہی فوت ہوجاتا۔ اس لیے کہ جو انسان ہر سائنسی ایجاد اور انکشاف پر قادر ہو، اس کے سامنے سرتسلیم خم کیے بغیر چارہ ہی نہیں تھا۔

چنانچہ انسانوں کی ہدایت کے متعلق اللہ نے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ وہ ہر چیز، جسے انسان کبھی بھی تجربے ومشاہدے سے دریافت نہیں کرسکتا، اسے قرآن وسنت کی شکل میں وحی کے ذریعے سے بتادی جائے اور وہ سب کچھ، جو عقل اور تجربے ومشاہدے کے استعمال سے انسان خود دریافت کرسکتا ہو، ان سب میں اسے فطری رفتار کے مطابق ترقی کرنے کا موقع دیا جائے۔ مثلاً ہم عقل کے استعمال سے کبھی بھی خدا کی صفات کی پوری طرح معلوم نہیں کرسکتے۔ تجربے و مشاہدے سے اس دنیا کی تخلیق کے مقصد کو نہیں جانا جاستکا، اس کا انجام نہیں معلوم کیا جا سکتا اور خالق کی ا سکیم کو بھی نہیں جانا جا سکتا۔ ہم اپنے فہم خدا کی عبادت کا صحیح طریقہ دریافت نہیں کرسکتے ، اس طرح وہ تمام چیزیں ، جن میں انسان کی عقل کبھی بھی صحیح فیصلے تک نہیں پہنچ سکتی، ان سب کا فیصلہ اللہ نے قرآن وسنت کے ذریعے سے کر دیا اور اس کے علاوہ باقی تمام معاملات انسانی عقل پر چھوڑ دیے۔ گویا جس چیز کی رہنمائی قرآن وسنت میں کی گئی، وہ دینی امور ہیں اور جو کچھ اس سے باہر ہے ، وہ دنیوی امور اور تجربے ومشاہدے کی جولان گاہ ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ کا ہر قول وفعل، جو آپﷺ نے قرآن وسنت کی تشریح میں ارشاد فرمایا، وہ ہمارے لیے دین کا حصہ ہے اور اگر آپ نے کوئی حکم، تجربے ، مشاہدے یا مخصوص حالات کی بنا پر دیا ہو، تو وہ دین کا حصہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضورﷺ کے زمانے کی طب، سائنس، طرز بودوباش اور وہ سب چیزیں جن کا ہمیں قرآن وسنت نے پابند نہیں کیا، ان کی پیروی اتباع رسول نہیں کہلائے گی۔ قرآن اور سنت سے باہر کی سب چیزوں کے بارے میں قرآن کا حکم یہ ہے کہ ہم اپنے عقل وفہم کو استعمال کریں۔

صحابہ کرامؓ اس حقیقت کو بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر معاملے میں یہ معلوم کرتے تھے کہ یہ وحی پر مبنی ہے یا تدبیر پر، اور جب حضورﷺ یہ بتاتے کہ یہ معاملہ تدبیر پر مبنی ہے تو صحابہ کرامؓ کھل کر بات کرتے اور بسا اوقات حضورﷺ دوسروں کی رائے کے مقابلے میں اپنی رائے چھوڑ دیتے۔ اس کو حضورﷺ کی حیثیتِ بشری کہا جاتا ہے ، جس کی طرف قرآن مجید نے باربار ہماری توجہ دلائی ہے کہ ان چیزوں میں حضورﷺ سب انسانوں کی طرح ایک بشر ہیں۔

اس حیثیت میں صرف حضورﷺ ہی نہیں بلکہ سب انبیا ورسل بشر ہیں اور ان کی حیثیتِ بشری کی اطاعت ہم پر لازم نہیں۔ مثلاً حضورﷺ کو حکم دیا گیا کہ تم ملت ابراہیمی کے طریقے کی پیروی کرو۔ (واتبع ملۃ ابراہیم حنیفا)تو اس حکم پر عمل درآمد کرنے میں حضورﷺ نے حضرت ابراہیمؑ کے زمانے کے ، ڈھائی ہزار سال پہلے کے تمدن کی پیروی نہیں کی، بلکہ دینی امور میں ملت ابراہیمی کا اتباع کیا۔ اسی طرح آج بھی ہم پر حضورﷺ کے زمانے کے لباس، طب اور ذرائع آمدورفت وغیرہ کی پیروی لازم نہیں ، بلکہ اس پیروی میں کوئی اجروثواب بھی نہیں۔

یہ قرآن حکیم اور سنت کا معجزہ ہے کہ اس کی کوئی بات قیامت تک کے لیے سائنس (علمِ تجربات ومشاہدات) کے خلاف نہیں ہو سکتی، حالانکہ اس وقت بے شمار اوہام وخرافات کو انسان، بطور حقیقت قبول کر رہا تھا۔ اگر قرآن وسنت اللہ کی طرف سے نہ ہوتیں تو اپنے دور کے اوہام وخرافات اس میں کہیں نہ کہیں ضرور آتے۔ دوسری طرف اللہ نے قرآن کو سائنسی ایجادات وانکشافات کی کوئی کتاب بھی نہیں بننے دیا، تاکہ انسان کے تجربے ومشاہدے کا علم اپنے فطری رفتار سے آگے بڑ ھتا رہتا۔

نزول قرآن کے وقت حضورﷺ عام اصحابہ کو احادیث لکھنے سے منع کرتے تھے ، تاکہ احادیث قرآن مجید کے ساتھ خلط ملط نہ ہوں۔ تاہم بعض ایسے صحابہ کرامؓ کو آپﷺ نے احادیث جمع کرنے اور لکھنے کی اجازت بھی دی، جو صرف احادیث جمع کرنے کاکام کرتے تھے۔ بعض اوقات آپﷺ اس بات کی تاکید بھی فرماتے کہ جو لوگ موجود نہ ہوں ، ان تک آپؐ کی باتیں پہنچائی جائیں۔ جن صحابہ کرامؓ نے احادیث کو لکھنے اور قلم بند کرنے کا اہتمام کیا، ان میں حضرت ابوہریرہؓ، عبداللہ ابن عباس، حضرت عائشہؓ صدیقہ، عبداللہ ابن عمرؓ، جابر ولیدؓ، انس بن مالک، ابوسعید خدریؓ اور ان کے علاوہ بہت سے دوسرے نام شامل ہیں۔ یہ سب دراصل امت کے ابتدائی دور کے علما اور مجتہدین ہیں۔ ان صحابہ کرامؓ نے پندرہ سے زیادہ مجموعے مرتب کیے۔ اس کے بعد بے شمارتابعین (یعنی وہ افراد جنہوں نے حضورﷺ کے اصحاب کا زمانہ دیکھا) نے اس کام کو مزید آگے بڑ ھایا، حتیٰ کہ دو ڈھائی صدیوں کے اندر اندر احادیث کو موضوعات، اسناد اور دوسری خصوصیات کے طریق پر، بہت جانفشانی اور دقت نظر سے مرتب کیا گیا۔

چونکہ سابقہ دور کے تمام مجموعے ، بعد کے ادوار کے مجموعوں کا حصہ بنتے رہے ، اس لیے علمی و عملی اعتبار سے بعد کے مجموعوں کو وقعت اور شہرت حاصل ہوئی۔ اس دوران حدیث سے متعلق کئی علوم بھی وجود میں آئے۔ جن میں سب سے اہم علم اسماء الرجال ہے ، یعنی ایک حدیث جتنے افراد کے ذریعے سے پہنچی ہے ، ان تمام افراد کے حالات زندگی کی تحقیق کر کے یہ معلوم کرنا کہ ان میں سے ہر ایک کس حد تک قابل اعتماد ہے۔

اس طرح وہ مجموعے وجود میں آئے جو آج بھی ہمارے لیے سرمایہ افتخار ہیں۔ ان میں تین کتابیں موطا امام مالک، صحیح بخاری اور صحیح مسلم سب سے اہم ہیں۔

سوال: احادیث کی اہم کتابیں کون کون سی ہے ؟

جواب: احادیث کے درج ذیل مجموعے ، سب سے زیادہ قابل اعتماد اور اہم ہیں :

1 موطا امام مالک

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کتاب حضورﷺ کی وفات کے کم وبیش ایک سو سال بعد مرتب کی۔ اس میں کم وبیش ایک ہزار احادیث ہیں۔ اس مجموعے کی سب بڑ ی خوبی یہ ہے کہ یہ مختصر اور جامع ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اس مجموعے میں ، بطور اصول، کسی بدعتی شخص کی روایت نہیں لی۔ آپ اس بات پر بھی اصرار کرتے ہیں کہ روایت میں راوی کے بجائے حضورﷺ کے اصل الفاظ ہونے چاہیں ، اس لیے اس مجموعے کا ادبی معیار بھی بہت اعلیٰ ہے۔ ان خصوصیات کی بنا پر اس کتاب کی بڑ ی اہمیت ہے۔

2 صحیح بخاری

یہ کتاب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا ایک عظیم کارنامہ ہے۔ یہ کتاب حضورﷺ کی وفات کے دوسو سال بعد مرتب ہوئی۔ اس میں تقریباً چار ہزار احادیث شامل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ روایت کے معاملے میں بہت سخت معیار رکھتے ہیں۔ مثلاً ایک راوی نے دوسرے راوی سے حدیث روایت کی، مگر ان کی ملاقات ثابت نہیں ہے ، تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایسی حدیث کو اپنی کتاب میں شامل نہیں کیا۔ انہوں نے اس کتاب کے عنوانات مقرر کرنے میں بہت وسعت علم اور تفقہ فی الدین کا ثبوت دیا ہے۔

3 صحیح مسلم

یہ کتاب امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے حضورﷺ کی وفات کے تقریباً سوادوسو سال بعد مرتب کی۔ اس مجموعے میں بھی تقریباً چار ہزار احادیث شامل ہیں۔ یہ کتاب حسنِ ترتیب کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ امام مسلم نے انتخاب حدیث میں امام بخاری کے مقابلے میں وسعت سے کام لیا ہے۔ اگرچہ معیار میں یہ کتاب بھی بہت بلند ہے۔ اسی طرح ابواب کی تدوین میں بھی حدیث کے مضمون کا لحاظ کرتے ہوئے احادیث جمع کی ہیں۔

سوال: ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ صحاح ستہ، خصوصاً صحیح بخاری وصحیح مسلم کے مصنفین نے اپنی کتابوں میں تحقیق کا حق آخری درجے تک ادا کر دیا ہے۔ اس لیے اب یہ کتابیں دین کے لحاظ سے ہم پر حجت ہیں۔ ان میں شامل کسی حدیث پر کوئی تنقید یارائے زنی نہیں ہو سکتی۔

جواب: یہ نقطہ نظر بھی صحیح نہیں ہے۔ درج بالا کتابوں کے مصنفین اس امت کے بہت عظیم لوگ تھے۔ تاہم وہ انسان تھے اور ان سے کسی راوی کے حالات معلوم کرنے میں غلطی ہو سکتی ہے۔ ان کے متعین کردہ معیار سے بھی اختلاف ممکن ہے۔ آج اصل ماخذ کی کتابوں (Source Books) کی دستیابی اور بے شمار محققین کے کام کی وجہ سے راویوں کے حالات میں نئی نئی باتیں سامنے آ سکتی ہیں۔ کسی خاص معاملے میں ان کے فہم سے اختلاف بھی ممکن ہے۔ اس لیے کہ محمدرسول اللہ ﷺ کے علاوہ کوئی بھی انسان اور علمی کاوش، تنقید اور جرح سے بالاتر نہیں۔

ان محدثین نے ایک دوسرے سے بھی اختلاف کیا ہے۔ کسی محدث سے اختلاف اگر جرم ہوتا تو کوئی محدث یہ کام نہ کرتا۔ مثلاً صحیح بخاری کے کئی راوی، امام مسلم کی نظر میں قابل اعتماد نہیں ہیں۔ اس طرح صحیح مسلم کے کئی راوی، امام بخاری کی نظر میں قابل قبول نہیں ہیں۔ اگر آج بھی اختلاف کیا جاتا ہے تو وہ اسی طرح دلیل کی بنیاد پر ممکن ہے ، جیسا کہ ماضی میں تھا۔

سوال: ایک گروہ کا استدلال ہے کہ روایات کی معتبر کتابوں میں ایسی احادیث بھی ہیں جو دین کی بنیادوں کے خلاف ہیں۔ مثلاً ان میں عصمت انبیاء کی نفی کی گئی ہے یا وہ عقل، فطرت اور سائنس کے بالکل خلاف ہیں۔ اس لیے یہ پورا مجموعہ ہی ناقابل التفات ہے اور دین کے معاملے میں اس سے کوئی رہنمائی نہیں لینی چاہیے۔

جواب: یہ نقطہ نظر صحیح نہیں ہے۔ بلا شبہ ایسی روایات موجود ہیں جو قرآن مجید یا عقل وفطرت کے خلاف ہیں ، لیکن اگر کئی ہزار احادیث کے مجموعوں میں ایسی دواڑ ھائی سوروایات موجود ہوں تو ان کی وجہ سے اس قیمتی ذخیرے کو دریا برد کرنا کہاں کی عقل مندی ہے ؟ ان چند سو احادیث کو بڑ ی آسانی کے ساتھ چھانٹا جا سکتا ہے ، ان پر بحث کی جا سکتی ہے۔ ان میں سے کئی روایات کی توجیہہ و وضاحت بھی ممکن ہے۔

سوال: جو روایات عقل وفطرت کے خلاف پیش کی جاتی ہیں ، ان میں دومثالیں سب زیادہ نمایاں ہیں۔ صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق حضرت ابوہریرہؓ نے حضورﷺ سے روایت کی کہ آپؐ نے فرمایا:

’’جب گرمی زیادہ ہوتو نماز کو ٹھنڈ کے وقت پڑ ھا کرو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کے جوش سے زیادہ ہوتی ہے۔ آگ نے پروردگار سے شکایت کی کہ میرے ایک حصے نے دوسرے حصے کو کھالیا تو اللہ نے اس کو دو مرتبہ سانس لینے کی اجازت دی یعنی ایک سانس جاڑ ے اور ایک سانس گرمی میں۔ یہی سخت گرمی وسردی ہیں جنہیں تم محسوس کرتے اور دیکھتے ہو۔‘‘

دوسری روایت کے مطابق حضورﷺ نے فرمایا: ’’تم اپنی نماز میں نہ طلوع آفتاب کا وقت آنے دو، نہ غروب آفتاب کا، اس لیے کہ آفتاب شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع وغروب ہوتا ہے۔

آخر ایسی روایت کی کیا توجیہہ ہے ؟

جواب: چونکہ احادیث میں عام طور پر کسی بات کا پس منظر بیان نہیں ہوتا، بلکہ روایت کرنے والے نے درمیان سے چند فقرے لے کر اس کی روایت آگے بیان کر دی ہوتی ہے اس لیے بعض اوقات بات کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا۔ اس کو ہر شخص جانتا ہے کہ اگر کسی کی پوری تقریر سنی جائے تو اس سے مدعا پوری طرح واضح ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر اس میں سے چند فقرے آگے پیچھے کاٹ کر لے لیے جائیں تو پس منظر میں جائے بغیر بات واضح نہیں ہوتی۔

یہی حالت درج بالا دونوں مثالوں کی ہے۔ ان میں سے پہلی روایت میں حضورﷺ دراصل یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ دنیا، جنت اور جہنم کا ایک چھوٹا سا ناقص نمونہ ہے ، جس میں نعمتوں کا ظہور بھی ہوتا ہے اور تکالیف بھی آتی ہیں۔ اگر ہم دنیا میں تکلیف برداشت نہیں کرسکتے تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم جہنم کی تکلیف کیسے برداشت کرسکیں گے۔ چنانچہ حضورﷺ نے اسی بات کو ایک تمثیل کی شکل میں بیان کیا کہ دنیا کی گرمی وسردی، آخرت کی گرمی وسردی کا ایک ہلکا سا عکس ہیں۔ جس طرح ہم اس گرمی سے پناہ مانگتے ہیں اور اس میں نماز تک پڑ ھنے کے روادار نہیں ہوتے ، اسی طرح ہمیں آخرت کی گرمی کے بارے میں بھی خبردار رہنا چاہیے۔

جہاں تک آگ کا پروردگار کے حضور درخواست کرنے کا تعلق ہے تو قرآن مجید سے یہ بات ثابت ہے کہ ہر مخلوق مثلاً زمین، آسمان اور پتھر تک ایک خاص انداز میں اپنے پروردگار کے حمدوثنا اور اس کے حضور میں درخواست کرتے ہیں۔

دوسری روایت دراصل شرک سے مسلمانوں کو خبردار کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایک زمانے میں سورج پرستی کا بڑ ا دور دور ہ تھا۔ دنیا کے ایک بڑ ے حصے میں سورج کی عبادت کی جاتی تھیں۔ خود حضورؐ کے زمانے میں ایران، آتش پرستوں کا گڑ ھ تھا اور وہ سورج کے طلوع وغروب کے وقت اس کی عبادت کرتے تھے۔ چنانچہ مسلمانوں کو شرک کے کسی بھی سائے سے بچانے کی خاطر سورج کے طلوع وغروب کے وقت میں نماز کی ممانعت کر دی گئی۔

انسا ن کے دل میں شرک کا ہر وسوسہ شیاطین ہی ڈالتے ہیں ، خواہ وہ جنوں میں سے ہوں یا انسانوں میں سے ، چنانچہ سورج کے طلوع وغروب ہونے کے وقت یہ شیاطین نہایت خوش ہوتے ہیں کہ انسان کو گمراہ کرنے اور اس سے شرک سرزد کرانے کا یہ ایک سنہری موقع ہے۔ تمثیل کے رنگ میں ہم یوں دیکھتے ہیں کہ گویا شیطان طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت خوشی کے مارے سورج کو اپنی سینگوں میں اٹھائے ہوئے ہوتا ہے۔

عربی زبان میں شیطان کو اس طرح کے محاوروں اور مثالوں میں استعمال کرنا بالکل عام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے بھی ایسی تشبیہات استعمال کی ہیں۔ مثلاً شیطان کی چھوت سے باؤلا ہونا یا شیطان کے سر کی تشبیہ۔

دراصل جب محاورہ، تمثیل، تشبیہ اور استعارہ کو غلط فہمی کے باعث اپنے لغوی معنی میں لے لیا جائے اور پھر اسے اپنے سیاق وسباق سے بھی کاٹ دیا جائے تو بات بالکل بگڑ جاتی ہے۔ اس کی ایک دلچسپ مثال صحیح بخاری ہی کی ایک روایت کا واقعہ ہے کہ حضورﷺ کی بیبیوں نے آپ سے عرض کی کہ وفات کے بعد سب سے پہلے آپ سے کون ملے گا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: ’’جس کا ہاتھ تم میں سب سے لمبا ہو گا۔‘‘ جب ان سب نے اپنے ہاتھ ناپنے شروع کیے تو حضرت سودہؓ کا ہاتھ سب سے لمبا نکلا۔ مگرہوا کہ یہ سب سے پہلے حضرت زینبؓ کی وفات ہوئی، تب امہات المومنین کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ دراز ہاتھ کے اصل معنی محاورے کے اعتبار سے تو زیادہ صدقہ دینے کے ہیں۔ (یاد رہے کہ حضرت زینبؓ بہت زیادہ سخاوت کرنے والی خاتون تھیں )۔ مگر اس کو غلطی سے انہوں نے اپنے لغوی معنی میں لے لیا۔

جن روایات پر عقل وفطرت اور سائنس کی رو سے اعتراض کیے جاتے ہیں ، ان میں سے اکثر کی حقیقت یہی ہے۔

سوال: روایات میں جو باتیں دینی مزاج کے خلاف آتی ہیں ، ان میں سب سے نمایاں مثال حضرت موسیٰؑ کے متعلق جناب ابوہریرہؓ کی یہ روایت ہے کہ بنی اسرائیل برہنہ ہوکر غسل کرتے تھے اور ان کو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے میں کوئی عار نہ تھی۔ مگر حضرت موسیٰؑ اکیلے غسل کرتے۔ اس پر بنی اسرائیل میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں کہ حضرت موسیٰؑ ہمارے ساتھ شائد اس لیے غسل نہیں کرتے کہ انہیں ہر نیا کی شکایت ہے۔ آخر کار ایک دن ایسا ہوا کہ جب حضرت موسیٰؑ اکیلے نہا رہے تھے اور اپنا لباس پتھر پر رکھا ، تو وہ پتھر ان کا لباس لے بھاگا۔ حضرت موسیٰؑ اس کے پیچھے یہ کہتے ہوئے دوڑ ے کہ اے پتھر! میرے کپڑ ے دے دے۔ اے پتھر! میرے کپڑ ے دے دے۔ اس پر بنی اسرائیل نے آپ کو برہنہ کر دیکھا اور کہا کہ واللہ ان کو کو تو کوئی بیماری نہیں۔ موسیٰؑ نے اپنے کپڑ ے لیے اور پتھر کو مارنے لگے۔

یہ روایت ہر اعتبار سے ناقابل فہم ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ حیاتو انسان کے ضمیر میں پروردگار نے حضرت آدمؑ کے وقت سے ودیعت کی ہے اور قرآن خود اس پر گواہ ہے۔ پھر بنی اسرائیل کو برہنہ نہانے کی اجازت کیسے دی گئی اور حضرت موسیٰؑ کیسے برہنہ بھاگنے لگے اور پتھر بھاگا تو حضرت موسیٰؑ کو اس کے پیچھے برہنہ دوڑ نے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ اپنے ستر کی حفاظت کے لیے پروردگار سے دعا کے ساتھ دوسری تدابیر بھی اختیار کرسکتے تھے۔

آخر ایسی روایات کی کیا توجیہہ ممکن ہے ؟

جواب: درج بالا حدیث پر غوروفکر کے ضمن میں حکمت سے کام لینے یا نہ لینے کی ایک دلچسپ مثال ہے۔ دراصل کبھی کبھی یوں بھی ہوتا تھا کہ حضورﷺ بنی اسرائیل یا مشرکین کے غلط قصوں اور اوہام کی تردید کرتے ہوئے ان سے مسلمانوں کو خبردار کرتے۔ لیکن ایسا بھی ہوا کہ کوئی فرد درمیان میں آیا اور اس نے حضورﷺ کی تنقید سنے بغیر صرف یہی قصہ سنا۔ گویا وہ محفل میں کی گئی پوری بات کے سیاق وسباق سے بے خبر تھا۔ چنانچہ خود صحیح بخاری ہی میں اس کی دلچسپ مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً جب حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے روایت بیان کی کہ حضورﷺ کے فرمان کے مطابق تین چیزوں یعنی گھوڑ ے ، عورت اور گھر میں نحوست ہے تو اس پر حضرت عائشہؓ نے تبصرہ کیا کہ عبداللہ بن عمرؓ نے تو ہمیں گھوڑ وں اورگدھوں کے برابر کر دیا۔ اصل بات یوں نہیں تھی بلکہ یہ تھی کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ اہل جاہلیت گھوڑ ے ، گھر اور عورت میں نحوست سمجھتے تھے ، مگر ان تینوں چیزوں میں کوئی نحوست نہیں۔

اسی طرح جب حضرت ابوہریرہؓ سے یہ روایت منسوب کی گئی کہ پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے تو ایک دوسرے صحابی نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا ہے تو پھر گرم پانی سے کلی کرنے اور غرارہ کرنے سے بھی وضو ٹوٹ جانا چاہیے۔

چنانچہ دیکھیے کہ درج بالا حدیث میں کیا ہوا۔ صاف معلوم ہورہا ہے کہ حضورﷺ کسی محفل میں بنی اسرائیل کے ہاں مشہور فضول قصے کہانیاں کو نقل کر کے مسلمانوں کو بتا رہے تھے کہ یہودیوں نے کیسی کیسی غلط داستانیں اپنے انبیا سے منسوب کر رکھی ہے ، جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، لیکن کسی راوی نے حضورﷺ کی زبانی صرف یہ قصہ سنا اور پوری بات سے سنے بغیر اسے آگے بیان کر دیا۔ چنانچہ اس سے غلط فہمی میں ڈالنے والی ایک روایت نے جنم لیا۔

بہر حال ان سب مثالوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہر روایت کو قرآن وسنت اور عقل عام کسوٹی پر پرکھنا کتنا ضروری ہے۔

سوال: ایک عام مسلمان کے لیے حدیث کا فنی علم حاصل کرنا کتنا ضروری ہے ؟

جواب: حدیث کے فنی علم سے مراد ہے کہ فن حدیث کی اہم کتب کو سمجھا جائے۔ ایک عام مسلمان کے لیے اس فنی علم کی ضرورت نہیں۔ یہ علم دراصل ان لوگوں کی ضرورت ہے جو دین میں تحقیق کاکام کرنا چاہتے ہوں۔

دور جدید میں عام افراد کے لیے بھی احادیث کے بہت سے اچھے مجموعے مرتب کیے گئے ہیں جن کے مطالعے سے ایک عام آدمی کے سامنے دین کی حکمتوں اور اچھے اخلاق وکردار کی وضاحت ہوتی ہے۔ ان میں ’’معار ف الحدیث‘‘ ازمولانا منظور نعمانی، ’’زادراہ‘‘ اور ’’راہ عمل‘‘ از مولانا جلیل احسن ندوی، ’’انتخاب حدیث‘‘ از عبدالغفار حسن عمر پوری، ’’ترجمان السنہ‘‘ از بدر عالم میرٹھی شامل ہیں۔

سوال: احادیث کا فنی علم حاصل کرنے کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے ؟

جواب: احادیث کا فنی علم حاصل کرنے کی ابتدا صرف اسی وقت کرنی چاہیے جب ایک انسان قرآن مجید کو خوب اچھی طرح سمجھ چکا ہو۔ حدیث کو قرآن کے علم کے بغیر آزادانہ طور پر نہیں سمجھاجا سکتا۔

احادیث کی فنی کتابوں کو صرف ماہر اساتذہ ہی سے پڑ ھنا چاہیے۔ اس وقت اردو زبان میں کوئی ایسی کتاب موجود نہیں ہے جو اس ضمن میں عام تعلیم یافتہ افراد کے لیے کارآمد ہو۔ بہر حال موطا امام مالک اور صحیح بخاری کے کچھ حصوں پر مولانا امین احسن اصلاحی کی کتابیں موجود ہیں جو روایات کی مشکلات بہتر طریقہ سے حل کرتی ہے۔

سوال: عام تاثر تو یہ ہے کہ سنت اور حدیث مترادف اصطلاحات ہیں۔ اگر یہ مترادف نہیں تو ان کے درمیان کیا فرق ہے ؟

جواب: سنت اس عمل کا نام ہے جسے حضورا کرمﷺ نے بحیثیت دین مسلمانوں میں رائج کیا، تمام صحابہؓ بالاتفاق اس پر عمل پیرا ہوئے اور یہی اعمال وافعال آج تک تمام مسلمانوں کے درمیان متفق چلے آ رہے ہیں۔ سنت کے لفظی معنی ہیں واضح، معروف، چلتا ہوا ہموار راستہ۔ گویا یہ واضح اور ہموار راستہ ہے جس پر پوری امت متفق ومتحد ہے۔

اس کے برعکس حدیث، حضورﷺ کے قول وفعل اور تقریر (یعنی کسی بات پر خاموشی) اور تصویب کی وہ روایت ہے جس کی اطلاع ہمیں بہت سے افراد سے نہیں بلکہ کچھ افراد کے ذریعے سے ملی ہے۔ چنانچہ اس میں قرآن وسنت کی وضاحت کے ساتھ ساتھ نوافل، اذکار، تاریخی واقعات، حضورﷺ کی ذاتی پسندوناپسند، حضورﷺ کے زمانے کی معاشرتی حالات، عدالتی مقدمے اور اس قبیل کی بے شمار چیزیں بھی آ جاتی ہیں۔ 

B