بارہواں باب
روزہ
سوال: ہم پر رمضان کے روزے رکھنا کیوں لازم قرار دیا گیا ہے ؟
جواب: خواہشات نفس کے غلبے سے انسان کے اندر غفلت اور بے پروائی پیدا ہو جاتی ہے۔ ان خواہشات میں سے دو سب سے بڑ ے ہیں ، کھانے پینے کی خواہش اور جنسی خواہش۔تزکیہ نفس کے لئے ضروری ہے کہ دونوں خواہشات پر قابو پایا جائے اور آدمی میں ضبط نفس پیدا ہو۔چناچہ ، اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ، پروردگار نے ہم پر رمضان کے روزے لازم کر دیے ہیں۔ روزہ تزکیہ نفس کا ایک ذریعہ ہے۔ اس مہینے میں انسان کو اس بات کی، خصوصاً ، یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ اسے ایک متقی اور پرہیزگار فرد کی حیثیت سے جینا ہے۔ اور اس کے تمام جذبے خدا کی اطاعت کے تحت ہونے چاہئیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے روزے میں پروردگار کی طرف سے ’معمول سے ہٹ کر‘زیادہ پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں۔ اس طرح نفس کی آوارگی کمزور پڑ جاتی ہے اور وہ خدا کی فرماں برداری کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔
شہوانی میلانات کی کمی اور عبادت میں اضافے کی بنا پر، ایک روزہ دار خدا کا قرب حاصل کرتا ہے۔ آدمی کے اندر فتنے کے جو بڑ ے بڑ ے دروازے ہیں ، روزہ ان کو بہت حد تک بند کر دیتا ہے ، اس لئے روزے کی حالت میں لڑ نے جھگڑ نے ، جھوٹ بولنے ، غیبت کرنے اور دوسری غیر ضروری باتوں سے بچنے کی بھی بڑ ی تلقین کی گئی ہے۔
روزہ انسان کی قوت ارادی کی تربیت بہت اچھے طریقے سے کرتا ہے۔ اس سے صبر و استقامت کی مشق ہوتی ہے۔ روزے سے انسان کے اندر جذبہ ایثار کی بھی پرورش ہوتی ہے جو انسان کی اعلیٰ جذبات میں سے ایک ہے۔ روزے کی حالت میں ایک انسان کا قرآن مجید کے ساتھ شغف بھی بہت بڑ ھ جاتا ہے۔ گویا ایک انسان دل، دماغ ، جسم اور نفس ہر اعتبار سے ، اللہ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔
چونکہ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا صحیح علم پروردگار کے سوا کسی کو نہیں ہو سکتا ، اس لئے یہ ریاکاری سے بچنے کی بھی بڑ ی اعلیٰ تربیت دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر صادق ﷺ نے فرمایا:
’’اللہ نے فرمایا کہ بندہ کھانا پینا اور اپنی شہوت میرے لئے چھوڑ تا ہے۔ روزہ خاص میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔نیکیاں دس گنا تک بڑ ھائی جائیں گی، مگر روزے کے متعلق اللہ فرماتا ہے کہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔بندہ اپنا کھانا پینا اور خواہش میرے لئے قربان کرتا ہے۔ روزے دار کے لئے دو خوشیاں ہیں۔ ایک خوشی اس کو افطار کے وقت حاصل ہوتی ہے اور دوسری خوشی اس کو اپنے رب کی ملاقات کے وقت حاصل ہو گی۔اس کے منہ کی خوشبو، اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ‘‘(بخاری ، کتاب الصوم)
سوال : رمضان میں کیا چیزیں لازم ہیں ؟
جواب: ’’صوم‘‘ کے لفظی معنی ہیں رک جانا۔دین کی رو سے یہ وہ عبادت ہے جس میں انسان ، خداکی خوشنودی کے لئے ، طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور ازدواجی تعلق سے رکا رہتا ہے۔ رمضان کے یہ روزے قرآن و سنت کی رو سے فرض ہیں۔
سوال: رمضان کے فرض روزوں کے علاوہ وہ کون سے دن ہے جن میں روزوہ رکھنا بہت پسندیدہ ہے ؟
جواب:غیر حاجیوں کے لئے تو ذوالحجہ کا روزہ بہت پسندیدہ ہے۔ اس کے علاوہ نو اور دس محرم، شوال کے چھ روزے اور ہر قمری ماہ کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کے روزے بھی پسندیدہ ہیں۔ شعبان کے نصف اول اور ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں روزے رکھنا بھی باعث خیر و برکت ہے۔
سوال: وہ کون سے دن ہیں جن میں روزہ رکھنانا پسندیدہ ہے ؟
جواب: حاجی کو چاہیے کہ وہ نو ذی الحجہ کا روزہ نہ رکھے۔ بغیر افطار کے کئی دن مسلسل روزہ رکھنا، عام حالت میں مسلسل روزہ رکھنا، رمضان کے شک میں تیس شعبان کا روزہ رکھنا اور ایک خاتون کا، اپنے شوہر کی موجودگی میں ، اس سے پوچھے بغیر نفلی روزہ رکھنا، ناپسندیدہ ہے۔
سوال: کیا ایسے دن بھی ہیں ، جن میں روزہ رکھنا قطعاً ممنوع ہے ؟
جواب: عیدالفطر کے دن اور عید الاضحی کے تین دنوں میں روزہ رکھنا ممنوع ہے۔ خواتین کے لئے حیض و نفاس کے دنوں میں روزے رکھنا منع ہے۔ اسی طرح ایسے مریض کے لئے بھی روزہ رکھنا قطعی منع ہے ، جس کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہو۔
سوال: ایک روزہ دار کو اپنا روزہ کیسے گزارنا چاہیے ؟
جواب: ایک روزہ دار کو روزے کی حالت میں ہر طرح کے گناہ سے بچنے کی پوری پوری کوشش کرنی چاہیے۔ رمضان میں نیکی کے کام خصوصی فضیلت کے حامل بن جاتے ہیں ، اس لئے اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ خیرات و صدقات کرنے چاہییں۔ اس مہینے میں قیام لیل یعنی تہجد (نماز ترویح بھی تہجد کا ایک حصہ ہے )کا بہت اہتمام کرنا چاہیے۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ رمضان میں اپنے اوقات کا اکثر حصہ قرآن مجید سیکھنے ، اور سکھانے اور غور و فکر کے ساتھ اس کی تلاوت پر صرف ہو۔
سوال: روزہ میں کون سی چیزوں پر کوئی مواخذہ نہیں ؟
جواب: روزے میں مسواک کرنے ، نہانے ، سفر اختیار کرنے ، جسم پر دوا لگانے ، بچے کے لئے کھانا چبانے ، خوشبو لگانے ، اپنا تھوک نگلنے اور بھول چوک میں کچھ کھا پی لینے پر کوئی موخذہ نہیں۔ اس طرح اگر انسان قے کرے یا جی متلائے (بشرطیہ کہ کوئی شے واپس نہ نگلے )یا منہ میں بے اختیار مکھی گر جائے اور وہ نگل لی جائے ، احتلام ہو جائے ، یا نا پاکیزگی کی حالت میں صبح ہو جائے ، تو اس سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔
سوال: کیا انجکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟
جواب: اگر انجکشن کا مقصد کھانا یا پینا یعنی بدن کو خوراک پہنچانا ہے ، تو ظاہر ہے کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ لیکن اگر انجکشن کے ذریعے سے صرف بیماری کا علاج مطلوب ہے ، تو پھر اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔خواہ انجکشن رگ میں لگے یا گوشت میں۔
سوال: وہ کون سی صورتیں ہیں جن میں روزہ دار کے لئے قضا، یعنی دوبارہ روزہ رکھنا ضروری ہو جاتا ہے ؟
جواب: بیماری یا خواتین کے ایام حیض میں روزے چھوٹ جائیں ، ان کی قضا ضروری ہے۔ اگر کوئی فرد اتنا بیمار ہو کہ اس کی بیماری سے صحت یابی کی امید نہ ہو تو وہ ایک مسکین کا کھانا بطور قضا د ے سکتا ہے۔ اگر کلی کرتے ہوئے یا ناک صاف کرتے ہوئے پانی پیٹ میں چلا جائے ، عمداً قے کی جائے یا کسی جبر کے نتیجے میں روزہ توڑ لیا جائے ، تب بھی روزہ رکھنا ضروری ہے۔
اگر اس خیال سے کہ ابھی طلوع فجر نہیں ہوا، کچھ کھا پی لیا جائے ، جبکہ فجر ہو چکی ہو ، یا اس گمان میں روزہ افطار کر لینا کہ سورج ڈوب گیا ہے ، حالانکہ ابھی سورج نہ ڈوبا ہو، تب بھی روزہ رکھنا ضروری ہے۔ اگر آپ تدبر کی نظر سے دیکھیں تو یہ سب درمیانی قسم کی صورتیں ہیں۔ گویا اس سے ملتی جلتی تمام درمیانی صورتوں میں دوبارہ روزہ رکھنا ضروری ہے۔
سوال: اگر قصداً فرض روزہ توڑ دیا جائے تو اس کا ازالہ کیسے کیا جائے ؟
جواب: اس صورت میں کفارہ ادا کیا جائے۔ کفارے کا مطلب ہے وہ گناہ، جو ھناہ کو مٹادے۔ رمضان کے روزے کو توڑ نے کا کفارہ یہ ہے کہ دو مہینے کے روزے رکھے جائیں یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا جائے۔
سوال: رمضان میں تلاوت قرآن مجید کا کیا مقام ہے ؟
جواب: رمضان کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ انسان قرآن مجید کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کرے۔ واضح رہے کہ تلاوت کا مطلب قرآن کو سمجھ کر پڑ ھنا ہے۔ حضور ﷺ رمضان میں قرآن مجید کی تلاوت معمول سے بہت زیادہ کرتے۔
سوال: نماز تراویح کی حقیقت کیا ہے ؟یہ نماز کیسے پڑ ھی جائے ؟
جواب: اس کا تفصیلی جواب’’صلوٰاۃ ‘‘کے باب میں آ چکا ہے۔
سوال: نماز تراویح میں قرآن مجید ، اکثر اوقات ، بے سوچے سمجھے اور نہایت تیزی کے ساتھ پڑ ھا جاتا ہے ، جس میں نہ صرف الفاظ مسخ ہو جاتے ہیں ، بلکہ معنی میں بھی فرق پڑ جاتا ہے۔ بعض مقامات پر صرف ایک رات میں قرآن مجید کا ختم کرنے کا رواج بھی ہے۔ کیا یہ صحیح ہے ؟
جواب: قرآن مجید کو، سوچے بے سمجھے اور حروف و معانی کا لحاظ کیے بغیر پڑ ھنا، درست نہیں ہے ، بلکہ یہ بے ادبی ہے۔ چنانچہ اس طرح سے کوئی نماز پڑ ھنا مناسب نہیں ہے۔
یہ لازم ہے کہ تراویح میں قرآن مجید خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑ ھا جائے اور مقتدیوں کو ان کے معانی سمجھائے جائیں۔ یہ نہ ہو سکے تو ہر انسان کو خود ہی قرآن مجید کا ترجمہ پڑ ھنا چاہیے۔
قرآن مجید کو بے سوچے سمجھے پڑ ھنا اور ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرنے کے تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے پڑ ھنا ، ایک نئی چیز ہے ، جس کی دور رسالت ﷺ ، دور صحابہ اور ہمارے سلف میں کوئی مثال نہیں ملتی۔شبینہ محفلوں میں بھی قرآن مجید کو توجہ کے ساتھ اور صحیح طریقے سے پڑ ھنا اور سننا ممکن نہیں ہے ، اس لئے ان میں شرکت بھی مناسب نہیں ہے۔
سوال: بعض لوگ رمضان کو لذتوں اور چٹحاروں کا مہینہ بنا لیتے ہیں۔ کیا یہ طرز عمل صحیح ہے ؟
جواب: روزے کا مقصد نفس کو تربیت کرنا ہے ، نہ کہ اس کی پرورش کرنا۔اس لئے صحیح طرز عمل یہی ہے کہ کھانے پینے کو روزہ کا مقصدنہ بنایا جائے اور اس کے لئے خصوصی اہتمام نہ کیے جائیں۔ خوش حال لوگوں چاہیے کہ اپنے کھانے پینے پر اسراف کے بجائے غریب اور مسکین روزہ داروں کی مدد کریں ، ورنہ اندیشہ ہے ہے کہ کھانے پینے میں اسراف کی وجہ سے نفس کی کوئی تربیت نہ ہو سکے گی۔
سوال: بہت سے لوگوں کی طبیعت میں روزے کی حالت میں غصہ اور اشتعال پیدا ہو جاتا ہے ، اسے روکنے کے لئے کیا جائے ؟
جواب: ہر غلط چیز کی اصلاح کرنے کے لئے بڑ ی مشق و ریاضت (Exercise)کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب بھی انسان کو غصہ آئے تو فوراً یا د کر لے کہ میں روزے سے ہوں اور میرا تو کام یہی ہے کہ میں اپنے غصے پر قابوں پاؤں ، نیز اسے اپنی موت اور خدا کے ہاں اپنی جواب دہی کے وقت کو یاد کرنا چاہیے۔ اس مشق سے انسان کو اپنے غصے پر قابو پانے کی تربیت ملتی ہے اور آہستہ آہستہ غصہ اس کے مزاج سے نکل جاتا ہے۔ اگر انسان روزے میں غصے پر قابوپانا نہ سیکھے ، تو اندیشہ ہے کہ وہ روزوں کی برکتوں سے محروم رہے گا۔
سوال: بہت سے لوگ روزے میں سارا دن تاش کھیلتے ہیں یا فلمیں دیکھتے ہیں۔ کیا یہ ٹھیک ہے ؟
جواب: ان بے کا ر مشعلوں سے روزے کا مقصد برباد ہو جاتا ہے۔ فرصت کے اوقات میں قرآن مجید و حدیث کا مطالعہ کیا جائے اور دین کو سمجھا جائے۔ قرآن مجید کی سورتیں یاد کی جائیں اور نبی ا کرم ﷺ کی بتائی ہوئی دعاؤں کا کچھ حصہ یاد کیا جائے۔ نیک لوگوں اور صالحین کی صحبت میں زیادہ سے زیادہ بیٹھا جائے۔ البتہ تازہ دم ہونے کے لئے ہلکی پھلکی تفریح میں بھی کوئی ہرج نہیں ہے۔
سوال: کیا روزے میں دمے کے مریضوں کے لئے سانس کے کھولنے کا سپرے استعمال کرنا جائز ہے ؟
جواب: چونکہ اس سپرے کا شمار نہ کھانے میں ہو تا ہے نہ پینے میں ، اس لئے ہمارے خیال میں یہ جائز ہے۔
سوال: اعتکاف سے کیا مراد ہے ؟
جواب: کسی خاص مقام پر ٹھہرنے یا کسی جگہ اپنے آپ کو محصور کرنے کو لغت کرنے میں اعتکاف کہتے ہیں۔ دینی اصطلاح میں اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کچھ وقت کے لئے اپنے آپ کو ہر دینوی مصروفیت سے فارغ کر کے مسجد میں قیام کرے اور عبادت اور یاد خدا میں مصروف ہو جائے۔
اسلام میں رہبانیت کی واحد صورت بس یہی اعتکاف ہے۔ اعتکاف چند لمحوں سے لے کر چند دنوں تک ہو سکتا ہے۔ یہ ایک نفل عبادت ہے۔ حضور ا کرم ﷺ عموماً رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے۔
خواتین چاہیں تو گھر کے کسی کونے میں بھی اعتکاف کر سکتی ہیں۔
سوال: پاکستان اور اکثر دوسرے ممالک (حصوصا امریکہ اور یورپ )میں مسلمانوں کے اندر رمضان اور عید الفطر کا چاند ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں جھگڑ ا پڑ جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ چاند دیکھنے کا صحیح طریقہ کیا ہے ؟کیا اس میں سائنسی آلات سے مدد لی جا سکتی ہے ؟
جواب: قرآن مجید میں پچیس سے زیادہ مرتبہ اس مفہوم کی آیات آئی ہیں کہ چاند سورج اور ستارے سب ایک حساب کے پابند ہیں ، سب اپنے اہنے مدار میں تیر رہے ہیں۔ سب کے حساب میں سرموفرق نہیں آتا۔نہ چاند سورج کو پکڑ سکتا ہے نہ سورج چاندکو پکڑ سکتا ہے۔ یہ سب ایک ایسے قانون کے پابند ہیں ، جس میں کوئی تغیر وتبدل نہیں۔
سائنس کیا ہے ؟انہی قوانین خداوندی کو دریافت کرنے کا نام۔آج سائنس کے دوسرے شعبوں کی طرح علم فلکیات نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ دو جمع دو چار کی طرح یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کس وقت سورج کہاں ہو گا اور چاند کہاں ہو گا۔کتنے درجے پر واقع ہو گا، کتنا حصہ روشن ہو گا، زمین کے کس حصے میں کب اور کیسے نظر آئے گا۔حتیٰ کہ اب ممکن ہے کہ ہزاروں سال بعد وقوع پذیر ہونے والے سورج گرہن یا چاند گرہن کی پیش گوئی بھی آج کی جا سکتی ہے۔
سائنس کی ان معلومات سے دینی عبادات کی بجا آوری میں بھی بڑ ا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ اب ہر جگہ ایسے کیلنڈر موجود ہیں جن میں صبح صادق اور سورج کے طلوع و غروب کا مستقل ٹائم ٹیبل ہو تا ہے۔ پہاڑ ی علاقوں اور ان جگہوں کے لئے جہاں اکثر اوقات بادل چھائے رہتے ہیں ، یہ ایک بڑ ی نعمت ہے بلکہ اب تو ان ٹائم ٹیبلوں سے ہر گھر میں فائدہ اٹھایا جا رہا ہے اس لئے بہت ضروری ہے کہ رمضان اور عید الفطر کا چاند ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں بھی سائنس کی معلومات سے فائدہ اٹھایا جائے۔
درج بالا دلیل کے خلاف ایک بات کہی جا سکتی ہے ، وہ کہ ایک روایت کے مطابق نبی کریمؐنے فرمایا’’رمضان کا چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور عید کا چاند دیکھ کر عید کرو۔اور اگر مطلع صاف نہ ہو تو اس کے بارے میں اندازہ کر لو‘‘۔
ہر حدیث کی طرح درج بالا حدیث کے بارے میں بھی یہ ضروری ہے کہ اس پر صحیح غور و فکر کیا جائے۔ نہ کہ بے سمجھے اس کا مفہوم طے کر لیا جائے۔ اس حدیث پر نبیؐ کے زمانے کو مد نظر رکھتے ہوئے تدبر کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ حضور ﷺ کے زمانے میں حساب لگانے کا طریقہ یہی تھا کہ چاند کو بچشم سر دیکھا جائے۔ چنانچہ حضورؐ نے اس کی ہدایت فرمائی۔اس حدیث میں اس طرح کا کوئی بھی اشارہ نہیں کہ چاند دیکھنے میں سائنسی آلات سے مدد نہ لی جائے۔ اسی لیے ایک دوسری حدیث کے مطابق حضورؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ہم اُمی لوگ ہیں۔ چاند کبھی تو تیس دن کا ہوتا ہے اور کبھی انتیس دن کا۔۔۔۔‘‘گویا جب بھی مسلمانوں کے پاس فلکیات کا علم آجائے تو اُس سے فائدہ اٹھاناصحیح ہے۔
اب ہم اس سوال کے دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں یعنی یہ کہ کیا یہ ضروری ہے کہ پوری دنیا میں ایک ہی دن رمضان اور عید کا اعلان کیا جائے۔ راقم الحروف کے خیال میں آج کے حالات میں یہ ضروری ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ امریکہ اور یورپ میں رہنے والے کروڑ وں مسلمان ان ملکوں میں رہتے ہوئے بھی اپنے اپنے آبائی ملکوں کے مطابق رمضان اور عید کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہاں موسمی حالات میں چاند کا دیکھنا اکثر اوقات ممکن نہیں ہوتا۔ویسے بھی آج پوری دنیا ایک بڑ ے گاؤں کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ چناچہ ہمارے خیال میں اس کا حل یہ ہے کہ پوری دنیا میں جس جگہ ہلال دیکھے جانے کا سب سے پہلے امکان ہو، وہاں ماہرین فلکیات کی ٹیم بھیجی جائے۔ ان کے مثبت اعلان کے ساتھ اس کے بعد جہاں جہاں غروب آفتاب ہو، وہاں رمضان شوال اور ذوالحج کا اعلان ہوتا ہے۔ باقی مہینوں کے اعلان کے لئے علم فلکیات کی رو سے اعلان کافی سمجھا جائے۔ اِسی طرح چاند کی پیدائش (Birth of Moon)، جو ایک سائنسی اور کائناتی حقیقت ہے ، کو بھی معیار کے طور پر اپنا یا جا سکتا ہے۔