پانچواں باب
قرآن مجید
سوال:آج ہر مسلمان کے گھر میں قرآن مجید لازماًموجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ قرآن مجید کی دین میں کیا حیثیت ہے ؟
جواب:آج سے چودہ سو سال پہلے سرزمین عرب میں ایک انسان نے ، چالیس برس کی عمر میں ، مکہ میں یہ دعویٰ کیا کہ میں اس دنیا میں اللہ کے نمائندے کی حیثیت سے بھیجا گیا ہوں۔ ہم اس انسان کو محمدرسول اللہﷺ کی حیثیت سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔ چنانچہ رسالت کے اعلان کے بعد آپؐ نے ساری زندگی جو کچھ بھی ہمیں دین کی حیثیت سے پیش کیا، اس کا نام’’اسلام‘‘ہے۔
آپ سے ہمیں یہ دین دو صورتوں میں ملا ہے یعنی قرآن مجید اور سنت رسولؐ۔
قرآن مجید اس کتاب کا نام ہے جسے اللہ کے حکم سے جبرائیل نے رسول اللہؐ پر نازل کیا۔یہ کتاب تے ئس سال کے عرصے میں حضورؐ پر نازل ہوتی رہی اور پایہ تکمیل کو پہنچی۔یہ کتاب دین اسلام کی بنیادی دستاویز ہے ، جس میں رد وبدل اور کمی و بیشی ناممکن ہے۔ اس دین میں قرآن مجید کی حیثیت ’’فرقان‘‘یعنی حق و باطل کے معیار کی ہے۔ جس عقیدہ و عمل کو یہ حق قرار دے ، وہ حق ہے اور جس فکر و عمل کو یہ غلط قراردے ، وہ غلط ہے۔ گویا قرآن مجید ، اسلام کی کسوٹی ہے۔ سورہ فرقان میں اللہ تعا لیٰ کا ارشاد ہے :’’بڑ ی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر حق و باطل میں تمیز کرنے والی کتاب اتاری۔‘‘(1:25)
گویا قرآن ہی ہمیں یہ بتائے گا کہ دین کیا ہے۔ ہر مسئلے اور ہر معاملے کو قرآن ہی کے زریعے سے پر کھا اور دیکھا جائے گا اور ہر مسئلے میں قرآن مجید کا فیصلہ بالکل حتمی اور آخری ہو گا۔
قرآن مجید اس دین کے لئے ’’میزان‘‘یعنی ترازو ہے۔ یعنی ہر عقیدہ و خیال اور ہر عمل قرآن مجید کے ترازو میں تول کر دیا جائے گاکہ اس کا کیا وزن ہے۔ جس عقیدہ و عمل کو قرآن وزنی قرار دے ، اس دین میں وہی قدر و قیمت کا حامل ہو گا اور جس خیال یا عمل کا قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں کوئی وزن نہ ہو، وہ اتنا ہی بے قیمت اور بے وقعت ہو گا۔ سورہ شوریٰ میں پروردگار کا ارشاد ہے :
’’وہ اللہ ہے جس نے حق کے ساتھ یہ کتاب یعنی میزان اتاری‘‘(17:42)
قرآن مجید ہمارے عقیدہ و عمل کا محافظ یعنی’’مہیمن‘‘ہے۔ گو یا ہمیں اپنے فکر اور فعل پر اس کی نگرانی ماننی ہو گی۔
اسی طرح قرآن مجید اپنے آپ کو ’’احسن الحدیث‘‘یعنی بہترین کلام اور اور عمدہ ترین بات قرار دیتا ہے۔ قرآن مجید ’’برہان‘‘بھی ہے ، یعنی مضبوط ، روشن اور ہر حال میں سچی دلیل۔ قرآن مجید اپنے آپ کو’’بلاغ‘‘یعنی لوگوں کے نام اللہ کی طرف سے پیغام بھی قرار دیتا ہے۔ قرآن کا ایک نام’’تذکرہ‘‘بھی ہے ، جس کا مطلب نصیحت اور یاد دہانی ہے۔ قرآن اپنے آپ کو ’’حق‘‘قرار دیتا ہے ، یعنی ایسی بات جو ثابت ، قائم اور اٹل رہنے والی ہو۔اسی طرح قرآن نے اپنا نام ’’حکم ‘‘بھی رکھا ہے ، یعنی فیصلہ ، ماخذ قانون اور ضابطہ حیات۔اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید ہر چیز پر حاکم ہے اور دین کی ہر بات اس کے تابع ہے۔ قرآن حکیم کی بات سب سے برتر ہے اور اس کا ہر حکم دین میں بالکل حتمی اور فیصلہ کن ہے۔
سوال:جب دین میں قرآن مجید کی حیثیت اتنی بنیادی ہے ، تو کیا اس کو سمجھنا ہر مسلمان پرلازم ہے یا نہیں ؟ہمارے ماحول میں یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ یہاں پر عام طور پر لوگ، بغیرسوچے سمجھے ، صرف عربی متن پڑ ھ کر گمان کرتے ہیں کہ یہی تلاوت ہے اور قرآن مجید کو سمجھنے کی طرف بہت کم دھیان دیا جاتا ہے ؟
جواب:ہر مسلمان پر یہ بات لازم ہے کہ وہ قرآن مجید میں خوب غوروفکر کرے اور اس کو اچھی طرح سوچ کر پڑ ھے۔ قرآن حکیم اسے ’’تدبر‘‘کہتا ہے۔ سورہ ص میں ارشاد ہے۔
’’یہ ایک بڑ ی برکت والی کتاب ہے جو ہم نے (اے نبی)تمہاری طرف نازل کی ہے ، تاکہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں۔ اور عقل و فکر رکھنے والے انسان اس سے سبق حاصل کریں۔ ‘‘(29:38)
اصل میں تلاوت کے معنی اچھی طرح سمجھ کر پڑ ھنے کے ہیں۔ گویا صرف عربی الفاظ ادا کرنے سے تلاوت کا حق ادا نہیں ہوتا۔اگرچہ اس پر بھی یقینا اللہ اجر عطا فرمائے گا ، تاہم پورا اجر صرف اسی وقت مل سکتا ہے جب ایک مسلمان قرآن کے مفہوم و معنی کو اچھی طرح سمجھ کر پڑ ھے۔ اگر کسی فرد نے اپنی زندگی میں قرآن مجید پر غور و فکر کی طرف دھیان نہیں دیا تو یہ حرکت قیامت کے دن مواخذہ ہے۔
قرآن حکیم کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی میں اصل مرکز ومحور کی حیثیت اسی کتاب کو حاصل ہونی چاہیے۔
سوال: کیا قرآن مجید پر عمل کرنا لازم ہے ؟
جواب: جی ہاں ، قرآن مجید پر عمل کرنا ہر مسلمان کے لیے لازم ہے۔ ہمارے دین میں علم بلاعمل کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ سورۃ انعام میں ارشاد ہے :
’’یہ ایک برکت والی کتاب ہم نے نازل کی ہے۔ پس تم اس کی پیروی کرو اور تقویٰ کی روش اختیارکرو۔ تاکہ تم پر رحم کیا جائے ‘‘۔ (آیات155-6)
سوال: کیا ایک مسلمان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ دوسروں کو بھی یہ کتاب سکھائے ؟
جواب: جی ہاں ، ہر مسلمان کے لیے یہ بات نہایت پسندیدہ ہے کہ وہ اپنی استطاعت کی حد تک، اپنے اہل وعیال، اپنے رشتہ داروں ، اپنے ہمسائیوں ، اپنے ماحول میں رہنے والوں اور اپنے معاشرے کے کارفرما طبقات کو قرآن مجید کا پیغام پہنچائے۔ کسی بھی انسان کو دین کی دعوت دینے کا سب سے کارگر طریقہ اس کو قرآن سے روشناس کرادینا ہے۔ سورۃ ق آیت45-50میں ارشاد ہے :
’’اس قرآن کے ذریعے سے ہر شخص کو یاددہانی کراؤ جو آخرت کے دن کا خوف رکھتا ہو‘‘۔
سوال: کیا کتاب کا ایک مرکزی مضمون ہوتا ہے۔ چونکہ قرآن مجید بھی کتاب ہے اس لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے ، کہ اس کتاب کا مرکزی مضمون کیا ہے ؟
جواب: قرآن مجید اصلاً ایک کتاب ہدایت ہے۔ اس ہدایت کو بیان کرنے کا جو طریقہ پروردگار نے اختیار کیا ہے اس کے نتیجے میں یہ رسول اللہﷺ کی دورِ رسالت کی سرگزشت کی طور پر ہمارے سامنے آتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید ہمیں فوراً دورِ رسالت میں لے جا کر وہاں سے ہمارا تعلق جوڑ لیتا ہے اور پھر وہاں سے حاصل کردہ روشنی سے ہم مستفید ہوتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مکہ میں لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا شروع کیا تو آپؐ نے اس دنیا اور کائنات کی حقیقت، اس کے خالق کی صفات، دنیا میں انسان کے کردار اور انسان کے مرنے کے بعد اس کے دوبارہ جی اٹھنے اور اسے دنیاوی زندگی کے ضمن میں حساب لینے کے مطابق ایک واضح تصور پیش کیا اور لوگوں کو اس پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ اس دعوت کے دوران آپؐ کو مکہ میں بہت سخت حالات کا سامنا کرنا پڑ ا۔ آخر کار تیرہ سال بعد مدینہ میں آپؐ نے ایک حکومت کی بنیاد رکھی، اس لیے کہ وہاں کے دونوں قبیلوں نے اجتماعی طور اسلام قبول کر لیا تھا۔ اگلے دس سالوں میں اللہ کے قانون رسالت کے مطابق آپؐ کا اقتدار تمام عالم جزیرہ نمائے عرب پر قائم ہو گیا۔ اس دوران میں بھی آپؐ گوں ناگوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ ا۔
چنانچہ قرآن مجید نے ان تے ئس سال کے دوران میں ، حضورﷺ اور مسلمانوں کو ہدایات دیں۔ مشرکین مکہ، یہودیوں اور عیسائیوں کو اس دین کی دعوت دی۔ ہر معاملے پر تبصرہ کیا۔ منافقین پر گرفت کی۔ مسلمانوں کو اپنی اندرونی کمزوریوں کی طرف توجہ دلائی اور ان پر ان کی ذمہ داریاں واضح کئیں۔
گویا آج جب ہم خوب غوروفکر کے ساتھ قرآن حکیم کی تلاوت کرتے ہیں تو رسول اللہﷺ کی زندگی کا ایک ایک گوشہ ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ آیات کس دور میں نازل ہوئیں۔ ان آیات میں کس کو خطاب کیا گیا ہے اسی طرح جب ہم قرآن مجید کو اچھی طرح سمجھ لیتے ہیں ، تو اس سے ہم اپنے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر ہدایت لے سکتے ہیں۔ اس طرح قرآن مجید ہر انسان اور مسلمان کے لیے کتابِ ہدایت بن جاتی ہے۔
سوال: بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ ہمیں قرآن مجید کو اس طرح پڑ ھنا چاہیے ، گویا یہ ابھی ہم پر نازل ہورہا ہے۔ کیا یہ بات صحیح ہے ؟
جواب: جی نہیں ، یہ بات صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ قرآن کریم ہم پر آج نازل نہیں ہورہا، بلکہ یہ کتاب آج سے چودہ سو برس قبل حضورﷺ پر نازل ہوئی تھی۔ جب ہم اس کتاب کو اسی حیثیت سے پڑ ھیں گے اور یہ معلوم کریں گے کہ کس جگہ کو کس خطاب کیا گیا ہے اور اس میں آج ہمارے لیے کیا سبق پوشیدہ ہے ، تب ہی قرآن مجید ہمارے لیے صحیح طور پر ہدایت کا سامان بن سکے گا۔
نزول قرآن کے وقت اس کتاب کے چھ مخاطب تھے۔ چنانچہ قرآن مجید عموماً ان میں سے کسی نہ کسی کو خطاب کرتا ہے۔ مثلاً مکی دور میں قرآن مجید کے خصوصی مخاطب سردارنِ قریش (مشرکین مکہ) تھے۔ اسی طرح قرآن حکیم نے عیسائیوں کو بھی خطاب کیا ہے اور یہودیوں کو بھی۔جب مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست قائم ہوئی تو اللہ نے اس وقت کے مسلمانوں یعنی صحابہ کرام ؓ کے معاملات پر تبصرہ کیا اور انہیں ہدایت بھی دیں۔ مدنی دور میں منافقین بھی بڑ ی تعداد میں موجود تھے ، اس لئے قرآن مجید نے ان کو بھی خطاب کیا۔اسی طرح قرآن مجید نے کئی مواقع پر حضور ا کرم ﷺ کو براہ راست بھی مخاطب کیا۔
چناچہ آج جب ہم قرآن کریم کا مطالعہ کریں ، تو ہمیں اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ متعلقہ آیات کب اور کس سلسلے میں نازل ہوئیں۔ اس طرح جب ہم ہر سورہ کو اپنے اولین مخاطبین کے لحاظ سے سمجھ لیں گے ، تب ہم اس کو اپنے حالات پر منطبق کر کے ، اس سے اپنے لئے ہدایت اخذ کر سکیں گے۔
سوال۔:قرآن حکیم کی ہر سورت کے اوپر یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ سورت مکی ہے یا مدنی، اس کی کیا اہمیت ہے ؟
جواب: یہ بڑ ی اہم تقسیم ہے۔ حضورﷺ کے تے ئس سالہ دور رسالت میں دو بالکل واضح ادوار ہیں۔ ایک مکی دور دعوت ، جہاں حضور ﷺ کے پاس اقتدار نہیں تھا اور دوسرا مدنی دور اقتدار، جہاں حضورﷺ نے ایک فرماں روا کی حیثیت سے زندگی گزاری۔چناچہ اس تقسیم سے ہمیں فوری طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ کون سی ہدایت کب اور کہاں نازل ہوئی۔قرآن مجید کی ہر ہدایت میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ ہدایت کون سے دور میں نازل ہوئی، کیونکہ صٓرف اسی طریقے سے ہم اپنے حالات کے لحاظ سے قرآن مجید سے راہ نمائی لے سکتے ہیں۔ اگر ہم اس کا خیال نہیں کریں گے کہ کون سا حکم کب نازل ہوا، تو ہم قرآن کریم کا منشا سمجھنے میں بڑ ی ٹھوکر کھاجائیں گے۔
سوال: کہا جاتا ہے کہ حضورﷺ پر قرآن کسی اور ترتیب سے نازل ہوا تھا اور پھر آپؐ نے اللہ کی رہنمائی میں اسے ایک دوسری ترتیب کے ساتھ مرتب فرمایا۔اس وقت ہم جو مصحف پڑ ھتے ہیں ، یہ وہی ترتیب ہے جسے حضور ﷺ نے ہمارے لئے مقرر فرمایا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلی ترتیب کے بدلنے میں کیا مصلحت تھی؟آخر پہلی ترتیب کو برقرار رکھنے میں کیا امر مانع تھا؟
جواب:حضورﷺ کے کام اور ہمارے کام میں بہت بڑ ا فرق ہے اس لیے حضورﷺ کی ضرورت اور ہماری ضرورت میں بھی فرق ہونا لازمی تھا۔ حضورﷺ کے ذمے اصل کام ایک نئی امت مسلمہ کی تشکیل اور جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کے احکام کو نافذ کرنا تھا، جب کہ ہمارا اصل کام اب اس امت کو صحیح بنیادوں پر قائم کرنا اور اس کی توسیع ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کو اس امت کی آئندہ ضروریات مکمل طور پر معلوم تھیں اس لیے امت کی ان ضروریات کا خیال کرتے ہوئے ، اللہ نے قرآن کو ایک نئی ترتیب دے دی تاکہ اب ہم قرآن کے ذریعے سے اپنی زندگیوں کی تعمیر کریں اور اس امت کی توسیع کریں۔
اس نئی ترتیب کے مطابق مکی اور مدنی سورتوں کو آپس میں اس طرح مدغم کر دیا گیا ہے کہ سورتوں کے سات (7)واضح گروپ بن گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر گروپ میں سورتوں کی ترتیب نزولی ہے ، یعنی ہر گروپ کے اندر سورتیں اس ترتیب سے رکھی گئی ہیں ، جیسے کہ وہ نازل ہوئی تھیں۔
گویا قرآن مجید کی موجودہ ترتیب، اس امت کے مستقبل کے ضروریات کے مطابق، پروردگار نے مقرر کی ہے۔
سوال: آج جب ہم قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں ، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسے کئی طریقوں سے تقسیم کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک تقسیم سورتوں کی، دوسرے تقسیم پاروں کی، تیسری تقسیم رکوعات کی اور چوتھی تقسیم منزلوں کی ہے۔ پاروں کی تقسیم میں تو یہ بھی ہوجاتا ہے کہ فقرے کا آدھا حصہ ایک طرف رہ جاتا ہے اور آدھا دوسرے پارے میں چلا جاتا ہے۔ یہ تقسیم کیوں کی گئی؟
جواب: خدا کی نازل کردہ تقسیم صرف سورتوں کی ہے اور اگر آپ اس ترتیب سے قرآن کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ہر سورت ایک انتہائی خوب صورت باب ہے اور ہر سورۃ کا اپنے آگے اور پیچھے کی سورتوں سے بڑ ا گہرا تعلق ہے۔ لیکن اس کے علاوہ باقی تمام تقسمیں ، مثلاً رکوعات، پاروں اور منازل کی تقسیم، بعد کے ادوار میں مختلف لوگوں نے اپنی ضرویات کے لحاظ سے کی ہیں۔ مثلاً جب یہ طریقہ بن گیا کہ رمضان کے تیس روزوں میں قرآن مجید کو ختم کرنا ہے ، تو قاری حضرات نے اپنی آسانی کے لیے قرآن حکیم کو تیس برابر حصوں میں تقسیم کر لیا۔ اس تقسیم کا فائدہ تو یہ ہے کہ قرآن کریم تیس دنوں میں ایک خاص وقت میں پڑ ھاجا سکتا ہے۔ مگر اس کا نقصان یہ ہے کہ قرآن مجید کا معنوی پہلو نظر انداز ہوجاتا ہے۔ سورتوں کی تقسیم کے علاوہ باقی تمام تقسیمیں اجتہادی ہیں ، جنہیں اختیار بھی کیا جا سکتا ہے اور ترک بھی کیا جا سکتا ہے۔
موجودہ زمانے میں قرآ ن مجید کی دواور تقسیمیں بھی کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک تقسیم پیر اگرافوں کی ہے ، یعنی ایک سورت کے اندر مطلب کی مناسبت سے پیراگراف بنا دیے گئے ہیں۔ اس سے مطلب سمجھنے میں بڑ ی آسانی ہوتی ہے۔ دوسری تقسیم تمام سورتوں کو سات ابواب میں تقسیم کرنا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کی طرف قرآن مجید نے ’’سبع من المثانی‘‘ میں اشارہ کیا ہے۔ ان میں سے ہر باب مکی دورسے شروع ہوتا ہے ور اس کا اختتام مدنی دور پر ہوتا ہے۔ اسی طرح کار رسالت کو سمجھنے میں بڑ ی آسانی ہوجاتی ہے۔ ’’تدبر قرآن‘‘ میں پیراگرافوں کے ساتھ ساتھ یہ طریقہ بھی اختیار کیا گیا ہے۔
سوال: بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ قرآن مجید کی ایک آیت سے کئی کئی معنی نکل سکتے ہیں ، بلکہ اس بات پر فخر کا اظہار کیا جاتا ہے کہ کسی آیت کے چالیس چالیس معنی بھی بیان کر دیے جائیں۔ سوال یہ کہ اگر واقعتا ایسا ہے ، تو پھر ایک عام آدمی قرآن مجید سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا، کیونکہ اسے کیا معلوم کہ کس آیت کے کتنے معنی ہیں ؟ اگر کوئی کتاب اپنا مطلب واضح کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تو یہ اس کی کمزوری سمجھی جاتی ہے ، تو قرآن مجید کے مطابق ہم یہ کیسے مان لیں کہ وہ اپنا مطلب واضح نہیں کرتا۔ اس طرح تو قرآن کریم کتاب ہدایت نہیں ، بلکہ ایک چیستان بن جائے گا؟
جواب: یہ بات صحیح نہیں ہے کہ قرآن مجید کی کسی آیت کے کئی کئی مطلب ہو سکتے ہیں۔ قرآن علیحدہ علیحدہ فقروں کی شکل میں نازل نہیں ہوا کہ آپ غزل کے کسی شعر سے جتنے چاہیں مطلب نکال لیں۔ اس کے برعکس، قرآن مجید اور منظم اور مربوط کلام ہے ، اور ایک مربوط کلام میں ایک فقرے کا صرف وہی مطلب لیا جا سکتا جو اس کے آگے اور پیچھے کے فقروں سے واضح ہو۔ یہی وجہ ہے کہ خدانے اس کلام کو ’’کتاب‘‘ کہا ہے ، کوئی ’’مجموعہ اقوال حکمت‘‘نہیں کہا۔ کتاب کی سب سے بڑ ی خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنا مقصد بیان کرنے میں بالکل واضح ہو۔ بے شک قرآن مجید اس معیار پر بھی دنیا کی عظیم ترین کتاب ہے کہ ہر غوروفکرکرنے والے کے سامنے وہ اپنا مدعابالکل صاف رکھ دیتی ہے۔ لہٰذا قرآن کریم کے کسی بھی فقرے کا صرف وہی مطلب لینا صحیح ہے ، جو اس کے پورے پس منظر اور ماقبل ومابعد کے فقروں (یعنی سیاق وسباق) سے واضح ہوتا ہے۔
سوال: کہا جاتا ہے کہ قرآن حکیم میں دو طرح کی آیات ہیں : ایک محکمات جو اس کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات، جن کا مطلب ایک عام آدمی پر واضح نہیں ہوتا۔ یہاں پہلاسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں یہ کیسے پتہ چلے گا کہ کون سی آیت محکمات میں سے ہے اور کون سی متشابہات میں سے ، ؟دوسرا سوال یہ ہے کہ خدا نے قرآن حکیم میں مبہم آیات کیوں نازل کیں ، جن کا ہمیں مطلب ہی سمجھ میں نہ آ سکے ؟
جواب: اس غلط فہمی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ’’متشابہ‘‘ کے معنی مبہم کے سمجھ لیے گئے ، حالانکہ ’’متشابہ‘‘ کا مطلب ہے ملتا جلتا۔ آئیے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں : قرآن کریم نے ہمیں اس کائنات کے انجام کے بارے میں ایسی باتیں بتائی ہیں ، جو ہم نے نہ نہ کبھی نہ کبھی دیکھی ہیں ، نہ سنی ہیں اور نہ کبھی ان کا تجربہ کیا ہے۔ اس لیے یہ لازم ہے کہ ان نامعلوم حقائق کو دنیا کے معلوم حقائق سے تشبیہہ دے کر ہمیں ان کے بارے میں سمجھایا جائے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ آج سے پانچ سو برس پیشتر ہم کسی کو میزائل کے متعلق بتانا چاہتے تو ہم کہتے کہ ایک زمانے میں ایسے تیر بنیں گے جنہیں کمان سے پھینکا جائے گا تو وہ ہزاروں میل دور جا کر اپنے نشانے پر لگیں گے۔ اس طرح ہم میزائل کو تیر سے اور کے لانچنگ پیڈ کو کمان سے تشبیہہ دی۔ بالکل اس طرح، جب قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ قیامت کیسے آئے گی، حساب کتاب کیسے لیا جائے گا اور جنت ودوزخ کیسے ہوں گے ، تو وہ تشبیہہ کا اسلوب اختیار کرتا ہے ، تاکہ ہم اس بات کو اجمالی طور پر سمجھ سکیں اور اس کا خاکہ ذہن میں بنا سکیں۔ لیکن اصل میں یہ سب کچھ کیسے ہو گا، یہ صرف اسی وقت پتہ چلے گا جب ہم ان حقائق کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ عالم لا ہوت یعنی ذات الٰہی سے متعلق آیات بھی متشابہات کی نوعیت کی ہیں۔
گویا احوال قیامت اور عالم لا ہوت کے علاوہ قرآن کریم میں باقی سب آیات محکم ہیں ، جن کا مطلب اور مفہوم بالکل واضح ہے اور انہیں سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔
سوال: کہا جاتا ہے کہ مدنی دور کی ابتدا میں کچھ احکام، قرآن میں نازل کیے گئے اور بعد میں ان احکام کو منسوخ کر کے ان کی جگہ دوسرے احکام نازل کیے گئے۔ ایسا کیوں کیا گیا؟
جواب: جب ایک سوسائٹی تربیت کے مراحل میں سے گزرتی ہے تو اس کو بہت آہستگی کے ساتھ تبدیلی کے عمل سے گزارنا چاہیے ، تاکہ لوگ بہتر طریقے سے تبدیلی کے عادی بن جائیں اور سوسائٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہو۔ جس سوسائٹی میں جو خرابی جتنی زیادہ جڑ یں رکھتی ہو، اسے اتنی ہی احتیاط سے دور کرنا چاہیے۔ چنانچہ اس ضمن میں خالق کائنات نے مدنی دور میں ، امت مسلمہ کی تشکیل کے وقت بعض معاملات میں ابتدامیں نرم احکام دیے اور پھر جب سوسائٹی ان کی عادی بن گئی تو پھر حقیقی حکم نافذ کر دیا گیا۔ مثلاً اس وقت شراب عربوں کی گھٹی میں پڑ ی ہوئی تھی، چنانچہ قرآن نے پہلے شراب کے متعلق ناپسندیدگی کا اظہار کیا، اس کے بعد نماز کے اوقات میں شراب کا پینا منع کر دیا گیا اور جب لوگ اس کے عادی بن گئے ، تب شراب کو مکمل طور پر حرام قرار دیا گیا۔
اس مثال سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ یہ نسخہ دراصل تدریجی حکمت عملی ہے۔ خدا کی شریعت میں شراب ہمیشہ ہی سے حرام رہی ہے ، لیکن اس وقت کے معاشرے کو اس قانون پر اپنی پوری روح کے ساتھ عمل درآمد کروانے کے لیے تدریجی حکمت عملی اختیار کی گئی۔
سوال: سوال یہ ہے کہ ان منسوخ شدہ احکام کو بعد میں قرآن مجید میں کیوں باقی رکھا گیا؟
جواب: ایسا اس لیے کیا گیا کہ جب بھی بعد میں کوئی اسلامی حکومت وجود میں آئے تو وہ یہ جان سکے کہ سوسائٹی کی بنیادی خرابیوں سے تدریج کے ساتھ کیسے نمٹا جائے ، تاکہ معاشرے میں انتشار اور بغاوت پیدا کیے بغیر اسے دین کے اصولوں پر قائم کیا جا سکے۔
سوا: کیا آپ بطور مثال ان احکام کے بارے میں بتا سکتے ہیں جن میں تدریجی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے ، انہیں تبدیل کیا گیا؟
جواب: سب سے پہلے تو یہ جان لیجئے کہ تبدیلی صرف بعض عملی احکام میں کئی گئی۔ عقائد، اصول اور نظریات میں تو کسی ترمیم وتنسیخ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اکثر احکام کو اس طریقے سے نافذ کیا گیا کہ پہلے ان کے لیے فضا ہموار کی گئی اور اس کے بعد حکم دیا گیا۔ تاہم جو چند احکام تغیر کے ارتقا سے گزرے ، ان میں بھی قرآن کریم کی ترتیب اس طرح کی گئی کہ جہاں ابتدائی حکم دیا گیا، اکثر اوقات حتمی حکم بھی وہیں درج کیا گیا۔ ان احکام وہدایات کی مثالیں درج ذیل ہیں :
1 روزوں کے بارے میں ابتدائی حکم یہ تھا کہ عارضی بیمار یا مسافر، اگر چاہیں تو قضا روزے رکھنے کے بجائے ، اس کا فدیہ دے سکتے ہیں۔ بعدمیں اس رعایت کو ختم کر دیا گیا اور فدیہ دینے کی بجائے قضا روزے رکھنا لازم کر دیا گیا۔
2 شراب کے ضمن میں پہلے ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا، پھر یہ حکم دیا گیا کہ نماز کے اوقات میں شراب نہ پی جائے اور حتمی حکم یہ دیا گیا کہ اس کو مکمل طور پر حرام قراردیا گیا۔
3 جو لوگ حضورﷺ سے علیحدگی میں گفتگو کے خواہش مند ہوتے ، ان پر یہ لازم قرار دیا گیا کہ وہ پہلے کچھ صدقہ دیں۔ بعد میں یہ پابندی اٹھالی گئی۔
اس آخری مثال سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ سوسائٹی کو کسی شرسے بچانے کے لیے پہلے ایک سخت حکم دے دیا جائے اور بعد میں نرمی کر دی جائے۔
سوال: کیا قرآن کے کسی حکم کو قرآن سے باہر کی کوئی چیز، مثلاً سنت یا حدیث منسوخ کرسکتی ہے ؟
جواب: چونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن ہی کو حق وباطل کا معیار (فرقان)، حق وباطل کا ترازو (میزان) اور ہمارے دین کا محافظ (مہیمن) قرار دیا ہے ، اس لیے ہر چیز کو قرآن کی میزان اور معیار پر جانچا جائے گا، نہ کہ قرآن کو کسی اور چیز سے جانچا جائے گا۔ پس قرآن کے کسی حکم کو صرف قرآن ہی کی کوئی دوسری آیت منسوخ کرسکتی ہے۔
برسبیل تذکرہ یہ بھی جان لیجئے کہ قرآن مجید، سنت ثابتہ اور حدیث کا ایک دوسرے سے کوئی تضاد ممکن ہی نہیں۔ اس لیے کہ یہ سب کچھ ایک ہی سرچشمہ ہدایت سے آیا ہے۔
سوال: کہا جاتا ہے کہ قرآن مجید کی بعض آیات کی تلاوت منسوخ کر دی گئی ہے ، مگر ان کا حکم باقی ہے۔ بادی النظر میں یہ بات بالکل عقل کے منافی نظر آتی ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے ؟
جواب: جی نہیں ، ایسا ہوہی نہیں سکتا، اس لیے کہ اس وقت جو قرآن ہمارے ہاتھ میں ہے ، یہی معیار حق وباطل اور ہمارے عقیدے اور عمل کا محافظ ہے۔ لہٰذا یہ ممکن نہیں ہے کہ آیت تو قرآن میں موجود نہ ہو اور اس کا حکم باقی ہو۔ یہ بات قرآن مجید کے فرقان، میزان اور مہیمن ہونے کے صریح منافی ہے۔
ظاہر ہے کہ خدا نے اس کتاب کو ہمارے لیے ہدایت بنا کر بھیجا ہے۔ اسے ہمارے دین وایمان سے دشمنی نہیں کہ وہ حکم تو باقی رکھے مگر آیت منسوخ کر دے۔ یہ بات قرآن کریم کے ’’بلاغ مبین‘‘، ’’حکمت‘‘، ’’امر‘‘، ’’احسن الحدیث‘‘ اور ’’بصائر‘‘ ہونے کے بالکل متضاد ہے۔
سوال: اگر ہمیں قرآن کے کسی حکم اور کسی حدیث میں بظاہر کوئی تضاد نظر آئے ، تو کیا کیا جائے ؟
جواب: ہر حدیث کسی نہ کسی قرآنی حکم پر مبنی ہوتی ہے ، اس لیے جہاں کہیں ایسا کوئی تضاد نظر آئے ، وہاں یہ دیکھ لیجیے کہ کہیں آپ نے حدیث کا منشا اور مفہوم سمجھنے میں تو غلطی نہیں کی، یا وہ حدیث کسی دوسرے قرآنی حکم پر مبنی تو نہیں۔ اس طرح جب آپ مسلسل غوروفکر جاری رکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ ہر حدیث، دراصل قرآن کے کسی نہ کسی حکم یا ہدایت کی تشریح کر رہی ہوتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ قرآن کا مفہوم ہی صحیح متعین نہ کیا گیا ہو۔
اگر پھر بھی آپ مطمئن نہ ہوں ، تو اس خاص موضوع پر ایک دوسرے سے مختلف نقطہ نظر رکھنے والے اہلِ علم کی تحریریں غور سے پڑ ھ لیجئے۔ انشاء اللہ کسی نہ کسی نقطہ نظر پر آپ کا دل بالکل مطمئن ہوجائے گا۔
سوال: کیا آج ہم واقعی یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ یہ وہی قرآن ہے جو محمد رسول اللہﷺ پر نازل کیا گیا تھا؟
جواب: جی ہاں ، اس لیے کہ قرآن حضورﷺ سے ہزاروں صحابہ کرامؓ نے سنا اور پھر ان سب نے یہ متفقہ شہادت دی کہ یہی قرآن انہیں حضورﷺ سے ملا ہے۔ پھر ان لاکھوں صحابہ سے یہ کروڑ وں لوگوں تک پہنچا اور پھر اس طرح یہ سلسلہ آج تک چلا آ رہا ہے۔ یہ اتنا قابل اعتماد ذریعہ ہے کہ آج دنیا میں کوئی انسان بھی اسے چیلنج کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔
سوال: چونکہ پاکستان میں ہماری تعلیمی زبان اردو ہے ، اور بدقسمتی سے یہاں ایک تعلیم یافتہ کو عربی سیکھنے کا زیادہ موقع نہیں ملتا، اس لیے قرآن کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟
جواب: عربی زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے یہ ہماری مجبوری ہے کہ ہم ترجمے کی مدد سے قرآن مجید کا فہم حاصل کریں۔ تاہم یہ بات یادرکھنے کی ہے کہ قرآن مجید ایک شہ پارۂ ادب اور دنیا کی اعلیٰ ترین بامحاورہ کتاب ہے۔ ترجمے میں قرآن مجید کا مضمون توکسی حد تک ادا ہوجاتے ہیں ، مگر قرآن کا غنا، آہنگ، ادبیت اور حسن بیان بھی سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ چونکہ عربی اور اردو کے گرامر اور محاوروں میں بہت فرق ہے ، اس لیے قرآن فہمی کے لیے لفظی ترجمہ غیر موزوں ہے۔
اس عاجز نے ’’آسان ترین ترجمہ وتفسیر‘‘ کے نام سے لکھی ہے جو صرف ایک جلد پر مشتمل ہے۔ اس کے مطالعے کے بعد اگر بڑ ی تفاسیر پڑ ھی جائیں تو اُن کو سمجھنا نہایت آسان ہوجائے گا۔ مثلاً مفتی محمد شفیع کی ’’معارف القرآن‘‘۔ مولانا مودودی کی’’تفہیم القرآن‘‘۔ مولانا اصلاحی کی ’’تدبر قرآن‘‘ اور اسی طرح دوسری بہت سی تفاسیر۔ لفظی ترجمہ کے ضمن میں سید شبیر احمد اور حافظ نذر احمد کے ترجمے بہت مفید ہیں۔
سوال: اگر ایک تفسیر کو پڑ ھتے ہوئے قاری کے ذہن میں کوئی سوال آجائے تو اس کا کیا حل ہے ؟
جواب: اس کا حل یہ ہے کہ آپ اسی حصے کا دوسری تفاسیر میں بھی مطالعہ کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ کی مشکلات حل ہوجائیں گے۔ اس ضمن میں آپ موجود اہل علم سے بھی استفادہ کرسکتے ہیں۔
سوال: قرآن مید میں غوروفکر کا دروازہ بند ہو گیا ہے ؟
جواب: جی نہیں ، قرآن مجید میں غوروفکر کا دروازہ قیامت تک کھلا رہے گا، کیونکہ یہ کتاب قیامت تک ہمارے تمام انفرادی واجتماعی مسائل کے لیے راہ ہدایت ہے۔ اس لیے ہر آن اور ہر لمحہ، ہم اس کی رہنمائی کے محتاج ہیں۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قرآن کریم کے عجائبات یعنی نئے نئے علوم ومعارف کا خزانہ کبھی ختم نہیں ہو سکے گا۔