HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Dr. Farooq Khan

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

زکوٰۃ اور معیشت سے متعلق دوسرے مسائل

گیارہواں باب

زکوٰۃ اور معیشت سے متعلق دوسرے مسائل

سوال:انفاق فی سبیل اللہ کا کیا مطلب ہے ؟

جواب:قرآن حکیم ہمیں بتاتا ہے کہ یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے ، یہاں مال و اسباب کی تقسیم بھی پروردگار نے اس طرح کی ہے کہ سب لوگ ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ یہ دنیاوی مال ، جس کے پاس زیادہ ہے ، اس کا امتحا ن یہ ہے کہ کیا وہ اس کو ٹھیک ٹھیک ، اپنے پروردگار کے حکم کے مطابق خرچ کرتا ہے یا نہیں اور جس کے پاس یہ دنیاوی اسباب کم ہیں ، اس کا امتحان یہ ہے کہ کیا وہ تنگی کے باوجود ، صحیح راستے پر گامزن رہتا ہے یا نہیں۔ گویا ایک شکر کا امتحان ہے اور دوسرا صبر کا۔(سورہ الزخرف 32:43سورہ الانبیاء 35:21)

جس انسان کے پاس دنیاوی مال و اسباب کی فراوانی ہو، اس کو پروردگار یہ حکم دیتا ہے کہ اپنے حال اور مستقبل کی امکانی، ذاتی، کاروباری اور صنعتی ضروریات پوری کر لینے کے بعد ، اس کے پاس جو بھی مال ہے ، وہ ضروت مندوں ، یتیموں اوردین و ملت کے کا موں پر لگا دے۔ (سورہ المعارج 70: 25 -44)

گو یا ہمارا دین یہ چاہتا ہے کہ معاشرے میں کوئی فاضل سرمایہ نہ رہے۔ یا تواسے کاروبا ر اورصنعت میں لگایا جائے یا پھر معاشرے کے حق داورں کو دے دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس سے بھی معاشرے کو فائدہ پہنچتا ہے اورحال و مستقبل کی امکانی ضروریات کے لئے تھوڑ ا بہت پس انداز رکھنے کے بعد، جو کچھ بھی ہے ، وہ معاشرے کا حق ہے اور اسے معاشرے میں بانٹ دینا ضروری ہے۔ (سورہ البقرہ 2: 219- 254)

اسے انفاق فی سبیل اللہ کہتے ہیں۔

قرآن حکیم کہتا ہے کہ اگر کوئی فرد ، معاشرے سے بے پروا ہو کر ، اپنے پاس دولت جمع کر کے رکھتا ہے تو یہ کنز ہے ، جس کی سزاجہنم کی آگ ہے۔ (سورہ التوبہ 9: 34-35)

سوال:زکوٰۃکی حقیقت کیا ہے ؟

جواب:زکوٰۃ انفاق فی سبیل اللہ کا وہ حصہ ہے ، جو ایک مسلمان کے لئے اپنی مسلمان ریاست کو دینا لازم ہے جب کہ انفاق فی سبیل اللہ ایک فرد کی ذاتی ذمہ داری ہے۔ اگر آدمی ذاتی ذمہ داری کو پو را نہیں کرتا، تو اس کی سزا آخرت میں اسے ملے گا، لیکن ریاست اس معاملے میں کوئی مدا خلت نہیں کر سکتی۔یہ اختیار پروردگار نے ریاست کو اس مقصد سے نہیں دیا کہ اس صورت میں ریاست بہت مطلق العنان ، طاقتور اور استبدادی ہو جائے گی۔

ریاست کو پروردگا نے صرف اور صرف، زکوٰۃکی شکل میں یک لازمی ٹیکس اپنے باشندوں سے ، بزور وصول کر نے کا اختیار دیا ہے ، جس کی شرحیں حضور ﷺنے ، اپنی سنت کے ذریعے سے ہمیشہ کے لئے مقرر فرمادی ہیں۔ ریاست اس سے زیادہ ایک پیسہ بھی اپنے باشندوں سے بزوروصو ل نہیں کر سکتی۔سورہ توبہ میں ارشاد ہے۔

’’پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز کا ا ہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔‘‘(التوبہ5:9)

راہ چھوڑ نے کا واضح مطلب یہی ہے کہ پھر حکومت ان سے کوئی مزید مطالبہ نہیں کر سکتی۔یہ بات واضح رہے کہ ایک مال دار فرد کے مال میں ، حکومت کا حصہ دینے کے بعد بھی، انفاق فی سبیل اللہ کی شکل میں معاشرے کا حصہ قائم رہتا ہے ، جو اسے انفردی طور پر دینا لازم ہے۔

سوال:کہا جاتا ہے کہ زکوٰۃ ایک عبادت ہے ، جب کہ ٹیکس تو حکومت ظلم کر کے لیتی ہے ؟

جواب:زکوٰۃ، اپنی روح کے اعتبار سے ، ایک عبادت اور اللہ کے ساتھ اپنی وفاداری کا اظہار ہے اور ریاست کے اعتبار سے یہ ٹیکس ہے۔ ٹیکس اور ظلم لازم و ملزوم نہیں۔ حکومت عوام کی بھلائی ہی کے لئے قائم ہوتی ہے ، اس لئے اس کے جائز اخراجات پورے کرنا بہت بڑ ا خیر ہے۔ حضورﷺ اور خلفائے راشدینؓ کے زمانے میں زکوٰۃ کا ایک ایک پیسہ حکومتی خزانے کو دیا جاتا تھا۔اور زکوٰۃ نہ دینے والا حکومت کا باغی تصور ہوتا تھا۔اس وقت انفرادی طور پر زکوٰۃدینے کا کوئی تصور ہی نہ تھا۔ہر وہ پیسہ جو حکومت لیتی ہے ، ٹیکس ہی کہلاتا ہے۔

سوال:زکوٰۃکے آٹھ مصارف سورہ توبہ میں بیان ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ حکومت کے باقی مصارف کہاں سے پورے ہوں گے ؟

جواب:اگر بنظرغائر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان آٹھ مدات میں حکومت کے تمام تراخراجات آ گئے ہیں۔ انھیں پروردگار نے ہمارے سامنے اس لئے بیان کیا ہے ، تا کہ ترجیجاًہم ان کو پیش نظر رکھیں۔ مثلاًدیکھیے :

2,1۔فقراومساکیں : خزانے پر سب سے پہلا حق معاشرے کے غریب اور مفلوک الحال طبقے کی فلاح و بہبود کا ہے۔

3۔عا ملین علیھا:تمام سرکاری ملازمین۔

مولفۃ قلوبھم:اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں تمام سیاسی اخراجات۔

فی الرقاب :جرمانے یا فدیے میں بندھے ہوئے سب قیدی۔

الغارمین: نقصان، تاوان یا قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے لوگ۔

فی سبیل اللّٰہ :دین کے اشاعت ، تعلیم ، فوج، صحت اور دین و ملت کے تمام کام۔

ابن السبیل:ذرائع آمدورفت ، مثلاًسڑ کوں ، پلوں اور ریل پٹٹریوں کی تعمیر ، مسافروں کی بہبود کے لئے۔

مندرجہ بالا آٹھ میں مدات ریاست کے تمام اخراجات آ جاتے ہیں ، البتہ اس میں حکومت کی عیاشیوں اور اللے تللوں کے لئے کوئی رقم نہیں ہے۔

سوال:زکوٰۃ، کم سے کم کتنے سرمائے پر عائد ہوتی ہے اور کونسی چیزیں زکوٰۃ سے مستشنٰی ہیں ؟

جواب:صرف تین چیزیں زکوٰۃ سے مستشنٰی ہیں۔

1۔عوامل پیداور:مثلاًزمین کی پیداوار پر زکوٰۃ ہے ، مگر زمین کی قیمت پر نہیں ہے (جبکہ وہ زمین پیداوار دے رہی ہو ، محض جائیداد بنانا نہ ہو)۔اسی طرح کسی کارخانے کی پیداوار پر زکوٰۃ ہے ، مگر کارخانے کی مالیت پر نہیں۔

2۔ذاتی استعمال کی چیزیں :مثلاًوہ گھر جس میں انسان رہتا ہو۔ سواری، گھر کا عام ساز و سامان وغیرہ۔

3۔نصاب سے کم سرمایہ :نقد رقم، سونے ، چاندی، پلاٹینم وغیرہ میں ساڑ ھے باون تولے (چھ سو بارہ گرام)چاندی قیمت سے کم مالیت پر زکوٰۃ نہیں ہے۔

غلے کی قسم کی اشیاء میں سے تین من (ایک ہزار ایک سو انیس کلو گرام )کھجوریا اس کی قیمت سے کم غلے پر زکوٰۃ نہیں ہے۔

مویشیوں میں سے ایک اونٹ یا اس کم مالیت پر زکوٰۃ نہیں ہے۔

سوال:ایسا کیوں ہے کہ غلہ اور مویشیوں میں تو رعایت زیادہ ہے لیکن سونے ، چاندی اور نقد رقم پر رعایت کم ہے ؟

جواب:ہمارا دین یہ چاہتا ہے کہ سونا چاندی اور اس طرح کی چیزوں کے جمع کرنے کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اس طرح نقد رقم بھی جمع کر کے رکھنے کے بجائے ، اسے گردش میں آنا چاہیے۔ اس کے بر عکس ، غلہ اور مویشی انسان کے لئے مفید ہیں۔ ایک کاشتکار کو اپنے خاندان کے لئے غلہ جمع کر کے رکھنا ہی پڑ تا ہے۔

سوال:مستقل اثاثوں پر زکوٰۃکی شرح کیا ہے ؟

جواب:ہر قسم کے مستقل اثاثوں پر، جن سے پیداوارنہ ہوتی ہو ، مثلاً سونا، چاندی، ہیرے ، جواہرات، قیمتی نوادرات، پلاٹ، اضافی گھر (جو کرائے پر نہ چڑ ھے ہوں )وغیرہ پر ڈھائی فیصد زکوٰۃ ہے۔

سوال:زرعی پیداور پر زکوٰۃ کیسے عائد ہوتی ہے ؟

جواب:اگر کسی پیداوار میں محنت اور سرمایہ دونوں لگیں (مثلاًنہری زمین)تو اس کی آمدن پرپانچ فیصد زکوٰۃپیداوار لینے کے ساتھ ہی عائد ہو جاتی ہے۔ اور اگر کسی پیداوار میں صرف محنت یا صرف سرمایہ لگے (مثلاًبارانی زمین)تو اس کی آمدنی پر دس فیصد زکوٰۃ عائد ہوتی ہے۔

سوال :صنعتی پیداوار پر زکوٰۃ کیسے عائد ہوتی ہے ؟

جواب:صنعتی پیداوار بھی عام پیداوار ہی کی مانند ہے۔ جس صنعتی پیداوار میں مالک کی محنت اور سرمایہ دونوں شامل ہوں ، اس کی آمدنی پر پانچ فیصد زکوٰۃ ہے اور جس میں صرف سرمایہ ہو، تو اس کی آمدنی پر دس فیصد زکوٰۃ ہے۔

سوال:روزانہ یا ماہانہ صرف محنت سے کمانے والے افراد مثلاًپرائیویٹ ڈاکٹر ، ماہر تعمیرات ، انجینئر اور سرکاری وغیرسرکاری ملازمین کی اجرتوں پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے ؟

جواب:چونکہ آج کل کی معروف اصطلاح میں یہ بھی پیداوار ہی ہے ، اس لئے ان سب آمدنیوں پرزرعی پیداوار کے اصول پرپانچ فیصد یا دس فیصد زکوٰۃ ہے۔ اس میں حکومت چاہے تو کم از کم بنیادی آمدنی کی چھوٹ بھی دے سکتی ہے۔

سوال:اگر کسی نے اپنے گھر ، پلازے یا دوکانیں کرائے پر دے دی ہیں ، تو اس پر کتنی زکوٰۃ عائد ہوتی ہے ؟

جواب:چونکہ یہ بھی پیداوار ہے اس لئے اس پر بھی دس فیصد زکوٰۃ ہے۔ مثلاً اگر کسی مالک نے کوئی گھر دس ہزار روپے ماہانہ کرایہ پر دیا ہے۔ تو اس پر ماہانہ (اس گھر کے کھاتے میں )ایک ہزار روپے زکوٰۃ عائد ہوتی ہے۔

سوال:تجارت پر زکوٰۃ کیسے عائد کی جائے گی؟

جواب:تجارت پر دو طریقوں سے زکوٰۃ عائد کی جا سکتی ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ اسے پیداوار مان کر، اس کی روزانہ آمدنی پر دس فیصد زکوٰۃ عائد کر دی جائے۔ چونکہ تاجروں کے لئے روزانہ کا حساب کتاب رکھنا مشکل ہوتا ہے اور اس طریقے سے قیمتیں بڑ ھنے کا اندیشہ بھی ہوتا ہے ، اس لئے یہ طریقہ مناسب خیال نہیں کیا جاتا۔

دوسراطریقہ یہ ہے کہ سال کے بعد ، سارے تجارتی اثاثہ جات پر، ڈھائی فیصدکے حساب سے زکوٰۃ ادا کر دی جائے۔ یہ طریقہ آسان اور قابل عمل ہے۔

سوال:بعض تجارتی کاروبار اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ اس میں سرمایہ بہت کم لگتا ہے اور آمدن بہت زیادہ ہوتی ہے۔ پھر ان کا روزانہ حساب بھی لگایا جا سکتا ہے۔ کیا یہ پیداوار کی ضمن میں آ سکتا ہے ؟مثلاًتکے کباب کی دوکانیں ، ریسٹورنٹ اور بہت بڑ ے کاروباریادارے ، جو اپنا کمپیوٹرائز ڈحساب کتاب رکھ سکتے ہیں ؟

جواب:ایسے تجارتی کاروبار، تجارتی پیداوار کی ذیل میں آتے ہیں ، ان پر آمدنی کے حساب سے پانچ فیصد زکوٰۃ عاید کی جانی چاہیے۔

سوال:کیا زکوٰۃ ، لازماًکسی خاص مہینے میں ادا کرنی چاہیے ؟

جواب:اگر حکومت کوئی تاریخ مقرر کر دے ، تو ظاہر ہے کہ اس کی پابند ی لازم ہے لیکن اگر حکومت زکوٰۃ وصول نہ کرے تو زکوٰۃ کسی بھی وقت نکالی جا سکتی ہے اور سارا سال تقسیم کی جا سکتی ہے۔

سوال:درج بالا تفصیلات کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ آج کل توریاستیں زکوٰۃ سے کہیں زیادہ ٹیکس وصول کر رہی ہیں ، اس کے باجود اپنے اخراجات پورے نہیں کر سکتیں۔ صرف زکوٰۃ لاگو کر کے ایک ریاست اپنے اخراجات کیسے پورے کر سکے گی؟

جواب:اس ضمن میں تین باتیں سمجھ لینی چاہیں :

پہلی بات یہ ہے کہ آج تک انسان کوئی ایسا فارمولا دریافت نہیں کر سکا، جس کی رو سے حکومت کے ٹیکس لگانے کے اختیار کو محدود کیا جا سکے۔ چونکہ ریاست کے پاس طاقت ہوتی ہے ، اس لئے ٹیکسیشن کی تاریخ شاہد ہے کہ ریاست نے ہمیشہ ، اپنی طاقت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر ظالمانہ ٹیکس عوام پر مسلط کئے ہیں۔ جب ریاست زیادہ رقم کمانے کی عادی بن جاتی ہے اور اسے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ وہ اپنی طاقت سے کام لے کر مزید ٹیکس بھی لگا سکتی ہے ، تو پھر وہ اپنے اخراجات بڑ ھاتی ہی رہتی ہے اور اس کا سلسلہ کہیں رکنے میں نہیں آتا۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے دین نے ، اس تنازعے کو ہمیشہ کے لئے حل کر کے ، بتا دیا ہے کہ حکومت ان شرحوں سے آگے نہیں بڑ ھ سکتی۔ حکومت کو اپنے اخراجات اس حد کے اندرہی رکھنے ہوں گے۔ ساری دنیا کے اندر یہ دو اصول متفق علیہ ہیں کہ کم سے کم دخیل حکومت ہی ایک اچھی حکومت ہوتی ہے اور کم سے کم ٹیکس معاشرے میں کاروباری آزادی کے ضامن ہوتے ہیں۔ ان دو اصولوں پر صحیح معنوں میں ایک اسلامی حکومت میں ہی عمل کیا جا سکتا ہے۔ حقے یقت تو یہ ہے کہ اگر حکومتیں مسرفانہ اخراجات نہ کریں تو زکوٰۃ کی رقم جائز اخراجات کے لئے بالکل کافی ہے۔

تیسری حقیقت یہ ہے کہ جب ٹیکس اتنے آسان ہو جائیں ، اتنے سیدھے سادھے اور براہ راست ہو جائیں۔ انکم ٹیکس اور دوسرے محکموں کی چیرہ دستیاں ختم ہو جائیں ، تو ایک طرف ٹیکس چوری بھی ختم ہو جاتی ہے۔ ان براہ راست ٹیکسوں کو نہ چھپایا جا سکتا ہے ، نہ چھپانے کی ضرورت ہے اور دوسری طرف معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے جس کے باعث سرگرمی اتنی ذیادہ بڑ ھ جاتی ہے کہ حکومتی آمدن کی مقدار بہت بڑ ھ جاتی ہے۔

سوال:اگر ایک انسان کسی کو قرض دے تو اس پر زکوٰۃ کیسے ادا کرے ؟

جواب:قر ض دینے والے پر زکوٰۃ عائد نہیں ہوتی، البتہ اگر قرض لینے والا اس سے کچھ کمائے ، تو اس کمائی پر زکوٰۃ ہے۔ قرض لینے والا ، اپنے اثاثوں کا حساب لگاتے وقت ، اس قرض کو اپنے اثاثے سے منہا کر کے اس پر زکوٰۃ ادا کرے۔

سوال:ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ زکوٰۃ کی شرحیں حضورﷺ نے اپنے زمانے کے مطابق متعین کی تھیں۔ اب کیا ہمیں ان میں کمی بیشی کا ا ختیار حاصل ہے ؟

جواب:یہ با لکل غلط ہے۔ زکوٰۃ کی شرحیں حضورﷺ نے خدا کا رسول ہونے کی حیثیت سے مقرر کی تھیں ، نہ کہ ریاست مدینہ کے فرمانروا کی حیثیت سے ، اور اب یہ شرحیں اس امت میں آپ کی جاری کردہ سنت کی حیثیت رکھتی ہیں ، ان سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔

یہ ہمارے دین کا بہت بڑ ا خیر ہے کہ اس نے زکوٰۃ کی آخری شرحیں مقرر کر کے فرد کو ریاست کے ظلم سے محفوظ کر لیا۔اگر یہ شرحیں مقرر نہ کی جائیں تو پھر گویا ریاست پر ان متوازن اور معقول شرحوں کو متعین کرنے کی ذمہ داری ڈالی جاتی، جس وہ کسی صورت میں بھی عہدہ برا نہیں ہو سکتی تھی۔

سوال:کیا حکومت کسی چیزکو زکوٰۃ سے مستشنٰی بھی قرار دے سکتی ہے ، یا کسی چیز پر زکوٰۃ کی شرح کم کر سکتی ہے ؟

جواب:حکومت ، اپنی مصلحت یا عوام کو کسی تکلیف سے بچانے کی خاطر، کسی چیز کو وقتی طور پر زکوٰۃ سے مستشنٰی کر سکتی ہے۔ مثلاًحضورؐ نے اپنے زمانے میں سبزیوں کی پیداوار کو زکوٰۃ سے مستشنٰی کر دیا۔اسی طرح اس وقت ، چونکہ جنگ کے لئے گھوڑ وں کی بھی ضرورت تھی، اس لئے ان کوبھی زکوٰۃ ادا کرنے میں چھوٹ دی گئی۔بعد میں جب یہ صورت حال نہ رہی ، تو حضرت عمرؓ نے گھوڑ وں پر زکوٰۃ عائد کر دی۔

سوال:کہا جاتا ہے کہ جو چیزیں حضورﷺ کے زمانے میں موجود نہیں تھیں ، یا ان کا رواج نہیں تھا، مثلاً پلاٹینم اور دوسری قیمتی دھاتیں اور ہیرے وغیرہ ، ان پر زکوٰۃ نہیں ہے ؟

جواب:یہ دلیل صحیح نہیں ہے۔ زکوٰۃ کم سے کم انفاق ہے ، جس کے بغیر کوئی دولت پاک نہیں ہوتی۔ظاہر ہے دولت میں ہیرے جواہرات ، پلاٹینم اور باقی ساری چیزیں آ جاتی ہیں۔

سوال:آج، جبکہ حکومت زکوٰۃ نہیں لے رہی اور اس کے بجائے دوسرے بے شمار ظالمانہ ٹیکس وصول کر رہی ہے ، اگر ایک انسان ایک طرف زکوٰۃ بھی دے اور دوسری طرف حکومت کو ٹیکس بھی دے ، تو یہ تو دہرا ٹیکس ہوا، اس کا حل کیا ہے ؟

جواب:چونکہ حکومت کو زکوٰۃ سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے کا ختیار نہیں ، اس لئے ہر فرد کو چاہیے کہ وہ اپنی پوری زکوٰۃ کا حساب لگائے اور حکومت کو جو سالانہ ٹیکس دیتا ہے۔ اس زکوٰۃ کی رقم سے اسے منہا کرے اور پھر اگر رقم بچ جائے ، اسے اللہ کے راستے میں ، بقیہ زکوٰۃ ادا کرنے کی نیت سے خرچ کر دے۔

سوال:آج مختلف حکو متیں اتنی بڑ ی شرح سے مختلف قسم کے ٹیکس وصول کر رہی ہیں کہ اگر وہ سارے کے سارے ٹیکس دے دے ئے جائیں ، تو کسی انسان کے پاس اپنی جائز ضروریات اور کاروبار کو آگے بڑ ھانے کے لئے بھی سرمایہ نہ رہے۔ ایسی حالت میں کیا کیا جائے ؟

جواب:دین نے ہمیں یہ ہدایت کی ہے کہ تمام اجتماعی معاملات میں ریاست کے قانون کی پیروی کی جائے خواہ ہمیں ذاتی طور پر اس قانون سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو۔تا ہم اگر ریاست ہمیں کسی صریح غیر اسلامی کام کا حکم دے تو ایسا حکم ماننے کے بجائے ہمیں وہاں سے ہجرت کرنی چاہیے۔ واضح رہے کہ فی الوقت دنیا میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جو اپنے مسلمان باشندوں کو کسی واضح غیر اسلامی کام کا حکم دیتا ہو۔

چونکہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں کے عوام کی اکثریت کو ٹیکس اور زکوٰۃ کے معاملے میں ہمارے موقف سے اتفاق نہیں ہے اور ٹیکس اور زکوٰۃ کو علیحدہ علیحدہ تصور کرتے ہیں۔ اس لئے ہم عملی طور پر ریاست کے قانون کی پیروی کریں گے ، البتہ اپنے موقف پر عوام اور حکمرانوں کو قائل کرنے کی کوشش جاری رکھیں گے تا کہ قانون بدل جائے۔

سوال:آج جبکہ ، حکومت زکوٰۃ نہیں لے رہی ، ایک عام فرد اپنی زکوٰۃ کیسے تقسیم کرے ؟

جواب:یاد رہے کہ دین کا اصل مطالبہ انفاق ہے ، زکوٰۃ تو وہ کم سے کم رقم ہے جس کے بغیر کوئی اثاثہ و سرمایہ پاک نہیں ہوتا۔اس لئے ہر فرد ، اپنی زکوٰۃ کا حساب لگا کر ، کم از کم اتنی رقم فقرا، مساکین اور دین و ملت کی بہبود کے لئے خرچ کرے۔

سوال:کیا کسی مستحق کو زکوٰۃکی رقم دیتے وقت اسے یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ زکوٰۃ کی رقم ہے ؟

جواب:دین نے ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی۔

سوال:کہا جاتا ہے کہ زکوٰۃ کسی اجتماعی کام (مثلاً سڑ ک ، ہسپتال کی تعمیر وغیرہ)کے لئے استعمال نہیں کی جا سکتی ، بلکہ یہ صرف کسی فرد کے ہاتھ میں دی جا سکتی ہے اور اس فرد کو زکوٰۃ کی رقم کا مالک بنانا ضروری ہے ؟

جواب:قرآن و سنت میں ایسی کوئی شرط نہیں ہے۔ زکوٰۃ اجتماعی اداروں کو بھی دی جا سکتی ہے اور فرد کو بھی۔ حضورﷺ اور خلفائے راشدین کے زمانے میں زکوٰۃ کی رقم بیت المال میں جمع ہوتی اور اس کو دین و ملت کے ہر کام میں لگایا جاتا تھا۔

سوال:زکوٰۃ کسی فرد یا ادارے کو دی جا سکتی ہے ؟

جواب:زکوٰۃ ہر اس فرد کو دی جا سکتی ہے جو آپ کے خیال میں اس کا مستحق ہو اور ہر اس ادارے کو بھی دی جا سکتی ہے جو دین و ملت یا فقرا و مساکین کی بھلائی کے لئے سرگرم عمل ہو۔

سوال:کیا زکوٰۃ اپنے قریبی رشتہ دار کو دی جا سکتی ہے ؟

جواب:والدین، بیوی اور اولاد ، دین کی رو سے ، کسی انسان کی براہ راست ذمہ داری ہیں۔ ان کا نان نفقہ ہر انسان پر فرض ہے۔ اس لئے ان کو زکوٰۃ کی رقم دینا مناسب نہیں۔ البتہ ایک بیوی اپنے خاوند کو زکوٰۃ دے سکتی ہے اور بہن بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں کو بھی زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔

سوال:ایک اسلامی حکومت غیر مسلموں پر کتنا ٹیکس لگا سکتی ہے ؟

جواب:چونکہ آج کل تمام مسلمان ممالک کے اندر جو غیر مسلم رہتے ہیں ، ان کی حیثیت ذمی کی نہیں ، بلکہ معاہد(جو غیر مسلم ایک معاہدہ کے تحت کسی مسلمان حکومت میں رہ رہے ہوں )کی ہے ، اس لئے مسلمانوں کی حکومت ان سے جن شرائط پر چاہے ، معاملات طے کر سکتی ہے۔ موجودہ حالات میں سب سے زیادہ مناسب تو یہ ہے کہ ان پر ٹیکس کی وہی شرح عائد کی جائے۔ جو عام مسلمانوں پر، بصورت زکوٰۃ عائد کی جاتی ہے۔

سوال:سود کیا چیز ہے اور دین میں اس کے متعلق کیا حکم ہے ؟

جواب:سود سے مراد، کسی مال پر، متعین مدت میں وہ معین اضافہ ہے ، جو قرض دینے والا اپنے مقروض سے محض اس بنا پر وصول کرتا ہے۔ سود کو عربی زبان میں ربٰوہ کہتے ہیں۔ قرآن کریم نے سود کی شدت کے ساتھ نفی کی ہے۔ سود کی حیثیت ، اسلامی حکومت میں ، ایک باغی اور سرکش کی ہے۔ اگر وہ اس سے باز نہیں آئے گا تو اسلامی حکومت اس سے جنگ کرے گی۔بالکل اسی طرح جیسے کسی دوسرے باغی کو ، سرکشی سے روکنے کے لئے جنگ کی جاتی ہے۔ (البقرہ 2: 275-278)

سوال:کہا جاتا ہے کہ اسلام میں صرف اس قرض پر سود حرام ہے ، جسے کوئی شخص اپنی ذاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے لے ، جسے عرف عام میں مہاجنی سود کہا جاتا ہے۔ باقی رہے وہ قرضے ، جو تجارتی مقاصد کے لئے لئے جاتے ہیں ، تو ان پر سود حرام نہیں ہے ؟

جواب:قرآن مجید اس طرح کے کسی فرق کو تسلیم نہیں کرتا اور وہ صاف الفاظ میں سود کو بھی حرام قرار دیتا ہے۔ سورئہ روم میں ارشاد ہے :

وما اتیتم من ربا لیر بوا فی اموال الناس فلا یربوا عنداللہ فاولئک ھم المضعفون۔

’’اور جو سود ی قرض تم اس لئے دیتے ہو کہ دوسروں کے مال میں پروان چڑ ھے ، تو وہ اللہ کے ہاں پروان نہیں چڑ ھتا اور جو زکوٰۃ تم نے اللہ کی خوش نودی حا صل کرنے کے لئے دی تو اسی کے دینے والے ہیں ، جو اللہ کے ہاں اپنا مال بڑ ھاتے ہیں۔ ‘‘(39:30)

دیکھ لیجئے :’’لیر بوا فی اموال الناس‘‘(اس لئے کہ وہ دوسروں کے مال میں پروان چڑ ھے )کے الفاظ اس بارے میں واضح ہیں کہ اس سے مراد تجارتی مقاصد کے لئے حاصل کردہ قرضے پر سود ہے ، جو دوسروں کے مال میں پروان چڑ ھتا ہے۔

حضورﷺ کے زمانے میں زیادہ تر سودی قرضے تجارتی مقاصد ہی کے لئے حاصل کئے جاتے تھے ، ذاتی مقاصد کے لئے حاصل کئے گئے قرضوں کی مقدار بہت کم ہوا کرتی تھی، کیونکہ ہر قبیلہ اپنے غریب افراد کی سرپرستی ، کا ذمہ دار تھا۔اسلام نے ان دونوں قسم کے قرضوں کے سود پر کامل پابندی لگادی۔

سوال:اسلام میں سود کیوں حرام قرار دیا گیا؟

جواب:سود سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد اور انسان پرانسان کے معاشی استحصال کا سب سے بڑ ا ہتھیار ہے۔ اس کے ذریعے کتنی ہی قومیں اور کتنے ہی افراد، مال دار قوموں اور مال دار افراد کی غلامی میں چلے جاتے ہیں۔ اس کے چند عام فہم پہلو ذیل میں بیان کئے جاتے ہیں۔

فرد اور معاشرے کی سطح پر ہونے والے نقصانات

 1۔سود کی وجہ سے سرمائے کی ایک قیمت متعین ہو جاتی ہے اور اس سے کم قیمت پر سرمایہ لگ ہی نہیں سکتا۔اس طرح نہ صرف یہ کہ سرمایہ بلاک ہو جاتا ہے بلکہ اگر کوئی کاروبار یا منصوبہ ملک وقوم کے لئے کتنا مفید ہو، اگر وہ سود کے برابر منافع نہیں دے رہا، تو ایسا کاروبار شروع ہی نہیں کیا جا سکتا۔مثلاً اگر آج کل شرح سود بیس فیصد ہے تو سرمایہ کبھی ایسی جگہ لگ ہی نہیں سکتا، جہاں کم از کم منافع سود کے برابر نہ ہو۔

2۔جو کاروبار سودی قرض سے شروع کیا جاتا ہے ، اس کے لئے منافع کی شرح بہت اونچی رکھنا ضروری ہے ، تاکہ وہ سود بھی بر وقت ادا کیا جا سکے ، اصل زر کا کچھ حصہ بھی ادا کیا جائے اور منافع بھی کمایا جا سکے۔ مثلاًشرح سود بیس فیصد ہے ، تو کسی کاروبار کے لئے یہ لازم ہے کہ نفع کی شرح کم ازکم چالیس فیصدرکھی جائے۔ منافع خوری میں سب سے بڑ ھ جانے کا مقابلہ، دراصل سودی نظام ہی کی وجہ سے ہے۔

3۔سودکے نتیجے میں ہر چیز کا کرایہ بھی بہت بڑ ھ جاتا ہے ، کیونکہ اس میں زمین، دکان یا مکان کی مالیت پر سود شامل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مثلاًدس لاکھ روپے مالیت کی ایک دوکان کا مالک سوچتا ہے کہ اگر یہی رقم میں بینک میں رکھتا تو مجھے کم ازکم ایک لاکھ روپے سالانہ سود ملتالہٰذا وہ کرائے کی شرح اس مالیت برابر یا اس زیادہ رکھتا ہے۔

4۔ چونکہ سود، ہمیشہ سود مرکب ہوتا ہے ، جو ہر چیز کی قیمت میں جمع ہوتا رہتا ہے ، اس لئے سرمایہ دارانہ نظام میں یہ لازم ہے کہ ہر وقت، ہر چیز کی قیمتیں آہستہ آہستہ بڑ ھتی رہیں۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان کمزور طبقے کو پہنچتا ہے ، کیونکہ اس کے پاس اپنی آمدنی کو بڑ ھانے کے فوری ذرائع موجود نہیں ہوتے۔

5۔سودی سرمایہ دارانہ نظام میں معیشت کو ہر وقت معاشی ناہمواری، اندرونی کچھاؤ اور کساد بازاری کے خطرے کا سامنا کرنا پڑ تا ہے (کیونکہ بے روزگاری کا علاج مہنگائی بڑ ھاتا ہے اور مہنگائی کا علاج بے روزگاری بڑ ھاتا ہے )‘اس لئے بنکوں کے اپنے ہاں جمع شدہ رقم کا تقریباً ایک تہائی ہروقت محفوظ (یعنی ریزور)رکھنا پڑ تا ہے۔ اسی طرح قومی سرمائے کی ایک تہائی مقدار ہر وقت بے کار پڑ ی رہتی ہے۔

6۔جو کاروبار سودی قرض سے شروع کیا جاتا ہے ، آج کل اس کا بیمہ (انشورنس)بھی لازم ہے ، تا کہ اگر کاروبار کو یک دم نقصان ہو جائے تو قرض دینے والے سود خور کے مفادات کا تحفظ ہو سکے۔ بیمے پر بھی بڑ ا خرچ آتا ہے۔ اس لئے کسی چیز کی قیمت میں بیمے کی رقم شامل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس طرح قیمتیں مزید بڑ ھ جاتی ہیں۔

7۔اگر ذاتی حاجت کے لئے مہاجنوں سے سود پر قرض لیا جائے تو مقروض فرد ہمیشہ کے لئے ایک ایسے جال میں پھنس جاتا ہے جس سے نکلنا اس کے لئے نا ممکن ہوتا ہے ، اس لئے معاشرے میں طبقاتی دشمنی ، محرومی اور پھر ہر اخلاقی برائی جنم لیتی ہے۔

قومی اور ریاستی سطح پر ہونے والے نقصانات

سود کے نتیجے میں مہنگائی ، بے روزگاری اور کسادبازاری پیدا ہوتی ہے ، چنانچہ عوام کو روزگار اور قوت خرید مہیا کرنے کے لئے حکومتیں اپنی آمدنی سے بہت زیادہ اخراجات کر لیتی ہیں اور ان زائد اخراجات کے لئے وہ سود پر بیرون ملک یا اپنے بنکوں سے قرض لے لیتی ہیں۔ شروع میں تو یہ نسخہ بڑ ا ٹھیک لگتا ہے ، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قرضے کی رقم اتنی بڑ ھ جاتی ہے کہ ملکی وسائل کا بیشتر حصہ صرف سود کی ادائیگی میں صرف ہو جاتا ہے۔ اور پوری ریاست سرمایہ داروں کی غلامی کا شکار ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اس خرچ کو پورا کرنے کے لئے حکومت کو عوام پرمزید ظالمانہ ٹیکس عائد کرنے پڑ تے ہیں۔

تمدن کی سطح پر ہونے والے نقصانات

چونکہ سود سرمائے کی قیمت متعین کر لیتا ہے ، اس لئے قرض حسنہ دینے کا سوال ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مال دار طبقے کے مفاد اور غریب طبقے کے مفاد میں کوئی ہم آہنگی نہیں رہتی۔معاشرے میں محبت و خیر خواہی اور تعاون کے بجائے مخاصمت اور تصادم کی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔

ان سب عوام مل کے نتیجے میں ایک ایسا وقت بھی آ جاتا ہے ، جب کسی ملک، خطے بلکہ پوری دنیا کی تہذیب ، تمدن ، معیشت ، معاشرت اور سیاست، سب پر سود کی پیدا کردہ ذہنیت ، نفسیات اور اخلاق و اقدار کی حکمرانی ہوتی ہے۔

سوال:مغربی سرمایہ دار ملکوں نے اپنے آپ کو سودی معیشت کے خطروں سے کس طرح محفوظ کیا ہے ؟

جواب:صنعتی انقلاب کے ساتھ ساتھ جب مغرب کو احساس ہو گیا کہ وہ صرف اپنے بل بوتے پر ایک ایسا معاشی نظام تخلیق نہیں کر سکتا جو کسی سے بے انصافی کئے بغیر ، ایک فلاحی معاشرے کی تخلیق کرسکے تو مغرب نے تیسری دنیا کے بعض ممالک پر قبضہ کر کے انہیں اپنا غلام بنا لیا۔جب کچھ مجبوریوں کی وجہ سے مغرب کو یہ علاقے چھوڑ نے پڑ ے تو اس نے یہاں کی حکومتوں کو سودی قرضوں کے سنہری جال میں جکڑ لیا کہ ایک طرف ساری تیسری دنیا مغرب کا سود ادا کر رہی ہے اور دوسری طرف قرضوں کی وجہ سے یہاں صنعتی ترقی کے تمام راستے بند کر کے ، مغرب نے تیسری دنیا کو صارفین کی سوسائٹی (consumer society)میں تبدیل کر دیا ہے۔

بد قسمتی سے ، اس پورے دور میں ، مسلم ریاستوں میں کوئی ایسا حکمران نہیں آیا جس نے سودی نظام سے چھٹکارا پانے کی کوشش کی ہو، چنانچہ دنیا کے سامنے غیر سودی صنعتی نظام کا کوئی ڈھانچہ ہی نہیں آیا۔اس کے ساتھ ساتھ مغرب نے علم اور محنت کی وجہ سے بھی اپنی سیاسی ، معاشی اور تہذیبی برتری قائم رکھی۔اس موضوع پر ہم نے اپنی کتاب ’’اکیسوی صدی اور پاکستان‘‘میں تفصیلی بحث کی ہے۔

سوال:جدیدصنعتی دنیا کا بینکاری نظام (Banking System)کیسے کام کرتا ہے ؟

جواب:بینکاری نظام(Banking System)صنعتی سودی دنیا کا سب سے بڑ ا آلہ ہے۔ اسے خصوصی طور پر سود ہی کے لئے تخلیق کیا گیا ہے۔ بنک عام لوگوں سے رقم جمع کرتا ہے اور اس رقم کو صنعت کا ر کے ہاتھ میں ، ایک بڑ ی شرح سود پر، دے دیتا ہے۔ اس نظام میں یہ رقم اس طرح گردش میں ہوتی ہے کہ اس میں ، سراسر بنکار اور صنعت کار کا فائدہ اور چھوٹے کھاتہ دار کا نقصان ہوتا ہے۔ اس کو ایک مثال کے زریعے یوں سمجھا جا سکتا ہے :جب ایک کھاتہ دار ایک سو روپے بنک میں رکھتا ہے ، تو بنک وہ رقم ایک صنعت کار کو پچیس فیصد سود پر قرض دے دیتا ہے۔ صنعت کار اس سے مصنوعات بناتا ہے اور اپنا بیس روپے منافع رکھ کر اسے ایک سو پنتالیس روپے میں فروخت کے لئے پیش کر دیتا ہے۔ دوسری طرف اکاؤنٹ ہولڈر کو اپنے سو روپوں پر دس فیصد سود ملتا ہے۔ گویا اس کے پاس ایک سو دس روپے آ جاتے ہیں۔ لیکن جب وہ ایک سو دس روپے جیب میں ڈال کر بازار چلا جاتا ہے تو اسی کے سرمائے سے بنائی گئی ، پروڈکٹ اسے ایک سو پنتالیس روپے میں پڑ تی ہے۔ گویا اسے مزید پینتیس روپے کہیں اور سے ڈال کر یہ چیز خریدنی پڑ تی ہے۔

روپے کی اس گردش میں صنعت کا ر اور بینکار امیر سے امیر تر اور عام انسان غریب سے غریب تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ گویا بینکاری نظام آج کی دنیا میں استحصال کا سب سے بڑ ا ذریعہ ہے۔ چنانچہ ایک عام انسان کی تکالیف رفع کرنے کے لئے حکومت درمیان میں کود پڑ تی ہے۔ وہ عام انسان کی تنخواہ اور دوسری سہولتوں میں اضافے کی خاطربینکوں سے سود قرض لیتی ہے۔ اس طرح دولت کی گردش، بہرحال، سود اور سود خور ہی کے مفاد میں ہوتی رہتی ہے۔ اس کے نتیجے میں حکومت بھی سود کی گرفت میں آ جاتی ہے۔ مغربی ملکوں کے پاس یہ ایک اضافی ہتھیار موجود ہے کہ وہ بین الاقوامی بنکوں کے ذریعے سے اپنے نقصان کا ایک بڑ ا حصہ تیسری دنیا کے ملکوں کی طرف منتقل کر دیتے ہیں ، اور اس طرح اپنے جسم پر لگنے والا زخم دوسرے کے جسم پر منتقل کر دیتے ہیں۔

سوال:اگر قرض پرمنافع ختم کر دیا جائے تو پھر اسلامی معیشت کے تحت بینکاری نظام (Banking System)کیسے چلے گا؟

جواب:اسلام میں قرض کا منافع کے صرف ایک تصور ممکن ہے وہ یہ کہ تجارت کے لئے قرض اس شرط کے ساتھ دیا جائے کہ اصل زر تو مقروض کو ہر حال میں واپس کرنا ہو گا البتہ اگرمقروض نے تجارت میں نفع کمایا ہو تو وہ منافع کا ایک متعین حصہ بھی قرض خواہ کو ادا کرے گا۔(النساء۔آیت29)

چناچہ اس اصول پر انفرادی معاملہ بھی کیا جا سکتا ہے اور محدود طریقہ سے بینکاری نظام بھی چلایا جا سکتا ہے۔

سوال:کیاشرکت و مضاریت، بیع مرابحہ اور بیع موجل کی بنیاد پر بینکاری کا تصور کیا جا سکتا ہے ؟

جواب:شرکت میں کار فرما تصور یہ ہے کہ بنک کے پاس جو رقومات رکھی جائیں ، ان سے بینک خود کاروبار کرے اور اس سے ہونے والا منافع بنک اور کھاتہ دار کے درمیان تقسیم کر دیا جائے۔ اس ا سکیم پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ بنک کوئی عملی کاروباری ادارہ ہے ہی نہیں۔ اس لئے یہ طریقہ ممکن نہیں۔

مضاربت کا تصور یہ ہے کہ بنک اپنے پاس جمع شدہ رقم، کاروبار کے لئے ، دوسرے ادارے کو دے۔ دوسرا ادارہ اپنے نفع میں بینک کو شریک کرے اور بینک اس منافع کو اپنے کھاتہ داروں کے درمیان تقسیم کرے۔ یہ صرف ان ممالک میں کامیاب ہو سکتا ہے جہاں معاشرے میں عام طور پر امانت و دیانت کا دور دورہ ہو اور بہت صحیح طریقہ سے حسابات رکھے جاتے ہوں ، ظاہر ہے کہ پاکستان کی صورت حال اس کے بالکل بر عکس ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بنک اپنے آپ کو سو فیصد کاروبار کے رسک میں مبتلا نہیں کر سکتا کیونکہ یہ بھی ممکن ہے کہ مختلف کاروباروں میں نقصان ہو۔چناچہ بینک اپنے دس پندرہ فیصد سرمائے کو مضاریت کے لئے تو مختص کرسکتا ہے مگر اس سے زیادہ نہیں۔

بیع مرابحہ اور بیع موجل، تھوڑ ے سے ٹیکنکل فرق کے علاوہ، تقریباً ایک ہی ہیں۔ اس معاملے میں کسی چیز کی نقدقیمت اور قرض قیمت میں فرق رکھا جاتا ہے اور یہی بینک کا منافع ہوتا ہے۔ اس کا عملی طریقہ یہ ہے کہ مثلاً کسی شخص کو پانچ لاکھ کی گاڑ ی خریدنی ہے۔ اس کے ساتھ بینک یہ معاملہ کرے گا کہ کاغذی کاروائی کے طور پر وہی گاڑ ی اس شخص سے پانچ لاکھ روپے میں خرید لے گا اور فوری طور پر اس کے ہاتھ ساڑ ھے چھ لاکھ میں اس شرط کے ساتھ بیچے گا کہ یہ رقم وہ شخص تین برس کے اندر قسطوں میں ادا کرے گا۔

اس طریقے کا تجزیہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ نام کی تبدیلی کے ساتھ ، دراصل سود ہی ہے۔ کیونکہ یہ اضافی ڈیڑ ھ لاکھ روپے در حقیقت اس مدت کی قیمت ہے۔ بد قسمتی سے آج کل بلا سود بینکاری کے نام پر زیادہ تر یہی طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔

ایک اور طریقے کو بھی بینک اپنے استعمال میں لاتے ہیں۔ اس کی عملی صورت یہ ہے کہ ایک شخص کو گاڑ ی کی ضرورت ہے۔ بینک نے اسے پانچ لاکھ کی گاڑ ی خرید کر ، اس معاہدے کے ساتھ ، حوالے کی کہ تین برس کے اندر اندر وہ شخص اس گاڑ ی کی قیمت اد ا کرے گا اور اس وقت تک یہ گاڑ ی اس کے ساتھ کرائے پر رہے گی۔اگر اس سسٹم میں چند باتوں کا خیال رکھا جائے تو یہ ایک جائز طریقہ ہے۔ مثلاً یہ کہ ایکسیڈنٹ کی صورت میں انشورنس کا کیا طریقہ کار ہو گا۔جوں جوں گاڑ ی کی قیمت میں اس شخص کا حصہ بڑ ھتا جائے گا اور بینک کا حصہ کم ہوتا جائے گا ، تب کرائے میں کمی کا تناسب کیا ہو گا۔ اگر اس طرح کے سوالوں کا جواب مارکیٹ کے لحاظ سے طے کیا جائے ، تب یہ سسٹم کارآمد ہے۔ لیکن بد قسمتی سے بینک آج کل اس کا حساب ایک دوسرے طریقے سے لگاتے ہیں ، وہ اس رقم پر تین برس کے سود کا حساب لگا کر اسے تین برس پر تقسیم کر کے اسے کرائے کا نام دے کر اپنا معاہدہ کرتے ہیں۔ یہ مارکیٹ کے مروجہ کرائے سے ہمیشہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ صارف کے مفادات کے خلاف ہوتا ہے۔

سوال:موجودہ صنعتی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی معیشت کے اس موجودہ بینکاری کا متبادل کیا ہے ؟

جواب:یہ ضروری ہے کہ ریاست کے کنٹرول میں ایک مرکزی بینک اور اس کی تمام شاخیں سب سے پہلے خود مثال بنیں اور تمام پرائیویٹ بینکوں کو کنٹرول کرے۔ اس ریاستی بینک میں عوام اپنا سرمایہ حفاظت کے طور پر رکھیں۔ یہ بینک اپنے اکاؤنٹ ہولڈرز کو سود نہ دے۔ البتہ افراط زر کے نتیجے میں کرنسی کی جتنی ڈی ویلیولیشن ہوتی ہے ، اسے لازماً پورا کرے۔ اس ڈی ویلیولیشن کا پورا کرنا تمام پرائیویٹ کے لئے بھی لازم قرار دیا جائے۔

یہ ریاستی بینک اس سرمائے سے بعض بنیادی صنعتیں خود بھی لگا سکتا ہے اور اس کا ایک بڑ ا حصہ ، صنعت کارں ہی کے ذریعے سے ، صنعت میں لگا کر اس کا کرایہ بھی وصول کر سکتا ہے۔ یوں نجی شبعے کے پہلو بہ فطری طریقے پر ایک ایسا وسیع قومی شعبہ بھی وجود میں آجائے گا ، جس کا انتظام در حقیقت نجی شعبے ہی کے ہاتھ میں ہو گا۔

پرائیویٹ بینکوں کے لئے یہ لازم ہو گا کہ وہ صرف انہی طریقوں سے کام لے جس کی اجازت انہیں مرکزی بینک نے دے ہو۔پرائیویٹ بینکوں کواپنے منافع کا متعین حصہ اپنے کھاتہ داورں کو ادا کرنا ہو گا۔

سوال:کیا یہ ممکن ہے کہ ریاست ریٹائیرڈافراد، بوڑ ھوں ، بیواؤں ، یتیموں اور معذوروں کے لئے کسی ایسے ادارے کا اجرا کرے جہاں ان کی بچت پر ان کو متعین منافع ملتا رہے ؟

جواب:ایسا ممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں تشکیل زر (Capital formation) کا سارا کام ریاست ہی انجام دیتی ہے۔ یعنی ریاست ہی نوٹ چھاپتی ہے اور نوٹ کو ضائع کرتی ہے۔ چنانچہ بچت کو بڑ ھانے اور معاشرے کے کمزور طبقوں کی خاطر ایک ایسی سکیم بنا سکتی ہے جہاں یہ لوگ اپنی رقوم جمع کریں اور حکومت بطور انعام انہیں ہر مہینہ ایک مقرر رقم دے۔

سوال:بے شمار لوگ قرض لے کر پھرواپس نہیں کرتے اور نادہندہ بن جاتے ہیں۔ اسلامی معیشت میں اس کا کیا حل ہو سکتا ہے ؟

جواب:یہ مسئلہ بنیادی طور پر پاکستان اور اس جیسے ان ممالک میں پایا جاتا ہے۔ جہاں ابھی بنیادی انسانی اخلاقیات بھی لوگوں میں پوری طرح راسخ نہیں ہوتیں۔ اور اس میں قرض دار اور بینک کے عہدیدار اور سیاسی لوگ سبھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ اس کا اصل حل تو بنیادی اجتماعی اخلاقیات راسخ کرنے اور قانون سے ہر قسم کی خامیاں دور کرنا ہے۔ موجودہ سودی نظام میں اس کا جو حل پاکستان میں رائج ہے ، وہ اس رقم پر مزید سود لاگو کرنا ہے جس کے نتیجے میں رقم کا ہندسہ تو بڑ ھتا رہتا ہے مگر اصل رقم بھی بینک کے ہاتھ نہیں آتی۔

نجی طور پر لئے گئے قرض میں بھی یہی مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ قرض کی رقم کا حساب سونے کی قیمت کے لحاظ سے لگایا جائے اور زائد میعاد پر جرمانہ بھی لگا دیا جائے۔ جرمانے کی اس رقم کے متعلق حکومت قانون سازی بھی کر سکتی ہے۔

سوال: سود اور کرائے میں کیا فرق ہے ؟

جواب: جب ایک مقروض سود پر سرمایہ لیتا ہے ، تو پہلے سرمائے کو فنا کر دیتا ہے ، پھر اس کے لئے یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ اسے دوبارہ پیدا کر کے ، مع سود ، قرض خواہ کو لوٹائے۔ گویا جو چیز سود ہے اور حرام ہے ، وہ یہ ہے کہ کوئی چیز دوران استعمال فنا ہوتا جائے اور اسے نئے سرے سے پیدا کر کے ، مالک کو اضافے کے ساتھ لوٹایا جائے۔

اس کے برعکس، کرایہ صرف ان چیزوں کا ہوتا ہے جن کا وجود استعمال کے دوران میں قائم رہتا ہے ، (مثلاًمکان، کارخانے ، زمین وغیرہ)اور استعمال کے بعد وہ جس حالت میں بھی ہوں ، اپنی اصل حیثیت ہی میں ان کے مالک کو لوٹادی جاتی ہے۔ یہ چیز اسلام میں حلال ہے۔

مختصراًیہ بات یاد رکھیے کہ انسان نے اب تک معیشت کے چار ہی طریقے ایجاد کئے ہیں ، تجارت ، کرایہ، سود اور جوا۔ان میں پہلی دو چیزیں حلال ہیں اور آخری دو چیزیں حرام۔

سوال: آج کی معیشت کا بڑ ا مسئلہ افراط زر کا ہے ، جس وجہ سے سرمائے کی قیمت دن بدن گرتی چلی جاتی ہے۔ اسلامی ریاست اس مسئلے سے کیسے نپٹ سکتی ہے ؟

جواب: افراط زر، بنیادی طور پر ، سود ہی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ، اس لئے ایک مکمل اسلامی معیشت میں یہ کوئی بڑ ا مسئلہ نہیں ہو گا۔تاہم جب تک حکومت اس مسئلے پر قابو نہیں پا لیتی، اس وقت تک وہ ریاستی خزانے میں جمع شدہ رقم پر زکوٰۃ میں چھوٹ دے سکتی ہے۔ اس طرح کے دوسرے اقدامات کرنے کے بھی اس کو اجازت ہے۔

سوال: آج ایک انسان کو، خواہی نخواہی، بنک سے تعلق رکھنا ہی پڑ تا ہے ، مثلاًبنک اکاؤنٹ کھول کر، لیٹر آف کریڈٹ کھول کر ، یا بنک میں ملازمت کر کے وغیرہ۔ایسی صورت میں ہمارے لئے دین کا کیا حکم ہے ؟

جواب: اس معاملے میں ہمارے لئے اجتماعی حالتِ اضطرار(عموم بلوٰی) کی صورت پیدا ہو چکی ہے ، جس میں حرام چیز کو وقتی طور پر گورا کر لیا جاتا ہے ، بشرطیکہ انسان اس حالت پر راضی نہ ہواور کم از کم حد سے آگے نہ بڑ ھے اور اس کو بدلنے کی جدوجہد بھی کرے۔

تاہم اس میں کم سے کم پر ہی رہنے کی کوشش کرنی چاہیے ، مثلاً سیونگ اکاؤنٹ کے بجائے کرنٹ اکاؤنٹ رکھا جائے۔ اسی طرح اگر کہیں اور مناسب ملازمت مل سکتی ہو تو خواہ مخواہ، بنک کی ملازمت پر اصرار نہ کیا جائے۔ تاہم کسی مناسب ملازمت کا بندوبست ہوئے بغیر بنک کی ملازمت چھوڑ نا، اپنے آپ کو بڑ ی آزمائش میں ڈالنا ہے جس مزید خرابیاں پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔

1973کے پاکستانی آئین میں یہ وعدہ کیا گیا ہے کہریاست جلدازجلد ربوا کوختم کرے گی۔ اس لیے ایک بینک ملازم یہ کہہ سکتا ہے کہ میں حکومت کی طرف سے وعدہ پورا ہونے کا انتظار کر رہا ہوں۔

سوال: صنعت کار کو بھی ایک بڑ ی مشکل کا سامنا ہے۔ اگر وہ بنک سے قرض نہیں لیتا اور بنک کے ساتھ دوسرا لین دین نہیں کرتا ، تو صنعت بند ہوجاتی ہے ، جس مزید بے شمار نقصانات جنم لیتے ہیں۔ اس صورت میں صنعت کار کو کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے ؟

جواب: آج دوسرے طبقوں کی طرح صنعت کا ر بھی حالتِ اضطرار میں ہے۔ تاہم اس اس صورت میں ہر فرد خود ہی یہ سوچ لینا چاہیے کہ کن چیزوں سے با آسانی بچ سکتا ہے اور کون سی چیزیں نا گزیر ہیں۔

سوال: انشورنس یا بیمہ کے متعلق دین کا کیا حکم ہے ؟

جواب: ایک اسلامی حکومت میں خود کار انشورنس کا نظام موجود ہوتا ہے جس کے تحت زکواۃ کی رقم سے نقصان کی ایک حد تک تلافی کی جاتی ہے۔ انشورنس یا بیمہ اپنی بنیاد میں کوئی غلط چیز نہیں ہے۔ تاہم چونکہ آج کی صورت حال میں اِس کا سودی نظام سے بہت گہرا تعلق ہے ، اس لیے اِس سے بچنا مناسب ہے۔ تاہم جہاں امن وامان کی بچنا ہی مناسب ہے۔ تاہم جہاں امن وامان کی صورت حال نہایت خراب ہو، وہاں حالت اضطرار کے تحت یہ سب کچھ کیا جا سکتا ہے۔ اس اصول پر سرکاری ملازمین کی گروپ انشورنس کی سکیمیں بھی گورا کی جائیں گی۔

سوال: انعامی بانڈز کے متعلق دین کا کیا حکم ہے ؟

جواب: ہر وہ معاشی عمل ، جس کی بنیاد ، محض اتفاقات اور قسمت آزمائی پر رکھی جائے ، وہ جوا ہے۔ اس لحاظ سے یہ بھی جوئے کی ایک شکل ہے۔

سوال: پراویڈنٹ فنڈ کی کیا حیثیت ہے ؟

جواب: پراویڈنٹ فنڈ اس رقم کو کہا جاتا ہے ، جسے حکومت اپنے پاس رکھ لیتی ہے اور ایک سرکاری ملازم کو ریٹائرمنٹ کے بعد دیتی ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں :ایک میں جبری کٹوتی ہوتی ہے اور دوسری میں رضاکارانہ۔جبری کٹوتی کے ضمن میں ہمارا نقطہ نظریہ ہے کہ ایک سرکاری ملازم کو ریٹائرمنٹ کے بعد جو رقم ملے ، یہ اس کے لئے حلال ہے۔ حکومت ، سرکاری ملازم کی تنخواہ سے کاٹی گئی رقم کس طرح استعمال کرتی ہے ، اس زحمت میں پڑ نا سرکاری ملازم کے لئے ضروری نہیں۔ کیونکہ اس پر ملازم کا کوئی بس نہیں چلتا۔یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ بظاہر تو حکومت اس طریقہ سے ایک سرکاری ملازم کو فائدہ پہنچاتی ہے ، مگر در حقیقت اس ا سکیم میں سرکاری ملازم کو نقصان اور حکومت کو فائدہ ہے۔ اس کی سادہ سی مثال یہ ہے ، کہ جس سرکاری ملازم کی تنخواہ میں سے آج سے تیس سال قبل ایک سو روپے کاٹے گئے تھے ، ان کی اصل قیمت آج کے تین ہزار روپے کے برابر ہے۔ مگر کیا حکومت واقعتا اس ایک سو کے بدلے ، ملازم کو تین ہزار روپے دیتی ہے ؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ اس لئے آج کل حکومت ریٹائرمنٹ کے وقت ملازم کو پراویڈنٹ فنڈ کے نام سے جو کچھ دیتی ہے ، اس کا حق اس سے کہیں زیادہ بنتا ہے۔ جہاں تک رضاکارانہ پراویڈنٹ فنڈ کا تعلق ہے ، بہتر یہ ہے کہ ایسے کسی فنڈ میں حصہ نہ لیا جائے ، تاکہ ہر شک وشبہ سے بالا تر رہا جائے۔

سوال: ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم یا ایک عمر رسیدہ خاتون کے پاس کچھ رقم ہے۔ اسے خطرے کے پیش نظر تجارت میں نہیں لگا یا جا سکتا۔بنک میں نہیں رکھا جا سکتا، کیونکہ ایک طرف زکوٰۃ کٹتی ہے اور دوسری طرف پیسے کی قیمت گرتی ہے۔ اسے سود کھانا گوارا نہیں ہے ، لیکن اس رقم کی حفاظت اور بوقت ضرورت واپسی بھی مطلوب ہے۔ اس صورت میں موجودہ سکیموں میں کون سی سکیمیں زیادہ مناسب ہیں ؟

جواب: اگر چہ آج کل کوئی بھی سکیم شک و شبہ سے خالی نہیں ، تاہم این۔آئی۔ ٹی یونٹس سکیم، نسبتاً مناسب ہے۔ اگر ایسے فرد کے لئے یہ ممکن نہ ہو تو وہ حالت اضطرار کے تحت کسی بھی سکیم میں رقم لگا سکتا ہے۔ کیونکہ ریاست اپنے حصے کا فرض ادا نہیں کر رہی۔

سوال: حصص کا کاروبار دینی اعتبا ر سے کیسا ہے ؟

جواب: حصص کا کاروبار۔۔، دینی اعتبار سے صحیح ہے ، تاہم اس کے اندر دلالوں کے ذریعے سے ( Forward Trading) ناجائز ہے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ حصص کے کاروبار میں چھوٹے حصص یافتگان کے حقوق کا تحفظ کرے۔

سوال: ’’ اکل الاموال با لبا طل ‘‘کا کیا مطلب ہے اور اس میں کیا شامل ہے ؟

جواب: سورہ بقرہ میں قرآن مجید مسلمانوں کو یہ ضابطہ بتاتا ہے کہ دوسروں کا مال ان طریقوں سے کھانا ممنوع ہے ، جن کے متعلق اس دنیا میں ہر سلیم الفطرت انسان جانتا ہے کہ یہ عدل، انصاف اور دیانت کے بالکل خلاف ہے۔ (سورہ بقرہ 188:2)چنانچہ ان کے تحت رشوت۔چوری، ڈاکہ ، غلط بیانی ، خیانت، ناپ تول میں کمی بیشی، یتیموں اور مظلوموں کا مال کھا جانا وغیرہ حرام ہے۔ اس طرح ہر وہ معاملہ جو دوسروں کے لئے نقصان یا دھوکے (ضر ر وغر ر) کا باعث بنتا ہے ، حرام ہے۔

سوال: بٹائی اور مزارعت کی کون سی صورتیں حلال ہیں اور کون سی حرام ہیں ؟

جواب: اس میں ہر وہ صورت حرام ہے جو دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کے لئے نقصان یا دھوکے کا باعث بنتی ہو۔اسلامی حکومت ، حالات کے مطابق ، ایسی تمام صورتوں پر پابندی لگا سکتی ہے۔

سوال: کیا اسلام میں زمین کا کرایہ (اجارہ)جائز ہے ؟

جواب: کسی بھی دوسری محفوظ چیز کی طرح۔ ۔ ۔۔۔، زمین کو بھی کرایہ پر دیا جا سکتا ہے۔

سوال: کیا زمین کو رہن پر دیا جا سکتا ہے ؟

جواب: رہن صرف سفر یا غیر معمولی حالات میں جائز ہے۔ (سورہ بقرہ 283:2) ہمارے ہاں زمین کے رہن کا جو طریقہ رائج ہے کہ قرض لے کر زمین رہن میں دے دیتے ہیں اور زمین رہن میں رکھنے والازمین سے فائدہ اٹھاتا ہے ، یہ بالکل سود ہے۔

سوال: آج پاکستان میں ایک ایسا جاگیرداری نظام ہے ، جس کی بنیاد انگریزوں نے رکھی تھی اور جس نے امارات اور غربت کی دو بڑ ے انتہاؤں کو جنم دیا ہے۔ کیا ایک اسلامی حکومت اس جاگردارانہ نظام کو ختم کرنے کے لئے اقدامات کر سکتی ہے ؟

جواب: معاشرے کو ضر رو غر ر سے بچانے کے لئے ایسا کرنا ضروری ہے ، تاہم ایک دفعہ جب جاگیردارانہ مفاسد ختم ہو جائیں ، تب ملکیت وغیرہ پر مستقل پابندی لگانا مناسب نہیں۔

سوال: حق شفعہ کی دینی حیثیت کیا ہے ؟

جواب: جو جائیدادیں ابھی تقسیم نہیں ہوئیں ، اگر ان کو کوئی مالک فروخت کرنا چاہیے ، تو پہلے اپنے شریکوں کو خرید نے کا موقع دے۔ لیکن جب حدود اور راستے متعین ہو جائیں تو پھر کسی فروخت پر پابندی نہیں۔ ہمارے ہاں حق شفعہ کو بہت وسعت دی گئی ہے ، جو کہ صحیح نہیں ہے۔

سوال: اسراف و تبذیر کیا چیز ہے ، اس کے تحت کیا منع ہے ؟

جواب: قرآن مجید کے مطابق کسی مسلمان کے لئے اپنی ضرورتوں اور خواہشوں کے معاملے میں ، اعتدال اور میانہ روی کا طریقہ چھوڑ کر، فضو ل خرچی کرنا اور مال اللے تللے اڑ انا جائز نہیں۔ ( سورہ الاعراف31:7، سورہ الاسرائ27-2:17)۔ اسی کے تحت حضورﷺ نے انتہائی قیمتی کپڑ ے پہننے پر پابندی لگا دی۔کھانے پینے کے لئے سونے چاندی کے برتن استعمال کرنے کی ممانعت فرمادی۔ مردوں کے لئے زیور کا استعمال ممنوع ٹھہرایا ، البتہ خواتین کے لئے صرف آرایش و زینت کی خاطر (نہ کہ تکبر و نمایش کی خاطر)حد اعتدال کے اندر زیور پہننے کی اجازت ہے۔ اس طرح بنگلوں ، کاروں ، ملبوسات ، زیورات، فرنیچر، سامان آرایش، تقریبات کے دوران اخراجات اور اس طرح کی تمام چیزوں میں اسراف و تبذیر، تکبر اور نمود و نمایش سے پر ہیز لازم ہے۔

سوال: کیا اجتماعی اداورں کے لئے بھی یہی قانون ہے ؟

جواب:اجتماعی ادارے ، مثلاًمسجدیں ، مدرسے ، کالج، ایوان حکومت، حالات کے مطابق اعلیٰ پائیدار اورخوب صورت بھی بنائے جا سکتے ہیں ، تاکہ معاشرے کے اندر انفرادی نہیں ، بلکہ اجتماعی طور پر مرکز نگاہ بنیں۔ (سورہ النمل 44:27) البتہ اسراف وہاں بھی درست نہیں ہے۔

سوال: کیا ریاست اسراف و تبذیر کے مختلف مظاہر پر پابندی لگا سکتی ہے ؟

جواب: جی ہاں :اس کے لئے حالات کے مطابق ، مناسب قانون سازی کی جا سکتی ہے۔

سوال: بخل کیا چیز ہے ؟بخل کے بارے میں دین کا کیا حکم ہے ؟

جواب: بخل کا مطلب لین دین کی مختلف صورتوں میں ایسا رویہ اختیار کرنا ہے اور جس میں انسان دوسروں کی ضروریات سے بے نیاز ہو کر ، خود غرض بن جائے۔ قرآن مجید اسے انتہائی ناپسندیدہ رویہ قرار دیتے ہوئے ، بخیل لوگوں کو شکر نہ کرنے والے گردانتا ہے اور ان کے لئے رسوا کن عذاب کی خبر دیتا ہے۔ (سورہ النسائ37:4) اس کے تحت قرآن مجید ان لوگوں کے لئے بربادی کی وعید سنائی ہے جو ضرورت کی معمولی چیزیں بھی کسی کو دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔

سوال: کیا حرام چیزوں کی تجارت حرام ہے ؟

جواب: ہر حرام چیز کی اجرت لینا ، مثلاً فاحشہ کی اجرت ، جادو ٹونے کا نذرانہ ، شراب، مردار، سور اور بتوں کی خریدو فروخت ناجائز ہے۔ (بخاری، کتاب البیوع۔)

سوال: کن اوقات میں تجارت حرام ہے ؟

جواب: نماز کے وقت ، خصوصاًجمعہ کی نماز کے وقت تجارت ناجائز ہے۔ (سورہ الجمعہ9:62)

سوال:کیا لین دین وغیرہ کا تحریر میں لانا ضروری ہے ؟

جواب: قرآن مجید کا حکم ہے کہ جھگڑ وں سے بچنے کے لئے لین دین ، قرض، وصیت اور اس طرح کے دوسرے مالی معاملات کو ضرور تحریر کرنا چاہیے اور اس پر گواہ ہونے چاہییں۔ (سورہ البقرہ 282:2، سورہ المائدہ107-106:5)

سوال: اسلام میں میراث کا کیا قانون ہے ؟

جواب: قرآن مجید میں میراث کا قانون ، سورئہ نساء میں بیان ہوا ہے۔ (سورہ النساء 4: 11-16-172) اس سے جو احکام نکلتے ہیں ، وہ درج ذیل ہیں :

مرنے والے کے ذمہ قرض ہو تو سب سے پہلے ، اس کے ترکے میں سے ، وہ ادا کیا جائے گا ، پھر کوئی وصیت اگر اس نے کی ہو تو وہ پوری کی جائے گی۔اس کے بعد وراثت تقسیم ہو گی۔

وارث کے حق میں وصیت نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح قاتل، مقتول کی میراث نہیں پا سکتا۔

والدین اور بیوی یا شوہر کاحصہ دینے کے بعد ، ترکے کی وارث میت کی اولاد ہے۔ مرنے والے نے کوئی لڑ کا نہ چھوڑ ا ہو اور اس کی اولاد میں دو یا دو سے زائد لڑ کیاں ہی ہو ں تو انہیں بچے ہوئے ترکے کا دو تہائی حصہ دے دیا جائے گا۔ ایک ہی لڑ کی ہو تو وہ اس کے نصف کا حقدار ہو گی۔میت کی اولاد میں صرف لڑ کے ہی ہوں تو یہ سارا مال ان تقسیم کر دیا جائے گا۔ اولاد میں لڑ کے لڑ کیاں دونوں ہو ں ، تو ایک لڑ کے کا حصہ دو لڑ کیوں کے برابر ہو گا اور اس صورت میں بھی سارا مال انہی میں تقسیم کیا جائے گا۔

اولاد کی غیر موجودگی میں میت کے بھائی بہن کے قائم مقام ہیں۔ والدین اور بیوی یا شوہر موجود ہو ں تو ان کا حصہ دینے کے بعد میت کے وارث یہی ہوں گے۔ ذکورواثاث کے لئے ان کے حصے اور ان میں تقسیم وراثت کا طریقہ وہی ہے جو اولاد کے لئے اوپر بیان ہوا ہے۔

میت کی اولاد ہو یا اولاد نہ ہو اور بھائی بہن ہوں ، تو والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ دیا جائے گا۔ بھائی بہن نہ ہوں تو بیوی یا شوہر کا حصہ دینے کے بعد باقی ترکے کا ایک تہائی ماں کو ملے گا اور دو تہائی کا حق دار میت کا باپ ہو گا۔اگر زوجین میں کوئی نہ ہو، تو سارا ترکہ اسی اصول کے مطابق والدین میں تقسیم کر دیا جائے گا۔

مرنے والا مرد ہو اور اس کی اولاد ہو تو اس کی بیوی کو ترکے کا آٹھواں حصہ ملے گا۔اس کی اولاد نہ ہو تو وہ ایک چوتھائی ترکے کی حق دار ہو گی۔میت عورت ہو تو اس کی اولاد نہ ہو تو نصف ترکہ اس کے شوہر کا ہے اور اگر اس کی اولاد ہو تو شوہر کو ایک چوتھائی ترکہ ملے گا۔

ان دونوں کے علاوہ یا ان کے بعد یا ان کی عدم موجودگی میں ، مرنے والا، اگر چاہے تو والدین اور اولاد کے سوا دور و نزدیک کے کسی رشتہ دار کو ترکے کا وارث بنا سکتا ہے۔ جس رشتہ دار کو وارث بنایا گیا ہو ، اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو چھٹا حصہ اور ایک سے زیادہ بہن بھائی ہوں تو ایک تہائی انہیں دینے کے بعد باقی 5/6یا دو تہائی اسے ملے گا۔

سوال۔: کیا یتیم پوتے کو اپنے دادا سے وراثت مل سکتی ہے ؟

جواب: اس ضمن میں دو موقف ہیں۔ ایک یہ کہ یتیم پوتے کا دادا کی وراثت میں براہ راست کوئی حصہ نہیں ہے اور دادا کو چاہیے کہ وہ یتیم پوتے کے حق میں وصیت کرے۔ دوسرا موقف یہ ہے کہ چونکہ باپ کی غیر موجودگی میں دادا، یتیم پوتے کا سرپرست ہے اور بلحاظ منفعت اس سے اتنا ہی قریب ہے ، جتنا اس کا باپ۔اس لئے یتیم پوتے کو اپنے دادا سے وراثت مل سکتی ہے۔ ہمیں دوسرا موقف زیادہ وزنی لگتا ہے۔ اگر چہ دونوں ہی موقف اپنا اپنا استدال رکھتے ہیں۔

سوال: اگر کوئی فردمال سنبھالنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔مثلاًبیماری یا ذہنی معذوری یا نشے کی عادت بد میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ، تو کیا ریاست کو ایسے فرد کی ملکیت میں دخل اندازی کا حق ہے ؟

جواب: اگر کوئی فرد ملکیت میں تصرف کی صلاحیت سے محروم ہے ، تو ریاست اس کے معاملات میں دخیل ہو سکتی ہے۔ (سورہ النساء 5:4)

سوال: کیا کسی فرد کی جائز انفرادی ملکیت کو ریاست اپنے قبضے میں لے سکتی ہے ؟

جواب: یہ اسلامی ریاست کے لئے بالکل ممنوع ہے۔ زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد، ریاست کسی فرد کی کسی جائز ملکیت کو ہاتھ نہیں لگا سکتی۔(سورہ التوبہ9: 5)

سوال: اسلامی نظم معیشت اور سرمایہ دارانہ نظم معیشت میں بنیادی فرق کیا ہے ؟

جواب: سرمایہ دارانہ معیشت کی بنیاد سود پر ہے۔ سرمایہ دارانہ حکومتیں ٹیکس کی شرح میں کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ وہاں ہر چیز حلال ہے۔ کسی چیز کے حرام ہونے کا تصور نہیں۔ وہاں وراثت کا کوئی ابدی قانون نہیں۔ اسلامی نظم معیشت میں سب چیزیں اس کے برعکس ہیں۔

سوال: اسلامی نظم معیشت اور سوشلسٹ نظم معیشت میں کیا بنیادی فرق ہے ؟

جواب: سوشلسٹ نظم معیشت میں ذرائع پیداوار قومی ملکیت میں لے لئے جاتے ہیں ، جبکہ اسلام میں اس کا کوئی تصور نہیں۔ اس کے علاوہ اس میں سرمایہ دارانہ نظم معیشت کی، درج بالا بیان کردہ، تمام خامیاں بھی پائی جاتی ہیں۔

سوال: اگر کوئی سو سائٹی اسلامی نظم معیشت کو مکمل طور پر اختیار کر لے ، تو اس کے نتائج کے متعلق پروردگار نے کیا وعدہ کیا ہے ؟

جواب: خدا کا وعدہ ہے کہ اگر مسلمان، بحیثیت مجموعی، تقویٰ کی روش اختیار کر لیں اور اپنی حیات اجتماعی کو دین کی بنیاد پر استور کر لیں ، تو پھر ان پر زمین وآسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور پھر وہ کسی کے محتاج نہ ہوں گے۔ (سورہ الاعراف91:7)

سوال: درج بالاصفحات میں آپ نے جس نقطئہ نظر کا اظہار کیا ہے ، ایک بڑ ے گروہ کا موقف اس کے بالکل خلاف ہے۔ اس گروہ کے خیال میں زکوٰۃ بنیادی طور پر ایک انفرادی عبادت ہے۔ حکومت کو زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکس لگانے کا اختیار ہے۔ اس لئے کہ ایک روایت کے مطابق ’’مسلمان کے مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے ‘‘

اس مکتبہ فکر کے خیال میں عاملین علیھا سے مراد صرف وہ ملازمین ہیں جو زکوٰۃ کی جمع و تقسیم کا انتظام کرتے ہوں اور باقی سرکاری ملازمین اس زمرے میں نہیں آتے۔ اس طرح مولفتہ القلوب کی قرآنی مداب ختم ہو چکی ہے۔ اس لئے کہ حضرت عمر ؓ نے کہا تھا کہ اب اس مد میں رقم مختص کرنے کی ضرورت نہیں۔

اسی طرح سونے چاندی اور نقد رقم کے علاوہ کسی دوسری قیمتی دھات یا قیمتی چیز میں زکوٰۃ نہیں ، اس لئے کہ حضورﷺ نے سونے چاندی کا نصاب مقرر فرمایا۔

اس مکتب فکر کے خیال میں صنعت، تنخواہ اور کرائے پر بھی بنیادی طور پر کوئی زکوٰۃ نہیں بلکہ اگر سال کے آخر میں نصاب سے زیادہ سرمایہ موجود ہو تو بس اسی پر زکوٰۃ ہے۔

اس گروہ کے خیال میں زکوٰۃ کسی اجتماعی کام مثلاً سڑ ک یا ہسپتال کی تعمیر کے لئے بھی استعمال نہیں کی جا سکتی بلکہ اس کے لئے تملیک یعنی کسی فرد کو زکوٰۃ کی رقم کا مالک بنانا ضروری ہے۔ ؟

جواب: یہ لازم ہے کہ کوئی حدیث یا عہد صحابہ کے معاملات ہر چیز کو قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھا جائے۔ تبھی ہر چیز کی حقیقت اور اس کا صحیح مقام معلوم ہو سکتا ہے۔ قرآن مجید نے (سورئہ حج آیت 41)میں زکوٰۃ کو بہت واضح طور پر ریاست کی ذمہ داری قرار دیا ہے۔ حضور ﷺ اور خلفائے راشدین کے وقت میں انفرادی زکوٰۃ کا کوئی تصور ہی نہ تھا بلکہ لازمی طور پر ریاست کے خزانے میں داخل کی جاتی تھی۔اس لئے زکوٰۃ کا پورا انتظام خالصتاً ریاست کی زمہ داری ہے۔ اگر ریاست اس فرض سے کوتاہی کرتی ہے ، تب حالت اضطرار کے تحت مسلمان مجبوراً انفرادی زکوٰۃ ادا کریں گے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ریاست کو ٹیکس لگانے کا مزید اختیار بھی حاصل ہے ، یہ بات بھی قرآن مجید کے خلاف ہے اس لئے کہ سورئہ توبہ آیت 5 اور آیت11 کی رو سے ریاست یہ حق نہیں رکھتی کہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی کوئی رقم اپنے عوام سے بزور وصول کرے۔ جہاں تک حضورﷺ کے اس ارشاد کا تعلق ہے کہ مسلمان کے مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے ، قرآن کی روشنی میں اس ارشاد کا مطلب یہ بنتا ہے کہ جب مسلمان کے مال سے حکومت زکوٰۃ لے لے تب بھی انفاق فی سبیل اللہ کا حق ا س پر باقی رہتا ہے۔ رسولﷺ نے ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا:’’مسلمان کے مال میں زکوٰۃ کے علاوہ کوئی حق نہیں۔ ‘‘ قرآن کی روشنی میں اس ارشاد کا مطلب یہ بنتا ہے کہ زکوٰۃ کے علاوہ کسی مسلمان کے مال میں حکومت کا کوئی حق نہیں بنتا۔

یہی وجہ ہے کہ حضور ﷺ کے دور میں اور خلفائے راشدین کے دور میں ایسے کئی سخت مواقع آئے جب ریاست کو رقم کی اشد ضرورت تھی لیکن ایسے ہر موقع پر صرف اپیل کی گئی۔زبردستی کسی پر ٹیکس نہیں لگایا گیا۔اس کی ایک نمایاں مثال غزوہ تبوک کا واقعہ ہے۔

اس معاملے کا ایک تیسرا پہلو بھی ہے۔ اور وہ یہ کہ اگر اسلام نے ریاست کے ٹیکس لگانے کے اختیار میں کوئی ہدایت نہیں دی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اسلام نے ریاست اور اس کے شہریوں کے درمیان اس اہم ترین تنازع پر کوئی توجہ نہیں دی۔اور عوام کو اولی الامر کی اطاعت کا حکم دے کر ریاست کو مطلق العنان بننے کے لئے کھلا لائسنس دے دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے اور اسی لئے ایسا نہیں ہے۔

جہاں تک اس دعوے کا تعلق ہے کہ عالمین علیھا سے مراد صرف وہ سرکاری ملازمین ہیں جو زکوٰۃ کی تقسیم پر مامور ہیں۔ اس دعوے کے لئے عربی زبان میں کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب ہے اس ریاست کے تمام ملازمین جو زکوٰۃ کے اس نظام پر عمل کرتے ہوں۔

لیکن اس معاملے کو ایک پہلو سے بھی دیکھنا مفید ہو گا۔وہ یہ کہ یہ بات تو ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ خلفائے راشدین کے وقت خزانے کی آمدنی زیادہ تر تین ہی مدات میں ہوتی تھی۔ایک زکوٰۃ، دوسرے مال غنیمت اور تیسرے اموال فے کی آمدنی۔ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اس وقت مملکت وہ تمام کام انجام دیتی تھی، جن کا انجام دیا جانا ایک ریاست کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ اگر ریاست کے باقی کاموں میں زکوٰۃ کی رقم کی ادائیگی صحیح نہ ہوتی تو یہ لازم تھا کہ زکوٰۃ کی رقم کا بالکل علیحدہ سے انتظام ہوتا۔اور اس رقم کو دوسری مدوں کے ساتھ خلط ملط نہ کیا جاتا۔لیکن اس برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ پورے دور میں ایسا انتظام نہیں کیا گیا بلکہ تمام دستیاب رقوم سے مملکت کے تمام امور نمٹائے جاتے تھے۔ اس سے واضح طور پر یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ دور صحابہ ؓ میں اس امر پر اتفاق رائے تھا کہ سورئہ توبہ کی بیان کردہ آٹھ مدات میں مملکت کے تمام اہم شعبے آ جاتے ہیں۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مولفتہ القلوب کی مد حضرت عمرؓ نے ختم کر دی تھی، اس لئے اب آئندہ قرآن مجید کی اس ہدایت پر عمل نہیں کیا جائے گا۔یہ بات ہر اعتبار سے بالکل غلط ہے۔ اصول یہ ہے کہ قرآن کی کسی ہدایت کو خدا کا پیغمبر بھی منسوح نہیں کر سکتا چہ جائیکہ کسی صحابی سے ایسی کوئی بات منسوب کی جائے۔ اس لئے کہ قرآن ہی فرقان ، میزان، اور مہیمن ہے۔ اس ضمن میں حقیقی صورت حال یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے ان چند لوگوں کو مولفتہ القلوب کے تحت وظائف دینے سے انکار کر دیا تھا جنہیں اس سے پہلے اسی مد میں وظایف ملتے تھے۔ یہ فیصلہ حضرت عمرؓ نے اپنے وقت کے لحاظ سے بالکل ٹھیک کیا۔ اس لئے کہ ہر زمانے میں یہ دیکھنا ریاست کا کام ہے کہ اس مد کے تحت کتنا خرچ کیا جائے۔ کس کو دیا جائے اور کس کو نہ دیا جائے۔ حضرت عمر ؓ نے یہی کیا۔ورنہ خدنخواستہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان جیسا صحابی اپنے آپ قرآن کا تابع بنانے کے بجائے قرآن کو اپنے تابع کر لے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سونے چاندی اور نقد رقم کے علاوہ کسی دوسری قیمتی دھات مثلاً پلاٹینم یا ہیرے جواہرات میں زکوٰۃ نہیں۔ یہ موقف صحیح نہیں ہے۔ اس لئے کہ قرآن و حدیث میں ہر جگہ زکوٰۃ کو مال کی پاکیزگی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے ، بلکہ زکوٰۃ کے لفظی معنی ہی یہی ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ پلاٹینم اور ہیرے جواہرات بھی مال ہی ہے۔

جہاں تک اس دلیل کا تعلق ہے کہ حضور ؐ کے زمانے میں یہ چیزیں نہیں ہوا کرتی تھیں ، اس دلیل کا مطلب یہ ہو گا کہ گویا قرآن مجید نے اپنے زمانے نزول کے زمانے کے بعد کے حالات کے لئے ہمیں کوئی رہنمائی نہیں دی۔یہ دلیل اس لحاظ سے بھی غلط ہے کہ حضور ﷺ کے زمانے میں تو نقد رقم بھی نہیں ہوتی تھی، پھر اس پر کیوں زکوٰۃ صحیح سمجھی جاتی ہے ؟

جہاں تک اس دعوے کا تعلق ہے کہ صنعت ، تنخواہ اور کرائے پر پیداوری زکوٰۃ نہیں۔ اس ضمن میں اصل صورت حال یہ ہے کہ جو لوگ زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکس لگانا حکومت کا حق سمجھتے ہیں ان کی یہ مجبوری ہے کہ وہ درج بالا چیزوں پر زکوٰۃ نہ مانیں۔ کیونکہ اس طرح ایک طرف سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس بھی دینا پڑ ے گا اور دوسری طرف اس کے برابر زکوٰۃ بھی دینی پڑ ے گی۔اسی مخمصہ کی وجہ سے سے ان لوگوں نے اس سے انکار کیا ہے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ دنیا کی ہر تعریف کی رو سے یہ پیداوار ہی ہیں۔ لیکن ایک ا سلامی ریاست کو ان پر سیلز ٹیکس یا انکم ٹیکس لگانے کا تو اختیار نہیں ، البتہ صورت حال کے مطابق پانچ فیصد یا دس فیصد زکوٰۃ لگانے کا اختیار ہے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ زکوٰۃ کو کسی اجتماعی کام میں صرف نہیں کیا جا سکتا اور اس کے لئے کسی ضرورت مند کو مالک بنانا ضروری ہے ، اس دعوے پر مولانا امین احسن اصلاحی نے ’’تنقیدات‘‘نامی کتاب میں ایسی گرفت کی کہ اس کے بعد عام رائے یہی بنی کہ ہر اجتماعی ادارے کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج تمام اجتماعی اداروں کی طرف سے زکوٰۃ کی اپیلیں شائع ہوتی ہیں۔ اور عام لوگ کسی کو زکوٰۃ کا مالک بنائے بغیر ان اداروں کو زکوٰۃ دیتے ہیں۔ 

B