HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Dr. Farooq Khan

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

حج

تیرہواں باب

حج

سوال: صاحب استطاعت مسلمانوں پر زندگی میں ایک دفعہ حج بیت اللہ کیوں فرض ہے ؟

جواب: حج ایک جامع عبادت ہے ، یہ تمام عبادتوں کا مجموعہ اور نفس کی پا کیزگی کے لئے تربیت کا ایک مکمل کورس ہے۔ حج کی فضا میں انسان کا دل ہر وقت اللہ کی یا د میں معمور رہتا ہے۔ طواف کی شکل میں ایک ایسی عبادت بھی اس میں موجود ہے ، جو صرف خانہ کعبہ کی حاضری ہی میں ادا ہو سکتی ہے۔ حج کے لئے بندہ مومن اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کر کے ، اپنی وفاداری کا اظہارکرتا، دینوی خواہشات کو ترک کرتا، اپنے پروردگار کے لئے گھر بار چھوڑ تا اور ایک مہاجر و مجاہد کی طرح کبھی پڑ اؤ ڈالتا اور کبھی سفر کے مراحل طے کرتا ہے۔ پھر یہ کہ حج میں انسان ایک ایسا لباس اور وضع قطع اختیار کرتا ہے ، جس کے زریعے سے وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ اس نے دنیا اور اس کے معاملات سے اپنا تعلق منقطع کر لیا ہے اور اپنے آپ کو مکمل طور پر خدا کی غلامی میں دے دیا ہے۔

انسان کی زندگی میں حج کی عبادت ایک ناقابل فراموش روحانی تجربہ ہوتا ہے ، اس لئے ہر صاحب استطاعت مسلمان پر یہ زندگی میں ایک مرتبہ فرض کیا گیا ہے ، تاکہ اس تجربے کے بعد آدمی کی زندگی نیکی، عبادت، ایثار اور خدا کے لئے قربانی کی طرف مائل ہوجائے اور اس کے بعد اگر کبھی اس کا نفس آلائشوں میں آلودہ ہونے پر آمادہ ہو تو وہ یہ روحانی تجربہ یاد کر کے اپنے نفس کو گندگی سے بچالے۔

سوال: پاکستان میں حاجیوں کے لئے حج کا عملی طریقہ کیا ہے ؟

جواب: سب سے پہلے آپ کو عمرہ ادا کرنا ہے ، اس لئے ہوائی سفر شروع ہونے سے پہلے غسل کر لیں۔ ناخن کاٹ لیں ، غیر ضروری بال صاف کر لیں ، احرام باندھ لیں اور دو رکعت نماز پڑ ھ لیں۔ احرام کا مطلب مردوں کے لئے ، دو بغیر سلی ہوئی چادریں ہیں۔ ان میں سے ایک چادربطور تہمد باندھ لیں اور دوسری کو دونوں کندھوں کے اوپر اس طرح ڈالیں کہ سر ننگا رہے۔ خواتین کے احرام کے لئے کسی خاص لباس کی ضرورت نہیں۔ ان کا عام لباس ہی ان کا احرام ہے ، البتہ وہ احرام میں اپنا چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھیں۔

احرام باندھنے کے بعد ناخن تراشنا، بال کاٹنا، خوشبو لگانا، سلے ہوئے کپڑ ے پہننا، سر میں تیل ڈالنا، کنگھی کرنا، جوئیں مارنا، بال اکھڑ نا، شکار کرنا، پڑ ی ہوئی چیز اٹھانا، شہوت کی نظر ڈالنا، جھگڑ ا کرنا اور گناہ کا کوئی بھی کام کرنا بالکل منع ہے۔ مرد کے لئے سر ڈھانپنا اور عورتوں کے لئے چہرہ ڈھانپنا بھی جائزنہیں ہے۔ البتہ ایسے جوتے پہنے جا سکتے ہیں جن میں ٹخنے کھلے رہیں۔

احرام کی حالت میں غسل کرنا جائز ہے۔ گھڑ ی باندھنے ، چشمہ لگانے ، پیٹی باندھنے ، تھیلی لٹکانے ، تہمد کے لئے بکسوا لگانے یا منہ اور ناک کو رومال سے صاف کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔ بھول چوک سے اگر کوئی غلطی ہو جائے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔

اب آپ عمرہ کی نیت کر کے تلبیہ آواز میں پڑ ھنا شروع کر دیں۔ تلبیہ حاجیوں کا خاص ترانہ ہے جو ہر حاجی کے ایمان کو روشنی بخشا ہے۔ تلبیہ کے الفاظ یہ ہیں :

لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک

ان الحمد والنعمتہ لک والملک لا شریک لک

’’میں حاضر ہوں اے اللہ، میں حاضر ہوں۔ آپ کا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ ہر حمد وشکر آپ کے لئے ہے اور ہر نعمت آپ ہی کی ہے اور بادشاہی بھی آپ ہی کی ہے۔ اے اللہ !آپ کا کوئی شریک نہیں ‘‘۔

مکہ معظمہ پہنچ کر اپنی رہائش گاہ پر سامان رکھ لیجیے اور وضوکر کے ، تلبیہ پڑ ھتے ہوئے بیت اللہ پہنچ جائے۔ بیت اللہ پہنچ کر تلبیہ پڑ ھنا بند کر دیجیے اور پہلے طواف(طواف قدوم)کے لئے اپنے آپ کو تیار کیجیے۔ طواف شروع کرنے سے پہلے اپنا دایاں کندھا ننگا کر لیجیے اور حجراسود کی سیدھ میں اس طرح پہنچ جائیے اور حجر اسود آپ کے بائیں ہاتھ ہو۔حجراسود کی سیدھ میں ایک لمبی لائن لگی ہوئی ہوتی ہے۔ اس پر کہیں بھی کھڑ ے ہو کر حجراسود کی طرف ہاتھ اٹھا کر اشارہ کر لیں ، یا اپنے دائیں ہاتھ سے حجراسود کو چھو کر اپنا ہاتھ چھوم لیں یا حجراسود کو بوسہ دے دیں۔ اشارہ کرتے ہوئے کہیں :

بسم اللّٰہ واللّٰہ اکبر۔’’میں اللہ کے نام سے شروع کرتا ہو ں اور اللہ بہت بڑ ا ہے ‘‘۔

اس کے بعد آپ طواف شروع کر دیں۔ طواف کے دوران میں آپ جو دعائیں چاہیں ، مانگیں اور ذکر الٰہی کرتے رہیں یا قرآن مجید کی آیات تلاوت کرتے رہیں۔ ایک مسنون دعایہ ہے :

سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا الہ اللّٰہ واللّٰہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ۔

’’ پاک ہے اللہ اور اللہ ہی کے لئے حمد ہے۔ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ اللہ بہت بڑ ا ہے۔ اور اللہ کے عطا کیے بغیر کوئی طاقت قوت نہیں ‘‘۔

خانہ کعبہ کے گرد طواف کرتے ہوئے جب آپ رکن یمانی پہنچیں۔ (یہ بیت اللہ کا جنوبی گوشہ ہے )تو یہ دعا پڑ ھنا شروع کر دیں۔

اللھم انی اسئلک العفو والعافیۃ فی الدنیا والاخرۃ ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔

’’اے اللہ!میں تجھ سے اپنے گنا ہوں کی مغفرت اور عافیت کا طلب گار ہوں۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا‘‘۔

جب آپ حجر اسود کی لاین پر پہنچ جاتے ہیں تو آپ کا ایک چکر پورا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح آپ کو بیت اللہ کے گردکل سات چکر لگانے ہیں۔ پہلے تین چکروں میں دایاں کندھاکندھا ننگا رکھیں اور تیز تیز چلیں۔ بعد کے چار چکروں میں دائیں کندھے کو بھی ڈھک لیں اور عام رفتار سے چلیں (اس طواف قدوم کے علاوہ آئندہ کسی طواف میں دایاں کندھا ننگا رکھنے کی ضرورت نہیں )۔

طواف سے فارغ ہو کر بیت اللہ میں کہیں بھی دو رکعت نفل پڑ ھیں ، اس لئے کہ پورا بیت اللہ مقام ابراہیم ہے۔ نوافل سے فارغ ہو کرایک دفعہ پھر حجراسود کی طرف اشارہ کر لیں اور پھر آب زم زم پی لیں۔

زم زم کا پانی پینے کے بعد آپ صفا مروہ کی سعی کے لئے جائیں۔ یہ بیت اللہ کے قریب ہی دو چھوٹی چھوٹی پہاڑ یاں ہیں۔ آپ صفا پر پہنچ کر یہ دعا پڑ ھیں۔

لا الہ الہ اللہ واللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک والہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر۔

’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اللہ بہت بڑ ا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہی اسی کے لئے ہے اور ہر شکر و حمد بھی اسی کے لئے ہے اور ہر شے پر قادر ہے ‘‘۔

اس کے بعد آپ اپنی طبیعت کے مطابق ذکر و دعا کریں۔ یہاں سے آپ مروہ کی طرف چلیں۔ تھوڑ ی دور جا کر ایک سبز رنگ کا ستون آئے گا۔یہاں سے اپنی رفتار تیز کر دیں۔ حتیٰ کہ دوسرا سبز رنگ کا ستون آجائے۔ یہاں دوڑ ختم کر دیں اور عام رفتار سے مروہ پہنچ جائیں تو قبلہ رخ ہو کر دعائیں پڑ ھیں۔ اس طرح آپ کا ایک چکر مکمل ہو گیا۔

یہاں سے آپ پھر صفا کی طرف جانا شروع کر دیں۔ صفا پہنچ کر آپ کے دو چکر ہو جائیں گے۔ اس طرح سات چکر انجام دیں۔ ساتواں چکر مروہ پر ختم ہو گا۔اب یہاں مرد سر کے سارے بال منڈوالیں یا سارے بال کٹوالیں اور خواتین اپنی چوٹی کے آخر سے بالوں کی تھوڑ ی نوکیں کٹوائیں۔ اب آپ کا عمرہ مکمل ہو جائے گا۔آپ نہادھو کر کپڑ ے پہن لیں۔

اب آپ آٹھ ذوالحج کا انتظار کریں گے۔ اس دوران میں فرض نمازیں مسجد الحرام میں جماعت کے ساتھ ادا کریں اور طواف کریں۔

آٹھ ذوالحج کو آپ منیٰ ، جو کہ مکہ میں چند میل کے فاصلے پر ایک وادی ہے ، تشریف لے جائیں گے۔ اس کے لئے آپ اپنی رہائش گاہ میں ہی احرام باندھ لیں اور تلبیہ شروع کر دیں۔ اسی وقت سے لے کر حج کے اختتام تک آپ تمام نمازیں قصر ادا کریں گے۔

اگلے دن یعنی نو ذوالحج کو آپ سورج نکلنے کے بعد عرفات کی جانب کوچ کریں۔ یہ بھی منیٰ سے چند میل کے فاصلے پر ایک بہت بڑ ا میدان ہے۔ عرفات پہنچ کر، اگر آپ کے لئے ممکن ہو تو مسجد نمرہ پہنچ جائیں۔ وہاں امام صاحب خطبہ دیں گے اور پھر ظہر کی دو رکعت نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جائے گی۔اس کے فوراً بعد عصر کی دو رکعت قصر نماز ادا کی جائے گی۔اگر آپ کے لئے یہ ممکن نہ ہو تو اپنے خیموں میں ظہر اور عصر کو ایک ہی وقت میں علیحدہ علیحدہ اقامت کے ساتھ قصر پڑ ھ لیں۔ اس کے بعد آپ غروب آفتاب تک قبلہ رو ہو کر نہایت عاجزی کے ساتھ ذکر الٰہی کریں اور دعائیں مانگیں۔ عرفات میں کھڑ ے ہونا ہی حج کا اصل رکن ہے۔

جب سورج غروب ہوجائے تو مغرب کی نماز پڑ ھے بغیر آپ مزدلفہ کی جانب جانا شروع کر دیں۔ بس میں سوار ہونے کے بجائے پیدل جانا زیادہ بہتر رہتا ہے۔ یہ عرفات سے تین چار میل کے فاصلے پر ایک اور بہت بڑ ا میدان ہے۔ جب آپ مزدلفہ پہنچ جائیں (خواہ کسی وقت بھی پہنچیں )تو مغرب کی تین اور عشاء کی دو رکعت قصر نماز پڑ ھ لیں۔ اس کے علاوہ اور نماز نہ پڑ ھیں ، بلکہ سو جائیں۔

مزدلفہ میں جب آپ فجر کی نماز پڑ ھ لیں تو یہاں سے منیٰ کی طرف جانا شروع کر لیں۔ یہاں بھی پیدل جانا زیادہ بہتر ہے۔ آج دس ذوالحجہ ہے۔ منیٰ پہنچ کر آپ سات چھوٹی کنکریاں جمع کر لیں۔ آج آپ بڑ ے شیطان (جمرۃالعقبہ)کو کنکریاں ماریں گے۔ اس کے بعد آپ قربانی کریں گے۔ قربانی کے بعد سر استرے سے منڈوا لیں ، (اسے حلق کہتے ہیں )یا تمام سر کے بال تھوڑ ے تھوڑ ے کٹوالیں۔ اسے تقصیر کہتے ہیں۔ خواتین صرف اپنی چوٹی کے بالوں میں سے تھوڑ ے سے کاٹ لیں۔

اب آپ نہا دھو کر اپنے معمول کے کپڑ ے پہن لیں۔ اب احرام کی پابندی ختم ہو گئیں ہیں ، سوائے مباشرت کے۔ یہ طواف افاضہ کے بعد حلال ہو گی۔

جو نہی آپ فارغ ہو جائیں تو طواف افاضہ کے لئے مکہ مکرمہ چلیں۔ اس طواف اور سعی کے بعد آپ فوراً منیٰ واپس آجائیں ، منیٰ میں آپ کو بارہ یا تیرہ ذوالحجہ تک رہنا ہے ، ان دو یا تین دنوں میں آپ روزانہ دوپہر کے بعد تینوں شیطانوں (جمرات)کو کنکریاں ماریں گے۔ اگر آپ بارہ ذوالحج کو واپس آنا چاہتے ہیں تو شیطان کو کنکریاں مارنے کے بعدمکہ کی طرف روانہ ہو جائیے۔ بہتر ہو گا کہ یہاں سے آپ پیدل ہی مکہ چلیں۔

اب آپ حج سے فرغ ہو گئے ہیں۔ پھر جب آپ واپسی کے سفر کا قصد کر لیں تو الوداعی طواف کے لئے غرم میں حاضر ہو جائیں۔

خواتین کے لئے حج و عمرہ میں حصوصی رعائیتں ہیں۔ ان کے عام کپڑ ے ہی ان کا احرام ہیں۔ اگرحج یا عمرہ کے دوران میں ماہ واری کے آیام آئیں تو نماز و طواف اور سعی معاف ہے۔ جب ماہ واری کے ایام گزر جائیں تو طواف و سعی کر لیں۔ اگر خواتین کے لئے کنکریاں مارنا مشکل ہو ، تو ان کی کنکریاں ان بجائے مرد پھینک سکتے ہیں۔

سوال: ہم حج میں احرام کیوں باندھتے ہیں ؟

جواب: احرام باندھنا اس بات کی علامت ہے کہ ہم نے دنیا سے اپنا تعلق منقطع کر لیا ہے۔ دنیا کے معاملات چھوڑ دیے ہیں ، زیب و زینت کی زندگی ترک کر دی ہے اور وہ لباس پہن کر اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے ہیں ، جس لباس میں مردہ قبر میں اتارا جاتا ہے۔ گو یا یہ حج، ہجرت، جہاد اور فقر کا علامتی اظہار ہے۔

سوال: حج میں کیا چیزیں لازم ہے ؟

جواب: حج میں اہم ترین کام وقوف عرفات ہے۔ اس کے علاوہ منیٰ اور مزدلفہ میں ٹھہرنا، جمرات کو کنکریاں مارنا ، قربانی ، سر منڈوانا اور طواف افاضہ بھی لازم ہیں۔

سوال: اگر احرام کی حالت میں احرام کی پابندیوں کی خلاف ورزی ہو جائے ، تو کیا کیا جائے ؟

جواب: جان بوجھ کر کسی خلاف ورزی کی صورت میں (مثلاً بال اکھاڑ نا، سر میں تیل ڈالنایا کنگھی کرنا وغیرہ)ایک جانور کفارے کے طور پر ذبح کیا جائے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا جائے یا اس کے بقدر رقم خیرات کر دی جائے یا تین روزے رکھے جائیں۔

سوال: ہم حجراسود کو کیوں چومتے یا اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں ؟

جواب: حجراسود کو علامت کے طور پر اللہ کا ہاتھ قرار دیا گیا ہے۔ ہاتھ چومنا، ہاتھ پر ہاتھ رکھنامعاہدے کی توثیق کا طریقہ ہے۔ گویا ہم عالم تصور میں ، اللہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اس کے ساتھ عہد وفا کی تجدید کرتے اور دین پرقائم رہنے کے جذبے کا نئے سرے سے اعلان کرتے ہیں۔

سوال: ہم صفا اور مروہ کے درمیان سعی کیوں کرتے ہیں ؟

جواب: سعی دین کے لیے جدوجہد کے جذبے کی علامت ہے ، جس کا سب سے اعلیٰ نمونہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا پیش کیا تھا۔جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کے لئے قربان گاہ لائے ، تو صفا اور مروہ کے درمیان قربانی کو پھیرے دلائے۔ آج ہم ان کے اس عمل کی پیروی کرتے ہوئے اپنی سعی سے اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہہ دین کو جب بھی ہماری مدد کی ضرورت پڑ ے گی، ہم اپنی جان و مال سمیت حاضر ہو جائیں گے۔

سوال: حج کے دنوں میں ایک حاجی کو اتنی زیادہ مشقت سے کیوں گزارا جاتا ہے ؟کبھی منیٰ ، کبھی عرفات، پھر مزدلفہ اور پھر منیٰ ، گویامسلسل سفر اور ایمر جنسی کی کیفیت رہتی ہے ؟

جواب: حج کی یہ تمام مشقت ، دراصل جہاد کے سفر کی علامت ہے۔ مختصر ترین سامان کے ساتھ حاجی ایک مقام پر رکھتا ہے ، پڑ اؤ ڈالتا ہے ، پھر اگلی منزل کے لئے روانہ ہو جاتا ہے۔ اس دوران میں نماز بھی، جہاد سے مشابہت کی وجہ سے قصرپڑ ھی جاتی ہے۔ جہاد کی طرح حج بھی محنت الٰہی کا سب سے بڑ ا اظہار ہے۔ اس جان گسل سفر کی وجہ سے ، حج ایک انسان کے لئے ناقابل فراموش روحانی تجربہ بن جاتا ہے۔

سوال: ہم عرفات کے میدان میں کیوں کھڑ ے ہوتے ہے ؟

جواب: عرفات کا وقوف، دراصل اپنے آپ کو خدا کے حضور میں کھڑ ا کر دیتا ہے۔ اس دوران میں بندہ پروردگار سے اپنے گنا ہوں کی معافی طلب کرتا اور دعائیں مانگتا ہے۔

سوال: حج کے موقعہ پر ہم سر کیوں منڈواتے ہیں ؟

جواب: سر منڈوانا، دراصل غلام بننے کی علامت ہے۔ پرانے زمانے میں کوئی شخص کسی کا غلام بن جاتا تھا تو اس سر مونڈھ دیا جاتا تھا، حج کے موقعے پر ہم اپنا سر منڈوا کر اپنے آپ کو رب کی بندگی میں دے دیتے ہیں اور غلامی کا یہ نشان اپنے سر پر بھی سجا لیتے ہیں۔

سوال: ہم جمرات (شیطانوں )کو کنکریاں کیوں مارتے ہیں ؟

جواب: جمرات کو کنکر مارنا، خدا کے دشمنوں کے ساتھ مقابلے کی علامت ہے۔ اس طرح ایک حاجی پروردگار کے دشمنوں کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہے۔

سوال: پم حج کے موقع پر قربانی کیوں کرتے ہیں ؟

جواب: قربانی، اپنی جان خدا کے حضور پیش کرنیکی علامت ہے ، اس کے ذ ریعے سے حاجی اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ جس طرح اس نے خدا کی خوشنودی کے لئے جانور قربان کیا ہے ، اسیطرح اگر کبھی دین کو ضرورت لاحق ہوئی تو وہ اپنی جان کا نذرانہ بھی خدا کے حضور پیش کر دے گا۔

سوال: حج کے موقع پر مکہ میں حاجیوں کو بڑ ی تکلیفیں اٹھانا پڑ تی ہیں ، اس ضمن میں احتیاطی تدابیر کیا ہیں ؟

جواب: اس ضمن میں چند ایک چیزوں کا خیاک رکھنا ضروری ہے :

1۔جاتے وقت جانی پہچانی ادویات کی ایک مناسب مقدار(مثلاً دافع درد، دافع جراثیم اور نظام ہضم کی عام ادویات )اپنے ساتھ لے جائیں۔

2۔ھج کے اس پورے سفر میں آپ کا کوئی حق نہیں ہے ، جو آپ دوسروں سے طلب کریں۔ البتہ آپ کو ہر ایک کے لئے ایثار کرنا ہے۔

3۔رہائش گاہ کا پتہ ہر وقت اپنی جیب میں رکھا کریں۔

4۔اپنے گروپ کے مردوں کو علیحدہ کمروں میں اور خواتین کو علیحدہ کمروں میں ٹھہرائیں۔

5۔اپنی عمارت اور زیر استعمال با تھ روم اور کچن کی صفائی خود کریں۔

6۔حرم کے قریب وضو کرنے اور نہانے کی ہزاروں جگہیں بنائی گئی ہیں ، اس لئے اپنی عمارت کے بجائے ان جگہوں میں وضو کریں ، تاکہ آپ کے دوسرے ساتھیوں کو تکلیف نہ ہو۔

7۔اپنی استطاعت سے بڑ ھ کر طواف نہ کریں۔ ھرم میں خانہ کعبہ کو دیکھتے رہنا بھی ایک بڑ ی عبادت ہے۔

8۔گرمی سے بچنے کے لئے چھتر ی کا استعمال نہ کیجیے ، یہ دوسروں کے لئے زحمت کا باعث ہوتی ہے۔ اس بجائے سر پر چھوٹا سا گیلا تولیہ بہت مفید ہوتا ہے۔

9۔حرم جاتے ہوئے ہمیشہ ایک چھوٹا تھیلا ساتھ لے جائیں۔ اپنے چپل اتار کر اس میں اپنے پاس رکھیں۔ دوسرہ ضروری چیزیں ، مثلاً ٹشو پیپر ، گلاس وغیرہ بھی اپنے پاس رکھیں۔

10۔ہر وقت یہ بات یاد رکھیں کہ یہ پورا سفر ، دراصل ایک مسلسل تربیت گاہ ہے۔ اس میں لڑ ائی جھگڑ ے ، گناہ اور شہوت کی بات سے بہر صورت اجتناب کرنا ہے۔

سوال: جمرات کو مارنے کے لئے بعض اوقات دھکم پیل کے نتیجے میں بے شمار لوگ کچلے جاتے ہیں ، اس ضمن میں احتیاطی تدابیر کیا ہیں ؟

جواب: اصل دھکم پیل بارہ ذوالحجہ کو ہوتی ہے ، جب سب لوگ چاہتے ہیں کہ زوال کے فوراً بعد ، رمی کر کے منیٰ سے رخصت ہو جائیں ، کیوں کہ اگر منیٰ میں ان پر سورج غروب ہو گیا تو پھر انہیں اگلا دن بھی منیٰ میں ہی گزارنا ہو گا۔چناچہ زوال کے فوراً بعد منیٰ میں بہت رش ہو جاتا ہے۔

رش سے بچنے کے لئے آپ بارہ ذوالحج کو تین چار بجے رمی کے لئے جائیں ، اس وقت آپ نہایت اطمینان کے ساتھ رمی بھی کر لیں گے اور پیدل چلتے ہوئے ، بمشکل چند منٹ میں ، منیٰ سے نکل جائیں گے ، جبکہ سورج غروب ہونے میں ابھی دو تین گھنٹے باقی ہوں گے۔

اس کے علاوہ حکومت نے انے جانے والے راستوں کے ضمن میں جو قوانین بنائے ہیں ، ان کی پابندی بھی کیجیے۔

سوال: حجراسود چومنے کے لئے بہت رش ہوتا ہے اور بڑ ی دھکم پیل ہوتی ہے۔ اس ضمن میں صحیح طرز عمل کیا ہے ؟

جواب: حجراسود کو چومنا، اسے ہاتھ لگانا یا اس کی طرف اشارہ کرنا، سب اجر میں برابر ہیں ، جبکہ دوسروں کو دھکے دینا ایک بڑ ا گناہ ہے۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ آپ حجراسود کے قریب جانے کی کوشش ہی نہ کریں۔

سوال: جب مقام ابراہیم پر دو رکعت نمازپڑ ھنے کی کوشش کی جاتی ہے ، تو بے شمار لوگ سامنے سے گزر جاتے ہیں ، طواف کے بعد یہ دو رکعات کہاں پڑ ھی جائیں ؟

جواب: پورا حرم پاک ہی مقام ابراہیم ہے۔ اس لئے جہاں آسانی ہو ، وہاں یہ نماز ادا کیجیے۔

سوال: بعض لوگ عرفات میں نمازقصر نہیں کرتے۔ اس ضمن میں صحیح طرز عمل کیا ہے ؟

جواب: ان لوگوں کا موقف یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے وہاں قصر اس لئے پڑ ھی تھی کہ وہ مسافر تھے ، چونکہ ہم مسافر نہیں ہیں ، اس لئے ہم وہاں پوری نمازہی پڑ ھیں گے۔ یہ موقف صحیح نہیں ہے۔

پہلی بات یہ کہ حضور ﷺ نے صاف ارشاد فرمایا کہ اسی طرح حج کرو جس طرح میں کرتا ہوں۔ حضورا کرم ﷺ کے ساتھ حجتہ الوداع میں مقامی اور غیر مقامی سب لوگ شامل تھے۔ مگر سب نے قصر پڑ ھی اور کسی مقامی نے حج کے موقع پر اپنی نماز پوری نہیں کی۔چناچہ ہمیں حضور ﷺ کے اتباع میں قصر ہی کرنی چاہیے۔

دوسری بات یہ ہے کہ حج میں قصر، صرف سفر کی وجہ سے نہیں ، بلکہ جہاد سے مشابہت کی وجہ سے کی جاتی ہے ، اور جہاد میں مقامی یا غیر مقامی کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔

سوال: کیا عرفات اور مزدلفہ میں نوافل یا سنتیں پڑ ھنی چاہیں ؟

جواب: عرفات اور مزدلفہ میں صرف فرض نمازیں قصر کر کے پڑ ھنی چاہیں۔ اس کے علاوہ کوئی اور نماز نہیں پڑ ھنی چاہیے ، اس لئے کہ حضور ﷺ نے ایسا ہی کیا تھا۔

سوال: عرفات سے مزدلفہ کیسے جانا چاہیے ؟

جواب: چونکہ یہ راستہ صرف چار پانچ کلو میٹر ہے ، اس لئے پیدل چلنا زیادہ مناسب ہے۔ بس میں یہی سفر کئی گھنٹوں میں ہوتا ہے۔

سوال: مزدلفہ سے منیٰ کیسے جانا چاہیے ؟

جواب: چونکہ یہ راستہ بھی چار پانچ کلو میٹرسے زیادہ نہیں ہے اور بسوں کے اژدہام میں ٹریفک جام ہوجاتی ہے ، اس لئے یہ راستہ بھی پیدل طے کرنا مناسب ہے۔

سوال: کیا طواف کے ہر چکر کے لئے علیحدہ علیحدہ دعائیں ہیں ؟

جواب: طواف کے ہر چکر کے لئے کوئی علیحدہ دعائیں نہیں ہیں ، اس لئے ہر چکر کے لئے علیحدہ دعائیں یاد کرنے یا انہیں کتاب سے پڑ ھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

سوال: سعودی حکومت نے حج کے موقع پر قربانی کے لئے ٹکٹ کا جو طریقہ مقرر کیا ہے ، کیا یہ صحیح ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے ؟

جواب: یہ بالکل صحیح ہے ، اس سے قربانی کا گوشت ضائع نہیں ہوتا۔اس ٹکٹ پر قربانی کرنے کا وقت بھی لکھا ہوا ہوتا ہے ، اس لئے اس شک کو دل میں جگہ نہیں دینی چاہیے کہ نہ جانے حکومت قربانی کرے یا نہ کرے۔

سوال: کیا یہ لازم ہے کہ دس ذوالحجہ کو سب کام ترتیب سے کئے جائیں۔ یعنی پہلے کنکریاں ماریں جائیں ، پھرقربانی کی جائے ، پھر سر منڈوا لئے جائیں اور پھر طواف افاضہ کیا جائے یا ان کاموں کو آسانی ملحوظ رکھتے ہوئے آگے پیچھے کیا جا سکتا ہے ؟

جواب: ان کاموں کے اگے پیچھے ہو جانے سے حج میں کوئی حرج واقع نہیں ہوتا۔نبی کریم ﷺ نے خود اس کی اجازت دی ہے۔ طواف افاضہ تو تیرہ ذوالحجہ تک کیا جا سکتا ہے۔

سوال: منیٰ میں گیارہ اور بارہ ذوالحج کو جمرات کو کنکریاں مارنے میں اتنا رش ہوجاتا ہے کہ جس میں کئی دفعہ بے شمار لوگ کچلے جاتے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ان دو دنوں میں زوال آفتاب سے پہلے بھی کنکریاں ماری جائیں ؟

جواب: عام رائے تو یہی ہے کہ ان دونوں دنوں میں زوال آفتاب کے بعد کنکریاں ماری جائیں۔ اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ خواتین اور ضعیف مرد اس سے پہلے (یا گیارہ ذوالحج کو غروب آفتاب کے بعد بھی)کنکریاں مار سکتے ہیں۔ لیکن میرا وجدان مجھے یہ کہتا ہے کہ اگر آج کے حالات کے حوالے سے حضور ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا جاتا تو وہ اس کی عام اجازت دے دیتے جس طرح انہوں نے باقی تمام امور میں اجازت دی۔ اب تو سعودی علمانے بھی اس کے حق میں فتویٰ دے دیا ہے۔

سوال: حج کے موقع پر مدینہ منورہ میں حاضری کی کیا حقیقت ہے۔ کیا وہاں چالیس نمازیں پڑ ھنا لازم ہے ؟

جواب: حج کے موقع پر مدینہ منورہ میں حاضری، قطعاً لازم نہیں ہے۔ اس بات کی بھی کوئی حیثیت نہیں کہ وہاں چالیس نمازیں پڑ ھنا ضروری ہیں۔ البتہ ، چونکہ پاکستانی حاجیوں کو بار بار سعودی عرب جانے کا موقع نہیں ملتا، اس لئے یہ مناسب ہے کہ اس موقع پر مسجد نبوی ﷺ کی زیارت کر لی جائے اور وہاں کی نمازوں کے اجر سے فائدہ اٹھایا جائے۔

سوال: کیا ہمیں حضور ﷺ کی قبر مبارک کی زیارت کی نیت سے مدینہ منورہ جانا چاہیے ؟

جواب: نہیں ، بلکہ ہمیں مسجد نبوی ﷺ کی زیارت کی نیت سے مدینہ منورہ جانا چاہیے۔ حضور ا کرم ﷺ کی قبر کی زیارت تو مسجد نبوی میں خود بخود ہو جاتی ہے۔ حضور ا کرم نے خود یہ دعا فرمائی ہے کہ اے اللہ! میری قبر کو بت نہ بنانا جسے لوگ پوجنا شروع کر دیں۔ (موطا امام مالک)

وہ تمام روایات جن کے مطابق نبی ا کرم ﷺ نے لوگوں کو اپنی قبر کی زیارت کے لئے آنے کو کہا ہے ، بالکل بے بنیاد ہیں۔

سوال: حضور ا کرم ﷺ کے روضہ مبارک پر دعا مانگنے کے کیا آداب ہیں ؟

جواب: حضور ﷺ کی قبر پر(یا کسی بھی قبر پر)صرف سلام کی اجازت ہے۔ اس لئے حضور ا کرم ﷺ پر یوں کہنا چاہیے۔

السلام علیک یا رسول اللہ ورحمۃ اللہ و بر کاتہ۔

یہ سلام نبی ا کرم ﷺ کو پہنچا دیا جاتا ہے۔

اگر دعا کا ارادہ ہو تو قبر نبوی ﷺ کی جانب پشت کر لیجیے اور قبلے کی طرف منہ کر کے ، اللہ سے بغیر کسی واسطے کے ، دعا مانگیے ، کیونکہ دعا بھی عبادت ہے۔ 

B