HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Dr. Farooq Khan

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

سنت

چھٹاباب

سنت

سوال: سنت سے کیا مراد ہے ؟

جواب: دین میں سنت سے مراد پیغمبرﷺ کا وہ طریقہ یا راستہ ہے جسے آپ نے ملت ابراہیمی کے اتباع میں اپنے پیروکاروں میں دین کی حیثیت سے جاری کیا۔ اس میں آپؐ نے مختلف امور کی تجدید واصلاح کی، کیونکہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مختلف بدعتیں اور تحریفات داخل ہو چکی تھیں۔ بہت سے دینی احکامات اپنی شکل اور مطلوبہ ہے ئت میں باقی نہیں رہے تھے۔ آپ نے اس طرح کے تمام امور کو درست کیا اور انہیں دین کی حیثیت سے جاری کیا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

ثُمَّ اَوْحَیْْنَآ اِلَیْْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْن(النمل 16-123)

پھر ہم نے تمہیں وحی ملت ابراہیمی کہ پیروی کرو جو بالکل یکسو تھا اور مشرکوں میں سے نہیں تھا۔

سنت اس امت کو صحابہ کے اجماع اور عملی تواتر سے منتقل ہوئی۔ یعنی تمام کے تمام صحابہؓ اس بات پر کاملاً متفق تھے کہ فلاں عمل سنت ہے اور وہ سارے کے سارے یا ان کی ایک کثیرتعداد اس پر کاربند بھی تھی۔ لہٰذا یہ بات بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں ہے۔ قرآن جس طرح صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے ، سنت اسی طرح ان کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور قرآن مجید ہی کی طرح یہ ہر دور میں امت کے اجماع سے ثابت قرار پائے گی۔

سوال: کیا سنت کا تمام ذخیرہ صرف عملی چیزوں سے متعلق ہے یا اس میں کچھ اصولی معاملات بھی زیر بحث آ جاتے ہیں۔

جواب: سنت، تما تر، عملی چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے ، جب کہ اصولی اور نظریاتی معاملات قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں۔

سوال: ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ سنت بھی ہمارے لیے اسی طرح واجب الاتباع ہے ، جس طرح قرآن مجید ہمارے لیے واجب الاتباع ہے ؟

جواب: خود قرآن مجید ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جس طرح اس کے ہر حکم پر عمل کرنا ہمارے لیے لازم ہے ، اسی طرح رسول اللہ ﷺ، دین کا جو عملی طریقہ ہمیں سکھائیں ، وہ بھی دین کا حصہ ہے اور ا سکا اتباع کرنا ہم پر لازم ہے۔ سورۂ جمعہ میں رسول اللہ ﷺ کا یہ مقام اس طرح بیان ہوا ہے۔

’’اللہ وہی ہے جس نے ان امی عربوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اٹھایا جو انہیں اس اللہ کی آیات سناتا ہے۔ ان کی زندگیوں کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلی وہ کھلی گمراہی میں پڑ ے ہوئے تھے اور اس رسول کی بعثت ان تمام اہلِ عالم کے لیے بھی ہے جو اس سے نہیں ملے۔ ‘‘(3,2:62)

اس آیت سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ دین کا واحد ماخذ رسول اللہﷺ کی ذات گرامی ہے۔ آپ ہی کی وساطت سے ہمیں قرآن ملا ہے اور آپؐ ہی سے ہمیں اس دین کا وہ عملی طریقہ ملا ہے ، جسے آپؐ نے غیر معمولی اہتمام کے ساتھ اس امت کو پہنچایا ہے۔ گویا آپ نے تھیوری (قرآن) اور پریکٹس (سنت) دونوں طریقوں سے ، ہماری زندگیوں کو پاک وصاف کرنے ، یعنی تزکیہ نفس کرنے کاکام انجام دیا۔ قرآن مجید ہمیں اس امت کی متفقہ قولی شہادت سے ملا ہے اور سنت ہمیں امت کی متفقہ عملی شہادت سے ملی ہے۔ یہی سارا دین ہے۔

سوال: سنت میں کیا کچھ شامل ہے ؟

جواب: سنت سے ہمیں جو دین ملا ہے ، وہ دراصل زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق عملی رہنمائی ہے۔ مثلاً معاشرت وآداب کے ضمن میں اللہ کا نام لے کر کھانا اور دائیں ہاتھ سے کھانا پینا، ملاقات کے موقعہ پر السلام علیکم اور اس کا جواب، چھینک آنے پر الحمدللہ اور اس کے جواب میں یرحمک اللہ، نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت، نکاح، نکاح کا خطبہ اور جانوروں کا تذکیہ کرنا۔

ذاتی صفات کے ذیل میں مونچھیں پست رکھنا، زیر ناف کے بال مونڈنا، بغل کے بال صاف کرنا، لڑ کوں کا ختنہ کرنا، بڑ ھے ہوئے ناخن کاٹنا، ناک، منہ اور دانتوں کی صفائی کرنا اور استنجا کرنا، سنت میں شامل ہے۔ اسی طرح میت کو غسل دینا، اس کی تجہیزوتکفین اور تدفین کرنا بھی بہت سنت ہے۔

عبادات کے ضمن میں نواقضِ وضو (یعنی جن چیزوں سے وضو ٹوٹتا ہے ) موزوں پر مسح، اذان و اقامت، نماز کے لیے مساجد کا اہتمام، شب وروز کی پانچ فرض نمازیں ، نماز جمعہ، نماز عیدین اور نماز جنازہ کا طریقہ ہمیں سنت نے سکھایا ہے۔ اسی طرح روزہ، اعتکاف، عیدالفطر، صدقہ عیدالفطر کا طریقہ بھی سنت کا عطا کردہ ہے۔ زکواۃ کی عملی صورت گری بھی سنت کی مرہون منت ہے۔ اسی طرح ہدی (قربانی کا جانور جو حاجی مکہ مکرمہ لے جاتے ہیں ) طواف، عمرہ، عیدالاضحی، عیدالاضحی کی قربانی اور ایام تشریق(عیدالاضحی کے بعد کے تین دن) میں جماعت کی نمازوں کے بعد تکبیروں کا عملی طریقہ ہمیں سنت نے سکھایا ہے۔ درج بالا سب چیزیں سنت ہیں۔ ثبوت کے اعتبار سے ان میں اور قرآن مجید نے کوئی فرق نہیں۔ یہی دین ہے۔ ان سب امور پر امت کا اجماع ہے۔ ان سب امور کی وضاحت، اس کتاب میں اپنے اپنے مقام پر آئے گی۔

سوال: سنت کی حیثیت سے جتنی چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے ، ان میں بعض تفصیلات میں ، اس امت کے بعض مسالک ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں ، مثلاً نماز میں رفع یدین یا فاتحہ الامام کا مسئلہ، تو پھر ان کو سنت کیسے کہا جا سکتا ہے ؟

جواب: آپ کے سوال ہی میں جواب پوشیدہ ہے ، یعنی یہ کہ جس عمل میں مکمل اتفاق ہو، وہ تو سنت ہے ، لیکن اگر کسی عمل پر اتفاق رائے نہیں ، تو وہ سنت کا حصہ نہیں۔ مثلاً نماز میں قیام، رکوع، سجود، قعدہ، سب سنت ہیں۔ لیکن رفع یدین سنت نہیں ہے ، کیونکہ اس پر اجماع نہیں ہے۔ چونکہ ایک عام انسان کو ان اختلافات سے بڑ ی وحشت ہوتی ہے ، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان اختلافات کی مختصر وجوہات بیان کر دی جائیں۔

پہلی وجہ یہ ہے کہ حضورﷺ بعض اوقات کوئی خاص عمل کرتے تھے ، مگر اس عمل کو امت میں جاری نہیں کرتے تھے ، یعنی وہ عمل اپنی جگہ اجروثواب کا ایک عمل ہوتا تھا، مگر سنت کا حصہ نہیں ہوتا تھا۔ اسی لیے امت اس خاص عمل پر، اپنی پوری تاریخ میں قائم نہیں ہوئی اور وہ اپنے عمومی عمل یا رویے سے یہ نہیں بتاتی کہ یہ عمل سنت کا حصہ ہے ، بلکہ روایات میں اس عمل کا تذکرہ ملتا ہے کہ حضورﷺنے بعض اوقات یوں بھی کیا ہے۔ اگر حضورﷺ نے وہ کام، غیر معمولی اہتمام کے ساتھ، ہمیشہ کیا ہوتا تو یہ نا ممکن تھا کہ صحابہ کرامؓ اس پر قائم نہ رہتے۔ چنانچہ امت کے بعض گروہ، روایات کی بنیاد پر، ایک خاص عمل کو یہ سمجھ کر اختیار کر لیتے ہیں کہ یہ حضورﷺ کی طرف جاری کردہ سنت کا حصہ ہے۔ رفع یدین اور اس طرح کے بہت سے اختلافات کی اصل حقیقت بس اتنی ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ حضورﷺ نے بہت سے معاملات میں ہمارے لیے کوئی متعین طریقہ مقرر نہیں فرمایا، بلکہ ان کو عقل عام (Common Sense) پر چھوڑ دیا۔ چنانچہ ان معاملات کے تعین میں اختلاف ایک فطری امر ہے۔ یہ اختلاف نہ صرف یہ کہ کسی عمل کے تعین میں ہو سکتا ہے ، بلکہ قرآن مجید کی کسی بات کو سمجھنے میں بھی ہو سکتا ہے۔ فاتحہ خلف الامام میں اختلاف کی وجہ یہی ہے۔

اس ضمن میں اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ حضورﷺ کی ذمہ داری تھی کہ اصل دین یعنی شریعت پر مکمل طور پر عمل پیرا ہوکر اس کا عملی نمونہ مسلمانوں کے سامنے پیش کر دیاجائے۔ اس مقصد کے لیے یہ کافی نہیں تھا کہ آپ دین میں شامل کوئی بات محض اپنے ایک ساتھی کو بتادیں اور باقیوں کو بتانا ضروری نہ سمجھیں ، اور اس فرد پر بھی یہ ذمہ داری نہ لگائیں کہ وہ دین کی یہ بات لازماً سب کو پہنچا دے۔ اس کے برعکس قرآن مجید کی رو سے یہ آپؐ کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ دین کی جس بات پر عمل کرنا سب مسلمانوں کے لیے ضروری ہو، وہ لازماً اس طرح سب تک پہنچے کہ اس میں کسی کو کوئی شبہ لاحق نہ ہو۔

ارشادہے :

’’اے رسول! تمہارے رب کی طرف سے جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہو، وہ لوگوں تک پوری طرح پہنچا دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم نے اس کی پیغمبری کا حق ادا نہیں کیا۔‘‘(سورہ مائدہ67)

ابلاغ کا مطلب ہے اس بات کو یقینی بنانا کہ ایک بات اپنی کامل ترین شکل میں یعنی بلاکم وکاست ان سب لوگوں تک پہنچے ، جن تک اس کا پہنچنا ضروری ہے۔ اور رسول اللہﷺ نے یہی کیا کیونکہ آپ نے کار رسالت میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اس کے ساتھ ساتھ چونکہ، سورۃ جمعہ آیت نمبر32کے مطابق، آپ کو یہ ذمہ داری بھی سونپی گئی تھی کہ آپ صحابہ کرامؓ کی تعلیم وتزکیہ کا فریضہ بھی انجام دیں گے ، اس لیے آپ نے اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ تمام صحابہؓ آپ کی سنت پر بالکل صحیح طریقے سے عمل پیرا ہوں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ سنت پر صحابہ کرامؓ کا کامل اجماع تھا اور وہ اسی متفقہ صورت میں تابعین، تبع تابعین اور پھر اس سے آگے اس امت کو پہنچی۔ یہی وہ سنت ہے جو تمام مسالک کے ہاں عملی دین کا متفق علیہ حصہ ہے۔ ایک ڈایا گرام کی صورت میں ہم اس کی وضاحت کرسکتے ہیں :

صرف خط کشیدہ ہی سنت ہے ، اسی پر تمام امت متفق ہے ، یہ سنت نہایت آسان اور واضح ہے ، تمام امت اسے جانتی اور مانتی ہے۔

سوال: کیا وجہ ہے کہ سنت کے احکام کو قرآن مجید کا حصہ نہیں بنایا گیا؟ یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ سنت اور اس کی تمام تر تفصیلات قرآن مجید میں درج کر دی جائیں۔

جواب: اس کی دو وجوہات ہیں : پہلی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی عملی معاملے کو، تفصیل کے ساتھ، الفاظ کا جامہ پہنایا جائے تو اس کے اجزا کو پورا پورا بیان کر کے ، اورسمجھانے کے لیے ایک بڑ ی طویل کتاب کی ضرورت ہو گی (جیسا کہ فقہ کی کتابوں سے واضح ہے )۔ اتنی طویل کتاب کو سنبھالنا، اسے یاد کرنا اور اس کی حفاظت کرنا، امت کے لیے یقینا بہت مشکل ہوتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ، زیادہ تر دین کے اصول ومبادی اور اس کی فکری بنیادیں بیان کی ہیں اور عملی معاملات کے لیے سنت کا طریقہ اختیار فرمایا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے سائنس کے طلبا اپنی کتابوں میں تھیوری پڑ ھتے ہیں اور پھر لیبارٹری میں جا کر پریکٹیکل کر لیتے ہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ کسی فرد کو کوئی عمل سمجھانے کے لیے سب سے موثر طریقہ اس پرعمل کر کے دکھا دینا ہے۔ الفاظ کے ذریعے سے اگر آپ کوئی عملی چیز بنا بھی دیں ، تب بھی عمل کرنے والے کے لیے صحیح طریقے سے اس کی پیروی کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی فرد کتاب پڑ ھ کر کوئی ورزش سیکھنے کی کوشش کرے ، تو اسے بڑ ی مشکل پیش آئے گی، لیکن اگر وہ کسی کو عملی طور پر یعنی (Demonstration) کے ذریعے سے کوئی ورزش کرتے دیکھ لے ، تو وہ اس کی ہو بہو نقل اتار سکے گا۔

ان دونوں باتوں کی وجہ سے اللہ نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ جن چیزوں کو لوگوں کے سامنے بیان کرنا چاہیے تھا، انہیں قرآن مجید میں بیان کر دیا اور جن چیزوں کو عملاً سیکھنا چاہیے تھا، انہیں سنت رسول اللہ ﷺ کے ذریعے سے ہمیں سکھایا۔

سوال: درج بالا وضاحت تو اطمینان بخش ہے ، لیکن پھر ایک اور بات دل کو کھٹکتی ہے۔ وہ یہ کہ اللہ نے بعض عملی چیزوں کو قرآن مجید میں بیان فرما دیا، مثلاً وضو کی بڑ ی بڑ ی باتیں بھی اللہ نے قرآن مجید میں بتا دیں اور اسی طرح حج کے بعض منا سک بھی بیان کر دیے۔ سوال یہ ہے کہ خدا نے ان چیزوں کو کیوں قرآن مجیدمیں بیان کیا، ان کو بھی تو سنت پر چھوڑ ا جا سکتا تھا؟

جواب: قرآن مجید سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ امت محمدیہﷺ، دراصل ملت ابراہیمی کا تسلسل ہے۔ یہ بات قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کی گئی۔ مثلاً سورہ حج میں ارشاد ہے :

’’اس اللہ نے اپنی ہدایت کے لیے تمہارا انتخاب کیا اور دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ تمہارے باپ ابراہیم کی ملت کو تمہارے لیے پسند کیا۔ اس اللہ نے اس سے پہلے (یعنی ابراہیم کی ملت کے وقت بھی) تمہارا نام رکھا تھا اور اس قرآن میں بھی تمہارا نامِ مسلم ہے۔ ‘‘ (78:22)

گویا یہی دین، یہی احکام اور یہی سنت، دراصل حضرت ابراہیمؑ کا دین اور ان کی سنت تھی۔ حضورﷺ نے لوگوں کو کسی نئے دین اور کسی نئی شریعت کی تعلیم نہیں دی، بلکہ ہزاروں سال گزرنے کی وجہ سے دینِ ابراہیمی میں جو آلایشیں گھس آئی تھیں ، انہیں صاف کیا اور اس طرح اصل دینِ ابراہیمی کو یہودیوں ، عیسائیوں اور مشرکین عرب کے غلط عقیدوں اور غلط بدعتوں سے پاک کر دیا۔

دینِ ابراہیمی میں بھی اسی طرح نماز، روزہ، حج، زکواۃ، عمرہ، طواف اور اعتکاف موجود تھے۔ حضورﷺ کی بعثت سے پہلے بھی مشرکین عرب (جو ملت ابراہیمی کے دعوے دار تھے ) ان تمام اصطلاحات کے معنی سمجھتے تھے اور ان سب پر، سنت ابراہیمی ہونے کی وجہ سے ، عمل پیرا بھی تھے ، اگرچہ ان میں بہت سی خامیاں اور بدعتیں داخل ہوگئی تھیں۔

قرآن کریم میں یہ بات بڑ ی صراحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ اور ان کی اولاد کو صلوٰۃ، صوم اور حج پر عمل پیرا رہنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اسی طرح ختنہ، غسل جنابت، میت کے کفن دفن، جیسے معاملات عربوں میں مسلمہ حیثیت رکھتے تھے اور ان کے ہاں یہ سب چیزیں نسلاً بعد نسل سنتِ ابراہیمی کی حیثیت سے منتقل ہوتی چلی آ رہی تھی۔ اس موضوع پر ڈاکٹر جواد علی نے اپنی تحقیقی کتاب ’’المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام‘‘میں اور شیخ محمد حضری بکر نے اپنی کتاب ’’تاریخ التشریع الاسلامی‘‘ میں بڑ ی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ان کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام سے پہلے بھی عربوں کے ہاں صلوٰۃ اور زکواۃ کا ایک تصور پوری طرح موجود تھا۔ دور جاہلیت میں عرب روزہ بھی رکھتے تھے اور حج بھی کرتے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں صلوۃ، صوم، زکوٰۃ اور حج کی اصطلاحات اس طرح استعمال ہوئی ہیں کہ گویا دور جاہلیت کے عرب ان سے اچھی طرح واقف تھے اور وہ خوب جانتے تھے کہ ان اصلاحات کا مطلب کیا ہے۔ لیکن، چونکہ انہوں نے ان تمام عبادات میں شرک کی آمیزش کر دی تھی، جگہ جگہ بت نصب کر دیے تھے ، بعض عبادات میں اپنی طرف سے بدعتیں وتحریفات شامل کر دی تھی، اس لیے اللہ اس پر قرآن مجید میں کلام کیا ہے اور اس میں صحیح راہ عمل متعین فرمائی۔ اس کے علاوہ، جن جن معاملات میں تحریفات اور بدعات نہیں ہوئی تھیں ، اس کے بارے میں قرآن مجید کو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان تمام عبادات میں قرآن مجید نے پوری تفصیل کے بجائے صرف اجزا کو موضوع سخن بنایا۔ اس کے علاوہ جہاں جہاں اس امت کو مزید ہدایات دینی مقصود تھیں ، (مثلاً وضو کے معاملے میں ) ، وہاں قرآن مجید نے نسبتاً تفصیل سے کلام کیا۔ پھر ان ترامیم واضافوں کے بعد، حضورﷺ نے سنت ابراہیمی کے مطابق، تمام عبادات کی صورت گری ہمیں عملی طور پر کر کے دکھائی، تاکہ اب قیامت تک ہم اس کے مطابق اپنی عملی زندگی گزاریں۔

سوال: یہاں ایک بات کی طرف دھیان جاتا ہے کہ منکرینِ سنت جب یہ استدلال کرتے ہیں کہ سنت ہمارے لیے کوئی واجب الاتباع چیز نہیں ، بلکہ حضورﷺ نے جو عملی ڈھانچا بنایا، وہ بحیثیت حکمران بنایا۔ اور آج بھی جو فرد مسلمانوں کا سربراہ بنے (جسے وہ اپنی اصطلاح میں مرکز ملت کہتے ہیں )، اسے یہ حق ہے کہ وہ مسلمانوں کو نماز، روزہ، زکواۃ اور دوسری تمام چیزوں کا ڈھانچہ بنا کر دے لیکن درج بالاوضاحت سے تو اس استدلال کی پوری جڑ ہی کٹ جاتی ہے۔ اس لیے کہ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ نے بحیثیت حکمران عبادات وسنن کا کوئی نیا ڈھانچا دیاہی نہیں ، بلکہ انہوں نے اللہ کے حکم سے سنت ابراہیمی کی تجدید فرمائی۔ کیا یہ بات صحیح ہے ؟

جواب: جی ہاں ، یہ بات بالکل صحیح ہے۔ منکرین سنت نے پہلے تو رسول کے منصب کا انکار کیا اور مسلمانوں کے حکمران کو نئی سنت بنانے کا اختیار دیا۔ یہ صریحاً قرآن کی آیات کے منافی ہے۔ اس لیے کہ قرآن رسول کو کچھ اور مقام دیتا ہے اور مسلمانوں کے حکمران یعنی اولوالامر کو کچھ اور۔ رسول کی اطاعت بالکل غیر مشروط ہے ، جب کہ مسلمانوں کے حکمرانوں کی ہر بات کو قرآن وسنت کے معیار پر پرکھتے ہوئے چیلنچ کیا جا سکتا ہے۔ رسول تو دین کا واحد سرچشمہ ہے ، جب کہ حکمران، محض ایک وقتی انتظامی سربراہ ہے۔ رسول ہر بات وحی کی رہنمائی میں کہتا ہے ، جب کہ حکمران وحی کی رہنمائی سے محروم ہوتا ہے۔ ان سب باتوں کی مزید تفصیل، ان شاء اللہ اپنے مقام پر آئے گی۔

اسی طرح منکرین سنت نے اس بات کی طرف کوئی دھیان ہی نہیں دیا کہ قرآن مجید کے مطابق حضورﷺ نے کوئی نیا طریقہ اور نئی سنت جاری ہی نہیں کی، بلکہ دراصل سنت ابراہیمی ہی کی تجدید کی اور بحیثیت مسلمان ہم پر اسی سنت کی پیروی لازم ٹھہرائی۔ قرآن کریم کے اس صریح بیان سے منکرین سنت کے پورے استدلال ہی کی جڑ کٹ جاتی ہے۔

سوال: حضورﷺ نے ، اپنے وقت کے حالات کے لحاظ سے ایک خاص وضع قطع کے کپڑ ے پہنے تھے۔ وہ کچھ مخصوص کھانے کھاتے تھے۔ وہ اونٹوں پر سفر کرتے تھے۔ ان کے ہاں بجلی کے بجائے تیل کے دئیے روشن ہوتے تھے۔ وہ جب بیمار ہوتے تو کچھ جڑ ی بوٹیاں کھا کر اپنا علاج کرتے۔ یہ سب کام حضورﷺ نے ساری زندگی کیے۔ کیا سب سنت کا حصہ ہے ، اور ہم پر ان کی پیروی لازم ہے ؟

جواب: جی نہیں ، ان میں سے کوئی چیز بھی سنت کا حصہ نہیں ، اس لیے کہ حضورﷺ نے کبھی بھی، بحیثیت دین، ہمیں ان کے اختیار کرنے کا حکم نہیں دیا۔ قرآن وسنت کا معجزہ دیکھئے کہ سب چیزیں جو تہذیب وتمدن کے فرق کی وجہ سے انسانوں کے درمیان مختلف ہوجاتی ہے ، یاتجربے ومشاہدے کی وجہ سے ارتقا پذیر ہوتی ہیں ، ان میں کسی چیز کو سنت قرار نہیں دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ حضورﷺ کے کھانے ، سواری، علاج وغیرہ میں سے کوئی چیز سنت نہیں ہے۔ ہمیں مکمل آزادی ہے کہ ہم تہذیب وتمدن کے مطابق، دین کے اصولوں کے اندر رہتے ہوئے ، زندگی بسر کریں اور سائنس کی جدید ترین ایجادات سے مکمل فائدہ اٹھائیں۔

اس ضمن میں یہ سادہ اصول یاد رکھیے کہ عبادات کے معاملے میں دین نے مکمل طریقہ بتادیا ہے اور ہمیں اس سے یکسر موبھی انحراف نہیں کرنا، جب کہ معاملات کے بارے میں دین نے ہمیں بڑ ی بڑ ی حد بندیاں دے دی ہیں اور ان حدود کے اندر ہم اپنی راہ عمل متعین کرے میں آزاد ہیں۔

سوال: کیا قرآن وسنت میں تضاد ہو سکتا ہے ؟ اور کیا سنت قرآن کے کسی حکم کو منسوخ کرسکتی ہے ؟

جواب: قرآن اور سنت میں کوئی اختلاف یا تضاد نہیں ہو سکتا کیونکہ دونوں چیزیں ایک ہی سرچشمہ قدرت یعنی اللہ کی طرف نازل ہوئی ہیں۔ اگر قرآن وسنت میں کوئی اختلاف ممکن ہو تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ معاذ اللہ حکیم وخبیر علیم ومدبر نہیں ہے۔

سنت، قرآن کے کسی حکم کو نہ منسوخ کرسکتی ہے اور نہ اس نے عملاً قرآن کے کسی حکم کو منسوخ کیا ہے۔ آخر اللہ کو ہمارے ایمان سے کوئی دشمنی تو نہیں ہو سکتی کہ وہ قرآن میں ہمارے لیے ایک حکم نازل کرے اور سنت کے ذریعے سے کوئی اور حکم دے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ سنت، قرآن کو منسوخ کرسکتی ہے تو یہ دین پر ایک بڑ ا بہتان ہو گا۔ اس لیے کہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ قرآن کتاب ہدایت نہیں ، بلکہ اس کے بعض احکام پر عمل کرنے سے سنت کا انکار لازمی ہے۔ ظاہر ہے ایسا موقف قرآن وسنت دونوں میں سے کسی کے بھی شایان شان نہیں۔

البتہ سنت قرآن حکیم کے احکام اور اصولوں کی تشریح اور وضاحت ضرورکرسکتی ہے اور یہی اس کا اصل کام ہے۔ لیکن اس بات کو ہر آدمی جانتا ہے کہ تشریح کس چیز کا نام ہے اور تنسیخ کس چیز کا۔ اس تشریح کا حق قرآن مجید میں رسولﷺ کو اس طرح دیا گیا ہے۔

’’ہم نے تم پر بھی یہ ذکر (یعنی قرآن) اتارا ہے ، تاکہ تم لوگوں کو پر اس چیز کو واضح کر دو جو ان کی طرف اتاری گئی۔‘‘(النمل24)

گویا قرآن مجید کی تشریح و وضاحت کا حق خود اللہ نے حضورﷺ کو دیا ہے۔ تاہم اللہ نے قرآن مجیدکے کسی حکم کی تنسیخ کا حق حضورﷺ کو نہیں دیا۔ ایسی کوئی بات نہ قرآن میں آئی ہے اور نہ ہی حضورﷺ نے ، عملاً قرآن مجید کے کسی حکم کو منسوخ ٹھہرایا ہے۔

اس ضمن میں جتنی مثالیں دی جاتی ہے ، ان کی توضیح ہم ان کے متعلقہ مقام پر کریں گے۔ 

B