دوسرا باب
سوال: اسلام کا ایک اہم ترین عقیدہ یہ ہے کہ اس کائنات کا خالق ایک اللہ ہے۔ سوال یہ کہ یہ کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ واقعتا اس کائنات کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے ؟
جواب: اس کائنات کا ذرہ ذرہ، ہماری زمین، ایک ایٹم سے لے کر عظیم کہکشاوؤں تک کی حیرت انگیز تنظیم، زندگی اور اس کی معنویت اور سب سے بڑ ھ کر انسان کا وجود اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک خالق نے ہی تخلیق کیا ہے۔ آئیے اس کو کچھ تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کریں :
1۔رات کے اندھیرے میں اگر خالی آنکھ سے آسمان کا مشاہدہ کیا جائے تو تقریباً پانچ ہزار ستارے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایک اچھی دور بین سے اگر یہی مشاہدہ کیا جائے تو بیس لاکھ سے زائد ستارے نظر آتے ہیں ، اور اگر بہت بڑ ی دوربینوں سے دیکھنے کی کوشش کی جائے تو یہ تعداد اربوں سے بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ تعداد بھی اپنی اصل تعداد کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اکثر ستارے اتنے بڑ ے ہے کہ ان کے اندر لاکھوں نہیں ، بلکہ اربوں زمینیں سما سکتی ہیں۔ یہ سب ستارے غیر معمولی رفتار سے سفر کر رہے ہیں۔ کچھ اکیلے ، کچھ دودو اور اکثر ستارے بہت بڑ ے بڑ ے جھرمٹوں کی شکل میں جنہیں کہکشاں کہتے ہیں ، کسی نہ کسی سمت سفر کر رہے ہیں۔
یہ ساری کائنات ہر لمحہ پھیل رہی ہے۔ ہر ستارہ اپنے چاندوں اور دیگر متعلقات کے ساتھ انتہائی تیز رفتاری سے سفر کر رہا ہے۔ مثلاً ہمارا سورج تقریباً بیس کلومیٹر فی سیکنڈ، یعنی بہتر ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے کہکشاں کے مرکز سے دور ہٹ رہا ہے۔ صرف یہی نہیں ، بلکہ ہر کہکشاں بھی مسلسل حالت سفر میں ہے ، مثلاً ہمارا سورج جس کہکشاں میں واقع ہے ، وہ اپنے محور کے گرد اس طرح گھوم رہی ہے کہ اس کا ایک دور بیس کروڑ سال میں پورا ہوتا ہے۔
ان کے ساتھ ساتھ حرکت کی ایک اور قسم یہ ہے کہ ہر ستارے کے سیارے ، اپنے اپنے ستارے کے گرد، اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں اور پھر ہر سیارے کے چاند، اپنے سیارے کے گرد، اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ مثلاً ہمارا سورج، جو زمین سے بارہ لاکھ گنا بڑ ا ہے ، ہماری زمین اس سے تقریباً پندرہ کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور وہ اپنے محور پر سولہ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گھومتی ہوئی سورج کے گرد تیس کروڑ کلومیٹر کا دائرہ بناتی ہے۔ یہ سارا سفر ایک سال میں پورا ہوتا ہے۔ اس طرح آٹھ بڑ ے سیارے ، تیس ہزار چھوٹے سیارے ، ہزاروں دمدار ستارے اور بے شمار شہاب ثاقب بھی سورج کے گرد گھوم رہی ہیں۔
ماہرین فلکیات کا جدید ترین اندازہ یہ ہے کہ اس کائنات میں تقریباً پچاس کروڑ کہکشاں ہیں اور ہر کہکشاں میں تقریباً ایک کھرب ستارے ہو سکتے ہیں۔ ہر کہکشاں انتی بڑ ی ہے کہ مثلاً ہمارا سورج جس کہکشاں میں واقع ہے ، اس کا قطر(diameter) بیس لاکھ نوری سال ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک ہوائی جہاز ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈکی رفتار سے اس کہکشاں کے ایک سرے سے اڑ نا شروع کرے تو وہ بیس لاکھ سال میں اس کہکشاں کے دوسرے سرے تک پہنچ سکے گا، لیکن نہیں ، تب بھی نہیں پہنچ سکے گا۔ اس لیے کہ اس دوران میں یہ کہکشاں اس سے کہیں زیادہ پھیل چکی ہو گی۔ لیکن یہ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ اس پوری کائنات کی یہ تمام حرکتیں انتہائی تنظیم اور اصول وضوابط کے مطابق ہورہی ہیں۔ یہ تمام گردشیں اتنی صحیح ہیں کہ کہیں بھی ایک سیکنڈ کا فرق نہیں پڑ تا۔کوئی ستارہ دوسرے سے نہیں ٹکراتا۔
حتیٰ کہ یوں بھی ہوتا ہے کہ اربوں ستاروں پر مشتمل ایک کہکشاں اپنے سفر کے دوران میں ایک دوسری کہکشاں میں داخل ہوجاتی ہے اور پھر اس سے نکل جاتی ہے۔ مگر یہ سب کچھ یوں ہوتا ہے جیسے پہلے سے طے شدہ ہو۔
اس حیرت انگیز تنظیم کو دیکھئے ، اس نظم وضبط کو دیکھئے ، اس کے قوانین کو دیکھئے۔ انسان اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ سب کچھ آپ سے آپ نہیں ہو سکتا، بلکہ ایک عظیم خالق اور منتظم ہے جس نے اس پورے نظام کو قائم کیا ہوا ہے۔
2۔اس کائنات کے مقابلے میں آپ ایک ایٹم کا جائزہ لیجئے۔ ایٹم کو آج تک کسی بھی خوردبین سے دیکھا نہیں جا سکا، لیکن ہمیں سائنس نے جو معلومات فراہم کی ہیں ، اس کے مطابق اس حقیر ترین ذریعے میں بھی پوری کائنات کا عکس موجود ہے۔ نیوٹران اور پروٹان مرکز میں ہوتے ہیں ، جب کہ الیکٹران ان کے گرد اتنی تیزی سے گھومتے ہیں کہ وہ ہر وقت ہرجگہ موجود نظر آتے ہیں۔ ایک الیکٹران اپنے مدار پر ایک سیکنڈ میں کئی ہزار ارب مرتبہ چکر لگاتا ہے۔ بذات خودایک ایٹم کے اندر اتنا زیادہ خلا ہوتا ہے کہ اگر پوری دنیا کے ایٹموں کے اندر سے خلا نکال لیا جائے تو ساری دنیا کا مادہ چائے کے ایک چھوٹے چمچے میں سما سکتا ہے۔
ہر عنصر مختلف قسم کے ایٹموں سے بنا ہے۔ ہر ایٹم مالیکیول کی صورت میں دوسرے ایٹم سے جڑ ا ہوا ہوتا ہے۔ ہر عنصرکی خصوصیات کا انحصار اس میں موجود برق پاروں کی تعداد پر ہوتا ہے۔ جس طرح پوری کائنات میں سب کچھ قوت اور قوانین کے عظیم نظام پر چل رہا ہے ، اس طرح ایک ایٹم کے اندر بھی وہ بے پناہ قوت اور قوانین کارفرما ہیں ، جن کا ایک تجربہ ایٹم بم کی شکل میں کیا گیا ہے۔
کیا اتنی عظیم تنظیم کا تصور ایک خالق کے بغیر ممکن ہے ؟ کیا یہ سب کچھ بس آپ سے آپ ہی ہو گیا؟ انسان کا عقل وشعور اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ نہیں ، ایسا نہیں ہو سکتا ہے۔ یقینا اس کا ایک خالق ہونا چاہیے۔
3۔اب ذرا اس زمین کا جائزہ لیجئے۔ زمین پر انتہائی عجیب وغریب حالات، انتہائی پیچیدہ انداز سے اکٹھے ہوئے ہیں ، تب کہیں جا کر زندگی ممکن ہوئی ہے۔ مثلاً زمین کی جسامت اگر موجودہ جسامت سے کم ہوتی، تو وہ کشش ثقل کی کمی کی وجہ سے ہوا اور پانی کو نہ روک سکتی۔ اس طرح اگر زمین موجودہ جسامت سے بڑ ی ہوتی تو ہوا کا دباؤاتنا زیادہ ہوجاتا کہ اعلیٰ ذہنی زندگی ممکن نہ رہتی۔ زمین اپنے محور پر اس طرح گھومتی ہے کہ وہ چوبیس گھنٹے میں ایک چکر مکمل کرتی ہے اور اس کی رفتار سولہ سوکلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ اگر زمین کی رفتار اس سے کم ہوجائے تو دن اور رات اتنے لمبے ہو جائیں گے کہ دن کے وقت سورج ہماری فصلوں کو جلادے گا اور رات کے وقت ہماری ساری زندگی ٹھنڈک نذر ہوجائے گی۔
زمین بالکل گول نہیں ہے ، بلکہ وہ ناشپاتی کی طرح ہے اور 23درجے کا زوایہ بنا کر فضا میں جھکی ہوئی ہے۔ ہمارے موسم اسی طرح جھکاؤ کے مرہون منت ہیں۔ اس کے بغیر زمین صرف صحرا اور برف کے میدانوں پر مشتمل ہوتی۔
سائنس دانوں کے اندازے کے مطابق زمین آج سے دو ارب سال پہلے سورج سے جدا ہوئی۔
اس وقت اس کا درجہ حرارت سورج ہی کی طرح، بارہ ہزار ڈگری فارن ہائیٹ تھا۔ جب یہ درجہ حرارت چار ہزار ڈگری تک آ گیا، تب آکسیجن اور ہائیڈروجن کے آپس میں ملنے سے پانی بنا اور ان گیسوں کا کچھ حصہ نائٹروجن کی شکل میں ہوا بن گیا۔ یہ سب گیسیں میں کیوں نہیں اڑ یں ؟ سب پانی کیوں نہیں بنیں ؟ ہوا کی مقدار زیادہ کیوں نہ ہوئی؟ یہ سب کچھ اسی تناسب میں کیسے رہا؟ جب کہ زندگی کا دارومدار اسی تناسب پر ہے ، مثلاً اگر فضا میں آکسیجن کی مقدار زیادہ ہوتی تو آگ پر قابو پانا ناممکن ہوجاتا۔ ہوا کی مقدار کم یا زیادہ رہتی، تب بھی زندگی ناممکن یا محض بھونڈی صورت میں رہ جاتی۔ صرف یہی نہیں ، بلکہ یہ سب کچھ عین اس تناسب سے ہے ، جس میں یہ انسان اور زندگی کو ہر آفت سے بچاتا ہے۔ کروڑ وں کی تعداد میں شہاب ثاقب روزانہ فضا میں داخل ہوتے ہیں ، مگر زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی جل کر بھسم ہوجاتے ہیں۔ یہ ہوائی کرہ اس قابل ہے کہ سورج کی تمام مضر شعاعیں روک سکے اور مفید شعاعیں مثلاً کیمیائی اہمیت رکھنے والی شعاعیں اسی مقدار میں زمین تک پہنچ سکیں ، جتنی پودوں اور درختوں کو ضرورت ہے۔
واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس زمین پر یہ سب انتظام محض اس لیے ہے کہ زندگی قائم ودائم رہے۔ مثلاً پانی وہ واحد کمپاؤنڈ ہے ، جو جمنے کے بعد بھاری نہیں رہتا، بلکہ ہلکا ہوجاتا ہے۔ اس خاصیت کی وجہ سے سردیوں میں پانی کے اوپر صرف چند انچ برف تہہ جم جاتی ہے اور پانی کے تمام جانور سمندروں اور دریاؤں میں اسی برف کے نیچے زندہ رہتے ہیں۔ اگر صرف یہی خاصیت پانی میں نہ ہوتی تو پانی کے جانداروں کی زندگی ناممکن یا بہت مشکل ہوجاتی۔ یہ سب کچھ اتنے اٹل قوانین کا پابند ہے کہ سائنسی ماہرین یہ بتا سکتے ہیں کہ کتنے ہزار سال بعد کس وقت کتنے سیکنڈ کے لیے سورج گرہن اور چاند گرہن واقع ہو گا۔کیا زمین کا اتنا مربوط نظام ہمیں یہ ثبوت فراہم نہیں کرتا کہ اس کا ایک خالق ضرور موجود ہے ؟
4۔اب ذرا اس حضرت انسان پر نظر دوڑ ائیے۔ اس کا ایک ایک پور پکار پکار کر گواہی دے رہا ہے کہ یہ کس کمال درجے کی صناعی کا شکار ہے۔ انسان کے اندر جو عصبی مواصلاتی نظام (Nervous sustem) موجود ہے ، وہ دنیا کے کسی بھی نظام سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور مکمل ہے۔ اس نظام میں ہر وقت کروڑ وں معلومات دوڑ تی ہیں۔ دل اور پھیپھڑ وں کی حرکت، عرض یہ کہ ہر چیز اس نظام کے تابع ہے۔ زبان کے تین ہزار خلیے اس نظام کے ذریعے سے دماغ تک ذائقے کے بارے میں معلومات پہنچاتے ہیں۔ کان میں ایک لاکھ خلیے ایک پیچیدہ عمل کے ذریعے سے ہمارے دماغ تک آواز پہنچاتے ہیں۔ ہر آنکھ میں تیرہ کروڑ متحرک خلیے ہیں جو ہر آن دماغ تک زندہ تصویر پہنچاتے ہیں۔
اس عصبی نظام کا ایک حصہ حرکت پیدا کرتا ہے اور دوسرا حصہ اس کو روکتا ہے۔ جب حرکت تیز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو پہلے حصے کو غلبہ حاصل ہوجاتا ہے اور جب حرکت کو کم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو دوسرا حصہ غالب ہوجاتا ہے ان کو 'Sympathetic'اور'Para-Sympathetic'سسٹم کہا جاتا ہے۔
انسانی دماغ کے اندر ایک ارب خلیے (Nerve Cells)ہوتے ہیں۔ ان سے کروڑ وں تار سارے بدن میں خبریں لانے اور لے جانے کاکام کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں ، بلکہ دماغ کے اندر تمام معلومات کا تجزیہ کرنے ، انہیں مربوط کرنے ، ذخیرہ کرنے ، ان سے نئے نئے نتائج نکالنے اور ان کی بنیاد پر نئے تجربات کرنے کی بے پناہ صلاحیت پائی جاتی ہے۔
صرف یہی نہیں ہوا، بلکہ انسان کی ٹانگوں میں ، بازوؤں میں ، گردن میں ، غرض یہ کہ بدن کے انگ انگ میں حرکت کی وہ صلاحیت رکھی گئی ہے ، جس کے بغیر وہ نہ کوئی بڑ ی ایجاد کرسکتا تھا، نہ تہذیب وتمدن ترقی کرسکتے تھے۔ مثلاً ہمارے بازوؤں کو دیکھ لیجئے۔ ان میں کہنی کے مقام پر جو ہلکا ساخم ہے ، اسی خم کی وجہ سے انسان اپنے ہاتھوں سے ہر کام لینے کے قابل ہوا ہے۔ ان انگلیوں کو دیکھ لیجئے۔ کس کمال درجہ خوب صورتی اور قطعیت کے ساتھ یہ لکھنے ، بنانے اور سنوارنے پر قادر ہیں اور ان سب کے سا تھ ساتھ، انسان کا ذہن جواسے ہر آن سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس کی فکر اس کے سامنے نئے نئے چیلنج پیش کرتی ہیں اور وہ ہمہ تن اور ہمہ وقت ان چیلنجوں سے عہدہ برآہوکر آگے کی سمت بڑ ھتا چلا جا رہا ہے۔ کیا حضرت انسان کا وجود ایک خالق کی عظیم صناعی کا منہ بولتاثبوت نہیں ، ہمارے دل کی گہرائیوں سے یہ آواز اٹھتی ہے کہ یہ یقینا ایک عظیم واعلیٰ خالق کی کاری گری ہے۔ فتبارک اللہ احسن الخالقین۔
سوال: کیا ممکن نہیں ہے کہ کائنات کا یہ سارا نظام محض اتفاقاًوجود پذیر ہو گیا ہو؟
جواب: ریاضی کا قانونِ اتفاق(Mathematical Law of chance)اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ اس کائنات، زمین اور زمین پر موجود زندگی کی گونا گونی کا محض اتفاقاً وجود میں آنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ قانونِ اتفاق کو کریسی ماریسن نے اس طریقے سے سمجھایا ہے کہ اگر دس سکے لیے جائیں اور ان پر ایک سے دس تک نشان لگادیے جائیں ، پھر ان کو آپس میں ملا کر جیب میں ڈال دیا جائے اور اب ان کو اسی طرح ترتیب کے ساتھ نکالنے کی کوشش کی جائے تو ایک سکے کو نکالنے کے بعد ہر دفعہ اس کو دوبارہ جیب میں ڈالا جائے۔ اب اگر امکانات کا جائزہ لیا جائے تو اس بات کا امکان کہ نمبر ایک کا سکہ پہلی بار نکل آئے ، دس میں ایک ہے۔ یہ امکان کہ ایک اور دوترتیب کے ساتھ نکل آئیں ، سو میں ایک ہے۔ یہ امکان کہ ایک دو اور تین نمبرترتیب کے ساتھ نکل آئیں ، ہزار میں ایک ہے۔ حتیٰ یہ امکان کہ ایک سے دس تک تمام سکے ترتیب کے ساتھ نکل آئیں ، دس ارب باریوں میں صرف ایک بار ہے۔
اب آئیے دیکھئے کہ زندگی کے سب سے بنیادی زندہ خلیوں کو اتفاقاً وجود میں آنے کے لیے کیا کچھ چاہیے۔ ان خلیوں کی تعمیر کا سب سے اہم جز پروٹین ہے ، جو کہ پانچ کیمیائی عناصر سے مل کر بنتا ہے۔ کائنات میں یہ تمام عناصر بالکل بے ترتیب شکل میں پڑ ے ہیں۔ یہ امکان کہ صرف ایک پروٹین کے بنیادی عناصر محض اپنے مخصوص تناسب میں اکٹھے ہی ہوجائیں (ابھی اس میں زندگی پیدا ہونا تو بعد کی بات ہے ) اس کے لیے مادے کی اتنی بڑ ی مقدار کی ضرورت ہے ، جس میں روشنی ایک کھرب XکھربXکھربXکھربXکھربXکھربXکھربXکھرب سال سفر کرسکے (یعنی ایک کھرب کو آٹھ مرتبہ کھرب سے ضرب دیجئے ) یہ مقدار ہماری موجودہ کائنات سے ناقابل تصور حد تک زیادہ ہے۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اس تمام مادے کو پانچ ہزار کھرب فی سیکنڈ کی رفتار سے تے ئس ہزار کھرب سال تک (یعنی ایک کھرب کو تے ئس مرتبہ کھرب سے ضرب دی جائے ) آپس میں ملا کر ہلایا جائے تب محض ایک پروٹین کے اجزا صحیح تناسب میں اکٹھے ہو سکیں گے ، جب کہ اس کے مقابلے ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کائنات کی عمرصرف پچاس کھرب سال ہے۔ کائنات کا تمام مادہ آپس میں ایک دوسرے سے اتنا دور ہے کہ اس کے آپس میں ملا کر ہلنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر یہ زمین تو محض دو ارب سال سے موجود ہے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ زمین تو کیا ، پوری کائنات کی عمر اور اس کا مادہ بھی محض ایک پروٹین کو اتفاق کے ذریعے سے وجود میں لانے کا سبب نہیں بن سکتا اور پھر یہ تو صرف ایک پروٹین کے سلسلے میں بات ہوئی، ایک زندہ خلیے کے لیے تو اس سے کئی گنا زیادہ دوسرے مواد کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ اور ایک زندہ جسم میں اس کے کھرب ہا کھرب خلیے ہوتے ہیں۔ لیکن سب سے بڑ ا سوال یہ ہے کہ ایک خلیے میں زندگی کیسے آئی؟ یہاں قانونِ اتفاق بھی ہماری کوئی رہنمائی نہیں کرسکتا۔ سائنس اور انسانی عقل اس کی کوئی توجیہہ پیش نہیں کرسکتیں۔ پس قانونِ اتفاق ہمیں بتاتا ہے کہ محض اتفاق کے بل بوتے پر زندگی کا وجود میں آنا ناممکن ہے۔
سوال: خدا کو ہم کیسے مانیں ، جب کہ نہ ہم اس کا مشاہدہ کرسکتے ہیں اور نہ وہ ہمارے تجربے کی گرفت میں آتا ہے ؟ بالفاظ دیگر خدا کا وجود ’’ایمان بالغیب‘‘چاہتا ہے ، جب کہ سائنس ’’ایمان باشہود‘‘ کی قائل ہے۔ لہٰذا ایک عام درجے کے ذہن کو کیسے خدا کے وجود کا یقین دلایا جا سکتا ہے ؟
جواب: یہ غلط ہے کہ سائنس صرف تجربے اور مشاہدے کی گرفت میں آنے والی چیزوں ہی کو مانتی ہے۔ ایسا نہیں ہے بلکہ سائنس اس کے ساتھ ساتھ عقل استعمال کر کے ان حقائق کو بھی جاننے کا دعویٰ کرتی ہے جن کا تجربہ یا مشاہدہ نہیں ہو سکتا۔ مثلاً ایٹم کو آج تک نہیں دیکھا گیا۔ قانون تجاذب (Law of Gravitiation) بذات خود، بالکل ناقابل مشاہدہ ہے۔ اسی طرح تخلیق کے عمل کی ارتقائی کڑ یاں کسی نے بھی نہیں دیکھیں۔ اسی طرح ہم انرجی (قوت) کو نہیں دیکھ سکتے ، مگر اس کارستانیوں سے واقف ہیں ، جن کی وجہ سے ہم نے یہ جان لیا ہے کہ انرجی نام کی کسی چیز کا وجود ضروری ہے۔
بعینہ ہم خدا کا مشاہدہ یا تجربہ نہیں کرسکتے ، لیکن یہ کائنات، انسان، اس کائنات کے اندر عظیم الشان تنظیم اور اس انسان کی صلاحتیں ہمیں اس بات پر مجبور کرتی ہیں کہ ہم کسی کو اس کا خالق تسلیم کریں۔ جس کی قوت لامحدود ہو۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ حقیقت سب سے پہلے دریافت ہوئی ہے ، لیکن آج بھی یہ سب سے نئی اور سب سے اٹل ہے۔ سائنس کے تمام قوانین کو زوال ہے ، مگر یہ حقیقت ہر آن نئی شان کے ساتھ ہم سے اپنا آپ منواتی ہے۔
سوال: اگر یہ بات مان لی جائے کہ کائنات کو خدا نے پیدا کیا ہے ، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا کہاں سے آیا ہے اور اس کو کس نے پیدا کیا ہے ؟
جواب: یہ سوال صرف مخلوق کے متعلق پیدا ہو سکتا ہے کہ اس کا کوئی خالق ہونا چاہیے ، کیونکہ اس کی صفتِ تخلیق اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس کا خالق ہونا چاہیے۔ لیکن خالق کے متعلق یہ سوال پیدا نہیں ہوتا، اس لیے کہ وہ خالق ہے ، مخلوق نہیں۔ بالفاظ دیگر مخلوق ہونا ہماری صفت ہے خالق کی نہیں۔
سوال: کیا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کائنات خود اپنی خالق ہے ؟ کیونکہ اگرہم یہ مانیں کہ خدا ازلی ہے ، تو اس کے بجائے ہم یہ کیوں نہ مانیں کہ کائنات ازلی ہے ؟
جواب: سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ کائنات ازلی نہیں ، بلکہ اس کی ایک متعین ابتدا ہے۔ سائنس کا ایک قانون، قانون ناکارگی (Law of Entropy) ہمیں بتاتا ہے کہ قوت وحرارت ہمیشہ خرچ ہوتی رہتی ہے اور جب یہ خرچ ہوتی ہے تو ایک قوت والا وجود، مسلسل ایک بے حرارت وجود میں بدلتا رہتا ہے۔ گویا اجرام سماوی سے مسلسل حرارت خارج ہورہی ہے اور ایک وقت آئے گا جب یہ سب کچھ بے قوت اور تاریک ہوکر رہ جائے گا اور اس کے ساتھ زندگی بھی ختم ہوجائے گی۔
اس قانون سے خودبخودیہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کائنات ایک متعین وقت سے ، متعین قوت کے ساتھ وجود میں آئی اور اب مسلسل اپنے انجام کی طرف بڑ ھ رہی ہے۔ گویا کائنات کو ازلی تصور کرنا ممکن نہیں یہی وجہ ہے کہ آج اس بات پر اتفاق ہے کہ کائنات ازلی نہیں۔ بالفاظ دیگر یہ خود اپنی خالق نہیں ہے ، بلکہ کسی برتر قوت کی کی تخلیق ہے۔
سوال: اگر خدا موجود بھی ہوتو اس بات سے ہمارا کیا تعلق ہے ؟ خدا کے وجود کے اثبات سے انسان کی عملی زندگی پر کیا اثر پڑ تا ہے ؟ بالفاظ دیگر ہمارے لیے مذہب کی آخر کیا ضرورت ہے ؟
جواب: ہر انسان جانتا ہے کہ اس کے سامنے زندگی گزارنے کے دو واضح راستے موجود ہیں۔ ایک خیر کا راستہ اور دوسرا شر کا راستہ۔ یعنی ایک سچائی کا راستہ اور دوسرا جھوٹ کا راستہ۔ ہر انسان یہ بات بھی جانتا ہے کہ اس کے اندر ایسی آواز ہے جو اسے بتاتی ہے کہ سچائی کا راستہ ہی صحیح راستہ ہے اور جھوٹ، دغابازی، دھوکہ دہی، خودغرضی اور نفسانی خواہشات کو بے دریغ پورا کرنے کا راستہ صحیح نہیں ہے۔ اس آوازکو ہم سب ’’ضمیر‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف انسان کے اندر طاقت اور نفسانی خواہشات بھی موجود ہیں جن کے پورا کرنے میں وقتی طور پر بڑ ی لذت محسوس ہوتی ہے یہ نفسانی خواہشات اسے بتاتی ہیں کہ اپنے آپ کو کنٹرول کیے بغیر، کسی بھی دوسرے کی پروا کیے بغیر، وقتی لذت حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کر گزرنا چاہیے۔ انسان کی زندگی انہی دونوں اندرونی طاقتوں کے درمیان کشمکش میں گز رتی ہے۔
اب اگر انسان اس بات کو مان لے کہ خدا موجود ہے اور اس نے اس کو خیر اور شر کا شعور دے کر، اس دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجا ہے کہ وہ ساری زندگی اپنے ضمیر کے کہنے پر چلے گا۔ اس کے بالکل برعکس، اگر وہ یہ تسلیم کر لے کہ کوئی بالاتر طاقت اس کے اوپر حکمران نہیں ہے تو پھر وہ کچھ بھی نہیں ہے ، سوائے مادے کے ایک ڈھیر کے۔ پھر ہر رشتہ، ہر اجتماعیت، ہر محبت، ہر قانون اور یہ ضمیر بے معنی ہے۔ پھرصرف وقتی لذت ہی اس کے لیے کچھ معنی رکھ سکتی ہے ، اس کو حاصل کرنے کے لیے اس کے نزدیک ہر راستہ جائز ہے۔ اس لیے کہ کسی برتر وقت کے مانے بغیر جائز وناجائز کے درمیان کوئی تمیز ممکن نہیں ہے۔ گویا خدا کو تسلیم کرنے یا کرنے پر ہر انسان کے پورے عملی رویے کا انحصار ہے۔ خالق کو تسلیم کیا جائے تو ایک ذمہ دارانہ زندگی ہی کامیابی ہے اور اگر خالق کو نہ مانا جائے تو بے پروائی کی زندگی سب سے اچھی زندگی ہے ، بلکہ پھر زندگی کا کوئی مخصوص تصور محض ایک بے معنی چیز ہے۔
سوال: اب فلسفی کہتے ہیں کہ خدا کا تصور انسان کے خوف کی پیداوار ہے۔ جب انسان نے اپنے آپ کو اس دنیا میں پایا تو اس کوزلزلے ، سیلاب، وباء اور موسم کی چیرہ دستیوں سے سابقہ پیش آیا، جن سے وہ خوف زدہ ہو گیا اور خوف کے اس جذبے نے انسان کو اَن دیکھی طاقتوں کی پرستش پر مجبور کیا جنہیں اس نے ان حوادث کا پیدا کرنے والا خیال کیا۔ اُس دن خدا کا تصور کا آغاز شرک سے ہوا۔ اس کے بعد جوں جوں عقل اور سائنس نے طوفانوں ، زلزلوں اور دوسری مصیبتوں کی وجہ دریافت کر لی تو ان خداوؤں سے بھی انسان کو چھٹکارا ملتا گیا حتیٰ کہ آخر میں صرف ایک خدا رہ گیا۔ کیا یہ تجزیہ صحیح ہے ؟
جواب: یہ تجزیہ صحیح نہیں ہے۔ انسان کے اندر سب سے پہلا جذبہ کسی نعمت کے احساس کا پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس نعمت کے چھن جانے کا خطرہ، خوف کے جذبے کو پیدا کرتا ہے۔ یعنی نعمت کا شعور پہلے ہوتا ہے اور خوف کا جذبہ اس کے اندر جنم لیتا ہے۔ مثلاً انسان کو زندگی سے محبت ہے ، تو پہلے اس محبت کا شعور پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہی زندگی چھن جانے کا خوف اس کے دل میں پیدا ہو سکتا ہے۔
عام زندگی میں بھی قدرت کی نعمتیں ، اس کی تکلیفوں سے کہیں زیادہ انسان کے سامنے آتی ہیں مثلاً سورج اور چاند کی چمک، بارش کی فرحت، درخت کا سایہ اور پھل، پرندوں کے چہچہے ، تاروں کی اٹھکیلیاں اور انسانوں کی ایک دوسرے سے محبت تو ہر روز اور ہر وقت کا معمول ہے۔ لیکن زلزلے اور طوفان تو روزانہ نہیں آتے۔ آسمان کی بجلی ہمارے نشیمن کو روازنہ خاکستر نہیں کرتی اور موسم ہمیشہ سخت نہیں ہوتا۔
اس لیے دراصل ہوا یہ ہے کہ نعمتوں کے اس شعور ہی نے انسان کو ایک اور صرف ایک، منعم حقیقی یعنی اللہ کے آگے جھکنے پر مجبور کیا ہے ، ایک فطری راہ یہی ہے۔ البتہ جب انسان پر تکلیفیں آئیں تو کچھ لوگوں نے اپنی فطرت میں کجی پیدا کر کے شرک کی راہ اختیار کر لی اور ان مظاہر قدرت کی پوجا پاٹ شروع کر دی۔
یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ ہمیشہ سے بنیادی عقیدہ شرک رہا ہے۔ اس کے برعکس جدید تحقیقات کے مطابق یہ ایک حقیقت ہے کہ معلوم تاریخ کے ہر دور میں ایک خدا، سب سے بڑ ے خدا کا تصور ہمیشہ موجود رہا ہے۔ جہاں تک چھوٹے خداوؤں کی بات ہے تو ہردیومالائی کہانی میں وہ آپس میں لڑ تے ہی نظر آتے ہیں۔ حالانکہ اگر خدا ہی آپس میں لڑ نے لگیں تو ساری کائنات تباہ وبرباد ہوکر رہ جائے۔ گویا شرک کی عقل سے ہمیشہ دشمنی رہی ہے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سقراط سے پہلے کے یونان نے بھی، جیسے عام طور پر تاریکی دورکہا جاتا ہے ، ہیرا کلائیٹس (Hera Clitus) اور زینوفیس (Xeno phanes) جیسے فلسفی موجود تھے ، جنہوں نے بھوتوں اور دیوتاؤں پر سخت تنقیدیں کئیں۔ اس وقت بھی سوفسٹ (Sophists) لوگوں کا ایک پورا گروہ موجود تھا، جنہوں نے توحید کی دعوت کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔
یہی وجہ ہے کہ سقراط، افلاطون اور ارسطو سے لے کر آج تک، فلسفیوں کی بہت عظیم اکثریت توحید ہی کی قائل رہی ہے۔ جن فلسفیوں نے توحیدکا انکار کیا ہے ، وہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔
سوال: ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ کوئی بھی انسان کبھی خدا کی ضرورت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ہر انسان کے دل میں ہر وقت یہ سوال پیدا ہوتا رہتا ہے کہ میں ، یہ دنیا اور یہ کائنات کسی خالق کی تخلیق ہے یا نہیں۔ اکثر اوقات اس کا دل گواہی دیتا ہے کہ ہاں اس کا خالق یقینا ہے ، لیکن کبھی کبھی شک کا سایہ بھی ابھر آتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ انسان کے اندر کی سوچیں اتنی پیچیدہ ہیں کہ ان کو عظیم سہارے یعنی خدا کی ہر وقت ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً انسان چاہتا ہے کہ کوئی تو ہو جس سے وہ تنہائیوں میں زبان ہلائے بغیر باتیں کرسکے۔ جو اس کی نیازمندیوں اور دعاؤں کا مرکز بنے۔ جس سے وہ بحث کرسکے جس کو وہ پکار سکے اور التجائیں کرسکے۔ جس کے آگے وہ فریاد کرسکے۔ ہر مصیبت اور دکھ کے وقت اس ذات کی رحم بھری نگاہیں اس انسان کے لیے بہت بڑ ا سہارا ہوں۔ اور پھر وہ ہستی بھی ایسی ہونی چاہیے جو رات اور دن کے ہر لمحے اور ہر حال میں ، پچپن سے بڑ ھاپے اور سانس کی آخری لمحے تک اس کے ساتھ موجود ہو۔ جو ہر مصیبت میں کام آ سکے۔ جس کی طاقتیں اتنی غیر معمولی ہوں کہ وہ ہر بگڑ ی بنا سکے۔ جو انسان کے دل کے اندر بیٹھ سکے اور ان خیالات واحساسات کو بھی سن سکے جن کو زبان پر لانے کے لیے اس کے پاس الفاظ ہی نہ ہوں۔ اس ذات کے اندر کوئی خامی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ وہ ہماری دعائیں اور التجائیں ہر وقت سنے اور نہ اسے تھکاوٹ لاحق ہو اور نہ وہ اکتائے اور اس ذات کی قدرت اتنی غیر معمولی ہونی چاہیے۔ وہ اس کائنات کے اندر ہر نا انصافی اور ظلم کی سزا دے سکے۔ ظاہر ہے ایسی ہستی ایک خدا کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے ؟
پس جب ہمیں انسان ہونے کی حیثیت سے ایک خدا کی ضرورت ہے تو خواہ کوئی خدا موجود ہو یا نہ ہو، ہمیں ایک خدا فرض کر کے اس سے لولگانی چاہیے۔ کیا یہ نقطہ نظر صحیح ہے ؟
جواب: اس نقطہ نظر کا ابتدائی حصہ بالکل صحیح ہے ، بلکہ یہ خدا کی معرفت کے دلائل میں سے ایک بڑ ی دلیل ہے کہ اس ذات کو ماننے بغیر ہماری زندگی میں سکون واطمینان کی دولت آہی نہیں سکتی۔
تاہم اس نقطہ نظر کا دوسرا حصہ، یعنی یہ کہ اگر ایسا خدا موجودنہ ہو، تب بھی اس کو فرض کر لیا جائے صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ بات شک سے خالی نہیں اور جہاں شک آجائے ، وہاں انسان کو سکون کی دولت پوری طرح نہیں مل سکتی۔ اس لیے صحیح نقطہ نظریہ یہ ہے کہ خدا کی ضرورت یہ کائنات، ہمارا اندرونی وجود یہ تمام حقیقتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ خدا موجود ہے۔ لہٰذا اس ذات پر مکمل بھروسہ کر کے پورے اعتمادو یقین کے ساتھ زندگی گزاری جائے۔
سوال: ایک نقطہ نظریہ یہ ہے کہ خدا کوئی ذات نہیں بلکہ ایک قوت محرکہ (Motive force) یاعلت العلل (Cause of causes) ہے ، یا پھر خدا قوانینِ فطرت کا دوسرا نام ہے۔ کیا یہ نقطہ نظر صحیح ہے ؟
جواب: اگر قوانین فطرت کو خدا مان لیا جائے تو ایسا خدا ہمارے کسی کام کا نہیں۔ ہمیں کسی مشینی خدا کی نہیں ، بلکہ ایک ایسے خدا کی ضرورت ہے جو ہمارے ہر دکھ کا مداوا بن سکے۔ ہماری التجائیں اور فریاد سن سکے جو ہر وقت ہمارا سہارا ہو۔ ظاہر ہے یہ کام کوئی اندھا قانون اور ضابطہ نہیں کرسکتا۔
کائنات کے اندر ہمیں چار چیزیں بڑ ی واضح نظر آتی ہیں۔ پہلی چیز حکمت ہے ، یعنی یہ کہ یہ آسمان اور زمین ہمیں بے مصرف نہیں لگتے۔ ہم دل کی گہرائیوں سے یہ اقرار کرتے ہیں کہ اس پورے کارخانے کا کوئی مقصد ضرورہے۔ دوسری چیز قدرت ہے ، یعنی یہ کائنات، زمین اور انسان کسی برتر ذات کی حکمرانی کے تخت ہیں اور وہ ذات اپنی قدرت کے مظاہر ہر وقت ہمیں دکھاتی بھی ہے۔ تیسری چیز ربوبیت ہے ، یعنی اس ذات نے کائنات کے تمام چھوٹے بڑ ے عناصر کو انسان کی پرورش کے لیے سرگرم کر رکھا ہے ، خواہ وہ سورج ہو، چاند ہو، ہوا ہو، یا زمین کی سطح، یا اس کی تہہ ہو۔ صرف یہی نہیں ، بلکہ ہماری عقل کی بھی پرورش ہورہی ہے۔ ہماری جسمانی قوتوں کی نشو ونما بھی ہورہی ہے اور ہر آن ہماری روحانی تسکین، ذہنی آسودگی اور ہمارے لطیف احساسات کی خدمت بھی ہورہی ہے۔ چوتھی چیز رحمت ہے۔ زندگی اس رحمت کا سب سے بڑ ا مظہر ہے۔ اس کا ہرزندہ وجود اپنے آپ کو زندہ رکھنے کا بھرپور جتن کرتا ہے۔ دماغی بیماریوں کے استثناء کو چھوڑ کر، دکھوں کا مارا کوئی انسان بھی اپنی زندگی ختم نہیں کرنا چاہتا۔ ایک مچھر بھی اپنی زندگی کو قائم رکھنے کی تگ ودو کرتا ہے۔ کائنات میں جاری وساری حکمت، قدرت، ربوبیت اور رحمت کے ان مظاہر کی توجیہ کسی اندھے ، بہرے قانون فطرت سے نہیں ہوتی۔ ان مظاہر کی وضاحت کے لیے ہمیں یہ ماننا پڑ ے گاکہ ایک رحیم وکریم اور حکیم ومد برذات یقینا موجود ہے ، جو اس تمام کارخانے کوسنبھالے ہوئے ہے۔
سوال: کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا انسانی شعور کی شکل میں ظاہر ہورہا ہے اور خود اس کا شعور بھی ترقی کر رہا ہے۔ گویا خدا اس تخلیقی دانش کا نام ہے ، جس کا اظہار اس دنیا میں ہورہا ہے۔
جواب: اگر خدا کی عقل ترقی کر رہی ہوتی، تو پھر ہمیں اس کائنات میں بڑ ی اکھاڑ پچھاڑ نظر آنی چاہیے تھی۔ نئے نئے قوانین فطرت مسلسل بنتے اور بگڑ تے نظر آنے تھے۔ جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے ، بلکہ پوری کائنات میں کمال درجے کا نظم وضبط نظر آ رہا ہے۔ خود انسان کی عقل میں بھی کوئی ترقی نہیں ہورہی ہے ، لیکن ہر ایجاد، ایک نئی ایجاد کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ ہماری کوئی ایجاد خدا کی تخلیق کے مقابلے میں بھلا کیا حیثیت رکھتی ہے۔ مثلاً انسان نے کیمرہ ایجاد کر لیا، جب کہ ہر زندہ سر کی آنکھوں میں ایسے کروڑ وں متحرک خودکار خلیے ، ہمہ وقت کہیں زیادہ صحت کے ساتھ کام کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا خدکو تخلیقی دانش نہیں کہا جا سکتا جو مسلسل ارتقا کے مراحل طے کر رہی ہو، بلکہ وہ ازل سے موجود، مکمل اور برتر قوت ہے۔
سوال: ایک بہت طاقتور اور مقبول نقطہ نظریہ یہ بھی ہے کہ اس دنیا ومافیہا میں جو کچھ بھی ہے ، سب کچھ وہم خیال ہے۔ اصل چیز صرف ذاتِ خداوندی ہے۔ یہ سب کچھ زیادہ سے زیادہ اس کا ایک خیال ہے ، یا اس کا سایہ۔ اس نقطہ نظر کی حقیقت کیا ہے ؟
جواب: کسی وہم وخیال کے لیے قوانین کا بننا غیر ضروری ہے ، جب کہ ایک ایٹم سے لے کر عظیم الشان ستاروں تک ہر چیز قوانین اور اصولوں میں جکڑ ی ہوئی ہے۔ کسی خیال کو خود یہ شعور نہیں ہو سکتا کہ وہ ایک خیال ہے ، جب کہ ہم اس بات کو جانتے ہیں کہ ہم موجود ہیں۔ اس لیے تو ہم سوچتے ہیں۔ کسی وہم وخیال کو نیکی وبدی کی تمیز اور اختیار وارادے کی آزادی نہیں دے سکتی جب کہ ہمیں یہ آزادی گئی ہے۔ کسی خیال کو عمل کی آزادی حاصل نہیں ہو سکتی، جب کہ انسان کو عمل آزادی دی گئی ہے۔ کسی وہم کو صحیح راستے پر گامزن رکھنے اور اس کے رہنمائی کے لیے کسی آسمانی کتاب یا کسی پیغمبر کی ضرورت نہیں ہے ، جب کہ ہمیں صحیح راستہ دکھانے کے لیے الہامی کتابیں اور پیغمبر بھیجے گئے۔ پس ہم خالق کا خیال یا اس کا حصہ نہیں ، بلکہ اس کی مخلوق ہیں اور ہمیں مخلوق ہونے کی حیثیت ہی سے اپنا شعور ہونا چاہیے۔
سوال: خدا موجود ہے ، یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے ، لیکن خدا کی ذات کیسی ہے۔ وہ کسی چیزسے بنی ہے۔ وہ کہاں رہتی ہے۔ اس کی ضروریات کیسی ہیں اور وہ کیسے پوری ہوتی ہیں۔ ان سوالوں کا جواب ہم کیسے حاصل کرسکتے ہیں ؟
جواب: انسانی اپنی عقل کی حدود سے خوب واقف ہے۔ بہت ساری چیزیں اس کے سامنے ہیں مگر اس کی محدود عقل ان کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ مثلاً کائنات ایک حقیقت ہے ، لیکن اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ کائنات کی حدکہاں تک ہے اور خلا کہاں جا کر ختم ہوتا ہے ، تو ہم کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ اس لیے اس کے فوراً بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس خلا کی حد کے بعد پھر کیا ہے ؟ ظاہر ہے پھر بھی خلا ہی ہے۔ لیکن آخرکہاں تک ہے ؟ انسانی عقل سوال درسوال کے اس طویل سلسلے کے جواب دینے سے عاجز ہے۔
ذات خداوندی کے معاملے میں بھی ہماری عقل کی نارسائی کا یہی حال ہے۔ دنیا میں انسان کی آزمائش کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ذات خداوندی انسان سے مخفی ہو۔ اس لیے کہ اگر ہم سب اس کو جان جائیں تو پھر ہم سب اسی کے راستے پر چلنے لگیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ذات باری کو مشاہدے سے بالا تر رکھا گیا ہے۔
تاہم ہر انسان اس بات کو جانتا ہے کہ اس خالق کا شعور انسان کی فطرت میں ہے اور اتنا گہرا ہے کہ گویا اس کے رگ وپے میں پیوست ہے۔ انسان لاکھ چاہیے تو زندگی کے کسی بھی لمحے میں اس سوال سے پیچھا نہیں چھڑ ا سکتا کہ خدا ہے یا نہیں۔ پس ہمیں اپنی عقل کی نارسائی کا شعورکرتے ہوئے ذات خداوندی کی کھوج میں نہیں پڑ نا چاہیے۔
سوال: اگر ہم ذات خداوندی کی حقیقت نہیں پا سکتے ، تو کیا اللہ کو صرف اس کی صفات ہی کے ذریعے سے پہچانا جائے۔ اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید خدا کا کیا تعارف ہمارے سامنے پیش کرتی ہے ؟
جواب: یہ بالکل صحیح بات ہے کہ ہم اللہ کو اس کی صفات ہی کے حوالے سے جان سکتے ہیں۔ اللہ کی سب سے بڑ ی صفت یہ ہے کہ وہ ’’الٰہ‘‘ ہے ، بلکہ صرف وہی ’’الٰہ‘‘ ہے۔ یہ اللہ کی وہ صفت ہے جو کسی درجے میں کسی اور ہستی میں نہیں پائی جاتی۔ الٰہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بغیر کسی سبب اور سہارے کے کوئی بھی کام کرسکتا ہے۔ اس کو کوئی کام سرانجام دینے کے لیے کسی درمیانی واسطے ، کسی سہارے اور کسی سبب کی ضرورت نہیں پڑ تی۔ اللہ کو چھوڑ کر اس کائنات کی ہر چیز کی کسی نہ کسی ضابطے اور قانون کے مطابق ہی اپنا کام سرانجام دے رہی ہے۔ اس لیے صرف وہی ذات اس لائق ہے کہ اس کے سامنے سرجھکایا جائے۔ اس کی عبادت کی جائے۔ اپنے آپ کو ’کلیتا‘ اس کے حوالے کیا جائے اور صرف اسی کی بندگی کی جائے۔
وہی اللہ اس کائنات کا خالق ومالک ہے۔ وہ سراسر سلامتی ہے۔ اس کی ذات ہر عیب اور خامی سے پاک ہے۔ وہی غالب ہے۔ وہ ظالموں کو سزا دینے والا اور مظلوموں کے لیے عادل ہے۔ وہ ہر چیز کا علم اور اس کی خبر رکھتا ہے۔ وہ رحیم ہے۔ وہی نقشہ بنانے والا، وجود میں لانے والا اور صورت گری کرنے والا ہے۔ اس کونہ اونگھ نہ نیندآتی ہے۔ وہ سب سے الگ ہے ، لیکن سب کا سہارا ہے۔ وہ کسی کا باپ ہے اور نہ بیٹا اور نہ اس کا کوئی ہم سر ہے۔ تمام اعلیٰ اور اچھی صفات مثلاً، رحم، قدرت، مہربانی، شفقت، خیر، سمع، علم سب اپنی انتہائی صورت میں ، صرف اسی کے لیے خاص ہیں۔ اس کی کوئی صفت کسی دوسرے صفت کو کم نہیں کرتی۔ البتہ اس کی رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے اور سب کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔
وہی اللہ ہے جو ہمارے دلوں کے رازوں تک سے واقف ہے ، جس کے علم بغیر کوئی پتہ تک نہیں ہلتا۔ وہی ہے جو ہمارے دکھوں سے واقف ہے ، جو ہمارا ملجاوماوی ہے ، جس سے ہم تنہائیوں میں ہم کلام ہوتے ہیں ، جس کے سامنے ہم اپنی فریادیں رکھتے ہیں ، جس سے ہم دعا مانگتے ہیں۔ جب ہماراکوئی ساتھی نہیں ہوتا، تب بھی وہ ہمارا ساتھی ہوتا ہے۔ ایک وہی ذات ہے جس پر کامل یقین سے انسان کو مکمل سکون ملتا ہے ، جس پر اعتماد انسان کو خودداری اور عزت نفس کی دولت دیتا ہے۔ اس ذات کا سہارا انسان کے نفس کو پاکیزہ بناتا ہے۔ اس اللہ پر توکل انسان کو وہ عزم اور حوصلہ دیتا ہے ، جس کے مقابل پھر کچھ نہیں ٹھہرسکتا۔ ہماری تمام اطاعتیں اسی کے لیے خاص ہونی چاہئیں۔