تیسرا باب
وحی، رسالت اور حیات نبیﷺ
سوال: ایک عام انسان کو وحی کا کوئی مشاہدہ یا تجربہ نہیں ہے اور نہ وہ اس کی حقیقت ہی سے واقف ہے۔ دنیا کی معلوم تاریخ میں بہت سے ایسے افراد گزرے ہیں ، جنہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کی طرف خالق کائنات سے براہِ راست وہ پیغام آتا ہے جسے وحی کہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ایک عام انسان وحی کی حقیقت ہی سے واقف نہیں ہے ، تو اسے زندگی کی سب سے بڑ ی حقیقت کے طور پر کیسے قبول کرے ؟
جواب: آج کے سائنسی دور میں کسی شخص کے لیے وحی کا تصور مشکل نہیں رہا۔ انسان نے ایسے آلات ایجاد کر لیے ہیں ، جن کی مدد سے وہ بے شمار عجیب وغریب کام انجام دیتا ہے۔ آج کے دور میں ہم کسی بڑ ی تگ ودو کے بغیر، امریکہ میں موجود کسی شخص سے فون پر گفتگو کر لیتے ہیں۔ اسی طرح جب ہم اپنا ٹی وی چلاتے ہیں ، تو کسی ظاہری واسطے کے بغیر ہزاروں میل دور نشر ہوتے ہوئے پروگرام دیکھ لیتے ہیں۔ آج انسان چاند پر جا کر، لاکھوں میل کے فاصلے سے ، بڑ ے اطمینان کے ساتھ زمین والوں کے ساتھ، گفتگو کرسکتا ہے۔ چنانچہ اگر کسی خاص طریقے سے خالق کائنات ایک انسان کو، بالکل واضح انداز میں ، اپنا پیغام دے تو ہمارے لیے اس کو ماننا بالکل آسان ہے۔
اسی طرح ہم اپنے تجربے اورمشاہدے سے یہ بات جان چکے ہیں کہ دنیا کے بعض دوسری ذی حیات مخلوقات میں کئی صلاحتیں ہم سے بہت زیادہ ہیں مثلاً ایک کتے کی سونگھنے کی صلاحیت انسان سے سات سو گنا زیادہ ہے۔ دیمک کی ملکہ کئی میل کے فاصلے میں پھیلے ہوئے اپنے کارکنوں کو، بغیر کسی ظاہری واسطے کے پیغام دے سکتی ہے۔ کئی قسم کے پتنگے ، کئی فرلانگ سے اپنے نرومادہ کی مخصوص بو سونگھ لیتی یا وہ آواز سن لیتی ہیں ، جسے کوئی اور مخلوق نہیں سن سکتی۔ اسی طرح آج انسان علم کے بل بوتے پر، اپنی مخفی صلاحیتیوں کو ترقی دے کر، ٹیلی پیتھی، ہپناٹزم اور اس طرح کی کئی دوسری چیزوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ جب ہم ان سب چیزوں کو مانتے اور جانتے ہیں تو یہ بات ماننے میں کیا مشکل ہے کہ اس کائنات کے بنانے والے نے کچھ انسانوں کو اپنا پیغام اس لیے واضح طور دے دیا ہے کہ انسان جن چیزوں کو اپنے حواس سے پوری طرح معلوم نہیں کر سکتا۔ان میں اس کی رہنمائی کی جائے۔ اس کو وحی کہتے ہیں۔ اگر ایک دفعہ اس بنیاد کو مان لیا جائے تو پھر وحی کو زندگی کی سب سے بڑ ی رہنمائی قرار دئیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
سوال: کیا صرف عقل انسانی زندگی کی رہنمائی کے لیے کافی نہیں ؟
جواب: عقل، انسان کے لیے بہت بڑ ی نعمت ہے۔ عقل ہی کی روشنی میں انسان نے آج تک کا سفر طے کیا ہے۔ تاہم عقل کے اندر ایسی کمزوریاں پائی جاتی ہیں کہ اگر بذات خود اس عقل کی رہنمائی نہ کی جائے ، تو انسان تکالیف اور مسائل میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ چونکہ عقل کی بنیاد حواس، مشاہدے اور تجربے پر ہے اور ان سب چیزوں کے استعمال میں انسان دھوکہ بھی کھا سکتا ہے۔ ان میں انسان کی صلاحیت بھی ایک محدود دائرے میں مقید ہے۔ اس لیے یہ بعید نہیں کہ انسان غلط نتائج تک پہنچ جائے مثلاً ایک زمانے میں نیوٹن کے قوانین کو حرفِ آخر سمجھا جاتا تھا، جب کہ آج وہ تجربے کی کسوٹی پر غلط ثابت ہو چکے ہیں۔ اسی طرح عقل اپنے منصوبوں میں تعصب کا شکار بھی ہوجاتی ہے۔ آخر دنیا کی ساری جنگیں عقل ہی کی بنیاد پر لڑ ی گئی ہیں۔ دنیا کے ہر ظلم اور ہر غلط فلسفے کو عقل کا سہارا ملا ہے۔ ہٹلر نے بھی ایک فلسفے ہی کا سہارا لیا تھا۔ اسی طرح مارکس نے بھی عقل ہی کی بنیاد پر ایک ’’سائنسی حقیقت‘‘ دریافت کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ عقل اپنے اردگرد کے ماحول سے بھی بہت متاثر ہوتی ہے۔ وہ اپنے رسوم ورواج کے معاملے میں جذباتیت کا شکار ہوجاتی ہے۔ اس کی ذاتی پسند وناپسند بن جاتی ہے ، جس کے نتیجے میں بے شمار اجتماعی مسائل کے متعلق عقل کا فیصلہ سائنسی، غیر جذباتی اور معروضی بالکل نہیں ہوتا۔ عقل رکھتے ہوئے بھی گورے اور کالے ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں۔ بڑ ی قومیں ، چھوٹی قوموں پر ظلم کرتی ہیں۔ انسان اجتماعی معاملات میں کبھی ڈکٹیٹر شپ کی طرف جاتا ہے کبھی مادرپدر کی آزادی طرف کھینچ جاتا ہے۔ گویا، اگر عقل انسان کی رہنمائی کرنے کے لیے کافی ہوتی، تو آج دنیا جنت کا نمونہ ہونی چاہیے تھی۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں آج سے ہزاروں سال پہلے جتنی بے انصافیاں اور مظالم تھے ، آج بھی اتنے ہی ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ایسی جگہ سے عقل کی راہنمائی ہو، جہاں وہ کمزوریاں موجود نہ ہوں جو عقل میں پائی جاتی ہیں گویا، عقل کے لیے وحی کی رہنمائی ضروری ہے۔
تاہم عقل کی ایک بڑ ی خوبی یہ ہے کہ اگر اسے کوئی نئی بات بتا اور سمجھا دی جائے تو اسے بڑ ے آسانی سے سمجھ اور مان لیتی ہے۔ مثلاً یہ ہر کس وناکس کے بس میں نہیں کہ وہ آئن سٹائن کے قوانین دریافت کرے ، لیکن اگر کسی تعلیم یافتہ فرد کو آئن سٹائن کے قوانین سمجھا دیے جائیں تو وہ انہیں بڑ ی آسانی سے سمجھ اور مان لیتا ہے۔ اسی طرح وحی ہمیں کائنات اور دنیا کے متعلق وہ قوانین اور حقائق بتاتی ہے جن کا دریافت کرنا انسانی عقل کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ لیکن اگر اسے یہ حقائق اور قوانین صحیح طریقے سے سمجھا دئیے جائیں تو یہی عقل انہیں بڑ ی آسانی سے سمجھ لیتی ہے۔ پس ہم کہتے ہیں کہ جس طرح عقل، انسان کی راہنما ہے ، اسی طرح وحی، عقل کی راہنما ہے۔
سوال: کیا یہ ضروری تھا کہ اللہ کسی خاص انسان پر وحی ہی کے ذریعے سے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچاتا؟ کیا اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ ممکن نہیں تھا؟
جواب: انسانی ہدایت کے لیے نبی کی بعثت سے بہتر کوئی طریقہ ممکن نہیں ہے۔ قدرتی طور پر ایک انسان صرف اس شخص کے نقش وقدم پر چل سکتا ہے جو اس طرح کی گوشت پوست سے مرکب ایک انسان ہو۔ اس کی زندگی ، اس کے حالات اور اعمال کا جائزہ لے سکتا ہو۔ اس سے بحث ومباحثہ کرسکتا ہو۔ اس کے ماضی وحال پر نظر دوڑ ا سکتا ہو۔ غرض یہ کہ ایک انسان کے لیے ہدایت اور راہ نمائی کا ذریعہ بذات خود ایک انسان سے بڑ ھ کر کوئی نہیں ہو سکتا۔
اس کے بجائے اگر اللہ فرشتوں کو بھیجتا، یا کسی آسمانی آواز کے ذریعے سے انسان کی راہ نمائی کرتا، تو پھر کوئی آزمائش ہی نہ رہتی اور کسی امتحان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ کسی فرشتے یا آسمانی آواز کو سن کر کس کی مجال ہے کہ اس حکم سے سرتابی کرے۔ لہٰذا، اگر انسان کو اس دنیا میں امتحان وآزمائش کے لیے بھیجا گیا ہے تو اس کی ہدایت صرف ایسے انسانوں ہی کے ذریعے سے ممکن تھی، جن کو وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ براہ راست، کائنات اور دنیا کے حقائق اور قوانین سے باخبر کرے۔
سوال: کیا وحی اور عقل میں تضاد ہو سکتا ہے ؟ اگر کہیں ایسا تضاد ہوتو کس کو ترجیح دی جائے ؟
جواب: وحی اور عقل میں تضاد ممکن نہیں ، اس لیے کہ دونوں کا سرچشمہ ایک ہی ہے۔ عقل بھی خدا کی دی ہوئی نعمت ہے ، اور وحی بھی خالق کائنات ہی عطا کردہ ہے۔ خدا کی کسی تخلیق میں تضاد ممکن نہیں ہے کیونکہ تضاد ایک خامی ہے۔ عقل اور وحی، باہم ایک دوسرے سے ہم آہنگ اور ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہیں۔ قرآن مجید اس بات پر زور دیتا ہے کہ سارا دین عقل پر مبنی ہے۔ قرآن مجید نے اپنے تمام احکام اور عقائد کے لیے ہر جگہ عقلی دلائل پیش کیے ہیں ، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وحی صرف اصحابِ عقل ہی کے لیے آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ایک انسان کو کو ئی دماغی عارضہ لاحق ہوجائے تو پھر اس پر دین کی کوئی ذمہ داری نہیں رہتی۔ کیونکہ وہ وحی کا مخاطب ہی نہیں رہتا۔ اگرچہ بدنی اعتبار سے اس میں اور دوسرے انسانوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔
تاہم ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہماری عقل کی رسائی نہایت محدود اور ہماری سائنسی تحقیقات ناکافی حالت میں ہیں۔ اگر کہیں ، بظاہر قرآن وسنت اور عقل میں کوئی تضاد نظر آئے تو اس پر باربار غوروفکر کرنا چاہیے کہ آیا ہم نے قرآن وسنت کا منشا غلط سمجھا ہے ، یا پھر عقل نے کہیں ٹوکر کھائی ہے۔ مثلاً سورہ رحمان میں اللہ کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ یہ آیت آتی ہے کہ کھارے اور میٹھے دونوں پانیوں کے سمندروں سے موتی نکلتے ہیں۔ بڑ ی مدت تک انسانی مشاہدہ یہی تھا کہ صرف کھارے پانی کے سمندروں سے موتی نکلتے ہیں۔ اس لیے بظاہر یہ آیات سائنسی مشاہدات کے خلاف معلوم ہوتی تھی، لیکن اب وسیع مشاہدات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ انسان کا ابتدائی مشاہدہ محدود اور ناکافی تھا، اور موتی میٹھے پانی سے بھی نکلتے ہیں۔
سوال: جوایک انسان یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس پر وحی آتی ہے تو کس معیار پر رکھ کر اس بات کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ انسان سچاہے یا جھوٹا؟
جواب: کسی فرد کو نبوت یا رسالت کے منصب پر فائز کرنے کا معاملہ سراسر اللہ کے اپنے اختیار میں ہے ، تاہم قرآن مجید نے کسی نبی یا رسول کو پرکھنے کے لیے ہمیں درج ذیل تین معیار بتائے ہیں :
سب سے پہلے ایسے انسان کے لیے ضروری ہے کہ نبوت سے پہلے وہ اپنے پورے گردوپیش میں اخلاق وکردار کے لحاظ سے اتنا غیر معمولی اور ممتاز ہو کہ ہر انسان اس کی راست بازی، صداقت، امانت، دیانت اور خوش اخلاقی کی گواہی دیتا ہو۔ اس کی زندگی پر کوئی معمولی سے معمولی دھبہ بھی نہ ہو۔ اس کی زندگی میں تضاد اور منافقت کا کوئی معمولی شائبہ تک نہ ہو۔
دوسری شرط یہ ہے کہ اس زندگی میں کوئی ارتقا نہ ہو۔ ایک عام انسان کی زندگی کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ علم حاصل کر تا ہے اور مشاہدات وتجربات سے گزر کرسیکھتا ہے۔ پہلے کچھ نظریات اپناتا ہے ، پھر ان میں رفتہ رفتہ نکھار پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ اپنے خیالات ونظریات میں سے کچھ کو چھوڑ تا، کچھ کو اختیار کرتا اور نئے نئے خیالات اپناتا ہے۔ اس طرح اس کی ساری زندگی میں ارتقا ہوتا رہتا ہے۔ اگر وہ شاعر ہے تو اس کی شعر گوئی میں پختگی آتی ہے ، اگر ادیب ہے تو اس کی تحریر نکھرتی رہتی ہے ، اگر سائنس دان ہے تو وہ نئے نئے تجربے کرتا رہتا ہے ، اگر سیاست دان ہوتو اس کی سیاست، وقت کے تقاضوں کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے اور وہ ایک مدبر ہے تو وقت کے ساتھ ساتھ اس کا تدبر گہرا چلا جاتا ہے۔ مگر ایک صاحبِ وحی کا حال اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ ایسا ہونا بھی چاہیے ، کیونکہ وہ پہلے ہی دن سے ایک کامل روشنی میں ہوتا ہے۔ اس کی زندگی میں ارتقا نہیں ہوتا۔ وہ پہلے ہی دن سے ، ہر اعتبار سے ، پختگی کے کمال پر ہوتا ہے۔ اسے علم حاصل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لیے ہر معاملے میں اسے ، براہ راست راہ نمائی ملتی ہے اور یہ راہ نمائی زندگی کے کسی ایک میں میدان ہی میں نہیں ، بلکہ ہر میدان میں ہوتی ہے۔ اس کے خیالات ونظریات میں کوئی تغیر وتبدیل نہیں ہوتا۔ وہ پہلے دن جو کچھ کہتا ہے ، آخری دن بھی اس کی زبان پر وہی بات ہوتی ہے۔ گویا، ایک عام انسان اور نبی میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ ایک عام انسان اپنے عقل، مشاہدے اور تجربے سے سیکھتا رہتا ہے ، جب کہ صاحب وحی کو کسی سے کوئی چیز سیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ فلسفہ، قانون اور دین کے ہر معاملے میں حرف آخرہوتا ہے۔
صاحب وحی، نبوت ورسالت کے بعدغیر معمولی عزیمت کے مقام پر فائز ہوتا ہے۔ اخلاق و کردار کے لحاظ سے ، وہ سب کے لیے عظیم ترین نمونہ ہوتا ہے۔ اس کی زندگی کمزوری کے کسی بھی شائبے سے خالی ہوتی ہے۔ وہ ہر میدان میں معیارِ حق وباطل ہوتا ہے۔ دنیا کا بڑ ے سے بڑ ا آدمی بھی، عام طور پر کسی ایک میدان ہی میں اپنی قابلیت کے جوہر دکھا سکتا ہے ، لیکن صاحب وحی، اسے زندگی میں جو بھی مراحل پیش آئیں ، بحیثیت حکمران، سیاستدان، قاضی، سپہ سالار، داعی، سربراہ خاندان اور بحیثیت شخص وہ عظیم اخلاق، کے منصب پر فائز ہوتا ہے۔ مختصر یہ ہے کہ وہ غیر معمولی طور پر، اتنا معیاری انسان ہوتا ہے کہ اس کی زندگی میں ہر نقطہ کمال کو انتہائے کمال پر دیکھا جا سکتا ہے۔
تیسری شرط یہ ہے کہ ہر پیغمبر کی بشارت اور خبر اس سے پہلے آنے والے پیغمبر نے بالکل غیر مبہم اور واضح انداز میں دی ہوتی ہے۔ ایک نبی کے ماننے یا نہ ماننے پر چونکہ کفروایمان کا انحصار ہوتا ہے ، اس لیے اللہ نے یہ اہتمام فرمایا ہے کہ پہلے والا نبی، بعد میں آنے والے نبی کے مارے میں واضح خبردے گا، تاکہ جب کوئی نبی آئے تو اس کے قریب وجوار میں رہنے والوں پر یہ امر واضح ہو کہ یہ فردخدا کی طرف سے مقرر شدہ ہے۔
درج بالا تینوں معیارات ہمیں اس ضمن میں قرآن مجید نے بتائے ہیں۔ اگر ان تینوں شرائط کو آپ عقل وفطرت بھی دیکھیں تو یہ گواہی دیں گے کہ نبوت کی صداقت کی یہ یہی تین شرائط ہونی چاہئیں۔
سوال: حضورا کرمﷺ کی زندگی کے وہ کون سے پہلو ہیں ، جن کی بنا پر ہم یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ وہ سچے پیغمبر تھے ؟
جواب: حضورﷺ کی بعثت سے پہلے وہ لوگ جو آسمانی کتب کے عالم تھے ، آخری پیغمبر کے منتظر تھے ، کیونکہ وہ اپنی کتابوں میں صاف صاف لکھا ہوا پاتے تھے کہ آخری پیغمبر بنی اسماعیل میں آئے گا۔ اگرچہ انہیں اس کے آنے کے کا وقت متعین انداز میں معلوم نہیں تھا۔ چونکہ سرزمین عرب میں یہودیوں اور عیسائیوں کی ایک معقول تعداد آباد تھی، اس لیے مشرکین عرب کو بھی یہ بات معلوم تھی۔ کتاب استثنا کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضورﷺ کے بارے میں پیشن گوئی ان الفاظ میں دی:
’’خداوند تیرا خدا تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے ، یعنی تیرے بھائیوں میں سے (یعنی بنی اسماعیل میں سے ) میری مانند ایک نبی برپا دے گا۔ تم اس کی سننا۔۔۔۔ اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں ، سو ٹھیک ہے۔ میں ان کے لیے انہی کے بھائیوں میں سے ، تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا، اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا، اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا، وہی وہ ان سے کہے گا، اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا، نہ سنے تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا‘‘۔ (استثنا، باب 18، آیت15 -19)
آگے ارشاد ہے :
’’خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر آشکارا ہوا۔ وہ کوہ فاراں سے جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشیں شریعت ان کے لیے تھی‘‘۔ (استثنا، باب33، آیت2)
متی میں ارشاد ہے :
’’یسوع نے ان سے کہا کہ کیا تم نے کتاب مقدس میں کبھی نہیں پڑ ھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا، وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا۔ یہ خداوند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے۔ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی تم سے (یعنی بنی اسرائیل سے ) لے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے پھل لائے ، (یعنی بنی اسماعیل کو) دے دی جائے گی اور جو اس پتھر (یعنی آخری نبی) پر گرے گا، اس کے ٹکڑ ے ٹکڑ ے ہوجائیں گے اور جس پر وہ گرے گا، اسے پیس ڈالے گا‘‘۔ (باب21، آیات42 -44)
یوحنامیں حضرت مسیحؑ کا یہ ارشاد نقل ہوا ہے :
’’اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا، کیونکہ دنیا کا سردار (یعنی حضرت محمدﷺ ) آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں ‘‘۔(باب نمبر14، آیت30)
اس لیے قرآن مجید نے انہی پیشن گوئیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’اور جب عیسیٰ ابن مریمؑ نے کہا اے بنی اسرائیل!میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوکر آیا ہوں۔ ان پیشن گوئیوں کے مصداق جو مجھ سے پہلے تورات میں موجود ہیں ، اور ایک رسول کی بشارت دیتا ہوا آیا ہوں ، جو میرے بعد آئے گا۔ اس کا نام احمد ہو گا‘‘۔ (الصف 6:61)
اس لیے قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ بنی اسرائیل کے علما حضورؐ کو اچھی طرح جانتے ہیں۔
’’کیا ان کے لیے یہ نشانی کافی نہیں کہ بنی اسرائیل کے علماء اسے جانتے ہیں ‘‘۔ (سورہ شعراء 26: 197)
پہلی وحی کے فوراً بعد حضرت خدیجہؓ حضورﷺ کو اپنے عمر رسیدہ چچیرے بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو عبرانی زبان اور انجیل کے بہت بڑ ے عالم تھے۔ جب حضورﷺ نے نزول وحی کا پورا واقعہ بیان کیا تو ورقہ نے کہا: یہ تو وہی ناموس ہے جسے اللہ نے موسیٰؑ پر نازل کیا تھا۔
اس طرح حضرت صفیہؓ نے اپنے یہودی والا اور چچا کی داستان بیان کی ہے ، جو نبی قریظہ کے سردار تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب حضورﷺ مدینہ تشریف لائے اور ان دونوں نے آپؐ سے ملاقات کی تو میں نے ان کا مکالمہ سنا۔ میرے چچا میرے والد سے کہہ رہے تھے :
’’کیا یہ وہی (نبی) ہے ؟‘‘
’’ہاں ، خدا کی قسم‘‘ میرے والد نے جواب دیا۔
چچا نے کہا: ’’کیا آپ انہیں ٹھیک ٹھیک پہچان رہے ہیں ؟‘‘
والد نے کہا: ’’ہاں ‘‘
چچا نے پوچھا:
’’تو اب آپ کے دل میں ان سے متعلق کیا ارادے ہیں ؟‘‘
والد نے کہا: ’’دشمنی۔ ۔ ۔۔۔۔خدا کی قسم۔ ۔ ۔۔۔۔جب تک زندہ رہوں گا‘‘۔
یہودیو ں کی یہ بدقسمتی رہی کہ انہوں نے آپ کو اچھی طرح پہچان لیا مگر اپنے نسلی فخر اور قومی تعصب کی وجہ سے آپؐ کی مخالفت کو اپنا مقصد زندگی بنادیا۔
نبوت سے پہلے حضورؐ تمام معاشرے میں ، اپنے اخلاق وکردار کی وجہ سے ، نمایاں ترین فرد تھے۔ اس معاشرے میں جہاں کوئی ضابطہ اور قانون نہ تھا، جہاں بداخلاقی، شراب، چوری، راہ زنی اور قتل وغارت گری کا دور دورہ تھا۔ جہاں لڑ کیوں کو زندہ دفن کیا جاتا تھا، جہاں کسی قبیلے پر حملہ کر کے اس کے لوگوں کو غلام بنالینا رومزہ کا معمول تھا۔ جہاں پاک وناپاک اور جائز وناجائز کی کوئی تمیز نہ تھی۔ اس معاشرے میں محمد نامی نوجوان، پچپن ہی سے نمایاں تھا۔ اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اس کی سچائی اور امانت داری کے سب لوگ گواہ تھے۔ اس کی زبان سے کبھی کسی نے کوئی فحش بات یا گالی نہیں سنی۔ اس نے کبھی کسی سے تلخ کلامی نہیں کی۔ وہ اپنی تجارت میں مکمل ایمان دار تھا۔ وہ کبھی شراب اور جوئے کے قریب بھی نہیں گیا۔ وہ ہر بدتمیزی اور گندگی سے نفرت کرتا تھا۔ اس نے کبھی قبیلوں کی باہمی لڑ ائیوں میں حصہ نہیں لیا۔ اس نے کبھی کسی بت کے سامنے سر نہیں جھکایا اور اس نے بتوں کے چڑ ھاوے کا کھانا کبھی نہیں کھایا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے ہر جگہ صادق اور امین کے نام سے پکارا جاتا تھا۔
جب آپؐ کی عمر 35برس کی تھی تو قریش خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے۔ اس وقت یہ جھگڑ ا پیش آ گیا کہ حجراسودکو اس جگہ پر لگانے کا اعزاز کس کو حاصل ہو۔ قریب تھا کہ سب آپس میں لڑ پڑ تے۔ تاہم اس تجویز پر سب کا اتفاق ہو گیا کہ مسجد حرام کے دروازے سے جو شخص پہلے داخل ہو گا اسے فیصلہ کرنے والا مان لیا جائے گا۔ خدا کی قدرت، سب نے دیکھا کہ محمدﷺ تشریف لا رہے ہیں۔ سب پکار اٹھے کہ صادق اور امین آ گیا، ہم اس کے فیصلے پر راضی ہیں۔ چنانچہ آپؐ نے یوں فیصلہ کیا کہ چادر پر حجراسود رکھا۔ سب سرداروں سے کہا کہ وہ چادر کا ایک ایک کونا پکڑ یں۔ چادر حجراسود کی مقام پر پہنچ گئی تو آپؐ نے سب کی اجازت سے ، اپنے ہاتھوں سے حجراسود کو اس کی مقرر جگہ پر رکھ دیا۔
دنیا کی معلوم تاریخ میں وہ واحد ہستی، جس کو ایک خاص لمحے میں بے شمار غیر معمولی صلاحیتیں حاصل ہوگئیں اور اس لمحے سے پہلے کسی نے اس میں وہ صلاحیتیں نہیں دیکھی تھیں ، وہ محمد رسول اللہ ہیں۔ نبوت سے پہلے کسی نے انہیں کوئی ادبی مشق کرتے نہیں دیکھا۔ آپ نے نہ کبھی شعر کہا تھا، نہ شعرگوئی کی محفلوں ہی میں گئے تھے۔ ان چالیس سالوں آپؐ نے کبھی اپنا کوئی فکر پیش نہیں کیا۔ لیکن اچانک ایک بڑ ا غیر معمولی واقعہ ہوا۔ یک بہ یک آپؐ نے ایک ایسا کلام (قرآن) پیش کرنا شروع کیا جو ایسی عربی مبین میں تھا، جس سے بہتر زبان ممکن نہیں تھی۔ اس کلام میں کائنات کے وہ حقائق پیش کیے گئے اور فلسفہ بیان کیا گیا، جس میں غلطی یا ظن وتخمین کا شائبہ تک نہیں تھا۔ یہ کلام وہ مسلسل تئیس برس تک پیش کرتے رہے ، لیکن تے ئس برسوں پھیلے ہوئے اس کلام کے پہلے اور آخری فقرے میں ، زبان وبیان اور ادبیت کے اعتبارسے ، کوئی فرق نہیں تھا۔ اس میں کہیں کوئی تضاد نہیں تھا۔ ان تے ئس برسوں میں حضورؐ کن کن مرحلوں سے نہیں گزرے۔ سختیاں ، مخالفتیں ، جنگیں اور سازشیں ہوئیں۔ کامیابیاں اور کامرانیاں نصیب ہوئیں۔ اگر یہ کسی انسان کا کلام ہوتا تو اس پھر ان حالات کا اثر لازماً ہوتا۔ لیکن یہ بڑ ی حیرت انگیز بات ہے کہ اس کلام پر گردوپیش کے حالات کا کوئی اثر نہیں۔
اس انسان کو چالیس سال تک کسی نے بھی سیاست، معیشت، قانون، عمرانیات، الہیات، سابقہ امتوں کی تاریخ اور فلسفے پر بحث ومباحثہ کرتے نہ سنا تھا۔ مگر اب وہ یکایک جو کلام پیش کر رہے تھے ، وہ ان سب علوم میں حقائق کو آخری حد تک کھول دینے والا تھا۔ حتیٰ کہ تورات وانجیل میں جو تحریفات ہوئی تھیں ، اس کلام نے ان میں سے ایک ایک غلطی واضح کر دی۔ لاریب، یہ ایک ایسا کلام ہے جو قیامت تک کے لیے ساری انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ اس انسان نے جو کچھ کیا۔ اس کے ایک ایک لفظ پر عمل کر کے دکھایا۔ پوری زندگی میں اس نے اپنی تعلیمات میں سے کسی ایک بات سے بھی کبھی سرموانحرا ف نہیں کیا۔ اس نے تیرہ برس تک ہر مصیبت سہی، ہر سختی جھیلی اور پھر جب مدینہ کی ایک ننھی سی حکومت بن گئی، تو آٹھ برس تک بڑ ی بڑ ی طاقتیں اس کے خلاف برسرپیکار رہیں لیکن نہ ان سختیوں میں اس کے پائے استقلال میں کوئی لغزش آئی اور نہ اُس وقت جب تمام عرب اس کے شہر مدینہ پر چڑ ھ آیا۔ سخت ترین حالات میں بھی اس نے ہمیشہ یہی کہا کہ میں اللہ کا رسول ہوں اس لیے میں ہی غالب رہوں گا۔
اس کی قوم نے اسے بارہا، پیش کش کی کہ اگر وہ اپنے نظریات سے دست بردار ہوجائے اور خدا اور آخرت کی بات چھوڑ دے ، تو وہ اسے بادشاہ مان لیں گے۔ قوم نے اسے یہ بھی کہا کہ اگر وہ اپنے نظریات میں کچھ نرمی کرے ، تو وہ بھی اس کی بات مان لیں گے۔ مگر اس نے پتھر کھائے اور گالیاں سہیں ، گھر سے بے گھر ہو گیا۔ پھر بھی اس نے کسی ایک بات پر بھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام آج کا مل ترین دین کی حیثیت سے ، قرآن وسنت کی شکل میں ، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ومامون ہے۔
اس شخص نے تئیس سال کے قلیل عرصے میں ایک نئی تہذیب کو جنم دیا۔ اس نے عربوں کے خیالات وافکار اور اخلاق وکردار کو بدلا۔ اس قوم کی بداخلاقی و بدکرداری کو تقویٰ اور پرہیزگاری سے بدلا۔ ان وحشی لوگوں کو شہریت کے بہترین اصول سکھائے۔ ان کی لاقانونیت کو قانون پسندی سے بدلا، بلکہ پوری قوم کا ذہن اس طریقے سے بدلا کہ جس قسم میں صدیوں سے کوئی بھی قابلِ ذکر انسان پیدا نہیں ہوا تھا، انہی لوگوں میں ہزاروں ایسے افراد پیدا ہوگئے ، جنہوں نے دنیا کو دین، اخلاق، تہذیب، شائستگی، فلسفہ اور سائنس کا درس دیا اور بین الاقوامی ریاستیں بنائیں۔ اس عظیم انسان نے دنیا کو ایک نئی سیاست اور تدبر سے روشناس کرایا۔ ایک ایسی سیاست جس میں قوم شتربانی کے مقام سے جہاں بانی کے منصب تک پہنچ گئی۔یہ سیاست ایک بالکل اصولی سیاست تھی۔ اس میں نہ قومی ونسلی تعصبات تھے ، نہ دنیوی مفادات کا لالچ، بلکہ اس سیاست کی بنیاد خدا کی اطاعت، عالمگیر انسانی اخوت، عدل وانصاف، اعلائے کلمہ حق اور خوف آخرت پر رکھی گئی۔ اس سیاست کے لیے آپؐ نے کبھی کسی اصول کی قربانی نہیں دی۔ آپؐ نے کسی سے جھوٹا وعدہ نہیں کیا۔ آپؐ کی سیاست خالص سچائی کی سیاست تھی۔ آپؐ نے بیس لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے منتشر اور جنگجوقبائل کو ایک تنظیم میں پرودیا اور اس عظیم انقلاب میں چند سو افراد شہید یا قتل ہوئے۔ آپؐ کی وفات کے فوراً بعد یہ انقلاب تین براعظموں کے متمدن ترین علاقوں میں پھیل گیا۔
اس سیاست کا عجیب امتیاز یہ تھا کہ دنیا جہان کے خزانے آپؐ کے قدموں ڈھیر کر دئے گئے ، تب بھی آپؐ نے اپنی مرضی سے ایسا فقر اختیار کیا، جس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ نہ کوئی پختہ عمارت، نہ خدام، نہ محل نہ باڈی گارڈ۔ جب آپؐ اپنے ساتھیوں کے ساتھ چلتے یا ان کے ساتھ کھانا کھاتے ، تو یہ پتہ ہی نہ چلتا تھا کہ ان میں سے عالی مرتبہ کون ہے۔ یہ بات نہیں تھی کہ اس وقت دنیا ان چیزوں سے واقف نہیں تھی، بلکہ قریب ہی روم وایران کی حکومتوں میں ہر شان وشوکت اور تزک واحتشام جاری وساری تھا۔
لاریب، یہ سب کمالات ایک رسول ﷺ کے علاوہ کون دکھا سکتا ہے اور رسول جو سیدالرسل ہے۔ اس جیسا ہمہ صفت انسان نہ اس سے پہلے پیدا ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی قیامت تک اس کا امکان ہے۔
سوال: حضورا کرمﷺ کے مختصر حالات زندگی بتائیے۔
جواب: حضورﷺ ، حضرت ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ کی اولاد سے تعلق رکھتے تھے اور حضرت ابراہیمؑ کی مکہ تشریف آوری اور خانہ کعبہ کے ڈھائی ہزار سال بعد 20یا 22اپریل 571 ء میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ آپؐ قریش کے قبیلہ بنو ہاشم سے تعلق رکھتے تھے۔ والد کا نام عبداللہ، والدہ کا نام آمنہ اور دادا کا نام عبدالمطلب تھا۔ اس وقت سرزمین عرب میں کوئی باقاعدہ حکومت نہ تھی۔ دین ابراہیمی میں اتنی بدعات داخل ہو چکی تھیں کہ اصل دین تقریباً غائب ہو گیا تھا۔ یہودیت، محض ریاکاری، نسلی تعصب اور اپنے پیشواؤں کے مرضی پر چلنے کا نام بن گیا تھا۔ اسی طرح حضرت عیسیؑ کی تعلیمات میں بھی تحریفات ہوئیں اور کفر اور بت پرستی نے اس میں راہ بنادی۔
پچیس برس کی عمر میں حضورﷺ کی شادی حضرت خدیجہؓ سے ہوئی جو ایک مالدار بیوہ خاتون تھیں۔ چالیس سال کی عمر تک، اگرچہ آپ کا اخلاق وکردار غیر معمولی تھا، مگر اس وقت آپؐ نے بالکل عام زندگی گزاری۔ چالیس سال چھ مہینے کی عمر میں اللہ نے آپؐ کو رسالت کے کام کے لیے خاص کر لیا اور ان پر پہلی وحی نازل ہوئی۔ ابتدائی تین سال آپؐ اپنے قریب ترین رشتہ داروں اور دوستوں میں اللہ کے حکم سے دعوت پھیلائی، تاکہ پرعزم اصحاب کا ایک گروہ تیار ہوجائے۔ اس کے بعد حضورﷺ کو حکم دیا گیا کہ اپنی قوم کو کھلم کھلا دین کی دعوت دیں۔ کھلی دعوت کے ساتھ ہی آپؐ اورآپؐ کے ساتھیوں پر آزمائشوں اور تکالیف کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اہلِ مکہ کی طرف سے اس دعوت کو ہنسی اور تحقیر میں اڑ انے کی کوشش کی جاتی، شکوک وشبہات پیدا کیے جاتے ، بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جاتا، کردار کشی کی جاتی، لوگوں کو اس دعوت سے برگشتہ کرنے کے لیے گانے بجانے اور رقص وسرود کی محفلیں آراستہ کی جاتیں ، حتیٰ کہ مشرکین نے نظریات پر سودے بازی کی بھی باربار کوشش کی۔ بالآ کر مشرکین نے آپؐ اور آپؐ کے صحابہ پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ نے شروع کر دیے۔ جن غلاموں اور لونڈیوں نے اسلام قبول کر دیا، انہیں دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹا دیا جاتا۔ اس دوران میں حضورﷺ حضرت ارقمؓ کے گھر میں مسلمانوں کی تربیت کرتے رہے۔ ظلم وستم کا سلسلہ حد سے بڑ ھا تو کچھ مسلمان آپؐ کی اجازت سے حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے۔
اسی دوران میں حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرفاروقؓ مسلمان ہوگئے ، جس سے مشرکین کو بہت دھچکا لگا۔ چنانچہ، سب نے مل کر بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کا بائیکاٹ کیا، جس کی وجہ سے حضورﷺ اور بنو ہاشم وبنوعبدالمطلب کے دوسرے افراد تین سال تک شعب ابی طالب نامی ایک گھاٹی میں محصور رہے۔ وہاں انہیں ایسے سخت حالات سے سابقہ پڑ ا کہ بعض اوقات چمڑ ا اور پتے بھی کھانے پڑ تے۔
نبوت کے دسویں سال حضورﷺ کے چچا ابو طالب اور اہلیہ حضرت خدیجہؓ انتقال کرگئیں۔ اس کے بعد قریش کے مظالم مزید بڑ ھ گئے۔ نبوت کے گیارہویں سال اللہ کے حکم سے حضورﷺ نے دعوتِاسلامی کے سلسلے میں مکہ سے باہر نکل کر طائف کے سرداروں کواسلام کی دعوت دی۔ ان بدنصیبوں نے نہ صرف یہ کہ دعوت رد کر دی بلکہ حضورﷺ کے ساتھ بدسلوکی بھی کی۔
تاہم، اس دوران ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ یوں تو حضورﷺ حج کے موقعے پر ہر سال دوردراز سے آئے ہوئے قبائل کے پاس اپنا پیغام لے کر جاتے ، لیکن نبوت کے گیارہویں سال آپؐ نے یثرب کے چھ نوجوانوں کے سامنے ، حج کے موقعے پر اپنا پیغام رکھا۔ ان نوجوانوں نے یہودیوں سے سن رکھا تھا کہ آخری پیغمبر کے آنے کا وقت قریب ہی ہے۔ چنانچہ، وہ سب مسلمان ہوگئے اور اپنے ساتھ دین کی روشنی یثرب بھی لے گئے۔
اگلے سال، یعنی نبوت کے بارہویں سال، حج کے موقع پر یثرب سے بارہ افراد آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، جن میں پچھلے سال کے پانچ مسلمان بھی شامل تھے۔ ان سب نے اسلام قبول کر لیا۔ حضورﷺ نے ان کے ساتھ حضرت مصعب بن عمیرؓ کو معلم ومبلغ کی حیثیت سے بھیج دیا، وہاں ، ایک سال کے اندر اندر، یثرب کے سردار اور عام لوگوں کی اکثریت مسلمان ہوگئی۔ چنانچہ نبوت کے تیرہویں سال حج کے موسم میں یثرب کے ستر مسلمان حضورﷺ سے ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ اس وقت بیعت کے ذریعے سے ، جس کو بیعت عقبہ ثانیہ کہا جاتا ہے۔ یثرب کے مسلمانوں نے آپﷺ کورسول ہونے کے ساتھ ساتھ، اپنا حکمران بھی مان لیا، اور حضورﷺ نے پہلی دفعہ لوگوں سے ، بحیثیتِ حکمران، سمع واطاعت کی بیعت لی، کیونکہ اس سے قبل کسی جگہ کے سرداروں اور عوام کی اکثریت نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ گویا خالصتاً جمہوری طریقے سے ایک اسلامی ریاست وجود میں آ گئی۔
اس بیعت کے ساتھ ہی، چونکہ مسلمانوں کی ایک مختصر سی ریاست وجود میں آ چکی تھی، اس لیے حضورﷺ نے سب مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ موقع ملتے ہی یثرب کی طرف ہجرت کریں۔ اسی طرح دو مہینے کے اندر اندر، تقریباً تمام مسلمانوں نے مکہ سے یثرب کی طرف ہجرت کر لی۔
اب مشرکین قریش جان چکے تھے کہ مسلمانوں کو ایک بڑ ی کامیابی مل چکی ہے۔ چانچہ، انہوں نے طے کیا کہ سب قبیلے مل کر حضورﷺ کو یک بارگی قتل کر دیں ، یہی وہ وقت ہوتا ہے جب کسی رسول کو ہجرت کا حکم ملتا ہے۔ چنانچہ جس رات آپؐ کے مکان کو گھیرا گیا، اسی رات آپؐ ہجرت کے لیے روانہ ہوئے۔ چونکہ، آپؐ اللہ کے رسول تھے ، اس لیے مشرکین آپؐ کو کوئی گرند نہ پہنچا سکے اور بحفاظت مدینہ پہنچ گئے۔
مدینہ منورہ میں مزید کئی مسائل سے سابقہ پیش آیا۔ سب سے پہلے مہاجرین کی آبادکاری کا مسئلہ تھا، جس کا حل حضورﷺنے یہ نکالا کہ ایک ایک مہاجر اور ایک ایک انصاری کو بھائی قرار دیا۔ اس کے بعد تمام مسلمانوں کے درمیان تعاون اور بھائی چارے کا ایک اور تفصیلی معاہدہ کرایا گیا۔ چونکہ، مدینہ کے قریب ترین پڑ وسی یہود تھے ، لہٰذا’’میثاق مدینہ‘‘ کے نام سے ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے ، جس کی رو سے یہودی بھی اسلامی حکومت کے رعایا بن گئے اور انہوں نے حضورﷺ کو اپنا حکمران مان لیا، اور ان کو اپنے داخلی معاملات میں پوری خودامختاری دی گئی۔
مشرکین قریش کی طرف سے پہلا حملہ بدر کی شکل میں ہوا، جو رمضان دوہجری میں پیش آیا۔ اس معرکے میں کفار اور مسلمانوں کی افواج کا تناسب ایک اور تین کا تھا۔ پھر بھی اللہ نے مسلمانوں کو کامل فتح نصیب فرمائی۔ ابوسفیان کے علاوہ، قریش کے تمام سردار مارے گئے۔ ابولہب، بزدلی کے باعث جنگ میں نہیں آیا تھا، لیکن وہ بھی اس معرکے کے ایک ہفتے کے اندر اندر، بدترین موت مرگیا۔
مشرکین نے بدر کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے ایک سال بعد پھر حملہ کیا۔ اس موقعے پر منافقین کا کردار کھل کر سامنے آ گیا۔ منافقین میں تین طرح کے لوگ شامل تھے۔ ایک وہ جو بالکل کافر تھے ، مگر سازش کے تحت مسلمان ہوئے تھے ، دوسرے وہ جو مسلمانوں کے سیاسی غلبے کی وجہ سے نیم مسلمان ہوگئے تھے ، مگر ابھی ان کا ایمان ڈانواں ڈول تھا اور تیسرے وہ لوگ جو مسلمان تو گئے تھے ، مگر ان کے عمل میں کمزوریاں تھیں اور ابھی وہ اسلام کے لیے قربانیاں دینے پر پوری طرح تیار نہیں تھے۔ چنانچہ منافقین نے اپنے سردار عبداللہ بن ابی کی قیادت میں جنگ میں حصہ نہیں لیا۔ یہ جنگ احد کے مقام پر لڑ ی گئی۔ اس میں مسلمانوں کو ابتدائی کامیابی ملی، مگر کچھ مسلمانوں نے حضورﷺ کی حکم عدولی کی، جس کی وجہ سے بڑ ی تعداد میں مسلمان شہید ہوئے۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی جمعیت منتشر ہوگئی۔ کفار میدان میں جگہ جگہ شہید مسلمانوں کے لاشوں کی بے حرمتی کرتے رہے ، مگر خدا نے انہیں مدینے کی طرف رخ کرنے سے باز رکھا۔ انہیں اس کا خیال ہی نہیں آیا اور وہ کوئی فائدہ اٹھائے بغیر واپس چلے گئے۔ پھر دوسرے دن نبیﷺ نے مدینے سے نکل کر کفار کے لشکر کا تعاقب کیا تو وہ بجائے مقابلے میں آنے کے مکہ کی طرف کوچ کرگئے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خدانے انہیں کامیاب ہوکر بھی کامیاب نہیں ہونے دیا۔
شوال پانچ ہجری میں غزوہ خندق پیش آیا۔ اس معرکے میں عرب کے تمام یہودی قبیلوں ، مشرکین قریش اور ان کے ساتھیوں نے شرکت کی اور اور دس ہزار کا لشکر تیار کیا گیا۔ ادھر مسلمانوں نے دفاعی ترکیب استعمال کرتے ہوئے مدینہ کے گرد خندق کھودی اور لڑ ائی نہ ہونے دی۔ چنانچہ ایک مہینے تک بے مقصد محاصرے کے بعد، مخالفین کو بے نیل ومرام واپس جانا پڑ ا۔ چونکہ اس جنگ میں یہودی قبیلے بنی قریضہ نے غداری کا ارتکاب کیا تھا، اس لیے اس کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا، جب کہ بنو نظیر کو جنگ احد میں غداری کی وجہ سے پہلے ہی مدینہ سے نکالا جا چکا تھا۔
صلح حدیبیہ کا واقعہ ذیقعد چھ ہجری میں پیش آیا۔ ہوا یوں کہ مسلمان عمرہ کے ارادے سے مکہ کی طرف چلے ، مگر مشرکین نے انہیں مکہ میں داخل نہ ہونے دیا۔ چنانچہ، دونوں فریقوں میں صلح کے ایک عہد نامے پر دستخط ہوگئے۔ اس عہد نامے کی رو سے مسلمانوں کو اگلے سال عمرہ کی اجازت مل گئی، اور دس سال تک جنگ بندی کا معاہدہ ہوا۔ قرآن نے اس معاہدے کو ’’فتح مبین‘‘ قرار دیا۔ قرآن کی پیش گوئی مکمل طور پر پوری ہوئی کیونکہ اس معاہدے کے بعد امن کی حالت میں اسلام اتنی تیزی سے پھیلا، جس کا تصور بھی اس سے پہلے ممکن نہیں تھا۔
صلح حدیبیہ کے فوراً بعد حضورﷺ نے سرزمین عرب کے گرد تمام بادشا ہوں کے نام خطوط لکھ کر، انہیں اسلام کی دعوت دی۔ ان میں حبشہ، مصر، ایران، روم، بحرین، یمامہ، دمشق اور عمان کے حکمران شامل تھے۔ محرم سات ہجری میں حضورﷺ نے خبیر کے بدعہد یہودیوں پر حملہ کر کے انہیں سرزمین عرب سے نکال دیا۔اس دوران میں مشرکین قریش اور ان کے حلفیوں نے معاہدہ حدیبیہ کے خلاف ورزی کرتے ہوئے بنو خزاعہ پر حملہ کیا۔ چنانچہ اس عہد شکنی سے صلح کا معاہدہ ختم ہو گیا۔ بالآخر رمضان آٹھ ہجری میں ایک انتہائی پرامن فوجی مہم کے نتیجے میں مکہ بھی مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا اور حضورﷺ نے سب لوگوں کو عام معافی دے دی۔ اس کے بعد غزوہ حنین اور غزوہ طائف ہوئے۔ قیصر روم نے چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی، جس پر حضورﷺ تیس ہزار افراد کا لشکر لے کر تبوک تشریف لے گئے ، مگر قیصر روم نے مقابلے سے پہلو تہی اختیار کی۔ اس طرح اسلام نے سرزمین عرب کو مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
چونکہ کارِرسالت مکمل ہو گیا تھا اس لیے دس ہجری میں آپؐ نے ایک لاکھ چوالیس ہزار مسلمانوں کے ساتھ حج کیا۔ اسے حجتہ الوداع کہا جاتا ہے۔
کارِرسالت کے بخیر وخوبی اتمام کے بعد حضورﷺ 12ربیع الاول 11ہجری کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ وفات سے پہلے آپؐ نے اپنا تمام مال صدقہ کر لیا اور فرمایا :
’’ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا، جو کچھ ہم چھوڑ جائیں ، وہ صدقہ ہے ‘‘۔
سوال: حضورکریمﷺ کو قیامت تک ساری انسانیت کے لیے آخری پیغمبر بنا کر کیوں بھیجا گیا؟کہا جاتا ہے کہ مختلف پیغمبروں کو مختلف شریعتیں دی گئیں ، سوال یہ ہے کہ تمام امتوں کو ایک ہی شریعت کیوں نہیں دی گئی؟
جواب: دین کے عقائد اور بنیادیں ہمیشہ سے ایک رہی ہیں اور چونکہ وہ سب کائناتی حقائق ہیں ، لہٰذا ان میں کوئی تغیر وتبدل نہیں ہوا۔ لیکن انسانی تمدن ہمیشہ ایک نہیں رہا۔ شروع کے زمانے میں یہ تمدن بالکل ابتدائی حالت میں تھا پھراس میں ارتقا اور تغیر آتا چلا گیا، یہ پختہ اور پیچیدہ ہوتا چلا گیا۔ لہٰذا ہر تمدن کے لیے اپنے خاص قوانین اور ضوابط کی ضرورت تھی۔ چنانچہ اللہ نے ہر زمانے کے تمدن کے مطابق قوانین نازل فرمائے۔
حضورﷺ کی بعثت کے وقت زمانہ ایک ایسے دور میں داخل ہو گیا تھا جس کے بعد انسانی تمدن میں کوئی جوہری اور بنیادی تبدیلی، خالق کی طرف سے واقع نہیں ہونی تھی۔ بہت جلد ذرائع ابلاغ اور آمدورفت کے ذرائع کو ایک ایسے دور میں داخل ہونا تھا، جب ساری دنیا میں ایک ہی پیغام پہنچ سکے۔ یہ وہ وقت تھا جب ساری دنیا اور رہتی دنیا تک کے لیے قوانین کا ایک ہی مجموعہ کافی تھا۔ ان قوانین میں اللہ نے ایسی لچک اور وسعت دی کہ ہر زمانے کے لوگ اس سے اپنے معاملات کے مطابق ہدایت پا سکیں۔
ایک ایسے دور کے لیے یہ بالکل منطقی اور عقلی بات تھی کہ اب آخری رسول بھیجا جائے جو پورے کا پورا دین، انسانیت کے لیے ، خدا کے پیغام کی حیثیت سے ، لے آئے۔ چنانچہ حضورﷺ خاتم النبین کی حیثیت سے تشریف لے آئے۔
یہ جان لینا بھی مناسب ہو گا کہ دین کی بنیادی حقائق کو قرآن مجید میں ’’الحکمۃ‘‘ کہتا ہے اور قوانین وضوابط کو’’الکتاب‘‘ اور ’’شریعت‘‘ کے نام سے پکارا گیا ہے۔
سوال: کیا اب وحی والہام کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے ؟
جواب: جی ہاں ، چونکہ آخری نبی کے ساتھ آخری کتاب ہدایت اور رسولؐ کی سنت دنیا میں موجود ہے ، اس لیے اب کسی وحی والہام کی ضرورت نہیں رہی۔
سوال: تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض پیغمبروں نے ساری زندگی لوگوں کو خدا کے دین کی طرف بلایا، لیکن بہت کم لوگوں نے ان کی دعوت قبول کی، حتیٰ کہ بعض انبیا کو تو قتل بھی کر دیا، مثلاً یوشع علیہ السلام اور حضرت یوحنا۔ اس کے برعکس، بعض قوموں نے اپنے پیغمبروں کی بات نہ مانی، تو ان پر آسمان یا زمین سے عذاب آیا، مثلاً نوح علیہ السلام کی قوم اور لوط علیہ السلام کی قوم۔ سوال یہ ہے کہ اس ضمن میں اللہ کا قانون کیا ہے ؟ بعض قومیں بچ کیوں گئیں اور بعض پر عذاب کیوں آیا؟
جواب: اس دنیا میں اللہ نے انسان کی رہنمائی کے لیے مختلف طریقے اختیار فرمائے ہیں مثلاً اس کو عقل دی ہے ، جس سے وہ سوچتا ہے اور غوروفکر کرتا ہے۔ اسے ضمیر، یعنی نیک فطرت دی ہے ، جس کی بناء پر اس کے اندر سے ایک طاقت، اسے ہر غلط کام، جھوٹ اور ظلم سے روکتی ہے۔ اس طرح اللہ نے انسان کی ہدایت کے لیے جو پیغمبر بھیجے ، وہ سب کے سب نبی ہیں ، لیکن ان میں سے بعض کو ’’رسالت‘‘ کے منصب پر فائز کر دیا گیا۔ نبوت کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص کو آسمان سے وحی کے ذریعے سے یہ کام سونپ دیا جائے کہ وہ لوگوں کو حق بتائے ، اس کے ماننے والوں کو اچھے انجام کی خوش خبری دے اور نہ ماننے والوں کو برے انجام سے خبردار کر دے ، یعنی وہ دراصل نذیر وبشیر ہوتا ہے۔
یہ ضروری نہیں کہ ایک نبی کو اس دنیا میں کوئی عملی کامیابی مل جائے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بہت کم لوگ اس کی پکار پر لبیک کہیں ، اس پر مظالم ڈھائے جائیں اور اسے قتل کر دیا جائے ، جیسے نبی اسرائیل کے بہت سے انبیا کے ساتھ ہوا۔ لیکن ہدایت کا سب سے بڑ ا ذریعہ ’’رسالت‘‘ ہے۔ اللہ کی طرف سے کسی نبی کو رسول کے منصب پر فائز کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ اب اس کو خدا کی طرف سے ایسی ایسی نشانیاں ملیں گی جن سے اس قوم پر، دوجمع دوچار کی طرح، یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ انسان، سراسر، حق ہے۔ پھر خدا کی طرف سے یہ فیصلہ بھی کیا جاتا ہے کہ اگر اس کی قوم نے اپنے رسول کی بات مان لی اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کر لیا، تب تو ٹھیک ہے ، لیکن اگر قوم نے اس کی دعوت رد کر دی تو پھر اس قوم کو سزا دی جائے گی۔ دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ رسول دنیا میں خدا کی طرف سے ’’اتمام حجت‘‘ ہوتا ہے۔ وہ اپنی قوم پر خدا کی عدالت میں گواہ ہوتا ہے۔ اگر اس نے قوم کے حق میں گواہی دی تو وہ بچ جاتی ہے ، لیکن اگر اس کی گواہی قوم کے خلاف پڑ ی، تو اس کی قوم کو سزا دی جاتی ہے۔
چنانچہ، جتنی قوموں پر عذاب آیا، یہ سب کی سب وہ قومیں تھیں ، جن کی طرف رسول بھیجے گئے تھے۔ چونکہ حضورﷺ بھی رسول تھے۔ اس لیے قرآن مجید نے صاف الفاظ میں مشرکینِ عرب کو ڈرایا کہ اگر تم لوگ ایمان نہیں لاؤگے تو تم پر عذاب ٹوٹ پڑ ے گا۔ قرآن نے اللہ کا یہ فیصلہ بھی سنادیا کہ اس قوم میں سے جن لوگوں پر اتمام حجت ہوجائے اور اس کے باوجود ایمان نہیں لائیں گے ، ان پر رسول کے ساتھیوں کے ذریعے سے عذاب نافذ کیا جائے گا۔ چنانچہ، مشرکین کے تمام بڑ ے بڑ ے لیڈر، جن پر اتمام حجت ہو چکا، وقتاً فوقتاً نیست ونابود کر دیے گئے ، اور حضورﷺ کو، بحیثیتِ رسول، سارے جزیرہ نمائے عرب پر غلبہ عطا کر دیا گیا ہے۔ 1
سوال: کیا اب بھی قوموں پر اللہ کا عذاب آ سکتا ہے ؟
جواب: جہاں تک ایک عام انسان کا تعلق ہے ، تو یہ ضروری نہیں کہ اسے اپنی غلطیوں کی سزا اسی دنیا میں مل جائے۔ ایک عام انسان کو اس دنیا میں جتنی بھی تکلیفیں پیش آتی ہے ، وہ عذاب نہیں بلکہ آزمائش ہیں اور جتنی نعمتیں بھی اس کو ملتی ہیں ، وہ بھی محض انعام نہیں ، بلکہ آزمائش ہیں۔
جہاں تک قوموں کا تعلق ہے ، تو ظاہر ہے کہ جو عذاب رسولوں کے ساتھ خاص تھا، اس کا سلسلہ تو رسولوں کے اختتام کے ساتھ بند ہو چکا۔ البتہ قوموں کے بارے میں اللہ کا قانون یہ ہے کہ ایک قوم دنیا میں صرف اس وقت تک زندہ رہتی ہے ، جب تک اس میں اندرونی اتحاد موجود ہو اور جب تک وہ اپنے آپ کو بچانے کی قوت رکھتی ہے۔ ظاہر ہے اندرونی اتحاد کے لیے یہ ضروری ہے کہ معاشرے میں مکالمے ، حکمت، انصاف اور امانت ودیانت کا بول بالا ہو اور دنیاوی قوت کے حصول کے لیے یہ ضروری ہے کہ معاشرے میں علوم وفنون کی آبیاری ہو۔ جو معاشرہ اس معیار سے جتنا ہٹتا چلا جاتا ہے ، اتنا ہی وہ کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔ ممکن ہے وہ محض کمزوری میں زندہ رہے۔ ممکن ہے وہ کسی دوسری قوم کی غلامی میں چلا جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ بالکل فنا ہوجائے۔
خدا کے باغیوں کے بارے میں اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ حد سے باغی لوگوں کو اس دنیا میں اتنا بھی آزاد نہیں چھوڑ تا کہ وہ حق کو بالکل کچل ڈالیں۔ اس لیے وقتاً فوقتاً اللہ تعالیٰ ایسے باغیوں کی سرگرمیوں کو اپنی مشیت کے تحت محدود کرتا رہتا ہے۔ یہ بات قرآن کریم میں ، سورۃ حج آیت40میں ، بڑ ی وضاحت سے بیان کی گئی ہے۔
سوال: معجزات کیا؟ کیا معجزہ کسی کی نبوت کا ثبوت قرار دیا جا سکتا ہے ؟ حضورﷺ کو کون سے معجزات عطا کیے گئے تھے ؟
جواب: معجزات کو قرآن مجید کی اصطلاح، میں ’’آیات‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کی طرف سے ایسا واقعہ ظہور پذیر ہوجائے ، جو قوانین فطرت کے عام طریقے سے ہٹا ہوا ہو۔ معجزہ دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا جاتا۔ اس کے برعکس انبیا نے اپنی دعوت ہمیشہ عام فہم، عقلی دلائل پر رکھی ہے اور خود انسان کے نفس اور کائنات کے مظاہر کی طرف انسان کی توجہ دلائی ہے۔ معجزہ دکھا کر کسی قوم کو ایمان لانے پر آمادہ کرنا آزمائش کی روح کے خلاف ہے۔ کیونکہ اگر حق اس طرح واضح ہوکر سامنے آجائے کہ کسی کے لیے مانے بغیر چارہ ہی نہ رہے ، تو امتحان وآزمائش کا تصور باقی نہیں رہتا۔ اس لیے دلیلِ نبوت کے طور پر، اصلاً کسی نبی کو بھی معجزہ نہیں دیا گیا۔
جن انبیا کی مدد اللہ نے معجزات کے ذریعے سے کی، ان کی بنیادی وجوہات دو ہیں۔ ایک یہ کہ قوم سرکشی کی آخری حد پر پہنچ گئی اور پیغمبر سے معجزے کا مطالبہ کیا اور اسے خود دلیل نبوت قرار دیا یا پھر کسی قوم پراتمام حجت مقصود تھا، تاکہ اس کے بعد ان پر عذاب نازل کیا جائے یا یہ کہ کچھ ایسے غیر معمولی حالات پیدا ہوگئے ، جن میں خدا کے باغیوں سے انبیا کی حفاظت مقصود تھی۔ معجزات کی اور بھی وجوہات ہیں ، لیکن بہت اہم یہی دو ہے۔ مثلاً جب بنی اسرائیل کودنیا کی امامت کے منصب سے معزول کرنے کا فیصلہ ہو گیا ، تو اتمام حجت کے لیے حضرت عیسیٰؑ کے پورے وجود کو معجزہ بنادیا گیا۔ اسی طرح حضرت موسیٰ ؑ کے ضمن میں یہ ضروری تھا کہ ابتدا ہی میں فرعون کے ظلم سے بچایا جائے۔ چنانچہ ان کو رسالت کے ساتھ معجزے دیے گئے ، اور بعد میں فرعون پر اتمام حجت کے لیے مزیدمعجزے بھی عطا کیے گئے۔
اسی طرح جب مشرکین مکہ نبوت کی دلیل کے طور پر معجزہ مانگتے تھے ، تو ان کو معجزہ دکھانے سے انکار کیا گیا1 دلیل نبوت کے دور پر معجزہ نہ دکھانے پر قرآن مجید نے سورہ اعراف میں آیت 35یا38میں بہت واضح تبصرہ کیا ہے۔ اس لیے کہ اس کے بعد اگلا قدم عذاب ہی ہو سکتا تھا۔ تاہم، حضورﷺ کو دشمنوں سے بچانے کے لیے ، جہاں جہاں ضرورت تھی، وہاں وہاں معجزوں کا ظہور ہوا مکی دور میں ، مشرکین مکہ کی شدید خواہش کے باوجود، اللہ نے آپؐ کو ان کے شر سے محفوظ رکھا۔ مکی دور کے آخری دن جب مشرکین نے حضورﷺ کو قتل کے ارادے ان کے گھر کے گرد گھیرا ڈال دیا اوران کے درمیان سے صاف نکل گئے اور وہ حضورﷺ کو دیکھ بھی نہ سکے۔ اسی طرح ہجرت کے سفر کے دوران میں جن جن لوگوں نے حضورﷺ کا تعاقب کیا، ان سب کو ناکامی ہوئی۔ غزوہ احد اور حنین کے موقع پر اللہ نے معجزاتی طور پر دشمنوں سے آپؐ کی حفاظت فرمائی۔
سوال: کیا پیغمبر بالکل معصوم ہوتا ہے اور اس سے کبھی خطا سرزد ہی نہیں ہو سکتی؟ اگر ایسا ہے توقرآن مجید نے بعض پیغمبروں کی خطاوؤں کا ذکر کیوں کیا ہے ؟
جواب: قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر کے ہر قول وفعل کی حفاظت کے لیے ، خالق کی طرف سے ، غیر معمولی انتظامات کیے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ اس کی ہر بات اور ہر کام کو لوگ حق ہی طور پر مانتے اور جانتے ہیں اوراس کی زندگی سب اخلاقی پہلوؤں میں ، اس کے ماننے والوں کے لیے اسوہ حسنہ ہوتی ہے۔
یہاں یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ خطا اور قصور کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ کو ایک وہ قصور جو کسی انسان سے اپنی نفسانی خواہشات کے غلبے کی وجہ سے ہوجائے اوردوسری وہ خطا جو کسی سے حق کی حمایت میں صادر ہوجائے۔ انبیائے کرام کو اللہ نے اپنے نفس پر اتنی غیر معمولی گرفت سے نوازا ہوتا ہے کہ وہ نفسانی خواہشات کی غلبے کی وجہ سے کبھی کوئی غلطی نہیں کرتے۔ البتہ، یہ ممکن ہے کہ حق کی حمایت میں ان سے کوئی ایسی فردگزاشت ہوجائے ، جو خدا کو مطلوب نہ ہو، تب فوراً خدا کی طرف سے تنبیہ آ جاتی ہے ، تاکہ وہ کام، اسوہ حسنہ نہ بننے پائے۔ مثلاً حضرت یونسؑ حق کی حمایت اور حق کے لیے غیرت کے جذبہ سے ، اپنی قوم کو وقت سے پہلے چھوڑ کرچلے گئے ، جس پر اللہ نے فوراً اپنا عتاب نازل کیا۔
عصمتِ انبیاء کا مطلب یہ ہے کہ وہ جانبِ نفس ہر غلطی سے محفوظ ہوتے ہیں۔
سوال: کہا جاتا ہے کہ حضورﷺ کی بعثتِ خاص مشرکین عرب کی جانب ہوئی اور ان کی بعثتِ عام پوری دنیا کے لیے تھی۔ اس کا کیا مطلب ہے ؟
جواب: حضورﷺ سے پہلے سارے انبیاء کی بعثت صرف اپنے علاقے کے لیے ہوتی تھی، لیکن چونکہ حضورﷺ آخری نبی تھے ، ذمہ داری اس لیے آپؐ پوری دیناکے لیے ہدایت کا پیغام لے کر آئے۔ اس کو بعثت عام کہا جاتا ہے۔
بعثتِ خاص کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ حضورﷺ مشرکین عرب کی قوم سے تعلق رکھتے تھے ، اس لیے آپؐ کی پہلی بنیادی ذمہ داری ان تمام لوگوں کو حق کا پیغام پہنچانا تھا۔ چونکہ آپؐ نبی کے ساتھ ساتھ رسول بھی تھے ، اس لیے سنت الٰہی کے تحت آپؐ کو اپنے قوم پر غالب آنا تھا اور ہم دیکھتے ہیں کہ آپؐ اپنی قوم پر غالب رہے ، بلکہ آپؐ کا معاملہ اس لحاظ سے قدر خاص نوعیت کا تھا کہ آپؐ کی ساری قوم آپؐ پر ایمان لے آئی۔
سوال: پیغمبر کا اصل فریضہ کیا ہوتا ہے ؟
جواب: قرآن مجید سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہر پیغمبر کا مقصد بعثت لوگوں کو خبردار کرنا (انذار)، انہیں خوش خبری دینا(بشارت)، ان پر اتمام حجت (شہادت علی الناس) اور اپنے ماننے والوں کا تزکیہ کرنا ہے۔
سوال: کیا پیغمبروں کا مقصد غلبہ حق ہوتا ہے ؟
جواب: اپنی قوم کے اوپر رسول کا غلبہ یا اُس کی وفات کے بعد اُس کے ساتھیوں کا غلبہ اور دشمنوں کو سزا دینے کا عمل اللہ کی ایک سنت یعنی مستقل طریق کار ہے جو خودکار طریقے سے ہوتا ہے۔ پیغمبر کا اصل مقصد انذار، بشارت، اتمام حجت اور تزکیہ ہے۔
سوال: کہا جاتا ہے کہ حضورﷺ کی زندگی ہمارے لیے اسوہ حسنہ، یعنی اتباع کے لیے بہترین نمونہ ہے لیکن آپؐ تو اللہ کی طرف سے رسول تھے ، قدم قدم پر، آپؐ کی حفاظت کی جاتی تھی، ہر دم آپؐ کو اللہ کی طرف سے ہدایات ملتی تھیں ، غلبہ آپؐ کا مقدر تھا، چنانچہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ کی زندگی کا کون سا حصہ ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے ؟
جواب: اس سوال کے جواب کے لیے ہم حضورﷺ کی زندگی کو چار حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ پہلا وہ حصہ، جن میں انہیں کارِ رسالت انجام دینا تھا، غلبہ ان کا مقدر تھا، ان کا ہر ہر عمل اللہ کی ہدایت کے مطابق انجام پاتا تھا۔ ظاہر ہے حضورﷺ کی زندگی کے اس حصے میں کوئی ان کی پیروی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
دوسرا وہ حصہ ہے جس میں حضورﷺ کسی خصوصی حیثیت میں ، یعنی بحیثیت معلم، سپہ سالار، جج اور حاکم اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ چنانچہ، ان میدانوں میں آپؐ ہر معلم، سپہ سالار، جج اور حاکم کے لیے اسوہ حسنہ اور خیرالبشر ہیں۔ کوئی عام مسلمان اس کا مکلف نہیں ہے۔
تیسرا حصہ وہ ہے جو حضورﷺ کی ذاتی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جس میں قرآن کریم باربار آپ کو دوسروں کی طرح ایک بشر قرار دیتا ہے یعنی یہ کہ وہ ایک خاص تمدن میں زندگی گزارنے کی وجہ سے ، کچھ خاص قسم کے کپڑ ے پہنتے تھے اور کچھ خاص کھانے کھاتے تھے۔ وہ اپنے زمانے کی طب کے مطابق اپنا اور اپنے اہل خانہ کا علاج کرواتے تھے۔ وہ اونٹوں اور گھوڑ وں پر سفر کرتے تھے۔ وہ اپنے زمانے کے طریقے کے مطابق بنے ہوئے مکانوں میں رہتے تھے۔ اس طرح کی تمام تمدنی چیزوں اور ذاتی زندگی میں اسلام نے ہمیں حضورﷺ کی پیروی کرنے کا مکلف نہیں کیا۔ اس لیے کہ اگر ایسا ہوجائے تو تمدن اور ترقی کی گاڑ ی رک جائے گی۔
چوتھا حصہ حضورﷺ کی اخلاق وکردار سے متعلق ہے۔ آپؐ اخلاق کے بلند ترین درجے پر فائز تھے۔ آپؐ کی سچائی، امانت، دیانت، بڑ وں اور چھوٹوں سے برتاؤ وعدے کی پاس داری، جفاکشی، بہادری، طہارت، محنت ومشقت، غرض یہ کہ آپؐ کے کردار کا ایک ایک پہلو مثالی تھا۔ یہی وہ اصل حصہ ہے جس میں آپؐ ہر مسلمان کے لیے پیروی اور اتباع کا بہترین نمونہ، بالفاظ دیگر خیرالبشر ہیں۔ لاریب، اس نمونے پر جو جتنا چلا، اتنی ہی اس نے اپنی دنیا وآخرت بہتر کی۔
سوال: حضورا کرمﷺ نے بہت سی شادیاں کئیں۔ ان کی وجہ کیا تھی؟
جواب: حضورﷺ کی پہلی دو شادیوں کو چھوڑ کر باقی ساری کی ساری شادیاں کار رسالت کی انجام دہی کے لیے کی گئیں۔ آپؐ کی شادیوں کا سارا معاملہ اللہ تعالیٰ نے خود کنڑ ول کیا۔ اس لیے قرآن مجید نے آپؐ کی شادیوں کو کار رسالت سے متعلق قرار دیا اور واضح کر دیا کہ آپؐ کی شادیوں کے مخصوص قوانین ہیں۔ ایک خاص دائرے سے باہر آپ کی شادی پر پابندی لگادی گئی۔ آپؐ پر یہ پابندی بھی لگادی گئی کہ آپؐ اپنی بیویوں کو طلاق نہیں دے سکتے۔ اور پھر یہ کہ آپؐ کی بیویوں پر بھی یہ پابندی لگادی گئی کہ آپؐ کی وفات کے بعد، وہ دوسری شادی نہیں کرسکتیں۔ انہیں امہات المؤمنین، یعنی مومنوں کی مائیں قرار دیا گیا اور ان پر عام مسلمان خواتین کی نسبت کچھ اضافی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ یہ سب کچھ سورہ احزاب میں ، بڑ ی وضاحت کے ساتھ درج ہے۔
آپؐ کی پہلی بیوی حضرت خدیجہؓ تھیں۔ شادی کے وقت آپ کی عمر پچیس برس کی تھی اور حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس برس۔ اس شادی سے پہلے حضرت خدیجہؓ تین دفعہ بیوہ ہوئی تھیں۔ ان کے پہلے تینوں خاوند یکے بعد دیگرے وفات پا چکے تھے۔ اگلے چوبیس برس تک وہ حضورﷺ کی واحد بیوی تھی۔ گویا ، حضورﷺ نے اپنی پوری جوانی ایک ادھیڑ عمر بیوی خاتون کے ساتھ گزاری۔ آپؐ انہی کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کرتے تھے اور آپؐ نے ہمیشہ اس کا اظہار کیا۔
جب حضرت خدیجہؓ کی وفات ہوئی تو کچھ مہینے بعد حضورﷺ نے حضرت سودہ سے نکاح کر لیا۔ یہ ابھی مکی دور کی بات تھی۔ وہ بھی پچاس سال کی ایک پختہ عمر بیوہ خاتون تھیں۔
ہجرت مدینہ کے بعد خواتین کے نقطہ نظر سے چند اہم ضروریات سامنے آ گئیں ، ایک یہ کہ مسلمانوں کی آبادی بہت تیزی سے بڑ ھنے لگی۔چنانچہ خواتین کی بہترین تربیت کے لیے ایسی خواتین کی ضرورت تھی جو، براہ راست حضورﷺ سے تربیت یافتہ ہوں۔ دوسری یہ کہ بعض اہم ترین قبیلوں سے مسلمانوں کی بڑ ی لڑ ائیاں رہی تھیں۔ ان قبیلوں کو مسلم امت میں پوری طرح ضم کرنے کا واحد طریقہ یہ تھا کہ ان کی رشتہ داری حضورﷺ سے قائم کر دی جائے۔ یہ بھی ضروری تھا کہ آپؐ کی وفات کے بعد ایسی خواتین موجود ہوں ، جو اسلامی معاشرت کو پھیلائیں اور خواتین ان کے پاس آ کر ان سے فیض حاصل کریں۔ عرب میں معاشرت سے متعلق کچھ ایسے غلط رواج بھی تھے جنہیں توڑ نا ضروری تھا۔ ان تمام مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے حضورﷺ نے زندگی کے آخری دس سالوں میں کئی نکاح کیے۔ ان میں صرف حضرت عائشہؓ کنواری تھیں۔ باقی سب کی سب بیوائیں یا مطلقہ تھیں۔ ان میں سے ہر شادی کے ذریعے اشاعت اسلام میں مدد ملی۔
یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ حضورﷺ کی وفات کے بعد بعض امہات المؤمنین نصف صدی تک زندہ رہ کر خواتین کی تربیت کرتی رہیں۔ حضورﷺ کی شادیوں کا یہی پس منظر ہے۔
____________
1 البقرہ 2: 216، ابراہیم14 : 13، المجادلہ 58: 20- 21، الصف61: 9، المزمل 73: 15، مزید وضاحت کے لیے دیکھیے : انہی آیات کے تحت ’’تدبر قرآن، امین اصلاحی‘‘۔