اٹھارہواں باب
مذاہب عالم
سوال: یہودیت کے بنیادی عقائد کیا ہیں ؟
جواب: یہودیت کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل نامی نسل خدا کی پسندیدہ قوم ہے۔ اس قوم کو وحی دی گئی۔ یہ دوسری قوموں کی رہنما ہے۔ اس میں بعض گروہوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ یہودی دوسرے لوگوں سے جو چاہے ، سلوک کرسکتے ہیں اور اِس ضمن میں اُن سے باز پُرس نہیں ہو گی۔
اس کا دوسرا عقیدہ یہ ہے کہ یہودیوں کو باقی قوموں میں تبلیغ ودعوت کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر غیر یہودی اقوام درج ذیل سات کام کریں ، تو یہ ان کی نجات کے لیے کافی ہے۔ وہ بت پرستی، زنا، خون بہانے ، اللہ کے نام کی بے حرمتی، بے انصافی اور لاقانونیت، ڈاکہ اور غیر انسانی رویے سے اجتناب کریں۔
یہودیوں کا تیسرا بنیادی عقیدہ آخرت کے بارے میں ہے۔ تورات میں آخرت کے متعلق کوئی ذکر نہیں ہے ، تاہم ان کے دوسرے لٹریچر سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے ، اس کی بنیاد پر یہودیوں کے دو گروہ بن گئے ہیں۔ قدامت پرست گروہ کے مطابق ایک مسیح آئے گا، جو اس زمین پر، انصاف اور امن قائم کر کے ، خدا کی بادشاہت قائم کرے گا۔ مسیح کے آنے کے بعد اسی زمین پر قیامت آئے گی۔ اس کے برعکس، لبرل گروہ کے مطابق کوئی مسیح نہیں آئے گا، بلکہ انسانیت اس درجے تک ترقی کرے گی کہ اسے مسیحی زمانہ کہا جا سکے گا۔ یہ گروہ قیامت پر بھی یقین نہیں رکھتا۔
سوال: یہودیت کے بنیادی عقائد پر عقل وفطرت کی رو سے کیا اعتراضات ہوتے ہیں ؟
جواب: صحیح دین کو چھوڑ کر یہودیوں نے جو دین اپنا رکھا ہے ، ا س پر عقل وفطرت کی رو سے درج ذیل اعتراضات وارد ہوتے ہیں :
1 یہ ناممکن ہے کہ کائنات کا رب اس زمین پر صرف ایک ہی نسل کو اس طرح اپنی چہیتی قوم قرار دے دے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ان کے حوالے سے حق وانصاف کی تمیز ہی اٹھ جائے اور وہ جو کچھ کرے ، اس پر ان سے کوئی بازپرس ہی نہ ہو۔ اس کے برعکس ہمیں پوری کائنات میں حق وانصاف اور قانون کی حکمرانی نظر آتی ہے ، لہٰذا اس دنیا میں بھی حق اور قانون ہی کی حکمرانی ہونی چاہیے ، نہ کہ ’’نسلی خدائی‘‘ کی۔
2 اگر کسی قوم کو پروردگار کوئی فضیلت عطا بھی کرے ، تو پھراس کا کام ساری دنیا میں حق کی اشاعت ہونا چاہیے ، نہ کہ ان کو کہا جائے کہ صرف اپنی نسل محفوظ رکھو۔ کسی بھی دوسرے فرد کو دعوت مت دو اور تمہیں دنیا کے اندر حق کو پھیلانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کے بالکل متضاد ہیں۔
جن سات چیزوں کے متعلق یہودیت کا کہنا ہے کہ غیر یہودی اقوام کو یہ چیزیں ، بطوراصول، اختیار کرنی چاہئیں ، انہیں بھی غیر یہودیوں کو سکھانے کی کوئی جدوجہد یہودیوں کے ہاں نہیں پائی جاتی۔
یہودیت کا عقیدہ آخرت انتہائی ناقص ہے۔ قیامت کب اور کیسے آئے گی، انسان کی نجات کا دارومدار کن عقائد واعمال پر ہے ، آخر یہودی اپنے اعمال کی سزا کیوں نہیں پائیں گے ، کسی غیر یہودی نے کسی اسرائیلی کے گھر پیدا نہ ہوکر کون سا جرم کیا ہے کہ اسے حق کی دعوت سے محروم بھی رکھا جائے اور پھر اس سے باز پرس بھی جائے ، ان سوالات کا کوئی جواب یہودیت میں موجود نہیں ہے۔ غرض یہ کہ یہودیت محض ایک نسلی مذہب ہے جس کا عقل وفطرت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سوال: قرآن مجید یہودیت کے متعلق کیا بیان کرتا ہے ؟
جواب: قرآن مجید یہودیت کے عقائد اور یہودیوں کے جرائم پر بڑ ی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ بنی اسرائیل کو، ایک خاص وقت میں ، یہ فضیلت اور ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ اپنے اردگرد کی قوموں اور باقی دنیا میں اسلام کے پیغام کی اشاعت کریں۔ اپنے انبیاء کی قیادت میں ، ان کے گروہ نے یہ ذمہ داری ادا بھی کی، تاہم جب ان کے اندر سے خیر بالکل ہی ختم ہو گیا، تب اللہ نے ان سے یہ فضیلت واپس لے لی۔ یہودیوں نے اپنے نسلی تفوق کو ظاہر کرنے اور اپنے جرائم چھپانے کے لیے ، تورات میں تحریف کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا، حتیٰ کہ انہوں نے تورات سے نماز اور زکواۃ کا ذکر ہی نکال دیا۔ انہوں نے اللہ اور اس کے برگزیدہ پیغمبروں پر بدترین اخلاقی الزامات لگائے اور خود ہی ایک پورا قانون ترتیب دے دیا۔ آج جو توریت یہودیوں کے پاس ہے ، اس میں حق وباطل کو گڈمڈ کر دیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے تورات کے باطل حصوں کی تردید کی ہے اور انبیائے بنی اسرائیل کو تما م تہمتوں سے پاک قرار دیا ہے۔ تاہم تورات میں کئی حصے ایسے بھی ہیں جو قرآن مجید کے مطابق ہیں۔
یہودیوں کے موجودہ اہل علم کی ایک بڑ ی اکثریت یہ حقیقت مانتی ہے کہ تورات کے کئی حصے محض تاریخ ہیں ، جن کو بعد کے لوگوں نے لکھا ہے۔ ان میں سے کئی تاریخی واقعات غلطی، مبالغہ اور تحریف پر مبنی ہیں۔
قرآن مجید نے یہودیوں کے نسلی تفوق کی مکمل تردید کی ہے اور عقائد واعمال میں ان کے جرائم پر بھرپور تنقید کی ہے۔ اس کے بعد قرآن مجید کا اعلان یہ ہے کہ جب بھی اس قوم کی بھلائیاں اس کی برائیوں سے زیادہ ہوں گی تو پروردگار ان پر رحم فرمائے گا اور جب ان کے ہاں برائیاں غالب ہوں گی تو انہیں مصیبت میں مبتلا کیا جائے گا۔ (سورہ بنی اسرائیل7:17)
سوال: عیسائیت کے بنیادی عقائدکیا ہیں ؟
جواب: حضرت عیسیٰؑ خدا کے پیغمبر ہیں۔ انہوں نے اسلام ہی کی تعلیم دی تھی لیکن ان کی اصل تعلیمات بڑ ی حد تک گم ہو چکی ہیں۔ موجودہ عیسائیت کے بنیادی عقائد درج ذیل ہیں :
1 انسان پیدائشی گناہ گار ہے اس لیے کہ اولین انسان حضرت آدمؑ نے جنت میں غلطی کا ارتکاب کیا تھا۔
2 اس گناہ کو مٹانے کے لیے خدا نے اپنا بیٹا (عیسیٰؑ) زمین پر بھیجا تاکہ وہ دکھ اٹھا کر اور مصلوب ہوکر، انسانوں کے گنا ہوں کا کفارہ بنے۔ چنانچہ جو بھی حضرت عیسیٰؑ پر ایمان لاتا ہے ، اس کے سب گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔
خدا، یسوع مسیح، یعنی خدا کابیٹا اور روح القدس یعنی جبریلؑ، تینوں ایک ہیں۔ اسے عقیدہ تثلیث کہا جاتا ہے۔ یعنی ایک میں تین ہیں اور تین ایک میں ہیں۔
سوال: عیسائیت کے بنیادی عقائد پر کیا اعتراضات وارد ہوتے ہیں ؟
جواب: ان عقائد پر درج ذیل اعتراضات وارد ہوتے ہیں :
1 عقل وضمیر کا یہ فتویٰ ہے کہ انسان پیدائشی معصوم ہے ، نہ کہ گناہ گار۔ ایک انسان کی پیدائش میں ، اس کا اپنا کیا قصور ہے کہ وہ پیدائشی گناہ گار ٹھہرے۔ دنیا بھر کی عدالتوں ، حکومتوں اور معاشروں کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ ہر انسان اپنی غلطی کاخود ذمہ دار ہے ، اس لیے اگر آدمؑ سے کوئی غلطی ہوئی بھی تھی، تو اس کے ذمہ دار صرف وہی تھے ، نہ کہ پوری نسل انسانی۔
2 ساری انسانیت کے تمام گنا ہوں کی سزا ایک انسان کو کس طرح بھی نہیں دی جا سکتی۔ تمام انسانیت اور شعوروضمیر اس بات پر بھی متفق ہیں کہ ایک انسان کے گناہ کی سزا دوسرے انسان کو نہیں دی جا سکتی اس لیے دنیا کی کوئی عدالت کسی فرد کے جرم کی سزا دوسرے فرد کو نہیں دیتی۔ چنانچہ یہ بات انسانیت کے اصولوں کے خلاف ہے کہ دوسرے لوگوں کو گنا ہوں کی پاداش میں عیسیٰؑ کو مصلوب کیا جائے۔
3 ایک فرد کا مصلوب ہونا ویسے بھی ساری انسانیت کے جرائم کا کفارہ نہیں بن سکتا، بلکہ یہ تو بعض اوقات ایسے ایک فرد کے جرائم کا کفارہ بھی نہیں ہو سکتا، جس نے مثلاً بیسیوں یا سینکڑ وں ، ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہو۔ لہٰذا حضرت عیسیٰؑ کا مصلوب ہونا ساری دنیا کے گنا ہوں کا کفارہ کیسے بن سکتا ہے ؟ صلیب پر کسی ایک فرد کا چڑ ھنا، ساری انسانیت کے گنا ہوں کے مقابلے میں کوئی سزا ہی نہیں ہے۔
4 عیسائیت کا یہ عقیدہ انسان کو گنا ہوں کا کھلا لائسنس دے دیتا ہے ، اگر عیسیٰؑ پر ایمان لایا جائے تو سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ کوئی بھی عقیدہ، جو انسانوں کو گناہ کرنے کا کھلا لائسنس دے دے ، صحیح عقیدہ نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ اس سے انسانیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔
5 عقیدہ تثلیث ایک سمجھ میں نہ آنے والا عقیدہ ہے۔ یہ ایک ایسا معمہ ہے جسے عیسائی دنیا کے اہل علم بھی حل کرنے سے قاصر ہیں۔ مثلاً اگر یہ سب ایک ہیں تو پھر یہ باپ، بیٹا کیسے ہوئے ؟ کیا بیٹا بھی ازلی ہے یا بعد میں تخلیق ہوا؟ اگر وہ ازلی ہے تو پھر وہ خدا ہوا ، نہ کہ اس کا بیٹا۔ اور اگر وہ بعد میں تخلیق ہوا تو وہ مخلوق ہوا، نہ کہ اس کا حصہ۔غرض یہ کہ اس طرح کے سینکڑ وں سوالات ہیں جن کا شافی جواب عیسائی دنیا کے پاس نہیں ہے۔
سوال: تثلیث کا عقیدہ عیسائیت میں کیسے پروان چڑ ھا؟
جواب: عبرانی زبان میں ’’ابن‘‘ کے معنی ’’عبد‘‘یعنی بندے کے ہیں ، اس لیے انجیل میں حضرت عیسیٰ کے لیے ہی ’’ابن‘‘ کالفظ استعمال نہیں ہوا، بلکہ تمام انسانیت کے لیے ، باربار، ’’ابن‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اگر ’’ابن‘‘ کا ترجمہ بیٹا کر دیا جائے ، تو جن معنوں میں حضرت عیسیٰؑ خدا کے بیٹے تھے ، انہی معنوں میں سارے انسان بھی خدا کے بیٹے ہیں۔
چونکہ حضرت عیسیٰؑ انتہائی محبت بھری زبان میں تعلیم دیتے تھے ، اس لیے انہوں نے اپنے لیے بھی اور ساری انسانیت کے لیے بھی اعلیٰ ترین ادبی اسلوب میں ’’ابن‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ ‘‘
بدقسمتی سے عیسائی دنیا نے اس ایک لفظ کو لے کر اس پر عقائد کی ایک ایسی دنیا کھڑ ی کر دی جس کا کوئی تصور بھی حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات میں نہیں پایا جاتا۔ تثلیث کا پورا عقیدہ بعد کی پیدوار ہے۔
سوال: عیسائیت کے متعلق قرآ ن مجید کاکیا موقف ہے ؟
جواب: قرآن مجید نے عیسائیت کے غلط عقائد کی بھرپور تردید کی ہے۔ قرآن مجید کے متعلق حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش اور ان کی پوری زندگی ایک معجزہ تھی، تاکہ بنی اسرائیل پر اتمام حجت ہوجائے۔ وہ اللہ کے براہ راست حکم سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ حضرت مریمؑ کو اللہ نے پاک کیا اور سارے عالم کی عورتوں میں سے برگزیدہ فرمایا۔ حضرت عیسیٰؑ ہدایت یافتہ، برگزیدہ، صالح، نیکوکار، خدا کے مقرب اور الوالعزم رسولوں میں سے تھے۔ تاہم آپ انسان تھے ، خدا یا خدا کا بیٹا نہ تھے۔
یہودیوں نے حضرت عیسیٰؑ کے خلاف خفیہ تدبیر کی، تاہم وہ ان کو نہ تو قتل ہی کرسکے اور نہ مصلوب کرسکے ، بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا۔ جب تک وہ دنیا میں رہے ، انہوں نے تورات کی تصدیق کی اور اپنے پیروکاروں کو نماز وزکواۃ کی پابندی کا حکم دیا۔ قیامت کے دن وہ ان لوگوں سے بیزاری کا اظہار کریں گے ، جنہوں نے انہیں اور ان کی والدہ کو معبود بنالیا تھا۔
سوال: ہندو مذہب کے بنیاد عقائد کیا ہیں ؟
جواب: ہندو مذہب کے کوئی بنیادی عقائدنہیں ہیں۔ بعض محققین کا یہ بیان ہے کہ ہر وہ شخص ہندو ہے جو اپنے آپ کو ہندو کہتا ہے ، خواہ اس کے عقائد کچھ بھی ہوں۔ یہ دراصل ایک علاقائی مذہب ہے۔ یعنی ہر وہ چیز جسے ہندوستان میں مذہبی تقدیس حاصل ہے ، ہندو مذہب کا حصہ ہے۔ وید، برہمتا، دھرم شاستر، مہابھارت( جس میں بھگوت گیتا اور رامائن شامل ہیں ) ان کی مذہبی کتابیں ہیں ، جن میں آپس میں بہت بڑ ے اختلافات اور آپس میں بہت بڑ ے اختلافات اور تضادات ہیں۔ ان کتابوں میں اپنے اپنے زمانوں کے اوہام، تصورات اور تاریخ کو مذہب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ تاہم ہندو مت کے چند متفقہ عقائد وتصورات درج ذیل ہے :
1: اس میں مشرکانہ نقطہ نظر کا احترام پایا جاتا ہے اور بہت سے خداؤں یا ان کے دیوتاؤں کی عبادت کی جاتی ہے۔
2 اس میں ویدوں ، برہمتا اور دھرم شاستر وغیرہ کو الہامی کتابیں سمجھا جاتا ہے اور کرشن، رام، شنکرا چاریا جیسے رہنماؤں کو مذہبی تقدس واحترام حاصل ہے۔
3 اس میں برہمنوں کی برتری کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ پورے معاشرے کو ذاتوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور شودر ذات کو عام انسان کے برابر نہیں سمجھا جاتا۔
4 ہندو مت میں تناسخ کا عقیدہ تسلیم کیا جاتا ہے ، یعنی یہ کہ موت کے بعد ہر روح کو باربار زمین میں آ کر انسانوں ، پودوں اور جانوروں کی شکل میں زندگی بسر کرنی پڑ تی ہے۔ اس طرح زندگی کا چکر چلتا رہتا ہے۔ اسے آواگون چکر کہتے ہیں۔
سوال: عقل وفطرت کی روشنی میں ہندومت کے عقائد کی کیا حیثیت ہے ؟
جواب: ہندو مت کے عقائد پر درج ذیل اعتراضات وارد ہوتے ہیں :
1 یہ بات ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ پوری کائنات میں خدا کا کوئی شریک نہیں ہے ، اس لیے کہ اگر کائنات کی فرماں روائی میں ایک سے زیادہ طاقتیں شریک ہوں تو یہ کائنات ایک رزم گاہ بن جائے۔ (مزید تفصیل کے لیے زیر نظر کتاب کا باب’توحید‘ ملاحظہ فرمائیں ) ایک ہندو مذہب میں جن ہزاروں دیوتاؤں اور مظاہر فطرت کی عبادت کی جاتی ہے ، ان کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ لگے بندھے قوانین کے پابند اور بے اختیار اور بے بس ہیں۔ پس ہمیشہ کی طرح آج کے زمانے میں بھی مشرکانہ مذہب کی کوئی وضاحت ممکن نہیں۔
2عقل وفطرت کی رو سے تمام انسان برابر ہیں۔ ان کے درمیان صرف اخلاق وکردار ہی کی بنا پر فرق ممکن ہے۔ ہندو مذہب، اس کے برعکس ذات پات پر یقین رکھتا ہے۔ برہمن ہمیشہ کے لیے برتر ہے اور شودر قابل نفرت ہے جو مذہب انسانیت کو ذات پات میں تقسیم کرتا ہو، وہ کبھی صحیح مذہب نہیں ہو سکتا۔
3 ہندو مذہب کی تمام مقدس کتابوں میں آپس میں اتنے زیادہ تضادات واختلافات پائے جاتے ہیں کہ اس مذہب کا کوئی بنیادی عقیدہ متعین ہی نہیں کیا جا سکتا، جب کہ ایک سچے مذہب کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اس میں عقیدہ، فکروفلسفہ اور اعمال اس طرح وضاحت سے بیان ہوتے ہیں کہ انسان پر اپنے اور کائنات کے تمام راز کھل جاتے ہیں۔
4 ایک سچے دین کو ساری انسانیت کے لیے ہونا چاہیے ، نہ کہ کسی خاص علاقے کے لوگوں کے لیے ، جب کہ ہندو مذہب کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ صرف اور صرف ہندوستان کے لیے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندومت کے ہاں اپنے مذہب کی تبلیغ واشاعت کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔
5 تناسخ کے عقیدے سے بڑ ھ کر انسانیت کی تذلیل ممکن نہیں۔ یہ کتنا بھیانک تصور ہے کہ جس جانور کو ہم کھا رہے ہیں یا جس پودے کو ہم کاٹ رہے ہیں ، یہ دراصل ایک انسان کی روح ہے۔ یہ عقیدہ انتہائی خلافِ عقل ہے۔ اس لیے کہ سزا سے پہلے جرم کا شعور لازم ہے۔ اگر کسی کو اپنے پچھلے جرم یا اچھے اعمال کا پتہ ہی نہ ہو تو پھر کیسی جزا وسزا۔ مثلاً آج اگر ہم انسان ہیں تو ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ اس سے پہلے جنم میں ، بحیثیت جانور، یا بحیثیت پودا، ہم نے وہ کون سے اچھے کام کیے تھے اور کا رہائے نمایاں انجام دیے تھے ، جن کی وجہ سے ہمیں موجودہ جنم میں انسان بنایا گیا۔ اگر انسان جیسی باشعور ہستی کو یہ معلوم نہیں تو چرند، پرند اور درختوں کو یہ شعور کیسے ہو گا کہ یہ دراصل ، ان کے پچھلے اعمال کی سزا ہے۔
سوال: کیا ہندو مت کی کتابوں میں توحید کا تصور پایا جاتا ہے ؟
جواب: یہ صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ یہاں بھی اصل مذہب توحید تھا، جس میں شرک کی آمیزش کی گئی ہے مثلاً ویدانتی فلسفہ ایک کُلی روح کا وجود تسلیم کرتا ہے ، مگر اسے بعد میں وحدت الوجود کا رنگ دیا گیا۔
اسی طرح کرشن کا بنیاد ی مذہب عقیدہ توحید پر مبنی تھا اور اس میں اخلاقیات پر بہت زور دیا گیا تھا۔ عین ممکن ہے کہ کرشن، پیغمبر ہوں اور بعد میں وحدانیت کے ساتھ ساتھ، اس میں وحدت الوجود کا فلسفہ بھی داخل کر دیا گیا ہو۔ بھگوت گیتا میں خدا کا تصور ایک ذی شعور، توانا اور ازلی وابدلی ہستی کا ہے۔ گیتا میں برہمنوں کے مذہبی رسوم وشعائر کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ آخرت کے متعلق گیتا کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان مرنے کے بعد خدا کے حضور میں اپنا انفرادی شعور قائم رکھتا ہے۔ بھگوتی مذہب کے پیرو آج بھی ، ایک فرقے کی صورت میں باقی ہیں۔ گویا انہیں ’’موحد ہندو‘‘ کہا جا سکتا ہے۔
ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں بھی اصل عقیدہ توحیدہی کا تھا اور بعد میں ان میں حذف واضافے اور ترامیم وتغیرات کر کے ، اسے ایک مشرکانہ مذہب بنایا گیا۔