HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Dr. Farooq Khan

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

نماز

دسواں باب

نماز

سوال: ایک مسلمان کی زندگی میں نماز کی اہمیت اور ضرورت کیا ہے ؟

جواب: نماز کے ذریعے سے ہم اپنے روحانی وجود کو پاک صاف کرتے ہیں اور اللہ کا ذکر اور شکر کرتے ہیں۔ یوں اللہ سے ہمارا تعلق ہر وقت قائم ودائم رہتا ہے۔ صحیح شعور کے ساتھ نماز سب سے بڑ ا ذکر ہے۔ نماز کے ذریعے انسان قرآن مجید سے بھی ایک مسلسل تعلق قائم کرتا ہے۔

نماز ہمارے دین کا مرکز ومحور ہے۔ یہ ہر عاقل وبالغ انسان پر لازم ہے۔ نماز نہ پڑ ھنے والوں کو قرآن مجید نے ہول ناک انجام اور زبردست رسوائی سے ڈرایا ہے۔ (المدثر42:74القلم43,42:68)

 مومن اور غیر مسلم کے درمیان اس طریقے سے حد فاصل ہے کہ اگر کوئی فرد نماز پڑ ھنے سے انکار کر دے ، تو اسلامی حکومت اس کے شہری حقوق ختم کرسکتی ہے۔ (التوبہ9: 5- 11)

سوال: باجماعت نماز کی کیا اہمیت ہے ؟

جواب: قرآن مجید ہمیں صرف نماز ادا کرنے کا حکم نہیں دیتا، بلکہ اسے قائم کرنے یعنی اس کا اہتمام کرنے ، اس کی بھرپور حفاظت کرنے اور اسے ٹھیک وقت پر پڑ ھنے کا حکم دیتا ہے۔ (البقرہ 93:2) وہ ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم پورے التزام کے ساتھ، ہمیشہ نماز پڑ ھیں۔ مردوں کے لیے فرض نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑ ھنا نہایت پسندیدہ ہے۔ (المعارج 70: 22-23)

سوال: نماز پڑ ھنے سے پہلے کن چیزوں کا التزام کرنا چاہیے ؟

جواب: نماز سے پہلے ، حصول طہارت کے لیے ، ضرورت کے مطابق غسل یا وضو کرنا لازم ہے۔ نماز کے لیے بالکل پاک صاف اور حالات کے مطابق صحیح کپڑ ے پہننا لازم ہے۔ نماز ہمیشہ اپنے وقت پر اور قبلے کی طرف رخ کر کے پڑ ھی جاتی ہے۔

سوال: نماز کا عملی طریقہ کیا ہے ؟

جواب: نماز کا عملی طریقہ الفاظ کے ذریعے سے بیان کرنا مشکل ہے۔ اللہ کے فضل وکرم سے تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک اس امت میں جہا ں جہاں نماز پڑ ھی جا رہی ہے ، بالکل صحیح پڑ ھی جا رہی ہے۔ ان میں جہاں جہاں آپ کچھ اختلافات دیکھتے ہیں ، تو یہ دراصل کوئی بنیادی اختلاف نہیں۔ ان میں سے بعض اختلافات اس وسعت کا نتیجہ ہیں جو حضورﷺ نے اختیار فرمائی۔ چنانچہ جو بھی طریقہ حضورﷺ اور صحابہؓ سے ثابت ہے ، ان میں سے آپ کسی طریقے سے یا سارے طریقوں کے مطابق نماز پڑ ھیں گے ، تو بالکل ٹھیک پڑ ھیں گے۔

سوال: نماز کے ارکان کو عام طور پر، فرض، واجب، سنت اور نفل میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک عام انسان کے لیے یہ تقسیم یادرکھنا مشکل ہے۔ کیا اس کا کوئی آسان اصول موجود ہے ؟

جواب: بعض فقہا نے یہ تقسیم اس لیے کی ہے تاکہ عام لوگوں کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ تاہم اس کو یاد رکھنے کی ضرورت نہیں۔ اصول یہ ہے کہ نماز میں بعض چیزیں لازم یعنی فرض اور بعض چیزیں لازم نہیں ، مگر پسندیدہ ہیں ، انہیں نفل کہا جاتا ہے۔ فرض چیزیں وہ ہیں جن کا التزام حضورﷺ نے ہمیشہ سے کیا ہے اور وہ صحابہؓ کے عملی اجتماع سے امت کو منتقل ہوئی ہیں۔

سوال: کیا نیت کے الفاظ زبان سے ادا کرنا لازم ہے ؟

جواب: یہ ضروری نہیں۔ صرف دل میں نیت کافی ہے اور اصل نیت تو دل ہی کی ہوتی ہے۔

سوال: پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ سے پہلے ، ثنا کس طرح پڑ ھی جائے ؟

جواب: اس میں کوئی بھی دعا پڑ ھ سکتے ہیں۔ عام طور پر درج ذیل دودعاؤں میں سے کوئی ایک پڑ ھی جاتی ہے :

1۔ سبحنک اللھم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا الہ غیرک

’’اے اللہ تیری ذات پاک ہے اور حمدوثنا تیرے لیے ہے۔ تیرا نام برکت والا ہے۔ تیری شان بلند ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ‘‘۔

اللھم باعد بینی وبین خطایای کما باعدت بین المشرق والمغرب۔ الھم نقنی من خطایای کما ینقی الثوب الابیض من الدنس الھم اغسلنی من خطایای بالثلج ولمآء والبرد۔

’’اے اللہ میرے اور میری خطاؤں کے درمیان دوری پیدا کر دے ، اتنی دوری جتنی تونے مشرق ومغرب میں پیدا کی ہے۔ اے اللہ، تو مجھے گنا ہوں سے پاک کر دے ، جیسے سفید کپڑ ا میل کچیل سے پاک کیا جاتا ہے۔ اے اللہ، میرے گناہ پانی، برف اور اولوں سے دھودے ‘‘۔

سوال: امام کے پیچھے جہری نماز (جس میں امام خاموشی سے تلاوت کرتا ہے ) مقتدی سورہ فاتحہ پڑ ھے یانہیں ؟

جواب: اس ضمن میں دو موقف ہیں ، ایک یہ کہ امام کی قرات، مقتدی کی قرات ہے ، اس لیے مقتدی کو چاہیے کہ وہ خاموش رہے۔ جب کہ دوسرا موقف یہ ہے کہ چونکہ مقتدی کی قرات سے دوسروں کی نماز میں خلل اندازی کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا اور مقتدی کی توجہ اپنی قرات ہی پر مرکوز ہوتی ہے ، اس لیے بہتر یہی ہے کہ وہ سورہ فاتحہ پڑ ھے۔

ہمارے نزدیک دوسرا موقف زیادہ پسندیدہ ہے۔ تاہم قرآن وسنت کی پیروی کے خیال سے ہر موقف اجروثواب کا مستحق ہے۔

سوال: رکوع میں کیا پڑ ھا جائے ؟

جواب: رکوع میں آپ تسبیح کے کوئی بھی کلمات پڑ ھ سکتے ہیں۔ عام طور پر جو دوکلمات پڑ ھے جاتے ہیں وہ درج ذیل ہیں :

سبحنک اللھم ربنا و بحمدک الھم اغفرلی۔

 ’’اے اللہ تو پاک ہے۔ تو ہمارا تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں۔ یا الٰہی مجھے بخش دے ‘‘۔

سبحان ربی العظیم۔

’’میرا رب پاک، عظمت والا ہے ‘‘۔

سوال: سجدہ کی حالت میں کیا پڑ ھا جائے ؟

جواب: سجدے کی حالت میں آپ تسبیح کے کوئی بھی کلمات پڑ ھ سکتے ہیں۔ عام طور پر درج ذیل دوکلمات پڑ ھے جاتے ہیں :

1 سبحانک اللھم ربنا و بحمدک اللھم اغفرلی۔

’’اے اللہ، پاک ہے ، تو ہمارا رب ہے ، تمام تعرفیں تیرے لیے ہیں یا الٰہی تو مجھے بخش دے ‘‘۔

سبحان ربی الاعلیٰ۔

’’میرا رب بے عیب، بلندوبرتر ہے ‘‘۔

سوال: قعدہ میں کیا پڑ ھا جائے ؟

جواب: قعدہ میں جو دعا (تشہد) پڑ ھی جاتی ہے ، وہ درج ذیل ہے :

التحیات للہ والصلواۃ والطیبات السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وربرکاتہ السلام علینا وعلیٰ عبادللہ الصالحین۔ اشھد ان لا الٰہ الا اللہ واشھدان محمدا عبدہ ورسولہ۔

’’ادب وتعظیم کے سب کلمات اللہ ہی کے لیے ہیں اور تمام دعائیں ، عبادات اور تمام پاکیزہ باتیں اور عمل بھی اللہ ہی کے لیے ہیں۔

اے نبیؐ، آپ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں ، ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی سلام ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں ‘‘۔

سوال: کیا تشہد کے بعد مزید دعائیں مانگی جا سکتی ہیں ؟

جواب: تشہد پر نماز کا اختتام ہوجاتا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو سلام پھیر سکتے ہیں ، لیکن یہ دعاؤں کا موقع ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہ بہت خیروبرکت کی بات ہے کہ تشہد کے بعد دعائیں مانگی جائیں۔ چنانچہ، عام طور پر مسلمان سب سے پہلے عزیز ترین ہستی، یعنی حضور نبی کریمﷺ کے لیے درود کی صورت میں دعا مانگتے ہیں اور اس کے بعد کچھ دعائیں پڑ ھ کر سلام پھیرتے ہیں۔

دعا میں ایک امتی کے ادب کا تقاضا یہی ہے کہ وہ خدا کی ثنا بیان کر کے نبی ﷺ پر درود بھیجے اور پھر اپنے لیے دعا کرے۔ یہ دعا کے آداب ہیں۔

سوال:سلام پھیرنے کے بعد اجتماعی دعامانگی جائے ، یا انفرادی طور پر؟

جواب: اس ضمن میں دو مسالک ہیں : پہلا یہ کہ چونکہ اجتماعی دعا خیروبرکت کی بات ہے ، اس لیے خواہ یہ عمل حضورﷺ سے ثابت نہ بھی ہے ، تب بھی ہر نماز کے بعد، اجتماعی دعا مانگنا اچھی بات ہے۔ دوسرا مسلک یہ ہے کہ حضورﷺ نے نماز کے بعد اجتماعی دعا نہیں مانگی اور صرف خاص موقعوں پر، یا خاص وجوہ کی بنا پر اجتماعی دعا فرمائی ہے ، اس لیے ہمیں بھی اس سے گریز ہی کرنا چاہیے ، تاکہ اس اجتماعی دعا کو امت اپنے اوپر لازم نہ سمجھ لے۔ اجتماعی دعا کو لازم سمجھنا اسے بدعت بنادے گا۔ ہمیں اس دوسرے موقف سے اتفاق ہے۔

سوال: کیا تکبیر تحریمہ کے علاوہ بھی رفع یدین کیا جائے یا نہیں ؟

جواب: اس سوال کا تفصیلی جواب پچھلے باب میں آ چکا ہے۔ ایک گروہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ صحابہ کرامؓسے ہمیں متواتر عمل یہی ملا ہے کہ رفع یدین نہ کیا جائے ، اس لیے رفع یدین نہیں کرنا چاہیے ، اس کے برعکس دوسرے گروہ کا موقف یہ ہے کہ چونکہ روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ حضورﷺ نے رفع یدین کیا ہے ، اس لیے ہمیشہ رفع یدین کرنا چاہیے۔

ہماری رائے میں ان دونوں گروہوں کا طرزعمل سختی پر مبنی ہے۔ صحابہؓ کے متواتر عمل اور روایات میں بہترین مطابقت یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین فرض ہے اور اس کے علاوہ باقی تکبیروں کے ساتھ رفع یدین نفل ہے۔ رفع یدین بندے کے اس اعلان کا نام ہے کہ اس نے اپنی توجہ سارے جہان سے موڑ کر خالص اپنے پروردگار کی طرف کر لی ہے۔ چنانچہ اگر بندہ نماز کے دوران میں ، ہر تکبیر کے ساتھ، یا بعض تکبیروں کے ساتھ یہ اعلان باربار کرے ، تو یہ نفل ہے مگر لازم نہیں۔ بہرحال قرآن وسنت کی پیروی کی نیت سے ایک مسلمان ان میں جس موقف پر بھی عمل پیرا ہو، انشاء اللہ اجروثواب کا مستحق ہو گا۔

سوال: امام کے پیچھے جہری نماز میں ، فاتحہ کے بعد آمین بلند آواز سے کہی جائے یا ہلکی آواز سے ؟

جواب: آمین کا حکم تو حضورﷺ سے ثابت ہے۔ صحابہؓ نے اسے بلند آواز سے بھی کہا ہے اور ہلکی آواز سے بھی۔ معلوم ہوتا ہے دین میں اس معاملے میں وسعت رکھی گئی ہے۔ اس لیے کہ کسی آواز کا بلند یا ہلکا ہونا انسان کی داخلی کیفیت پر مبنی ہے۔

سوال: قیام(یعنی کھڑ ے ہونے کی حالت) میں ہاتھ کہاں باندھے جائیں ؟

جواب: اس ضمن میں دو مسالک ہیں : ایک یہ کہ ہاتھ سینے پر باندھے جائیں ، اس لیے کہ بعض روایات میں یہی آیا ہے (اگرچہ ان روایات میں کمزوری ہے ) دوسرا مسلک یہ ہے کہ ہاتھ ناف کے نیچے باندھے جائیں اس لیے کہ بعض روایات میں یہی آیا ہے (اگرچہ ان روایات میں بھی کمزوری ہے )

اس ضمن میں ہماری رائے یہ ہے کہ ہاتھ باندھنا، دراصل ادب واحترام کی علامت ہے۔ اس کی سب سے معتدل صورت، جو ادب کا تقاضا ہے ، ناف کے عین اوپر ہاتھ باندھنے کی ہے۔ اس طرح تمام روایات کی صحیح تاویل بھی ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امت میں یہی طریقہ زیادہ ہے۔

بہر حال حضورﷺ کی پیروی کی نیت سے ، دلیل کی بناپر، جو بھی مسلک اختیار کیا جائے ، ان شاء اللہ اجروثواب کا مستحق ٹھہرے گا۔

سوال: نماز میں کون سی چیزیں لازم ہیں اور کون سی نفل ہیں ؟

جواب: نماز کا ظاہر، تمام کا تمام، یعنی تکبیر تحریمہ، قیام، رکوع، سجدہ، قعدہ، سلام، سورۃ فاتحہ، اس کے ساتھ قرآن مجید کے کسی حصے کی تلاوت اور تشہد لازم ہیں۔ البتہ ثناء، رکوع، سجدہ اور قعدہ کی دعائیں میں آپ مختلف دعاؤں میں سے کوئی بھی پڑ ھ سکتے ہیں۔ مختصر یہ کہ امت جس طریقے سے نماز پر عمل پیرا ہے ، اس پورے طریقے کو آپ لازم سمجھیں۔

سوال: فرض نمازیں کون سی ہیں اور ان کی رکعتوں کی تعداد کیا ہے ؟

جواب: فجر، ظہر، عصر، مغرب، اور عشاء کی پانچ نمازیں فرض ہیں اور فرض رکعتوں کی تعداد یہ ہے کہ فجر کی دو، ظہر کی چار، مغرب کی تین اور عشاء کی چار رکعتیں ہیں۔

سوال: سنت موکدہ نماز سے کیا مراد ہے ؟ سنت اور نفل میں کیا فرق ہے ؟

جواب: سنت موکدہ، درحقیقت نفل نماز ہی ہے۔ البتہ اس میں اتنا فرق ضرور ہے کہ عام نفل نمازیں تو ممنوع اوقات کے علاوہ، ہر وقت پڑ ھی جا سکتی ہیں ، مگر حضورﷺ نے ان مسنون نوافل کی بڑ ی تاکید کی ہے اور ان پر بڑ ے اجروثواب کی خبردی ہے۔ یہ مسنون نوافل فجر سے پہلے دو رکعتیں ، ظہر سے پہلے چار اور ظہر کے بعد دورکعتیں ، مغرب کے بعد دو رکعتیں اور عشاء کے بعد دو رکعتیں ہیں۔ اگر یہ نوافل چھوٹ جائیں تو کسی مواخذے کا اندیشہ نہیں ہے۔

سوال: اگر فرض نماز سے پہلے مسنون نوافل ادا نہ کیے جائیں تو کیا انہیں بعد میں ادا کیا جا سکتا ہے ؟

جواب: یہ مسنون نوافل چونکہ بڑ ے اجروثواب کی حامل ہیں ، اس لیے اگر یہ فرض نماز سے پہلے ادا نہ کیے جا سکیں تو بعد میں ادا کرنے سے کوئی مضائقہ نہیں۔

سوال: کیا جب فجر کی جماعت کھڑ ی ہوجائے ، تو پہلے مسنون نوافل ادا کیے جائیں یا جماعت میں شریک ہوا جائے۔

جواب: اس ضمن میں دو موقف ہیں : ایک یہ کہ چونکہ فجر کی نماز اور سورج کے نکلنے کے درمیان وقفہ کم ہوتا ہے ، اس لیے اگر جماعت کھڑ ی ہو، تب بھی مسنون نوافل پہلے ادا کیے جائیں ، اور اگر یہ رہ جائیں تو پھر سورج نکلنے کے بعد ادا کیے جائیں۔ جب کہ دوسرا موقف یہ ہے کہ جب فجر کی جماعت کھڑ ی ہوجائے تو فوری طور پر جماعت میں شریک ہونا چاہیے اور مسنون نوافل، جماعت کے بعد ادا کریں۔ ان کا بعد میں ادا کرنا حدیث سے ثابت ہے۔ بہرحال ان کا اصل موقع نماز سے پہلے ہی کا ہے۔ ہمیں اسی دوسرے موقف سے اتفاق ہے۔

سوال: نماز اپنے ابتدائی وقت میں پڑ ھی جائے یا آخر وقت میں ؟

جواب: پروردگار نے نماز کے اوقات میں وسعت رکھی ہے ، تاکہ انسان کے حالات کا خیال رکھا جا سکے۔ تاہم جب کسی نماز کا وقت شروع ہو جائے تو اسے بلا وجہ موخر کرنا مناسب نہیں۔ آدمی کے ایمان کا تقاضہ یہی ہے کہ خدا کی بندگی اور اس کی اطاعت میں جلدی کی جائے۔

سوال: اگر نماز کے دوران میں انسان کوئی چیز بھول جائے تو اس کی تلافی کیسے کی جائے ؟

جواب: اگر آپ وہ عمل ادا کرسکتے ہیں تو ادا کر دیجئے مثلاً آپ ایک پوری رکعت بھول گئے ہیں تو وہ رکعت اداکیجئے اور آخر میں سجدۂ سہو کر لیجئے۔ اور اگر ایسا کام بھول گئے ہوں جس کو ادا کرنا ممکن نہ ہو، مثلاً دو رکعت کا درمیانی قعدہ آپ بھول گئے ہوں تو صرف سجدۂ سہوہ پر اکتفا کر لیجئے۔

سوال: بعض اوقات انسان شک میں پڑ جاتا ہے کہ تین رکعت پڑ ھ لیں یا چار، اس صورت میں کیا کیا جائے ؟

جواب: ایسی صورت میں آپ اپنے غالب گمان کو دیکھیں۔ اگر غالب گمان یہ ہو کہ آپ نے پوری رکعتیں پڑ ھی ہیں ، تو اسی پر عمل کیجئے ، لیکن اگر غالب گمان یہ ہو کہ آپ سے ایک رکعت چھوٹ گئی ہے ، توایک رکعت مزید پڑ ھ کر سجدۂ سہوکر لیجئے۔

بعض اوقات سلام پھیرنے کے بعد انسان کو یاد آ جاتا ہے کہ اس سے ایک یا دو رکعتیں چھوٹ گئی ہیں۔ اس صورت میں کھڑ ے ہوکر وہی ایک یا دو رکعتیں پڑ ھ لیجئے اور سجدۂ سہو بھی کر لیجئے۔

سوال: اگر امام کے ساتھ نماز کے درمیان میں مقتدی شریک ہو تو وہ اپنی بقیہ نماز کیسے پوری کرے ؟

اس کے دوطریقے ہیں : ایک یہ کہ جتنی رکعتیں رہ گئی ہوں ، ان کو امام کے سلام پھیرنے کے بعد، الٹی ترتیب سے پڑ ھنا شروع کر دیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جتنی رکعتیں رہ گئی ہوں ، ان کو صحیح ترتیب سے پڑ ھنا شروع کر دیں۔ ہمارے خیال میں دوسرا طریقہ زیادہ قرین قیاس ہے ، تاہم دونوں ہی طریقے اپنا اپنا استدلال رکھتے ہیں۔

سوال: کیا جماعت کے بعد دوسری جماعت ہو سکتی ہے ؟

جواب: ، ہو سکتی ہے ، تاہم اسے معمول بنالینا غیر مناسب ہو گا۔

سوال: اگر کسی وجہ سے مسجد کی جماعت انسان سے رہ جائے تو کیا گھر میں جماعت کرائی جا سکتی ہے ؟

جواب: ہو سکتی ہے ، تاہم اسے بھی معمول بنالینا مناسب نہیں ہو گا۔

سوال: نماز تہجد کب اور کیسے پڑ ھی جائے ؟

جواب: تہجد کے لغوی معنی سوکر اٹھنے کے ہیں۔ گویا یہ وہ نماز ہے جو رات کو کچھ دیر ہوکر اٹھنے کے بعد، پھٹنے سے پہلے پڑ ھی جائے۔ اسے صلواۃ اللیل بھی کہا جاتا ہے۔ یہ نماز حضورؐ پر لازم تھی اور باقی امت کے لیے نفل ہے۔ نفل نمازوں میں یہ سب سے زیادہ خیروبرکت اور اجر کی نماز ہے۔ اسے طاق (یعنی وتر) پڑ ھنا چاہیے۔ اس کی رکعتوں کی تعداد مقرر نہیں ہے ، اس لیے کہ حضورﷺ نے اس کے بارے میں مسلمانوں کو کسی خاص تعداد کا پابند نہیں کیا۔ روایات کے مطابق ذاتی طور پر حضورﷺ گیارہ رکعت یا اس سے کم پڑ ھا کرتے تھے۔ تاہم حضورﷺ ہی کے زمانے میں بعض صحابہ کرامؓ اس سے زیادہ پڑ ھا کرتے تھے اور حضورﷺ نے ان کو منع نہیں فرمایا۔ اس کے پڑ ھنے کا کوئی خاص طریقہ بھی حضورﷺ نے امت پر لازم قرار نہیں دیا۔ اسے دودو اور چارچار نفل کی شکل میں پڑ ھا جا سکتا ہے ، طاق رکعت علیحدہ بھی پڑ ھی جا سکتی ہے اور تمام رکعتوں کو اکٹھا کر کے بھی پڑ ھا جا سکتا ہے۔

حضورﷺ کو یہ حکم تھا کہ وہ اس نماز میں آواز نہ بلند رکھیں اور نہ آہستہ، بلکہ دونوں کے بین بین رکھیں۔

سوال: نماز وتر کس نماز کا نام ہے ؟

جواب: نماز وتر، درحقیقت تہجد کی نماز ہے۔ جو لوگ اپنی طبعی کمزوری کی وجہ سے تہجد کے لیے نہ اٹھ سکیں ، ان کو نبی کریمﷺ نے یہ اجازت دی ہے کہ اگر سونے سے پہلے چند رکعت نفل پڑ ھ کر، آخری رکعت طاق (یعنی وتر) کر لیں ، تو ان شاء اللہ انہیں بھی تہجد کے ثواب میں سے کچھ حصہ مل جائے گا۔ لیکن آدمی کو تہجد ہی میں اٹھنے کی ہمت کرنی چاہیے کیونکہ اصل میں مطلوب وہی ہے۔

سوال: نمازتراویح کی حقیقت کیا ہے ؟

جواب: نماز تراویح بھی، اصلاً تہجد کی نماز ہے جسے حضورﷺ نے رمضان کے مہینے میں ، رات کے درمیانی حصے میں جماعت کے ساتھ، پوری زندگی میں تین دفعہ پڑ ھا۔

اس کی رکعتوں کی کوئی تعداد حضورﷺ نے مقرر نہیں فرمائی۔ اسے جماعت کے ساتھ بھی پڑ ھا جا سکتا ہے اور جماعت کے بغیر بھی۔

اس بات کی تفصیل یہ ہے کہ چونکہ رمضان میں ، فجر سے پہلے ، سحری کے وقت کھانے پینے ، پکانے اور کچھ دوسرے امور کی غیر معمولی مصروفیت پیدا ہوجاتی ہے اور ادھر قدرتی طور پر لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس بابرکت مہینے میں وہ تہجد کا اجر حاصل کریں چنانچہ حضورﷺ نے مسلمانوں کو سونے سے پہلے تہجد کی نماز ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔

حضورﷺ نے اس نفل نماز میں کسی خاص تعداد کی پابندی کی امت کو کوئی ہدایت نہیں فرمائی۔ اس نماز کو حضورﷺ نے رمضان میں رات کے درمیانی حصے میں جماعت کے ساتھ پوری زندگی میں تین دفعہ پڑ ھا۔ اس کے علاوہ حضورﷺ کے باقی زمانے اور حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں لوگ اپنی مرضی سے اس نماز کو انفرادی طور پر مسجد یا گھر میں ادا کرتے تھے۔

حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں یہ بات محسوس کی کہ لوگ یہ نماز مسجد میں الگ الگ گروہوں کی شکل میں اور فرداً فرداًبھی ادا کرتے ہیں جس میں مسجد میں بدنظمی کی سی کیفیت پید ا ہو جاتی ہے۔ اس لیے انہوں نے طے کیا کہ جولوگ مسجد میں یہ نماز پڑ ھنا چاہیں ان کے لیے ایک امام مقرر کر دیاجائے۔ اس سے ہماری تراویح کی یہ شکل وجود میں آئی۔

تہجد کی اس نماز کو بعد میں بعض اہل علم نے ’’نماز تراویح‘‘ کا نام اس لیے دیا کہ اس میں عام طور پر چار رکعت کے بعد ترویح یعنی تھوڑ ا سا وقفہ کیا جاتا ہے۔

سوال: تراویح کی رکعتوں کی مسنون تعداد کیا ہے ؟ بعض لوگ 22رکعتوں کو مسنون کہتے ہیں اور بعض 11کو۔ ہر رمضان میں اس بات پر بھی بڑ ے جھگڑ ے ہوتے ہیں۔

جواب: مسنون تعداد تو وہ ہوتی ہے جس کے بارے میں حضورﷺ نے بالکل واضح حکم دیا ہو اور حضورﷺ نے سارے صحابہؓ کے ہمراہ اس کو ساری عمر نبھایا ہو۔ جب کہ تراویح کے سلسلہ میں حضورﷺ نے امت کو کسی بھی تعداد کا پابند نہیں کیا۔ پابند کرنا تو درکنار سرے سے اس نماز کو لازم ہی قرار نہیں دیا گیا۔ اس لیے ان میں سے کسی تعداد کو بھی مسنون تعداد قرار دینے کی کوئی بنیاد موجود نہیں۔ یقینا بعض روایات کے مطابق حضورﷺ گیارہ رکعات یا اس سے کم پڑ ھا کرتے تھے ، مگر یہ بات تو راویوں کے مشاہدے پر مبنی ہے۔ خود حضورﷺ نے اس کی کوئی تعداد بیان نہیں کی۔ اگر اس کی تعداد کسی بھی صورت میں دین کی رو سے اہم ہوتی تو حضورﷺ لازماً اسے نہ صرف بیان کرتے بلکہ صحابہ کرامؓ بالاتفاق اس پر عمل بھی کرتے۔

جب حضرت عمرؓ نے نماز تراویح کے لیے ایک امام کا تقرر کر دیا تو ظاہر ہے کہ اس کی کوئی تعداد مقرر کرنی بھی ضروری تھی۔ چنانچہ انہوں نے تے ئس رکعات کی تعداد مقرر کر دی۔ اس تعداد کو وہ خود بھی لازم نہیں سمجھتے تھے ، بلکہ عشاء کے فوراً بعد اسے پڑ ھنے کو حضرت عمرؓ نے اپنے لیے پسند بھی نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ وہ خود اس نماز میں شریک نہیں ہوئے اور انہوں نے یہ بات واضح کر دی کہ رات کے آخری حصے میں تنہا پڑ ھی جانے والی اس اول وقت میں باجماعت نماز سے بہتر ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بعد میں امام مالک اور حضرت عمر بن عبدالعزیز جنہیں پانچواں خلیفہ راشد بھی کہا جاتا ہے ، نے یہ رائے ظاہر کی کہ چونکہ مکہ مکرمہ میں لوگ چار رکعتوں کے بعد ایک مرتبہ خانہ کعبہ کا طواف بھی کر لیتے ہیں ، اس لیے مکہ مکرمہ سے باہر کے لوگ، ہر طواف کے بدلے ، مزید چار رکعت نفل یعنی کل انتالیس رکعت پڑ ھ لیا کریں۔ اگر نماز کی کوئی تعداد مقرر ہوتی تو حضرت عمر بن عبدالعزیز کبھی درج بالا رائے کا اظہار نہ کرتے۔

مختصراً یہ کہ نماز تراویح ایک نفل عباد ت ہے جس کی رکعتوں کی کوئی خاص تعداد دین نے لازم نہیں کیا۔

سوال: دعائے قنوت کیا ہے ؟ یہ دعا کب پڑ ھی جائے ؟

جواب: یہ دعا تہجد کی آخری رکعت میں پڑ ھی جاتی ہے۔ اس میں ہاتھ ناف پر باندھے بھی جا سکتے ہیں اور دونوں ہاتھ اٹھا کر، چھوڑ کر بھی یہ دعا مانگی جا سکتی ہے۔ ویسے یہ دعا تمام جہری نمازوں میں بھی پڑ ھی جا سکتی ہے۔ حدیث کی کتابوں میں دو دعائیں منقول ہیں :

1۔الھم اھدنی فیمن ھدیث وعافنی فیمن عافیت وتولنی فیمن تولیت وبارک لی فیما اعطیت وقنی شرما قضیت فانک نقضی ولا یقضیٰ علیک انہ لا یضل من والیت ولا یعز من عادیت تبارکت ربنا وتعالیت نستغفرک ونتوب الیک وصلی اللہ علی النبی۔

’’اے اللہ! مجھے ہدایت یافتہ لوگوں کے ساتھ ہدایت دے اور عافیت یافتہ لوگوں کے ساتھ عافیت دے اور اپنے دوستوں کی صف میں مجھے بھی شامل کر لے۔ تونے مجھے جو کچھ عطا کیا ہے ، اس میں برکت فرما دے اور اپنے فیصلے کی تکلیف سے مجھے بچالے ، اس لیے کہ فیصلہ کرنا تیرے ہی اختیار میں ہے اور تیرے فیصلہ کے خلاف کوئی فیصلہ ممکن نہیں۔ بلاشبہ تیرا دوست ذلیل نہیں ہوتا اور تیرا دشمن عزت نہیں پا سکتا۔ اے ہمارے رب! تو بڑ ی برکت والا اور بلند مرتبہ ہے۔ ہم تجھ ہی سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور تیرے حضور توبہ کرتے ہیں۔ اللہ! ہمارے نبیﷺ پر رحمت وبرکت نازل کر دے ‘‘۔ (آمین)

اللھم نستعینک ونستغفرک ونومن بک ونتوکل علیک ونثنی علیک الخیر ونشکرک لا نکفرک ونخلع ونترک من یفجرک۔ اللھم ایاک نعبد ولک نصلی ونسجدوالیک نسعی ونحفد ونرجوا رحمتک ونخشیٰ عذابک ان عذابک بلکفار ملحق۔

’’اے اللہ ہم تجھی سے مدد مانگتے ہیں اور تجھی سے مغفرت طلب کرتے ہیں ، تجھ پر ایمان لاتے ہیں اور تجھی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ہم بہترین طریقے سے تیری ثنا اور تیرا شکر ادا کرتے ہیں۔ اے اللہ، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں ، تیرے ہی لیے نماز پڑ ھتے ہیں ، تجھی کو سجدہ کرتے ہیں اور تیری ہی طرف دوڑ تے اور لپکتے ہیں ، ہم تیری رحمت کے امیدوار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں ، بے شک تیرا عذاب کافروں کو پہنچنے والا ہے ‘‘۔

اگر کسی کو یہ دعائیں یاد نہ ہوں تو اس کے بجائے دوسری دعائیں بھی پڑ ھ سکتا اور انہیں یاد کرسکتا ہے۔ اگر مسلمانوں پر مصیبتوں کا دوردورہ ہو تو امام مزید حسب حال دعائیں بھی شامل کرسکتا ہے۔

سوال: کیا نماز کے درمیان میں اپنی زبان میں بھی ذکر کیا جا سکتا ہے اور دعا مانگی جا سکتی ہے ؟

جواب: نماز میں لازمی چیزیں اس کا ظاہر، سورۃ فاتحہ، قرآن مجید کے کسی حصے کی تلاوت اور تشہد ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ قیام، رکوع، سجدہ اور قعدہ میں اپنی مرضی کے مطابق اپنی زبان میں بھی ذکر اور دعا کی جا سکتی ہے۔

سوال: کیا نماز کے دوران میں مصحف سے پڑ ھ کر قرآن مجید کی تلاوت کی جا سکتی ہے ؟

جواب: فرض نماز میں یہ بات خلاف سنت ہے۔ تاہم نفل نمازوں میں اس سہولت سے فائدہ اٹھاجا سکتا ہے اس لیے کہ اس کے خلاف کوئی چیز دین میں موجود نہیں۔ اور اس کی تائید میں ایک صحیح حدیث بھی موجود ہے۔

سوال: باجماعت نماز کا امام کس کو بنایا جائے اور امام بنانے کا اختیار کس کے پاس ہے ؟

جواب: ایک اسلامی حکومت میں مسجد کی تعمیر، اس کا انتظام(مسلمان شہریوں کی مدد سے ) اور اس میں امام کا تقرر بھی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔ تاہم، چونکہ آج کل حکومتیں یہ ذمہ داری ادا نہیں کرتیں ، اس لیے اہل محلہ کو چاہیے کہ وہ امام مقرر کرتے وقت سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ وہ قرآن مجید کو بہت اچھی طرح سمجھتا اور پڑ ھا سکتا ہو۔ وسیع النظر ہو اور فرقہ ورانہ ذہنیت نہ رکھتا ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ، وہ سنت اور شریعت کا جاننے والا بھی ہو۔ اس کا کردار بھی اچھا ہو اور اگر وہ، نسبتاً پختہ عمر کا ہو تو مزید بہتر ہے۔

سوال: بعض جگہ اذان سے پہلے مختلف دوسرے کلمات بھی دہرائے جاتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا مناسب ہے ؟

جواب: جو شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ اس اذان کو اختیار کر لے جو نبیﷺ نے سکھائی تھی اور جو صحابہ کرامؓ کے ہاں دی جاتی تھی، اسے چاہیے کہ وہ اذان سے پہلے کوئی کلمات ادا نہ کرے ، کیونکہ اس میں اس طرح کے کلمات نہیں تھے۔

سوال: بعض جگہ نماز کے بعد اجتماعی ذکر کیا جاتا ہے۔ کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے ؟

جواب: چونکہ حضورﷺ نے ہمیں ایسا ذکر نہیں سکھایا، اس لیے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ جو دعا، جس طرح سے حضورﷺ پڑ ھتے تھے ، اس کو ضرور اپنانا چاہیے۔

سوال: نماز جمعہ کیسی پڑ ھی جائے ؟ اس کا خطیب کو ن ہونا چاہیے ؟

جواب: نماز جمعہ کے بارے میں یہ لازم ہے کہ اسلامی حکومت کا سربراہ یا اس کا نمائندہ اس کا خطبہ دے اور نماز کی امامت کرائے۔ جہاں سربراہ حکومت نہ ہو، وہاں مقامی حاکم خطبہ دے اور نماز پڑ ھائے۔

نماز جمعہ دو خطبوں اور اس کے بعد دو رکعت فرض پر مشتمل ہوتا ہے۔ پہلے خطبے میں امام امت اور ملک ودینی مسائل سے متعلق حاضرین کی رہنمائی کرتا ہے اور دوسرا خطبہ آیات قرآنی، رسولﷺ کے لیے درود اور صحابہ اور اصحابِ رسول وعام مسلمانوں کے لیے دعاؤں پر مشتمل ہوتا ہے۔

نماز جمعہ کے آداب میں یہ شامل ہے کہ انسان نہائے ، ناخن تراشے ، بدن کی صفائی کرے ، خوشبو لگائے اور صاف کپڑ ے پہن کر جمعہ کے لیے آئے۔ خطبے سے پہلے چار رکعت نفل اور فرضوں کے بعد دو یا چار رکعت نفل بھی مسنون ہیں۔

سوال: کہا جاتا ہے کہ جمعہ صرف بڑ ے شہر(مصر جامع) میں ہوتا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے ؟

جواب: چونکہ حکومتی سربراہ یا اس کا نائب ہمیشہ مرکزی مقام پر رہتا تھا ، اس لیے یہ ضروری تھا کہ صرف مرکزی مقام ہی پر جمعہ ہو اور قرب وجوار سے لوگ اس میں شرکت کے لیے آئیں۔ جمعہ، دراصل مسلمانوں کے سیاسی سربراہ کے احتساب اور عوام سے ملاقات کا دن بھی ہوتا ہے۔ آ ج کل کے حالات میں ہر صوبائی حلقے کے کسی مرکزی مقام کو مصر جامع قرار دے کر، سب لوگوں کویہ ہدایت کی جا سکتی ہے کہ وہ صرف اسی جگہ جمعہ پڑ ھیں گے۔ جب تک ریاست کی طرف سے ایسا انتظام نہیں جاتا، تب تک ہر جگہ جمعہ پڑ ھاجا سکتا ہے۔ البتہ مناسب یہی ہے کہ بڑ ی جگہوں پر جمعہ پڑ ھا جائے۔

سوال: حج کے زمانے میں ، حکمران خطبہ نہیں پڑ ھتے اور حکومتی سطح پر جمعہ کا اہتمام نہیں کیا جاتا، جمعہ کس بنا پر پڑ ھا جا رہا ہے ؟

جواب: آج کل جمعہ، تیمم کے اصول پر پڑ ھا جا رہا ہے ، یعنی جس طرح پانی کے نہ ملنے پر تیمم کی اجازت ہوجاتی ہے ، اس طرح علماء نے یہ اجتہاد کیا کہ اگر حکمران نماز جمعہ کا اہتمام نہیں کر رہے تو کم از کم اس نماز کو زندہ تو رکھا جائے۔ تاہم آج بھی مناسب یہ ہے کہ نماز جمعہ کا اہتمام کسی مرکزی جگہ پر ہو۔

سوال: کیا خواتین مسجد میں نماز کے لیے جا سکتی ہیں ؟

جواب : خواتین تمام نمازوں کے لیے ، حتیٰ کہ فجر اور عشاء کی نمازوں کے لیے بھی مسجد میں جا سکتی ہیں اور مردوں کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ ان کو مسجد میں جانے سے روکیں۔ تاہم ان کے لیے مسجد کے بجائے اپنے گھر میں تنہا نماز پڑ ھنا زیادہ پسندیدہ ہے۔ تاہم آج کل کی یہ صورت حال کہ خواتین مسجد کے اندر گھس بھی نہیں سکتی، بالکل غلط ہے۔ جمعہ کی نماز میں خواتین کا شامل ہونا پسندیدہ ہے اور عیدین کی نماز میں ان کا شامل ہونا بالکل لازم ہے۔ اگر آج ان کے لیے نماز عیدین میں شامل ہونے کا انتظام نہیں کیا جاتا تو اس کا مواخذہ مردوں سے ہو گا، نہ کہ عورتوں سے۔ اس لیے کہ اس عدم انتظام کی ذمہ داری مردوں ہی پر عائد ہوتی ہے۔ نماز باجماعت میں خواتین، مردوں کے پیچھے ایک طرف علیحدہ صفیں بنائیں۔

سوال: اگر نماز اپنے اصل وقت میں ادا نہ ہو، تو اسے بعد میں کیسے ادا کیا جائے ؟

جواب: جونہی موقع ملے یا نماز یاد آجائے ، فوراً ادا کر دی جائے۔

سوال: اگرکسی انسان سے کئی سال کی نمازیں رہ گئی ہوں تو انہیں کیسے ادا کیا جائے ؟

جواب: ان کے باآسانی ادا کرنے کے لیے ہر انسان اپنے حالات کے لحاظ سے ایک پروگرام بنا سکتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آئندہ کے لیے انسان نماز کی پابندی کرے اور زیادہ سے زیادہ نوافل ادا کرے۔

سوال : وہ کون سے اوقات ہیں جن میں نماز پڑ ھنا منع ہے ؟

جواب :تین اوقات میں نماز پڑ ھنا ممنوع ہے۔ عین طلوع آفتاب کے وقت، جب سورج بالکل سر پر ہو، یعنی زوال کے وقت اور عین عروب آفتاب کے وقت۔ دراصل ان تین اوقات میں سورج پرست، سورج کی عبادت کرتے ہیں۔ تاہم اگر ایک فرد سے کسی خاص عذر کی بناپر فجر کی نماز اپنے وقت پر ادا نہ ہونے سے رہ گئی ہو اور وہ سورج نکلنے سے پہلے ، کم ازکم ایک رکعت پڑ ھ سکتا، تو اسے اپنی نماز پوری طور پر پوری کر لینی چاہیے۔ یہی حال عصر کا ہے۔ لیکن یہ صرف مخصوص حالات میں ہے ، اسے عادت بنالینا نامناسب ہے۔

سوال: نماز کن صورتوں میں ٹوٹ جاتی ہے ؟

جواب: یہ بات تو ظاہر ہے کہ وضو ٹوٹنے کی شکل نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ اس علاوہ ہر اس چیز سے نماز ٹوٹ جاتی ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ کوئی شخص خداکے دربار میں کھڑ ا ہونے کے بجائے کہیں اور کھڑ ا ہوا ہے۔ مثلاً نماز میں گفتگو کرنا، کھانا پینا، قیام، رکوع وسجود جان بوجھ کر چھوڑ دینا وغیرہ وغیرہ۔ .

سوال: کیا سفر کے دوران میں وضو کے بارے میں کوئی رخصت دی گئی ہے ؟

جواب: اس ضمن میں دو موقف ہیں ایک یہ کہ اگر سفر کے دوران میں پانی دستیاب نہ ہو تو تیمم کیا جا سکتا ہے ، جب کہ دوسرا موقف یہ ہے کہ سفر میں اس رخصت کا باعث سفر کی مشکلات ہیں۔ بعض اوقات آدمی نے ایسے کپڑ ے پہنے ہوتے ہیں جن کا اتارنا اس کے لیے باعث تکلیف ہوتا ہے۔ اس کے پاس وقت کی تنگی بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے سفر میں تیمم بالکل جائز ہے۔ ہمیں اس دوسری رائے سے اتفاق ہے۔ تاہم جس فرد نے ، نیت کے اخلاص کے ساتھ، جس پر بھی عمل کر لیا، اجروثواب کا مستحق ہیں۔

سوال: سفر کے دوران میں ، نماز کے معاملے میں کیا رخصتیں دی گئی ہیں ؟ نیز سفرکی تعریف کیا ہے ؟

جواب: سفر، حالت جنگ یا کسی بھی (ایمرجنسی) میں نماز میں رخصتیں دی گئی ہیں۔ سفر سے دین کی کیا مراد ہے ؟اس ضمن میں تین موقف ہیں۔ ایک یہ کہ سفر وہ ہوتا ہے جس میں انسان، کم ازکم 56میل کا قصد کرے۔ دوسرا موقف یہ ہے کہ سفر اسے کہتے ہیں جس میں انسان اپنے گھر سے آٹھ میل تک کہیں جانے کا قصدکرے۔ تیسرا موقف یہ ہے کہ سفر مسافت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب کوئی انسان اپنے آپ کو حالت سفر میں محسوس کرے تو وہ سفر کی رخصتوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ہمارا اطمینان اسی تیسرے موقف پر ہے۔

سفر کے دوران میں آپ ظہر کی چار کے بجائے دورکعات، عصر کی چار کے بجائے دو رکعت اور عشاء کی چار کے بجائے دو رکعات پڑ ھ سکتے ہیں۔ فجر اور مغرب کی نمازیں پوری ہی پڑ ھنا ہوں گی۔

سوال: کیا سفر کی رخصت لازم ہے یا اگر ہم چاہیں تو پوری نماز بھی پڑ ھ سکتے ہیں ؟

جواب: اس ضمن میں دو موقف ہیں : پہلا موقف یہ ہے کہ یہ رخصت اللہ کی طرف سے ایک انعام ہے اور انعام سے فائدہ نہ اٹھانا ناشکری ہے۔ اس لیے اس رخصت پر لازماً عمل کرنا چاہیے۔ جب کہ دوسرا موقف یہ ہے کہ رخصت بس رخصت۔ کوئی بھی رخصت ہے کبھی لازم نہیں ہوا کرتی۔ رخصت سے فائدہ اٹھانا بڑ ی اچھی بات ہے ، لیکن اگر کسی سفر میں آپ کو کوئی مشکل ہی نہ ہو اور آپ بالکل گھر جیسا آرام محسوس کریں ، تو بے شک رخصت سے فائدہ نہ اٹھائیں۔ ہمارا اطمینان اس دوسرے موقف پر ہے۔ تاہم جس فرد کا جس موقف پر اطمینان ہو، اسی کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ پروردگار ہماری نیتوں کو دیکھتا ہے۔

سوال: اگر کوئی مسافر مقیم امام کے پیچھے کھڑ ا ہوجائے ، تو کیا کرے ؟

جواب: اگر مسافر کے سفر کا ہرج ہورہا ہے تو، اسے مقیم امام کے پیچھے نہیں کھڑ ا ہونا چاہیے ، لیکن اگر اس کے پاس وقت ہے اور وہ مقیم امام کے پیچھے کھڑ ا ہو گیا ہے ، تو پھر اسے پوری نماز پڑ ھنی چاہیے۔

سوال: اگر کوئی مقیم مقتدی، مسافر امام کے پیچھے کھڑ ا ہوجائے ، تو کیا کرے ؟

جواب: جب مسافر امام سلام پھیر دے تو مقیم مقتدی اٹھ کر اپنی باقی نماز پوری کر لے۔

سوال: جمع بین الصلاتین کیا مطلب ہے ؟

جواب: سفر میں اس بات کی بھی اجازت ہے کہ ظہر اور عصر کی دودو رکعتیں ایک وقت میں پڑ ھی جا سکتی ہیں۔ لیکن یہ کب پڑ ھی جائیں ، اس کے بارے میں دو موقف ہیں : ایک موقف یہ ہے کہ اگر ان نمازوں کو اکٹھا پڑ ھنا مقصود ہو تو یہ عین اس وقت پڑ ھی جائیں جب ظہر وعصر کا یا مغرب وعشاء کا درمیانی وقت ہو۔ جب کہ دوسرا موقف یہ ہے کہ اس طرح تو مسافر کو مزید پریشانی لاحق ہوجائے گی۔ اس کو حالت سفر میں یہ دیکھنا پڑ ے گا کہ ان کا عین درمیانی وقت کون سا ہے اور اس لمحے اسے لازماً رکنا پڑ ے گا۔ اس لیے اصل رخصت یہ ہے کہ ظہر کے پہلے وقت سے لے کر عصر کے آخری وقت تک، دونوں نمازوں کو ایک ہی وقت میں پڑ ھا جا سکتا ہے۔ اس طرح مغرب کے پہلے وقت سے لے کر عشاء کے آخری وقت تک، ان دونوں نمازوں کو ایک ہی وقت میں (علیحدہ علیحدہ) تکبیر تحریمہ کے ساتھ پڑ ھا جا سکتا ہے۔ ہمارا اطمینان اسی دوسرے موقف پر ہے۔

سوال: کیا سفر میں سنتیں (مسنون نوافل) پڑ ھنا ضروری ہے ؟

جواب: سنتیں اگر عام حالات میں بھی انسان سے چھوٹ جائیں تو کوئی مواخذہ نہیں ہو گا، لیکن اس کا نقصان یہ ہے کہ وہ نفل عبادت کے اجر سے محروم رہ گیا۔ لیکن سفر میں تو فرض نماز میں بھی رخصت دے دی جاتی ہے ، اس لیے سنتوں میں کوئی پابندی نہیں۔

سوال: نماز جنازہ کا طریقہ کیا ہے ؟ اگر کسی کو نماز جنازہ یاد نہ ہو تو کیا کرے ؟

جواب: نماز جنازہ کا طریقہ یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد ثنا پڑ ھی جائے۔ ہو سکے تو تعوذ، تسمیہ اور سورۃ فاتحہ بھی پڑ ھیں۔ پھر دوسری تکبیر کے بعددرود پڑ ھیں۔ پھر تیسری تکبیر کے بعد، میت کے لیے ، ان دعاؤں میں سے کوئی بھی دعا پڑ ھ لیجئے۔ مسنون دعاؤں میں سے ایک دعا درج ذیل ہے۔ ۔ :

اللھم اغفرلحینا ومیتنا وشاھدنا وغائبا وصغیرنا وکبیرنا وذکرنا وانثانا اللھم من احیتہ منا فاحیہ علی الاسلام ومن توفیتہ منا فتوفہ علی الایمان۔

’’اے اللہ ہمارے زندہ لوگوں ، مرنے والوں ، موجود، غیر موجود، ہمارے بڑ وں اور چھوٹوں ، ہمارے مردوں اور عورتوں کی مغفرت فرما۔ اے اللہ ہم میں سے جسے زندگی عنایت فرمائے تو اسلام کی زندگی عنایت کرنا۔ جسے دنیا سے اٹھا لے ، اسے ایمان پر اٹھالے ‘‘۔

بعض لوگوں کو میت کے لیے حضورﷺ کی سکھائی ہوئی دعائیں یاد نہیں ہوتیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ بھی نماز جنازہ میں شریک ہوں اور تیسری تکبیر کے بعد، میت کے لیے مغفرت کی دعا کریں۔

سوال: نماز عیدین کیسے پڑ ھی جائیں ؟

جواب: یہ ایک باجماعت فرض نماز ہے ، جو عموماً چاشت کے وقت پڑ ھی جاتی ہے۔ یہ دو رکعت نماز اور دو خطبوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس میں باقی نمازوں کی نسبت صرف اتنا فرق ہے کہ پہلی رکعت میں ثنا کے بعد تین یا سات اضافی تکبیریں کہی جاتی ہیں اور دوسری رکعت میں رکوع میں جانے سے پہلے ، تین یا پانچ اضافی تکبیریں کہی جاتی ہے۔

سوال: کیا سورج گرہن(کسوف) اور چاند گرہن (خسوف) کے وقت نماز پڑ ھنی چاہیے ؟

جواب: چونکہ سورج گرہن اور چاند گرہن، اللہ کی قدرت کا ایک غیر معمولی اظہار ہیں۔ اس لیے ان اوقات میں دو رکعات نفل پڑ ھنا مسنون ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اسے جماعت کے ساتھ پڑ ھ لیا جائے۔

سوال: صلواۃ استخارہ کا کیا مطلب ہے ؟

جواب: دعائے استخارہ، خدا سے خیر طلب کرنے کی دعا ہے۔ جب انسان کو کسی اہم معاملے میں فیصلہ کرنا درپیش ہو، تو دو رکعت نفل پڑ ھ کر اللہ سے رہنمائی طلب کرے اور معاملے پر خوب غوروفکر کر کے فیصلہ کرے۔ اس طرح یکسوئی میں مدد ملتی ہے۔

سوال: قضائے عمری کی نماز کیا چیز ہے ؟

جواب: ایسی کوئی نماز ہمیں حضورﷺ نے نہیں سکھائی۔ یہ محض بدعت ہے۔

سوال: تیمم کب اور کیسے کیا جاتا ہے ؟

جواب: جب انسان کو پانی نہ ملے یا حالت سفر میں ہو، تو وضو کے بجائے تیمم کافی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ پاک مٹی یا کسی بھی غبار آلود چیز (مثلاً عملی لحاظ سے ہر کپڑ ا عبار الود ہوتا ہے ) پر ہاتھ مارکر چہرے پر پھیر لیں ، پھر ہاتھ مارکر دونوں ہاتھوں کی کہنیوں تک پھیر لیں۔

سوال: تیمم سے پاکی کیسے حاصل ہوتی ہے ؟

جواب: تیمم، طہارت حاصل کرنے کا ایک علامتی اظہار ہے۔

سوال: اذان کے بعد جب ہم یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں ’’ آت محمد ان الوسیلۃ‘‘(اے اللہ محمدﷺ کو وسیلہ عطا فرما) تو وسیلہ عطا کرنے کا کیا مطلب ہے ؟

جواب: وسیلہ جنت کے اس بلند ترین درجے کا نام ہے جو اس نوع انسانی میں صرف ایک فرد کو ملے گا۔ ہم حضورﷺ کے ساتھ انتہائی محبت کی وجہ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ یہ درجہ ان کو ملے۔

سوال: کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمانؓ نے جمعہ کے دن، خطبے کی اذان کے علاوہ ایک اور اذان بھی کروائی کیا یہ بدعت نہیں ؟

جواب: حضرت عثمانؓ نے کوئی دوسری آذان شروع نہیں کروائی۔ یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ امام کی آواز جماعت میں دوردور تک نہیں پہنچ سکتی ، تو جماعت کے درمیان میں کچھ لوگ مکبرین کی صورت میں ، امام کی آواز کے ساتھ تکبیر کہتے ہیں، تاکہ باقی مجمع کو آسانی ہو۔ چونکہ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں مدینے کی آبادی بہت بڑ ھ گئی تھی اور مسجد کی اذان ان تک نہیں پہنچ سکتی تھی، اس لیے انہوں نے یہی خطبے والی اذان مکبرین کے اصول پر، مدینے کی دوردراز جگہوں میں دینے کا بھی اہتمام کیا، تاکہ مسجد کے ساتھ ساتھ باہر کے لوگوں کو بھی پتہ چلے کہ خطبہ شروع ہوا چاہتا ہے۔

سوال: اگر انسان کو تکلیف یا بیماری ہو تو کیسے نماز ادا کی جائے ؟

جواب: تکلیف یا بیماری کی صورت میں ، حالات کے مطابق بیٹھ کر، لیٹ کر، حتیٰ کہ اشاروں سے بھی نماز ادا کی جا سکتی ہے۔

سوال: ہوائی جہاز میں نماز کیسی پڑ ھی جائے ؟

جواب اگر سفر چھوٹا ہوتو آپ کسی بھی ائیر پورٹ پر جمع بین الصلواتین کر لیں۔ اگر سفر لمبا ہو اور بین البراعظمی ہوتو پہلے سے اپنے لیے ، حالات کے مطابق نمازوں کا ٹائم ٹیبل بنالیں۔ آج کل بہت سے جہازوں میں نماز پڑ ھنے اور سمت قبلہ معلوم کرنے کی سہولت موجود ہوتی ہے۔ اگر یہ سہولت موجود نہ ہو تو اپنی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے نماز پڑ ھ لیں۔

سوال: قطبین کے قریب مقامات میں جہاں دن رات چھ چھ مہینوں پر محیط ہوتے ہیں ، نماز کیسی پڑ ھی جائے ؟

جواب: جہاں دن رات کا الٹ پھیر چوبیس گھنٹے میں پورا ہوتا ہو، وہاں اپنے اوقات ہی میں نماز پڑ ھی جائے اور جہاں دن رات چوبیس گھنٹے سے لمبے ہو، وہاں لوگ چوبیس گھنٹے کے مطابق اپنے باقی مصروفیت کا ٹائم ٹیبل جس طریقے سے بناتے ہیں ، اسی طریقے سے وہاں کے سب مسلمان اہلِ علم مل کر نمازوں کے اوقات متعین کر لیں۔

سوال: کیا جوتوں کے ساتھ نماز پڑ ھی جا سکتی ہے ؟

جواب: اگر جوتوں کے ساتھ ظاہری گندگی نہ لگی ہوتو ان کے ساتھ نماز پڑ ھنے میں کوئی حرج نہیں ، تاہم جن جگہوں میں صفائی کی وجہ سے جوتے اتارے جاتے ہوں ( مثلاً آج کل کی اکثر مسجدیں ہیں ) وہاں جوتے عام ادب کے طریقہ پر اتار ہی دینے چاہئیں اور اگر کھلے میدان میں نماز پڑ ھی جا رہی ہو تو جوتے پہنے رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

سوال: کیا وضومیں مسواک کے بجائے برش استعمال کیا جا سکتا ہے ؟

جواب: مسواک ہی کا انگریزی نام برش ہے۔ چنانچہ برش اور مسواک اپنی حقیقت میں ایک ہی چیز ہیں۔ اصل مطلوب دانتوں کی صفائی ہے اور اس کے لیے کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔

سوال: کیا ننگے سر نماز پڑ ھی جا سکتی ہے ؟

جواب: نماز میں ٹوپی پہننے یا نہ پہننے پر کوئی پابندی نہیں۔ اگر ٹوپی کسی معاشرے کے لباس کا لازمی جزو ہو، تو وہاں ٹوپی اوڑ ھنا بہتر ہے اور اگر کسی سوسائٹی میں ٹوپی پہننے کا رواج نہیں تو وہاں ننگے سر نماز پڑ ھنے میں کوئی حرج نہیں۔

سوال: کیا نماز میں آنکھیں بندرکھی جا سکتی ہے ؟

جواب: یہ مناسب نہیں ہے۔

سوال: نمازی کے سامنے سے گزرنے میں کس بات کا خیال رکھنا چاہیے۔ سترہ کسے کہتے ہیں ؟

جواب: اصول یہ ہے کہ جس جگہ تک نمازی سجدہ کرتا ہے ، اتنی جگہ میں کوئی اور نہ گزرے ، تاکہ اس کی نماز میں خلل نہ ہو۔ دوسرے لوگوں کو دکھانے کے لیے نمازی اگر اپنے سجدہ کے مقام سے آگے کوئی نشان نصب کرے ، تو اسے سترہ کہتے ہیں۔ چونکہ صف یا جائے نماز بھی سجدہ تک کی جگہ کا تعین کرتا ہے ، اس لیے وہ بھی سترہ ہے۔ اگر کسی نمازی نے اپنے آگے کوئی نشان نہ لگایا ہو، تو اس کے سجدہ کرنے کی جگہ اندازے سے فرض کرے ، اسے چھوڑ کر، سامنے سے گزرا جا سکتا ہے۔

سوال: سجدہ تلاوت کسے کہتے ہیں ؟

جواب: قرآن مجید میں چودہ مقامات ایسے ہیں جہاں حضورﷺ نے ہمیں سجدے کی ہدایت فرمائی ہے۔ چنانچہ جب بھی کوئی انسان اس مقام کی تلاوت کرے یا سنے ، تو اسے چاہیے کہ اسی وقت یا کچھ دیر بعد سجدہ کرے۔

سوال: کیا نماز کے دوران شلوار ٹحنوں سے اوپر ہونی چاہیے ؟

جواب: اس ضمن میں دو مختلف موقف ہیں : ایک موقف یہ ہے کہ شلوار ٹحنوں سے اوپر ہی ہونی چاہیے اس لیے کہ حضورﷺ نے اس کا حکم دیا ہے۔ جب کہ دوسرا موقف یہ ہے کہ اس سلسلے کی تمام روایات کو پڑ ھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل ممانعت تکبر اور غرور کا لباس پہننے کی ہے۔ حضورﷺ کے زمانے میں متکبر لوگوں کا یہ انداز تھا کہ ان کی لُنگی زمین پر گھسٹتی رہتی تھی۔ چنانچہ حضورﷺ نے غروروتکبر کی باقی علامات پر پابندی کے ساتھ ساتھ غرور وتکبر کے اس لباس پر بھی پابندی لگائی۔ چونکہ آج ہماری شلوار کے پائنچوں کے ساتھ تکبر کا کوئی تصور نہیں ہے ، اس لیے اب اس ضمن میں دین کی طرف سے کوئی پابندی نہیں ہے۔ البتہ اب بھی ایسے لباس پر پابندی ہوناچاہیے ، جس میں تکبر یا بے حیائی پائی جاتی ہو۔ مثلاً کھلے بٹن ، کھلے بازو، انتہائی چست لباس، لباس کے اوپر پستول کی نمائش وغیرہ وغیرہ۔ ہمیں دوسرا موقف زیادہ مضبوط لگتا ہے۔

سوال: ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں ؟

جواب: پروردگار نے یہ دنیا آزمائش کے لیے بنائی ہے ، اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ ہماری دعاؤں کے باوجود ہماری خواہش کے مطابق یہ کام نہ ہو۔ ویسے بھی پروردگار کے ہاں دعاؤں کی قبولیت کاضابطہ یہ ہے کہ پہلے انسان، کسی مقصد کے لیے، ممکن حد تک، اعلیٰ ترین سعی وجہد کرے اور پھر خدا سے دعا مانگے۔ جب کہ ہمارے ہاں یہ عام طریقہ ہے کہ کسی کام لیے کوشش کیے بغیر صرف دعاہی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

سوال: ہماری نمازیں ہمیں فحش اور برے کاموں سے کیوں نہیں بچاتیں ؟

جواب: اگر انسان کو نماز کے معنی آتے ہوں ، نماز کے دوران میں تلاوت کی طرف اس کا دھیان ہو اور وہ عاجزی وپستی کے ساتھ، تمام کے تمام آداب کا خیال رکھتے ہوئے ، اسے ادا کرے ، تو اس کی نماز دن بدن اس کے ضمیر (نفس لوامہ) کو مضبوط سے مضبوط تر بنادے گی۔ اگر اس کی نماز، محض رسم کی خاطر ہو گی، تو ایسے نماز کا باقی زندگی پر کوئی اثر مرتب نہیں ہو گا۔

[L:8]

B