HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Dr. Farooq Khan

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

ریاست وحکومت سے متعلق مسائل

سولہواں باب

ریاست وحکومت سے متعلق مسائل

سوال: قانونی لحاظ سے مسلمان کون ہیں ؟

جواب: قانونی لحاظ سے ہر وہ فرد مسلمان ہے ، جو دوسرے ادیان کو چھوڑ کر دائرہ اسلام میں داخل ہو یا پیدائشی مسلمان ہو اور کلمہ توحید کا اقرار کر کے قرآن وسنت کو اپنا دین مان لے۔ دوسرے یہ کہ وہ عامۃ المسلمین کے ساتھ نماز پڑ ھنا شروع کر دے۔ تیسرے یہ کہ وہ مسلمانوں کے نظم اجتماعی کو زکواۃ دے۔ سورۃ توبہ میں ارشاد ربانی ہے :

’’پس اگریہ لوگ توبہ کر لیں ، نماز قائم کر لیں اور زکواۃ دیں ، تو یہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔ ‘‘(11:9)

ان تین شرائط کو پورا کرنے کے بعد اگر کسی کے اندر عقیدہ وعمل کی بے شمار خرابیاں پیدا ہوجائیں ، تب بھی وہ قانونی اعتبار سے مسلمان ہی رہتا ہے ، اور اسے مسلمان کی حیثیت سے سارے حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ البتہ اس کا آخرت کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ، جہاں اس کی نیت، صحیح عقیدے اور عمل ہی کی بنیاد پر اس کے ساتھ معاملہ ہو گا۔

یہی وجہ ہے کہ منافقین مدینہ کے عقیدہ وعمل میں بے شمار خرابیاں تھیں۔ ان میں سے کئی لوگوں کے بارے میں علم تھا کہ وہ محض دھوکہ دینے کے لیے مسلمان ہوئے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا ارتکاب کرتے رہتے تھے۔ اس کے بارے میں قرآن مجید سزا کی دھمکیوں سے بھرا ہوا ہے ، لیکن، چونکہ، قانونی طور پر وہ درج بالا تین شرائط کو پورا کرتے تھے ، اس لیے ان کو قانونی طور پر مسلمان ہی سمجھا جاتا تھا۔ منافقین عام مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑ ھتے تھے۔ یہ سب آپس میں شادی بیاہ کا تعلق رکھتے تھے۔ ایک دوسرے کا ذبیحہ کھاتے تھے۔ منافقین کی نماز جنازہ پڑ ھی جاتی تھی۔ حضورﷺ نے کبھی ان کے معاشرتی بائیکاٹ کا حکم نہیں دیا۔ ان کا اسلام قبول کیا تھا، حتیٰ کہ انہیں مشوروں میں بھی شریک کیا جاتا تھا۔

سوال: کیا کفر کا ارتکاب کرنے والا کافر اور شر ک کا ارتکاب کرنے والا مشرک نہیں ہوتا؟

جواب: کسی مسلمان کے عمل میں کئی چیزیں کفر کی ہو سکتی ہیں اور اس کے عقیدے میں ، جہالت کی وجہ سے ، کئی چیزیں شرک سے آلودہ بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے باوجود اسے کافر یا مشرک نہیں کہا جا سکتا۔ کافر یا مشرک قرار دیے جانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ گروہ باقی تمام امت کو کافر قرار دے کر یا اس سے نماز علیحدہ کر کے ، خود اس امت سے نکل جانے کا اعلان کرے یا وہ خود اپنے آپ کو مشرک قرار دے اور نظم اجتماعی بھی اس کے بارے میں یہی فیصلہ کرے۔

قرآن مجید میں مشرکین مکہ کو تو مشرک قرار دیا گیا ہے ، لیکن اہل کتاب کو موخد قرار دیا گیا ہے اور ان سے کہا گیا ہے :

’’آؤ، ایسی بات (توحید) کی طرف، جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے ‘‘۔ (آل عمران 4,3)

حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اہل کتاب کے عقائد میں شرک کی آمیزش تھی۔ قرآن نے خود جگہ جگہ ان کے شرک پر سخت تنقید کی ہے۔ اس کے باوجود قرآن مجید نے ان کو، بنیادی طور پر موحدمان کر، ان سے معاملہ کیا ہے۔ ہمارے لیے ان کا ذبیحہ اور ان کی خواتین سے شادی کو بھی جائز قرار دیا ہے ، کیونکہ وہ خود اپنے آپ کو موحد کہتے تھے۔ اس کے برعکس، مشرکین مکہ خود اپنا مشرک ہونا مانتے تھے۔ قرآن نے ان کا یہ قول نقل کیا ہے :

’’اور جن لوگوں نے شرک کیا، وہ کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اور نہ ہمارے آباؤاجداد اس کے سوا کسی چیز کو پوجتے اور نہ ہم اس کے بغیر کسی کو حرام ٹھہراتے ‘‘۔ (انحل 35-16)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جب تک کوئی فرد خود اپنے کفریا مشرک ہونے کا اقرار نہ کرے ، یا اپنے آپ کو امت مسلمہ سے علیحدہ نہ لے ، تب تک وہ اس امت کا ایک فرد ہی رہتا ہے۔ اگر دین سے جہالت کی بناء پر مسلمانوں میں سے کوئی شخص کفر وشرک کا مرتکب ہو، لیکن وہ اس کو کفر وشرک سمجھ کر اس کا اقرار نہ کرے ، تو ہم اس کے غلط عقائد کو اس پر واضح کریں گے ، لیکن اس کو کافر نہیں کہیں گے ، بلکہ اسے مسلمان سمجھ کر اس کے ساتھ مسلمانوں والا سلوک کریں گے۔

سوال: مسلمانوں کی حکومت کیا ہوتی ہے ؟

جواب: جس جگہ مسلمان اکثریت میں ہوں ، آزاد ہوں اور ان کے اندر ایک با اختیار سیاسی تنظیم موجود ہو، تو یہ مسلمانوں کی حکومت ہوتی ہے۔ یہ حکومت مسلمانوں سے مل کر بنتی ہے ، اس لیے یہ مسلمان ہی ہوتی ہے۔ مسلمانوں کی حکومت کو رسولﷺ نے ’’الجماعتہ‘‘ ’’السطان‘‘ اور ’’جماعۃ المسلمین‘‘ کا نام دیا ہے۔

مسلمانوں کی حکومت کی تین قسمیں ہوتی ہیں :

1 معیاری : جسے خلافتِ علی منہاج النبوۃ کہا جاتا ہے۔

2 غیر معیاری: جس میں اچھی اور بری باتیں دونوں پائی جائیں۔

3 ظالم حکومت۔: جس کے حکمران لوگوں پر ظلم کرتے ہوں اور اُن کو غلط کام کرنے پر مجبور کرتے ہوں۔ (سورۃ فاطر32:35)۔اِس کے آخری درجے کو حضورﷺ نے ’’کفر بواح‘‘ کا ارتکاب کرنے والی حکومت کہا ہے۔ یعنی وہ کفر جس پر ہر مسلمان کے پاس دلیل ہو ہو اور وہ حکومت خود بھی یہ اعتراف کرتی ہو کہ وہ اسلام کے خلاف کام کر رہی ہے۔

سوال: ایک مسلمان حکومت کا مقصد کیا ہوتا ہے ؟

جواب: مسلمانوں کی حکومت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو باہم مجتمع رکھے ، انتشار کا شکار ہونے سے بچائے اور ان کے اندر ایک اجتماعی نظم قائم کریں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے فرمایا ہے :

’’اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑ و نہیں ، ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اورتمہاری ہوا کھڑ جائے گی‘‘۔ (انفال42:8)

سوال: مسلمانوں کی ریاست کی بنیادی نظریاتی اور عملی ذمہ داریاں کیا ہیں ؟

جواب: مسلمانوں کی ریاست کی بنیادی نظریاتی ذمہ داریاں یہ ہیں :

اس ریاست کی پہلی بنیادی نظریاتی ذمہ داری یہ ہے کہ ریاست کے ہاں ہر معاملے میں معیار کی حیثیت قرآن وسنت کو حاصل ہو گی۔ جس چیز کا فیصلہ قرآن وسنت نے کر دیا ہو، اس میں سربراہِ یاریاست کی پارلیمنٹ کو کوئی اور فیصلہ کرنے حق نہیں ہے۔ البتہ قرآن وسنت کے جن معاملات میں ہمیں آزاد چھوڑ ا گیا ہے ، ان میں ہم اپنے معاملات کے لحاظ سے قانون سازی کرسکتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے :

’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، اور رسول کی اطاعت کرو، اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں۔ پھر تمہارے درمیان اگر کسی معاملے میں اختلاف رائے ہو، تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو‘‘۔ (النساء 4: 59)

گویا مسلمانوں کی ریاست میں قانون کی نگاہ میں سب برابر ہوں گے۔

3 اس ریاست کی تیسری ذمہ داری یہ ہے کہ اس میں نماز قائم کی جائے گی، زکواۃ ادا کی جائے گی، معروف کی تلقین کی جائے گی اور منکر سے جائے گا۔ ارشاد ہے :

’’(یہ اہل ایمان وہ لوگ ہیں کہ) اگر ہم ان کو اس سرزمین میں اقتدار بخش دیں گے تو وہ نماز کا اہتمام کریں گے ، زکواۃ ادا کریں گے ، بھلائی کی تلقین کریں گے اور برائی سے منع کریں گے۔ ‘‘ (الحج22: 41)

اس کی تشریح میں رسولﷺ نے جو سنت قائم کی ہے ، وہ یہ ہے کہ مسجدوں کا اہتمام اور ان کے لیے ائمہ کا تقرر حکومت کرے گی۔ نماز جمعہ میں خطاب اور امامت، ریاست کے دارالحکومت کی مرکزی جامع مسجد میں ، سربراہ مملکت ، صوبوں میں گورنر اور اس طرح ہر جگہ حکومت کے ذ مہ دار افراد کریں گے۔

زکواۃ، وہ واحد ٹیکس ہے جو ایک مسلمان ریاست ، اپنے باشندوں سے وصول کرتی ہے۔ اور اگر کوئی ادا کرنے سے انکار کرے تو اسے سزا دے سکتی ہے۔ ریاست کی تمام محکمے معاشرے میں نیکیوں کاپھیلانے اور برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ نے کی کوشش کریں گے۔

4 دنیاوی اعتبار سے مسلمانوں کی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ قوت وطاقت کی فراہمی اور اس مقصد کے لیے تعلیم، صنعت اور سامانِ اسلحہ کی طرف توجہ دے ، تاکہ اللہ کے دشمن اور اس کے دشمن اس ریاست سے ڈرتے رہیں۔ (الانفال8: 60)

سوال: دین کی رو سے اسلامی حکومت کا سربراہ بنانے کا طریقہ کیا ہے ؟

جواب: قرآن مجید کی رو سے ، کسی مسلمان معاشرے میں مسلمان، صرف وہاں کے باشندوں کی آزادانہ رائے سے مقرر ہو سکتے ہیں۔ اس اعتبار سے اسلامی ریاست ایک مکمل جمہوری ریاست ہوتی ہے۔ سورۃ شوریٰ میں ارشاد ہے :

’’ان (مسلمانوں ) کے معاملات، ان کے باہمی مشورے سے چلتے ہیں۔ ‘‘(شوریٰ42: 38)

گویا، اسلام میں بادشاہت، ڈکٹیٹرشپ یا فوجی حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حکمرانوں کے تقرر اور تنزل میں اصل حق ، عامۃ المسلمین کا ہے۔ حکمرانوں کے لیے لازم ہے کہ دوران حکومت ہر معاملے میں عوام یا ا ن کے نمائندوں سے رائے لینے کا اہتمام کریں۔

سوال: کہا جاتا ہے کہ چاروں خلفائے راشدین، نامزدگی کے طریقے پر مقرر ہوئے تھے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ حضورﷺ نے ، اپنی زندگی ہی میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ ان کے بعد مسلمانوں کے امراء قریش میں سے ہوں گے۔ ان دونوں باتوں کی کیا توجیہہ ہے۔

جواب: اُس زمانے میں تمام سرزمین عرب کے مسلمانوں کا اعتماد قریش کو حاصل تھا(یہ اعتماد پہلے ہی سے چلا آ رہا تھا)۔ اس لیے قرآن مجید کی ہدایت، وامر ھم شوریٰ بینھم، کی روشنی میں امیر بننے کا مستحق پورے عرب میں قریش کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا تھا۔ قریش کے اکثریتی پارٹی ہونے کی حیثیت سے حضورﷺ نے ان کے لیے انتقالِ اقتدار کا فیصلہ کیا۔

آپﷺ نے فرمایا: ’’ہمارا یہ اقتدار قریش کو منتقل ہوجائے گا۔ اس معاملے میں جب تک وہ دین پر قائم رہیں گے۔ جو شخص بھی ان کی مخالفت کرے گا، اللہ اسے اوندھے منہ آگ میں ڈال دے گا۔‘‘ (بخاری، کتاب الاصام)

چنانچہ آپﷺ نے انصار کو ہدایت فرمائی کہ اقتدار کے معاملے میں قریش کو آگے کرو، ان سے آگے بڑ ھنے کی کوشش نہ کرو، اپنے اس فیصلے کی وجہ حضورﷺ نے یہ بیان فرمائی۔

’’لوگ (اقتدار کے ) اس معاملے میں قریش کے تابع ہیں۔ عرب کے مومن، ان کے مومنوں کے پیرو ہیں اور عرب کے کافر ان کے کافر وں کے ‘‘۔(مسلم، کتاب الامارہ )

چنانچہ حضورﷺ کا فیصلہ ایک خالص جمہوری فیصلہ تھا۔ چاروں خلفائے راشدین کے فیصلے بھی اسی بنیاد پر ہوئے۔ قریش میں سب سے ممتاز انسان حضرت ابوبکر صدیقؓ تھے۔ چنانچہ جب ان کے نام کی تجویز پیش کی گئی تو سب نے اتفاق کا اظہار کیا۔ اسی طرح حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنی وفات سے پہلے بہت بڑ ے پیمانے پر رائے لینے کا اہتمام کیا۔ جب ان کو معلوم ہو گیا کہ ذمہ دار لوگوں اور عامۃ المسلمین کی بہت بڑ ی تعداد حضرت عمر فاروقؓ کے نام پر متفق ہیں ، تو انہوں نے اپنے جان نشین کے طور پر ، حضرت عمرؓ کا تقرر کا اعلان کر دیا۔

جب حضرت عمرؓ کی وفات کا وقت وفات قریب آیا، تو آپ نے چھ اعلیٰ ترین لیڈروں پر مشتمل ایک کونسل بنائی۔ یہ وہ چھ اعلیٰ ترین لوگ تھے ، جن کے علاوہ لوگوں کی نگاہ، خلافت کے لیے کسی اور کی جانب نہیں اٹھ سکتی تھی۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ اتفاق رائے سے امیر المؤمنین چن لیے گئے۔

حضرت علیؓ کا انتخاب افراتفری کے زمانے میں ہوا تھا تاہم اس میں بھی مشاورت ہی نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔

درج بالا حقائق سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ خلفائے راشدین کے انتخاب میں اصولاً ایک ہی طریقے کی پیروی کی گئی اور وہ مشاورت کا طریقہ تھا۔

سوال: آج دنیا میں جمہوریت کے مختلف ماڈل کام کر رہے ہیں۔ ان ماڈلوں اور اسلام کے تصور شورائیت میں کیا بنیادی فرق ہیں۔

جواب: حالات کے اعتبار سے کوئی بھی ماڈل اختیار کیا جا سکتا ہے ، تاہم اسلامی تصور شورائیت میں مال ودولت بڑ ے یا سب سے بڑ ے عامل کی حیثیت حاصل نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ ہر وہ سسٹم جس میں امیدوار یاپارٹی کے لیے رقم کا حصول سب سے بڑ ا مقصد بن جائے ، غلط ہے۔ لہٰذا اس سسٹم سے پیسے کا عمل دخل بالکل ختم ہونا چاہیے۔ (البقرہ 247:2)

سوال: ایک اسلامی ریاست اور ایک غیر مسلم جمہوری فلاحی ریاست میں بنیادی فرق کیا ہوتا ہے ؟

جواب : ایک اسلامی ریاست اپنے عوا م کو وہ تمام سہولیات اور حقوق بہم پہنچانے کی مکلف ہے ، جواُن حکمرانوں پر وہی پابندیاں عائد ہوں گی جو ایک جمہوری فلاحی ریاست کے حکمرانوں پر عائد ہوتی ہیں۔ البتہ اُن پر اضافی ذمہ داریاں یہ ہیں کہ وہ نماز وزکواۃ کا اہتمام کریں گے ، مشترک اچھی باتوں کی حکومت کی سطح پر زیادہ سے زیادہ رواج دیں گے ، اور مشترک غلط باتوں سے حکومت کی سطح پر لوگوں کو منع کریں گے۔

سوال: خلافت کے کیا معنی ہے ؟

جواب: یوں تو خلافت کے معنی نہایت اور جان نشینی کے بھی ہیں ، لیکن قرآن مجید میں لفظ خلیفہ، ایک خودمختار و با اختیار مخلوق کے طور پر آیا ہے۔ اس حیثیت سے مسلمانوں کے با اختیار سربراہ کو بھی خلیفہ کہا جاتا ہے۔ تاہم خلیفہ کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے۔ اس کے بجائے امیر المؤمنین، صدر، وزیراعظم یا دوسرے مترادف بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے لیے امیر المؤ منین کا لفظ ہی پسند فرمایا تھا۔

سوال: خلافت علی منہاج النبوۃ کا کیا مطلب ہے ؟

جواب: مسلمانوں کی آزادانہ مرضی سے مقرر شدہ ہر وہ حکومت، جس میں اسلامی ریاست کی تمام خوبیاں پائی جا سکیں اور وہ قرآن وسنت کے سامنے ہر معاملے میں سرخم کر تسلیم دے ، خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کہلاتی ہے۔

سوال: کیا اسلام میں سیاسی جماعتوں کی گنجائش ہے ؟

جواب: خلفائے راشدین کے دور میں قریش وانصار، ایک اعتبار سے ، سیاسی گروہ ہی تھے۔ مسلمان آپس میں مختلف وقتی معاملات میں ایک دوسرے سے مختلف نقطہ نظر رکھ سکتے ہیں۔ وہ اس نقطہ نظر کے حق میں دوسروں کو قائل کرسکتے ہیں اور اس غرض کے لیے سیاسی گروہ بنا کر انتخاب میں حصہ بھی لے سکتے ہیں۔

سوال: کون سے لوگ اسلامی ریاست کے شہری ہو سکتے ہیں ؟ کیا غیر مسلم بھی اسلامی ریاست کے شہری ہو سکتے ہیں ؟

جواب: اسلامی ریاست کے شہری دو قسم کے لوگ ہو سکتے ہیں :

ایک وہ جو مسلمان کی حیثیت سے ، کم ازکم تین شرطیں پوری کر کے ، اس مملکت کے شہری بنیں۔ یعنی یہ کہ کلمہ طیبہ کا اقرار کریں۔ حضورﷺ کے طریقے پر امت کے ساتھ نماز پڑ ھیں اور زکواۃ ادا کریں۔ (سورہ التوبہ11:9)

دوسرے وہ غیر مسلم جو کسی معاہدے کے نتیجے میں اس ریاست کے شہری بنیں۔ جیسے حضورﷺ نے یہودیوں سے میثاق مدینہ کیا۔ جب یہ لوگ پوری طرح مان لیں کہ اس ریاست کا اجتماع نظام قرآن وسنت کی بنیاد پر ملے گا اور وہ اس بنیاد کو چیلنج نہیں کریں گے ، تو باہمی معاہدے کے تحت، انہیں سب انسانی حقوق دئے جائیں گے۔

سوال: اسلامی ریاست کے شہریوں کے کیا فرائض ہیں ؟

جواب: اسلامی ریاست اپنے شہریوں کو، مثبت طور پر، صرف زکواۃ میں پابند کرسکتی ہے اس کے علاوہ ان پر اور کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ البتہ ہر جرم(مثلاً قتل، چوری، بدکاری وغیرہ) سے ، بزور روک بھی سکتی ہے اور خلاف ورزی پر سزا بھی دے سکتی ہے۔ (سورہ التوبہ11:9)

ریاست کے اعتبار سے شہریوں کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ نظم ریاست کی اطاعت کریں ، یعنی اس کے وفادار ہیں۔ حضورﷺ نے اس نظم ریاست الجماعۃ، السلطان اور جماعت المسلمین کے نام سے تعبیر کیا ہے اور ہر مسلمان کو پابند کیا ہے کہ وہ اس سے ، کسی حال میں بھی الگ نہ ہو۔ حضورﷺ نے فرمایا:

’’جس نے اپنی امیر کی طرف سے کوئی ناپسندیدہ بات دیکھی، اسے چاہیے کہ صبر کرے ، کیونکہ جو ایک بالشت بھر بھی مسلمانوں کے نظم اجتماعی سے الگ ہوا اور اسی حالت میں مرگیا، اس کی موت جاہلیت پر ہوئیں۔ ‘‘

ایک دوسری روایت میں نظم اجتماعی کی جگہ السلطان یعنی اقتدار کے الفاظ آئے ہیں۔ شہریوں کا یہ بھی فرق ہے کہ وہ قانون کے پابند رہیں۔ اگر ان کو کسی قانون سے اختلاف ہو، تب بھی ان پر لاز م ہے کہ وہ اس کی پابندی کریں۔ حضورﷺ نے فرمایا:

’’تم پر لازم ہے کہ تم اپنے اولوالامر کے ساتھ سمع واطاعت کا رویہ رکھو: چاہے تم مشکل میں ہو، یا آسانی میں۔ چاہے یہ رضا ورغبت کے ساتھ ہو یا بے دلی کے ساتھ۔ اور اس کے باوجود بھی کہ تمہارا حق تمہیں نہ پہنچے۔ ‘‘ (مسلم، کتاب الامارہ)

شہریوں کا ایک فرض یہ بھی ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کے ساتھ خیرخواہی کا رویہ اختیار کریں۔ حضورﷺ نے فرمایا:

’’دین خیر خواہی ہے ، اللہ کے لیے ، اس کے رسول کے لیے ، مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے اور ان کے عوام کے لیے۔ ‘‘ (بخاری، کتاب الایمان)

اس خیرخواہی کا تقاضا ہے کہ شہری ریاست کے مفاد کے خلاف کوئی کام نہ کریں اور ریاستی معاملات میں صحیح مشورہ دیں۔ وہ ہر وقت اس بات پر نگران رہیں کہ ریاست، اور اس کے کارکنان، اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے راستے سے منحرف نہ ہونے پائیں۔ اگر وہ حکمرانوں کو کوئی غلط کام کرتے دیکھیں ، تو انہیں اس کام سے پُرامن طور پر روکنے کی کوشش کریں۔

رسول اللہ ﷺ نے ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے کو سب سے بڑ ا جہاد قرار دیا ہے۔ شہریوں کا ایک فرض یہ بھی ہے کہ اگر ریاست ہنگامی حالات میں دین وملت کی ضرورتوں کے لیے کسی مالی قربانی کا تقاضا کرے ، تو اپنی ضرورت سے زیادہ جو کچھ بھی ان کے پاس ہو، وہ فراخ دلی کے ساتھ ریاست کو پیش کریں۔ سورہ بقرہ میں ارشاد ہے :

’’وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ اس طرح کے موقعوں پر کیا خرچ کرے ؟ ان سے کہہ دوکہ ضرورت سے زیادہ جو کچھ ہو، وہ دے دو۔ ‘‘(سورہ بقرہ219:2)

شہریوں کا ایک فرض یہ بھی ہے کہ اگر ریاست ان کو جہاد وقتال کے لیے بلائے ، تو وہ بغیر کسی تردد کے اپنی جانیں ، اس کے حوالے کر دے۔ (سورہ التوبہ38:9)

سوال: اسلامی ریاست کے شہریوں کے حقوق کیا ہے ؟

جواب: اگر اسلامی ریاست کے شہری جرم نہ کریں ، نماز کا اہتمام کریں اور ریاست کو زکواۃ ادا کریں ، تو ان کا حق ہے کہ ان کے جان ومال اور آبرو پر کوئی زیادتی نہ کی جائے۔ کسی شخص کی آزادی سلب نہ کی جائے۔ ہر ملزم کو کھلی عدالت میں صفائی کا پورا موقع دیا جائے۔ کسی بھی شخص کو کوئی خاص فکر، رائے ، نقطہ نظر، پیشہ، لباس یا طرزعمل اختیار کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ قانون کی نظر میں سب مساوی اور معاشرتی لحاظ سے برابر ہوں۔ ہر سائل ومحروم کو تمام بنیادی ضروریات زندگی لازماً فراہم کی جائیں اور ان کے لیے ریاست کے ذمہ داروں کے دروازے شب وروز کھلے رہیں۔ (سورہ التوبہ 9: 5- 11)

نبی کریم ﷺ کے درج ذیل فرامین اس سلسلے میں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں :

’’تمہارے مال، تمہاری جانیں اور تمہاری آبروئیں ، تم پر حرام ہیں۔ لوگو، سنو کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت ہے اور نہ کسی عجمی کو عربی پر۔ نہ کوئی گورا کالے سے افضل ہے اور نہ کوئی کالا گورے سے۔ یہ صرف تقویٰ ہے جو باعث فضیلت ہونا چاہیے۔ ‘‘

’’تم میں سے پہلی قوموں کے لوگ اس وجہ سے ہلاک ہوئے کہ وہ کم حیثیت کے لوگوں پر سزائیں نافذ کرتے تھے ، لیکن بڑ ی حیثیت والوں کو چھوڑ دیتے تھے۔ اس پروردگار کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، اگر (میری بیٹی) فاطمہ بھی یہ جرم کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘

’’جس نے ذمہ داریوں کا کوئی بار چھوڑ ا تو(ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے ) وہ میرے ذمہ ہے اور جس نے مال چھوڑ ا تو وہ اس کے وارثوں کا حق ہے۔ جس کا کوئی وارث نہیں ، اس کا البتہ میں وارث ہوں۔ اس کی طرف سے دیت ادا کروں گا اور اس کی میراث لوں گا‘‘۔

سوال: اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں کے کیا حقوق ہیں ؟

جواب: آج پوری اسلامی دنیا میں جتنے غیر مسلم رہتے ہیں ان کی حیثیت معاہد کی ہے۔ معاہد کا مطلب ہے وہ لوگ جو باقاعدہ آئین کے تحت کسی ملک کے شہری بنے ہوں۔

معاہد کی حیثیت سے ان کے ساتھ آئین وقانون میں ، ان غیر مسلموں کی رضامندی سے جو کچھ بھی طے ہوجائے ، اس پر عمل کرنا لازم ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا، ’’خبردار جوشخص بھی کسی معاہدپر ظلم کرے گا، یا اس کے حقوق میں کمی کرے گا، یا اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ اس پر ڈالے گا، یا اس کی رضامندی کے بغیر کوئی چیز اس سے لے گا، اس کے خلاف قیامت کے دن میں خود استغاثہ کروں گا‘‘۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد)

رسول کریمﷺ کا یہ فرمان قرآن مجید کی ہدایت اوفو بالعقود پر مبنی ہے۔

البتہ اس کے ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ غیر مسلم صدق دل کے ساتھ مسلمانوں کی اکثریتی ملک میں قرآن وسنت کو مملکت کے قانون کی بنیاد کی حیثیت سے مانیں گے۔

گویا ایک اسلامی ریاست میں اعلیٰ ترین کلیدی عہدے (مثلاً وزارت عظمیٰ) پر فائز ہونے سوا غیر مسلموں اور مسلمانوں کے حقوق بالکل برا بر ہیں۔

سوال: کیا غیر مسلم شہریوں کو و وٹ اور امور مملکت میں شراکت کا حق دیا جا سکتا ہے ؟

جواب :اسلامی حکومت اپنے حالات کے مطابق اور غیر مسلموں سے معاہدے کے تحت ان کو ہر وہ حق دے سکتی ہے جس سے ریاست کے مسلمان شہریوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔

سوال: موجودہ دور میں مسلمان حکومتیں حددرجہ عملی اور نظریاتی کمزوریوں میں مبتلا ہے۔ ان کمزوریوں کے اعتبار سے مسلمانوں کی حکومتیں کتنی قسموں کی ہو سکتی ہیں ؟

جواب: مسلمان حکومتیں غیر معیاری یا واضح ظلم کا ارتکاب کرنے والی بھی ہو سکتی ہیں۔ غیر معیاری مسلمان حکومت وہ ہوتی ہے ، جہاں حکمران دین کے تقاضوں سے غفلت برتنے ہوں۔ فسق وفجور میں آلودہ ہوں اور اقامت صلواۃ اور زکواۃ کی طرف سے غافل ہوں ، تاہم اپنے شہریوں پر بزور غلط اعمال وعقائد کو مسلط نہ کرتے ہو۔

واضح ظلم کفر کا ارتکاب کرنے والی مسلمان حکومت وہ ہوتی ہے جو یا تو خود ایسا کام کرے جو واضح کفر ہو، مثلاً وہ شراب اور سود کو حلال کہے یا اپنے باشندوں پر بزور کوئی غلط کام مسلط کرنا چاہے۔

اِس وقت عالم اسلام کی حکومتیں غیر معیاری ہیں ، مگر ا ن میں سے کوئی بھی واضح کفر کا ارتکا ب نہیں کر رہیں۔

سوال: غیر معیاری، الجامعۃ، کے ضمن میں اطاعت کی حدود کیا ہیں ؟

جواب: غیر معیاری حکمرانوں کے متعلق دین کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ کوئی اچھا کام کریں ، تو ان سے تعاون کیا جائے اور اگر وہ برا کام کریں تو ان سے علیحدہ رہا جائے۔

 ارشادربانی ہے :

’’نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرو اور گناہ اور برائیوں کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔‘‘ (المائدہ 2:5)

اپنے حکمرانوں کی جو باتیں آپ کو ناگوار گزریں ، ان پر صبر کریں تاہم ان کی اطاعت سے نہ نکلیں اور ان کی خیر خواہی کریں۔ ان کی خیر خواہی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان کے سامنے کلمہ حق کہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا:

’’جسے اپنے امیر کی کوئی بات ناگوار گزرے ، اسے چاہیے کہ صبر کرے ، کیونکہ جو ایک بالشت کے برابر بھی اقتدار کی اطاعت سے نکلا اور اسی حالت میں مرگیا اس کی موت جاہلیت پر ہو گی (یعنی اس نے غلط کام کا ارتکاب کیا)۔‘‘ (طبرانی 161:112)

’’دین خیر خواہی کا نام ہے ، اللہ کے لیے ، رسول کے لیے ، عام مسلمانوں کے لیے اوران کے حکمرانوں کے لیے۔ ‘‘ (بخاری: کتاب الایمان)

’’بہترین جہاد ظالم حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔ ‘‘ (مسند احمد ، ج 4، ص19)

’’میرے بعد ایسے امرا ہوں گے جو وقت بے وقت نماز پرھیں گے ، تم ان کے ساتھ نماز پڑ ھتے رہو۔ اگر وہ وقت پر نماز پڑ ھیں گے ، توانہیں اور تمہیں اس کا ثواب مل جائے گا اور اگر وہ تاخیر کریں گے تو تمہیں ثواب مل جائے گا اور ان کے لیے اس کا وبال ہو گا۔اس لیے کہ جو الجماعۃ (نظم ریاست) سے الگ ہوا اور اسی حالت میں مرگیا وہ جاہلیت کی حالت میں مرا۔‘‘

سوال: واضح ظلم یا کفر کا ارتکاب کرنے والی الجماعت کے ضمن میں اطاعت کی حدود کیا ہیں ؟

جواب :ایسی حکومت کے بارے میں دین کی ہدایت یہ ہے کہ اگر وہ گناہ یا کفر کا حکم دیں تو اس خصوصی معاملے میں ان کی بات نہ مانی جائے۔ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’خدا کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں۔ ‘‘ (مسلم، کتاب الامارہ)

’’اہل ایمان پر واجب ہے کہ خواہ انہیں پسند ہو یا نا پسند، وہ بہرحال اپنے حکمرانوں کی بات سنیں اور مانیں ، ماسوائے اس کے کہ انہیں کسی گناہ کا حکم دیا جائے۔ پھر اگر گناہ کا حکم دیا گیا تو ان کے لیے سننا اور ماننا ضروری نہیں۔ ‘‘ (مسند احمد، ج3، ص281)

عبادہ بن صامدؓ فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے ہمیں بیعت کے لیے بلایا اور ہم سے اس بات پر بیعت لی کہ ہم اپنے حکمران سے نہ جھگڑ یں گے ، سوائے اس صورت کے کہ اس کی طرف سے کسی کھلے کفر کا ارتکاب ہوتا دیکھ لیں اور کفر بھی ایسا کہ جس کے بارے میں اللہ کی طرف سے واضح دلیل ہو۔

گویا ایسے حکمرانوں کی عام معاملات میں تو اطاعت کی جائے گی، تاہم وہ جس معاملے میں گناہ یا کفر کا حکم دیں گے ، وہاں ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔

اس سے ضمنی طور پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسے مسلمان حکمران اور مسلمان حکومتیں بھی ہو سکتی ہیں جو اپنی رعایا کو معصیت کا حکم دیں یا واضح کفر کا ارتکاب کریں۔

یہاں اتنی رعایت بھی مسلمانوں کو دی گئی ہے کہ اگر ان کے دل ایمان پر پوری طرح مطمین ہوں اور حکمران اپنے ظلم وجبر کی وجہ سے ان سے کوئی غلط کام کروالیں تو اللہ کی طرف سے رخصت کا دروازہ کھلا ہے۔ قرآن مجید میں یہ رعایت کمزور مسلمانوں کو دی گئی ہے۔ حضورﷺ نے اسی کی تشریح میں فرمایا:

’’میری امت سے وہ گناہ اٹھا لیے گئے ہیں ، جو بھول چوک یا جبر کے سبب ان سے کروالیے جائیں۔ ‘‘ (بخاری، کتاب الحدود)

تاہم عزیمت کا راستہ اطاعت نہ کرنے کا راستہ ہی ہے۔

سوال: کیا واضح کفر کا ارتکاب کرنے والی حکومت کی اطاعت سے نکلنا لازم ہے ؟

جواب: رسولﷺ نے مسلمانوں کو یہ حکم نہیں دیا کہ وہ ایسی حکومت کی اطاعت سے لازماً ہی نکلیں۔ اس کے بجائے حضورﷺ نے یہ فرمایا کہ پھر مسلمانوں کے لیے ان کی اطاعت کرنا ضروری نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ اس معاشرے میں نیک مسلمانوں کے پاس قوت موجود نہ ہو اور وہ، عملاً کوئی مزاحمت کرہی نہ سکیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس معاشرے میں نیک مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہو اور عامۃ المسلمین فسق وفجور کے دلدادہ اور عقائد واعمال کے لحاظ سے کفر وشرک میں آلودہ ہوں۔ اس صورت میں اگر نیک مسلمان لوگ حکومت کی اطاعت سے نکلیں گے ، تو حکومت ان کو بھی ختم کر دے گی۔ اس طرح معاشرے میں دین کی دعوت اور دین کے کام کے لیے افراد مزید کم ہوجائیں گے اور دعوت دین کے راستے بند ہوجائیں گے۔

سوال: کفر کا ارتکاب کرنے والے حکمرانوں کو اتنے بڑ ے جرم کے بعد بھی الجماعۃ کیوں کہا گیا جاتا ہے ؟

جواب: اس کی چار بڑ ی بڑ ی وجوہات درج ذیل ہیں :

1 اس لیے کہ اپنے فسق وفجور اور کفر وشرک کے باوجود، وہ زبانی ایمان کا اقرار کرتے ہیں اور نماز وزکواۃ کا انکار نہیں کرتے۔

2 اس لیے کہ ایک مسلمان خواہ جتنا بھی بگڑ ا ہوا کیوں نہ ہو، بہرحال اسے اچھائی کے راستے پر لانا ایک غیر مسلم کو مسلمان بنانے سے کہیں زیادہ آسان ہے ، اسی طرح ایک بگڑ ے ہوئے مسلمان معاشرے میں اصلاح کی کوشش کرنا ایک غیر مسلم معاشرے کو مسلمان بنانے کی نسبت زیادہ آسان ہے۔ بعینہ اسی طرح ایک بگڑ ے ہوئے مسلمان حکمران، اس کے خاندان اور اس کی پارٹی کے اندر دینی محبت بیدار کرنے کا امکان ہر وقت موجود ہے۔

3 یہ بھی ممکن ہے کہ دنیا میں غیر مسلم طاقتیں اتنی زیادہ مضبوط اور غالب ہوں کہ ان کے مقابلے میں ان مسلمانوں کی موجودگی بھی غنیمت ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر ان بگڑ ے ہوئے مسلمانوں کی حکومت بھی ختم ہوجائے تو دنیا میں یہودیوں ، عیسائیوں اور مشرکوں کے مقابلے میں کوئی مزاحمت باقی نہ رہے۔

4 اگر بگڑ ے ہوئے مسلمانوں کے خلاف صالح لوگوں کی بغاوت لازم قرار دی جائے تو مسلمانوں کی آپس کی خانہ جنگی سے اردگرد کی غیر مسلم طاقتیں فائدہ اٹھا کر، مسلمانوں کو اپنا غلام بنا سکتی ہیں۔ اس طرح بد سے بدتر، بلکہ بدترین ہوتے چلے جائیں گے۔ امت مسلمہ کی چودہ سوسالہ تاریخ درج بالاعقائد پر گواہ ہے۔

سوال: کیا غیر معیاری اور کفر بواح کا ارتکاب کرنے والی حکومتوں کی اصلاح لازم ہے ؟

جواب: ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ وہ حکمرانوں ، با اثر لوگوں اور عامۃ المسلمین کی اصلاح کے لیے کوشش کرے۔ قرآن مجید نے حکم دیا ہے کہ اللہ کے دین کو جہاں بھی مشکلیں اور خطرات پیش آجائیں۔ اللہ کے دین پر عمل نہ ہورہا ہو تو وہاں ہر فرد، اپنی صلاحیتوں اور استطاعت کے مطابق، دعوت دین کا کام کرے ، یعنی دین کی مدد کرے۔

سوال: یہ اصلاح کیسے کی جا سکتی ہے ؟

جواب: اس اصلاح کے درج ذیل تین طریقے ہیں اور تینوں ہی جائز ہیں :

1 انفرادی: انفرادی طور پر دین کی دعوت پھیلانا لوگوں کی تعلیم وتربیت کا انتظام کرنا، دین کے عالم پیدا کرنا، با اثر طبقات کو توجہ دلانا، حکمرانوں (یا مستقبل کے حکمرانوں ) کو دین کی طرف راغب کرنے کی جدوجہد کرنا، یا کسی بھی طریقے سے دین کی خدمت کرنا۔

ہماری امت کی تاریخ میں نناوے فیصد علماء وصلحا نے ، انفرادی طور پر ہی نصرتِ دین کا کام کیا ہے۔ اکثر ائمہ، تمام محدثین اور اس امت کے تمام جلیل القدر کے علماء کاکام اس کی واضح مثالیں ہیں۔

2 ادارہ: ادارے کی طرز پر دین کے کسی پہلو کی خدمت انجام دینا، جیسے امام ابوحنیفہ نے فقہ کے لیے اپنے شاگردوں پر مشتمل ادارہ بنایا۔ علم کے حصول کے لیے ہر درس گاہ بھی، دراصل ایک ادارہ ہی ہوتا ہے۔

3 اجتماعی: دین کی شرح و وضاحت اور اس کی دعوت کے لیے ، ایک گروہ بنا کر، پُرامن اجتماعی جدوجہد کرنابھی بالکل جائز ہے۔

سوال: کیا واضح کفر کا ارتکاب کرنے والے حکومتوں کے خلاف عملی اقدام یا مسلح جدوجہد بھی ہو سکتی ہے ؟

جواب :اگر کسی ملک میں مکمل طور پر انارکی کا دور دورہ ہوجائے اور حکومت نام کی کوئی چیز نہ رہے تو عقل عام کا تقاضہ یہ ہے کہ طاقت ور لوگ آگے بڑ ھ کرامن قائم کریں۔

سوال: کیا مسلح جدوجہد کسی وقت لازم بھی ہوجاتی ہے ؟

جواب: اگر کسی ملک میں مکمل طور پر انارکی کا دور دورہ ہوجائے اور حکومت نام کی کوئی چیز نہ رہے تو عقل عام کا تقاضہ یہ ہے کہ طاقت ور لوگ آگے بڑ ھ کر امن قائم کریں۔

سوال: کیا ایک جمہوری مسلمان ملک کے اندر واضح کفر کا ارتکاب کرنے والی حکومتوں یا غیر معیاری حکومتوں کے خلاف عملی اقدام یا مسلح جدوجہدجائز ہے ؟

جواب: ایک جمہور ی مسلمان ملک میں حکمران، عوام کے جائز نمائندے ہوتے ہیں ، اوروہ ان کی آزادانہ وامرھم شوری بینھم کے طریقے سے منتخب ہوتے ہیں۔ چونکہ ایک جمہوری مسلمان ملک میں دعوت کے ذریعے سے با اثر طبقات اور عوام کو، قائل کر کے حکومت کی اصلاح کا راستہ ہروقت کھلا ہوتا ہے ، اس لیے ایسے ممالک میں کسی عملی اقدام یا مسلح جدوجہد کی اجازت نہیں۔ ایسی ریاستوں میں سچے اہل ایمان، حالات کے اعتبار، کوئی بھی پرامن حکمت عملی اپنا سکتے ہیں۔ وہ حالات کے مطابق حکمرانوں یا کسی سیاسی جماعت سے کچھ شرائط بھی منوا سکتے ہیں۔ کسی سے اتحاد بھی کرسکتے ہیں اور دین کے مفاد کی خاطر کسی حکومت میں شرکت بھی کرسکتے ہیں۔

سوال: ایک جمہوری مسلمان ملک کے اندر اسلامی اجتماعی جدوجہد کی حدود کیا ہیں ؟

جواب: یہ جدوجہد بالکل پرامن ہونی چاہیے کیونکہ اختیار واقتدار کے بغیر غیر مسلموں کے خلاف بھی کسی اقدام کی اجازت نہیں ہے۔ یہ جدوجہد سب مسلمانوں ، ان کی سیاسی پارٹیوں اور ان کے حکمرانوں کومسلمان مان کر کرہی ہونی چاہیے ، اس لیے کہ خدا نے ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دی کہ ہم انہیں غیر مسلم اور طاغوت قرار دیں۔ یہ جدوجہد ، خالصتاً دعوت کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ کیونکہ ہم تو خیرخواہی کرنے والے اور تذکیر کرنے والے ہیں۔ (سورہ الغاشیہ22-21:88) اس دعوت کا اصل رخ معاشرے کے بالادست اور با اثر طبقات کی طرف ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں بالادست اور با اثر طبقات ہی اصل تبدیلی لاتے ہیں۔

سوال: اگرسچے اہل ایمان کو اختیار واقتدار کے بغیر کسی عملی اقدام یا نہی عن المنکر کی اجازت نہیں ، تو پھر اس روایت کا کیا مطلب ہے۔ کہ تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے ، اسے چاہیے کہ وہ ہاتھ سے اس کا ازالہ کرے۔ اگر اس کی ہمت نہ ہوتو زبان سے روکے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو دل سے اسے ناگوار سمجھے اور یہ ایمان کا ادنیٰ ترین درجہ ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان)

جواب: اصول یہ ہے کہ ہر روایت کو قرآن مجید ہی کی روشنی میں سمجھنا لازم ہے۔ حضورﷺ کے ہاتھ میں جب تک مدینہ میں اختیار واقتدار نہیں آیا تھا۔ اس وقت تک مکہ میں آپ نے کسی بھی برائی کا ازالہ ہاتھ سے نہیں کیا اور نہ اس کے خلاف کوئی عملی اقدام کیا۔ کیا اس وقت وہ (معاذاللہ) ایمان کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز نہیں تھے ؟ ظاہر ہے کہ یوں نہیں تھا بلکہ اختیار واقتدارکے بغیر حضورﷺ کوقرآن مجید کا حکم تھا کہ اپنے ہاتھ باندھے رکھو۔ انہیں کہا گیا۔:’’پس تم یاددہانی کراتے جاؤ، اس لیے کہ تم ایک یاددہانی کرانے والے ہو۔ تم ان پر داروغہ نہیں ہو۔‘‘(الغاشیہ 88: 21-22)

پس درج بالا روایت صرف انسان کے دائرہ اختیار کے اندر ہی اس پر یہ چیزیں لازم ٹھہراتی ہے گویا ان لم یستطع کے الفاظ اس روایت میں استطاعت کے لیے استعمال نہیں ہوئے ، جو آدمی کو کسی چیز کا مکلف ٹھہراتی ہے۔ بلکہ ہمت اور حوصلے کے معنی استعمال ہوئے ہیں ، جو ایمان کی قوت اور کمزوری سے کم یا زیادہ ہوتا ہے۔ گویا یہ روایت انسان کو، بحیثیت ناظمِ ادارہ اور حکمران، اس کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ اس لیے حضورﷺ نے فرمایا:

’’آگاہ رہو کہ تم میں سے ہر شخص چرواہا بنادیا گیا ہے اور ہر ایک سے اس کے گلہ کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارہ)

سوال: ایک جمہوری مسلمان ملک کے اندر کسی اسلامی تنظیم کی بنیادیں کیا ہونی چاہئیں ؟

جواب: قرآن وسنت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی اصل بنیادیں دو ہوتی ہیں : ایک یہ کہ اتفاق رائے یا اکثریت سے تنظیم کا جو ڈھانچہ وجود میں آئے ، اس کی پابندی کی جائے ، (اوفو بالعقود)۔ دوسری یہ کہ تنظیم کی بنیاد اخوت ومحبت کے دینی تعلق پر رکھی جائے جیسے کہ حضورﷺ نے مکی دور میں اپنے خاندان کے سامنے دعوت رکھتے ہوئے اس کا تقاضا کیا تھا۔

چونکہ ’’اطاعت فی المعروف‘‘ ہمارے دین میں صرف حکمرانوں کے لیے خاص ہے ، حضورﷺ نے حکمران بننے سے پہلے کسی سے سمع واطاعت کی بیعت نہیں لی، اس لیے کسی اسلامی تنظیم کے سربراہ کے لیے سمع واطاعت کا عہد لینا، اور اپنے کارکنوں کو گوں نا گوں قسم کی جکڑ بندیوں اور کیڈرز میں تقسیم کرنا غلط ہے۔

سوال: کیا ایک بگڑ ی ہوئی جمہوری ریاست کے باشعور مسلمان، انتخابات کے ذریعے سے برسراقتدار آنے کی کوشش کرسکتے ہیں ؟ ایسی کوشش کی شرائط کیا ہیں ؟

جواب: کسی سوسائٹی کے حکمرانوں اور عوام میں حقیقی فطری اور عملی تبدیلی اسی وقت رونما ہو سکتی ہے جب معاشرے کے بالادست طبقات میں فکری تبدیلی آجائے۔ اس لیے سب پیغمبروں نے اپنے وقت کے بالادست طبقے ، کو سب سے پہلے مخاطب کیا ہے۔ چنانچہ جتنے حساس مسلمان، بالادست طبقے (Elite Class) میں کام کرسکتے ہوں ، وہ اس طبقے میں تبدیلی لانے کی کوشش کریں۔ جب اس طبقے کی ایک بڑ ی تعداد فکری اور ذہنی طور پر، دین کو اپنا مرکز ومحور اور سب سے بڑ ی ترجیح قرار دے ، تب انتخاب میں حصہ لینا مفید ہو سکتا ہے۔

مطلوبہ قوت کے حصول تک یہ ممکن ہے کہ معاشرے کے صحیح تجزیے اور معاشرے کی بالادست سیاسی قوتوں کی آویزش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسی حکمت عملی اپنائی جائے جس کے نتیجے میں ، ہر انتخاب کے موقعے پر دین کی کچھ نہ کچھ فکری اور عملی پیش رفت جاری رہے۔

سوال:جو لوگ بالادست طبقات میں دین کی دعوت کا کام نہ کرسکتے ہوں ، وہ کیا کریں ؟

جواب: ایک عام انسان کے متعلق دین کا حکم یہ ہے کہ اسے ایمان اور صحیح عمل کے ساتھ ساتھ، اپنے گردوپیش میں حق بات کی دعوت دینی اور اس پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ (العصر 3:103)گویا دعوت ہر انسان کو ، اپنے گھر، اپنے خاندان، دفتر، ہمسایوں ، محلہ اور جہاں جہاں بھی اس کا گردوپیش ہو، میں دینی چاہیے۔ اسے قرآن مجید امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی کہتا ہے یعنی صحیح بات کی دعوت دینا اور غلط کاموں سے روکنے کی نصیحت کرنا۔

جہاں تک اہل علم کا تعلق ہے ، ان کے بارے میں دین کا حکم یہ ہے کہ وہ اپنے پورے علاقے میں ، جہاں تک ان کا بس چلے ، لوگوں کو دین سکھانے اور انذار وتذکیر کا فرض انجام دیں۔ (سورہ التوبہ22:9)

سوال: جن مسلمان ممالک میں شاہی، فوجی یا کوئی اور جبر کا نظام ہے ، وہاں باشعور مسلمانوں کو کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے ؟

جواب: ایسے ممالک میں ہر باشعور مسلمان کو، اپنے حالات کے لحاظ سے ، اپنے طبقے میں اور جہاں تک اس کی رسائی ہو وہاں تک خالص دین کی دعوت کاکام کرنا چاہیے۔ ان ممالک میں خیرخواہی کی بنیاد پر، اگر موقع ملے ، تو حکمرانوں کو کلمہ حق کہنا چاہیے اور انہیں اسلام کے تقاضے پورے کرنے پر آمادہ کرنا چاہیے۔

رسولﷺ نے فرمایا:

’’بہت دن نہیں گزریں گے کہ تم پر وہ لوگ حکومت کریں گے ، جن کے ہاتھ میں تمہاری روزی ہو گی۔ وہ تم سے کچھ کہیں گے تو جھوٹ کہیں گے اور کام کریں گے تو برے کام کریں گے۔ وہ تم سے اس وقت تک خوش نہ ہوں گے ، جب تک تم ان کی برائیوں کی تعریف نہ کرو اور ان کے جھوٹ کی تصدیق نہ کرو۔ اس وقت تمہارا فرض ہے کہ ان کے سامنے حق پیش کرو، جب تک وہ حکمران اسے گوارا کرے۔ پھر اگر وہ حکمران اس سے تجاوز کرے ، تو جو شخص بھی اس میں قتل کیا جائے ، وہ شہید ہے۔ ‘‘(کنزالعمال ، ج 6، ص296)

سوال: اگر کسی مسلمان ملک میں سیاسی خلفشار یا فتنہ وفساد جنم لے ، حتیٰ کہ بالکل لاقانونیت ہوجائے ، تو ایک باشعور مسلمان کو کیا کرنا چاہیے ؟

جواب: سیاسی خلفشار اور فتہ وفساد کے زمانے میں دین کی ہدایت یہ ہے کہ کسی مسلمان کو نظم اجتماعی کے خلاف کسی اقدام میں نہ صرف یہ کہ شریک نہیں ہونا چاہیے ، بلکہ پوری وفاداری کے ساتھ اسے وابستہ رہنا چاہیے۔ حضرت حزیفہؓ نے جب رسول ﷺ سے اس طرح کی صورت حال کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا:

’’مسلمانوں کے نظم اجتماعی اور اس کے سربراہ کا التزام کرو۔‘‘

اور اگر کہیں حکومت کا وجود بالکل ہی ختم ہوجائے توعام مسلمان کو چاہیے کہ تمام متحارب گروہوں سے علیحدہ ہوجائے ، تاکہ ان کی طاقت دم توڑ جائے۔

سوال: غیر مسلم ممالک کے اندر دینی دعوت پھیلانے کا کیاطریقہ ہے ؟

جواب: ایک عام مسلمان اس کا مکلف نہیں ہے۔ اس کی ذمہ داری پوری امت کے اجتماعی، سیاسی نظم یا مسلم ممالک کے حکمرانوں پر ہے ، جن کو پروردگارنے ’’ شہادت علی الناس‘‘ یعنی دنیا بھر کے مسلمانوں پر، دین کی دعوت برپا کرنے کا مکلف ٹھہرایا ہے۔ (البقرہ143:2، الحج78:22، آل عمران110:3)

جب تک امت کا اجتماعی سیاسی نظم یہ کام نہیں کرتا، اس وقت تک غیر مسلم ممالک میں بسنے والے یاوہاں تجارت، تعلیم وسیاحت کے لیے جانے والے مسلمانوں کا فرض ہے کہ تواصی بالحق اور نصرتِ دین کے تحت وہاں اپنے گردوپیش میں دین کی دعوت دیں۔

سوال: ایک جمہوری مسلم ملک میں ، انتخابات کے موقع پر انفرادی طور پر ایک باشعور مسلمان کو کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے ؟

جواب: ہر باشعور مسلمان کو چاہیے کہ انتخابات سے پہلے سیاسی طاقتوں کو اس کی طرف متوجہ کرے کہ پیش آمدہ حالات کے مطابق ایک ایسی حکمت عملی اپنائیں جس سے اچھائی کے لیے پیش رفت ممکن ہو۔

اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر وہ خود ہی فیصلہ کرے کہ کون سی حکمت عملی مناسب ہے۔ پھر اس حکمت عملی کے تحت وہ اپنے رائے کا استعمال کرے۔ اگر اس کی یہ مجبوری ہو کہ اسے صرف انتہائی برے امیدواروں کے درمیان میں فیصلہ کرنا ہوتو اُن میں سے کمتر برے فرد کے حق میں اپنا و وٹ استعمال کرسکتا ہے۔

سوال: جہاد کا کیا مطلب ہے ؟

جواب: جہاد کے معنی تو صرف جدوجہد کرنے کے ہیں۔ اسی حیثیت سے دین کے راستے میں جدوجہد کرنا اور دین کی مدد کرنا ہر فرد پر لازم ہے۔

تاہم جہاد بعض اوقات قتال کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے ، یعنی مسلح جنگ۔

سوال: قتال کی کتنی قسمیں ہیں اور ان کی کیا شرائط ہیں ؟

جواب: قتال کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں :

ایک وہ قتال جس کے مکلف حضورﷺ بحیثیت رسول تھے۔ اس کے تحت آپ نے بنو اسماعیل سے شرک کا خاتمہ کیا، جزیرہ نمائے عرب کو اسلام کے زیرنگیں کیا۔ اور بیت اللہ سے شرک وبت پرستی کی جڑ ہمیشہ کے لیے کاٹ دی۔

دوم، ظلم کے خلاف قتال، یعنی دنیا میں جہاں جہاں مسلمان دشمنوں کے ہاتھوں ظلم وستم کا شکار ہوں ، یا کسی مسلمان ملک پر حملہ کیا جائے تو ان کی مدد کی جائے اور انہیں ظلم وستم سے نکالا جائے۔ (النساء75:4، الانفال72:8)

قتال کی شرائط کئی ہیں مگر ان میں تین بہت اہم ہیں : پہلی شرط یہ ہے کہ قتال کا اعلان صرف اور صرف ایک ریاست ہی کرسکتی ہے۔ کوئی فرد یا سیاسی اختیار واقتدار سے تہی دست تنظیم قتال کا اعلان کرنے کی مجاز نہیں۔ اس لیے کہ قتال کی اجازت، ریاست مدینہ بننے کے بعد دی گئی۔(الانفال 8: 38- 39، 61- 62)

دوم یہ کہ اسلامی حکومت افرادی اور اسلحی قوت کے لحاظ سے قتال کی استطاعت رکھتی ہو۔ صحابہ کرامؓ کے زمانے میں مسلمانوں کا ایمان اس درجے میں تھا کہ پہلے ایک اور دس اور پھر ایک کی نسبت دو کی طاقت بھی کافی تھی۔

سوم یہ کہ جن ملکوں سے معاہدہ امن ہو، ان کے خلاف اعلان جنگ کی اجازت نہیں۔ کسی ایسی غیر مسلم حکومت، جہاں اسلام کی دعوت دینے اور کسی فردکے اسلام قبول کرنے پر رکاوٹ نہ ہو، کے خلاف قتال جائز نہیں۔ گویا موجودہ زمانے کی جمہوری غیر مسلم ریاستوں میں خالصتاً پرامن ذرائع سے دین کی دعوت کاکام کیا جانا چاہیے۔ (البقرہ256:2، الکہف29:18، العاشیہ22,21:88)

سوال : اگر کوئی مسلمان حکومت، ہمسایہ غلام مسلم ملک کو آزاد کرنے کے لیے ، یا مسلمانوں پر کافروں کی طرف سے ظلم وستم روکنے کے لیے جنگ نہ کرے ، تو کیا حکومت کی اجاز ت کے بغیر مسلمان حکومت کے باشندے قتال کے لیے جا سکتے ہیں ؟

جواب: افراد یا رضاکار گروہ، اپنی حیثیتوں میں قتال کے مکلف ومجاز نہیں ہیں۔ اس کے بجائے وہ اپنی حکومتوں کو اس کی طرف متوجہ کریں اور ان کی وضع کردہ حکمت عملی کا اتباع کریں اس لیے کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں فساد اور انتشار پھیلے گا۔

سوال: ایک مسلمان حکومت کو اپنے غیر مسلم ہمسایہ ممالک سے کیسے تعلقات رکھنے چاہئیں ؟

جواب: جو غیر مسلم ممالک اپنے ہمسایہ مسلم ملک کے ساتھ صلح آشتی اور عدل وانصاف کے اصولوں کے ساتھ رہنا چاہئیں ، ان کے بارے میں دین کی یہی ہدایت ہے کہ ان کے ساتھ امن ومعاہدے کے ساتھ تعلقات رکھے جائیں۔ (سورہ البقرہ192:2)

سوال: کیا غیر معیاری اور کفر بواح کا ارتکاب کرنے والے حکمران اسلام سے خارج نہیں ہوجاتے۔ اس لیے کہ سورۃ مائدہ کے مطابق جو لوگ قانونِ خداوندی کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں ، ظالم ہیں ، فاسق ہیں۔

جواب: ان تمام آیات میں۔ ۔ ۔’’لا‘‘ کے بجائے ’’لم‘‘ کا لفظ آیا ہے ، جس کے معنی سرکشی، بغاوت اور جان بوجھ کر کسی چیز کو نہ ماننے کے ہیں۔ کسی مجبوری یا انسانی کمزوری کے تحت کسی کام کو انجام نہ دینا اس کے تحت نہیں آتا۔ مسلم دنیا کے حکمران عام طور پر اسی کیٹیگری سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہٰذا ان کو کافر قرار دینے کے بجائے ان کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔

سوال: کہا جاتا ہے کہ حضورﷺ کے زمانے میں تنخواہ دار فوج کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اس لیے آج جو فوج تنخواہ لے کر جنگ کرتی ہے یہ قتال فی سبیل اللہ نہیں ؟

جواب : قرآن مجید میں اس بات پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی کہ فوج کو تنخواہ نہ دی جائے۔ یہ تمدنی ارتقا اور حالات پر منحصر امر ہے۔ یہ بات بھی غلط ہے کہ حضورﷺ کے زمانے میں فوجیوں کو کچھ نہیں دیا جاتا تھا۔ اس وقت کا معروف طریقہ افواج کو مال غنیمت سے حصہ دینا تھا۔ وہ اس وقت کے تمدنی حالات کے لحاظ سے حضور ﷺنے اس طریقہ میں کوئی تبدیلی نہ کی۔

ایک مسلمان ریاست کے فوجی جواں اپنے علم، ہنر ، تربیت اور وقت کے استعمال کی تنخواہ لیتے ہیں۔ اپنی جان وخالصتاً اپنے رب کے حضور پیش کرتے ہیں اس لیے کہ جان ہتھیلی پر رکھنے کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔

(جہاد وقتال کے موضوع پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو، راقم کی کتاب ’’جہاد وقتال۔ چند اہم مباحث‘‘)۔

B