HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Dr. Farooq Khan

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

قانون

سترہ واں باب

قانون

اس موضوع پر تفصیلی بحث کے لیے راقم کی کتاب ’’حدود تعزیرات۔ چند اہم مباحث‘‘ کا مطالعہ مفید رہے گا۔

سوال: کون سے جرائم کی سزا قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے۔

جواب: اللہ اور رسولﷺ سے لڑ ائی اور فساد فی الارض، قتل، زخم، زنا، چوری اور قذف۔ ان جرائم کی سزائیں قرآن مجید میں بیان ہوئی ہیں۔

سوال: اللہ اور رسولﷺ سے لڑ نے والے اور ملک میں فساد برپا کرنے والے کون ہیں اور ان کی کیا سز ا ہے ؟

جواب: ہر وہ فرد یا گروہ جو قانون کو اپنے ہاتھ میں لے اور امن وامان کو درہم برہم کرے ، مثلاً منظم غنڈہ گردی، قتل، ڈکیتی، رہزنی، بغاوت، اغوا، دہشت گردی، تخریب کاری، زنا بالجبر، بدکاری کا اڈہ، جنسی بے راہ روی، دوسروں کی بہو بیٹیوں کو رسوا کرنا۔ یہ اور اسی طرح کے تمام جرائم فساد فی الارض کی تعریف میں آتے ہیں۔ (سورہ المائدہ 5: 33- 34) ان جرائم میں اسلامی حکومت کی پارلیمنٹ کو اختیار ہے کہ درج ذیل سزاؤں میں سے کوئی بھی سزا مجرموں کے لیے تجویز کرے :عبرت ناک طریقے سے قتل کرنا عبرت ناک طریقے سے سولی دینا، ہاتھ پاؤں بے ترتیب کاٹ دینا، جلاوطن کرنا، (گھر یا کسی خاص علاقے میں نظر بند کرنا)۔

سوال: قتل کی سزا کیا ہے ؟

جواب: قتل کی دو قسمیں ہیں : ایک یہ کہ کسی کو جان بوجھ کر قتل کیا جائے اور دوسری یہ کہ کوئی فرد کسی کے ہاتھ سے غلطی سے قتل ہوجائے۔

کسی کو جان بوجھ کر قتل کرنا، قرآن مجید کے مطابق، اتنا سنگین جرم ہے کہ ایک انسان کا قتل، گویا پوری انسانیت کا قتل ہے اور اس کا مرتکب ابدی جہنم کا مستحق ہے۔ (سورہ المائدہ 32:5، النساء93:4)

قتل کے ضمن میں حکومت اور مقتول کے رشتہ دار دونوں مدعی ہیں۔ مقتول کے رشتہ داروں پر دباؤ یا ان کی قاتل کے ساتھ کسی مفاد کے تعلق یا ایک ایسا معاملہ جن میں مجرموں کو مزید قتل کرنے کی شہہ ملے۔ ان صورتوں میں حکومت ہی اصل مدعی ہو گی۔ البتہ عام حالات میں مقتول کے رشتہ دار مدعی ہوں گے۔ جرم ثابت ہونے کی صورت میں وہ قصاص، دیت یا معافی میں سے کوئی بھی راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔

سوال: دیت کیا چیز ہے اور کیا اس کی کوئی مقدار مقرر ہے ؟

جواب: دیت، درحقیقت تاوان یا جرمانہ ہے۔ سورہ بقرہ اور سورہ نساء میں یہ لفظ نکرہ (Common noun) کی شکل میں آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی کوئی مقدار شریعت نے طے نہیں کی۔ قرآن مجید سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دیت معاشرے کے دستور اور رواج ، یعنی معروف کے مطابق ادا کی جائے گی۔ گویا دیت کی کوئی مقرر مقدار نہیں ہے۔

حضورﷺ نے اپنے زمانے میں ، عرب کے سابقہ دستور کے مطابق، دیت کو نافذ کیا اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ اسی طرح ہر زمانے میں وقت اور حالات کے لحاظ سے ، دیت کی مقدار میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔

سوال: کسی کو زخمی کرنے کی کیا سزا ہے ؟

جواب: اگر کسی کو جان بوجھ کر زخمی کیا گیا ہے تو زخمی کو اجازت ہے کہ مجرم کو اتنا ہی زخم پہنچائے ، یا اسے معاف کر کے ، اس سے جرمانہ قبول کرے۔ (سورہ المائدہ 45:5)اور اگر غلطی سے زخم لگاہے تو صرف دیت ادا کرنا کافی ہے۔

اس دیت کی مقدار بھی معروف، یعنی معاشرے کے دستور اور رواج کے مطابق ہونی چاہیے۔ اسلامی حکومت کی پارلیمنٹ اس ضمن میں تفصیلی قانون سازی کی مجاز ہے۔ معروف پر مبنی قوانین کے بارے میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ حالات وزمانے کی تبدیلی سے ان میں تغیر وتبدل کیا جا سکتا ہے۔

سوال: چور کی کیا سزا ہے ؟

جواب: چور کی سزا یہ ہے کہ اس کا دایاں ہاتھ کاٹ ڈالا جائے۔ (سورہ المائدہ 38:5)

سوال: کیا اس سزا میں رعایت ممکن ہے ؟

جواب: چورصرف اسی فرد کو کہتے ہیں جو جان بوجھ کر، بغیر کسی انتہائی مجبوری کے ، باقاعدہ منصوبہ بنا کر، اہتمام کے ساتھ چوری کرے۔ چنانچہ معمولی قسم کے چوری، بغیر حفاظت کے رکھی ہوئی چیز کی چوری، یا کسی مجبوری کی بنا پر چوری کرنے والے کو چور نہیں کہا جا سکتا۔ حکومت یا عدالت چاہے تو، حالات کے مطابق، پہلی یا دوسری دفعہ اس فعل کا ارتکاب کرنے والے مجرم سے رعایت بھی برت سکتی ہے۔ حضرت عمرؓ نے اسی وجہ سے قحط کے زمانے میں چور ی کے مجرموں کو رعایت دی تھی۔

سوال: زنا کی کیا سزا ہے ؟

جواب: اس کی سزا یہ ہے کہ مجرم اور مجرمہ کو کوڑ ے مارے جائیں۔ (سورہ النور 24: 2-3)

سوال: کون سے زانیوں کو سزائے رجم دی جائے گی؟

جواب: اس ضمن میں دو موقف ہیں : ایک یہ کہ ہر اس زانی کو رجم کیا جائے گا، جو شادی شدہ ہو، کیونکہ حضورﷺ نے دو مقدمات میں شادی شدہ زانیوں کو رجم کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس گروہ کا کہنا ہے کہ سورہ نور کا حکم شادی شدہ زانیوں کے لیے منسوخ ہے اور یہ صرف غیر شادی شدہ مجرموں کے لیے ہے۔ (اس گروہ کے مکمل دلائل کے لیے : ’’تفہیم القرآن‘‘ جلد سوم، تفیسر سورہ نور اور محمد رفیق چوہدری کی کتاب: ’’حد رجم‘‘کا مطالعہ مفید رہے گا)۔

اس کے برعکس دوسرے گروہ کا موقف یہ ہے کہ جن زانیوں کو حضورﷺ نے رجم کی سزا دی، وہ محض ان کے شادی شدہ ہونے کی بناپر نہیں دی تھی، بلکہ وہ سزا ان کو سورہ مائدہ کے حکم کے مطابق فسادفی الارض کے حکم کے تحت دی گئی تھی۔ اس لیے کہ یہ لوگ معاشرے میں بدچلنی پھیلانے کے مجرم تھے اور ان کو کوئی رعایت دینا ممکن نہیں تھا۔ شادی شدہ ہونا، ان کے جرم میں مزید اضافے کا باعث تھا، کیونکہ وہ حلال مواقع کے باوجود حرام کام کا ارتکاب کرتے تھے۔ (اس گروہ کے دلائل جاننے کے لیے ’’تدبر قرآن‘‘ امین احسن اصلاحیؒ، تفسیر سورہ نور اور جاوید احمد غامدی کی کتب ’’برہان‘‘ اور ’’حدود وتعزیرات‘‘ کا مطالعہ مفید رہے گا)۔

ہمیں اسی دوسرے موقف سے اتفاق ہے اور ہم اس ضمن میں مزید چند امور کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ ایک یہ کہ حق وباطل کا معیار قرآن مجید ہے۔ قرآن مجید کو باہر کی کوئی چیز منسوخ نہیں کرسکتی۔ اگر اللہ تعالیٰ کو شادی شدہ مجرموں کے لیے کوئی علیحدہ قانون نافذ کرنا ہوتا، تو اس کے لیے کیا مشکل تھا کہ سورۃ نور میں ایک آیت کا اضافہ کر کے یہ بات کہہ دیتا۔ اسی لیے ہمیں اگر حدیث میں کوئی ایسی چیز نظر آ رہی ہو، جو بظاہر قرآن مجید کے الفاظ سے ٹکراتی ہو، تو ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا حضورﷺ نے وہ کام کسی دوسرے قرآنی حکم کے تحت تو انجام نہیں دیا۔

پہلے موقف کی ایک غلطی یہ بھی ہے کہ اس میں جو تخصیص کی گئی ہے ، وہ عقلی لحاظ سے بھی بالکل غلط ہے ، کیونکہ اس کے مطابق زنا کے کسی عام مجرم اور عصمت فروشی کا اڈہ چلانے والے اور معاشرے میں فحاشی پھیلانے والے کسی مجرم یا مجرمہ کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا، جب کہ انسانی ضمیر یہ تقاضا کرتا ہے کہ ایک عام مجرم اور معاشرے میں فحاشی پھیلانے والے کے درمیان سزا میں فرق ہونا چاہیے۔ اس کا حل یہی ہے کہ زنا کے عام مجرموں کے لیے تو سزا سورہ نور میں بیان ہوئی ہے اور عادی مجرموں اور فحاشی پھیلانے والوں کی سزا دراصل وہی ہے جو فسادفی الارض کے مجرموں کی سزا ہے اور یہ سورہ مائدہ میں بیان ہوئی ہے۔

پہلے موقف کی ایک اور غلطی یہ ہے کہ اس میں سارا زور شادی شدہ ہونے یا نہ ہونے پر دیا گیا ہے ، حالانکہ زندگی میں کئی ایسے مواقع پیش آتے ہیں جب ایک انسان شادی شدہ ہونے کے باوجود، عملاً تجرد کی زندگی گزار رہا ہو، مثلاً روزگار کی وجہ سے سال کے لیے میاں بیوی ایک دوسرے سے دور ہوں ، یا ان میں سے کسی ایک کا انتقال ہو چکا ہو۔ اس طرح کا کوئی فرد زنا کا مرتکب ہو اور اسے کی سزا دے دی جائے ، قرین انصاف نہیں لگتا۔

سوال: زنا کا جرم کیسے ثابت ہوتا ہے ؟

جواب: اس جرم کے ارتکاب کی دو شکلیں ممکن ہیں : ایک یہ کہ ایک عام آدمی سے ایک غلطی سرزد ہوجائے۔ اس صورت میں اسلام یہ چاہتا ہے کہ ایسے فردکی لغزش پر فردہ ڈال دیا جائے اور اسے معاشرے میں رسوا نہ کیا جائے۔ صرف اس صورت میں اسے سزا کا مستحق جانا جائے ، جب چار چشم دید گواہ اس کے جرم کی گواہی دیں۔ (سورہ النور 24: 4- 5)

اس جرم کی دوسری صورت یہ ہے کہ کچھ قحبہ عورتیں عصمت فروشی کے اڈے چلائیں اور وہ اپنے اس جرم سے باز نہ آئیں۔ اس صورت میں صرف یہی کافی ہے کہ اعلیٰ ترین پائے کے چار ثقہ گواہ طلب کیے جائیں جو اس بات کی گواہی دیں کہ فلاں ، فی الواقع ، زنا کی عادی اور عصمت فروشی کرنے والے عورت ہے۔ اس صورت میں یہ ضروری نہیں کہ انہوں نے ، کسی خاص موقع پر، اسے اس جرم کا ارتکاب کرتا دیکھا بھی ہو۔ وہ اگر پوری ذمہ داری سے یہ گواہی دیں کہ وہ سب اور گردو پیش کے لوگ اس عورت کو ، ایک عصمت فروش کی حیثیت سے جانتے ہیں تو عدالت کیس ثابت ہونے کے بعد ایسی عورت کو عادی مجرموں کے لیے ، سورہ مائدہ کی مقررہ سزاؤں میں سے ، جو سزاچاہے دے سکتی ہے اور حالات کے مطابق رعایت بھی دے سکتی ہے۔ (سورہ النساء 15:4)ظاہر ہے کہ عصمت فروشی کا اڈہ چلانے والامرد بھی اسی سزا کا مستحق ہے۔

سوال: کیا زنا کی سزا میں رعایت ممکن ہے ؟

جواب: یہ سزا بھی صرف ان مجرموں کے لیے ہے جن سے جرم، بالکل آخری صورت میں سرزد ہوجائے اور وہ اپنے حالات کے لحاظ سے کسی رعایت کے مستحق نہ ہوں اس لیے پاگل، بدھو، مجبور اور جرم سے بچنے کے لیے ضروری حفاظت سے محروم لوگ اس سزا سے مستثنا ہیں۔

اسی طرح زمانہ رسالت کی لونڈیوں کے بارے میں بھی قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ خاندان کی حفاظت سے محرومی اور ناقص اخلاقی تربیت کی وجہ سے انہیں بھی یہ سزا نہیں دی جا سکتی۔ لیکن اگر ان کے مالکوں اور شوہروں نے انہیں پاک دامن رکھنے کا پورا اہتمام کیا ہو اور اس کے باوجود یہ جرم ان سے سرزد ہوجائے ، تو اس صورت میں بھی انہیں آدھی سزا دی جائے گی۔ (النور25:24)

سوال: اگر کوئی شخص کسی شریف اور پاک دامن عورت یا مرد پر زنا کی تہمت لگائے تو اس کی کیا سزا ہے ؟

جواب: اگروہ یہ الزام لگانے کے بعد، اسے ثابت نہ کرسکے ، تو اس کی سزا یہ ہے کہ اسے اسی کوڑ ے مارے جائیں اور آئندہ کسی معاملے میں عدالت اس کی گواہی قبول نہ کرے۔ (النور 24: 4-9)

سوال: اگر کوئی شوہر یا بیوی اپنی شریک حیات پر زنا کی تہمت لگائے اور اس کے پاس اپنے علاوہ کوئی اور گواہ نہ ہو تو کیا کیا جائے ؟

جواب: اس صورت میں معاملے کا فیصلہ قسم سے ہو گا۔ یعنی شوہر چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ کہے گا کہ وہ جو الزام لگا رہا ہے ، اس میں سچاہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے گا کہ اگر وہ اس الزام میں جھوٹا ہے تو اس پر خدا کی لعنت ہو۔ اگر بیوی اس الزام کو سچامان لے تو اس پر کوڑ وں کی سزا نافذ کر دی جائے گی اور میاں بیوی کے درمیان تفریق کر دی جائے گی۔ لیکن اگر وہ اس الزام کو تسلیم نہیں کرتی تو وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ یہ شخص جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ مجھ پر خدا کا غضب ہو، اگر یہ شخص سچ کہہ رہا ہے۔ اس صورت میں صرف علیحدگی کر دی جائے گی۔ (النور 9-4:24)اگر بیوی نے شوہر پر الزام لگایا ہو تو اس وقت بھی یہی کاروائی ہو گی۔

سوال: اگر کوئی خاتون، کسی مرد وزنا بالجبر کا الزام لگائے تو اس صورت میں قانون کا تقاضا کیا ہو گا؟

جواب: یہ ایک سنگین الزام ہے ، کیونکہ اس سے خود عورت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ اس لیے ایسے موقع پر عدالت تمام حالات و واقعات گوا ہوں اور قرائین(مثلاً انگلیوں کے نشانات، طبی معائنہ وغیرہ) کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرے گی۔ یہاں چار عینی گوا ہوں کی ضرورت نہیں ہے ، کیونکہ اس معاملے کی نوعیت مختلف ہے۔ اگر جرم ثابت ہوجائے تو مجرم کو فساد فی الارض کی سزا دی جائے گی، لیکن اگر عورت الزام ثابت نہ کرسکے تو اسے قذف کی سزا نہیں دینی چاہیے۔ اس لیے کہ وہ قذف کی مجرم نہیں ٹھہرتی۔ یہ ممکن ہے کہ واقعہ ہوا ہو لیکن اسے ثابت نہ کیا جا سکے۔

البتہ اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچ جائے کہ عورت نے جان بوجھ کر ایک شریف آدمی پر بے عزتی کے ارادے سے یہ الزام لگایا تھا، تاکہ اس کی حیثیت عرفی کو نقصان پہنچے تو عدالت حالات کے مطابق عورت کو بھی سزا دے سکتی ہے۔

سوال: اسلام کی مقرر کردہ سزاؤں کے مقاصد کیا ہے ؟

جواب: قتل کی سزا کا مقصد، اس زمین پر، انسانی وجود کی بقا اور حفاظت کا اہتمام ہے۔ اس لیے قرآن مجید نے قصاص (یعنی قاتل کے قتل) کو زندگی قرار دیا ہے۔ (سورہ البقرہ 179:2)قصاص دراصل، ساری انسانیت کو (قتل کے ) ظلم سے بچانا ہے۔

زنا، قذف اور چوری کی سزا کے مقاصد یہ ہیں کہ مجرم کو اس کے عمل کی سزا ملے اور اس کی رسوائی ہو تاکہ وہ معاشرے کے لیے عبرت بن جائے۔ (سورہ النور 24: 2-4، سورہ المائدہ 5: 33-38)

سوال: کیا یہ سزائیں غیر مسلموں پر بھی نافذ ہوں گی؟

جواب: یہ سزائیں دین کا حصہ ہیں۔ اس لیے یہ صرف مسلمانوں پر نافذ ہوں گی۔ غیر مسلم چاہیں تو اپنے لیے علیحدہ قانون سازی کرسکتے ہیں۔

سوال: اسلامی عدالت کے مطابق یہ کہا جاتا ہے کہ جرم صرف عینی شاہدوں کی گواہی سے ثابت ہوتا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہی ہے ؟

جواب: یہ بات صحیح نہیں ہے۔ اسلامی قانون میں جرم ان سب طریقوں سے ثابت ہوتا ہے جنہیں ساری دنیا میں ، جرم کے ثبوت کے طریقوں کی حیثیت سے قبول کیا جاتا ہے۔ مثلاً حالات، قرائن، طبی معائنہ، پوسٹ مارٹم، انگلیوں کے نشانات، گوا ہوں کی شہادت مجرم کا اقرار، قسم، اور اسی طرح کے دوسرے تمام شواہد۔ حضورﷺ نے فرمایا: دلیل پیش کرنا مدعی کی ذمہ داری ہے اور قسم (کا معاملہ اگر ہوا تو) وہ کھائے گا جس پر دعویٰ کیا گیا ہے۔ (ترمذی کتاب الاحکام)

سوال: کہا جاتا ہے کہ اسلام میں عورتوں اور مردو ں کی گواہی میں فرق ہیں۔ یعنی دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے اور حدود کے معاملے میں عورت کی گواہی معتبر ہی نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو کیا اسلام عورت کو دوسرے درجے کا انسان سمجھتا ہے ؟

جواب: فقہا کا ایک گروہ یقینا درج بالا موقف رکھتا ہے ، تاہم ہمارے خیال میں یہ موقف صحیح نہیں ہے۔ اس گروہ کی دلیل یہ ہے کہ قرض کے لین دین کی دستاویز لکھنے کے بارے میں قرآن مجید نے ہدایت دی ہے کہ ’’اس پر اپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کی گواہی اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بنالو، اپنے پسندیدہ لوگوں میں سے۔ دو عورتیں اس لیے کہ اگر ایک بھولے تو دوسری اسے یاد دلادے۔ ‘‘ (سورہ البقرہ282:2) اس سے فقہا یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے اور حدود کا معاملہ چونکہ بڑ اہی سنگین ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں عورتوں کی گواہی سرے سے نامقبول ہے۔

ہمارے نزدیک اس آیت سے درج بالا معنی کسی طرح بھی نہیں نکلتے۔ آیت کے سیاق وسباق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس سے مراد گھریلو غیر تعلیم یافتہ عورتیں ہیں۔ چونکہ ایسی عورتیں عام طور پر مالی معاملات سے واقف نہیں ہوتیں ، اس لیے یہ ممکن ہے کہ وہ گواہی دیتے وقت اصل رقم یا کوئی تفصیل بھول جائیں ، یا اس میں الجھ جائیں۔ اس صورت میں ان کو یہ رعایت دی گئی ہے کہ وہ گواہی دیتے وقت اپنی ساتھی کی مدد بھی حاصل کرسکتی ہیں ، تاکہ کوئی معاملہ مشتبہ نہ رہے۔

جہاں تک حدود کا تعلق ہے تو اس ضمن میں دو دلائل ایسے ہیں جن کے پیش نظر اس آیت سے عورتوں کی گواہی کو خارج کرنے والا مطلب کسی طرح بھی نہیں نکالا جا سکتا۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ اس آیت کا تعلق صرف دستاویزی شہادت سے ہے۔ واقعاتی شہادت کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔ ہر انسان جانتا ہے کہ دستاویزی شہادت کے لیے گواہ کا انتخاب ہمارے اختیار میں ہوتا ہے ، لیکن کسی جرم کے موقع پر، ظاہر ہے کہ جو شخص بھی موقع پر موجود ہو گا، وہی گواہ قرار پائے گا۔ شہادت کی ان دونوں صورتوں میں اتنا بڑ ا فرق ہے کہ ایک کو کسی طرح بھی دوسرے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔

دوسری دلیل یہ ہے کہ یہ آیت قانون وعدالت سے متعلق ہے ہی نہیں۔ اس میں عدالت کو مخاطب کر کے یہ بات نہیں کہی گئی کہ اس طرح کا کوئی مقدمہ پیش ہوتو مدعی سے اس نصاب کے مطابق گواہ طلب کرو۔ کیونکہ اگر عدالت کے سامنے ایسا کوئی مقدمہ پیش کیا جائے اور سرے سے کوئی لکھی ہوئی دستاویز موجود ہی نہ ہو، تب بھی عدالت دوسرے ثبوتوں کی بنیاد پر مدعی کے حق میں فیصلہ کرسکتی ہے۔ گویا یہ ایک معاشرتی ہدایت ہے ، نہ کہ کوئی قانونی تقاضا۔

چنانچہ عدالت کے سامنے ، تمام معاملات میں ، مردوعورت کی گواہی میں کوئی فرق نہیں۔ اسی طرح ہر معاملے میں غیر مسلموں کی گواہی بھی معتبر ہے ، سوائے عصمت فروشی کا دھندا کرنے والی عورتوں کے ، جہاں قرآن مجید نے ’’منکم‘‘ کی شرط عائد کر کے ، اس گواہی کو مسلمانوں کے ساتھ خاص کر دیا ہے۔

سوال: فسادفی الارض، قتل، زنا، چور، اور قذف کے علاوہ دوسرے جرائم کی سزا کے متعلق اسلام کی کیا ہدایت ہے ؟

جواب: درج بالا جرائم کے علاوہ، باقی تمام جرائم میں اسلامی حکومت کی پارلیمنٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے حالات کے لحاظ سے قانون سازی کرے۔ درج بالا جرائم کی ادنیٰ صورتوں میں بھی پارلیمنٹ، حالات کے لحاظ سے ، قانون سازی کرسکتی ہے۔

واضح رہے کہ قرآن وحدیث میں لفظ ’’حد‘‘ کو کہیں بھی قرآنی سزاوؤں کے ساتھ خاص نہیں کیا گیا’’حدود‘‘ اور ’’تعزیرات‘‘ کے درمیان فرق بعد کے فقہا نے کیا ہے۔

سوال: شراب نوشی کی کیا سزا ہے ؟

جواب: شراب نوشی کی سزا وقت کے ارباب اقتدار پر منحصر ہے کہ وہ اس کے لیے کیا قانون بناتے ہیں۔ رسول کریمﷺ کے زمانے میں جو شخص یہ فعل کرگزرتا تھا، اسے کچھ چھوٹی سزا دی جاتی۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے زمانے میں اس کے لیے چالیس کوڑ وں کی سزا مقرر کی۔ اپنے دور اقتدار میں جب حضرت عمرؓنے دیکھا کہ لوگ اس جرم سے باز نہیں آتے تو انہوں نے اسے اسی (80) کوڑ ے میں بدل دیا۔

گویا، حضورﷺ نے اپنے زمانے میں شراب نوشی کے مجرموں کو جو سزا دی، وہ شارع کی حیثیت سے نہیں ، بلکہ مسلمانوں کے حکمرانوں کی حیثیت سے دی۔ اس لیے حضرت ا بوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے اپنے اقتدار میں اس کے لیے مختلف سزائیں مقرر کیں۔

سوال: کہا جاتا ہے کہ چونکہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں شراب نوشی کے لیے اسی (80) کوڑ وں کی سزا پر صحابہ کرامؓ کا اجماع ہو چکا ہے ، اس لیے اب قیامت تک شراب نوشی کی یہی سزا برقرار رہے گی؟

جواب: اسلام میں یہ حق صرف اور صرف محمدﷺ کو حاصل ہے کہ وہ کسی چیز کو شریعت قرار دیں۔ جب وہ کسی چیز کو شریعت قرار دیں ، تو قیامت تک اس میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ جس چیز میں آپﷺ ہمیں آزاد چھوڑ دیں ، اس میں کسی بھی قانون کو شریعت کا درجہ حاصل نہیں ہو سکتا۔

اجماع کی یہ تعریف کہ ’’صحابہ کرامؓجس چیز پر ایک دفعہ متفق ہوجائیں ، پھر وہ ہمیشہ کے لیے شریعت بن جاتی ہے ‘‘ اور مسلمہ دینی اصولوں کے خلاف ہے۔ قرآن وسنت اور خود صحابہ کرامؓ نے بھی اس قسم کی کوئی ہدایت نہیں دی۔ پھر یہ تعریف’ الیوم اکملت لکم دینکم، کے بھی خلاف ہے۔

اجماع سے مراد، دراصل وہ دین ہے ، جو صحابہ کرامؓ کے کامل اتفاق سے ہمیں ملا ہے اور وہ صرف اور صرف قرآن وسنت ہے۔ قرآن مجید ہمیں صحابہ ؓ کے قولی اتفاق سے ملا ہے ، اور سنت ان کے عملی اتفاق سے۔ باقی رہی بات کسی وقت کی قانون سازی کی، تو اس طرح کے کسی بھی مسئلے میں صحابہ کرامؓ نے اپنے وقت میں ، اپنے حالات کے لحاظ سے قانون سازی کی اور ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے حالات کے مطابق قانون سازی کریں۔

جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے کہ ’’تم میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت پر قائم ہو‘‘، یہ ایک کمزور حدیث ہے جس سے کسی اصول کا اخذ کرنا غلط ہے۔

سوال: اسلام میں ارتداد کی کیا سزا ہے ؟

جواب: اس کے متعلق ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ اسلامی ریاست میں ا س کی سزا موت ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا : ’’جو شخص اپنا دین تبدیل کرے ، اسے قتل کرو۔ (بخاری، کتاب استنابتہ المرتدین (تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں ، مرتد کی سزا، ابو الاعلیٰ مودودی)

دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ حکم صرف ان مشرکین کے لیے خاص تھا، جن میں نبی کریمﷺ کی بعثت ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی رسول اپنا قوم میں آتا ہے تو اس قوم پر حجت تمام ہوجاتی ہے اور اس کی آزمائش مکمل ہوجاتی ہے۔ چنانچہ اگر وہ اسے ماننے سے انکار کر دے تو ان سے زندہ رہنے کا حق چھین لیا جاتا ہے اور ان پر موت کی سزا یا عذاب کی کوئی اور شکل نافذ کر دی جاتی ہے۔ (یہ سزا عذاب الٰہی کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے اور رسول اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں سے بھی ہو سکتی ہے ) قوم نوحؑ، قوم ہودؑ، اور قوم صالحؑ کے ساتھ یہی معاملہ ہوا۔ اگر رسول کو کسی زمین میں سیاسی اقتدار حاصل ہوجائے تو قوم کے مغلوب ہوجانے کے بعد، اس کے ہر کافر پر موت کی سزا نافذ کر دی جاتی ہے۔ محمدرسول اللہ ﷺ کے ساتھ یہی صورت پیش آئی۔ اس وجہ سے اللہ نے حکم دیا کہ ’’امے ین‘‘ یعنی آپﷺ کی قوم بنواسماعیل میں سے جو لوگ نو ہجری، حج اکبر کے دن تک ایمان نہ لائیں ، انہیں نو ذی الحجہ سے محرم کے آخری دن تک مہلت ہے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ کفر پر قائم رہیں تو موت کی سزا کا یہ قانون ان پر نافذ کر دیا جائے گا۔ (سورہ النور24: 5)

یہ حکم صرف امیوں کے لیے خاص تھا، اس لیے قرآن مجید نے سرزمین عرب میں رہنے والے اہل کتاب کو بھی اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ (سورہ التوبہ29:9)

ظاہرہے کہ اگر بنی اسماعیل میں سے کوئی شخص ایمان لانے کے بعد پھر کفر کی طرف پلٹ جاتا تو اس پر بھی موت کی سزا نافذ کر دی جاتی۔ اسی چیز کو رسول ﷺ نے اپنے درج بالا ارشاد میں واضح فرمایا۔

عام لوگوں کے متعلق قرآن کریم، واضح طور پر کہتا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ (سورہ البقرہ 206:2)

اور یہ کہ جس کا جی چاہے کفر کرے اور جس کا جی چاہے مومن بنے۔ (سورہ الکہف29:18) اس لیے ارتداد کے مجرم پر اسلام میں کوئی سزا نہیں ہے۔ البتہ اگرکوئی فرد ارتداد کے بعد، فسادفی الارض کا مرتکب ہو تو اسے قرآن مجید کے حکم کے مطابق فساد فی الارض کی سزا دی جائے گی۔ (سورہ المائدہ 34:5) ہمیں اس دوسرے نقطہ نظر سے اتفاق ہے۔

سوال: کن جرائم میں اسلامی حکومت کسی پر موت کی سزا نافذ کرسکتی ہے ؟

جواب : قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ قتل انسانی اور فسادفی الارض کے سوا کسی دوسرے جرم میں ، کسی شخص کو موت کے سزا نہیں دی جا سکتی۔ (سورہ المائدہ 32:5)

سوال: کیا اسلام میں قید کی سزا کا کوئی تصور ہے ؟

جواب :اسلام میں قید کی سزا کا تصور نہیں ہے۔ قید کی سزا تو، دراصل، ریاست کی طرف سے ڈھایا جانے والا ایک ظلم ہے ، جس میں انسان کی عزتِ نفس ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہ سزا مجرم سے زیادہ ، اس کے رشتہ داروں ، مثلاً والدین ، بیوی، بچوں اور بھائیوں بہنوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ قید خانے ، دراصل جرائم کی تربیت گاہ بن جاتے ہیں۔ دوسری طرف ان قید خانوں کے تمام اخراجات ایک عام ٹیکس گزار کو ادا کرنے پڑ تے ہیں۔ اس لیے خدا کی شریعت میں مجرم کو اس کے گھر ہی میں نظر بند کرنے یا علاقہ بدر کرنے کی سزا رکھی گئی ہے ، جہاں وہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ بھی رہ سکتا ہے۔ لیکن قید کی سزا کا کوئی تصور ہمارے دین میں موجود نہیں ہے۔

سوال: کیا حدود اور تعزیر میں کوئی فرق ہے ؟

جواب: حقیقت میں یہ دونوں ہم معنی الفاظ ہیں۔ بعض فقہانے ان کے درمیان یہ فرق کیا ہے کہ جو سزائیں قرآن مجید سے ثابت ہیں ، انہیں حد کا نام دیا ہے ، اور جو سزائیں ایک مسلم حکومت، ان کے علاوہ قانون سازی کے ذریعے دوسرے جرائم کے لیے مقرر کر لیتی ہے ، انہیں تعزیر کا نام دیا ہے۔ ہمارے خیال میں اس فرق کی کوئی اہمیت نہیں۔ شریعت تو صرف وہی ہے جو قرآن وسنت میں بیان ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ باقی سب چیزوں کا تعلق عام قانون سازی سے ہے ، جن میں بوقت ضرورت تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔

سوال: کیا حدود کے علاوہ دوسری سزاؤں میں دس کوڑ وں سے زیادہ کی سزا نہیں دی جا سکتی؟

جواب: اس مفہوم کی ایک مستند حدیث یقینا موجود ہے ، تاہم صحابہ کرامؓ کا عمل اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس لیے کہ صحابہ کرامؓ ہی کے عہد میں شراب نوشی کی سزاپہلے معمولی تھی، پھر چالیس کوڑ ے اور بعد میں اسی (80)کوڑ ے مقرر کی گئی۔ گویا یہ حدیث صحابہ کرامؓ کے اجتماعی عمل کے خلاف ہے۔ اس لیے ہمارا خیال یہ ہے کہ اس حدیث کے الفاظ میں ، کسی مرحلے پر، کسی راوی کو بات سمجھنے میں غلطی لگی ہے ، ورنہ یہ ممکن نہیں تھا کہ اس کی موجودگی میں صحابہ کرامؓ اس کے خلاف فیصلہ دیتے۔ 

B