پندرہواں باب
طہارت
سوال: اسلام میں طہارت کی کیا اہمیت ہے ؟
جواب: طہارت و پاکیزگی انسان کی فطری ضرورت ہے اور اسی لئے اس کا احساس انسان کی فطرت میں ہے۔ اسلام انسان کی اسی فطرت کو مزید جلابخشتے ہوئے اسے نہ صرف خود پاکیزہ رہنے کی تلقین کرتا ہے بلکہ پورے معاشرے کو اخلاقی ومعاشرتی لحاظ سے پاکیزہ بننے پرزور دیتا ہے۔ اسی لئے نبی ﷺ نے فرمایا کہ’’پاکیزگی آدھا ایمان ہے ‘‘۔
سوال: کن چیزوں میں گندگی نجاست ہے ، جس سے اپنے بدن یا کپڑ ے کو پاک رکھنا ضروری ہے ؟
جواب: ہر وہ چیز جس سے انسانی طبیعت، فطرتی طور پر کراہت محسوس کرے ، گندگی ہے۔ مثلاً انسان یا جانور کا پیشاب وپاخانہ، انسان کا مادئہ تولید یا اس نوعیت کی دوسری رطوبتیں مثلاً قے وغیرہ۔اس طرح کی چیزوں سے اپنا بدن اور کپڑ وں کو پاک رکھنا ضروری ہے۔
سوال: بعض چیزیں خالصتاً صفائی کے کام آتی ہیں ، مثلاً ڈرائی کلینر میں الکوحل استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض خوشبوؤں میں معیار اور خوشبو کا اثر قائم رکھنے کے لئے بھی الکوحل استعمال کیا جاتا ہے۔ کیا یہ استعمال ناجائز ہے ؟
جواب: شراب کا پینا ناجائز ہے ، اس لئے کہ اس کے پینے سے نشہ طاری ہوتا ہے۔ صفائی یا خوشبو کے لئے اس کے استعمال میں کوئی ہرج نہیں۔
سوال: گندگی کو بدن یا کپڑ وں سے کیسے دور کیا جائے ؟
جواب: گندگی دور کرنے والی اصل چیز پانی ہے۔ اس کے ساتھ ہر وہ چیز استعمال کی جا سکتی ہے ، جو تمدنی حالات کے مطابق ہو۔مثلاً ایک زمانے میں مٹی کو بدن یا کپڑ وں پر ملا جاتا تھا یا پانی میں بیری کے پتے ڈالے جاتے تھے۔ آج ان کی جگہ صابن، شیمپو، ڈیٹرجنٹ پاؤڈر اور مختلف خوشبویات نے لے لی ہے۔
سوال: گندگی دور کرنے کے لئے کون سا پانی استعمال کیا جا سکتا ہے ؟
جواب: پہلا اصول یہ ہے کہ ہر پانی پاک ہے ، جب تک اس کے گندہ ہونے کا یقین نہ ہو جائے۔ دوسرا یہ کہ کسی علاقے یا تمدن کے لوگ جس پانی سے ، عام طور پر، منہ ہاتھ دھوتے یا نہاتے ہو، وہی پانی صفائی، وضو اور غسل کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس، جس معاشرے کے لوگ جس پانی سے ، عام طورپر منہ ہاتھ دھوتے یا غسل کرنا پسند نہ کرتے ہوں ، اس پانی کو صفائی، وضو یا غسل کے لئے استعمال نہ کریں۔ اسی طرح سمندر کا پانی بھی پاک ہے۔ اگر پانی میں تھوڑ ی سی نجاست ملی ہوئی ہو تو اس کو بھی بحیثیت ضرورت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جانوروں کا جھوٹا اور کسی کے استعمال کے بعد بچا ہوا پانی بھی پاک ہے۔
یہ تمام تفصیلات حضور ﷺ سے مختلف روایات میں نقل کی گئی ہیں۔ یہ سب روایات دراصل فطرت کا بیان ہیں۔
سوال: رفع حاجت کے بعد اپنے آپ کو کیسے پاک کیا جائے ؟
جواب: ہر وہ چیز جس سے گندگی دور ہو سکتی ہو، اس کا ستعمال جائز ہے مثلاً مٹی کا ڈھیلا، پتھر ، ٹشو پیپر یا پانی۔آج کے دور میں ٹشو پیپر استعمال کرنے کے بعد اگر پانی سے استنجا کیا جائے تو بہتر ہے۔ رفع حاجت کے بعد صابن سے ہاتھ دھولینا بھی اچھا ہے۔
سوال: بعض اوقات پیشاب کرتے ہوئے انسان کو احساس ہوتا ہے کہ کچھ چھینٹے کپڑ وں یا بدن کی طرف بھی آ گئے ہیں۔ اس صورت میں پاکیزگی کیسے حاصل کی جائے ؟
جواب: کپڑ وں یا بدن کے کسی حصے کے بارے میں یہ شک ہوتو اس جگہ پر پانی کے چھینٹے مار دیے جائیں۔ بس یہی کافی ہے۔
سوال: وضو کیسے کیا جائے ؟وضو کب تک قائم رہتا ہے اور کن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟
جواب: وضو کا طریقہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ (سورہ المائدہ 6:5)جس کے مطابق پورے اہتمام کے ساتھ چہرہ دھونا، کہنیوں تک ہاتھ دھونا، پورے سرکا مسح کرنا اور پاؤں ٹخنوں تک دھونا لازم ہے۔
حضور ﷺ نے ہمیں اس پر عمل کر کے دکھایا کہ ہر دوسرے کام کی طرح، وضو سے پہلے بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑ ھنی چاہیے۔ وضو سے پہلے ہاتھ دھونے چاہییں۔ چہرہ دھونے میں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا بھی شامل ہے۔ سب اعضاء کو اچھی طرح دھونا چاہیے اور پہلے داہنے عضو کو دھونا چاہیے۔
ہر نماز کے لئے وضو کرنا باعث ثواب ہے ، تاہم جب تک وضو قائم ہے تو ہر دفعہ تازہ وضو کی ضرورت نہیں ہے۔
ہوا کے اخراج، پیشاب کرنے اور پاخانہ کی جگہ سے کوئی اور رطوبت نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور نیا وضو لازم ہو جاتا ہے۔ مادئہ توتالید کے اخراج یا جماع کرنے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ، تاہم اس صورت میں غسل بھی لازم ہوجاتا ہے۔
اگر کوئی فرد یوں سویا ہو کہ اس کو اپنی طہارت کے بارے میں پورا یقین ہو(مثلاً بیٹھے بیٹھے اونگھ جانا)تو اس کو دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم اگر کوئی فرد گہری نیند سو گیا ہو، تو اس صورت میں ممکن ہے کہ اس کی ہوا خارج ہوگئی ہو، اس لئے اسے دوبارہ وضو کرنا چاہیے۔
معمولی شک کی صورت میں دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں ، البتہ گمان غالب کی صورت میں وضو کر لینا چاہیے۔ چند چیزوں کے بارے میں اہل علم کا آپس میں اختلاف ہے۔ اس میں ہمیں جس طرح نقطئہ نظر سے اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ خون کے بہنے ، قے یا نکسیر پھوٹنے ، کھانا کھانے ، عورت کو چھونے یا نماز کے دوران قہقہہ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔البتہ کھانا کھانے کے بعد، نماز سے پہلے کلی کرنی چاہیے۔ اور اگر ضرورت ہو تو منہ ہاتھ دھولینا چاہیے۔
سوال: غسل کب لازم ہوتا ہے اور اس کا طریقہ کیا ہے ؟
جواب: حالت جنابت میں غسل لازم ہو جاتا ہے۔ حالت جنابت کی ایک صورت جماع ہے ، خواہ اس میں مادئہ تولیدخارج ہو یا نہ ہو۔اس کی دوسری صورت جماع کے بغیر، شہوت کے ساتھ ، مادئہ تولید کا نکلنا ہے (مثلاً احتلام ہونا)۔خواتین کے لئے حیض و نفاس کا خون بند ہونے پر غسل لازم ہے۔
اس کے علاوہ جمعہ، عیدین، عرفات کے دن اور کسی غیر مسلم کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے پر بھی غسل کی فضیلت ہے ، مگر لازم نہیں۔
غسل کا بنیا دی طریقہ تو یہ ہے کہ وضو کے ساتھ ساتھ ، سارے بدن کو اچھی طرح دھو لیا جائے اس سے غسل کا مقصد پورا ہو جائے گا۔تاہم غسل کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ پہلے ہاتھ دھو لیجیے اس کے بعد جن جگہوں پر گندگی لگی ہو، انہیں بائیں ہاتھ سے دھو لیجیے ، پھر پاؤں دھوئے بغیر پورا وضو کر لیجیے پھر اچھی طرح اپنے بال اور سارا جسم دھو لیجیے۔ اس کے بعد آخر میں پاؤں دھو لیجیے۔
سوال: تیمم کب کیا جا سکتا ہے اور اس کاطریقہ کیا ہے ؟
جواب: تیمم، دراصل پاکیزگی کا ایک علامتی اظہار ہے۔ اللہ نے ہمیں اجازت دی ہے کہ جس بیماری میں پانی کا استعمال نقصان دہ ہو، یا مریض کے لئے وضو کرنا محال ہو، پانی کی قلت ہو، یا انسان سفر میں ہو، تو وضو یا غسل کی ضرورت کے وقت وہ صرف تیمم کر کے طہارت حاصل کر سکتا ہے۔ تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ پاک مٹی پر یا کسی بھی غبار آلود چیز (جھاڑ نے سے پہلے ہر چیز غبار آلود ہی ہوتی ہے )پر ہاتھ مار کر ایک دفعہ منہ پر پھیر لیا جائے اور ایک ایک دفعہ کہنیوں تک دونوں ہاتھوں سے پھیرا جائے۔
سوال: مسح کیا چیز ہے اور کہاں کہاں مسح کیا جا سکتا ہے ؟
جواب: اگر کسی زخم کو پانی سے بچانا ضروری ہو تو وضو یا غسل میں اس کے اوپر صرف ہلکا گیلا ہاتھ پھیرنا کافی ہے۔ اسی طرح اگر وضو یا غسل کے بعد پاؤں میں موزے یا جراب پہن لئے جائیں ، تو پانچ نمازوں تک ان کی طہارت باقی رہتی ہے اور وضو کے وقت، ان پر صرف مسح کرنا کافی ہے۔ حالت سفر میں تو تین شب وروز تک بھی جراب یا موزوں پر مسح کیا جا سکتا ہے۔ اگر سر پر ٹوپی یا پگڑ ی ہو، تو اس کے اوپر بھی مسح جائز ہے۔
سوال: کیا ہر قسم کی جرابوں پر مسح جائز ہے ، یا اس کی کچھ شرائط ہیں ؟
جواب: اس ضمن میں دو نقطئہ نظرہیں :ایک یہ کہ صرف ان موزوں اورجرابوں پر مسح جائز ہے ، جو پانی کے اثرات سے محفوظ (Water proof)اور کافی سخت ہوں۔ جبکہ دوسرا نقطئہ نظر یہ ہے کہ ایسی کوئی پابندی حضور ﷺ سے منقول نہیں ہے ، بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ مسح کی اجازت دینے سے حضورﷺ کا مقصد انسان کو مزید تکلیف میں مبتلا کرنانہیں ، بلکہ اسے آسانی فراہم کرنا ہے۔ اس لئے ہر طرح کی جرابوں پر مسح جائز ہے ، ہمیں اسی دوسرے نقطئہ نظر سے اتفاق ہے۔
مردوں کے خصوصی مسائل
سوال: بعض لوگوں کو پیشاب کے بعد کچھ دیر قطرے بہنے کی شکایت ہوتی ہے۔ اس صورت میں کپڑ ے اور بدن کیسے پاکیزہ رکھے جائیں ؟
جواب: ایسے تمام مواقع پر قرآن مجید کا مستقل اصول یہ ہے کہ اللہ نفس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، اس لئے بہتر ہو گا کہ ایسے افراد پیشاب کے بعد پانی سے استنجا کریں اور بعد میں وضو کرتے ہوئے بدن کے متاثرہ حصوں پر پانی کے چھینٹے مار دیں۔ ہر دفعہ بدن اور کپڑ ے دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ یہ بیماری نہیں ، بلکہ ایک عام حالت ہے۔ بعض لوگ شرم گاہ کو خشک کرنے کے لئے بہت دیر لگاتے ہیں۔ اس عمل سے اس رطوبت میں کمی کے بجائے مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اس لئے شرم گاہ کو صرف چند سیکنڈ کے لئے خشک کرنا چاہیے اور فوری طور پر پانی سے دھونا چاہیے۔
سوال: بعض لوگوں کو مسلسل ہوا نکلنے کی شکایت ہوتی ہے۔ اسی طرح بعض عمر رسیدہ افرادکو مسلسل پیشاب کے قطرے آنے کی شکایت ہوتی ہے۔ اس حالت میں کب تک وضو قائم رہتا ہے ؟
جواب: ایسے افراد کو ہر نماز کے لئے وضو کرنا چاہیے۔ البتہ جب وہ ایک دفعہ وضو کر لیں تو نماز کے احتتام تک ان کا وضو قائم رہتا ہے ، خواہ ان کی تکلیف جاری رہے۔
اگر وضو کرنے میں کوئی اور امر مانع ہو تو تیمم بھی کیا جا سکتا ہے۔ ایسے لوگوں کو کپڑ ے بھی بار بار دھونے کی ضرورت نہیں۔ متاثرہ حصوں پر پانی کے کچھ چھینٹے مار لینا ہی کافی ہے۔
سوال: دیہاتی علاقوں میں بعض لوگ پیشاب کرنے کے بعد، لوگوں کے سامنے بھی شرم گاہ خشک کرتے رہتے ہیں۔ یہ کیسا فعل ہے ؟
جواب: یہ بے حیائی ہے اور پروردگار نے ہر طرح کی بے حیائی سے منع کیا ہے۔
سوال: بعض اوقات، بغیر کسی جنسی ہیجان کے ، رفع حاجت کے وقت یا ویسے ہی، کچھ گاڑ ھے قطرے نکل جاتے ہیں کیا اس سے غسل لازم ہو جاتا ہے ؟
جواب: اس سے غسل لازم نہیں ہوتا۔(یہ بھی جان لینا چاہیے کہ یہ کوئی بیماری نہیں ، اس لئے اس سے فکر مند ہونے کی بھی کوئی ضرورت نہیں )۔
سوال: بعض اوقات، جنسی ہیجان کے ساتھ، بغیر جماع کے ، شرم گاہ پر ہلکی سی رطوبت آ جاتی ہے۔ کیا اس سے غسل لازم ہوتا ہے ؟
جواب: اس سے بھی غسل لازم نہیں ہوتا۔
سوال: کیا ایک جوان لیکن غیر شادی شدہ فرد کے لئے جنسی ہیجان کی شدت کم کرنے کے لئے استمنا (ہاتھ سے منی نکالنا)جائز ہے ؟
جواب: اس ضمن میں تین نقطئہ نظر ہیں : ایک یہ کہ یہ فعل ناجائز ہے۔ اس لئے کہ قرآن مجید میں بیوی اور ملک یمین کے علاوہ ہر جنسی فعل سے منع کیا گیا ہے۔ (یہ موقف امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ)دوسرا موقف یہ ہے کہ یہ ایک نامناسب فعل ہے ، لیکن اگر زنا یا ہم جنسیت سے بچنے کی خاطر کیا جائے تو امید ہے کہ مواخذہ نہیں ہو گا(یہ موقف امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے اور یہ عقل عام پر مبنی ہے )۔تیسرا موقف یہ ہے کہ یہ بالکل جائز ہے اس لئے کہ استمنا بالید، ملک یمین سے ادنیٰ چیز ہے اور اگر اس کی اجازت ہے تو اس کی بھی اجازت بھی ہونی چاہیے۔ قرآن مجید میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، اُن کا اطلاق اس پر نہیں ہوتا۔(یہ موقف امام احمد حنبل اور امام بن حزم کا ہے )دینی رجحان رکھنے والے ماہرین نفسیات، دوسرے اور تیسرے موقف کو انسانی نفسیات کے مطابق قرار دیتے ہیں۔ بہرحال یہ حرام و حلال کے درجے کی چیز نہیں ہے ، بلکہ عام انسانی اخلاقیات کی نوعیت کا مسئلہ ہے۔
سوال: اگر بیوی کے حیض کا خون بند ہو چکا ہو، مگر اس نے ابھی غسل نہ کیا ہو تو کیا جماع جائز ہے ؟
جواب: قرآن مجیدسے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بہتر یہ ہے کہ بیوی کے غسل کر لینے کے بعد ہی یہ تعلق قائم کیا جائے۔ (سورہ البقرہ 222:2) تاہم عورت سے قربت کی ممانعت کی اصل وجہ، چونکہ خون ہے ، اس لئے خون بند ہونے کے بعد، نہائے بغیر بھی مقاربت جائز ہے۔
خواتین کے خصوصی مسائل
سوال: حیض کا کیا مطلب ہے ؟
جواب: حیض اس خون کو کہتے ہیں جو ہر مہینے ، چند روز کے لئے عورتوں کو آتا ہے۔ یہ بلوغت کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور چالیس، پینتالیس، حتیٰ کہ پچاس سال تک جاری رہتا ہے۔ عام طور پر اس کا دورانیہ چھ یا سات دن ہوتا ہے ، تاہم ہر عورت میں اس کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے۔
ان دونوں میں شوہر اپنی بیوی سے زن و شو کا تعلق قائم نہیں کر سکتا۔(سورہ البقرہ 222:2) البتہ روزمرہ زندگی کے باقی تمام تعلقات کو برقرار رکھا جائے گا۔
حیض کے دنوں میں ایک خاتون نماز نہیں پڑ ھے گی اور اس کی قضا بھی نہیں ہے۔ ان دونوں میں خواتین روزے بھی نہیں رکھیں گی، البتہ ان کی قضا وہ بعد میں پوری کر لیں۔ ان دنوں میں خواتین کے لئے قرآن مجید چھونا منع ہے۔ جب حیض مکمل طور پر ختم ہو جائے تو غسل کرنا لازم ہے۔
سوال۔: نفاس کیا چیز ہے ؟
جواب: نفاس اس خون کو کہتے ہیں جو بچے کی پیدائش یا حمل ساقط ہونے کے بعد خواتین کو آتا ہے۔ یہ عام طور پر بیس سے چالیس دن تک جاری رہتا ہے۔ اس دوران میں بھی ان تمام آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے ، جو حیض کے معاملے میں اوپر بیان ہوئے ہیں۔
جب نفاس کا خون مکمل طور پر بند ہو جائے تو غسل کر کے عبادات شروع کرنی چاہییں۔
سوال: استحاضہ کا کیا مطلب ہے ؟
جواب۔: بعض اوقات خواتین کو حیض و نفاس کے علاوہ بھی، مختلف بیماریوں میں خون یا دوسری رطوبتیں آتی ہیں۔ انہیں استحاضہ کہا جاتا ہے ، استحاضہ کے دوران میں نماز اور دوسری عبادات جائز ہیں۔
سوال: جس خاتون کو بیماری کے سبب سے خون آتا ہے ، اسے کیسے پتہ چلے گا کہ کب اس کا حیض شروع ہو گیا ہے ؟
جواب: عام طور پر خواتین استحاضہ اور حیض کے خون کی رنگت اور کثافت کے درمیان فرق کر سکتی ہے۔ حیض کا خون زیادہ گہرے رنگ کا اور گاڑ ھا ہوتا ہے۔ تاہم اگر وہ اس میں فرق نہ کر سکیں تو وہ اپنے دنوں کا حساب لگا لیں اور اس کے مطابق، جو بھی ان کے حیض کے دن آتے ہوں ، ان میں حیض کی پابندیاں اختیار کئے رہیں اور وہ دن ختم ہونے پر غسل کر کے نماز پڑ ھنا شروع کر دیں۔
سوال: جن خواتین کو لیکوریا کی شکایت ہو وہ طہارت کیسے حاصل کریں ؟
جواب: لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا کے اصول کے تحت ایسی خواتین کا وضو لیکوریا سے نہیں ٹوٹے گا۔
سوال: اگر کسی خاتون کو قرآن مجید کا کچھ حصہ یا اذکار زبانی یاد ہوں ، تو کیا وہ ایام حیض میں ان کو دہرا سکتی ہے ؟
جواب: اس ضمن میں دونقطئہ نظر ہیں :ایک یہ کہ حیض کے دوران میں زبانی بھی قرآن مجید نہیں پڑ ھنا چاہیے جبکہ دوسرا موقف (جو کہ امام مالک کا ہے )یہ ہے کہ اس دوران میں خاتون، اگر چاہے تو ذکر بھی کر سکتی ہے اور اس کو قرآن مجید کا جتنا حصہ زبانی یاد ہو، وہ بھی پڑ ھ سکتی ہے۔ ہمارا اطمینان اسی موقف پر ہے۔
سوال: حیض کے دوران میں بعض خواتین کو، بطور طالبہ یا بطور معلمہ، اسلامیات کی کتاب پڑ ھنی یا پڑ ھانی ہوتی ہے ، یا ان کو اسلامیات کا پرچہ حل کرنا ہوتا ہے ، کیا یہ جائز ہے ؟
جواب: چونکہ یہ بات ایک خاتون کے اختیار میں نہیں ہے اس لئے لا یکلف اللّٰہ نفسا الا وسعھا کے اصول کے تحت یہ جائز ہے۔
سوال: بعض خواتین نے ، سر کے بال اس طریقے سے گندھے ہوئے ہوتے ہیں ، یا مینڈھیاں بنائی ہوتی ہیں کہ غسل کے دوران میں ان کا کھولنا اور پھر بالوں کا بنانا مشکل ہوتا ہے۔ کیا اس ضمن میں کوئی رعایت ہے ؟
جواب: ایسی خواتین کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ بالوں کو کھولے بغیر ان پر پانی ڈال لیں۔