چودہواں باب
معاشرت
سوال: معاشرت سے کیا مراد کیا ہے ؟
جواب: پیدائش سے لے کر موت تک انسان کئی رشتوں اور تعلقات میں بندھا ہوتا ہے ، مثلاًبیٹا، بیٹی، ماں ، باپ اور میاں بیوی کا رشتہ یا ہمسائے ، دوست اور کاروبار کا تعلق، یا محلہ، گاؤں اور شہر کے اندر انسان کی حیثیت۔ ان سب کے مجموعے کو انسانی معاشرت کہا جاتا ہے۔
سوال: انسانی زندگی میں معاشرت کی کیا اہمیت ہے ؟
جواب: معاشرتی زندگی بسر کرنا انسان کی فطرت ہے۔ اس کے لئے اکیلے زندگی بسر کرنا ممکن نہیں ہے۔ دن اور رات کے چوبیس گھنٹے اور زندگی کے ماہ و سال انسان کو معاشرے کے اندر ہی گزارنے ہیں ، چنانچہ عملی لحاظ سے یہ اس کی زندگی کا اہم ترین حصہ بن جاتا ہے۔ چونکہ معاشرت انسان کی فطرت میں موجود ہے ، اس لئے معاشرے کے اصول و ضوابط بھی فطرت میں ہی پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام معاشروں میں بنیادی اصول وضابطے ایک جیسے ہیں۔ جب اور جہاں بھی ان اصول و ضوابط سے انحراف کیا جاتا ہے ، وہاں نتیجہ انتشار کی شکل میں نکلتا ہے۔
سوال: معاشرے کے بارے میں اسلام کا کیا تصور ہے ؟
جواب: اسلام نے معاشرے کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ وہ ایک پاکیزہ معاشرت وجود میں لانا چاہتا ہے ، جس میں ہم آہنگی، دلی سکون و اطمینان ہو، انصاف ہو اور جس میں انسانی فطرت کے تمام تقاضے ، اعتدال کے ساتھ، پورے کئے گئے ہوں۔ اس ضمن میں قرآن مجیدنے بہت سے احکام دیے ہیں۔
سوال: معاشرے کی بنیاد کیا ہے ؟
جواب: معاشرے کی بنیاد خاندان ہے۔ یہ بنیاد فطرت میں استوار ہے۔ چنانچہ ہر معاشرہ خاندان ہی کی بنیاد پر وجود میں آتا ہے اور خاندان ہی معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔
سوال: خاندان کیسے وجود میں آتا ہے ؟
جواب: خاندان، شوہر اور بیوی کے پاکیزہ اور محبت سے بھرپور رشتے سے وجود میں آتا ہے۔ مرد و عورت کے اس رشتے کی سب سے بڑ ی غرض وغایت قرآن مجید نے یہ بیان کی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے سکون و اطمینان اور محبت کی دولت حاصل کرتے ہیں۔ (سورہ الروم21:30، سورہ الاعراف189:7) مرد و عورت آپس میں نکاح کے ذریعے سے میاں بیوی بن جاتے ہیں ، اور اسی رشتے سے ، تمام رشتے وجود میں آتے ہیں۔
سوال: اسلام نے نکاح کا کیا تصور پیش کیا ہے ؟
جواب: اسلام کے مطابق نکاح، دراصل، ایک دوسرے کے ساتھ ساری زندگی گزرانے کا عہد ہے۔ چناچہ جس نکاح میں پختہ ارادہ نہ پایا جائے ، وہ نکاح نہیں ہے۔ نکاح کے لئے اعلان عام ہونا چاہیے ، تاکہ سارا معاشرہ جان لے کہ فلاں مرد و عورت اس رشتے میں بندھ گئے ہیں۔ اس رشتہ کے ذریعہ مرد یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کا پورا پورا خیال رکھے گا۔ چنانچہ اِس کی علامت کے طور پر مرد کے لیے عورت کو حقِ مہر ادا کرنا لازم ٹھہرایا گیا۔
نکاح کے ذریعے سے ، دراصل دو خاندان ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں ، اس لئے سب سے اچھی صورت حال یہ ہے کہ یہ رشتہ ہونے سے پہلے ، مرد و عورت کے خاندانوں اور مردو عورت میں ہم آہنگی ہو اور وہ سب اس رشتے سے راضی اور مطمئن ہوں۔ تاہم اگر کہیں یہ مثالی صورت حال ممکن نہ ہو، تو ایک مرد اپنی آزادانہ مرضی سے بھی نکاح کر سکتا ہے۔ جہاں تک عورت کا تعلق ہے تو اس کی مرضی کے بغیر اس کا ولی اس کا نکاح نہیں کر سکتا۔تنازعہ کی صورت میں وہ بھی اس معاملے میں خود مختار ہے۔
نکاح کے موقع پر سب اہل خاندان جمع ہوں۔ کم ازکم دو گوہوں کی موجودگی میں مردو عورت سے ، نہایت واضح الفاظ میں پوچھا جائے کہ کیا وہ اس نکاح پر راضی ہیں۔ اس کے بعد خاندان کا کوئی بزرگ یا کوئی بھی فردخطبہ نکاح میں رسول اللہ ﷺکی سنت کے مطابق، سورہ آل عمران آیت102، سورہ نساء آیت1اور سورہ احزاب آیت 70پڑ ھے۔ حسب موقع وعظ و نصیحت کی باتیں بھی کی جائیں اور شوہر کی طرف سے مہر کا اقرار کیا جائے۔
سوال: اسلام نے نکاح ادارے کے لئے جو اصول و ضوابط دیے ہیں۔ ان کی حکمت کیا ہے ؟
جواب: اس رشتے کی مضبوطی اور پائیداری پر سارے معاشرے کی مضبوطی اور پائیداری کا انحصار ہے ، اس لئے ہمارا دین اس رشتے کو ایک مضبوطی اور تقدس فراہم کرتا ہے۔ ایک طرف یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ مردو عورت ، محض وقتی جذباتیت کی بناء پر، ایک غلط فیصلہ کر لیں اور دوسری طرف یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ سارا اختیار دونوں کے خاندانوں کے پاس ہو اور مردو عورت سے ان کی رضامندی حاصل ہی نہ کی جائے۔
اس طرح اگر اسی رشتہ و تعلق کے شروع کرنے میں ساری زندگی گزارنے کا پختہ ارادہ نہ پایا جائے ، تو اس کے ٹو ٹنے سے معاشرہ بکھر جائے گا۔تاہم ہمارے دین نے ناگزیرحالات میں اس کے ٹوٹنے کی بھی اجازت دی ہے ، تاکہ اگر میاں بیوی میں نباہ نہ ہو سکے ، تو انھیں زندگی بھر مصیبت نہ سہنا پڑ ے۔
سوال: اسلام نے نکاح کے ادارے کی حفاظت کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں ؟
جواب: اس رشتے کی حفاظت کے لئے اسلام نے زنا پر پابندی لگائی ہے ، بلکہ اس کے قریب پھٹکنے سے بھی اہل ایمان کو منع کر دیا گیا ہے۔ معاشرے میں زندگی کے حقائق اور فطرت انسانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے ، مردوں اور عورتوں کے میل جول کے متعلق، آداب سکھائے گئے ہیں۔ ان آداب میں بعض پابندیاں ہیں اور بعض باتوں کا احساس دلایا گیا ہے ، جو انسان کے نفس کی پاکیزگی (یعنی تزکیہ)کے لئے ضروری ہیں۔ اس لئے معاشرے میں حیاء اور عفت کو ایک مستقل قدر کی حیثیت دی گئی ہے۔
سوال: شوہر پر، دین کی رو سے کون سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ؟
جواب: چونکہ میاں بیوی کی آپس کی محبت فطرت انسانی میں ہے ، اس لئے قرآن مجید نے ان دونوں کو ایک دوسرے کے لئے لباس کی مانند قرار دیا ہے۔ (سورہ البقرہ 187:2) اس ضمن میں دین کا حکم یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کی تمام جائز ضروریات کا خیال رکھے گا اور اسے کبھی تنگ نہیں کر ے گا۔(سورہ النسائ19:4) وہ اپنی بیوی پر ظلم نہیں کرے گا۔(سورہ البقرہ 2: 231-237) گھر کے تمام ا خراجات کو پورا کرنا بھی مرد کی ذمہ داری ہے۔ (سورہ النساء 4: 32-34) بیوی کی ملکیت یا اس کی کمائی پر شوہر کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
قرآن مجید یہ ہدایت بھی کرتا ہے کہ اگر کسی فرد کو اپنی بیوی کے اندر کمزوریاں اور نقائص نظر آئیں اور وہ کسی وجہ سے اسے ناپسند ہو، تب بھی اس کے ساتھ گزارا کرے ، اس لئے کہ خامیوں سے پاک کوئی بھی نہیں ہو سکتا۔(سورہ النساء19:4)
سوال: دین کی رو سے بیوی پر کون سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ؟
جواب: ایک بیوی کی سب بڑ ی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے شوہر کی وفادار رہے گی۔وہ اپنے شوہر اور گھر کے رازوں کی حفاظت کرے گی۔(سورہ النساء 34:4)وہ اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرے گی۔اور گھر کے اندر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دے گی، جو اس کے شوہر کو ناپسند ہو۔
سوال: خاندان کی سربراہی کس کے پاس ہے ؟
جواب: سربراہی صرف ایک حق نہیں ، بلکہ بہت بڑ ی ذمہ داری ہے۔ گھر کی تمام ضرویات پوری کرنا، ہر چیزکا خیال رکھنا اور گھر کی حفاظت اور مدافعت کرنا، سربراہ کی ذمہ داری ہے۔ چونکہ مرد کو پروردگار نے وہ خصوصیات دی ہیں جو سربراہی کے لئے ضروری ہیں ، مثلاً سخت جان ہونا، محنت و مشقت، معاشرے میں مقابلے کے لیے جذبہ مسابقت وغیرہ اور خاندان پر خرچ کرنا بھی اسی کے ذمے ہے ، اس لئے قرآن مجید نے شوہر کو خاندان کا سربراہ قرار دیا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی قرآن مجید نے یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ یہ کوئی وجہ فضیلت نہیں ہے۔ فضیلت کے اعتبار سے ممکن ہے کہ کوئی مرد درجے میں ، عورتوں سے زیادہ ہو اور ممکن ہے کوئی عورت درجے میں ، مردوں سے زیادہ ہو۔(سورہ النسائ32:4)
اس ضمن میں مزید تین باتیں بھی واضح ہونی چاہئیں۔ ایک یہ کہ قوامیت کے مسئلے کا تعلق صرف میاں بیوی کے رشتے سے ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ شوہر صرف اس صورت میں قوام ہو گا جب اسی کی کمائی پورے خاندان کے لئے خرچ ہو اور تیسری بات یہ ہے کہ یہ ایک معاشرتی ہدایت ہے ، کوئی قانونی معاملہ نہیں۔ یعنی اگر اس ہدایت پر عمل کیا جائے تو خاندان نسبتاً محفوظ اور مضبوط رہیں گے ورنہ قانونی اعتبار سے صورت یہ ہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان میں کوئی بڑ ا تنازعہ ہو جائے تو عدالت کے سامنے دونوں کی حیثیت برابر ہو گی اور وہاں برابری ہی کی بنیاد پر ثالثوں کے زریعے فیصلہ کیا جائے گا۔(النساء۔35:4)
سوال: خاندان کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے ایک شوہر اپنی بیوی پر کیا کچھ بالجبر نافذ کر سکتا ہے اور کیا کچھ نہیں کر سکتا؟
جواب: ہمارا دین ہم میں یہ مزاج پیدا کرنا چاہتا ہے کہ گھر کے اندر مکمل ہم آہنگی ، اتفاق اور خوشی ہو۔تمام فیصلے اور مشورے اتفاق رائے سے کئے جائیں۔ مردو عورت ایک دوسرے کی ہر وہ ضرورت ، جو وہ پوری کر سکتے ہوں ، پوری کریں۔ اور باہر کی طرف نظر بھی نہ اٹھائیں۔ اسلامی معاشرے کے برعکس ، مغربی معاشرے میں ایک مرد اور ایج عورت کو خود اپنی جگہ پر اکائی قرار دیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر خاندان وجود میں آبھی جائے ، تب بھی وہ نہایت پا پائیدار ہوتا ہے۔ ہر معاملے میں میاں بیوی کے درمیان جھگڑ ے چلتے رہتے ہیں اور بات بات پر علیحدگی تک نوبت جا پہنچتی ہے ، تا وقتیکہ مرد عورت خود ہی فطرت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کریں۔ دوسری طرف اسلام کی رو سے ہر خاندان ایک ننھی سی ریاست ہے ، جس میں ہر کام خوش اسلوبی اور معاملہ فہمی سے ہونا چاہیے ، تاہم آخری فیصلے کا اختیار کسی نہ کسی کے پاس تو ہونا چاہیے۔ اس لئے گھر کی تنظیم کے سلسلے میں جتنے بھی معاملات ہیں ، ان میں آخری فیصلے کا اختیار شوہر کو حاصل ہے۔ تاہم اُسے کوئی ویٹو پاور حاصل نہیں ہے۔ بے شک یہی مناسب ہے کہ کبھی شوہر اپنی بیوی کی بات مان لے اور کبھی بیوی اپنے شوہر کی بات مان لے۔ تاہم قرآن مجید نے بیوی کو اپنے شوہر سے اختلافات کا حق دیا ہے (النساء: 35:4)۔
مرد اپنی بیوی کے کسی ذاتی معاملے میں کوئی دخل اندازی نہیں کر سکتا۔(سورہ البقرہ228:2) مثلاًوہ بیوی کے مال پر کوئی حق نہیں رکھتا۔شوہر اسے کوئی خاص کپڑ اپہننے یا کوئی خاص کھانا کھانے پر مجبور نہیں کر سکتا۔وہ اسے اپنے قریبی رشتہ داروں سے ملاقات سے نہیں روک سکتا۔وہ اسے مسجد میں نماز پڑ ھنے سے نہیں روک سکتا۔گویا وہ سب امور، جو عرف عام میں کسی فرد کے ذاتی معاملات کہلاتے ہیں ، ان میں کوئی مرد اپنی عورت کو حکم نہیں دے سکتا۔رسول کریم ﷺ نے ان سب امور کو، مختلف مواقع پر، وضاحت سے بیان کر دیا ہے۔
تاہم دین کا مزاج یہ ہے کہ ان چیزوں میں بھی میاں بیوی ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کا خیال رکھیں ، کیونکہ مرد و عورت ایک دوسرے کے لباس ہیں۔ یہ ایک دوسرے کے عیبوں کو چھپاتے رہیں اور ان کا وجود ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہے۔ (سورہ البقرہ187:2)
سوال: ہمارے معاشرے میں خواتین ، بسا اوقات، اپنے شوہروں کے ظلم و ستم کا شکار ہوتی ہیں۔ ان بے جا پابندیاں عائد کی جاتی ہیں اور مارا پیٹا جاتا ہے۔ عام خیا ل یہ ہے کہ خود اسلام نے شوہروں کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ اپنی بیویوں کو مار سکتے ہیں۔ اس ضمن میں کیا حقیقت ہے ؟
جواب: یہ بات بالکل غلط ہے کہ اسلام نے مرد کو اپنی بیوی پر ہاتھ چلانے کی اجازت دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عام حالات میں ایک شوہر کو قطعاً یہ اجازت نہیں کہ وہ اپنی بیوی کو کوئی ایذا پہنچائے۔ البتہ صرف ایک صورت میں شوہر اپنی بیوی کے خلاف تادہی اقدام کر سکتا ہے۔ وہ صورت یہ ہے کہ جب ایک بیوی کھلی بغاوت پر اتر ائے۔ اورکسی دوسرے مرد میں دلچسپی لینے لگے۔ ایسی صورت میں قرآن مجید مردوں کو نصیحت کرتا ہے کہ وہ پہلے اپنی بیویوں کو اچھے طریقے سے سمجھانے کی کوشش کریں۔ اس سے بھی اصلاح نہ ہو تو شوہر اپنا بستر الگ کر لے۔ اس طرح عورت کو احساس ہو جائے گا کہ اسے بغاوت اور نافرمانی کی روش چھوڑ دینی چاہیے۔ اگر اس سے بھی فائدہ نہ ہو تو مرد کو یہ اجازت ہے کہ وہ احساس دلانے کی خاطر بیوی کو ہلکی ضرب بھی لگا سکتا ہے۔ (سورہ النساء 34:4) مگر یہ ضرب بالکل حد کے اندر ہونی چاہیے اور چہرے یا کسی نازک مقام پر نہیں لگنی چاہیے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام نے شوہر کو اجازت کیوں دی ہے ؟دراصل دین کا منشا یہ ہے کہ گھر کی سلطنت تباہ نہ ہونے پائے اور دوسری طرف گھر کی بات گھر ہی میں رہے۔
سوال: بعض اوقات شوہر اور بیوی کے درمیان ایسے نازک نکات کے بارے میں تنازع ہو جاتا ہے ، جس میں قا نونی انداز سے کوئی بات کہنا ممکن نہیں ہوتا۔مثلاً شوہر کہے کہ بیوی اپنے ماں باپ کے گھر میں اتنی زیادہ آمد و رفت رکھتی ہے کہ اس سے بچوں کی تعلیم و تربیت اور اس کے کاموں کا حرج ہو رہا ہے اور اس کے بر عکس بیوی کہے کہ وہ تو با لکل حداعتدال کے اندر آمد و رفت رکھتی ہے۔ ایسی صورت میں دین ان تنازعات کو حل کرنے کے لئے کیا طریقہ تجویز کرتا ہے ؟
جواب: ہمارے دین کا مزاج یہ ہے کہ ایسے تمام تنازعات گھر اور خاندان کے اندر حل کئے جائیں اور انہیں عدالتوں تک نہ لے جایا جائے۔ دونوں فریق ٹھنڈے دل سے ، اپنی اپنی غلطی خود دیکھنے کی کوشش کریں۔ ممکن ہو تو اکٹھے مشورہ کر کے ، اپنے کسی خیر خواہ کے سامنے مسئلہ کو رکھیں۔ اگر پھر بھی مسئلہ حل نہ ہو، توقرآن مجید کے حکم کے مطابق، مرد کے خاندان کی طرف سے ایک نمائندہ اور عورت کے خاندان کی طرف سے ایک نمائندہ مقرر کیا جائے ور وہ دونوں مل کر میاں بیوی کے درمیان موافقت کروائیں ، معاملہ حل کرائیں اور صلح کرادیں۔ (سورہ النساء35:4)
سوال: مہر کیا چیز ہے اور اس کی کیا مقدار ہے ؟
جواب: مہر، دراصل اس رقم کا نام ہے ، جوکہ زندگی بھر کفالت کی ذمہ داری اٹھانے والے مرد کی طرف سے ، اس موقع پر جبکہ ایک خاتون اس کی نکاح میں آ رہی ہے اور اسے اپنا مقام تسلیم کر کے ، اپنا آپ اس کے حوالے کر رہی ہے ، ادا کی جاتی ہے۔ دین نے ٹوکن کے طور پر یہ رقم لازم کی ہے ، تاکہ وہ اسے غیر معمولی حالات میں اپنی مرضی اور آسانی کے ساتھ استعمال کر سکے اور اس کے استعمال سے اس پر کوئی قدغن نہ ہو۔قرآن مجید نے اس کو بڑ ی اہمیت دی ہے اور دس مقامات پر اس کا ذکر آیا ہے۔ مہر کی رقم کا تعین نکاح کے موقع پر لازم ہے۔
مہر کی رقم کے سلسلے میں قرآن مجید کی ہدایت ہے کہ رقم کا تعین معاشرتی اور مالی حالات کے لحاظ سے کیا جائے۔ (سورہ النساء 4: 24-25)یہ رقم اتنی ضروری ہونی چاہیے کہ اس سے عورت کو احساس تحفظ ہو۔
باہمی رضامندی سے یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ رقم نکاح کے ساتھ، فوراً ہی(مہر معجل )شوہراپنی بیوی کو ادا کرے گا، یا وہ اس کا کچھ حصہ بعد میں (مہر موجل)اپنی بیوی کے مطالبے پر ادا کرے گا۔
بعد میں اگر بیوی چاہے تو اس مہر کا کچھ حصہ معاف بھی کر سکتی ہے۔ (سورہ البقرہ 2: 229-237)ہمارے معاشرے میں مہر کے متعلق یہ عام غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اس کی کوئی شرعی مقدار ہے ، جو بتیس روپے دس آنے بتائی جاتی ہے۔ در حقیقت ایسی کوئی مقدار دین میں نہیں ہے۔ یہ مقدار اور نگزیب عالمگیر کے زمانے میں علمانے ، لوگوں کی آسانی کے لئے ، بطور تجویز بیان کر دی تھی۔اس وقت کی وہ رقم آج کل کے لاکھوں روپوں کے برابر ہے ، اس لئے کہ اس زمانے میں ایک روپے میں چار تولے سونا آتا تھا۔
دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ اگر بیوی اپنے شوہر سے علیحدگی چاہے تو اسے مہر واپس کرنا ہو گا۔اصل معاملہ یوں ہے کہ بعض اوقات مہر کی رقم بڑ ی غیرحقیقت پسندانہ لکھ دی جاتی ہے۔ مثلاً شوہر کا آبائی گھر، اس کی ساری یا نصف جائیداد وغیرہ۔پھر جب میاں یا بیوی ایک دوسرے سے علیحدگی چاہتے ہیں تو اس غیر حقیقت پسندانہ مہر کی وجہ سے شوہر اپنی بیوی کو معلق رکھتا ہے ، کیونکہ علیحدگی کی صورت میں اسے اپنی ایک بڑ ی ملکیت سے ہاتھ دھونا پڑ تا ہے۔ ایسی صورت میں معاملے کو حل کرنے کے لئے قرآن مجید ہمیں ہدایت کرتا ہے کہ ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘پر سمجھوتا کیا جائے اور اباہمی رضامندی سے ایسی غیر حقیقت پسندانہ شرطوں کو اعتدال پر لایا جائے۔ (سورہ البقرہ229:2)
اگر نکاح ہو گیا ہے ، مگر رحصتی سے پہلے ہی طلاق ہو گئی ہے تو شوہر کو مہر کا نصف حصہ اپنی بیوی کو دینا ہو گا۔(سورہ البقرہ237:2)
سوال: ہمارے معاشرتی حالات کی وجہ سے عورتیں ، عام طور پر احساس عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ چناچہ کیا معاہدہ نکاح میں ایسی شرائط شامل کی سکتی ہیں جن سے ایک بیوی کو تحفظ کا احساس ہو۔مثلاً یہ کہ شوہر اپنی بیوی کو ماہانہ متعین رقم برائے ذاتی اخراجات دے گا، یا اگر بیوی ملازمت کر رہی ہے تو شوہر اسے ملازمت چھوڑ نے پر مجبور نہیں کرے گا۔بیوی کو علیحدہ رہنے کے لئے گھر دیا جائے گا، اگر شوہر بیوی کو طلاق دے گا تو اسے اس کے ساتھ ایک متعین رقم دینی پڑ ی گی۔شوہر دوسری شادی نہیں کرے گا، وغیرہ وغیرہ؟
جواب: نکاح ایک آزادانہ معاہدہ ہے جو ایک مرد اور عورت کے درمیان ہوتا ہے ، اس لئے اس ایسی تمام شرائط شامل کی جا سکتی ہیں ، بلکہ آج کے حالات میں یہ بات مناسب ہے کہ اس طرح کی شرائط معاہدہ نکاح میں شامل کی جائیں۔ تاہم اس ضمن میں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ میاں بیوی کا بنیادی کام اپنے بچوں کی تعلیم و ترنیت ہے ، اس لئے کوئی ایسی شرط نہیں رکھنی چاہیے ، جس سے اولاد کی تربیت کے اہم ترین مقصد کو نقصان پہنچے۔ (سورہ الاحقاف17-15:46، سورہ لقمان 31: 12-22)
سوال: اگر باپ یا دادا، کسی نابالغ لڑ کی کی طرف سے ، اس کا نکاح کر دیں تو کیا لڑ کی کو نابالغ ہونے پر نکاح رد کرنے یا قبول کرنے کا اختیار حاصل ہے ؟
جواب: یہ بات رسول اللہ ﷺ کے ارشادات سے باکل واضح ہے کہ کسیخاتون کی مرضی کے خلاف اس کی شادی نہیں کرائی جا سکتی۔اس لئے اگر کسی نابالغ لڑ کی کی منگنی یا نکاح اس کے باپ یا دادا کی طرف سے کر دیا گیا ہے تو بالغ ہو نے پر اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اس نکاح کو قبول کرے یا رد کر دے۔
موجودی حالات میں ، ہمارے خیال میں ، کسی فرد کو بھی اپنی بیٹی یا نواسی کا نکاح کمسنی کی حالت میں نہیں کرنا چاہیے ، کیونکہ اس سے ہمارے ماحول میں ، خصوصاً بعد میں ، بڑ ی پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔
سوال: کیا ایک مسلمان مرد یا عورت کسی غیر مسلم مرد یا عورت سے شادی کر سکتا ہے ؟
جواب: ایک مسلمان مرد کے لیے کسی مشرک عورت سے نکاح کرنا منع ہے۔ (سورہ البقرہ 221:2) البتہ ایک مسلمان مرد کسی پاک دامن اہل کتاب سے شادی کر سکتا ہے۔
مسلمان خواتین کے لئے کسی بھی غیر مسلم مرد سے شادی منع ہے ، خواہ وہ اہل کتاب ہو یا غیر اہل کتاب۔یہاں ذہن میں ایک چھوٹا سا سوال اٹھ سکتا ہے کہ کیا یہ عدم مساوات نہیں ہے کہ مسلمان مرد تو اہل کتاب خاتون سے شادی کر سکتا ہے ، مگر مسلمان عورت، اہل کیاب سے شادی نہیں کر سکتی۔اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمان تو اہل کتاب کے انبیاء اور ان کی کتابوں کی مکمل تعظیم و تصدیق کرتے ہیں ، اس لئے کسی مسلمان مرد کی طرف سے کسی اہل کتاب عورت کی دل آزاری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔لیکن ، چونکہ اہل کتاب حضور ﷺ کی رسالت تسلیم نہیں کرتے ، اس لئے یہ قوی اندیشہ ہے کہ اہل کتاب مرد اپنی مسلمان بیوی کے مذہبی جذبات کی پاسداری نہیں کرے گا۔
سوال: طلاق سے کیا مراد ہے ؟
جواب: اسلام کے مطابق، میاں بیوی کا رشتہ ایک مقدس اور بہت اہمیت کا حامل رشتہ ہے اور وہ چاہتا ہے کہ یہ رشتہ ہر ممکن حد تک برقرار رہے۔ تاہم بعض اوقات ایسی صورت حال جنم لیتی ہے ، جہاں شوہر اور بیوی کا نباہ ممکن نہیں رہتا۔مثلاً کوشش کے باوجود، طبیعتیں آپس میں نہیں ملتیں اور اس بنا پر اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں۔ دونوں فریق ایک دوسرے کی حق تلفی کرتے ہیں۔ غرض یہ کہ اس طرح کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ، جن میں علیحدگی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ایسی صورت میں اسلام یہ اجازت دیتا ہے کہ ایک اصول اور ضابطے کے مطابق، میاں بیوی اس بندھن سے آزاد ہو جائیں۔ تاہم یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہمارے دین میں طلاق ، حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز ہے۔
سوال: اسلام میں طلاق کا عملی طریقہ کیا ہے ؟
جواب:۔ اگر ایک مرد اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ حیض کے اندر طلاق نہ دے ، بلکہ ان دنوں کے گزرنے کے بعد، جب اس نے ابھی اپنی بیوی سے خلوت نہ کی ہو، اپنی بیوی کو ایک طلاق دے۔ اس طلاق کے بعد عورت ، مزید تین دفعہ حیض آنے تک ، اپنے شوہر کے گھر ہی ٹھہری رہے گی۔اس دوران میں مرد، عورت کی تمام ضروریات کا مکمل خیال رکھے گا۔اس دوران میں (جو اندازاً تین مہینے بنتی ہے )مرد اگر اپنی اس طلاق سے رجوع کرنا (لوٹنا)چاہے تو رجوع کر سکتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی بیوی سے اپنا منقطع تعلق بحال کر لے ، اور یہ دونوں میاں بیوی لی حیثیت سے دوبارہ زندگی گزارنے لگ جائیں۔
اگر تین حیض کی اس مدت کے دوران میں شوہر نے بیوی سے رجوع نہ کیا تو یہ مدت گزرنے کے بعد دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جائیں گے۔ اس علیحدگی کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے بعد، کسی وقت بھی، اگر یہ دونوں میاں بیوی بننا چاہیں تواپنی آزادانہ مرضی سے دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔
اگر دوسری دفعہ پھر کبھی زندگی میں شوہر اپنی بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ کر لے ، تو وہ دوبارہ اس طرح طلاق دے گا اور اسی طرح اسے جدا کرے گا۔
لیکن اگر وہ تیسری مرتبہ پھر اپنی بیوی کو طلاق دے دے ، تو اس کے بعد یہ دونوں آپس میں نکاح نہیں کر سکتے۔ لیکن اس تیسری طلاق کے بعد اگر عورت کہیں اور نکاح کر لے اور اس کا وہ شوہر اتفاق سے مرجائے یا اسے طلاق دے دے ، تو پھر یہ دونوں آپس میں نکاح کر سکتے ہیں۔ اس مسئلے کا تفصیلی ذکر آگے آئے گا۔
مرد کے برعکس، اگر بیوی اپنے شوہر سے علیحدہ ہونا چاہے ، تو وہ اپنے خاوند سے ایک طلاق کا مطالبہ کرے گی۔اگر خاوند اس کا یہ مطالبہ نہ مانے تو عورت عدالت کے زریعے سے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرے گی۔عدالت کا کام صرف یہ ہو گا کہ یہ دیکھے کہ عورت، واقعتا اپنی آزادانہ مرضی سے طلاق حاصل کرنا چاہتی ہے۔ عدالت اس کھوج میں نہیں پڑ ے گی کہ عورت کیوں طلاق حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس صورت میں عدالت شوہر کو حکم دے گی کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے۔ اس طرح میاں بیوی علیحدہ ہو جائیں گے۔
بعد میں اگر یہ دونوں چاہیں تو آپس میں ، اپنی آزادنہ مرضی سے ، دوبارہ بھی نکاح کر سکتے ہیں۔
اگر دوسری دفعہ بھی علیحدگی ہو گئی تو پھر بھی یہ نکاح کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر تیسری دفعہ بھی علیحدگی ہو گئی تواس کے بعد یہ دونوں آپس میں نکاح نہیں کر سکتے۔ اب صر ف ایک ہی صورت ہے جس کا ذکر ہم بعد میں کریں گے۔ گویا شوہر طلاق دیتا ہے اور عورت طلاق لیتی ہے۔ قرآن مجید کا یہ قانون سورہ بقرہ۔ آیت 141، 228، 229، 231، 236، 237۔ سورہ احزاب۔ آیت 49۔سورہ طلاق۔آیت 41۔ اور سورہ نساء۔آیت 21,19 میں بیان ہوا ہے۔
سوال: اگر کوئی فرد اپنی تینوں طلاقوں کا حق، جو اسے ساری زندگی کے لئے ملا ہے ، ایک ہی دفعہ استعمال کرنا چاہے ، تاکہ وہ اور اس کی بیوی ہمیشہ کے لئے علیحدہ ہو جائیں ، تو کیا یہ مناسب ہے ؟
جواب: تینوں طلاقیں اکٹھی دینا ایک بڑ ا گناہ اور اللہ کے احکام کی خلاف ورزی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلنا قرار دیا ہے۔ (نسائی، کتاب الطلاق) اکٹھی تین طلاقیں دینے والوں کو ریاست اپنے حالات کے مطابق سزا بھی دے سکتی ہے۔
صحیح مسلم کی روایت کے مطابق حضور ﷺ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے ابتدائی عہد مبارک تک تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق میں شمار کیا جاتا تھا۔پھر حضرت عمرؓ نے اس طریقے کو بدل کر یہ قانون بنا دیا کہ تین طلاقوں کو تین ہی شمار کیا جائے گا، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں اسلامی حکومت قانون سازی کی مجاز ہے۔ چنانچہ آج کے حالات میں حکومت کو اس ضمن میں یہ قانون سازی کرنی چاہیے کہ تین طلاقیں ایک وقت میں دینے کو ایک ہی طلاق تصور کیا جائے گا۔
سوال: ہمارے معاشرے میں لوگ، عموماً طلاق کے طریق کار سے ناواقف ہیں ، اس لئے طلاق کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ تین دفعہ طلاق کا لفظ منہ سے نکالے بغیر، سرے سے طلاق واقع ہی نہیں ہوتی، اس لئے طلاق دینے والے لوگ تین دفعہ طلاق کا لفظ منہ سے نکالتے ہیں ، حالانکہ اگر ان کو یہ علم ہوتا کہ ایک دفعہ طلاق کا لفظ ادا کر نے سے طلاق بھی ہو جاتی ہے اور بعد میں دوبارہ نکاح کرنے کا موقع بھی باقی رہتا ہے تو وہ صرف ایک ہی طلاق دیتے۔
دوسری غلطی یہ ہے کہ لوگ، عام طور پر، ایام حیض ہی میں طلاق دے دیتے ہیں۔
تیسری غلطی یہ ہے کہ لوگ، عام طور پر، ایسے طہر میں طلاق دے دیتے ہیں ، جس میں انھوں نے اپنی بیوی سے تعلق زن و شو قائم کیا ہوا ہوتا ہے۔ ان امور کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر کیا ہے ؟
جواب: طلاق، چونکہ ایک نہایت سنجیدہ معاملہ ہے جس کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ انسان طلاق کے قانون سے پوری واقفیت رکھتا ہو۔اس لئے اگر کسی نے اس غلط فہمی میں اکٹھی تین طلاقیں دے دی ہوں کہ اس کے خیال میں طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہی تھا، تو ظاہر ہے کہ یہ اس کی ایک ہی طلاق شمار کی جائے گی۔
اگر کسی نے ایام حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دی ہو، تو عدالت کو چاہیے کہ اسے اپنی بیوی کے پاس جانے کا حکم دے۔ پھر جب وہ پاک ہو جائے تو پھر فیصلہ کرے کہ اسے طلاق دینی ہے یا نہیں۔
اگر کسی فرد نے ایسے دنوں میں اپنی بیوی کو طلاق دی ہو کہ ان دنوں میں تعلقات زن و شو قائم ہوئے ہوں ، تو اسے بھی چاہیے کہ اپنی طلاق لوٹا کر بیوی کے پاس جائے اور بعد میں صحیح وقت پر فیصلہ کرے۔ ان دونوں صورتوں میں کوئی طلاق شمار نہیں کی جائے گی۔
سوال: بعض لوگ اپنی بیوی سے جھگڑ ے کے وقت شدید غصے میں آ کر طلاق کا لفظ تین مرتبہ یا اس سے زیادہ مرتبہ منہ سے نکال لیتے ہیں اور پھر فوراً ہی پشیمان ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ اس میں کوئی پختہ ارادہ شامل نہیں تھا، نہ ہی یہ بات سوچ سمجھ کر ہی کہی گئی تھی۔کیا اس طرح طلاق واقع ہو جاتی ہے ؟
جواب: آج کے حالات میں یہ مسئلہ بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اس لئے کہ سینکڑ وں بلکہ ہزاروں گھرانے اسی مسئلہ کی وجہ سے ایک بڑ ے اضطراب اور کرب میں مبتلا ہیں۔
اس ضمن میں راقم الحروف کا موقف یہ ہے کہ شدید غصے کے عالم میں جو لوگ تین یا اس زیادہ مرتبہ طلاق کا لفظ منہ سے نکالیں اور پشیمان ہو جائیں ، ایسے لوگوں پر ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے۔ اس موقف کے دلائل مختصراً یہ ہیں :
پہلی بات دین کا اہم اصول ہے کہ دین کی بنیاد آسانی پر ہے ، تنگی پر نہیں۔ اس حقیقت کو قرآن مجید میں بار بار بیان کیا گیا ہے کہ:
یریداللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر۔(بقرہ۔آیت 185)
’’اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے ، دشواری نہیں ‘‘۔
وما جعل علیکم فی الدین من حرج۔(الحج۔ آیت 78)
’’اللہ نے دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی‘‘۔
اس نوعیت کی کئی آیات قرآن مجید میں آئی ہیں کہ اللہ ہر شخص کو اس کی بساط کے مطابق ہی تکلیف دیتا ہے۔ پروردگار انسان کو تنگی میں نہیں ڈالنا چاہتا۔اور یہ کہ اللہ انسان پر سے بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ (مثلاً سورہ مائدہ۔ آیت6۔سورہ نساء۔آیت 82 اور کئی دوسری آیات )
چونکہ طلاق کا معاملہ نہایت سنجیدہ اور نازک معاملہ ہے جس میں مرد اور ، عورت ، ان کے بچوں اور مرد و عورت کے خاندانوں کے لئے گونا گوں پیچید ہ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس لئے اس کے بارے میں ہر نئی قانون سازی کے لئے بنیاد انسانوں کے لئے آسانی کے اصول پر ہونی چاہیے۔ طلاق کا وہ قانون جو خدا نے ہمیں دیا ہے ، وہ بجائے خود اسی اصول کو ملحوظ رکھ کر دیا گیا ہے۔ اب اس کی بنیاد پر ہونے والی تفصیلی قانون سازی اور عدالتی فیصلے بھی اسی اصول کو ملحوظ رکھ کر کئے جانے چاہییں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ان کے لئے خواہ مخواہ تنگی پیدا ہو۔اسی بات کو رسول اللہ ﷺ نے اس طریقہ سے بیان کیا ہے کہ’’دین آسان ہے ‘‘اور یہ کہ ’’لوگوں کے لئے آسانی پیدا کرو، لوگوں کو مشکلات میں مت ڈالو‘‘۔(صحیح بخاری)
دوسری بات یہ ہے کہ قرآن مجید اور اس کی اتباع میں ، صحیح ترین روایات سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ طلاق ایک نہایت سنجیدہ معاملہ ہے اور یہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے والی چیز ہے۔ یہ وقتی اثرات کے تحت فیصلہ کرنے والی چیز نہیں۔
قرآن مجید کے مطابق دنیا میں میاں بیوی کے درمیان نباہ پروردگار کو بہت پسند ہے۔ انہیں ایک دوسرے کے لئے لباس قرار دیا گیا ہے (بقرہ۔آیت187)۔شوہر سے کہا گیا کہ اگر اس کی بیوی کے اندر کمزوریاں نظر آئیں تب بھی اس کے ساتھ گزارہ کرے (سورہ نساء۔آیت19)۔اگر کہیں میاں بیوی کے درمیان تنازع بہت زیادہ ہو جائے تو دونوں خاندان کی طرف سے ایک ایک نمائندہ مقرر کر کے صلح صفائی کرائی جائے (سورہ نساء۔آیت35)۔اگر نوبت طلاق تک پہنچ جائے تو مرد کو ہدایت ہے کہ وہ عدت کا حساب بالکل صحیح رکھے (سورہ طلاق۔آیت1)۔اور طلاق دینے کے بعد بھی نہ مرد کو چاہیے کہ وہ عورت کو گھر سے نکال دے اور نہ عورت ہی کے لئے یہ جائز ہے کہ اپنا گھر چھوڑ کر چلی جائے۔ شوہر اور بیوی کو یکجا، ایک ہی گھر میں رہنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ اگر صلح صفائی کی کوئی صورت ہو تو یہ اکٹھا رہنا اس میں مدد گار ثابت ہو جائے۔ اسی آیت کی مزید تشریح کرتے ہوئے حضور ﷺ نے فرمایا کہ جائز چیزوں میں سے طلاق اللہ کوسب سے زیادہ ناپسند ہے۔ (ابو داؤد۔کتاب الطلاق)۔
اسی لئے حضور ﷺ نے ما ہواری کے ایام میں طلاق دینے سے روکا ہے۔ ما ہواری کے ایام میں چونکہ مرد اور عورت ایک دوسرے سے علیحدہ رہتے ہیں۔ اس لئے آپس میں محبت کے وہ جذبات نہیں رہتے اور اس بات کا امکان ہے کہ ما ہواری کے دن گزرنے کے بعد آدمی طلاق دینے کا فیصلہ ترک کر دے (مسلم۔کتاب الطلاق)۔حضور ﷺ نے ایسے وقت (طہر)میں بھی طلاق دینے سے روکا ہے جب میاں بیوی نے آپس میں ملاقات کی ہو کیونکہ ایسی صورت میں عدت کی مدت کا صحیح تعین نہیں کیا جا سکتا۔حضور ﷺ کے پاس جب ایسا کوئی معاملہ آیا تو آپؐ نے مرد کو ہدایت کی کہ وہ رجوع کرے (یعنی طلاق کا فیصلہ واپس لے لے )اور بعد میں مناسب وقت پر مناسب طریقہ سے فیصلہ کرے (صحیح مسلم، کتاب الطلاق، ابوداؤد، کتاب الطلاق)۔
صرف یہی نہیں بلکہ قرآن مجید کی ہدایت ہے کہ مطلقہ عورت کو انتہائی حسن وخوبی سے کچھ دے دلا کر رخصت کیا جائے (سورہ بقرہ۔ آیت241 )اور یہ کہ جب خاوند عدت کے آخر میں اپنی بیوی سے رجوع کرنے یا اسے رخصت کر دینے کا فیصلہ کر لے ، تو اسے اس فیصلے پر دو ذمہ دار افراد کو گواہ بنا لینا چاہیے۔
صرف یہی نہیں جب ایک دفعہ طلاق ہو جائے اور عدت کے درمیان میں بھی رجوع نہ ہو تو قرآن مجید دوسری دفعہ اسی مرد اور خاتون کو دوبارہ میاں بیوی بننے کا اجازت دیتا ہے تاکہ کسی طرح یہ خاندان پھر اکٹھا ہو جائے اور پھر اسی پر بس نہیں بلکہ اگر دوسری دفعہ بھی طلاق ہو جائے اور عدت میں پھر رجوع نہ ہو تو قرآن مجید تیسری دفعہ پھر ان کے نکاح کا دروازہ کھلا رکھتا ہے۔ البتہ اگر تیسری مرتبہ پھر طلاق ہو جائے تو تب براہ راست ایک دفعہ پھر نکاح کرنے پر پابندی لگ جاتی ہے۔
درج بالا احکام و ہدایات اور قوانین پڑ ھنے بلکہ بار بار غورکرنے کے لائق ہیں ، اور اس کی روشنی میں فیصلہ کیجیے کہ اس معاملہ میں ہمارے دین کی روح کیا ہے۔
کیا ہمارے دین کی روح یہ ہے کہ وہ اس بات پر تلا بیٹھا ہے کہ کسی طریقہ سے کسی مرد کے منہ سے تین طلاقوں کی بات نکلے اور وہ فوری طور پر خاندان کا تیاپانچہ کر دے ، اور یا پھر اس کے برعکس وہ ان کو زیادہ سے زیادہ رعایت دے کر بار بار ملنے کا موقع دیتا ہے ؟ایسے موقع پر ہر راست فکر انسان کا ضمیر یہ پکار اٹھے گا کہ یقینا دین کی روح یہی ہے کہ ایسی غلطی کی اتنی بڑ ی سزا نہ دی جائے اور انہیں اصلاح کا احوال کو موقع دیا جائے۔
ایک تیسرا عامل بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ طلاق کے لئے ایک ضروری شرط یہ ہے کہ انسان اپنے پورے شعور کے ساتھ اپنے ارادے کا اظہار کرے۔ اگر شعور میں ذرا برابر بھی کمی ہو گی اور انسان جذبات میں اپنے آپے سے باہر ہو گیا ہو تو اس صورت میں طلاق واقع نہیں ہوتی۔اسی اصول کی وجہ سے نبیؐ نے فرمایا کہ نابالغ ، پاگل اور دیوانے کی طلاق واقع نہیں ہوتی اور نہ ایسے لوگوں کی طلاق واقع ہوتی ہے جنہوں نے نشے کی حالت میں طلاق دی ہو یا جنہیں طلاق دینے پر مجبور کیا گیا ہو۔بالکل اسی اصول پر اگر شدید اور فوری غصے کا تجزیہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت وہ اپنے پورے شعور میں نہیں ہوتا اور اسے اپنے اوپر پورا اختیار نہیں رہتا وہ ہذیان بکنے لگتا ہے اور اس عالم میں اس کے منہ سے ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں جنہیں وہ عام حالات میں کبھی نہ کہتا۔چنانچہ ایسے ہی شدید اور فوری غصے میں اگر ایک انسان کے منہ سے طلاق کے الفاظ زیادہ مرتبہ بھی نکل جائیں تو اسے رعایت دینی چاہیے۔ ویسے بھی آج کل خاندانوں میں نفسیاتی مسائل اتنے زیادہ بڑ ھ گئے ہیں کہ ایک مستقل اضطراب و بے چینی کی کیفیت رہتی ہے۔ اس لئے اب تو اس رعایت کی اہمیت مزید بڑ ھ گئی ہے۔
درج بالا تینوں دلائل کی بنیاد پر، راقم الحروف کا نقطہ نظر یہ ہے کہ شدید اور فوری غصے میں دی گئی طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جائے گا۔ گویا ایسا فردایک موقع کھودے گا، تاہم اس پاس رجوع کا ایک موقع ابھی رہے گا۔اس کے ساتھ ساتھ ایسے فرد کو چاہیے کہ وہ بطور اظہار ندامت فقراو مساکین کو صدقہ دے اور آئندہ کے لئے عہد کرے کہ اپنے آپ کو اس طرح کی کیفیت سے بچائے گا(میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ ایسے افراد میں نناوے فیصد آئندہ کے لئے مکمل طور پر محتاط ہو جاتے ہیں اور پھر ایسے الفاظ کبھی زبان پر نہیں لاتے )۔
درج بالا ساری بحث کی مخالفت میں دو باتیں کہی جا سکتی ہیں ایک یہ کہ طلاق توغصے میں ہی دی جاتی ہے ، ٹھنڈے پیٹوں تو کوئی بھی طلاق نہیں دیتا۔یہ بات صحیح نہیں ہے۔ درج بالا بحث میں دوسری دلیل کو ایک دفعہ پھر ذہن میں تازہ کر لیجیے ، جس سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ اسلام کے اعتبار سے طلاق اسی صورت میں دی جانی چاہیے جب مرد بالکل ٹھنڈے سوچ بچار کے ساتھ اس نتیجہ پر پہنچ جائے کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان ہم آہنگی پیدا نہیں ہو سکتی۔اس صورت میں بھی قرآن مجید اسے صلح صفائی کے دو مزید مواقع دیتا ہے۔ گویا اس بات کی کوئی دینی بنیاد نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ حضرت عمرؓ نے اعلان کیا تھا کہ اگر آئندہ کسی فرد نے اکٹھی تین طلاقیں دیں تو وہ اسے سزا بھی دیں گے اور اس پر تین طلاقیں نافذ کر دیں گے۔
اس ضمن میں چند امور اچھی طرح سمجھ لینی چاہییں۔ پہلی بات یہ ہے کہ حضرت عمرؓ ایک حکران تھے۔ حکران کو وقتی مسائل سے نپٹنے کی خاطر کئی قوانین بنانے پڑ تے ہیں۔ مگر ان قوانین کی حیثیت محض وقتی ہی ہو تی ہے ، وہ ہمیشہ کے لئے ایک مستقل حکم نہیں بن جاتے۔ ہمیشہ زندہ رہنے والی چیز تو صرف قرآن و سنت ہے۔ چنانچہ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اس وقت وہ کیا حالات تھے جن میں حضرت عمرؓ نے یہ فیصہ دیا تھا۔ حضورؐ ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے دور کے کافی عرصے میں جب ایک فرد اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیتا، اور پھر آ کر یہ بیان دیتا کہ اس کی نیت صرف ایک طلاق دینے کی تھی تو اس پر ایک طلاق نافذ کر کے اسے رجوع کا حق دے دیا جاتا۔لیکن پے در پے کئی واقعات کے بعد حضرت عمرؓ نے محسوس کیا کہ لوگ اس رعایت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اس کے ذریعے سے خواتین کی حق تلفی کر رہے ہیں۔ وہ یوں کہ وہ تین طلاقیں دے کر عورت کو گھر سے باہر نکال دیتے ہیں ، اسے ایک صدمے سے دو چار کر دیتے ہیں اور جب وہ نئی زندگی اپنانے کے بارے میں سوچنے لگتی ہے تو جھٹ سے عدالت میں پہنچ کر کہہ دیتے ہیں کہ ان کی نیت تو ایک ہی طلاق دینے کی تھی۔ اس طرح وہ عورت کو معلق رکھ کر دوہرے عذاب میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ اُس زمانے میں عورتوں کے لیے دوسری یا تیسری شادی کرنا بہت آسان تھا۔ چنانچہ عورتوں کو اس مصیبت سے بچانے کی خاطر حضرت عمرؓ نے اپنے وقت کے لحاظ سے ایک انتظامی فیصلہ کر دیا۔ایسے انتظامی فیصلے کرنے کا اختیار ہر مسلمان حکومت کو حاصل ہے مثلاً ولیمہ کرنا سنت ہے لیکن اگر کسی جگہ ولیمہ کو نمود و نمائش اور غریبوں کے لئے زحمت بنایا جا رہا ہو تو ریاست اس کی بعض صورتوں پر پابندی لگا سکتی ہے۔ تاہم وہ ریاست کا ایک وقتی فیصلہ ہو گا۔ حالات بدل جانے پر وہ جب چاہے اسے تبدیل کر سکتی ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے درج بالافیصلے کا کوئی تعلق غصے والی طلاق سے نہیں ہے۔ یہ واقعہ جہاں جہاں بھی نقل ہوا ہے ، وہاں غصے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ بلکہ جیسا کہ ہم نے شروع میں عرض کیا، قرآن مجید ، صحیح روایات اور پورے دور صحابہ میں حصے والی طلاق کے بارے میں کوئی ہدایت یا کوئی واقعہ نہیں ملتا۔اس لئے فوری غصے والی طلاق پر یہ فیصلہ لاگو ہی نہیں ہوتا۔
تیسری اہم بات یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے خواتین کو ظلم سے بچانے کے لئے یہ قانون سازی کی تھی، جبکہ آج خواتین کو مصیبت سے بچانے کے لئے اس کے برعکس قانون سازی کے ضرورت ہے۔ اُس وقت لوگ طلاق کا قانون جانتے تھے اور بعض لوگ قانون کے الفاظ سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے تھے جبکہ آج لوگ دین کا قانون طلاق جانتے ہی نہیں نتیجتاًوہ اپنے آپ کو اور اپنے پورے خاندان کو ایک بڑ ی تکلیف میں مبتلا کر لیتے ہیں۔ چنانچہ آج کے حالات میں حضرت عمرؓ کا یہ فیصلہ ہمارے لئے نظیر نہیں بن سکتا۔
درج بالا راقم الحروف کی رائے یہ ہے کہ شدید غصے میں ، جس کے بعد انسان کو پشیمانی ہو، طلاق کا لفظ جتنی مرتبہ بھی استعمال کیا جائے اس سے ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے۔
ابو داؤد کی حدیث نمبر 2193کی طرف دلائی گئی ہے ، جس کے مطابق حضور ﷺ نے فرمایا’’غصے سے مغلوب ہو کر دی گئی طلاق اور غلام کی آزادی کا فیصلہ موثر نہیں ہوتا‘‘سے یہی اصول اخذ ہوتا ہے۔
سوال:’’حلالہ ‘‘کا لفظ اکثر سننے میں آیا ہے۔ اس سے کیا مراد ہے ؟
جواب: ہمارا دین خاندان کو اکٹھا رکھنے اور انہیں بار بار اکٹھا ہو نے کا موقعہ دینے میں اتنا حساس ہے کہ اگر شوہر اپنی بیوی کو تیسری دفعہ بھی طلاق دے دے اور دونوں کے درمیان مکمل علیحدگی ہو جائے ، تو اسلام میں تب بھی ایک صورت ممکن ہے۔ وہ یہ کہ اگر مطلقہ عورت کسی دوسرے خاوند سے شادی کر لے اور وہ خاوند وفات ہو جائے یا وہ بھی اسے طلاق دے دے ، تو پھریہ عورت اگر چاہے تو اپنی آزادانہ مرضی سے ، اپنے پہلے خاوند سے ، ایک دفعہ پھر شادی کر سکتی ہے۔
آج کل’’حلالہ‘‘کی اصطلاح ایک خاص معاملے کے لئے بولی جاتی ہے۔ وہ معاملہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص ، کسی بھی وجہ سے اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی دے دیتا ہے اور پھر پشیمان ہوجاتا ہے ، تو ایک مذہبی سازش تیار کی جاتی ہے۔ وہ یہ کہ عورت کا نکاح جعلی طور پر، کسی دوسرے فردکے ساتھ کر دیا جاتا ہے۔ پھر وہ اس فرد کے ساتھ یک دو راتیں گزارتی ہے۔ اس کے بعد وہ مرد اسے طلاق دیتا ہے ، اور عدت کی مدت گزرنے کے بعد، سابقہ خاوند اس عورت سے دوبارہ شادی کر لیتا ہے۔
ظاہر ہے یہ نکاح نہیں ، بلکہ ایک سازش اور فراڈ ہے ، کیونکہ لفظ نکاح صرف اس ازدواجی معاہدے کے متعلق بولا جاتا ہے ، جس میں میاں بیوی کی حیثیت سے ، زندگی بھر اکٹھے رہنے کا ارادہ پایا جاتا ہو۔اس لئے یہ قطعاً حرام ہے اور کتاب اللہ سے کھیلنا ہے۔
سوال: کیا نکاح کے معاہدے میں خاتون کو حق طلاق تفویض کیا جا سکتا ہے ؟
جواب: حق طلاق تفویض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خاتون کو بھی یہ حق مل جائے کہ وہ بھی جب چاہے اپنے خاوند کو طلاق دے سکے۔ اس کی دینی بنیاد سورہ احزاب میں موجود ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ خاتون عدالت کے چکر میں پڑ ے بغیر علیحدگی حاصل کرسکتی ہے۔
سوال: خلع سے کیا مراد ہے ؟
جواب: قرآن مجید نے سورہ بقرہ، آیت 229میں عورتوں کو طلاق لینے کا حق دیا ہے۔ اس حق کو روایات میں خلع بھی کہا گیا ہے۔ اگر عورت اس نتیجے تک پہنچ جائے کہ مرد کے ساتھ اس کا نباہ ممکن نہیں ہے تو وہ اپنے خاوند سے مطالبہ کرے کہ وہ اسے طلاق دے دے۔ اگر خاوند یہ مطالبہ نہ مانے تو عورت کو حق حاصل ہے کہ وہ عدالت میں جائے۔ اس صورت میں عدالت خاوند کو طلاق دینے کا حکم دے گی۔البتہ اس موقع پر اگر خاوند نے بیوی کو بہت کچھ مال دے رکھا ہو، تو عدالت اس میں سے کچھ حصہ خاوند کو واپس بھی دلا سکتی ہے۔
سوال: کیا خاوند سے طلاق حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ بیوی کوئی وجہ بتائے ؟
جواب: بیوی پر یہ لازم نہیں ، البتہ عدالت اگر چاہے تو اپنا اطمینان کر سکتی ہے اور مناسب سمجھے۔ تو فیصلہ کرنے سے پہلے ، دونوں کو اکٹھا رہنے کے لئے وعظ و نصیحت بھی کر سکتی ہے۔ حضور ا کرم ﷺ نے ایسے مقدمات میں یہی کیا ہے۔
سوال: طلاق کی صورت میں بچوں کا کیا کیا جائے ؟
جواب: اس معاملے میں اگر مرد اور عورت خود کسی فیصلے پر پہنچ جائیں تو بہت بہتر ہے ، ورنہ عدالت حالات کے مطابق بچوں کے ضمن میں کوئی بھی فیصلہ کر سکتی ہے۔ بالغ ہونے کے بعد کا فیصلہ ظاہرہے کہ بچے کی اپنی مرضی پر منحصر ہے۔
سوال: کیا مرد کو ایک زیادہ شادیوں کا حق ہے ؟اگر ہے تو اس کی حکمت کیا ہے ؟
جواب: قرآن مجید کے مطابق ایک مرد کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ صرف ایک عورت سے شادی کرے۔ اسی لئے پروردگار نے ہر معاشرے میں مردوں اور عورتوں کی تعداد تقریباً برابر رکھی ہے۔ خدانے آدم علیہ السلام کے لئے ایک ہی بیوی پیدا کی۔یہ بات بھی عین فطرت کے مطابق ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت مل کر اپنا گھر بنائیں۔ البتہ اگر معاشرتی صورت حال کچھ ایسی ہوجائے ، مثلاً جنگ کے نتیجے میں بے شمار بیوائیں اور یتیم بچے معاشرے میں بے سہارا ہو جائیں یاکسی مرد کے ہاں اس کی بیوی سے اولاد ہی نہ ہو، تو ایسے حالات میں مرد، پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے ، دوسری شادی کر سکتا ہے۔ لیکن ان حالات میں قرآن مجید نے دو شرطیں لگائی ہیں ، ایک یہ کہ مرد اپنی بیویوں کے درمیان انصاف کرسکے اور دوسری یہ کہ چار کی تعداد سے زیادہ شادیاں نہیں کی جا سکتیں۔ (سورہ النساء 129-3:4)
گویا ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت تو ہے ، مگر یہ کوئی کھلا لائسنس نہیں ہے کہ جب چاہا، ایک نئی بیوی گھر میں لا کر بسادی۔
ایک سے زیادہ شادیوں میں دو شرائط بالکل واضح ہیں :ایک یہ کہ ایسا صرف ناگزیر معاشرتی حالات میں کیا جا سکتا ہے اور دوسری یہ کہ سب بیویوں کے درمیان عدل و انصاف لازم ہے۔
سوال: اگر معاشرے میں اس اجازت سے غلط فائدہ اٹھایا جا رہا ہو، تو کیا اسلامی ریاست کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اس میں مداخلت کرے ؟
جواب: اسلامی ریاست اگر دیکھے کہ معاشرے میں مرد، عموماً بغیر کسی مناسب وجہ کے ، دو یا تین شادیاں کرنے لگ پڑ ے ہیں ، تو وہ یہ پابندی لگا سکتا ہے کہ دوسری شادی سے پہلے مرد، اپنی ناگزیر معاشرتی ضرورت بیان کر کے ، شادی کی اجازت لے۔ اسی طرح ریاست، عدالت کے ذریعے مرد پر، بیویوں کے درمیان انصاف، اور نان نفقہ وغیرہ کے ضمن میں کچھ پابندیاں لگا سکتی ہے۔
سوال: مرد کو دوسری شادی کی اجازت کے معاملے میں مغرب ہمارا مذاق اڑ اتا ہے۔ اس کے اعتراضات کا کیا جواب ہے ؟
جواب: مغرب میں حقیقی دوسری شادی کی شرح مسلم معاشروں سے کہیں زیادہ ہے۔ وہاں بے شمار لوگوں کی ایک قانونی بیوی ہوتی ہے اور دوسری یا تیسری ماورائے قانون ، جن سے ان کے بچے بھی ہوتے ہیں اور اس کے بارے میں سب کو علم بھی ہوتا ہے ، مگر اس بچاری عورت کا مرد پر کوئی حق نہیں ہوتا۔مرد جب چاہے ، اس کا کوئی بھی حق ماننے سے انکار کر دے۔ کچھ عرصہ پہلے جب فرانس کے صدر متراں فوت ہوئے ، توان کے جنازے میں ان کی قانونی بیوی بچے اور ماورائے قانون بیوی بچے بھی اکٹھے موجود تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ معاشرتی سسٹم کے ضمن میں مغرب اسلام کی گرد کو بھی نہیں پہنچتا۔مغربی معاشرے کا حال تو یہ ہے کہ وہ ٹوٹ پھوٹ، بے اطمینانی اور تنہائی کا شکار ہے۔ مغرب کے معاشرتی نظام کا تجزیہ ہم نے اپنی کتاب ’’اکیسویں صدی اور پاکستان‘‘میں کیا ہے۔ اس موضوع میں دلچسپی رکھنے والے اس کتاب کی طرف رجوع فرمائیں۔
سوال: والدین پر اپنے بچوں کے ضمن میں کیا فرائض عائد ہوتے ہیں ؟
جواب: والدین کے لئے اولاد، دراصل ایک آزمائش اور امانت ہے۔ مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ ہر آزمائش کے بارے میں جواب دہی کا احساس رکھتا ہے اور امانت کی بہترین طریقے سے حفاظت کرتا ہے۔ (سورہ الانفال 26:8، سورہ الاحقاف15:46، سورہ الفرقان74:25، سورہ المؤمنون8:23، سورہ لقمان19-13:31)۔ اس لئے ہر ماں باپ پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بہترین تعلیم و تربیت سے آراستہ کریں۔ قرآن مجید کا علم انہیں سکھائیں ، جس کا سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اپنی استطاعت کے مطابق، دنیاوی تعلیم بھی دیں۔ ان کی صحت اور کردار کا خیال رکھیں اور بدرجہ آخر انہیں اپنے پاؤں پر کھڑ ا ہونے میں ان کی مدد کریں۔ جو ماں باپ یہ نہیں کرتے ، وہ امانت میں خیانت کرتے ہیں اور اس بارے میں ان سے مواخذہ ضرور ہو گا۔
اگر والدین بچوں کی تعلیم و تربیت کرنے کے بجائے ، انہیں سوسائٹی میں محنت و مشقت کرنے کے لئے دھکا دیں اور ان کا سہارا بننے کے بجائے انہیں ، خواہ مخواہ ، اپنا سہارا بنانے کے لئے ، محنت و مشقت کے کاموں پر لگادیں ، تو یہ چیز عقل و فطرت اور دین کے خلاف ہے۔
سوال: بچوں پر اپنے والدین کے ضمن میں کیا فرائض عائد ہوتے ہیں ؟
جواب: چونکہ اولاد، عام طور پر، اپنے بوڑ ھے والدین کے حقوق ادا کرنے میں غفلت برتتی ہے ، اس لئے قرآن مجید نے اس بارے میں نہایت سخت احکام دیے ہیں۔ قرآن مجید کا حکم ہے کہ اولاداپنے والدین کے احسانات کا عملی شکریہ ادا کرے۔ ان کا شکر گزار بن کر رہا جائے۔ ان سے نہایت اچھا برتاؤ کیا جائے اور ان کے سامنے کبھی زبان درازی نہ کی جائے۔ بڑ ھاپے میں والدین چڑ چڑ ے ہو جاتے ہیں ، اس لئے وہ جو بھی سخت بات کریں۔ ان کے سامنے اف تک نہ کی جائے اور ان سے عاجزی سے پیش آیا جائے۔ (سورہ الاسرا 17: 23-24، سورہ النمل27: 19، سورہ لقمان41:31) لیکن اگر والدین خدا اور رسول کی حکم عد ولی کا حکم دیں تواس معاملے میں ان کی بات نہ مانی جائے ، البتہ دنیا میں ان کے ساتھ عمدگی سے وقت گزارا جائے۔ (سورہ العنکبوت8:29، سورہ لقمان15:31)
سوال: دین میں رشتہ داروں کے ایک دوسرے پر کیا حقوق ہیں ؟
جواب: قرآن مجید ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم اپنے دور و نزدیک کے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ اگر ان میں سے کوئی تنگ دست ہو تو اس کی مالی مدد کریں۔ کیونکہ دین ہمیں بتاتا ہے کہ ان کی مدد کرنا زیادہ اجر وثواب کا باعث ہے۔ تعلقات حتی الوسع برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔ دینی نقطہ ہائے نظر میں اگر اختلاف بھی ہو، تو اس کے باوجود رشتہ داری کے حقوق ادا ہونے چاہییں۔ (سورہ النحل9:16، سورہ البقرہ 2: 83-177، سورہ الاسراء17 :26، سورہ الشوریٰ23:42)
سوال: اسلام میں ہمسایوں کے ایک دوسرے پر کیا حقوق ہیں ؟
جواب: اس ضمن میں قرآن مجید کی ہدایت یہ ہے کہ پڑ وسی سے ، خواہ وہ اجنبی ہوں یا جان پہچان والا، اچھا سلوک کیا جائے۔ یہ معاملہ صرف ساتھ کے گھر میں رہنے والے پڑ وسی کی حد تک نہیں ، بلکہ اگر کوئی شخص سفر میں ساتھ ہو جائے یا کسی مجلس میں ساتھ بیٹھ جائے ، تو اس کا خیال رکھنا بھی، ہمسایہ کے حقوق کے حوالے سے ، ایک مومن کے لئے ضروری ہے۔ (سورہ النساء 31:4)
سوال: اس کے علاوہ اسلام نے کیا عام معاشرتی اور سماجی ہدایات دی ہیں ؟
جواب: قرآن مجید نے سماج سے متعلق اتنی زیادہ اور تفصیل سے ہدایات دی ہیں کہ ان سے ایک پوری کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ تاہم ان میں سے چند اہم باتیں یہاں درج کی جاتی ہیں :
1۔مسافر کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔ اس کی ضروریات کا خیال رکھا جائے اوراس کی پوری پوری مدد کی جائے۔ (سورہ النساء 4: 1 - 3، سورہ الروم38:30، سورہ الاسراء26:17)
2۔قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔ (سورہ الدھر 76: 8 - 9)
3۔یتیموں کے ساتھ انصاف، ا کرام اور احسان کیا جائے ، یتیم پر سختی نہ کی جائے۔ اس کا مال کھانا، آگ کھانے کے برابر ہے۔ رشتہ دار یتیم کی کفالت کرنا اور اسے اپنے پاؤں پر کھڑ ا ہونے میں مدد دینا بہت اجر کا کام ہے۔ (سورہ البقرہ 2: 83- 177، سورہ بنی اسرائیل17:17، سورہ الفجر17:89)
4۔ہر مسکین و غریب سے حسن سلوک کیا جائے ، ان پر مال خرچ کیا جائے ، ان کو ، ان کا حق سمجھ کر، کھانا کھلایا جائے۔ ان کی ضروریات کو پورا کیا جائے اور معاشرے کو بھی اس کی ترغیب دی جائے۔ (سورہ البقرہ 2: 83، 177-215-، سورہ النساء32:4، سورہ الروم38:30، سورہ الحاقہ30:69, سورہ الفجر18:89)
5۔لوگوں سے اچھی بات کہیں ، کبھی بھی سخت لہجہ استعمال نہ کریں۔ سخت لہجے کے ذریعے سے شیطان ہمارے درمیان فساد ڈلوانے کی کوشش کرتا ہے۔ (سورہ الحجرات11:49)
6۔غرور و تکبر کا لہجہ، چال ڈھال، غرور کا لباس، غرض یہ کہ غرور کے ہر مظہر سے اجتناب کیا جائے۔ (سورہ الحجرات12:49، سورہ الھمزہ104: 1-2)
7۔کسی سے وہ مذاق نہ کیا جائے جس سے دوسرا فرد خفت محسوس کرے اور آزردہ خاطر ہو۔(سورہ النور 24: 12-16-17، سورہ الحجرات12:49)
8۔کسی کے برے نام نہ رکھیں جائیں ، نہ کسی کی عیب جوئی کی جائے ، یہ بربادی کا باعث ہے۔ (سورہ الحجرات12:49، سورہ الھمزہ1:104)
9۔ہر ایک کے متعلق بدگمانی سے نہیں ، بلکہ حسن ظن سے کام لیا جائے۔ (سورہ النور 24: 12-16-17، سورہ الحجرات12:49)
10۔کسی کی غیبت نہ کی جائے ، یہ مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے۔ (سورہ الحجرات49:49)
11۔خود بھی نیک کام کئے جائیں اور معاشرے میں جو لوگ نیکی کا کام کر رہے ہوں ، ان سے تعاون کیا جائے۔ (سورہ المائدہ 2:5، سورہ الحج77:22)
12۔گناہ اور زیادتی کے کاموں میں کسی کی مدد نہ کی جائے۔ (سورہ المائدہ 2:5)
13۔منہ سے ہر گز ایسی بات، معمولی سمجھ کر نہ نکالی جائے جس کا پوری طرح علم نہ ہو۔سورہ النور15:24)
14۔اگر لوگ آپ سے برائی کریں تو آپ معافی اور در گزر کا رویہ اختیار کریں۔ برائی کی مدافعت بہترین رویہ سے کی جائے۔ اگر برائی کا بدلہ نیکی سے دیا جائے تو دشمن بھی دوست بن جائے گا۔معاف کرنا اور اصلاح کرنا باعث اجر ہے۔ تاہم اگر کوئی اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا بدلہ لینا چاہے تو اس کی اُسے قانون کے ذریعے اس کا بدلہ لینے کی اجازت ہے۔ (سورہ المؤمنون96:23، سورہ السجدہ34:41، سورہ الحج22:22، سورہ الشوریٰ40:42)
15۔سازشیں اور غلط مقاصد کے لئے سرگرمیاں نہ کی جائیں۔ صاف اور پختہ بات کی جائے۔ (سورہ الحزاب 33: 70-71، سورہ المجادلہ 58: 8-9)
16۔مناظرے بازیاں نہ کی جائیں۔ بے کار بحثوں میں نہ الجھا جائے۔ اگر کہیں سنجیدہ گفتگو کے بجائے محض کٹ حجتیاں ہو رہی ہو ں ، تو ایسے جاہلوں کو سلام کر کے وہاں سے ہٹ جائیں۔ (سورہ الفرقان63:25)
17۔اگر کہیں فضول اور گناہ کے کام ہو رہے ہوں ، تو ان سے اپنا دامن ، شریفانہ طور پر، بچاکر نکل جائیں۔ (سورہ الفرقان72:25)
18۔اللہ کا اور بندوں کا حق پورا کیا جائے۔ جو وعدہ انسان کا اللہ اور بندوں سے ہے ، اس کا ایفا کیا جائے ، ورنہ اس کے متعلق باز پرس ہو گی۔(سورہ المائدہ1:4، سورہ الانعام152:6، سورہ الاسراء34:17)
19۔اگر مسلمانوں کے دو گرہ آپس میں لڑ پڑ یں ، تو ان میں صلح کرادی جائے۔ (سورہ الحجرات9:49)
20۔عام استعمال کی چیزیں ایک دوسرے کو دینے سے دریغ نہ کیا جائے۔ (سورہ الماعون7:107)
21۔کسی کے گھر میں بلا اجازت داخل نہ ہوں۔ اگر صاحب خانہ واپس جانے کو کہیں تو خوش دلی کے ساتھ واپس ہو جائیں۔ مجلس میں دوسروں کے لئے گنجائش پیدا کی جائے۔ کسی گھر میں ضرورت سے زیادہ نہ بیٹھیں۔ گھروں میں داخل ہونے پر پاکیزہ اور برکت والا سلام اور ایک دوسرے کے لئے دعا کی جائے۔ (سورہ النور 24: 27-28، سورہ الاحزاب53:33، سورہ المجادلہ 11:58، سورہ النور 61:24)
22۔مال خرچ کرنے میں نہ کنجوسی سے کام لیا جائے اور نہ فضول خرچی کی جائے ، بلکہ اعتدال اور میانہ روی کا رویہ اختیار کیا جائے۔ (سورہ الاسراء 39:26:17)
23۔بغیر تحقیق کے ، ہرایرے غیرے کی خبر پر یقین نہ کیا جائے ، تاکہ نادانی میں کسی کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ (سورہ الحجرات6:49)
سوال: اسلامی معاشرے میں عورت کا اصل دائرہ کار کیا ہے ؟کیا اس دائرہ کار کے علاوہ عورت دوسرے مشاغل میں حصہ لے سکتی ہے ؟
جواب: اسلام کی رو سے عورت کی اسی طرح ایک آزادانہ شخصیت ہے جس طرح مرد کی ہے۔ وہ ہرطرح کی تحقیق اور مثبت سرگرمی میں حصہ لے سکتی ہے۔ مثلاً وہ تعلیم ، صحت ، تجارت، صنعت، سیاست، صحافت اور کسی بھی دوسری سرگرمی میں حصہ لے سکتی ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کے لحاظ سے عورت و مرد میں کوئی فرق نہیں۔ (سورہ احزاب۔55:33، النساء32:4، العمران۔195:3، التوبہ۔71:9)یہی وجہ ہے کہ حضور ﷺ اور خلفائے راشدین کے زمانے میں خواتین تمام سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھیں۔
تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گھر کی نگہداشت اور بچوں کی ابتدائی تربیت ایک خاتون سے بڑ ھ کر کوئی نہیں کر سکتا۔چنانچہ ایک ایک خاتون کی زندگی میں اتنا توازن ہونا چاہیے کہ اس کی آزادی بھی برقرار رہے اور بچوں کی تربیت میں بھی کمی نہ آنے پائے۔ (اس موضوع پر تفصیلی بحث راقم کی کتاب ’’اسلام اور عورت ‘‘میں کی گئی ہے )۔
سوال: اسلامی معاشرے میں عورتوں اور مردوں کے آزادانہ خلط ملط سے کیوں روکا گیا ہے ؟
جواب: اسلامی معاشرے میں سب سے اہم چیز پورے خاندان اور میاں بیوی کے رشتے کا تحفظ ہے۔ خاندان میں بچوں کو ماں باپ کی شفقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح جب والدین بوڑ ھے ہو جائیں ، تو انہیں خود نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر خاندان مستحکم ہو گا، تو بچیں ، جوانی اور بڑ ھاپے ، تینوں مرحلوں کی ضروریات بخوبی پوری ہو سکیں گی۔
چونکہ جوانی کا مرحلہ ہی وہ ہوتا ہے جب ایک فرد کی جذباتی کیفیات کی وجہ سے خاندان کے ادارے کو نقصان پہنچنے کا سب سے زیادہ اندیشہ ہو سکتا ہے ، اس لئے اسلام نے اس عمر میں مردوں اور عورتوں کے آزادانہ اختلاظ کو روکا اور حیاء کو، بحیثیت قدر، ترویج دی، تاکہ اپنے جذبات کی تسکین کے لئے شوہر اپنی بیوی اور بیوی اپنے شوہر کی طرف دیکھے۔ چنانچہ اسلام نے معاشرتی آداب سکھائے ہیں۔ ان آداب کے بغیر نہ خاندان کی سلامتی کی ضمانت باقی رہتی ہے اور نہ معاشرے کی۔ان آداب میں ایک یہ ہے کہ مرد و عورت کا آزادانہ اختلاط نہ ہو۔
سوال: اسلام نے مردوں اور عورتوں پر جو پابندیاں لگائی ہیں وہ پابندیاں کس نوعیت کی ہیں ؟
جواب: مردوں کے لئے ان پابندیوں کی دو صورتیں ہیں :ایک وہ وقت کہ جب وہ کسی دوست یا رشتہ دار کے گھر جائیں اور ان کا خواتین سے سامنا ہو۔دوسرا وہ وقت جب وہ کسی مشہور ومعروف انسان، مثلاً پبلک نمائندے کے ہاں مردانہ حصے میں بیٹھے ہوں اور انہیں گھر کے ندر سے کوئی چیز لینے کی ضرورت پیش آجائے۔
خواتین کے لئے بھی ان پابندیوں کی صورتیں دو ہیں :ایک وہ وقت جب کسی رشتہ دار یا دوست کے گھر جائیں (یا ان کے گھر کوئی رشتہ دار یا دوست آئے )اور ان کا مردوں سے سامنا ہو۔دوسرا وہ وقت جب انہیں پبلک مقامات مثلاً گلی یا بازار وغیرہ میں جانا ہو، جہاں ہر طرح کے لوگ موجود ہو سکتے ہیں۔
سوال۔: جب مرد کسی رشتہ دار یا دوست کے ہاں جائیں ، یا ان کے ہاں رشتہ دار یا دوست گھرانوں کی خواتین آئیں ، تو اس وقت، خواتین کے ساتھ بیٹھنے کے ضمن میں مردوں پر، دین نے کیا پابندیاں عائد کی ہیں ؟
جواب: ایسے موقعوں پر قرآن مجید مردوں کو دو پابندیوں کی ہدایت کرتا ہے :ایک یہ کہ وہ غض بصر کریں ، یعنی ان کی نگاہیں دوسری خواتین کے جسموں کا شہوانی جائزہ نہ لیں اور دوسری یہ کہ وہ پورے با حیاء کپڑ ے پہنے ہوئے ہوں کہ ان کے بدن کے خطوط اس سے نمایاں نہ ہوں۔ (سورہ النور30:24) اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بے حیاء گفتگو، ذومعنی فقرے اور اس قبیل کی دوسری تمام چیزوں پر بھی پابندی ہے۔
سوال: ایسے حالات میں جب مرد اور خواتین رشتہ داریا دوست خاندان اکٹھے بیٹھے ہوں ، تو وہاں خواتین پر کیا پابندیاں ہیں ؟
جواب: ایسی جگہوں میں خواتین کو تین حدود کا خیال رکھنا چاہیے :ایک یہ کہ وہ غص بصر کریں ، دوسری یہ کہ وہ پورے با حیاء کپڑ ے پہنے ہوئے ہوں۔ جس سے ان کے بدن کے خطوط نمایاں نہ ہوں۔ اس مقصد کے لئے وہ اپنے سینوں پر بھی دوپٹے ڈالیں۔ تیسرے یہ کہ وہ اس زینت کو حتی الواسع چھپانے کا اہتمام کریں ، جو انہوں نے اپنی آرائش و زیبائش کے لئے پہن رکھی ہو، مثلاً جو بھی زیورات آسانی سے چھپ سکیں ، انہیں چھپائیں اگر پاؤں میں پازیب ہو تو اس طرح نہ چلیں کہ اس کی آواز مردوں کے لئے جذباتی ہیجان کا باعث بن جائے۔ (سورہ النور31:24)
اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایسی مخلوط محفلوں میں خواتین کو بہت تیز خوشبوؤں ، گہرے میک اپ، آزادانہ ہنسی مذاق، بدن کی بے جا حرکات و سکنات، بے تکلفانہ گفتگو اور اس طرح کی دوسری چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔
سوال: درج بالا چار سوال و جواب میں رشتہ دار اور دوست خاندانوں سے کیا مراد ہے ؟
جواب: دیکھیے رشتہ داروں کا ایک حلقہ تو وہ ہوتا ہے ، جہاں مردوں اور عورتوں کے لئے آپس میں کوئی پابندیاں رکھنا ممکن ہی نہیں ہوتا، مثلاًشوہر، بیٹے ، بھائی، باپ، دادا، نانا، چچا، بھتیجا، بھانجا، بیوی، بیٹی، بہن، ماں ، دادی، نانی، چچی، خالہ، بھتیجی، بھانجی وغیرہ۔ان کو حرام رشتے کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں میاں بیوی کے علاوہ سب رشتوں میں نکاح منع ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور بھی حلقہ ہے جس میں عورتوں کو زینت چھپانے کے ضرورت نہیں۔ اس میں دوسری خواتین، چھوٹے بچے یا بوڑ ھے ملازم جو گھر کے اندر بچوں کی طرح پلے بڑ ھ ہوں اور جنہیں بس خاندان کا حصہ ہی تصور کیا جاتا ہو۔(سورہ النور 31:24)
لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سے رشتہ دار گھرانے ایسے ہوتے ہیں جن میں غمی، شادی اور سوشل تعلقات میں میل ملاقات کی ضرورت اکثر و بیشتر پڑ تی ہے۔ مثلاً چچاؤں ، خالوؤں ، چچیوں ، خالاؤں کے دوسرے اہل خانہ، سوتیلے رشتہ دار وغیرہ۔گویا اس میں دور و نزدیک کے وہ سب رشتہ دار آ جاتے ہیں جن سے کوئی گھرانہ اپنا خاندانی تعلق برقرار رکھنا چاہتا ہو۔
اسی طرح بعض خاندان دوستی کے رشتے میں اتنے قریب آ جاتے ہیں کہ وہ آپس میں سماجی تعلقات رکھنا چاہتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے تمام اہل خانہ آپس میں میل ملاقات رکھیں۔ ایسے ہی رشتہ داروں اور دوستوں کے خاندان کے لئے آپس میں میل ملاقات کے موقع پر وہ پابندیاں ہیں ، جن کا ذکر گذشتہ جوابات میں کیا گیا ہے۔
سوال: کیا ایک مسلمان کے لئے دوسرے مسلمان کے گھر میں داخل ہونے کے بھی کچھ آداب ہیں ؟
جواب: وہ گھر میں داخل ہونے سے پہلے سلام کرے ، اپنا تعارف کرائے ، اجازت طلب کرے اور اگر اجازت مل جائے ، تو پھر اندر جائے۔ (سورہ النور 28-27:24) تاہم اس موقع پر تخلیہ ممنوع ہے ، یعنی مرد، اکیلی عورت کے ساتھ نہ بیٹھے۔
سوال: آداب کے ضمن میں عوروتوں پر، گھروں سے باہر، غیر محفوظ مقامات میں کیا پابندیاں ہیں ؟
جواب: اس ضمن میں قرآن مجید کی ہدایت ہے کہ گلی، بازار اور اس طرح کی غیر محفوظ جگہیں ، جہاں بدقماش اور آوارہ لوگوں لوگوں سے دو چار ہونے اور ان کی طرف ایذا پہنچنے کا امکان ہو، وہاں خواتین زیادہ احتیاط سے کام لیں۔ ایسی جگہوں میں خواتین اپنے سروں پر ایک چادر ڈال لیں۔
عورت اپنے رجحان، ذوق یا حالات اور اپنی ضروریات کی مناسبت سے خود اپنے لئے اس کا تعین کر سکتی ہے۔ مثلاً جانی پہچانی گلی اور انجانی گلی میں بھی فرق ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ خاتون کو کوئی بوجھ یا کچھ سامان لانا ہو یا اس کے ساتھ گود میں بچہ ہو۔
گلی بازار کی اس احتیاط کی حکمت یہ ہے کہ بدقماش اور آوارہ لوگ، خاتون کو تنگ نہ کریں ، آوازیں نہ کسیں اور کوئی بری حرکت نہ کر گزریں۔ چنانچہ ہر خاتون کو اس موقعہ پر، اپنی حفاظت کرنی چاہیے۔
سوال: بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ مردوں کا توآپس میں تعلق ہوتا ہے ، اور وہ مردانہ حصے ، مثلاً ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں ، مگر ان کی خواتین کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہوتا۔اسی طرح عوامی اہمیت رکھنے والے افراد (مثلاً سیاست دانوں )کے ہاں لوگوں کی آمد ورفت ہوتی ہے۔ ان حالات میں مردوں اور عورتوں کی آپس میں مڈھ بھیڑ بھی ہو سکتی ہے ، اس میں بھی دین کی عمومی ہدایات کیا ہیں ؟
جواب: اس موقعہ پر بھی وہی ہدایات ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ یعنی بغیر اجازت لیے زنانہ حصے میں جانا چاہیے۔
سوال: کہا جاتا ہے کہ اسلامی احکام کے مطابق محرم رشتہ داروں کے علاوہ، باقی سب رشتہ داروں سے ، ایک عورت کو چہرے کا پردہ کرنا چاہیے۔ اس لئے کہ چہرہ زینت ہے ؟
جواب: یہ بات صحیح نہیں ہے۔ زینت بدن کو نہیں کہتے ، بلکہ اس چیز کو کہتے ہیں جو بدن کے اوپر آرائش وزیبائش کے لئے پہنی جاتی ہے۔ مثلاً زیور وغیرہ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر خاتون کو غیر محرم رشتہ دار سے چہرہ چھپا ہی مقصود تھا، تو پھر صرف یہی بات قرآن مجید میں آنی چاہیے تھی کہ گھر کے اندر خواتین، سب غیر محرم لوگوں سے چہرہ چھپائیں۔ اس کے بعد کسی اور حکم کی ضرورت ہی نہیں تھی، اس لئے کہ جب چہرہ ہی چھپ جائے تو غض بصر، حفظ فروج، سینے پر دوپٹہ ڈالنے اور دوسرے احکامات کے کوئی معنی ہی نہیں رہتے۔ لیکن اس کے بر عکس، قرآن مجید محفوظ مقامات کے اندر چہرے کے پردے کا کوئی ذکر نہیں کرتا اورغض بصر یعنی آنکھوں کا حیاء، حفظ فروج یعنی لباس اور اس طرح کی دوسری شرائط کا ذکر کرتا ہے۔
سوال: چہرے کے پردے کے حق میں یہ دلیل بھی پیش کی جاتی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اپنے دیور سے حجاب کرو؟
جواب: حضور ا کرم ﷺ کا فرمان بالکل صحیح اور قرآن کے مطابق ہے۔ یعنی یہ کہ گھر کے اندر ایک خاتون کو اپنے دیور سے بھی حجاب یعنی غض بصر، حفظ فروج اور اخفائے زینت کرنا چاہیے اورا س سے بے تکلف نہیں ہونا چاہیے۔ اس روایت میں چہرے کے پردے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
سوال: کہا جاتا ہے کہ بعض صحابہ ؓ (مثلاً عبداللہ بن عباسؓ ) سمجھتے تھے کہ جب کوئی خاتون گھر سے باہر جائے تو اپنے پورے بدن کو اس طرح مخفی رکھے کہ اس کی صرف ایک آنکھ کھلی رہے ، کیا یہ بات صحیح ہے ؟َ
جواب: حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی طرف درج بالا موقف کی نسبت بہت کمزور بلکہ غلط ہے۔ اس کے برعکس ان سے ابن جریر کے حوالے سے جو موقف بالکل صحیح طریقہ سے نکل کیا گیا ہے ، وہ یہ ہے کہ عورت اپنے چہرے اور ہاتھوں کو اس کی زینت سمیت کھلی رکھ سکتی ہے۔ یہی موقف حضرت عائشہ ؓ اورکئی دوسرء اہم ترین صحابہ کرامؓ کا ہے۔ یہی موقف اس امت کے اکثر وبیشتر اہلِ علم کا ہے۔
سوال: بعض جگہوں پر مردوں اور عورتوں کا خلط ملط ایک مجبوری ہوتی ہے۔ مثلاً بعض طالبات کو مخلوط اداروں میں پڑ ھنا پڑ تا ہے ، کچھ خاتون مریضوں کو مرد ڈاکٹروں سے علاج کروانا ہوتا ہے۔ اسی طرح لیڈی ڈاکٹروں کو مخلوط ماحول میں کام کرنا ہوتا ہے۔ بعض دفاتر میں مردوں اور خواتین کواکٹھے کام کرنا پڑ تا ہے۔ ہوٹل اور ریسٹورنٹ میں مردوں اور خواتین کو اکٹھے کھانا ہوتا ہے۔ بسوں اور ٹرینوں میں اکٹھے سفر کرنا ہوتا ہے۔ ان جگہوں میں مردوں اور خواتین پر آداب کے ضمن میں کیا پابندیاں عائد ہوتی ہیں ؟
جواب: قرآن مجید ان سب مقامات کو ’’بیت غیر مسکونہ‘‘ قرار دیتا ہے ، یعنی وہ گھر جہاں لوگ نہ بستے ہوں ، مگر لوگوں کی ضروریاتِ زندگی پوری ہوتی ہوں۔ یہ سب جگہیں محفوظ مقامات ہیں۔ (سورہ النور29:24)
ان سب مقامات پر آداب کے وہی احکام ہیں جو سوال نمبر 40اور 41میں گھر کے پردے کے ضمن میں بیان ہوئے ہیں ، یعنی غض بصر، حفظ فروج اور اخفائے زینت۔ان پابندیوں کے ساتھ مرد اور خواتین آپس میں گفتگو بھی کر سکتے ہیں ، اور اکٹھے کھانا بھی کھا سکتے ہیں۔
سوال: درج بالا سوال و جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ حجاب کے ضمن میں ہمارے معاشرے میں فکری اور عملی طور پر افراط و تفریط ہے۔ ایک طرف وہ دینی عنصر ہے جو محرم رشتہ داروں کے علاوہ ، باقی ہر ماحول اور جگہ میں ، مردوں اور خواتین کو ایک دوسرے سے کلی طور پر علیحدہ کروانا چاہتا ہے اور ہر مقام پر خواتین کے لئے چہرے کا پردہ لازم قرار دیتا ہے ، خواہ وہ گھر ہو، محفوظ مقام ہو یا گلی بازار کی طرح غیر محفوظ مقام۔جبکہ دوسری طرف وہ اباحیت زدہ عناصر ہیں جنہوں نے آپس کے روابط کے ضمن میں مردوں اور خواتین کو ہر پابندی سے آزاد کیا ہوا ہے اور وہ عملاً یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان مغربی معاشرت قبول کریں۔ یہ دونوں ہی نقطہ اعتدال سے ہٹے ہوئے اور غیر مناسب ہیں۔ اعتدال کا رویہ وہی ہے جو اوپر کے سوال و جواب میں مذکور ہوا ہے ، کیا یہ بات صحیح ہے ؟
جواب: جی ہاں ، یہ بات صحیح ہے۔ بد قسمتی سے آج کل مسلمان اسی ایک معاملے ہی میں نہیں بلکہ بہت سے دوسرے معاملات میں بھی ایسے ہی افراط و تفریظ کا شکار ہیں ، جبکہ ہمارے دین کا راستہ ، اعتدال کا راستہ ہے۔
سوال: حجاب کے اصل معانی کیا ہیں ، حجاب اور نقاب میں کیا فرق ہے ؟
جواب: قرآن مجید میں امہات المومنین کے ضمن میں حجاب کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ مدنی دور میں ایک زمانے میں منافقین نے یہ معمول بنالیا تھا کہ وہ مسجد نبوی میں حضور ﷺ کی محفل سے اٹھتے اور بغیر اجازت لئے امہات المومنین میں سے کسی کے کمرے میں گھس کر پانی وغیرہ مانگتے۔ ان سے اس کا اصل مقصد یہ ہوتا تھا کہ اندر کی کچھ سن گن لے کر اس سے کوئی ا سکینڈل بنا سکیں۔ (واضح رہے کہ اُس وقت مسجد نبوی کے بڑ ے ہال کے ساتھ حضور ﷺ کی ہر بیوی ؓ کا کمرہ بنا ہوا تھا اور صرف ایک کھلا دروازہ ہر کمرے کو مسجد سے علیحدہ کرتا تھا)۔چنانچہ اس کے سد باب کے لئے قرآن مجید نے حکم دیا کہ ہر دروازے پر ایک حجاب یعنی کپڑ ا لٹکا دیا جائے اور اگر کسی فرد کو امہات المومنین سے کوئی چیز مانگنی ہو تو وہ اس پردے کے پیچھے سے آواز دے ، اسے کمرے کے اندر جانے کی اجازت نہیں۔ گویا حجاب دروازے پر لٹکے ہوئے پردے کو کہا جاتا ہے ، اس کا چہرہ چھپانے سے کوئی تعلق نہیں۔
چہرہ چھپانے کے لئے جو کپڑ ا استعمال کیا جاتا ہے ، اسے عربی میں نقاب کہتے ہیں۔ حضور ﷺ کے زمانے میں جو خواتین چہرہ چھپاتی تھیں۔ انہیں ’’منقبہ‘‘کہا جاتا تھا۔اسلام نے نہ اس کو لازم ٹھہرایا، نہ اس سے کسی کو منع کیا۔ احادیث صحیحہ میں یہ لفظ کئی دفعہ استعمال ہوا ہے۔
سوال: آج ایک مسلمان گھرانے میں ٹی وی بہت بڑ ا مسئلہ بن چکا ہے۔ ایک طرف تو یہ ایک ضرورت ہے ، کیانکہ اس پر کئی قسم کے تعلیمی اور تفریحی پروگرام پیش ہوتے ہیں اور دوسری طرف اس میں بے حیائی اور مخلوط معاشرے کے ایسے مظاہر پیش کئے جاتے ہیں جو ہمارے دینی اقدار کے بالکل منافی ہیں۔ گھر میں ٹی وی نہ رکھنا بھی ممکن نہیں ہے ، کیونکہ بچے ٹی وی دیکھنے کے لئے چھپ کر دوسرے گھروں میں جاتے ہیں ، جس سے مزید خرابیاں جنم لینے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ بچوں میں ایک مستقل احساس محرومی جنم لیتا ہے اور کئی دوسرے تضادات بھی پیش آتے ہیں۔ اس معاملے کا حل کیا ہے ؟
جواب: مسلم معاشرے کے لئے ٹی وی ایک اجتماعی ھالت اضطرار کی چیزیں بن چکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک خراب چیز کو بعض دوسرے مصالح کی وجہ سے گوارا کر لیا جائے۔ اس اجتماعی حالت اضطرار کو بعض فقہا’’عموم بلویٰ‘‘بھی کہتے ہیں۔ چنانچہ اس ضمن میں صحیح طرز عمل یہ ہے کہ ہر گھرانے کے بچوں اور نوجوانوں میں نیکی اور بدی کا شعور پیدا کیا جائے۔ ٹی وی کے کھلے فحش پروگرام کے خلاف ذہن میں نفرت بٹھائی جائے اور حکمت کے ساتھ سب کو آگاہ کیا جائے کہ وہ اس طرح کے پروگرام دیکھنے سے اجتناب کریں۔
سوال: فنون لطیفہ کے متعلق دین کا نقطہ نظر کیا ہے ؟
جواب: انسان، بدن اور لطیف احساسات، دونوں کا مجموعہ ہے ، اس لئے انسان کی ضروریات صرف جسمانی نہیں ، بلکہ روحانی بھی ہیں۔ مثلاً انسان کو اپنی بدنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کچھ لحمیات، کچھ روغن اور کچھ نشاستہ چاہیے۔ یہ چاہے جس شکل میں بھی ملے ، اس سے بدن کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ لیکن حسِ لطیف اس پر اتنی حاوی ہے کہ وہ کبھی بھی کچا گوشت، چربی اور گندم کے کچھ دانے کھا کر اپنا پیٹ نہیں بھرتا، بلکہ ان سب چیزوں کو ہزاروں طریقوں سے ملا کر، ان میں سینکڑ وں ذائقے ڈال کر، ان سے لطف و لذت لیتا ہے۔ گویا حسِ لطیف کی تسکیں ، فنون لطیفہ کو جنم دیتی ہے۔
قدرت نے انسان کی حسِ لطیف کی تسکین اس کائنات میں ہزاروں طریقوں سے کی ہے۔ بلبل کے چہچہے اور کوئل کی کوک ہمارے کانوں کو بھاتی ہے۔ سمندر، وادیاں ، پہاڑ اور سبزہ ہماری آنکھوں کی فرحت کا سامان کرتے ہیں جبکہ الفاظ کی لطافت، شعروادب میں ڈھل جاتی ہے۔ بدن کو ڈھانپنے کی ضرورت لباس کے ہزاروں ڈیزائنوں میں بدل جاتی ہے ، خواتین کی اپنے آپ کو سجانے کی فطری خواہش، زیورات کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ انسان کے اپنے کام کی مصروفیت سے پیدا ہونے والی بوریت کھیلوں کی شکل میں بدل جاتی ہے۔
ہمار ادین کسی فطری تقاضے کا انکار نہیں کرتا۔چنانچہ دین کی رو سے یہ تمام فنون لطیفہ، اصلاً جائز ہیں۔ قرآن مجید ان کو بھی زینت قرار دیتا ہے۔ (سورہ الاعراف 23:7) تاہم ان کے استعمال پر دین ہی کی رو سے دو پابندیاں عائد ہیں۔ پہلی پابندی یہ ہے کہ ان میں سے کسی فن لطیفہ سے لطیف اٹھاتے ہوئے دین کا کوئی حکم پامال نہیں ہونا چاہیے اور ان میں شرک و بے حیائی نہیں آنی چاہیے۔ دوسری پابندی یہ ہے کہ ان میں سے ہر چیز اعتدال کے دائرے کے اندر کی جائے۔ اگر کسی فن لطیف میں انسان کی مشغولیت اتنی بڑ ھ جائے کہ وہ اپنے مقصد زندگی یعنی عبادت اور دنیوی فرائض میں کوتاہی برتنے لگے ، تو یہ جائز نہیں ہے ، جیسے کہ جائز کاروبار دنیا میں مصروفیت یا جنس اور غذا کی لذت میں مصروفیت بھی اگر حد سے زیادہ ہو، تو درست نہیں ہے۔
سوال: تصاویر کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر کیا ہے ؟
جواب: عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسلام میں جان داروں کی تصویروں کی مکمل ممانعت ہے۔ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ شرک اور بے حیائی سے پاک ہر تصویر جائز ہے ، خواہ وہ ہاتھ سے بنی ہو یا کیمرے سے لی گئی ہو یا ٹی وی کے ذریعے لی گئی ہو۔اگر تصویر حرام ہوتی تو لازماً قرآن مجید میں یہ حکم نازل ہوتا۔قرآن مجید کے نزول کے وقت تصویریں موجود تھیں۔ چونکہ قرآن ہی ہمارے لئے معیار ہے اور حلال اور حرام کی بنیاد قرآن مجید میں موجود ہے ، اس لئے یہ ضروری تھا کہ تصویر کا حکم صاف اور واضح الفاظ میں قرآن مجید میں آتا۔
اس اصول کی روشنی میں جب ہم احادیث کے تمام ذخیرے کا مطالعہ کرتے ہیں جو تصویر کے ضمن میں آئی ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ حضور ﷺ کے زمانے میں سارا معاشرہ شرک سے آلودہ تھا۔قریش تو خیر تھے ہی مشرکین، عیسائیوں کی عبادت گا ہوں میں بھی عیسیٰ علیہ السلام اور مریم علیہما السلام کے بت اور تصویریں لگی ہوئی تھیں۔ خانہ کعبہ میں گھوڑ وں کی شکل میں ملائکہ کی تصویریں لگی ہوئی تھیں جن کی عبادت کی جاتی تھی۔حضور ﷺ نے خود اس بات کو نہایت وضاحت سے بیان کر دیا تھا۔ہوا یوں کہ جب چند صحابیات (ابن اُم حبیبہ ؓ اور ام سلمہ ؓ)مکی دور میں قریش کے ظلم و ستم سے تنگ آ کرحبشہ ہجرت کر گئیں تو وہاں انہوں نے عیسائیوں کی عبادت گاہیں دیکھیں ، جس میں تعظیم و عبادت کی تصویریں تھیں۔ جب وہ وہاں سے واپس آئیں تو ایک موقع پر انہوں نے اس کا ذکر آپ ؐ سے کیا۔ اس پر آپ ؐ نے فرمایا کہ ان لوگوں کا حال یہ تھا کہ جب ان میں سے کوئی صالح شخص فوت ہو جاتا تو اس کے مرنے کے بعد وہ اس کی قبر پر عبادت گاہ بناتے اور اس میں عبادت کے لئے اس فرد اور دوسرے لوگوں کی تصویریں رکھتے۔ یہ لوگ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق قرار پائیں گے۔ (بخاری، کتاب الصلواۃ صحیح مسلم، کتاب المساجد)
ان تصویروں میں اصل جرم شرک تھا۔جس کے بارے میں اسلام کا رویہ بہت سخت ہے۔ اسی طرح ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے دروازے پر ایک پردہ لٹکایا جس پر پردا رگھوڑ وں کی تصویریں تھیں۔ پردار گھوڑ ے فرشتوں کی علامت تھے ، جنہیں مشرکین عبادت کے لئے استعمال کرتے تھے۔ چنانچہ حضورؐ نے عائشہ ؓ کو حکم دیا کہ ان پردوں کو اتار دیا جائے۔ (بخاری، مسلم کتاب اللباس)
چونکہ عبادت کے لئے تصویریں بنانے والے یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ صالح لوگ حاضر و ناظر ہیں۔ خدا کے ہاں ان کے سفارشی ہیں۔ ان کی بات سن سکتے ہیں اور ان کی بگڑ ی بنا سکتے ہیں ، اس لئے قیامت کے دن ان مصوروں سے کہا جائے گا کہ بت اور تصویریں خاضرو ناظر ہیں تو اب تم ان کو زندہ کر کے دکھاؤ۔ان کے غلط عقیدے کی بناء پر یہ چیز بطور سزا ان سے کہی جائے گی اور ظاہر ہے کہ اس وقت اپنے شرک کے لئے ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہو گا۔چناچہ ان تمام روایات میں اصل جرم تصویر کشی نہیں بلکہ شرک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں تصویر اور مصور کا ذکر ’’ال‘‘یعنی اسم معرفہ کے ساتھ آیا ہے۔ (بخاری، کتاب التعبیر)
چونکہ اس زمانے میں ہر بت کی پوجا کی جاتی تھی، ہرا بھری ہوئی قبر کو پوجا جاتا تھا اور ہر ایسی تصویر کی تعظیم کی جاتی تھی، اسی لئے حضور ﷺ نے حضرت علیؓ کو شرک کے یہ تمام مظاہرے مٹانے کا حکم دیا۔چنانچہ حضرت علیؓ نے یہ کام کیا۔(مسلم، کتاب الجنائز)
یہی وجہ ہے کہ مختلف اوقات میں جہاں جہاں شرک کا خطرہ نہیں تھا، وہاں آپ ؐنے تصویر کی اجازت دی۔ مثلاً ابو طلحہ انصاریؓ کی روایت ہے کہ جس کپڑ ے پر تصویر کڑ ھی ہو(اور وہ شرک سے آلودہ نہ ہو)اس کا پردہ لٹکانے کی اجازت ہے۔ (بخاری، کتاب اللباس) اسی طرح جب حضرت عائشہ ؓ نے تصویر دار کپڑ ے کو پھاڑ کر اس سے گدا بنا لیا۔(اور اس کے شرک کا اظہار ختم کر دیا)تو حضور ﷺ نے اسے بچھانے سے منع نہ کیا۔(مسلم، کتاب اللباس) اسی طرح حضرت سالم ؓ بن عبداللہ سے یہ روایت ہے کہ اُس تصویر کی ممانعت ہے جو (تعظیم، عبادت کے طور پر )نمایاں مقام پر نصب کی گئی ہو۔اس تصویر کی ممانعت نہیں جو کسی عام جگہ موجود ہو۔(مسند احمد)
دور حاضر میں یہ مسئلہ پیدا ہو گیا ہے کہ شرک کے علاوہ بے حیائی بھی تصویر میں بہت در آئی ہے ، چنانچہ تصویر کے ضمن میں اور خصوصاً خواتین کی تصویر کے ضمن میں ان تمام حدود کا خیال رکھنا ضروری ہے جو ہم پیچھے بیان کر چکے ہیں۔
ان حدود کے لحاظ سے ہاتھ سے بنی ہوئی اور کیمرے کی تصویر میں کوئی فرق نہیں۔ اگر ہاتھ سے بنی ہوئی تصویر شرک و بے حیائی سے آلودہ نہیں تو وہ بھی جائز ہے اور اس کے برعکس اگر کیمرے کی کسی تصویر شرک پایا جاتا ہے ، تو وہ اپنے درجے کے لحاظ سے ناجائز و ناپسندیدہ ہے۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ تصویر کشی انسان کے بالکل فطری ذوق کی چیز ہے۔ انسان کے اندر نقالی کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ وہ بھی چاہتا ہے کہ اس کی مختلف یادیں باقی رہیں۔ اس مقصد کے لئے وہ تاریخ بھی لکھتا ہے۔ وہ ایک ہی چیز کو مختلف انداز میں پیش کرنا چاہتا ہے ، تاکہ انسان کے ذہن میں ایک بات اچھی طرح بیٹھ سکے۔ اس لئے وہ طالب علم کو کوئی چیز سکھاتے ہوئے زبان یا لکھائی اور چہرے کے اتارچڑ ھاؤ سے بھی مدد لیتا ہے۔ اسی طرح ایک خاص جگہ کی لذت سے دوسری جگہ بھی لطف اندوز ہونا چاہتا ہے۔ تصویر ان تمام جذبوں کی تسکین کرتی ہے۔ اس کے ذریعے سے انسان نقالی کرتا ہے۔ وہ اپنے خاندان کی یادیں محفوظ کرتا ہے۔ تصویر آج کی تعلیم میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اور اسی کے ذریعے سے انسان اپنے گھر میں وادیوں اور سمندر کے تصور سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔
درج بالا بحث سے یہ بات کھل کر واضح ہوتی ہے کہ اگر احادیث کا قرآن مجید کی واضح ہدایت روشنی میں مطالعہ کیا جائے تو ان کا صحیح مقام متعین ہو جاتا ہے۔ ان کی صحیح اور تسلی بخش وضاحت بھی سامنے آ جاتی ہے۔ اور مختلف روایات میں بظاہر جو تضاد آتا ہے ، ان کی بھی اطمینان بخش تشریح ہو جاتی ہے۔ چونکہ تصویر اتنی فطری چیز ہے اس لئے اسے ناجائز سمجھنے والوں کو بھی اس معاملے میں بے شمار مستثنیات دینی پڑ ی ہیں۔ مثلاً شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی تصویر، کارٹون، دینی اور سیاسی جلسوں کی تصویر، تعلیمی مقاصد کے لئے تصویر وغیرہ وغیرہ۔ بلکہ صحیح صورت حال تو یہ ہے کہ اس کے ناجائز ہونے کا فتویٰ لگانے والوں نے بھی اسے عملاً ہر مباح کام کے لئے جائز کر لیا ہے۔
سوال: موسیقی کے بارے میں اسلام کا نقطئہ نظر کیا ہے ؟
جواب: موسیقی کے بارے میں عام طور پر جو نقطئہ نظر پایا جاتا ہے یہ ہے کہ موسیقی قطعاً حرام اور ناجائز ہے ، روایات میں حضورا کرم ﷺ کا یہ ارشاد نقل ہوا ہے کہ ’’میں آلات موسیقی توڑ نے کے لئے بھیجا گیا ہوں ‘‘۔تاہم، حضور ﷺ نے بعض موقعوں پر دف کی اجازت دی ہے ، اسی لئے صرف انہی موقعوں پر دف کی اجازت ہے۔
اس بارے میں ہمارا نقطئہ نظر یہ ہے کہ پورے قرآن مجید میں موسیقی کی ممانعت میں کچھ نہیں آیا۔(حالانکہ نزولِ قرآ ن کے وقت موسیقی موجود تھی)۔اگر موسیقی حرام ہوتی تو قرآن مجید لازماً نہایت واضح الفاظ میں اس سے منع کرتا، اس لئے موسیقی اصلاً حلال ہے۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ اگر اسے غلط مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے تو یہ ناجائز ہے۔
اس کے بعد جب ہم احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے دو طرح کی روایات آتی ہیں۔ ایک وہ روایات جن میں موسیقی کی ممانعت کی گئی ہے اور دوسری روایات جن میں موسیقی کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ بڑ ی دلچسپ بات ہے کہ موسیقی کی ممانعت سے متعلق جتنی بھی روایات ہیں وہ سب کی سب ضعیف اور کمزور ہیں۔ مثلاً یہ روایت کہ ’’میں آلاتِ موسیقی توڑ نے کے لئے بھیجا گیا ہوں ‘‘۔کنزالاعمال نامی کتاب میں درج ہے اور خود اس کتاب کے مصنف لکھتے ہیں کہ یہ ایک کمزور روایت ہے۔
اس کے برعکس موسیقی کے جائز ہونے کے سلسلہ میں جتنی روایات آئی ہیں ، ان میں کئی روایات صحیح ہیں اور وہ نہایت مستند کتابوں میں آئی ہیں۔ مثلاً حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ جب ایک انصاری کی شادی ہوئی تو حضور ﷺ نے پوچھا:اے عائشہ، کیا تم لوگوں کے پاس گانا بجانا نہیں تھا، گانا بجانا تو انصار کو پسند ہے۔ (بخاری، کتاب النکاح)
اسی طرح عامر بن سعد کی روایت ہے کہ ایک شادی کے موقع پر انہوں نے دوصحابیوں کو دیکھا جن کے قریب چند لڑ کیاں گانے میں مشغول تھیں۔ عامر نے جب ان سے پوچھا:آپ دونوں حضورؐ کے صحابی ہیں۔ آپ نے بدر کے معر کے میں بھی حصہ لیا ہے اور یہ سب کچھ آپ کے سامنے کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے جواب دیا:’’آپ چاہیں تو تشریف رکھیں اور سنیں اور اگر چاہیں تو چلے جائیں۔ ہمیں تو شادی بیاہ کے موقع پر کھیل تماشے کی اجازت دی گئی ہے۔ (بخاری، کتاب النکاح)
صحیح بخاری کی ایک روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عید کے دن حضور ﷺ کے گھر دو لڑ کیوں نے جنگ بعاث کے گیت مزامیر (موسیقی )کے ساتھ گائے۔ اسی طرح مسندِترمذی کی روایت ہے کہ جب حضور ؐ ایک غزوہ سے لوٹے تو ایک خاتون نے آپؐ کے سامنے دف بجا کر گیت گایا۔
اس بحث سے ہمارے سامنے یہ اصول واضح ہوتا ہے کہ موسیقی بنیادی طور پر جائز ہے۔ البتہ اس کا غلط استعمال اس کو حرام بنا دیتا ہے۔ مثلاً اگران کے ساتھ شرک، شراب اور بے حیائی کو شامل کر دیا گیاجائے تو وہ حرام بن جاتی ہے۔
سوال: مختلف کھیلوں کے بارے میں اسلام کا نقطئہ نظر کیا ہے ؟
جواب: تمام کھیل بنیادی طور پر جائز ہیں۔ قرآن مجید انہیں ’’لہو‘‘کہتا ہے۔ البتہ موجودہ حالات میں دو باتیں ہیں جو ہر حلال کو حرام کر دیتی ہیں۔ پہلی چیز کھیل کی ہار جیت پر شرط لگانا، یعنی جوا کھیلنا ہے۔ دوسری چیز کھیل میں اعتدال سے ہٹ کر مصروفیت ہے۔ اگر انسان کھیل میں اتنا مگن ہو جائے کہ اس کی ملازمت، تعلیم، عبادت اور خانگی مصروفیات متاثر ہوں ، تو یہ غلط ہو گا۔پھر عقل بھی اس سے روکے گی اور دین بھی اس سے منع کرے گا۔
سوال: ضبطِ ولادت (فیملی پلاننگ)کا دینی حکم کیا ہے ؟
جواب: پروردگار نے اس دنیا کو چلانے کا جو ضابطہ مقرر کیا ہے اس کے مطابق یہاں کے تمام کام دو طریقوں سے انجام پاتے ہیں۔ ایک طریقہ وہ ہے جس میں انسان کا کوئی عمل دخل نہیں مثلاً بارش، طوفان، زلزلے ، موسموں کی تبدیلی، قدرتی آفات۔دوسرا طریقہ وہ ہے جس کے مطابق کچھ کاموں کا ذریعہ اور سبب انسان بنتا ہے۔ وہ تمام کام جنہیں انسان اپنے اختیار میں سمجھتا ہے ان کے متعلق پروردگار نے انسان کو ہدایت دی ہے کہ وہ علم، فکر، عقل اور تدبر سے کام لے۔ قرآن مجید میں انسان کو سینکڑ وں مرتبہ یہ ہدایت کی گئی ہے۔
ایسے تمام اختیاری معاملات میں انسان جو بھی فیصلہ کرتا ہے اور راہ عمل متعین کرتا ہے اگر وہ بلحاظ مجموعی انسانیت کے مفاد میں ہو اور اس سے انسانیت کو کسی بڑ ے نقصان کا اندیشہ نہ ہو تو انسان کی یہی کوشش پروردگار کا فیصلہ بن جاتی ہے۔ اسی طرح انسان ترقی کے منازل طے کرتا رہتا ہے۔ انسان کی آج تک کی تمام علمی، فکری اور سائنسی ترقی اسی طریقہ سے ہوئی ہے۔ پروردگار نے اپنی اسی سنت کو قرآن مجید میں کئی دفعہ بیان کیا ہے کہ پروردگار کسی عمل کو ضائع نہیں ہونے دیتا۔
البتہ اگر انسان کی کوشش بلحاظ مجموعی عالم انسانیت کے خلاف ہو اور اس سے کوئی برائی اس طریقہ سے پھیلنے کا امکان ہو جس سے نیکی کی آواز بالکل ختم ہی ہوکر رہ جائے تو ایسی ہر کوشش پروردگار کے فیصلے کے تحت ناکامی سے دوچار ہوجاتی ہے۔ (سورہ بقرہ آیت251) اس صدی میں ملحدانہ کمیونزم کا خاتمہ بھی اس سنت الٰہی کے تحت ہوا۔
بچے کی پیدائش بھی انہی اختیاری کاموں میں سے ایک کام ہو جس میں انسان کے فیصلے کو اللہ اپنی مشیت کے تحت روبہ عمل ہونے دیتا ہے۔ ہر بچے کی پیدائش بھی اگر چہ اللہ ہی کے حکم سے ہوتی ہے لیکن اس کا ذریعہ اور سبب انسان بنتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی عمل ہے جیسے کسان فصل اگاتا ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کہا گیا ہے کہ یہ کھیتی جو تم بوتے ہو، اسے تم اگاتے ہو یا ہم اگاتے ہیں۔ بے شک، کھیتی اللہ ہی کے حکم سے اگتی ہے ، لیکن کسان ہی اس کا ذریعہ اور سبب اور تدبیر کرنے والا بنتا ہے۔
نسل انسانی کی کھیتی بھی خود بخود نہیں اگتی بلکہ انسان کے ذریعے سے اگتی ہے۔ انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اسے اگانے میں عقل، فکر، علم اور تدبر استعمال کرے۔ یہی قرآن مجید کا حکم ہے۔ لہٰذا آج کے حالات میں اس کام میں چند امور لازماً ملحوظ رہنے چاہئیں۔
پہلی قابل غور بات یہ ہے کہ جس ماں کو بچہ پیدا کرنے کی ذمہ داری سونپی جا رہی ہے کیا وہ جسمانی اور نفسیاتی اعتبار سے نئے بچے کی پیدائش برداشت کر سکتی ہے ؟بچے کی پیدائش کے بعد ایک ماں نہ صرف جسمانی اعتبار سے کمزور ہوجاتی ہے ، بلکہ بعض حالات میں نفسیاتی اعتبار سے بھی وہ بہت نڈھال ہو جاتی ہے۔
دوسرا قابل غور پہلو یہ ہے کہ کیا ماں پہلے بچے کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داریوں سے فارغ ہو گئی ہے ؟تعلیم وتربیت کے ضمن میں ماں کی گود ابتدائی چند سالوں میں سب سے اہم ہے۔ اگر اس کا خیال نہ رکھا گیا تو بچوں کی مناسب تربیت نہیں ہو سکے گی۔
تیسری قابل غور بات یہ ہے کہ ایک باپ کی آمدنی کیا ہے اور اس میں وہ کتنے بچوں کی ان تمام ضرویات کو پورا کر سکتا ہے جس کا اللہ نے ذمہ دار اس کو ٹھہرایا ہے۔ مثلاً تعلیم، علاج، صحیح رہائش اور باعزت زندگی؟
چوتھی قابل غور بات یہ ہے کہ ایک باپ کتنے بچوں پر ذاتی توجہ دے سکتا ہے اس کے پاس فارغ وقت کتنا ہے اور وہ کتنے بچوں کی تعلیم و تربیت ذاتی طور پر بطریق احسن کر سکتا ہے ؟
پانچویں قابل غور بات یہ ہے کہ پورے ملک اور معاشرے کی صورتِ حال کیسی ہے ؟بے روزگاری کی کیا صورتِ حال ہے ؟کیا ہر چیز کے بارے میں صحیح پلاننگ ممکن ہے یا نہیں ؟چونکہ ہر فرد معاشرے کا جزو ہے اس لئے ہر فرد کو پورے معاشرے کے بارے میں بھی سوچنا ہے۔
درج بالا بحث کا مختصراً مطلب یہ ہے کہ جس طرح زندگی کے ہر میدان میں پلاننگ ضروری ہے اور دین کی ہدایت کے مطابق ہے ، اسی طرح خاندان کے معاملے میں بھی پلاننگ ضروری ہے اور یہ پلاننگ دین کے مطابق ہے۔
ہمارے درج بالا نقطئہ نظر پر بعض اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔ مناسب ہے کہ ان کا جائزہ بھی لے لیا جائے۔
پہلا اعتراض یہ ہے کہ فیملی پلاننگ پروردگار کی صفت رزاقیت پر عدم اعتماد ہے ، ہر انسان کو اللہ ہی رزق دیتا ہے۔ اس لئے ضبط ولادت نہیں کرنی چاہیے۔ اس عتراض کے ضمن میں ہمیں یہ کہنا ہے کہ پھر تو انسان کی ملازمت، تجارت، کاشتکاری اور ہر سائنسی ترقی بھی پروردگار کی صفت رزاقیت پر عدم اعتماد ہے کیونکہ انسان یہ سب کچھ رزق کمانے ہی کے لئے کرتا ہے۔ پھر تو انسان کو ہاتھ پاؤں توڑ کراس امید پر زندگی بسر کرنی چاہیے کہ اس کے رزق کی فراہمی پروردگار کے ذمہ ہے۔ انسان پر اس ضمن میں کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔
لیکن اگر ایسا نہیں ہے اور سب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ رزق حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنا ضروری ہے تو پھر اس بات پر سوچنا چاہیے کہ پروردگار کی صفت رزاقیت کا کیا مطلب ہے ؟اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ پروردگار نے رزق کے خزانے اس زمین میں انسان ہی کے لئے رکھے ہیں اوراسے عقل دی ہے کہ وہ ان سے صحیح طور پر استفادہ کرے۔ وہ اپنی عقل استعمال کرے گا تو پروردگار یہ اس کے حوالے کر دے گا۔چناچہ انسان کو اس معاملے میں اپنی پوری پلاننگ کرنی ہے۔ پوری کوشش کئے بغیر اس کے حصے کا رزق بھی اس کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔چنانچہ اس پلاننگ میں جو انسان ملازمت، تجارت اور کاشتکاری کے لئے کوشش کرتا ہے ، یہ پلاننگ بھی آپ سے آپ شامل ہے کہ خاندان اندازاً کتنا بڑ ا ہو؟کب نئے بچے کی تہمید باندھی جائے اور ہر بچے کی بہترین تربیت کیسے کی جائے۔ بس اسی کو ضبط ولادت کہتے ہیں۔
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ایک حدیث کے مطابق قیامت تک پیدا ہونے والے بچے تو پیدا ہو کر رہیں گے ، پھر کیوں فیملی پلاننگ کے بارے میں سوچاجائے ؟اس اعتراض کا آسان جواب یہ ہے کہ بے شک یہ سب بچے پیدا ہوں مگر ایک پلاننگ کے تحت ہوں بغیر مناسب تیاری کے پیدا نہ ہوں ، لیکن اس بات کا ایک پس منظر ہے ، وہ یہ کہ حضور ﷺ کے زمانے میں صحابہ کرامؓ منع حمل کے قدیم طریقے (یعنی عزل)سے کام لیتے تھے۔ یہ بات جب نبی کریم ؐ کے سامنے بیان کی گئی تو آپؐ نے اس طریقے کو اختیار کرنے کی اجازت دی(گویا اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ حمل کے تمام طریقے بنیادی طور پر جائز ہیں )۔البتہ یہ بات ضرور فرمائی کہ قیامت تک پیدا ہونے والے بچے تو پیدا ہو کر رہیں گے۔ اس ارشاد کا صریح مطلب یہ تھا کہ انسان اپنی تدبیر ہی کو سب کچھ نہ سمجھ لے ، اور اگر منع حمل کے مروج طریقوں کے استعمال کے باوجود حمل ٹھہر جائے تو کبھی اسقاطِ حمل یا قتل اولاد کے بارے میں نہ سوچے۔
تیسرا اعتراض یہ ہے کہ قرآن مجید نے قتل اولاد سے منع کیا ہے ، فیملی پلاننگ دراصل قتل اولاد ہی تو ہے۔ یہ اعتراض صحیح نہیں ہے۔ اصل معاملہ یہ تھا کہ مشرکین مکہ میں اپنے بچوں کو ، خصوصاً بچیوں کو قتل کرنے کا جاہلانہ طریقہ رائج تھا۔اس قتل میں دوسرے عوامل کے علاوہ ایک اہم عامل یہ بھی تھا کہ وہ بچیوں کو اپنی معیشت پر بوجھ سمجھ کر قتل کرتے تھے۔ چنانچہ قرآن مجید نے جس طرح اپنے زمانہ کی تمام جاہلانہ رسموں پر تنقید کی اسے طرح لوگوں کو اس بھیانک جرم سے بھی روکا۔قرآن مجید کی اس بات کا فیملی پلاننگ سے کوئی تعلق نہیں ، نہ ہی اسے فیملی پلاننگ پر منطبق کیا جا سکتا ہے۔
چوتھا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ فیملی پلاننگ یہودیوں اور مغرب کی سازش ہے تا کہ مسلمانوں کی تعداد نہ بڑ ھنے پائے۔ یہ اعتراض سراسر غلط ہے۔ اس امت کے خلاف اصل سازش تو یہ ہے کہ اس کو زیادہ سے زیادہ بے ہنگم، غیر منظم، تعلیم سے بے بہرہ اور سائنس سے نابلد رکھا جائے۔ آبادی میں غیر منظم اضافہ تمام پلاننگ کو درہم برہم کر کے رکھ دیتا ہے۔ اس کے برعکس اس طرح جب امت مسلمہ اپنے آپ کو برتری کے اعلیٰ ترین مقام پر لے جائے تو غیر مسلم اقوام کے لئے اسلام کی راہ کھل جائے گی۔امت کی کثرت کا صحیح طریقہ یہی ہے۔
پانچواں اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ (سورہ بقرہ۔ آیت223)کے مطابق’’تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں۔ تمہیں اختیار ہے کہ جس طرح چا ہو اپنی کھیتی میں جاؤ مگر اپنے مستقبل کی فکر کرو‘‘۔کھیتی سے انسان پیداوار ہی تو حاصل کرتا ہے اور فیملی پلاننگ دراصل پیداوارنہ لینے کے مترادف ہے۔ اس لئے فیملی پلاننگ خلافِ اسلام ہے۔
درحقیقت یہ بات یوں نہیں ہے۔ درج بالا آیت میں مرد اور شوہر کو ایک ذمہ دار کسان سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ایک ذمہ دار کسان اپنی کھیتی کو پہلے کھاد اور پانی دیتا ہے۔ اور صرف وہی فصل بوتا ہے جس کی ضرورت ہوتی ہے۔ فصل لینے کے دوران میں بھی اپنی کھیتی کی پوری حفاظت کرتا ہے اس کو بیماری کے حملے سے بچانے کی کوشش کرتا ہے اور جب فصل لے لیتا ہے تو کھتی کو آرام کرنے کے لئے ایک وقفہ دیتا ہے تا کہ وہ دوسری فصل کے لیے صحیح طریقہ سے قابل ہو جائے۔
جو کسان ایسا نہیں کرتا وہ ایک غیر ذمہ دار کسان ہے۔ پس درج بالا آیت ایک شوہر پر بہت ذمہ داری ڈالتی ہے۔ وہ یہ کہ اسے اپنی بیوی کی صحت کا پورا خیال رکھنا ہے۔ صرف اس وقت ایک نئے بچے کی تمہید باندھنی ہے جب بیوی اس کے لئے ہر طرح سے تیار ہو۔ایک ذمہ دارشوہر حمل کے دوران میں اس کی صحت کا پورا خیال رکھتا ہے اور ایک اولاد کے بعد دوسری اولاد تک مناسب وقفہ دیتا ہے۔ اگر وہ یوں نہیں کرتا تو وہ ایک غیر ذمہ دار شوہر ہے۔
اس آیت کا یہ حصہ بھی قابل غور ہے جس میں کہا گیا ہے کہ’’اپنے مستقبل کا فکر کرو‘‘۔اس کی مطلب یہ ہے کہ بے ہنگم اور غیر منظم طریقہ سے اپنا خاندان مت بڑ ھاؤ بلکہ خاندان بڑ ھاتے وقت اپنے حال اور مستقبل کے تمام عوامل پر نظر رکھو۔اور ان سب چیزوں کا خیال رکھتے ہوئے خاندان کی بڑ ھوتی کی تدبیر کرو، تاکہ مستقبل میں تمہیں کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑ ے۔
سوال: کیا کلوننگ کا طریقہ دریافت کر کے انسان خود تخلیق کے قابل نہیں ہو گیا؟نیز کیا کلوننگ بعض مفید مقاصد کے لئے جائز ہے ؟
جواب: کلوننگ تخلیق نہیں بلکہ پیدائش کا ایک نیا طریقہ ہے ، تقریباً ایسے ہی جیسے پودوں میں قلم لگاتے ہیں۔ ابھی یہ دریافت اپنی بہت ابتدائی حالت میں ہے۔ تاہم اسے متفق علیہ مفید مقاصد مثلاً بے اولاد جوڑ وں کے بارے میں استعمال کرنے کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔
اسے کسی بھی ایسے مقاصد کے لئے استعمال کرنا نا جائز ہے جس سے نسل انسانی کی موجودہ ہم آہنگی و توازن مجروح ہو۔
سوال: رضاعی بہن کا کیا مطلب ہے اس طریقہ سے کون سے رشتے حرام ہو جاتے ہیں ؟
جواب: اس کا مطلب یہ ہے کہ جس بچے یا بچی نے ماں کے علاوہ کسی خاتون کا دودھ پیا ہو وہ خاتون اس کے لئے ماں ہے ، اس خاتون کا شوہر اس کے لئے باپ کی جگہ پر ہے اور اس خاتون کے بچے اس کے لئے اپنے بہن بھائی ہیں ، جن سے اس کا نکاح حرام ہے۔
تاہم اس بچے یا بچی کے حقیقی بہن بھائیوں پر اس رشتے کا اطلاق نہیں ہوتا۔اس لئے ان پر اس ضمن میں کوئی پابندی بھی نہیں ہے۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ رضاعت کا یہ رشتہ کتنا دودھ اور کتنی دفعہ دودھ پینے سے قائم ہوتا ہے ؟قرآن مجید نے سورہ نساء آیت 23میں اس کا ذکر جن الفاظ میں کیا ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رضاعت کا رشتہ صرف اسی وقت قائم ہوتا ہے جب اس کے لئے باقاعدہ اہتمام ہو۔یعنی اپنے حقیقی ماں باپ کا ارادہ اور ان کی اجازت اور ان کی نیت شامل ہو اور اس کے ساتھ ساتھ دوسری خاتون بھی باقاعدہ اس بچے یا بچی کو اپنی رضاعی اولاد بنانے کے شعور کے ساتھ اس کو دودھ پلائے ، اور یہ بھی کہ رضاعی اولاد کو پہلے دن سے ہی باقاعدہ اس کا شعور ہو کہ اس کے رضاعی ماں باپ کون ہیں تاکہ ان کے بچوں کو وہ اپنے بہن بھائیوں کے طرح سمجھے۔
محض کسی اتفاقی واقعہ سے ، یا کسی روتے بچے کو چپ کرانے کے لئے ، یا حقیقی ماں باپ کی اجازت و اہتمام کے بغیر یہ رشتہ قائم نہیں ہوتا۔
سوال: کیا اسلام میں اسقاط حمل کی اجازت ہے ؟
جواب: حمل کی ابتدا، دراصل ایک انسان کی ابتدا ہے ، اس لئے اسقاطِ حمل ایک بڑ ا گناہ ہے۔ حمل کی تیسرے مہینے میں حنین میں روح پڑ جاتی ہے اور چوتھے مہینے میں روح کے الحاق سے انسان، حقیقتاً وجود میں آ جاتا ہے۔ اس لئے روح کے الحاق کے بعد اسقاطِ حمل، یقینا قتل اولاد کے مترادف ہے۔ ایک صورت میں ، البتہ اسقاطِ حمل کء اجازت ہے ، جب ماں کی زندگی کو حقیقی خطرہ لاحق ہو تو اسقاطِ حمل کیا جا سکتا ہے۔
سوال: غلامی کے ادارے کے متعلق اسلام کا کیا نقطئہ نظر ہے ؟عام طور پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اسلام اس ادارے کی حمایت کرتا ہے۔ اگر اب بھی کبھی دشمنوں کے ساتھ لڑ ائی ہو تو کیا ان کے قیدیوں کو غلام بنایا جا سکتا ہے ؟
جواب: غلامی، اسلام کے نظام کا جزو نہیں ہے۔ قرآن مجید کے مطابق اللہ نے انسان کو تکریم عطا کی ہے۔ (سورہ الاسراء 70:17، سورہ التین 6:95) اور اسے مسجود ملائک بنایا اور زمین میں ایک آزاد و خود مختار مخلوق (خلیفہ)کی حیثیت دی۔اس کے مابین خدائی تقسیم اگر کوئی ہے بھی، تو وہ شعوب و قبائل کی تقسیم ہے اور یہ بھی اس لئے کہ باہم تعارف کا ذریعہ بنے۔ اسلام میں غلامی کا کیا سوال، اس میں تو مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے لئے یہ قانون بنایا گیا ہے کہ اس کے باہمی امور تمام مسلمانوں (نہ کہ تمام آزاد مسلمانوں ) کے باہمی مشورے سے چلائے جائیں گے۔ پھر اسلام تمام مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دیتا ہے۔ احکام و اصول کی موجودگی میں یہ ناقابل تصور ہے کہ اسلام اس بات کو تسلیم کر سکتا ہے کہ ایک فرد کو اپنے جان ومال سمیت دوسرے فرد کی غلامی میں دے دیا جائے کہ وہ اس سے جو چاہے اور جس طرح چاہے کام لے۔
در حقیقت اسلام نے اس ادارے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا ہے ، لیکن اسے ختم کرنے کے لئے تدریج کا طریقہ اختیار کیا، تا کہ معاشرے انتشار نہ پھیلے اور معاشرہ درہم برہم نہ ہو۔اس وقت غلامی کے اس ادارے پر عرب کی معیشت اس طرح منحصر تھی جس طرح آج ہماری معیشت سود پر منحصر ہے۔ ہر بڑ ے فرد کے پاس بیسیوں اور سینکڑ وں غلام تھے جن سے زراعت، تجارت اور دوسرے کام لئے جاتے تھے۔ پھر یہ بات بھی تھی کہ اگر ان ہزاروں لاکھوں لونڈی غلاموں کو بیک وقت آزاد کر دیا جاتا تو ان میں سے اکثر اپنی کفالت کا بوجھ نہ اٹھا سکتے تھے۔ چناچہ دین نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ پہلے اخلاقی احساس کو بیدار کیا۔ چنانچہ اس نے غلاموں کی آزادی کو بہت بڑ ی نیکی قرار دیا۔(سورہ البلد13-11:90) پھر بتایا کہ ان کے انسانی حقوق مالکوں کے بالکل برابر ہیں۔ (سورہ النسائ36:4) ریاست کا بھی یہ فرض قرار دیا گیا کہ وہ فی الرقاب کے مد میں رقم رکھے اور اس سے غلاموں کو آزاد کرائے۔ اس کے بعد غلامی کی جڑ اس اصول کے ذریعے سے کاٹ دی گئی کہ جب مسلمانوں کو کسی لڑ ائی میں کامل فتح مل جائے تو وہ قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیں گے (سورہ محمد4:47) یا ان پر احسان کر کے انہیں چھوڑ دیں گے۔ موجودہ غلاموں کے بارے میں یہ کہا گیا اگر وہ چاہیں تو مکاتبت کے ذریعے سے ایک مقررہ رقم ادا کر کے اپنے آپ کو غلامی سے نکال لیں۔ (سورہ النور 24: 32-34)
اس طرح اسلام نے غلامی کے ادارے کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا اور آئندہ کے لئے یہ راستہ بالکل بند کر دیا۔
سوال: اسلام نے لباس کے متعلق کیا ہدایت دی ہے۔ حضور ﷺ نے جو لباس پہنا تھا، مثلاً پگڑ ی، لنگی وغیرہ، کیا اس کے پہننے میں کوئی اضافی اجر ہے ؟
جواب: قرآن مجید لباس کا یہ مقصد بیان کرتا ہے کہ وہ انسان کاستر چھپائے اور اس کے لئے زینت بنے۔ چناچہ ہر وہ لباس جائز ہے جو انسان کے بدن کو صحیح طریقے سے چھپائے اور معاشرتی حالات کے مطابق ہو۔اس ضمن میں کسی خاص لباس کو دوسرے لباس پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔ ہر عبادت کے موقع پر یہ لازم ہے کہ انسان بالکل صحیح لباس پہنے۔ (سورہ الاعراف 7: 26-31)خواتین کے سامنے بھی انسان کو ہمیشہ پورے لباس میں آنا چاہیے۔ حضور ﷺ جو لباس پہنتے تھے ، وہ ان کے اپنے تمدن کے لحاظ سے تھا۔ہمارے لئے اس لباس کے اتباع کے ضرورت نہیں۔ حضور ﷺ نے نہ اپنا لباس امت پر لازم کیا، نہ اس کی ترغیب دی اور نہ اس پر کسی اضافی اجر کی خوش خبری دی ہے۔
سوال: اسلام میں خوردونوش کے متعلق کیا ہدایت دی گئی ہیں ؟
جواب: اس ضمن میں قرآن کریم ہمیں یہ اصولی قاعدہ دیتا ہے کہ پروردگار کی عطا کردہ اشیاء میں سے ہر طیب اور پاکیزہ چیز حلال ہے اور ہر قسم کی گندگی (خباثت)میں آلودہ چیز حرام ہے۔ اسی بنا پر قرآن کریم نے شراب کو حرام قرار دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی تشریح میں ہمیں بتایا کہ شراب کے حرام ہونے کا اصل مقصد نشہ ہے ، چنانچہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے (دیکھیے رسول اللہ ﷺ نے ہمیں قرآن کریم پر غور وفکر کا کتنا سنہری اصول سمجھایا ہے کہ ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ کسی حکم کا مقصد اور اس کی حکمت کیا ہے )۔
کھانے کی چیزوں میں قرآن مجید نے بنیادی طور پر چار چیزیں حرام کر دیں :مردار، خون، خنزیر اور جس چیز پر ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔(سورہ البقرہ 173:2)اس کی مزید تشریح قرآن مجید اور رسول اللہ ﷺ نے کی ہے :مردار سے مراد ہر وہ جانور ہے جسے صحیح طریقے سے ذبح نہ کیا گیا ہو۔اس لئے قرآن مجید نے اس کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ گر کر، دم گھٹ کر، چوٹ لگ کر، سینگ الجھ کر اور درندے کا پھاڑ ا ہوا جانور بھی حرام ہے۔ خون سے مراد، خون کے ساتھ ساتھ خونخواری بھی ہے۔ یعنی ہر وہ جانور حرام ہے جو دوسرے جانور کو چیر پھاڑ کر گوشت کھاتا اور خون پیتا ہے۔ چنانچہ تمام خونخوار پرندے اور درندے حرام ہیں۔
خنزیر ایک ایسا جانور ہے جو گوشت بھی کھاتا ہے اور سبزی بھی، چنانچہ اسے گوشت خور جانوروں کی کیٹیگری میں شامل کر کے اسے حرام قرار دیا گیا۔حضور ﷺ نے مسلمانوں کو ہدایت کی کہ جن چیزوں سے انسان فطری طور پر کراہت کرتا ہے ، انہیں نہیں کھانا چاہیے۔ چناچہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ عموماً ساری دنیا کے لوگ گھوڑ ے ، گدھے ، شیر اور چیتے نہیں کھاتے۔
غیراللہ کے نام کی تشریح کرتے ہوئے قرآن مجید نے ہمیں ہدایت کی کہ اگر کسی چیزپر خدا کا نام نہ لیا جائے یا اسے کسی بت یا بزرگ کے لئے ، یا اس کے نام پر یا اس کی پرستش گاہ پر ذبح کر دیا جائے تو یہ بھی حرام ہے۔ (سورہ المائدہ3:5، سورہ الانعام121:6)
درج بالا معیارات پر آپ تمام چیزوں کو پرکھ کر جان سکتے ہیں کہ کون سی چیزیں حرام ہیں اور کون سی حلال۔مثلاً صحت کو نقصان پہنچانے والی ہر چیز حرام ہے ، اس لئے کہ وہ طیب اور پاکیزہ نہیں ہے۔ رشوت، چوری اور ڈاکے کی کمائی سے جو چیز کھائی جائے وہ حرام ہے ، کیونکہ وہ بھی پاکیزہ نہیں ہے۔ اسی طرح ہیروئن، چرس اور دوسری نشہ آور چیزیں حرام ہیں۔ کسی بھی نئے جانور کے متعلق یہ دیکھ لیجیے کہ کیا وہ خون تو نہیں پیتا، یا گندگی تو نہیں کھاتا۔ان کے علاوہ باقی تمام چیزیں ، اصلاً حلال ہیں۔
اگر مشینی ذبیحہ کے موقع پر اللہ کا نام لیا جائے تو یہ بھی حلال ہے۔ اہل کتاب کا ذبیحہ بھی، جب کہ انہوں نے اس پر خدا کا نام لیا ہو، حلال ہے۔ تمام سمندری جانور، بغیر ذبح کے حلال ہیں ، کیونکہ وہ ہر وقت پانی جیسی مطہر چیز میں رہتے ہیں۔ مجبوری کے عالم میں حرام چیز کا کھانا، وقتی طور پر گوارا ہے ، بشرطیکہ انسان کا ارادہ بغاوت یا زیادتی کرنے کا نہ ہو۔(سورہ البقرہ 173:2)
سوال:۔ ہمارے معاشرے میں کئی رسم و رواج اور قومی روایات موجود ہیں ، مثلاً شادی بیاہ کی رسمیں ، سالگرہ کی رسمیں ، قومی ترانہ وغیرہ۔ایسے معاشرتی رسوم ورواج کے متعلق دین کا کیا حکم ہے ؟
جواب: اگر یہ رسم ورواج اور قومی روایات دین کی کسی بنیادی اصول کے خلاف نہ ہوں تو یہ سب جائز اور مباح ہیں۔ قرآن مجید انہیں معاشرے کے معروف نام سے پکارتا ہے۔
دین اس بات میں ہماری حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ ہم ہر عام معاملات اپنے معاشرتی طریقے اور رسم ورواج کے مطابق انجام دیں ، گویا ہمارا دین اس بات کو پسند کرتا ہے کہ ہم اپنی معاشرتی اور قومی خصوصیات کو برقرار رکھیں۔
البتہ اگر کوئی رسم دین کے کسی بنیادی اصول سے ٹکراتی ہو، مثلاً اس میں بے حیائی ہو، فخرو غرور کا اظہار ہوتا ہو، بے جا اسراف ہو، تو اس کو معاشرتی دباؤ اور ریاستی طاقت سے روکنا چاہیے۔ مثلاً بعض علاقوں میں جہیز کی رسم میں اتنی نمود ونمائش آ گئی ہے اور اتنا اسراف کیا جانے لگاہے کہ غریب اور متوسط لوگوں کے لئے نہایت پریشان کن صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ اس طرح کی رسوم کو متعدل دائرے میں لانا پوری قوم اور خصوصاً بالادست طبقے کی ذمہ داری ہے۔
سوال: معاشرتی رسم ورواج اور بدعت میں کیا فرق ہے ؟
جواب: بدعت کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسی چیز کو دین میں لازمی چیز کی حیثیت سے شامل لیا جائے ، جسے دین نے لازمی حیثیت نہ دی ہو۔گویا بدعت ہمیشہ عبادات میں ہوتی ہے۔ اس کے برعکس رسم ورواج کو کوئی بھی فرد دین کا حصہ نہیں سمجھتا اور اس کے کرنے یا ترک کرنے پر کسی کے ذہن میں عذاب و ثواب کا تصور پیدا نہیں ہوتا۔بدعت اسلام میں قطعاً حرام ہے لیکن معاشرتی رسم ورواج کا بذات خود حرام و حلال سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سوال: ہماری زندگی اور معاشرت میں آج کل کون کون سی بدعتیں داخل ہو گئی ہیں ؟
جواب: وہ سب چیزیں جو حضورﷺ اور صحابہؓ کے زمانے میں بطورِ عبادت نہیں کی جاتی تھیں ، اُن کو لازمی عبادات کے طور پر کرنے کے جتنے بھی کام ہیں ، وہ سب بدعت میں داخل ہیں۔
سوال: بدعت آخر کیوں منع کیا گیا ہے ؟بعض بدعتوں میں بظاہر کوئی خرابی نظر نہیں آتی۔
جواب: پروردگار نے اعلان کر دیا ہے کہ دین مکمل ہو چکا ہے۔ عبادات واضح ہو چکی ہیں اور حرام و حلال بیان کئے جا چکے ہیں اس لئے اب دین میں کسی بھی نئے اضافے کا مطلب یہ ہو گا کہ اس کے بغیر دین نامکمل تھا۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بدعت کو گمراہی قرار دیا ہے۔
اگر اس بنیاد پر اضافے کی اجازت دی جانے لگے کہ فلاں کام میں کیا ہرج ہے ، تو ممکن ہے کہ کسی جگہ نماز کے بعد آدھا گھنٹہ اجتماعی ذکر شروع کیا جائے۔ پھر چند رکعت زائد نوافل کو لازم قرار دیا جائے۔ اس طرح ہماراصاف اور واضح دین پیچیدگیوں کا شکار ہو جائے گا اور لوگوں کے لئے بڑ ی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔
اگر آپ غور سے جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ کسی بھی نفلی عبادات کو اگر اجتماعی طور پر کیا جانے لگے تو کچھ مدت بعد، کچھ لوگ، اس کو لازم سمجھ لیتے ہیں کہ یہ لازم نہیں ہے۔ یوں گر وہ بندیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ پھر صرف یہی نہیں ہوتا، بلکہ ہر جگہ مختلف اضافے وجود پذیر ہوتے ہیں۔ اس لئے پاکستان سے ترکی جانے والا ایک فرد ہاں بالکل نئی چیزیں ، عبادت کے طور پر دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ یوں بدعت کے نتیجے میں جب دین پارہ پارہ ہو جاتا ہے تو امت بھی پارہ پارہ ہو جاتی ہے۔
چناچہ نفلی عبادات کو بھی بدعت ہونے سے بچانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انہیں انفرادی طور پر انجام دیا جائے اور اسے کسی پر لازم قرار نہ دیا جائے۔ اس طرح یہ امت اپنی صحیح بنیاد، یعنی قرآن وسنت پر قائم رہے گی۔
سوال: کسی نئی ایجاد کے اپنانے ، مثلاً اذان کے لئے لاؤڈ سپیکر استعمال کرنے ، یا کسی نئے طریقے کے تحت دین کی خدمت کرنے ، مثلاً کسی دینی مقصد کے لئے کوئی تنظیم بنانے اور بدعت میں کیا فرق ہے ؟
جواب: اگر آپ غورسے دیکھیں تو پہلی چیز محض ذرائع ورسائل ہیں ، مثلاً لاؤڈسپیکر کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ اذان کی آواز کو اونچاکر کے اسے زیادہ لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ اس طرح کسی نیک مقصد کے لئے تنظیم بنا کر کام کرنے سے ، اس مقصد کی طرف تیزی سے پیش قدمی کا امکان ہوتا ہے۔ یہ چیزیں ، بجائے خود مقصد نہیں ہیں۔ اگر لاؤڈ سپیکر نہ ہو تو بھی اذان ہو ہی جاتی ہے۔ اگر تنظیم نہ ہو تو بھی نیک کام ہو جاتے ہیں۔ ہرنئی ایجاد اور دریافت سے کام لینا ہمارے لئے پسندیدہ ہے۔ رسول کریم ﷺ نے ہمیشہ اپنے وقت کی اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے۔ مثلاً غزوئہ احزاب کے موقع پر آپ نے مدینہ کے گرد خندق کھودنے کا حکم دیا۔
اس کے برعکس، ہر بدعت، بجائے خود ایک مقصد یعنی عبادت ہے۔ ہر بدعت کے متعلق یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر یہ چیز لازم تھی یادین میں کوئی اہمیت رکھتی تھی تو اسے رسول اللہ ﷺ نے ، واضح طور پر لازم کیوں قرار نہیں دیا۔
سوال: ہمارے معاشرے میں مختلف امور پر اکثر بحث نزاع کا سلسلہ جاری رہتا ہے کہ اس کی بنیاد پر مسجدیں بھی الگ کر لی جاتی ہیں۔ ان میں سے کچھ امور نبی ﷺ سے متعلق ہیں ، مثلاً یہ کہ آپ نور تھے یا بشر۔آپ کو غیب کی تمام چیزیں معلوم تھیں یا نہیں ؟آپ فوت ہو گئے ہیں یا زندہ ہیں ؟آپ ہر جگہ موجود ہیں یا نہیں ؟ آپ اپنی قبر میں زندہ ہیں یا نہیں ؟ان سب امور میں صحیح نقطئہ نظر کیا ہے ؟
جواب: اگر ہر معاملے میں قرآن مجید کو فیصلہ کن کتاب مانا جائے تو یہ تمام مسائل با آسانی حال ہو جاتے ہیں۔ مثلاً دیکھیے کہ نور کا لفظ حدیث میں فرشتوں کے مادئہ تخلیق کے لئے استعمال ہوا ہے ، جب کہ انسان کا مادئہ تخلیق مٹی ہے۔ اس کے باوجود فرشتوں کو انسان کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا۔چناچہ اس معنی کے لحاظ سے رسول اللہ ﷺ نور نہیں تھے ، کیونکہ ان کا نور ہونا، ان کی شان میں کمی کا باعث بنتا ہے۔
قرآن مجید میں نور کا لفظ ’’نور ہدایت‘‘یعنی ہدایت کی روشنی کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔ اسی اعتبار سے رسول اللہ ﷺ کا سینہ، یقینا سب سے زیادہ نور سے منور تھا اور اس معنی کے لحاظ سے ہر مسلمان کا سینہ ایمان کے درجے کے مطابق نور ایمانی سے ہوتا منور ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے متعلق قرآن مجید نہایت واضح الفاظ میں کہتا ہے کہ آپ ؐ دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان ہیں۔ (سورہ الکہف110:18) آپ ؐ نہ تو خدائی خزانوں کے مالک ہیں ، نہ عالم الغیب ہیں اور نہ فرشتہ ہیں۔ (سورہ انمل50:27، سورہ الاحقاف46، سورہ الاعراف188:7) آپ ؐ کو بھی مرنا ہے اور آپ کے مخاطبین کو بھی مرنا ہے۔ (سورہ الزمر30:39)آپ بھی بشر ہیں ، اس لئے آپ ہمیشہ باقی نہیں رہیں گے۔ (سورہ الانبیاء33:21)
قرآن مجید نہایت صراحت سے یہ بات کرتا ہے کہ آپ ؐ فرشتہ نہیں ہیں ، اس لئے کہ انسانوں کی ہدایت و راہنمائی کے لئے فرشتہ نہیں ، بلکہ ایک انسان ہی کو بھیجنا چاہیے۔ (سورہ الاسراء95:17، سورہ الانعام6: 8-9) حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید نے اس مضمون کو بیسیوں دفعہ بیان کیا ہے اور اتنی صراحت سے بیان کیا ہے کہ قرآن مجید کو کھلی آنکھوں سے پڑ ھنے والا کوئی فرد تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو عالم الغیب، حی و قیوم یا حاضر وناظرمانے۔ یہ سب خدا کی صفات ہیں اور انہیں خدا ہی کے لئے خاص رکھنا چاہیے۔
سوال: اگر ایسا ہے نبی ﷺ حاضر وناظر نہیں اور آپ زندہ بھی نہیں تو پھر ہم حضور ﷺ پر درود و سلام کیوں بھیجتے ہیں ؟
جواب: برزخ کی زندگی میں ان تمام انسانوں کی روحیں موجود ہیں ، جو فوت ہو گئے ہیں۔ اس حیثیت میں ہم جب بھی کسی قبرستان سے گزرتے ہیں تو ان مردوں کی سعید روحوں پر سلام بھیجتے ہیں اور یہ سلام عالم بزرح میں انہیں پہنچایا جاتا ہے۔
جب ہم رسول اللہ ﷺ کے لئے دعا کرتے ہیں ، یا ان پر سلام بھیجتے ہیں تو ایسا ہر درودوسلام حضور ﷺ کی روح کو پہنچا دیا جاتا ہے۔
سوال: کیا یا اللہ یا رسول اللہ کہنا صحیح ہے ؟
جواب: ہم کسی کو’’یا‘‘کے لفظ سے تبھی مخاطب کرتے ہیں جب ہم ان کو کوئی بات کہنا چاہتے ہوں۔ چنانچہ اگر ہم اللہ کو مخاطب کر کے کچھ کہنا چاہتے ہوں ، یا رسول اللہ پر صلوٰۃ و سلام بھیجتا چاہتے ہوں تو ہم ’’یا ‘‘کا لفظ استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ عقیدہ رکھے بغیر کہ حضور ﷺ حاضر و ناظر ہیں ، یا آپ خدا کی طرح سمیع ہیں کہ اربوں میل کے فاصلے سے بھی سنتے ہیں ، چنانچہ ایسے موقعوں پر ’’یا‘‘کا استعمال درست ہے۔ ایسے موقعوں کے علاوہ ’’یا‘‘کا لفظ استعمال کرنا صحیح نہیں ہو گا۔
سوال: عقیقہ کی کیا حقیقت ہے ؟
جواب: یہ ایک نفلی عبادت ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ بچے یا بچی کی پیدائش پرکسی جانورکی قربانی یاخیرات کے ذریعے سے اللہ کا شکر ادا کیا جائے اس کے لئے کسی خاص دن یا کسی جانور کے تعین کی قید نہیں ہے۔
سوال: بعض مساجد میں درس و وعظ اور ذکر و تلاوت کے لئے لاؤڈسپیکر کو یوں استعمال کیا جاتا ہے کہ ہمسایوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ اس کے بارے میں دین کی ہدایت کیا ہے ؟
جواب: کسی انسان کو ایذا یا تکلیف پہنچانا دین میں بڑ ا گناہ ہے۔ کسی واعظ کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ لوگوں کہ اپنی باتیں بزور سنائے۔ رسول اللہﷺ کو بھی اللہ نے حکم دیا تھا کہ آپ صرف اس وقت لوگوں کو وعظ کریں جب وہ اس کو سننے کے لئے آمادہ ہوں۔ (سورہ الاعلیٰ9:87)
اس لئے لاؤڈسپیکر کی آواز صرف مسجد کے اندر موجود لوگوں کے لئے ہونی چاہیے اور مسجد سے باہر نہیں جانی چاہیے۔ البتہ اذان کے لئے ایسا لاؤد سپیکر استعمال کرنا، جس کی آواز گرد وپیش تک پہنچے ، بالکل مناسب ہے۔
سوال:۔ اگر کسی فوت شدہ انسان کو ہم اپنا کوئی نیک عمل بخشنا چاہیں ، تو کیا یہ ممکن ہے ؟
جواب: قرآن مجید نے یہ بات صراحت سے بیان کر دی ہے کہ ایک انسان کا عمل صرف وہی ہے جس کے لئے اس نے خود دوڑ دھوپ کی۔رسولاللہ ﷺ نے اس کی تشریح میں فرمایا کہ موت کے بعد ایک انسان کے اعمال کا دروازہ ہو جاتا ہے۔ البتہ تین چیزیں مرنے کے بعد بھی اس کو فائدہ پہنچا سکتی ہیں :ایک صدقہ جاریہ، دوسرا اگر اس نے علم پھیلایا ہو اور تیسرا نیک اولاد کی دعائیں۔
اگر آپ غور سے دیکھیں تو یہ تینوں کام ایسے ہیں جن کی بنیاد اس فوت شدہ انسان نے اپنی زندگی ہی میں رکھی تھی۔اسی طرح اگر کسی فرد نے کسی نیک کام کا مصمم ارادہ کر لیا ہو مگر اس کام کو پورا کرنے سے پہلے ہی فوت ہو گیا ہو تو انشاء اللہ اس کو اجر مل جائے گا اور اس کا کوئی وارث اس کام کو پورا کر دے تو یہ بھی مناسب ہے۔
سوال: کیا خواتین کے لئے سفر کرتے وقت کوئی محرم ساتھ رکھنا ضروری ہے ؟
جواب: اس ضمن میں تمام روایات کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ کسی سفر کا محفوظ یا غیر محفوظ ہونا ہے۔ اگر سفر محفوظ ہے ، خاتون کو اکیلے ہونے کی وجہ سے کوئی تکلیف پیش آنے کا امکان نہین اور نسبتاً کم مدت کے لئے ہے ، تو وہ اکیلی بھی سفر کر سکتی ہے اور اگر اس کے برعکس ہے تو محرم اس کے ساتھ ہونا چاہیے۔
گویا، دراصل یہ عقل عام پر مبنی رسول اللہ کی ایک ہدایت ہے۔
سوال: موجودہ حالات میں ، طبی اعتبار سے بھی کچھ مسائل سامنے آئے ہیں ، مثلاً یہ کہ کیا کوئی فرد اپنی زندگی میں ، یا مرنے کے بعد، اپنا کوئی عضو مثلاً آنکھ یا گردہ وغیرہ کسی کو دے سکتا ہے ؟کیا پلاسٹک سرجری کروائی جا سکتی ہے ؟کیا انتقال خون جائز ہے ؟اگر ماں کے پیٹ میں بچے کے اندر کسی بڑ ی خرابی کا پتا چل جائے تو کیا اس بچے کو ضائع کروانا جائز ہے ؟کیا کینسر کے آخری سٹیج میں مریض کو تکلیف سے بچانے کے لئے اس کو موت کا انجکشن لگا جائز ہے ؟کیا ٹیسٹ ٹیوب کے طریقے سے بچہ پیدا کرنا جائز ہے ؟
جواب: اگر کوئی عمل اسلام کے بنیادی اصولوں سے نہ ٹکراتا ہو اور اس میں کسی انسان کو ایک بڑ ا فائدہ ملنے کی توقع ہو، تو وہ جائز ہے۔ اس اعتبار سے اعضاء کا عطیہ، انتقال خون اور پلاسٹک سرجری جائز ہے۔ اس کے خلاف یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ چونکہ انسان کا بدن اس کا اپنا نہیں ، بلکہ خدا کی امانت ہے۔ اس لئے وہ اس کا عطیہ نہیں دے سکتا۔مگر یہ ایک کمزور دلیل ہے۔ ویسے تو ہر چیز خداکی امانت ہے ، مگر دنیا کی زندگی میں ہمارا بدن بہر حال ہمارا ہی ہے۔ اسی لئے ، بسا اوقات، ہم اسے اعلیٰ ترمقاصد کے لئے استعمال بھی کرتے ہیں۔ مثلاً اگر ہم کسی خاتون کی عزت و عصمت خطرے میں دیکھیں تو اپنی جان کی بازی لگا کر اس کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں جس طرح ہم کسی ڈوبتے ہوئے شخص کو بچانے کے لئے اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہیں ، اسی طرح کسی مرتے ہوئے شخص کو گردے کا عطیہ دینا یا کسی نابینا کو خدا کی نشانیاں دکھانے کے لئے بینا بنانا بھی ایک اعلیٰ مقصد ہے۔ اس لئے ہمارے خیال میں یہ جائز ہے۔
البتہ، چونکہ ان اعضاء کی خرید و فروخت بہت سے دوسرے اخلاقی نقصانات و مفاسد کو جنم دیتی ہے ، اس لئے اس حوالے سے مناسب پابندیاں عائد ہونی چاہییں۔
ماں کے پیٹ میں اگر بچے کے اندر کسی بہت بڑ ی خرابی کا پتا چل جائے تو اسے ضائع کروایا جا سکتا ہے۔
کینسر کے مریض کو ایسی سکون آور ادویات دینا مناسب ہے جس سے وہ درد محسوس نہ کرے ، لیکن اسے موت دینے کا اختیار کسی انسان کے پاس نہیں۔ ٹیسٹ ٹیوب کے طریقے سے پیدا ہونے والا بچہ اگر اپنے اصل ماں باپ سے ہو ، تو جائز ہے۔
سوال: جن کاغذوں پر مقدس الفاظ لکھے ہوں ، انہیں کیسے تلف کیا جائے ؟
جواب: یہ مسئلہ ادب واحترام سے تعلق رکھتا ہے۔ ایسے کاغذات کو دفن بھی کیا جا سکتا ہے ، جلایا بھی جا سکتا ہے اسی طرح ریزہ ریزہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ الفاظ کی شکل مٹ جائے۔ آج کل ایسی مشینیں بن گئی ہیں جن سے کاغذ بالکل ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔
سوال: قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے کن آداب کا خیال رکھنا جروری ہے ؟
جواب: قرآن مجید کا حتی الواسع ادب و احترام ملحوظ رکھنا چاہیے جیسے انسان ہر متاع عزیز کا احترام کرتا ہے۔ قرآن مجید خوب ٹھہر ٹھہر کر اور سمجھ کر پڑ ھنا چاہیے۔ (سور ہ المزمل4:73) بہتر ہے کہ بندہ وضو کر لے ، تاہم وضو سے تلاوت کرنے کی شرط نہیں ہے۔ اس ضمن میں بعض لوگوں کا یہ استدلال ہے کہ آیت قرآنی ’’اس کو مطہرین کے سوا کوئی نہیں چھوتا‘‘(سورہ الواقعہ 79:56)کی وجہ سے اسے بغیر وضو کے نہیں چھونا چاہیے۔ یہ ایک کمزور استد لال ہے۔ اس آیت کے سیاق وسباق میں یہ معنی لینے کی گنجائش نہیں ہے۔ اس جگہ مطہرین کا لفظ فرشتوں کے لئے ، اشرارشیاطین کے مقابلے میں آیا ہے۔ ویسے بھی ہر صاحب ایمان ہر وقت مطہر ہوتا ہے ، خواہ وہ بے وضو ہو یا با وضو۔