چوتھا باب
عقیدہ آخرت اور جبروقدر
سوال: توحید ورسالت کے بعد اسلام کا اہم ترین عقیدہ، آخرت پر یقین ہے ، اس کا مطلب کیا ہے ؟
جواب: عقیدہ آخرت کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اس عارضی دنیا میں عقل وفہم اور ارادہ واختیار کی قوت اس لیے دی گئی ہے کہ اس کی آزمائش کی جائے۔ اسے دنیا کی زندگی میں اللہ نے عقل وشعور سے نوازا ہے۔ اس کے سامنے زندگی گزارنے کے دو راستے رکھے ہیں ، جن میں سے ایک سچائی، دیانت اور شکر گزار بندہ بن کر رہنے کا راستہ ہے۔ دوسرا راستہ جھوٹ، بددیانتی، فساد اور بغاوت کا راستہ ہے۔ اس دنیا میں یہ دونوں راستے اللہ نے انسان کے سامنے کھلے رکھے ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے ان میں سے کوئی بھی راستہ اختیار کرسکتا ہے۔
لیکن ایک دن آئے گا، جب اس امتحان کا وقت ختم ہوجائے گا۔ اس دن زمین اور اس پوری کائنات کے قوانین بدل جائیں گے۔ وہی دن، قیامت کا دن ہو گا۔ اس کے بعد ہر انسان سے حساب کتاب ہو گا۔ اگر وہ دنیا میں شکر گزار بندہ بن کر رہا ہو گا تو اسے جنت کی صورت میں ابدی انعامات ملیں گے اور اگر اس نے بغاوت کی زندگی بسر کی ہو گی تو اسے سزادی جائے گی اور جہنم کی شکل میں برا انجام اس کا منتظر ہو گا۔
یہی بات ذہن نشین کرانے کے لیے اس دنیا میں پیغمبر آئے۔ انہوں نے لوگوں کو اچھے انجام کی بشارت دی، اس لیے وہ قرآن مجید کی اصطلاح میں ’بشیر‘ کہلائے۔ اسی طرح انہوں نے لوگوں کو برا رویہ اختیار کرنے پر، برے انجام سے ڈرایا۔ اس لیے وہ ’نذیر‘ کہلائے۔
سوال: اگر عقیدہ آخرت کو ماننا اتنا ضروری ہے تو خدا نے یقینا دنیا کی زندگی میں کچھ ایسے دلائل اور آثار رکھے ہوں گے ، جن پر غوروفکر کر کے انسان آخرت پر قائل ہو سکے۔ چنانچہ اس ضمن میں اسلام کے دلائل کیا ہیں۔ ؟
جواب: عقیدہ آخرت کے ضمن میں قرآن کریم نے ہمارے سامنے ایسے دلائل رکھے ہیں کہ اگر ان پر غیر جانبدارانہ انداز سے غور کیا جائے تو ہر انسان اس نتیجے پر پہنچ جائے گا کہ آخرت کا وقوع پذیر ہونا لازمی ہے۔ یوں تو قرآن کریم آخرت کے ذکر سے بھرا پڑ ا ہے ، لیکن درج ذیل پانچ دلائل اس میں بہت نمایاں ہیں :
اس کائنات میں اللہ نے ہر چیز زوجین یعنی جوڑ وں کی شکل میں بنائی ہے ، لیکن یہ ایک ہی حقیقت کے دو جزو ہوتے ہیں اور دونوں مل کر ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک حصے میں جو کمزوری ہوتی ہے ، دوسرا حصہ اسے پورا کر دیتا ہے۔ اگر ایک حصے میں کوئی خلا ہے تو وہ دوسرے حصے سے پر ہوجاتا ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال خود انسان ہے۔ انسان کی حقیقت واحدہ ہے ، لیکن اسے مرد وعورت کی شکل میں جوڑ ا بنایا گیا ہے۔ مرد، عورت کے بغیر نامکمل ہے اور عورت ، مرد کے بغیر نامکمل ہے۔ مرد کی شخصیت، اس کا جسمانی وجود، اور اس کے جذبات عورت سے بالکل مختلف ہیں۔ اس کی نفسیات، اس کے وجدانی احساسات اور جس طریقے سے وہ معاملات کو حل کرتا ہے ، وہ عورت سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ اسی طرح عورت کی شخصیت، اس کی نفسیات اور اس کے جذبات مرد سے مختلف ہوتے ہیں۔ یہ دونوں وجود ایک دوسرے کے بغیر بالکل نامکمل ہیں۔ مثلاً اولاد کے لیے باپ کی سختی بھی چاہیے اور ماں کا پیار بھی۔ جب مردوعورت دونوں کو ایک حقیقت واحدہ کے طور پر لیا جائے ، تو دونوں مل کر ایک دوسرے کا خلا بھر دیتے ہیں اور ایک دوسرے کی کمزوریاں دور کر دیتے ہیں۔ اگر کسی جگہ مرد ہی مرد ہوتے تو انہیں دیکھ کر ہر عاقل پکار اٹھتا کہ یہاں عورت کا وجود بھی ہونا چاہیے۔ اسی طرح اگر کسی جگہ عورتیں ہی عورتیں ہوتیں تو ہر غوروفکر کرنے والا یہ نتیجہ نکالتا کہ یہاں مرد بھی ہونے چاہئیں۔
یہی حال پیاس اور پانی کی ہے اگر پیاس نہ ہوتی تو پانی کا وجود بے معنی تھا، لیکن اگر پیاس موجود ہے تو اسے محسوس کرنے والا ہر عاقل پکار اٹھے گا کہ پانی کاوجود بھی ہونا چاہیے۔
بعینہ یہی معاملہ زندگی کے ان دو اجزا۔ ۔ ۔دنیا اور آخرت کا ہے۔ یہ دنیا پکار پکار کر ہمیں متوجہ کر رہی ہے کہ یہ نامکمل اور ناتمام ہے۔ اس دنیا میں انسان کی زندگی پر غور کریں۔ یہاں اسے صرف ستر، اسی سال کی زندگی ملی ہے ، لیکن اس ستر، اسی سال کے مقابلے میں اس کے دل کی تمنائیں اتنی غیر معمولی ہیں کہ وہ ہزاروں لاکھوں سال میں بھی پوری نہیں ہو سکتیں۔ وہ چاہتا ہے کہ لاکھوں میل کا فاصلہ چشم زدن میں طے کرے۔ اس کی آنکھیں کروڑ وں میل تک دیکھ سکیں۔ اس کے کان، کائنات کی ہر آواز سن سکیں۔ پھر سب سے بڑ ھ کر یہ کہ انسان مرنا نہیں چاہتا، وہ حیات جاودانی چاہتا ہے۔ ابدی زندگی اس کا سب سے بڑ ا خواب ہے۔ زندگی اس کے لیے سب سے بڑ ی خوشی اور موت اس کے لیے سب سے بری خبر ہے۔ اسی طرح ا س کی پیدائش پر خوشی کی شادیانے بجتے ہیں اور اس کی موت پر ماتم ہوتا ہے۔ موت سے بڑ ھ کر انسان کسی چیزسے گریز نہیں کرتا۔ مگر یہ موت اس دنیا کی زندگی کی اٹل حقیقت ہے۔ گویا پیاس تو موجود ہے مگر پانی نہیں۔ دنیا کی زندگی اتنی نامکمل ہے کہ ایک انسان کافی مدت صرف کر کے کچھ علم وہنر حاصل کر لیتا ہے ، اپنے سامنے کام کے بے شمار منصوبے بنالیتا ہے کہ یک بیک فرشتہ اجل آ کر اس کے تمام منصوبے خاک میں ملا دیتا ہے اور اسے اپنے ساتھ لے کر اس کے رب کے حضور میں جاپہنچتا ہے۔
ایک اور پہلو سے غور کیجئے : اس دنیا میں ہر انسان کی دلی تمنا یہ ہے کہ یہاں کامل عدل وانصاف ہو۔ یہ انسان کی ازلی اور لازوال تمنا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ فرد اور معاشرہ دونوں انصاف کریں۔ اس انصاف کے لیے وہ ریاست، قانون، عدالت اور پولیس کے سارے ضابطے بھی تسلیم کرتا ہے۔ لیکن ہم اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اس ناتمام دنیا میں کامل انصاف ناممکن ہے۔
اس دنیا میں انسان سب سے بڑ ھ کر ظلم سے نفرت کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ظالم کو اس کے کئے کی پوری سزا ملے۔ یہاں دولت وقوت کے نشے میں فرعون، ہامان، ہٹلر اور میسولینی جیسے حکمرانوں ہزاروں لاکھوں انسانوں پر ظلم کا باعث بنتے ہیں ، مگر یہ بھی اس دنیا کا عجیب سلسلہ ہے کہ اول تو بڑ ے بڑ ے مجرم گرفت میں آتے نہیں اور اگر آبھی جائیں تو ان کی جرم کی مناسبت سے سزا ہی نہیں دی جا سکتی۔
گویا، اس دنیا کی زندگی کا ہر معاملہ پکار پکار کر یہ اعلان کر رہا ہے کہ یہ ناتمام اور ناقص ہے۔ اس کا ایک ایسا جوڑ ا ہونا چاہئیں ، جہاں ابدی زندگی ہو۔ جہاں موت کو موت آجائے۔ جہاں انسان کی صلاحتیں غیرمعمولی ہوجائیں۔ جہاں کامل انصاف ہو، جہاں ظلم کا پورا پورا بدلہ دیا جا سکے۔
چنانچہ قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ جس طرح ہر چیز جوڑ ا جوڑ ا ہے ، اسی طرح اس دنیا کا جوڑ ا آخرت ہے۔ دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی مل کر ایک حقیقت بن جاتی ہیں۔ گویا، زندگی کے دوزخ ہیں ، ایک عارضی اور دوسرا ابدی۔ عارضی زندگی ہی کی ساری ناتمامیاں ابدی زندگی میں جا کر پوری ہوجاتی ہیں۔
یہ وسیع وعریض کائنات، زمین کے علاوہ، بالکل زندگی کے بغیر ہے۔ زمین سے لاکھوں گنا بڑ ے کرے ، محض مادے کے بڑ ے بڑ ے ڈھیروں کی صورت میں پڑ ے ہوئے ہیں اور بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس پوری کائنات میں صرف ایک کرہ۔ ۔ ۔ ہماری زمین۔ ۔ ۔آباد ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کائنات کا مقصد صرف یہی ہے کہ جب رات ہوتو آسمان پر تارے چمکیں ؟ نہیں ، ایسا نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ اس کائنات سے کچھ اور مقصود ہو۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مستقبل کے جنت اور جہنم کا تعمیری مواد ہے۔ قیامت کے بعد جنت اور جہنم دونوں کے لیے ایک وسیع کائنات کی ضرورت ہو گی۔ اس وقت اس تعمیری مواد (Building material) سے نئے قوانین کے تحت نئے آسمان اور نئی زمینیں بنائی جائیں گی۔ گویا اس عظیم کروں کے آبادی کے لیے ایک دوسرا زمانہ منتظر ہے۔ اب جس کا جی چاہے ، اس کائنات کو دیکھ کر اس کی مقصدیت کو سمجھ لے۔ آخرت نہ ہو تو پھر یہ ساری کائنات دفتر بے معنی ہے۔
قرآن مجید ہمیں یہ دلیل بھی دیتا ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان نیکی وبدی کا واضح تصور رکھتا ہے۔ کچھ بنیادی سچائیاں ہیں ، جنہیں عالمی سطح پر ہمیشہ سے تسلیم کیا گیا ہے اور کچھ بنیادی برائیاں ہیں ، جنہیں انسان کے اجتماعی ضمیر نے ہمیشہ رد کیا ہے۔ مثلاً انسان نے ہمیشہ امانت، دیانت، انصاف، صلہ رحمی، بھائی چارے ، رشتہ داروں ، دوستوں ، ہمسائیوں اور عزیزوں کے حقوق، محنت، وعدے کی پابندی، امن، عفو ودرگزر اور حسن سلوک کو نیکی اور اچھائی قرار دیا ہے۔ اس طرح انسان نے قتل، چوری، ڈاکہ، غیبت، عیب جوئی ، جھوٹ، مکروفریب، ناپ تول میں کمی، دھوکہ، ظلم، اسراف، بخل، حسد، بدامنی اور گالی گلوچ کو برائی قرار دیا ہے۔ صرف یہی نہیں ، بلکہ اس دنیا میں انسان ہر وقت جزا اور سزا کے معاملات طے کرتا ہے۔ ہر لمحے فیصلہ کرتا ہے کہ یہ بات ٹھیک ہے یا غلط۔ یہ ہماری عدالتیں ، قوانین ضابطے ، پولیس اور حکومتیں خود اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسایت ان تصورات کی حامل ہے اور اس لیے جزاوسز برحق ہیں۔
سب سے بڑ ھ کر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہر انسان کے دل میں ایک عجیب چیز موجود ہے۔ لہٰذا جب بھی یہ انسان غلط کام کرتا ہے ، تو اس کے قلب کے اندر یہ آواز اسے ٹوکتی ہے کہ تم نے اچھا نہیں کیا اور انسان کو بہت ندامت محسوس ہوتی ہے۔ یہی آواز انسان سے کہتی ہے کہ تم آئندہ ایسا مت کرو۔ یہی وہ چیز ہے جسے ہم ضمیر کے نام سے جانتے ہیں اور قرآن کریم، نفس لوامہ کہتا ہے۔
گویا ہر انسان کے دل میں ایک خفیہ محتسب بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے اپنے اندر ایک داعی ہے جو اسے صحیح راستے کی طرف بلاتا ہے اور ہر غلطی پر ٹوکتا ہے۔ بے شک انسان اپنے جذبات اور خواہشات سے مغلوب ہوکر گناہ بھی کر بیٹھتا ہے ، مگر وہ اس کو نیکی سمجھ کر نہیں کرتا۔ انسان کے اندر کا مخفی محتسب اُسے ہر غلط کام کرنے پر ملامت کرتا ہے۔ اس ملامت گر کا پایا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسے اس دنیا میں شتر بے مہار کی طرح نہیں چھوڑ ا گیا۔ انسان عالم اصغرہے۔ اس کے اندر ضمیر کا پایا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ عالم اکبر یعنی اس کائنات میں نیکی وبدی پر جزا وسزا کا ایک وقت آنے والا ہے ، اسی کو ہم قیامت کہتے ہیں۔ ان تمام لوگوں کو ان کی بداعمالیوں پر سزا کا دن ہو گا، جنہوں نے اپنے اندر کی آواز کا کہا نہیں مانا تھا۔
قرآن مجید کہتا ہے کہ یہ نفس لوامہ انسان کو اس لیے دیا گیا ہے کہ وہ اچھے اور برے میں فرق کرسکے۔ گویا قیامت کی عدالت کا عکس ہر انسان کے اپنے اندر موجود ہے۔ اگر قیامت نہ ہوتی تو پھر ضمیر کا وجود بے معنی تھا۔ یہی ضمیر انسان کو ہر وقت یہ احساس دلاتا ہے کہ نیکی وبدی برابر نہیں ہیں۔ اس لیے نتیجے کے اعتبار سے انہیں برابر ہونا بھی نہیں چاہیے۔
قرآن مجید کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ اگر ہم خدا کو مانتے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہو کہ اس کی بنائی ہوئی کائنات میں بڑ ی حکمت اور قدرت پوشیدہ ہے ، اور اس بات سے بھی واقف ہیں کہ خدا بہت رحیم ہے ، اس نے ہمیں زندگی اور بے بہا نعمتیں دیں ، ہمیں عقل وشعور دیا، جس کے بے شمار نتائج بھی اس دنیا میں نکل رہے ہیں ، تو پھر ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب کچھ بالکل بے مقصد ہے اور خدا ہم سے اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں پوچھے گا؟
اگر دنیا کی زندگی کے اندر، انسانیت کی تعمیر کرنے والے اور زمین کو فتنہ وفساد سے بھر دینے والے یکساں ہوں اور ان دونوں گروہوں سے خدا کوئی سوال نہ کرے تو یہ بالکل ظلم ہو گا اور بے حکمت بات ہو گی۔ کیا ہم یہ یقین کرسکتے ہیں کہ خدائے حکیم وقدیر اتنا بے مقصد اور ظالمانہ کام کرسکتا ہے ؟
قرآن حکیم ہمیں تاریخ کی طرف باربار متوجہ کرتا ہے۔ ایک چھوٹے پیمانے پر یہاں دنیا بھی قیامت برپا ہوتی رہتی ہے۔ مثلاً ایک فرد کے لیے تو قیامت دنیا کی تباہی کے بعد برپا ہو گی، لیکن قوموں اور تہذیبوں کے لیے میدانِ حشر یہی دنیا ہے۔ تمام تہذیبوں اور قوموں ، مثلاً روم، یونان، مصر، کمیونزم، نازی ازم، غرض یہ کہ سینکڑ وں عروج وزوال، پکار پکار کر ہمارے سامنے یہ حقیقت بے نقاب کرتے ہیں کہ جو قومیں کچھ اخلاقی اصولوں کی پابندی کرتی ہیں ، وہ بام عروج پر پہنچ جاتی ہے اور جب ان اصولوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے تو یہی تہذیبیں زوال کا شکار ہوجاتی ہیں۔
دیکھا جائے تو کسی قوم نے عروج وزوال کا جو مرحلہ عام حالات میں صدیوں میں طے کیا ہوتا ہے ، رسولؐ کی موجودگی میں وہ چند برسوں کی اندر طے ہوجاتا ہے۔ اگر وہ قوم زوال کو اپنے لیے پسند کرے تو اسے اللہ تعالیٰ الٹی میٹم دے دیتے ہیں کہ وہ اپنا رویہ درست کرے ، ورنہ اس کا فیصلہ کرنے کے لیے خداکی عدالت زمین پر لگ جائے گی اور اس قوم کے لیے دنیا ہی میں قیامت برپا کر دی جائے گی۔ قوم لوطؑ اورقوم صالحؑ کے ساتھ یہی ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ رسولوں کی اقوام کے لیے عذاب کا لفظ دونوں عذابوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ، یعنی ایک اس دنیا میں خدا کی عدالت سے عذاب کا فیصلہ اور دوسرا آخرت کا عذاب۔
چونکہ، ایک فرد کے اعمال کا پورا حساب اسی وقت تمام وکمال طے کیے جا سکتے ہیں جب اس دنیا کی زندگی کا اختتام ہوجائے ، اس لیے ایک عام فرد کا اصل حشر قیامت پر موخر کیا گیا ہے۔
سوال: کسی فرد کے ساتھ پورا پورا انصاف کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ نہ صرف اس کے اعمال کا پورا پورا ریکارڈ رکھا جائے ، بلکہ ہر عمل کے پیچھے اس کی نیت اور ارادے کا ریکارڈ بھی موجود ہو۔ پھر اس عمل کے نتیجے میں ہونے والے اچھے اور برے اثرات کا بھی پورا پورا ریکارڈ رکھا جائے۔ سوال یہ ہے کہ سب کچھ تو ناممکن حد تک مشکل ہے۔ یہ آخر ہو گا کیسے ؟
جواب: خالق کائنات کے لیے ایسا نظام کرنا کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ آج انسان نے بھی چھوٹی سطح پر یہ معلوم کر لیا ہے کہ ہر فرد کے ذہن کا دنیا کا پورا ریکارڈ محفوظ ہوتا رہتا ہے۔ جدید نفسیات نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ کسی انسان کی نیتوں اور وسوسوں میں سے کچھ بھی ضائع نہیں ہوتا، بلکہ وہ لاشعورکا حصہ بن جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات بہت چھوٹے پیمانے پر یہ یکارڈ نکال کر رکھ دیتے ہیں۔
اس طرح آج ٹیپ ریکارڈ کی ایجاد نے یہ واضح کر دیا ہے کہ کسی بھی فرد کے قول کو بعینہ دہرایا جا سکتا ہے۔ ویڈیو کی ایجاد نے یہ دکھا دیا ہے کہ کسی بھی انسان کے سابقہ عمل کو پوری جزئیات کے ساتھ، محفوظ رکھا جا سکتا ہے ، بلکہ انسان کے بدن سے نکلنے والی غیر مرئی شعاعوں سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اس کے ایک ایک لمحے اثر کائنات کی کتاب پر رقم ہورہا ہے۔ چنانچہ جب انسان ایک چھوٹے پیمانے پر اتنا کچھ کرسکتا ہے ، تو کیا خالق کائنات پوری انسانیت کے ساتھ یہ عمل نہیں دہرا سکتا؟
سوال: کیا کھربوں انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنا، جزاوسزا کے لیے ناقابل یقین حد تک پھیلی ہوئی جنت اور دوزخ تیار کرنا مشکل امر نہیں ہے ؟
جواب: اس خدا نے انسان جیسی مخلوق کو پہلے ہی پیدا کر دیا ہے۔ اس نے جنت اور دوزخ کا پورا میٹریل پہلے ہی سے پیدا کر کے ہمیں دکھا دیا ہے۔ اس خالق کی ان قدرتوں کو دیکھتے ہوئے اس میں کیا مشکل ہے کہ جس نے ایک دفعہ انسان کو پیدا کیا، وہ دوسری دفعہ بھی اس کو پیدا کر دے جس نے اتنی وسیع وعریض کائنات بنائی، اس کے لیے ان میں جنت ودوزخ بنانا کیا مشکل ہے ؟
سوال: ہم جانتے ہیں کہ اس دنیا میں کروڑ وں انسان ایسے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں اسلام کا نام بھی نہیں سنا ہو گا، اربوں ایسے ہیں جنہوں نے اسلام کا نام تو سنا ہو گا۔ لیکن انہیں یا تو اسلام کا پیغام بہت ناقص انداز میں پہنچا ہو گا، یا انہوں نے اسلام کے دشمنوں ہی سے اسلام کے متعلق کچھ سنا ہو گا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ایک دعوت پر غوروفکر کرتے ہوئے اپنے پرانے عقید ے کو چھوڑ کر نیا عقیدہ اختیار کرتے ہوئے انسان کو ایک لمبا عرصہ چاہیے ہوتا ہے۔ چنانچہ بے شمار انسان ایسے بھی ہوں گے جنہیں یہ مہلت نہیں ملی ہو گی۔ اسی طرح آج کی دنیا میں بے شمار غیر مسلم ایسے بھی ہوں گے جو موجودہ مسلمانوں کو اسلام کا نمائندہ خیال کرتے ہوئے ، ان کے کردار سے متنفر ہوکر اسلام ہی سے متنفر ہوگئے ہوں گے ، اور انہوں نے اپنے دل کے دروازے اسلام کے لیے بند کر لیے ہوں گے۔ ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں زمین پر رہنے کے لیے بہت کم وقت ملا۔ یوں وہ دعوت دین پر غوروفکر سے پوری طرح بہرہ مند نہ ہو سکے۔ اسی طرح بہت سے غیر مسلم ایسے بھی ہیں جنہوں نے مخلوق خدا کو بہت فائدے پہنچائے ہیں۔ کیا یہ سب ، محض اس لیے جہنم کا ایندھن بنیں گے کہ یہ کسی مسلمان کے گھر پیدا نہیں ہوئے۔
جواب: اللہ تعالیٰ کے ہاں مکمل، خالص اور بے لاگ انصاف ہے ، اس لیے یہ تصور بھی نہیں کیاجا سکتا کہ وہ بندوں کو ایسی بات پر سزا دے ، جس میں ان کا عملاً کوئی قصور نہیں۔ دراصل اللہ نے انسان کو سیدھا راستہ بتانے کے لیے گوناگو ں طریقوں سے کام لیا ہے ، جن میں تین سب سے زیادہ اہم ہیں ، یعنی عقل وشعور، نفس لوامہ اور پیغمبروں کی وحی۔
بے شک ان میں بنیادی حیثیت عقل وشعور کو حاصل ہے اور تکمیل پیغمبر کی وحی کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ چنانچہ جہاں پیغمبر مبعوث ہوجائے تو جن لوگوں کو اس کی دعوت سننے اور پرکھنے کا پورا موقع مل جائے ، ان پر اس دنیا میں مکمل اتمام حجت ہوجاتا ہے ، اور پھر آخرت میں وہ اپنی نافرمانی کے لیے اللہ کے ہاں کوئی معذرت پیش نہیں کرسکتے۔ یہ بات سورہ اعراف کی پہلی دس آیتوں میں ، بڑ ی وضاحت سے ، بیان کی گئی ہے۔
اس طرح جس فرد کو اسلام کا پیغام، پیغمبر کی امت کے ذریعے سے مل جائے ، اور اس کے سامنے اسلام کے اجتماعی وانفرادی نظام عدل کا پورا پورا نمونہ، ایک اسلامی ریاست کی شکل میں موجود ہو، تو گویا اس کو بھی یہ پیغام کافی حد تک پہنچ گیا ہے۔
اس کے بعد انسان، ہدایت کے اعتبار سے بے شمار طبقات میں تقسیم ہوجاتے ہیں مثلاً ایک فرد کو اسلام کی دعوت تو پوری طرح مل گئی، مگر اس کے سامنے اس دین کا کوئی عملی نمونہ نہیں ہے ، یا پھر اس کو دعوت پوری نہیں ملی، یا دین کا پیغام، ناقص طریقوں ، ناقص لوگوں کے ذریعے سے ملا، یا اس کے پاس اپنے شکوک وشبہات رفع کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ ایسے سب لوگوں سے اللہ ان کے حالات کے اعتبار سے رعایت کامعاملہ کرے گا۔ یہ بات بھی قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے کہ’’ اس باب میں ہم ہر ایک کو اس کی استطاعت ہی کے مطابق ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ‘‘۔(سورہ الاعراف42:7)
باقی رہے وہ لوگ جنہیں اسلام کی دعوت نہیں ملی، ان کے متعلق قرآن مجید کا کہنا یہ ہے کہ ان سے دوچیزوں کے بارے میں حساب لیا جائے گا۔ پہلی چیز توحید ہے ، جس کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے کہ اس کی شہادت کو اللہ نے انسان کی فطرت میں ، براہ راست رکھ دیا ہے۔ (سورہ الاعراف 173-172:7) اگر انسان اپنے عقل وشعور کا صحیح استعمال کرے تو یہ لازم ہے کہ اسے ایک اور صرف ایک منعم حقیقی اور خالق کائنات کا شعور حاصل ہوجاتا ہے۔
دوسری چیز، جس کے بارے میں ہر انسان سے حساب لیا جائے گا، وہ ان عالمگیر سچائیوں اور اس طرزعمل کے بارے میں ہے جن پر انسان کا نفس لوامہ، خود شاہد ہے۔ انسان کے اندر موجود یہ طاقت ہر وقت انسان کوامانت، دیانت، رزق حلال، محنت، حسن سلوک، خدمت اور دوسری نیکیوں پر ابھارتی ہے ، اور ہر برائی مثلاً جھوٹ، فریب ، دغابازی، چوری، لڑ ائی، جھگڑ ے ، قتل اور نفسانیت سے روکتی ہے۔ یہ چیزیں اللہ نے انسان کی فطرت میں براہ راست رکھی ہوئی ہیں۔ ان سب چیزوں کا حساب، اللہ کے دربار میں ، پورے انصاف کے ساتھ ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب فرعون نے موسیٰؑ سے پوچھا کہ اس کے آباواجداد کا کیا ہو گا تو موسیٰؑ نے جواب دیا کہ ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ (سورہ الاعراف 46:7)
ہر انسان کی عمر کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ رعایت فرمائے گا۔ قرآن مجید کے مطابق چالیس سال کی عمر میں انسان کی عقل اور شعور بالکل پختہ ہوجاتے ہیں اور بہت سے معاملات میں اس کا عذر قابل قبول نہیں رہتا۔
اسی طرح جن غیر مسلموں نے مخلوق خدا کے فائدے کے کام کیے ہیں ، اور حق کے معاملے میں سچے طالب علم بھی ثابت ہوئے تو ان پر اللہ، ان کے حالات کے لحاظ سے ، نظرکرم فرمائے گا۔
سوال: عام مسلمانوں کے متعلق بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا محض اس وجہ سے ، وہ قرب الٰہی کے مستحق ٹھہریں گے کہ کسی مسلمان کے گھر میں پیدا ہوئے ؟
جواب: قیامت کا پیمانہ دنیا کے پیمانے سے بہت مختلف ہو گا۔ دنیا میں اگر کوئی فرد چند قانونی ضرورتیں پوری کر لے تو اسے مسلمان تسلیم کر لیا جاتا ہے ، لیکن قیامت کے دن ہر انسان سے اس کی حقیقی عقیدے ، خدا کے دین کے لیے اس کی جدوجہد اور اس کے حقیقی اعمال کے لحاظ سے ، اس کا حساب کتاب ہو گا۔ نفاق ، بے شعوری اور بے عملی کی اصل کیفیت کا علم وہیں ہو گا۔
سوال: دنیا میں ہر سال ہزاروں افراد خودکشی کر لیتے ہیں۔ کیا اس سے یہ مطلب نکالنا صحیح ہو گا کہ زندگی سے محبت لازمی نہیں ہے ؟
جواب: زندگی سے ہر انسان کو، لازماً محبت ہوتی ہے۔ اگر کسی ایسے انسان سے ، جو کلفتوں ، مصیبتوں یا اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ، خودکشی کا مصم ارادہ کر چکا ہو، یہ کہا جائے کہ اس کی مصیبتیں ختم ہو سکتی ہیں اور اس کے کرتوت فراموش کیے جا سکتے ہیں ، تو وہ ایک دم خودکشی کا ارادہ ترک کر دے گا۔ دراصل ایسے لوگ ویسے زندگی نہیں چاہتے جیسے ان کو مل گئی ہو۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا کی زندگی دارالجزا نہیں ، بلکہ دارالامتحان ہے۔ گویا، خودکشی، فطرت کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔
خودکشی کی ایک دوسری قسم وہ ہے۔ جس میں انسان کسی دماغی بیماری (مثلاً ڈپریشن یا شیزوفرینیا) کے سبب اپنی جان لے لیتا ہے۔ ایسے لوگوں پر کوئی مواخذہ نہیں ، اس لیے کہ ان کا ذہن، ان کے اختیار میں نہیں ہوتا۔
سوال: تمام اچھے انسان ایک جیسے انعام کے مستحق نہیں ہوتے اور تمام برے انسان ایک جیسی سزا کے مستحق نہیں ہوتے ، تو کیا جنت ودوزخ میں مختلف طبقات ہوں گے ؟
جواب:جی ہاں ، جنت ودوزخ میں طبقات اور درجات ہوں گے ، کیونکہ ہر انسان کے ساتھ بے لاگ انصاف ہو گا۔ جن لوگوں نے اپنی پوری زندگی خدا کے دین کی سعی وجدوجہد میں بسر کی ہو گی، وہ سب سے اونچے درجے کے مستحق ہوں گے۔ انہیں قرآن میں سابقون کہا گیا ہے۔ اس کے برعکس، جہنم کے بدترین درجے ان منافقوں اور منکرین حق کے لیے مخصوص ہوں گے ، جنہوں نے اسلام کی مخالفت میں اپنی زندگی کھپائی ہو گی۔ اسی طرح جس کی جتنی بھی اچھائیاں یا برائیاں ہوں گی، اسے ان کے مطابق درجات ملیں گے۔
سوال: قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں کے بارے میں بہت تفصیل سے بتایا ہے۔ وہاں کے میوے ، محلات، پاکیزہ بیویاں ، حوریں ، خدمت کے لیے غلمان، اعلیٰ ترین لباس، کامل سکون واطمینان اور وہاں کے چشموں کے مشروبات کی تفصیل: سوال یہ ہے کہ اتنی تفصیل کی ضرورت کیا تھی؟
جواب: اس عارضی دنیا میں جو چیزیں انسان کو خدا اور آخرت سے بیگانہ رکھتی ہیں ، وہ بنیادی طور پر زن، زر اور زمین ہیں۔ یعنی نفسانی خواہشات کی مکمل تسکین، طاقت واقتدار اور انعام وا کرام۔ جب انسان اسی دنیا کی زندگی کو سب سمجھ لیتا ہے ، تو وہ دن رات انہی چیزوں کو حاصل کرنے کی جدوجہد میں لگ جاتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ اس جدوجہد کے نتیجے میں اسے یہ سب چیزیں بھی حاصل ہوجائیں ، کیونکہ ان ناتمام اور غیر کامل دنیا میں تمام خواہشات کا پورا ہونا ناممکن ہے۔ تاہم، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان آخرت کو فراموش کر دیتا ہے اور اس کی زندگی خسارے کا ایک سودا بن کر رہ جاتی ہیں۔
چنانچہ، قرآن مجید نے بڑ ی تفصیل کے ساتھ یہ بتایا ہے کہ اگر دنیا کی زندگی تقویٰ وخشیت الٰہی کے ساتھ گزاری جائے ، تو نہ صرف یہ کہ دنیا کی زندگی بھی اچھی گزرے گی بلکہ وہ سب خواہشیں ، جس کا انسان تصور کرسکتا ہے ، آخرت میں پوری ہوجائیں گی۔ اس طرح قرآن چاہتا ہے کہ دنیا کی نعمتوں اور آسائشوں کے مقابلے میں آخرت کی نعمتیں اور آسائشیں ہماری نگاہ کا مرکز بن جائیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ احوال قیامت اور جنت ودوزخ کے بارے میں قرآن مجید میں سارا ذکر متشابہات کی نوعیت کا ہے۔ ان کی اصل عظمت ورفعت ہمیں معلوم نہیں ہے۔ البتہ، ہم اتنا جانتے ہیں کہ وہاں کی نعمتیں ہمارے تصورات سے ہزاروں لاکھوں گنا زیادہ ہوں گی۔
سوال: عقیدہ آخرت کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ انسان کے جبرواختیار کا بھی ہے۔ کیا انسان مجبور محض ہے ، یا وہ مکمل طور پر خودمختار ہے ، یا حقیقت ان کے درمیان ہے ؟ جن باتوں میں وہ مجبور ہے ، کیا ان کے بارے میں اس سے حساب لینا بے انصافی نہیں ؟ سوال یہ ہے کہ آخرت کے اعتبار سے مسئلہ جبروقدر کی حقیقت کیا ہے ؟
جواب: اللہ عادل حقیقی ہے ، اس لیے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایسے معاملے میں انسان کو سزا دے جہاں وہ مجبور تھا۔ اللہ تعالیٰ انسان سے صرف انہی امور کے بارے میں مواخذہ کرے گا، جنہیں اس نے اپنے ارادہ واختیار سے انجام دیا ہو۔ مثلاً انسان کا اس امر میں کوئی اختیار نہیں کہ وہ کہاں پیدا ہوا، کس کے گھر میں پیدا ہوا ، اس کے اردگرد کا ماحول کیسا ہے ، اس کی ذہنی صلاحتیں کیسی ہیں ؟ لہٰذا ان چیزوں کی وجہ سے انسان پر مجبوری کا جو عالم طاری ہوتا ہے ، اس کے بارے میں اس سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا لیکن جب یہ انسان اپنے ارادے سے کسی دوسرے انسان کو نقصان پہنچائے گا یا خدا کی نافرمانی کرے گا، تو اس کے بارے میں اس سے ضرور باز پرس کی جائے گی۔
یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ چونکہ، اللہ ہی کو اس ساری کائنات اور دنیا کا نظام، ایک عظیم حکمت کے ساتھ چلانا ہے ، اس لیے ضروری نہیں کہ انسان کا ہر ارادہ یا ہر کوشش کامیاب ہو۔ اللہ نہ تو کسی ایسی کوشش کو کامیابی کی اجازت دے سکتا ہے جس سے انسانیت کو نقصان پہنچے ، نہ وہ کسی قوم کے حق میں ایک اچھے نتیجے کی اجازت دے سکتا ہے ، جب کہ وہ قوم ابھی اپنے عمل کے نتیجے میں کسی اچھے انجام کی مستحق نہ ہو۔ اس صورت میں انسان اپنے ارادے کی بنا پر جزا یا سزا کا مستحق ہو گا۔ مثلاً ایک گروہ نے کسی نیک انسان کو قتل کرنے کے لیے پورا پلان بنالیا۔ وہ اس کے راستے میں گھات لگا کر بیٹھ گئے ، لیکن اللہ کو ابھی اس نیک انسان کا مرنا منظور نہ تھا، لہٰذا اس دن وہ انسان اس راستے سے گزرا ہی نہیں ، یا گزرا تو دشمنوں کا نشانہ خطا ہو گیا۔ اس صورت میں یہ پورا گروہ قاتل بن گیا، اگرچہ وہ قتل میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اس لیے کہ اپنی طرف سے تو انہوں نے قتل ہی کرڈالا تھا۔ آخرت میں ان سے ، بطور قاتل ہی معاملہ جائے گا۔ بعینہ یہی معاملہ ہر جرم میں پیش آ سکتا ہے۔ (سورہ البقرہ284:2)
اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ کسی فرد نے ایک نیکی کی خاطر بہت بڑ ا پروگرام بنالیا۔ لیکن اللہ کو ابھی یہ منظور نہ تھا۔ اس لیے وہ کام، بالفعل، انجام دینے سے پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ ایسا شخص اپنے حقیقی ارادے ہی کی بنیاد پر، ایسے ہی اجر کا مستحق ہو گا، گویا اس نے وہ کام انجام دیا ہو۔ اس طرح اللہ تعالیٰ انسان کے تمام منصوبوں کو، خواہ وہ کامیاب ہوئے ہو یا نہ ہوئے ہو، محض ان کے پختہ عزم وارادے کی بنا پر بھی ان کے ساتھ جزا اور سزا کا معاملہ کرے گا۔
سوال: ایک انسان یہ بات کیسے معلوم کرسکتا ہے کہ وہ کہاں مجبور ہے اور کہاں خودمختار؟
جواب: اس دنیا میں ہم ہر روز جبر اور اختیار کی بنیاد پر فیصلے کرتے رہتے ہیں۔ اگر ہمارا ملازم، راستے میں کسی حادثے کی وجہ سے دیر سے آتا ہے ، توہم اسے معاف کرتے ہیں اور اگر وہ سستی کی بنا پر دیر سے آتا ہے تو ہم اس سے پوچھ گچھ کرتے ہیں۔
چنانچہ ہمارے لیے معیار یہ ہے کہ زندگی کے جس نظام میں بھی ہم اپنے آپ کو، اپنا فیصلہ خود کرنے پر قادر سمجھیں ، اس کے بارے میں ہمیں یہ خیال کرنا چاہیے کہ ہم سے قیامت کے دن اس کے متعلق بازپرس ہو گی۔ اس لیے ہمیں ذمہ داری کے ساتھ ایسے سب معاملات میں قرآن وسنت سے راہنمائی لے کر اپنا لائحہ عمل بنانا چاہیے۔
سوال: قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ ہدایت صرف اسی کو ملتی ہے ، جس کو اللہ ہدایت دینا چاہے اور یہ بھی کہ اللہ جس کے قلب وذہن پر چاہے ، مہر لگادیتا ہے۔ پھر اس سے خیر کو قبول کرنے کی صلاحیت چھن جاتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر کسی انسان کی نیکی اور بدی کا وبال اس پر کیوں ہو؟ ہدایت وگمراہی کے ضمن میں اللہ کا قانون کیا ہے ؟
جواب: اس ضمن میں قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ نے ہر انسان کو اچھی فطرت پر پیدا کیا ہے۔ اس کو نیکی اور بدی کا شعور بھی بخشا ہے اور اسے ارادہ واختیار کی آزادی بھی دی ہے۔ (سورہ الدھر3-1:76)
چونکہ، اللہ کا ہر کام اس کے علم وحکمت پر مبنی ہوتا ہے ، لہٰذا وہ ہدایت کی توفیق ان لوگوں کو بخشتا ہے جو عقل وفہم سے کام لیتے ، اور خیروشر اور حق وباطل کے درمیان امتیاز کی اس صلاحیت کی قدر کرتے ہیں ، جو خدا نے ان کو بخشی ہے۔ لیکن جو لوگ اپنے ارادہ اختیار کو استعما ل کر کے اور باربار ظلم کا ارتکاب کرتے ، اپنی صلاحتیں ضائع کر کے اندھے بہرے بن جاتے ہیں ، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو حق کو حق سمجھتے ہوئے اپنے دل کی گواہی کے خلاف، محض ضد اور نفسانیت کی وجہ سے حق کی مخالفت پر جم جاتے ہیں۔ تب ایک وقت ایسا آتا ہے ، جب ان کے قلوب پر مہر لگ جاتی ہے اور وہ بطور سزا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ (سورہ الاعراف103-100:7، سورہ النسائ155:4، سورہ الدھر31-30:76)
گویا متکبرین کے گروہ کو چھوڑ کر اللہ نے انسان کے لیے ہدایت کا دروازہ، اپنے عدل وحکمت کے تحت ، کھلا رکھا ہے۔
یہاں دو باتیں مزید سمجھ لینی چاہئیں۔ ایک یہ کہ قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی اللہ کے متعلق مشیت بیان ہوئی ہے ، اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ انسان اس بات کو اچھی طرح جان لے کر اللہ کی مشیت کو اللہ کے سوا کوئی دوسرا روک یا بدل نہیں سکتا۔ لیکن ایسے ہر مقام میں یہ مضمون آپ سے آپ ، موجودہوتا ہے کہ اس کی مشیت اس کے عدل اور حکمت کے تحت ہی ہو گی، اس لیے کہ وہ عادل اور حکیم ہے۔
دوسری بات یہ کہ قرآن مجید میں بعض افعال اللہ نے اپنی طرف منسوب تو فرمائے ہیں لیکن اس سے اصل مقصود اس ضابطے اور قانون کی طرف توجہ دلانا ہے ، جس کے تحت وہ افعال واقع ہوتے ہیں۔ چونکہ وہ ضابطے اور قاعدے خود اللہ کے ٹھہرائے ہوئے ہیں ، لہٰذا کہیں کہیں اللہ نے ان کے تحت واقع ہونے والے افعال کو بھی اپنی طرف منسوب کیا ہے ، مثلاً: ’’فلما زاغو ازاغ اللہ قلوبھم‘‘ جب وہ کج ہوئے تو اللہ نے ان کے دل کج کر دیے۔ ‘‘ ایسے موقعوں پر قرآن مجید میں بالعموم وہ اصول بھی بیان کر دیا جاتا ہے ، جس کے تحت وہ فعل واقع ہوتا ہے ، مثلاً:’’ما یضل بہ الا الفاسقین‘‘ ’’ اللہ صرف نافرمانی کرنے والوں کو گمراہ کرتا ہے۔ ‘‘ (سورہ بقرہ 26:2)
اللہ نے باربار اپنی مشیت کی طرف اس لیے توجہ دلائی ہے کہ انسان محض اپنی کوشش ہی کو سب کچھ نہ سمجھ لے بلکہ ہر وقت اپنے رب کے دربار میں عاجزی کے ساتھ جھکا رہے۔
ہمیں جبرواختیار کے ضمن میں ہمیشہ اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ اللہ کے ہاں مکمل انصاف ہے۔ وہ رحمت اور حکمت والا ہے۔ اس لیے وہ ہمیں کسی ایسے فعل پر سزا نہیں دے گا، جہاں ہم مجبور ہوں گے۔ اگر ہم اس کی ہدایت کو فراموش نہ کریں تو وہ ہمیشہ ہم پر رحمت کی نگاہ رکھے گا۔ البتہ، دنیا کو وہ اپنی ہی حکمت کی بنا پر چلا رہا ہے ، ہماری کوئی کوشش صرف اس وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب اللہ اپنی حکمت کے تحت ایسا چاہیے۔
سوال: کیا خدا کو یہ علم ہے کہ کون جنت میں جائے گا اور کون دوزخ میں ؟ اگر ایسا ہے تو کیا اس سے انسان کے اختیار کی نفی نہیں ہوتی؟
جواب: اِس ضمن میں انسان کو دو باتیں اچھی طرح جان لینی چاہئیں : پہلی یہ ہے کہ انسان کے لیے کسی ایسے سوال کا جواب دینا ممکن نہیں جس کا تعلق اللہ کے ذہن سے ہو، اس لیے کہ یہ چیز انسان کے علم وفہم سے ماورا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے اس نوع کے سوالات کو نہیں چھیڑ ا۔
دوسری بات یہ ہے کہ بہرحال، اس معاملے میں اصل اور موثر چیز انسان کے اعمال ہیں ، نہ کہ خدا کا علم۔ ایک معمولی مثال کے ذریعے سے اس بات کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک استاد اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر، اپنے ایک شاگرد کے متعلق پہلے سے یہ بات جانتا ہے کہ وہ امتحان میں فیل ہو گا، لیکن یہ بات واضح ہے کہ طالب علم کے فیل ہونے کی ذمہ داری اس کی سستی پر عائد ہوتی ہے ، نہ کہ استاد کے علم پر۔
لہٰذا، یہاں بھی انسان کے لیے سوچ کا اصل مقام یہ نہیں ہے کہ خدا کے ذہن میں کیا ہے ، بلکہ اس کا اصل مقام یہ ہے کہ جہاں جہاں وہ اپنے آپ کو با اختیار محسوس کرتا ہے ، وہاں اپنے اختیار کو نیکی کے لیے استعمال کرے۔
سوال: روایات میں اسی طرح کی بات بھی آتی ہے کہ تختیاں لکھ لی گئی ہیں اور قلم اٹھا لیے گئے ہیں۔ کیا اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ تقدیر پہلے سے مقرر ہے ؟
جواب: جبروتقدیر کے ضمن میں تمام روایات تمثیلی رنگ کی ہیں اور ان کی وضاحت قرآن حکیم کی روشنی میں کرنی چاہیے۔
ان روایات کا مطلب یہ ہے کہ ہر فرد کے ضمن میں وہ تمام اصول وقواعداور قوانین لکھ لئے گئے ہیں ، جن پر چل کر وہ ہدایت یا گمراہی پائے گا اور ان قوانین سے سرمو انحراف نہیں ہو گا۔ ان روایات کا یہ مطلب نہیں ہے ہر فرد کے عمل کولکھ لیا گیا ہے۔ اس لئے کہ یہ بات اللہ کے عادل حقیقی ہونے کے منافی ہے۔
سوال:ہم دیکھتے ہیں کہ عام طور پر مسلمان گھرانوں میں ہونے والے بچے مسلمان ہوتے ہیں اور غیر مسلم گھرانوں میں پیدا ہونے والے بچے غیر مسلم ہوتے ہیں۔ اگر پرودگار غیر مسلموں کو سزا دے گا تو ان میں سے ان بے چاروں کا کیا قصور ہے۔ وہ تو محض اپنی قسمت کی بنا پر غیر مسلم ٹھہرے۔ قرآن مجید باربار کہتا ہے کہ ہدایت یا گمراہی خدا کے ہاتھ میں ہے۔ تو پھر اس میں انسان کا کیا قصور ہے اور اسے کس چیز کی سزا ملتی ہے ؟
جواب:درج بالا اعتراض دراصل دو حصوں پر مشتمل ہے ، ایک حصہ یہ ہے کہ اگر پرودگار نے کسی شخص کی ہدایت یا گمراہی پہلے سے لکھ دی ہوئی ہے تو پھر اچھے یا برے اعمال کرنے میں اس فرد کا کیا قصور ہے۔ اعتراض کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ جن غیر مسلموں کو اسلام کا صحیح پیغام نہیں ملا تو اس میں ان کی کیا زمہ داری ہے۔ ان کے غلط عقیدے اور غلط عمل کی سزا ان کو کیوں دی جائے۔ چناچہ ہم ایک ایک کر کے دونوں اعتراضات کو لیں گے۔
قرآن مجیدسے یہ بات بالکل واضح ہے کہ انسان کے لیے یہ دنیا ایک آزمائش اور امتحان کی جگہ ہے۔ نیکی اور بدی کا راستہ اس کے سامنے کھلا ہے۔ اگر وہ نیکی کے راستے پر چلے گا تو اس کا انعام پائے گا اور اگر جان بوجھ کر برائی کے راستے پر چلے گا تو اس کی سزا پائے گا۔ اس دنیا میں اسے اختیار ہے کہ وہ اپنے عقل وفہم سے کام لے کر کسی بھی راستے پر چلے۔ مثلاً قرآن مجید کا ارشاد ہے : ’’نہایت بزرگ وبرتر ہے وہ جس کے ہاتھ میں کائنات کی سلطنت ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ جس نے زندگی اور موت کو ایجاد کیا تاہم تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے ‘‘۔ (سورہ ملک آیت نمبر2)
سورہ ہود آیت7، سورہ جاثیہ آیات45میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ اللہ نے زمین وآسمان کو اس لیے پیداکیا کہ وہ دیکھے کہ تم میں سے کون اچھے کام کرتا ہے۔
سورہ کہف آیت7میں ارشاد ہے کہ پروردگار نے زمین کی نعمتوں اور زیتون کو اس لیے بنایا تاکہ ہمیں دیکھیں کہ کون اچھے عمل کرتا ہے۔ اسی طرح سورہ الانعام آیت165میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ پروردگار نے زمین میں انسان کو با اختیار بنایا تاکہ انسان کو آزمائے۔
یہ مضمون قرآن مجید میں بے شمار دوسرے مقامات پر بھی بیان ہوا ہے۔ قرآن مجید نے باربار اس کی بات کی طرف بھی توجہ دی ہے کہ پروردگار نے انسان کو عقل وشعور بھی اس لیے عطا کیا ہے کہ وہ نیک وبد میں تمیز کرے۔ انسان کو ضمیر کی دولت سے بھی اس لیے مالا مال کیا گیا ہے تاکہ نیک کام کرنے پر اس کو خوشی محسوس ہو اور براکام کرنے پر اس کے دل میں پچھتاوا آئے۔ دنیا میں انسان کو سیدھا راستہ بتانے کے لیے ہزاروں نبی اور پیغمبر بھی اسی مقصد کے لیے بھیجے گئے تھے کہ انسان کو سیدھا راستہ دکھایا جا سکے۔ یہ سب مضامین قرآن مجید میں اتنے مقامات پر آئے ہیں اور اتنے واضح ہیں کہ ان سے ہر انسان واقف ہیں۔
قرآن مجید نے ہمیں باربار یہ بھی بتایا ہے کہ کائنات کا پروردگار نہایت عادل، رحیم اور حکیم ہے۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر پروردگار نے انسان کے اچھے اور برے اعمال پہلے سے ہی لکھ رکھے ہوتے تو ایسا خدا نہ عادل ہو سکتا ہے ، نہ رحیم اور نہ کریم۔ اس کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ پروردگار نے یہ دنیا اور انسانیت محض اپنے کھیل تماشے کے لیے بنائی ہے۔ حالانکہ قرآن مجید اس بات پر شہادت دیتا ہے کہ پروردگار نے اس کائنات کو کھیل تماشے کے لیے یعنی محض بے مقصد نہیں بنائی۔ بلکہ یہ سب کچھ حق کے ساتھ، نہایت عظیم مقصد کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا ہے۔ ارشاد ہے :
’’ہم نے اس آسمان وزمین کو اور جو کچھ ان میں ہے۔ کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا۔ اگر ہم کوئی کھلونا بناناچاہتے اوربس یہی ہم کوکرنا ہوتا تو اپنے ہی پاس سے کر لیتے ‘‘۔(سورہ انبیاآیت71)
یہی مضمون سورہ آل عمران آیت 191، سورہ ص آیت27، اس کے علاوہ کم ازکم تیرہ مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ ان سب حقائق سے یہ بات واضح ہے کہ اچھے اور برے اعمال اسی کے آزادانہ فیصلے کے سبب ہے۔ اور قیامت کے دن اسی چیز کی جواب دہی ہو گی۔
تاہم دنیا کے اندر صرف ایک انسان کے اچھے یا برے اعمال ہی اثرانداز نہیں ہوتے۔ بلکہ بے شمار ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے بعض لوگوں کو راحت ملتی ہے اور بعض لوگوں پر سختیاں آتی ہیں۔ مثلاً ایک طرف زلزلے ، طوفان، ایکسیڈنٹ، بیماریاں اور ناگہانی آفتیں ہیں اور دوسری طرف بے شمار خداندی نعمتیں ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ بسا اوقات ایک نہایت بہترین پلاننگ قدرتی آفات کا شکار ہوجاتی ہے۔ اور دوسری طرف کچھ اور عوامل کسی انسان یا ایک گروہ کو کسی شرسے بچالے جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ پروردگارنے اپنے قبضہ قدرت میں رکھا ہوا ہے۔ اس میں یہ مقصد پوشیدہ ہے کہ نرم اور سخت حالات میں ایک انسان کی آزمائش ہوتی رہے۔ اس کا ایک اور مقصد یہ بھی ہے کہ دنیا کے اندر برائی کبھی اتنی طاقتور نہ ہوجائے کہ خیر کا نام ہی مٹ جائے۔ چنانچہ قرآن مجید ہمیں باربار اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ ان سب حالات کے پیچھے پروردگار کی عظیم حکمت کام کر رہی ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ اپنے پلاننگ ہی کو سب کچھ نہ سمجھ بیٹھے۔ بلکہ ہر وقت اپنی ہر عمل وارادارے کے پیچھے اصل مسبب الاسباب خدا کی ذات ہی کو سمجھے۔ اور خدا کے سامنے عاجزی کے ساتھ جھکا رہے۔
عام لوگوں کا امتحان تو موت کے ساتھ ہی ختم ہوجاتا ہے اور فیصلہ قیامت کے دن پر موخر کر لیا جاتا ہے۔ تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا امتحان اس دنیا میں موت سے بہت پہلے ختم ہوجاتا ہے۔ مثلاً جب پروردگار، اپنے عظیم علم کی بدولت کسی فرد کے متعلق جان لیتا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو اپنے ارادہ اختیار سے ، مکمل طور پر، اپنے پروردگار کے حوالے کر دیا ہے اور اس کے بھٹکنے کا امکان مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے ، تو اللہ اس پر اسی دنیا کے اندر یہ نعمت نازل کر دیتا ہے کہ اس کے لیے نیکی کے راستے مکمل طور پر آسان بنادیتا ہے۔ اور بدی کا راستہ بالکل بند کر دیتا ہے۔ یوں ایسا شخص مجسم خیر بن جاتا ہے۔ اس کا وجود اس د نیا کے لیے روشنی اور ہدایت کا سامان فراہم کرتا ہے۔ اور ایسے شخص کے ذریعے سے اس دنیا میں خیر زندہ رہتا ہے۔
بالکل اسی طرح جب پروردگار، اپنے عظیم علم کی بناء پر کسی فرد کے متعلق یہ جان لیتا ہے کہ وہ اپنے ارادہ واختیار کے غلط استعمال سے اپنی خواہشات نفس اور برائی کا ایسا قیدی بن گیا ہے کہ اب وہ اس سے کبھی باہر نہیں نکلے گا۔ وہ ہر گناہ ، کفر، ظلم، خیانت، تکبر اور جھوٹ کے راستے پر ایسا گامزن ہو چکا ہے کہ اب حق اور نیکی کی طرف اس کا رجوع ممکن ہی نہ رہا تو ایسے شخص کا نامہ اعمال بھی اسی دنیا میں بند کر دیا جاتا ہے۔ اب اس کے ذہن پر مہر لگادی جاتی ہے۔ اب اس کے لیے بدی کے سارے راستے آسان بنادیے جاتے ہیں۔ گویا ایسا شخص مجسم شر بن کر باقی دنیا والوں کے لیے ایک آزمائش بن جاتا ہے۔
ان دونوں مضامین کی بے شمار آیتیں قرآن مجید میں موجود ہیں۔ درج ذیل آیت میں ان دونوں مضامین کو یکجا صورت میں بیان کر دیا گیا ہے۔
’’جس نے راہ خدا میں مال دیا اور خدا کی نافرمانی سے پرہیز کیا۔ اور بھلائی کو سچ مانا۔ اس کو ہم آسان راستے (خیر) کے لیے سہولت دیں گے اور جس نے بخل کیا، اپنے خدا سے بے نیازی برتی اور بھلائی کو جھٹلایا، اس کو ہم سخت راستے (شر) کے لیے سہولت دیں گے ‘‘۔ (سورہ لیل۔ آیت5تا10)
نیکوکاروں کے متعلق قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے :
’’وہ لوگ جنہوں نے ہدایت پائی، اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے اور انہیں ان کے حصے کا تقویٰ عطا فرماتا ہے ‘‘۔ (سورہ محمد۔ آیت17)
’’جو اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھامے گا وہ ضرور راہ راست پائے گا‘‘۔ (سورہ آل عمران۔ آیت 101)
جو لوگ خود جان بوجھ کر برائی کے راستے پر یوں چل پڑ تے ہیں کہ ان کا پلٹنا ممکن نہیں رہتا، صرف ایسے ہی لوگوں پر اللہ اسی دنیا کے اندر ہدایت کا دروازہ بند کر دیتا ہے۔ مثلاً قرآن مجید میں ارشاد ہے :’’پھر جب انہوں نے ٹیڑ ھ اختیار کی تو اللہ نے بھی ان کے دل ٹیڑ ھے کر دیے۔ اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔ (سورہ صف۔ آیت5 )
’’اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھایا کرتا‘‘۔ (سورہ بقرہ۔آیت258)
’’جو ش۔خص رسولؐ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوا اور اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے ، حالانکہ اس پر راہ راست واضح ہو چکی ہو، تو اس کو ہم اسی طرح چلائیں گے جدھر وہ خود پھرگیا‘‘۔ (سورہ نساء۔آیت115)
’’پس اسی وجہ سے کہہ ان یہود نے عہد کو توڑ ا ، اللہ کی آیات کا انکار کیا، انبیا کو ناحق قتل کیا اور کہا کہ ہمارے دل تو بند ہیں۔ تو اللہ نے ان کے دلوں پر ان کے کفر کے سبب مہر کر دی ہے ‘‘۔ (سورہ نساء۔ آیت155)
’’ان کے پاس ان کے رسول کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے لیکن یہ لوگ ایمان لانے والے نہ بنے کیونکہ یہ پہلے سے جھٹلاتے رہے تھے۔ اسی طرح اللہ ایسے نہ ماننے والوں کے دلوں پر مہر کر دیا کرتا ہے۔ ہم نے ان میں سے اکثر کے اندر عہد کی پابندی نہیں پائی بلکہ ہم نے ان میں سے اکثر کو بدعہد اور نافرمان پایا‘‘۔ (سورہ اعراف۔آیت101تا102)
قرآن مجید میں کم ازکم چالیس مقامات پر یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ صرف اور صرف انہی لوگوں پر گمراہی کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں جو اپنے اختیار سے حق کی مکمل دعوت ملنے کے باوجود اسے مکمل طور پر رد کر دیں اور شعوری طور پر گمراہی کے راستے پر چلنا چاہیں۔ اس کے بعد ایسے لوگ شر کے نمائندے بن جاتے ہیں۔
قرآن مجید نے کئی مقامات پر حقیقت کے طور پر اللہ کی یہ مطلق مشیت بھی بیان کی ہے کہ وہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے۔ یہ بات بجائے خود بالکل صحیح ہے۔ اس لیے کہ اللہ ہی سب چیزوں پر قادر ہے۔ تاہم اپنے اس ’’چاہنے ‘‘(will) یا اپنے اس اختیار کو وہ کس طرح روبہ عمل لاتا ہے۔ اس کے لیے جو سنت اس نے جاری کی ہے۔ وہ وہی ہے جو اوپر ہم نے تفصیل سے بیان کر دی ہے۔
قرآن مجید نے پروردگارکی تما م طاقتوں کی طرف ہماری توجہ بار باراس لئے دلائی تا کہ ہم مسلمانوں کا سرعاجزی کے ساتھ پروردگار کے حضور جھکا رہے اور اپنی کوشش ہی کو سب کچھ نہ سمجھ لیں۔ بعینہ یہ وہی بات ہے کہ قرآن مجید ہی کے مطابق اللہ جو چاہے کر سکتا ہے اس لئے کہ وہ قادر مطلق ہے۔ تا ہم معاذاللہ وہ کبھی ظلم یا بے انصافی نہیں کر ے گا۔اس لئے کہ وہ عادل ہے۔ اس کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا اور اس نے رحمت اپنے اوپر لازم کر لی ہے۔ گو یا اس نے اپنے اختیا ر کو خود ہی عدل، حکمت اور رحمت کا پابند کر لیا ہے۔ انسان کو ہدایت و گمراہی دینے کے ضمن میں بھی خدا نے اپنے آپ کو اسی طریقہ کا پابند کر دیا ہے جس کا تفصیلی ذکر ہم نے اوپر کر دیا ہے۔
اب ہم اعتراض کے دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں۔ یعنی یہ کہ جن غیر مسلموں کو اسلام کا صحیح پیغام نہیں ملا، اس میں ان کی کیا ذمہ داری ہے۔ ان کے غلط عقیدے اور غلط عمل کی سزا ان کو کیوں دی جائے۔
اس ضمن میں قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو ہدایت دینے اور اسے اچھے راستے پار گامزن رکھنے کے لئے جن طریقوں سے کام لیا گیا ہے ان میں تین طریقے سب سے اہم ہیں۔ ایک انسان کے شعور میں توحید کا بنیادی تصور، دوسرا نیکی اور برائی کی پہچان کو اس کی فطرت میں داخل کرنا، جسے ’’نفس لوامہ‘‘کہا جاتا ہے اور تیسرا پیغمبروں کا پیغام اور ان کی وحی۔
قرآن کریم یہ دعوٰی کرتا ہے کہ ہر انسان کے شعور میں یہ حقیقت اچھی طرح بٹھا دی گئی ہے کہ یہ کا ئنات بے خدا نہیں بلکہ اس کا ایک پیدا کرنے والا، پالنے والا اور اس کا انتظام چلانے والا موجود ہے۔ اسی لئے انسان ہمیشہ توحید کے سوال سے پیچھا نہیں چھڑ ا سکتا۔بڑ ے سے بڑ ا ملحد بھی کسی نہ کسی موقع پر اپنے دل میں پروردگار کے وجود کی گواہی ضرور دیتا ہے۔ اسی طرح بڑ ے سے بڑ ا مشرک بھی بسا اوقات یہ سمجھ لیتا ہے کہ مسبب الاسباب تو صرف ایک ہی ذات ہے۔ باقی کسی کی کوئی حیثیت نہیں۔ اگر انسان اپنے اندر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے صرف توحید کے سامنے سر تسلیم خم کر دے تو اس سے کچھ لازمی نتائج نکلتے ہیں جو اسے خدا پرستی اور انسان دوستی کی طرف لے جاتے ہیں۔ قرآن مجید میں (سورہ اعراف۔آیت172)میں ارشاد ہے کہ ’’اور وہ وقت جب کہ تمہارے رب نے اولادِ آدم میں سے یعنی ان کی پشتوں میں سے ان کی نسل کو نکالا تھا۔اور ان کو خود ان کے اوپر گواہ بنایا تھا اور پوچھا تھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟سب نے کہا ہاں تو ہی ہمارا رب ہے ، ہم گواہی دیتے ہیں۔ ایسا ہم نے اس لئے کیا تھا کہ کہیں تم قیامت کے دن یہ نہ کہو کہ ہم تو توحید سے بے خبر تھے۔ ‘‘
بعض اوقات ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ انسان اپنی گمراہی میں اتنا نکل جاتا ہے کہ وہ اپنی فطرت کی آواز کو بھی فراموش کر لیتا ہے۔ اس ضمن میں قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ پروردگار شرک کے علاوہ ہر طرح کے عقیدہ وعمل کی غلطی معاف کر سکتا ہے مگر شرک کو معاف نہیں کرے گا۔قرآن مجید میں ارشاد ہے :’’بے شک اللہ یہ گناہ معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے۔ اور شرک کے علاوہ باقی گناہ معاف کر دیتا ہے جس کے لئے چاہے ، اور جس نے شریک ٹھہرایا اللہ کا ، اس نے بہتان باندھا اللہ پر اور ارتکاب کیا بہت بڑ ے گناہ کا۔‘‘(سورہ نساء۔آیت48)
توحید کے بعد دوسری بڑ ی حقیقت یہ ہے کہ نیکی اور بدی کی پہچان بھی پروردگار نے انسان کی فطرت میں داخل کر دی ہے۔ ہر انسان کے اندر ضمیر نام کی ایک چیز موجود ہے جو اسے کہتی ہے کہ سچائی ، امانت، صداقت ، صلہ رحمی ، اچھے خلاق ، دوسرے انسانوں کی مدد کرنا ، محنت ، رزق حلال اور اس طرح کی دوسری عالم گیر صداقتیں انسان کے لئے لازمی اچھی چیزیں ہیں اور ہر برائی مثلاًجھوٹ، فریب، دغا بازی، چوری ، لڑ ائی جھگڑ ے ، قتل ، خودغرضی، تکبر، ظلم غلط چیزیں ہیں۔ ان سے احترازلازم ہے۔ قرآن مجید ہمیں بار بار فطرتِ انسان کی اس آواز کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اور ہمیں ہدیت کرتا ہے کہ ہم اپنی فطرت کی آواز پر لبیک کہیں۔ ارشاد خداوندی ہے :
’’قسم ہے نفس انسانی کی اور جیسا کہ اس نے اسے ہموار کیا۔ پھر الہام کر دی اس پر اس کی ابدی اور اس کی پرہیزگاری۔ یقینافلاح پا گیا وہ جس نے اپنے نفس کو پاک کیا۔اور یقینا نامراد ہوا وہ جس نے اس کو خاک میں ملا دیا۔‘‘(سورہ شمس۔آیت7تا10 )
اسی طرح قرآن مجید نے دسیوں مقامات پر جانی پہچانی نیکیوں کے کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے اور مسلمہ برائیوں سے روکا ہے۔ یہ سب چیزیں پرودگار نے انسان کی فطرت اور اس کے شعور میں ودیعت کر دی ہیں۔
چنانچہ جن لوگوں کو خدا کا پیغام اس کے پیغمبروں کی وساطت سے براہ راست اپنی مکمل شکل میں نہیں ملا، ان سے صرف درج بالا دو امور یعنی توحید کو تسلیم کرنے اور عالم گیر سچائیوں کو ماننے اور متفق علیہ برائیوں سے بچنے کے بارے میں مواخذہ ہو گا۔
یہی وجہ ہے کہ جب فرعون نے موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا کہ جو قومیں پہلے گزر چکی ہیں جن کے پاس پیغمبر نہیں آے ان کا کیا ہو گا۔تو موسیٰؑ نے یہ نہیں کہا کہ وہ سب جہنم میں جائیں گے ، بلکہ یہ کہا کہ اس بات کا علم پروردگار کے پاس محفوظ ہیں۔
’’فرعون نے پوچھا کہ پہلے جو نسلیں گزر چکی ہیں ، ان کی پھر کیا حالت تھی۔موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اس کا علم میرے رب کے پاس ایک کتاب میں محفوظ ہے۔ میرا رب نہ چوکتا ہے ، (یعنی اس سے کوئی غلطی یا بے انصافی سرزد نہیں ہوتی )نہ بھولتا ہے۔ ‘‘(سورہ طہٰ۔آیت25)
انسان کی ہدایت کا تیسرا طریقہ پروردگار کی طرف سے براہ راست پیغمبر بھیجنے کا ہے۔ جن انسانوں کی طرف پیغمبر بھیجے جاتے ہیں ، ان پر اس دنیا میں حجت اپنی آخری شکل میں تمام کر دی جاتی ہے۔ ایسے لوگوں سے قیامت کے دن رسولوں کے پیغام کے بارے میں مواخذہ ہو گا۔قرآن مجیدمیں ارشاد ہے۔
’’پس یہ ضرور ہو کر رہنا ہے کہ ہم لوگوں سے باز پرس کریں گے ، جن کی طرف پیغمبر بھیجے گئے۔ اور ہم (پیغام پہنچانے کے بارے میں )پیغمبروں سے پوچھیں گے۔ ‘‘(سورہ اعراف۔آیت6)
جب پیغمبر موجود ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ خود ذریعہ ہدایت ہو تا ہے۔ لیکن خاتم النبینؐ کے بعد کے زمانے میں غیر مسلم قوموں کے لئے شہادت کا فریضہ نبیﷺ کے بعد آپ کے صحابہؓ بحیثیت جماعت انجام دیں گے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے وقت کی قوموں پر شہادت کا یہ فریضہ اس طرح انجام دیا کہ ان کی یہ گواہی تاریخی حقائق کے ان اوراق پر، جو انسانوں کی ا صل یاداشت ہیں ، با لکل ثبت ہو گئی۔ چنانچہ اب کوئی قوم بھی بحیثیت قوم یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ وہ کسی نبوت اور رسالت کو نہیں جانتی اور وہ خدا کی کسی ہدایت و شریعت سے واقف نہیں ہے۔
رہا انفرادی معاملہ تو جن غیر مسلموں نے اپنی طرف سے حق تک پہنچنے کی کوشش کی ہے ، توقع ہے کہ اللہ ان پر پوری نظر کرم فرمائے گا۔قرآن مجید نے ان یہودیوں اور عیسائیوں کی بھی تعریف کی ہے جو تلاش حق میں سرگرداں تھے۔
’’ان (یہودیوں )میں جو لوگ پختہ علم رکھنے والے ہیں اور ایمان دار ہیں ، وہ سب اس تعلیم پر ایمان لاتے ہیں ، جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھی۔‘‘(سورہ نساء۔آیت162 )
’’سارے اہل کتاب یہودی اورعیسائی یکساں نہیں ہیں۔ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راہ راست پر قائم ہیں ، راتوں کو اللہ کی آیات پڑ ھتے ہیں ، اس کے حکم کے اگے سجدہ ریز ہوتے ہیں اللہ اور راز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ، نیکی کا حکم دیتے ہیں ، برائیوں سے روکتے ہیں ، اوربھلائی کے کاموں میں سرگرم رہتے ہیں۔ یہ صالح لوگ ہیں اور جو نیکی بھی یہ کریں گے ، اس کی ناقدری نہ کی جائے گی۔اللہ پرہیزگار لوگوں کو خوب جانتا ہے۔ ‘‘(سورہ آل عمران۔آیت114تا115)
اس مضمون کی آیات قرآن مجید میں اور کئی مقامات پر آتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سوائے اس قلیل گروہ کے جس کے دلوں پر خدا نے ان کی نافرمانی کے سبب اسی دنیا ہی مہر لگا دی ہے ، باقی کسی فرد کا کوئی نیک عمل ضائع نہ جائے گا۔
جن لوگوں کو دین کی دعوت پوری نہیں ملی، بلکہ ناقص طریقوں سے ناقص لوگوں کے زریعے سے ان کو دین کا پیغام ملا اور ان کے شکوک و شبہات رفع کرنے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں تھا۔ایسے لوگوں سے عادل بادشاہ حقیقی ان کے حالات کے لحاظ سے معاملہ کرے گا۔ اس ضمن میں قرآن مجید کا مستقل قانون یہ ہے کہ’’اس باب میں ہم ہر ایک کو اس کی استطاعت کے ، طابق ہی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ‘‘(سورہ اعراف۔آیت42)
سوال:احادیث کی کتابوں کئی ایسی روایات موجود ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ ہر انسان کے تمام اعمال پہلے سے لکھ لئے گئے ہیں۔ ہر انسان کے جنتی اور دوزحی ہونے کا فیصلہ بھی انسان کی پیدائش سے پہلے ہو گیا ہوا ہے۔ اگر کسی انسان کے کفر و ایمان کا فیصلہ خدا نے پہلے ہی سے کر دیا ہوا ہے۔ تو پھر کیسی آزمائش اور کیسا امتحان ؟کیونکہ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ کسی کے اچھے یا برے ہونے میں اس کا کوئی قصورنہیں ہے۔ پھر انسان کو کوئی بھی جدوجہد نہیں کرنی چاہیے ؟
جواب:سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ احا دیث سے دین اور دین کے احکام اخذ کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ دین کی ہر بات میں قرآن مجید حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے۔ جہاں تک دین کی عملی باتوں کا تعلق ہے ، وہ حضورﷺ نے تمام صحابہ کرامؓ کو اسے سکھانے کا غیر معمولی اہتمام فرمایا۔اور یوں وہ دین کی حیثیت سے ہم تک پہنچی۔اسے ’’سنت‘‘کہتے ہیں۔ گویا قرآن مجید تھیوری ہے اور سنت پریکٹیکل۔ان دونوں چیزوں پر تمام امت کا مکمل اتفاق ہے۔ اور یہی دین کی بنیادیں ہیں۔
اب جہاں تک حدیث کا تعلق ہے۔ تو حدیث اُن واقعات یا باتوں کو کہتے ہیں۔ جن کو حضورﷺ نے کیا یا کہا۔ان کو کسی نے دیکھا اور آگے اپنے کسی ساتھی کو بیان کر دیا۔اس فرد نے وہ بات آگے اپنے کسی اور ساتھی کو بیان کر دی۔اور اس طرح وہ بات حدیث کی کتاب مرتب کرنے والے فرد تک پہنچی۔حدیث کی اس نوعیت کو دیکھتے ہوئے یہ ظاہر ہے کہ حدیث سے دین کی کسی بات کو سمجھنے میں کئی ا حتیاطوں کا خیال رکھناچاہیے۔
مثلاًکوئی حدیث، قرآن مجید کی کسی بات کے خلاف نہیں ہونی چاہیے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے رسولؐ، قرآن مجید کے خلاف کیسے کوئی بات کر سکتے تھے۔ اگر ایسی کوئی بات رپورٹ ہوئی ہے تو اس میں ضرور کسی روایت کرنے والے کو غلط فہمی ہوئی ہو گی۔اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ حدیث ہم تک قابل اعتماد راویوں کے ذریعے پہنچی ہو۔اسی طرح کسی ایک حدیث کا مطالعہ کرتے وقت عام طور پر پتہ نہیں چلتا کہ یہ کب کی بات ہے اور حضورؐنے کسی سیاق و سباق میں یہ بات کی تھی۔یعنی یہ کہ وہ پورا واقعہ کیا تھا جس کے چھوٹے سے ٹکڑ ے کو کسی حدیث میں روایت کیا گیا ہے۔ چنانچہ یہ لازم ہے کہ کسی بھی معاملے میں احادیث سے کوئی نتیجہ اخذ کرتے وقت اس معاملے سے متعلق تمام احادیث کو اکٹھا کر کے ان پرخوب غور فکر کیا جائے۔ تب اس سے کوئی حکم معلوم کیا جائے۔ اس کے با جود اس میں غلطی کا امکان ہو سکتا ہے۔ اس لئے کہ یہ چند افراد ہی کے ذریعے سے ہم تک پہنچی ہے۔
درج بالا امور کی وجہ سے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید قطعی ہے۔ یعنی اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ جبکہ حدیث ظنی ہے ، یعنی اس میں شک و شبہ کی گنجائش موجود ہے۔ اس محتصر بحث کے بعد ہم جبر وقدر سے متعلق روایات پر نظر دوڑ اتے ہیں۔ سب سے بنیادی حقیقت تو یہ ہے کہ جبر و قدر کے مسئلے کو قرآن مجید نے اتنی اچھی طرح واضح کر دیا ہے کہ اس کا کوئی گوشہ مخفی نہیں رہنے دیا۔ اس لئے خاص اس معاملے میں ہمیں باہر دیکھنے کی ضرورت ہی لاحق نہیں ہوتی۔چنانچہ اگر کسی روایت میں اس قسم کے الفاظ آئے ہیں کہ ہر انسان کے جنتی اور دوزخی ہونے کا فیصلہ پہلے سے کیا جا چکا ہے ، یا ہر انسان کے تمام اعمال پہلے سے طے کر دیے گئے ہیں ، تو اس کے متعلق ہم سمجھتے ہیں کہ حضورﷺکے الفاظ نقل کرنے میں کسی نہ کسی راوی کو کسی نہ کسی موقع پر کوئی غلط فہمی لاحق ہو گئی ہے اور اس نے علم الٰہی کے بیان کو خدا کے فیصلوں کا بیان قرار دے دیا ہے۔ کیوں کہ یہ بات قرآن مجید کے صریح نصوص کے با لکل خلاف ہے۔