HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Dr. Farooq Khan

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

اسلام - چند بنیادی نکات

پہلاباب

اسلام کے معنی

اسلام کے معنی عربی زبان میں اطاعت وفرماں برداری اور سلامتی ہے۔ دین اسلام کا نام اسلام اسی لیے رکھا گیا ہے کہ یہ اللہ کی اطاعت وفرماں برداری اور سراسر سلامتی ہے۔

بطورِ اصطلاح اسلام کے معنی وہ تعلیمات ہیں جو پروردگار نے ارادہ واختیار رکھنے والے اولین انسان حضرت آدمؑ کو دیں تاکہ وہ اور ان کی اولاد اس دنیا میں ان کے مطابق زندگی بسر کرے۔ اللہ کی طرف سے اس پیغام کی تجدید کے لیے وقتاً فوقتاً پیغمبر بھیجے گئے۔

اس سلسلے میں آخری پیغمبر کے طور پر حضرت محمدﷺ کو بھیجا گیا جنہوں نے اس تعلیم کو اپنی مکمل صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔

دین کے معنی

دنیا میں انسان اپنے اور کائنات کے متعلق جو فکر وفلسفہ اختیار کرتا اور جس کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے ، اسے ہم دین کہتے ہیں۔ گویا دین، فلسفہ وعمل دونوں کا مجموعہ ہے۔ جس فلسفہ وعمل کو اللہ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے انسان پر واضح کیا، اسے ’’الدین‘‘ کہتے ہیں۔ اسی دین کا نام اسلام ہے۔

اسلام کے سرچشمے

اسلام کے سرچشمے دو ہیں۔ ایک قرآن اور دوسرا سنت۔ قرآن مجید اس وحی کا مجموعہ ہے جو پروردگار نے حضورا کرمﷺ کے دورِ رسالت میں 23برس کے دوران میں وقتاً فوقتاً نازل کیا۔ اس وحی کی تکمیل کے بعد اللہ نے اسے نئی ترتیب دی تاکہ یہ قیامت تک انسانوں کے لیے کتابِ ہدایت بن جائے۔

قرآن مجید میں اسلام کا فکر وفلسفہ، اس کی بنیادی تعلیمات نہایت وضاحت کے ساتھ موجود ہیں۔ اسی طرح اس میں بعض احکام بھی وضاحت سے بیان کیے گئے ہیں۔

قرآن مجید پر غوروفکر کرتے وقت چند باتوں کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے۔ ایک یہ کہ یہ کتاب اپنے وقت کے قریش کی فصیح، ادبی اور بامحاورہ زبان میں اتری ہے۔ اس لیے ا س کے الفاظ، تراکیب اور محاوروں کے وہی معنی لینے لازم ہیں جو اس وقت کے ادب ومحاورہ میں رائج تھے ، اور اس کی آیات کا وہی مفہوم کیا جائے جواس سے بالکل صاف اور واضح طو رپر سامنے آتا ہو۔

دوسرا یہ کہ قرآن مجید درحقیقت حضورﷺ کے پیغمبرانہ انداز کی سرگزشت ہے یعنی یہ کہ آپؐ نے اپنی قوم کو کس طرح آخرت کی جواب دہی کا احساس دلایا اور اس کے لیے تیار کیا۔ آپ نے کس ماحول میں یہ کام کیا، وہاں کیا سوالات اور کیا مسائل تھے ، وغیرہ وغیرہ۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس کی ہر بات کو پہلے حضورﷺ کے دور رسالت کے پسِ منظر میں سمجھا جائے اور اس کے بعد اس سے ہدایت اخذ کی جائے۔ اس اسلوب کا سب سے بڑ ا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح ہر مسلمان قرآن پڑ ھتے ہوئے حضورﷺ سے متعلق رہتا ہے اور اس اسوہ حسنہ کی روشنی میں زندگی کے معاملے میں اپنے لیے ہر راہِ عمل متعین کرسکتا ہے۔

تیسرا یہ کہ یہ ایک مربوط کلام ہے۔ اس کی موجودہ ترتیب میں پروردگار کی طرف سے بہت بڑ ی حکمت پوشیدہ ہے۔ اس کی تمام سورتیں ایک دوسرے جُڑ ی ہوئی اور جوڑ وں کی شکل میں ہیں۔ اس لیے اس کی ہر آیات کے وہی معنی بنتے ہیں جو اس کے سیاق وسباق(Context) سے ظاہر ہو۔

سنت سے مراد وہ عملی طریقہ ہے جسے پیغمبرﷺ نے دین کی حیثیت سے مسلمانوں میں رائج کیا۔ دین کا یہ طریقہ قریش میں حضرت ابراہیمؑ کے زمانے سے موجود چلا آ رہا تھا۔ مثلاً نماز، زکواۃ، روزہ، حج، قربانی وغیرہ اسی وقت سے ملت ابراہیمی میں چلی آ رہی تھیں ، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں بدعتیں اور آلائشیں داخل ہوگئی تھیں۔ حضورﷺ نے ان تمام بدعتوں کو ختم کیا اور ان کی تجدید کر کے انہیں امت مسلمہ میں رائج کیا۔ صحابہ کرامؓ نے متفقہ طور پر ان پر عمل کیا اور ان سے سنت کے تمام اعمال بالکل متفقہ صورت میں آگے امت کو منتقل ہوئے۔

آج بھی اس امت میں ہر سنت بالکل متفقہ ہے۔ کیونکہ پچھلے چودہ سو برس میں ان تمام سنتوں پر مسلمان متواتر عمل کرتے آ رہے ہیں۔ اس میں عبادت کے عملی طریقے مثلاً نماز، زکواۃ، روزہ، حج ، معاشرت، آداب اور ذاتی صفائی کی ہدایات شامل ہیں۔ ان سب چیزوں کی فہرست اس کتاب میں سنت کے باب میں آئے گی۔

جن چیزوں پر اس امت کے مختلف مسالک کے درمیان آپس میں خلاف ہے ، وہ سنت میں شامل نہیں۔ سنت میں صرف وہی چیزیں شامل ہیں جن پر پوری امت کا اتفاق ہے۔ اس لیے کہ سنت ہمیں صحابہ کرامؓ کے کامل اتفاق سے ملی ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ سنت اور حدیث آپس میں مترادف الفاظ نہیں بلکہ دومختلف چیزیں ہیں۔ بے شک حدیث کے اندر مختلف سنتوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے ، تاہم حدیث کے اندر اس کے علاوہ بھی بہت سے چیزیں شامل ہیں ، مثلاً مختلف تاریخی واقعات، قرآن مجید کی تشریح وتعبیر، حضورﷺ کی ذاتی پسند وناپسند، آپ کی سیرت وغیرہ۔

سنت کے برعکس حدیث میں اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔ اس لیے کہ یہ انسانوں کی گواہی پر مبنی ہے ، جس میں غلطی کا امکان موجود ہے۔ اس لیے حدیث کو لازماً، قرآن وسنت اور عقل وفطرت کی روشنی میں سمجھانا چاہیے۔

سنت امت مسلمہ میں متفقہ طور پر چلی آ رہی ہے جب کہ حدیث اصلاً ان اہلِ علم کی فنی ضرورت ہے۔ جو دین میں تحقیق کاکام کر رہے ہو۔

ایمان: دین کا باطن

خدا کی طرف سے جو دین ہمیں دیا گیا ہے اس کا باطن یعنی اس کی روح ایمان ہے۔ قرآن کے مطابق پانچ چیزوں پر ایمان لازم ہے۔

اللہ پر ایمان، فرشتوں پر ایمان، نبیوں پر ایمان، کتابوں پر ایمان اور روزِ جزا پر ایمان۔

اسلام : دین کا ظاہر

پانچ چیزیں ایسی ہیں جو ایک مسلمان کو غیر مسلموں سے ممتاز کرتی ہیں۔ کیونکہ یہ وہ خالص مذہبی طریقے ہیں جنہیں صرف مسلمان ہی ادا کرتے ہیں۔ یہ پانچ چیزیں ایک انسان کی زندگی میں اسلام کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس لیے قرآن مجید نے دین کی ان واضح علامات کو بھی لفظ ’’اسلام‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ یہ پانچ چیزیں درج ذیل ہیں۔

1۔اس بات کی شہادت دی جائے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اس کے رسول ہیں۔

2۔نماز قائم کی جائے۔

3۔زکواۃ ادا کی جائے۔

4۔رمضان کے روزے رکھے جائیں۔

5۔بیت الحرام کا حج کیا جائے۔

دین کا حق: عبادت

پروردگار نے انسان کو اس دنیا میں بنیادی طو رپر اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ اپنی اختیاری زندگی میں اس کی عبادت کرے۔ عبادت کے معنی ہیں پروردگار کے سامنے عاجزی اور پستی اختیار کرنا، اس کا شکر ادا کرنا، اس سے محبت کرنا اور اسی سے خوف کھانا، اسی کے بھروسے پر چلنا، اپنا ہر معاملہ اس کے سپرد کرنا اپنے پورے وجود کو اس کے حوالے کرنا اور اس کی رضا کا طالب ہونا۔ یہی دین کی حقیقت ہے۔

گویا اپنے آپ کو اندرونی وبیرونی طور پر پروردگار کا فرماں بردار بنانا، اس کی پرستش کرنا اور اس کی اطاعت کرنا یہاں تک زندگی کا ہر پہلو اور ہر گوشہ اس کے اندر سما جائے۔ یہی عبادت ہے اور یہی دین کا حق ہے۔

دین کو قائم رکھنا اور اس میں کمی بیشی نہ کرنا

قرآن مجید ہمیں ہدایت کرتا ہے کہ ہم دین کی تمام تعلیمات کو اپنی پوری زندگی میں برقرار رکھیں ، اسے بالکل درست رکھیں اور اس میں کوئی تفرقہ پیدا نہ کریں۔ تفرقے کا مطلب ہے دین کی کسی بات میں کمی کرنے یا اسے اپنی حد سے بڑ ھاتے ہوئے اپنے آپ کو امت مسلمہ سے کاٹ ڈالنا۔

الحکمۃ

دین میں خدا کی عبادت کے لیے جو مابعد الطبیعاتی الٰہیاتی اور اخلاقی بنیادیں بیان ہوئی ہے وہ الحکمۃ ہیں۔

  الکتاب یا شریعت

دین جن قوانین کا پابند کرتا ہے ان کو قر آن مجید میں الکتاب یا شریعت کہا گیا ہے۔

دین کا مقصد: تزکیہ

قرآن مجید کے مطابق دین کا مقصد تزکیہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ہر طرح کی گندگی سے پاک کیا جائے اور اس کے فکر اور عمل کو صحیح راستہ دکھا کر ترقی دی جائے۔

اللہ کے نبی انسانوں کا تزکیہ کرنے کے لیے ہی اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔ جنت کی نعمتیں انہی لوگوں کے لیے ہیں جو دنیا کی زندگی میں اپنا تزکیہ کریں۔

صحیح رویہ: ہر ایک کے لیے خیرخواہی

یہ دین ہر انسان میں یہ رویہ پیدا کرنا چاہتا ہے کہ وہ ہر جگہ، ہر معاملے میں سراپا خیرخواہ ہو، اس کے دل میں کسی کے لیے کدروت نہ ہو، وہ ہر وقت اپنے اور دوسروں کے بھلے کا سوچے۔

عمل میں مطلوب رویہ: احسان

قرآن مجید کے مطابق دین پر عمل کرنے میں مطلوب’’احسان‘‘ کا رویہ ہے۔ احسان کا مطلب ہے کسی کام کو اس طرح بہترین طریقہ سے کرنا کہ اس کی روح اور اس کے قلب دونوں میں پورا توازن ہو اور انسان اس کام کے دوران میں اپنے آپ کو خداکے حضور میں سمجھے۔

ایمان کے پانچ تقاضے

قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مسلمان پر ایمان کے دو تقاضے تو ایسے ہیں جن کو وہ ہر وقت ہر حال میں پورا کرے گا۔ ایک عمل صالح جس کا سادہ مطلب ہے دین کے ہر فرض کو پورا کرنا، اور ہر حال میں نیکی ہی کی زندگی اختیار کرنا، اپنے اور معاشرے کے لیے مثبت کام اور بھلائی کے کام سرانجام دینا۔ دوسرا تواصی بالحق اور تواصی بالصبر، جس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے ماحول میں ایک دوسرے کو حق اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کی جائے۔ اس کو قرآن مجید نے ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ بھی کہا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جو باتیں عقل اور فطر ت یا دین میں مثبت ہیں ، اپنے قریبی ماحول میں لوگوں کو اس کی طرف راغب کیا جائے۔ اور جو باتیں منفی ہیں ، ان سے لوگوں کو منع کیا جائے۔

درج بالا دو تقاضوں کے علاوہ تین تقاضے ایسے ہیں جن کی ضرورت ایک مسلمان کو زندگی میں پیش آ سکتی ہیں۔ ان میں سے پہلی بات یہ ہے کہ اگر کسی ایک مسلمان کے لیے اسلام پر قائم رہنا یا اس پر عمل کرنا ممکن نہ رہے تو اسے چاہیے کہ وہ جگہ چھوڑ کر ایسی جگہ چلا جائے جہاں وہ آسانی کے ساتھ دین پر عمل پیرا رہ سکے۔ اس کو قرآن کی اصطلاح میں ’’ہجرت‘‘ کہا جاتا ہے۔

دوسرا تقاضا یہ ہے کہ دین کے فروغ یا اس کی حفاظت، یا اس کے کسی بھی پہلو کی کوئی نہ کوئی خدمت کی جائے اور اس کے لیے کوئی نہ کوئی کوشش اور جدوجہد کی جائے۔ اسے قرآن میں اللہ کی ’’نصرت‘‘ کہا گیا ہے۔ قرآن مجید نے اس کے لیے جہاد کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔

تیسرا تقاضا یہ ہے کہ ایک بندہ مومن کو ہر وقت انصاف کی راہ پر قائم رہنا چاہیے ، ہر جگہ اور ہر وقت اسے انصاف سے کام لینا چاہیے ، انصاف کی شہادت دینی چاہیے اور انصاف کرنا چاہیے۔

یہ کل پانچ تقاضے وہ ہیں جو ہمارا ایمان ہم سے کرتا ہے۔

علماء کی ذمہ داری: انذار

دین مسلمانوں سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ان کی ہر جماعت سے کچھ افراد نکلیں ، دین کا علم حاصل کریں ، دین کی سمجھ حاصل کریں ، اپنے لوگوں کو آخرت کے عذاب سے خبردار کریں ، دین پر عمل کرنے کی صورت میں پروردگار کی نعمتوں سے لوگوں کو باخبر کریں اور اس کی نافرمانی کی صورت میں لوگوں کو آخرت کی عذاب سے ڈرائیں۔ قرآن کی اصطلاح میں اسے ’’انذار‘‘ کہا جاتا ہے۔ پہلے امتوں میں یہ ذمہ داری انبیاء کی تھی۔ ہماری امت میں یہ علماء کی ذمہ داری ہے۔

الحکمۃ یعنی ایمانیات کے مباحث

اس عنوان کے تحت درج ذیل سات چیزیں اسلام کا موضوع ہے۔

ایمان با اللہ

قرآن مجید کے مطابق اس کائنات کا خالق ومالک، اس کی پرورش کرنے والا، اس کی ہر چیز پر قادر ، کامل حکمت وتدبیر کی حامل ایک ایسی ہستی ہے جو مسبب الاسباب ہے۔ اس لیے صرف وہی عبادت کے لائق ہے اور صرف وہی الٰہ ہے۔

ہم اسے ، اس کی ذات کے حوالے سے نہیں جان سکتے۔ البتہ اسے اس کی صفات کے حوالے سے جان سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے ہر جگہ اس کی ہستی کا تعارف اس کی صفات کے حوالے سے کیا ہے۔ گویا پروردگار کو اس کی ان تمام صفات کے ساتھ ماننا لازم ہے۔ جن کا تذکرہ قرآن مجید نے کیا ہے۔

اللہ پر ایمان ہی اس کائنات کی روشنی ہے۔ یعنی اللہ پر ایمان کے بعد کائنات اور انسان کا معمہ مکمل طور پر سمجھ میں آ جاتا ہے اور فکر وعمل کے حوالے سے ایک واضح راستہ متعین ہوجاتا ہے۔ ایمان با اللہ سے محروم ہوجانے کے بعد سب کچھ محض ایک تاریکی ہے ، جس میں کچھ سجھائی نہیں دے سکتا ہے۔

نبوت ورسالت

پروردگار نے اس دنیا میں انسان کی رہنمائی کے لیے اسے عقل وضمیر کی نعمت سے نوازا اور کائنات کے جو راز اور زندگی کے جوراستے اسے محض عقل وضمیر کے سہارے سے معلوم نہیں ہو سکتے تھے ، ان میں انسان کی رہنمائی کے لیے کچھ انسانوں پر وحی کی صورت میں ہدایت نازل کی تاکہ وہ لوگوں کو حق بتائیں۔ انہیں اللہ کے نبی کہا جاتا ہے۔

ان انبیاء میں بعض ’’رسالت‘‘ کے منصب پر بھی فائز ہوئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول درحقیقت نبی کی طرح صرف داعی ہی نہیں ہوتا ، بلکہ وہ اپنی قوم کے لیے خدا کی عدالت بن جاتا ہے۔ عام منکرینِ حق کو تو پروردگار قیامت کے دن سزا دے گا لیکن رسول کے منکرین کے لیے یہی سزا دنیا میں بھی ان پر نافذ کر دی جاتی ہے اور ان پر حق کا غلبہ قائم ہوجاتا ہے۔ گویا ان کے لیے ایک چھوٹی سی قیامت اسی دنیا میں برپا کر دی جاتی ہے۔

ان رسولوں کو اللہ تعالیٰ ایسی روشن نشانیوں یعنی بینات کے ساتھ اس دنیا میں بھیجتے ہیں کہ سب لوگوں پر دو جمع دو چار کی طرح حق واضح ہوجاتا ہے ، اور پھر کسی کے پاس حق نہ ماننے کے لیے کوئی بہانہ باقی نہیں رہتا۔ اسے قرآن مجید کے الفاظ میں ’’شہادت علیٰ الناس‘‘ کہا جاتا ہے۔

حضرت محمدﷺ اس سلسلے کے آخری نبی اور رسول تھے۔ آپ کی بعثت اور اتمام حجت کے بعد آپ کے مخاطبین میں سے ایک ایک منکر حق پر اسی دنیا میں قیامت صغرٰی برپا ہوگئی۔ سرزمین عرب پر حق کا غلبہ مکمل ہو گیا اور ایک مشرک بھی سرزمین عرب پر باقی نہ رہا۔

قرآن مجید بھی اپنی نوعیت کے اختیار سے اسی قیامتِ صغرٰی کا بیان ہے ، جو رسالت مآبﷺ کے ذریعے سے جزیرہ نمائے عرب میں برپا ہوئی۔

آخرت

اس کائنات میں ہر چیز جوڑ ا جوڑ ا بنائی گئی ہے۔ جوڑ ے کا ہر حصہ دوسرے کی کمی کو پورا کرتا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہوتے ہیں۔ چنانچہ دنیا کا جوڑ ا آخرت ہے۔ یہ دنیا انسان کے لیے دارالامتحان ہے۔ یہ اس بات کی آزمائش ہے کہ انسان اپنے ارادہ واختیار کو صحیح طریقے سے استعمال کرتا ہے یا نہیں اور پروردگار کی سیدھے راستے پر، جو درحقیقت انسان کے لیے بھی امن وسکون اور کامیابی کا واحد راستہ ہے ، اپنی آزادانہ مرضی سے چلتا ہے یا نہیں۔ دنیا کے ہر عمل کا حساب وہی ہو گا۔ اس مرحلے سے گزرنے کے بعد کامیاب انسانوں کو اللہ کی ابدی بادشاہت میں جگہ ملے گی اور منکرینِ حق کو سزا ملے گی۔

جبروقدر

اس دنیا میں انسان نہ مکمل آزاد ہے اور نہ نا بالکل بے اختیار۔ اگر انسان کو بالکل بے اختیار بنادیا جائے تو پھر امتحان کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ اگر انسان کو بالکل آزاد چھوڑ دیا جائے تو دنیا میں بدترین فساد رونما ہوجائے ، بلکہ شاید انسان ایک دوسرے کو نیست ونابود ہی کر دیں۔

جن جن پہلوؤ ں سے انسان مجبور ہے ان میں اس کا کوئی امتحان نہیں ہو گا۔ حساب کتاب اور مواخذہ انہی پہلوؤں میں ہو گا جہاں انسان با اختیار ہے اور وہ اپنے اختیار کو استعمال کرتا ہے۔

خیر وشر

یہ اصطلاح دومنعوں میں استعمال کی جاتی ہے اور دونوں میں فرق ہے۔

اس کے اصل مفہوم کے اعتبار سے خیر کا مطلب ہے وہ نعمت اور آسانی جو انسان کو اس دنیا میں حاصل ہو، اور شر کا مطلب ہے وہ تکلیف اور سختی جو انسان پر اس دنیا میں آئے۔ قرآن مجید کے مطابق ہر نعمت اور ہر تکلیف پروردگار کی جانب سے ہے تاکہ ہر طرح کے حالات میں انسان کی آزمائش ہو۔ اس مفہوم کے اعتبار سے خیروشر دونوں پروردگار کی جانب سے انسان کی آزمائش کے لیے ہیں۔

خیروشر کا دوسرا مفہوم ہے نیکی اور بدی۔ اس معنی میں اسے عربی زبان میں بہت کم استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم اردو میں اس کو عام طور پر اسی معنی میں استعمال کیا جاتا ہے اس لیے اس کا یہ مفہوم بھی واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ پروردگار نے ساری کائناتِ حق پر یعنی نیکی پر بنائی ہے۔ بدی اور گناہ صرف اس وقت جنم لیتی ہے جب انسان اپنے اختیار کو، جو اس دنیا میں اسے ملا ہے ، غلط طریقے سے استعمال کر لیتا ہے۔

سننِ الہیہ

جس طرح پروردگار اس مادی دنیا کو اٹل اور غیر متبدل قوانین کے ذریعے سے چلا رہا ہے ، اسی طرح انسان کو ارادہ واختیار دینے سے جو صورت حال جنم لیتی ہے اس کے لیے بھی پروردگار نے اٹل قوانین بنائے ہیں ، جنہیں قرآن مجید ’’سنت اللہ‘‘ کہتا ہے۔ قرآن مجید میں ایسے کئی سنن کا ذکر ہے۔ اس ضمن میں رسول کی بعثت کے ساتھ خدا کی جو سنت عمل میں آتی ہے ، اس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ یہاں مناسب محسوس ہوتا ہے کہ بات واضح کرنے کے لیے کچھ اور مثالیں دی جائیں۔

پروردگار کی ایک سنت یہ ہے کہ وہ اس دنیا میں کسی بھی برائی کو اس حد سے آگے بڑ ھنے کی اجازت نہیں دیتا جہاں وہ انسانیت کی بقا اور توحید کے پیغام کے لیے خطرہ بن جائے۔ بلکہ اس سے پہلے ہی اس برائی کو کچھ اور گروہوں کے ذریعے سے روک لیتا ہے۔ تاکہ انسانیت کا قافلہ بلحاظ مجموعی اپنی منزل کے راستے پر گامزن ہو سکے اور دنیا سے حق کا پیغام نہ مٹنے دیا جائے۔ (سورۃ البقرہ آیت251)

اسی طرح پروردگار کی ایک اور سنت یہ ہے کہ اس دنیا کے اندر جو لوگ اپنے ارادہ واختیار کو اس حد تک غلط استعمال کر لیتے اور برائی کی مداخلت میں اس حد تک آگے بڑ ھ جاتے ہیں کہ پروردگار اپنے علم کے مطابق یہ جان لیتے ہیں کہ اب ان کے پلٹنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہا تو ایسے لوگوں کے دلوں پر مہر لگادی جاتی ہے۔ پھر ان سے حق کی طرف پلٹنے کی صلاحیت چھین لی جاتی ہے اور یہ لوگ جیتے جی شیاطین بن کر باقی انسانوں کے لیے ایک آزمائش بن جاتے ہیں۔ قرآن مجید میں اسے ’’ختم قلوب‘‘ کہا جاتا ہے۔ (سورہ یونس آیت 74۔سورہ ابراہیم آیت27۔سورہ بقرہ آیت7)

اسی طرح اللہ کی ایک اور سنت یہ ہے کہ جب کوئی انسان گناہ کے فوراً بعد سچے دل سے توبہ کر لیتا ہے تو پروردگار اس پر نظر کرم فرما کر اس کی توبہ ضرورقبول کر لیتے ہیں۔

اخلاقیات

بنیادی انسانی اخلاقیات اسلامی فکروفلسفہ کا جزو ہیں۔ یہ سب باتیں پروردگار نے پہلے ہی سے انسان کی فطرت میں رکھی ہیں اور قرآن مجید میں ان کے حوالے سے نصیحتیں کی گئی ہیں۔ ان کی یاددہانی اس لیے کی گئی ہے تاکہ انسان اپنی فطرت کی اس آواز کو نہ بھولے اور ہر وقت اپنے ضمیر کے مطابق چلتا رہے۔ مثلاً ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرنا، رشتہ داروں کو اپنا حق دینا، محتاج اور مسافر کی مدد کرنا، میانہ روی اختیار کرنا، انفاق کرنا، حدود آشنابن کر رہنا، خوش اخلاقی سے پیش آنا، عدل وانصاف سے چلنا، عہد کو پورا کرنا۔ اگر انسان نے اپنی فطرت کو بالکل ہی خراب نہ کر لیا ہو تو ان تمام امور کے بارے میں ا س کا ضمیر بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہ سب ہدایات خود اس کے اور تمام انسانیت کے مفاد میں ہیں۔

الکتاب یعنی دین کے قوانین

اس عنوان کے تحت درج ذیل نو چیزیں اسلام کا موضوع ہیں :

قانونِ عبادات

لازمی عبادات میں روزانہ پانچ وقت کی نماز، رمضان میں روزے رکھنا اور استطاعت رکھتے ہوئے عمر میں ایک مرتبہ حج بیت اللہ کرنا اور زکواۃ ادا کرنا شامل ہیں۔ ان کے علاوہ انفاق فی سبیل اللہ، اعتکاف وقربانی اور عمرہ بھی عبادات کا حصہ ہیں۔

درج بالا عبادات میں سے پہلی چار قرآن مجید کی رو سے لاز م ہیں اور ان کا عملی طریقہ ہمیں رسول اللہ کی سنت سے ملتا ہے۔ بعض لوگ مختلف مسالک کے درمیان معمولی فرق سے بڑ ے وہشت زدہ ہوجاتے ہیں ، جب کہ اس سے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سنت صرف وہی ہے جو ان تمام مسالک کے درمیان متفقہ ہے۔ مثلاً نماز کے اندر سنت وہی ہے ، جس پر مسالک متفق ہیں۔ یہ سنت ہمیشہ سے متفق علیہ چلی آ رہی ہے اور یہی لازمی ہے۔

قانون معاشرت

انسانی رشتوں کے متعلق قرآن مجید میں بہت تفصیلی احکام دیے ہیں۔ قرآن نے میاں بیوی کے رشتوں کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے جو نکاح کے ذریعے سے وجود میں آتا ہے اور جس سے خاندان کی بنیاد پڑ تی ہے ، اس رشتے کی حفاظت کے لیے اسلام نے زنا پر پابندی لگائی، مردوں اور عورتوں کے میل جول کے آداب سکھائے ، خاندان کے اندر ہم آہنگی قائم رکھنے کے لیے قوانین بنائے اور میاں بیوی کے درمیان جھگڑ وں کے تصفیہ کے لیے ہدایات دیں۔

اگر میاں بیوی کے درمیان موافقت پیدا نہ ہو تو اسلام نے طلاق اور خلع کا دروازہ بھی کھلا رکھا ہے۔ یہ سارے قوانین ایک صالح معاشرت برپا کرنے کے لیے لازم ہیں۔

قانون معیشت

دنیا کی زندگی میں انسان کو مال ودولت آزمائش کی عرض سے دی گئی ہے۔ اس مال ودولت کے برتنے کے لیے اللہ پروردگار عالم نے سات ہدایات نازل فرمائی ہیں۔ پہلی یہ کہ ہر مسلمان کواپنے سرمایہ میں لازماً زکواۃ دینی چاہیے۔ دوسرا یہ کہ جس مال ودولت کا کوئی مسلمان جائز طریقے سے مالک بنایا ہے اور اس میں سے اس نے زکواۃ ادا کر دی ہے اس کی یہ ملکیت کا حق ہے۔ شریعت کے کسی حکم کی تنفیذ سے قطع نظر اس کا مال ودولت اس سے نہیں چھینا جا سکتا۔ تیسرا یہ کہ ریاست میں معیشت کے ضمن میں ایک اجتماعی ادارے (پبلک سیکٹر) کا قیامِ عمل میں آنا چاہیے ، تاکہ جو ملکیتیں انفرادی نہ ہوں یا انفرادی ملکیت میں نہیں جا سکتے ان کا انتظام کیا جائے اور اس طرح سے قرآن کے مدعا کے مطابق دولت کو چند ہاتھوں میں مرکوز ہونے سے روکا جائے۔ چوتھا اصول یہ ہے جو فرد ذہنی یا جسمانی کمزوری کی وجہ سے اپنے مال ودولت میں تصرف کا صحیح اہل نہ ہو، اس کے معاملے میں ریاست مداخلت کرے۔ پانچواں اصول یہ ہے کہ غلط طریقے سے دوسروں کا مال ہڑ پ کرنا مثلاً سود، دھوکہ دہی میں آلودہ ہر معاشی عمل منع ہے۔ چھٹا اصول یہ ہے کہ ہر اہم معاشی عمل، وصیت اور قرض کی لین دین کے لیے دستاویز لکھنی چاہیے اور اس پر گوا ہوں کے دستخط لینے چاہیں۔ ساتواں اصول یہ ہے کہ ہر فوت شدہ مسلمان کی جائیداد اور ملکیت کی، قرآن مجید میں بتائے گئے طریقے کے مطابق، ورثاء میں تقسیم ضروری ہے۔

قانون سیاست

اسلام کے قانون سیاست کا بنیادی اصول یہ ہے کہ اصل اطاعت اللہ اور رسولؐ کی یعنی قرآن وسنت کی ہے۔ اس اطاعت کے بعد اور ا س تحت موجود حکمرانوں کی اطاعت لازمی ہے۔ ریاست کی اصل ذمہ داری عدل وانصاف کا قیام ہے۔ ریاست کے دینی فرائض یہ ہیں کہ اس میں نماز قائم کی جائے ، زکواۃ ادا کی جائے ، بھلائی کو رواج دیا جائے اور برائی سے روکا جائے۔ اس تنظیم کے اعتبار سے یہ ایک جمہوری ریاست ہونی چاہیے جس میں حکمرانوں کے انتخاب میں عوام کی رائے فیصلہ کن ہو۔ اس ریاست کے شہری اگر غلط کام نہ کریں ، تو حکومت ان کے کسی معاملے میں کوئی مداخلت نہیں کرسکتی اور انہیں تمام انسانی حقوق دینے کی پابند ہے۔

اس ریاست کے شہریوں کا یہ فرض ہے کہ وہ حکومت کی اطاعت کریں ، قانون پسند شہری بن کر رہیں۔ اگر ریاست ان سے جانی یا مالی قربانی کی درخواست کرے تو وہ پورے خلوص کے ساتھ یہ قربانی دیں۔

اس ریاست میں غیر مسلم باشندے اس کے شہری کے حیثیت سے باقاعدہ ایک معاہدے اور دستور کے تحت رہ سکتے ہیں۔ جب وہ ریاست کے آئین وقوانین کی حیثیت سے قرآن وسنت کی بالادستی مان لیں تو انہیں ہر وہ حق دیا جائے گا جو ملک کے مسلمان شہریوں کو حاصل ہے۔

قانون تبلیغ

دین کا ایک بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ جو لوگ اس دنیا میں حق کو اختیار کریں وہ دوسروں کو بھی اس کی تبلیغ ونصیحت کریں۔

تبلیغ کی مرکزی کتاب، جس کو تبلیغ کے کام میں مرکز ومحور کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے ، قرآن مجید ہے۔ تبلیغ کی ہر سرگرمی اس کتاب کے سمجھنے سمجھانے پر مرکوز ہونی چاہیے۔ عام مسلمانوں کے لیے تبلیغ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول میں ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کریں اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کریں۔ اس لحاظ سے ایک مسلمان کے لیے تبلیغ کا اصلی مقام اس کے اردگرد کا ماحول یعنی اس کا گھر، دفتر، ادارہ اور محلہ ہے۔ ہر انسان کو اپنی صلاحیت کے مطابق دین کی دعوت کاکام کرنا چاہیے۔ جہاں جہاں انسان کا دائرہ اختیار ہو، وہاں برائی کو قانون کے ذریعے روکنا بھی لازم ہے اور جہاں اس کا اختیار نہ ہو وہاں وہ تلقین ونصیحت سے آگے ہر گز کوئی اقدام نہ کرے۔

حکمرانوں کے لیے تبلیغ کی صورت یہ ہے کہ وہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے خصوصی انتظام کریں ، جس کے ذریعے وہ معاشرے میں بھلائی کو فروغ دیں اور کلچر کی تبدیلی کے ذریعے سے ہر برائی کا استیصال کریں۔

علماء کی سطح پر دعوت وتبلیغ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ پہلے قرآن وسنت کی بہترین سمجھ پیدا کریں ، اس کے بعد اپنی قوم اور معاشرے کو دین سمجھانے کے ذریعے سے نصیحت کریں۔

دعوت کا سب سے پہلا ہدف معاشرے کے بالادست طبقات ہوتے ہیں۔ یعنی سب سے پہلے ان لوگوں کا اپنا ٹارگٹ بنانا چاہے جنہیں کسی نہ کسی پہلو سے اپنی قوم میں رسوخ حاصل ہو۔ اللہ کے پیغمبروں نے بھی ہمیشہ ارباب اثر واقتدار ہی کو اپنا ہدف بنایا اور ان سے مکمل مایوسی کے بعد ہی ان کو چھوڑ ا۔

 تبلیغ کے ضمن میں ہمیشہ مخاطب کی ذہنی استعداد کا خیال رکھنا چاہیے۔ اسی طرح ہمیشہ اس کی نفسیات کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ دین کو مشکل نہیں بلکہ آسان بنا کر پیش کرنا چاہیے۔ دوسروں کی محبوب شخصیتوں کا ذکر برے انداز سے نہیں کرنا چاہیے۔ دوسروں کی عزت وتکریم کرنی چاہیے کیونکہ اتمام حجت تو صرف رسول اللہ ﷺ ہی کی ذات سے ہو سکتا ہے۔ ہمیشہ بات مناسب موقع پر کرنی چاہیے۔ لوگوں سے ان کی زبان میں بات کرنی چاہیے۔ داعی کی بات بہت خوب صورت اور دل نشین ہونی چاہیے۔ مناظرہ بازی میں کبھی نہیں الجھنا چاہیے۔

قانون جنگ

اسلامی لٹریچر میں عام طور پر جنگ کے لیے جہاد کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ حالاں کہ یہ ایک وسیع المعنیٰ لفظ ہے جس کے اصل معنی جدوجہد کے ہیں۔ جنگ کے لیے قرآن مجید نے قتال کا لفظ استعمال کیا ہے۔

قتال کا اعلان صرف ایک مسلمان حکومت ہی کرسکتی ہے۔ کوئی فرد یا تنظیم قتال کا اعلان کرنے یا فتویٰ دینے کی مجاز نہیں۔ اس لیے کہ قتال کی اجازت ریاست مدینہ بننے کے بعد دی گئی۔ قتال کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت اس کا لحاظ رکھے کہ وہ افرادی اور اسلحی قوت کے لحاظ سے جنگ جیتنے کی استطاعت رکھتی ہو۔ ریاست مدینہ کے ابتدائی دور میں ایک اوردس کی نسبت پر بھی جنگ کرنے کا حکم تھا۔ بعد میں اس میں تحفیف کر کے ایک اور دو کی نسبت کر دی گئی۔ قتال کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ قتال جس کے مکلف حضورﷺ بحیثیت رسول اور آپ کے ساتھ صحابہ کرامؓ تھے۔ اس کے تحت آپ نے بنی اسماعیل سے شرک کا خاتمہ کیا، جزیرہ نمائے عرب کو اسلام کے زیرِ نگین کیا اور بیت اللہ سے شرک وبت پر ستی کی جڑ ہمیشہ کے لیے کاٹ دی۔ دوم ظلم کے خلاف قتال یعنی دنیا میں جہاں جہاں مسلمان یا عام انسان ظلم کا شکار ہوں یا کسی مسلمان ملک پر حملہ کیا جائے۔ کسی ملک کے ساتھ معاہدہ امن کی موجودگی میں اس کے خلاف جنگ لڑ نا منع ہے۔

حدود تعریزات

انسان کے لیے ارادہ واختیار کی آزادی بہت بڑ ا اعزاز ہے۔ تاہم اس کے غلط استعمال سے اس زمین میں فساد بھی برپا ہوجاتا ہے اور جرائم بھی جنم لیتے ہیں۔ ان جرائم میں قرآن مجید نے پانچ جرائم کی سزا بتا دی ہے۔ باقی جرائم کے متعلق اسلامی حکومت کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنے حالات کے مطابق سزاؤوں کا قانون بنائے۔

وہ لوگ جو قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر ریاستی نظام درہم برہم کرنے کی کوشش کریں۔ مثلاً زبا لجبر، بدکاری کو پیشہ بنانا، کھلی بدمعاشی، بھتہ خوری، گینگ بنا کر جرائم میں ملوث ہوکر امن وامان کا مسئلہ پیدا کرنا۔ ایسے سب لوگوں کی سزا یہ ہے کہ وہ عبرت ناک طریقے سے قتل کیے جائیں ، یا سولی چڑ ھائے جائیں یا ان کے ہاتھ پاؤں بے ترتیب کاٹ ڈالے جائیں ، یا انہیں جلاوطنی یا قید کی حالت میں رکھا جائے۔ اسی قانون کے تحت حضورﷺ نے زنا کے بعض ایسے مجرموں کو، جنہوں نے آوارہ منشی اور جنسی بے راہ روی کو اپنا معمول بنا لیا تھا، رجم کی صورت میں عبرت ناک موت کی سزا دی تھی۔

درج بالا جرم کے علاوہ چار جرائم کی سزائیں بھی اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرما دی ہیں۔ یہ سزائیں صرف اسی صورت میں ہیں جب مجرم اپنے حالات کے لحاظ سے کسی رعایت کا مستحق نہ ہو اور اس سے جرم بالکل آخری صورت میں سرزد ہوجائے۔ ان جرائم کی ادنیٰ صورتوں کی سزا کا معاملہ بھی اسلامی حکومت کے ذمے ہے۔ یہ سزائیں مسلمانوں کے ملک میں ایک تدریج کے ساتھ اس وقت نافذ کی جائیں گی جب اس کے لیے عمومی فضا ہموار ہو چکی ہو اور بنیادی اجتماعی اخلاقیات لوگوں میں راسخ ہو چکی ہوں۔ کسی انسان کو جان بوجھ کر قتل کرنے کی سزا قصاص ہے۔ البتہ اگر مقتول کے ورثاء دیت یعنی خون بہایا جرمانے پر رضامند ہوجائیں تو اس کی بھی اجازت ہے۔ اسی طرح اگر کسی انسان کو جان بوجھ کر زخم لگایا جائے تو اس کی سزا بھی اتنا ہی زخم لگانا ہے۔ البتہ اگر کوئی مدعی مجرم کو معاف کرنا چاہے یا اس سے جرمانہ لینا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے۔ اگر کوئی شخص غلطی سے قتل ہوجائے تو قاتل پر دیت یعنی جرمانہ اور دومہینے کے لگاتار روزے رکھنا ہے ، سوائے اس کے کہ مقتول کے ورثاء اسے معاف کر دیں۔ غلطی سے کسی کو زخم لگانے کا بھی یہی اصول ہے۔

خون بہا کی کوئی مقدار قرآن مجید نے مقرر نہیں فرمائی۔ بلکہ اسم نکرہ (common noun) کی شکل میں بیان کر کے معروف یعنی معاشرتی رسم ورواج پر چھوڑ دیا ہے۔

چور کی سزا اس کا ہاتھ کاٹنا ہے۔ یہ سزا بھی اس چور کے لیے ہے جو اپنے حالات کے لحاظ سے کسی رعایت کا مستحق نہ ہو۔

زانی کی سزا سو کوڑ ے ہیں۔ یہ سزا بھی ان مجرموں کے لیے ہے جو کسی رعایت کے مستحق نہ ہوں۔ پاگل، بدھو، مجبور ، جرم سے بچنے کے لیے ضروری حفاظت سے محروم لوگوں اور ناقص اخلاقی تربیت یا عام معاشرتی اخلاق باختگی کی صورت میں اس سے کم تر سزا دی جائے گی۔

اگر کوئی شخص کسی مرد یا عورت پر زنا کی تہمت لگائے تو ایسی صورت اُس شخص کو ہر حال میں چار عینی گواہ پیش کرنا ہوں گے۔ اگر وہ یہ نہ کرسکا تو اسی کوڑ ے مارے جائیں گے اور اس کی گواہی آئندہ کسی معاملے میں قبول نہیں کی جائے گی۔

اگر میاں یا بیوی ایک دوسرے پر زنا کی تہمت لگائیں تو معاملے کا فیصلہ قسم سے ہو گا۔ درج بالا سب سزائیں ریاست کے غیر مسلم باشندوں پر نافذ نہیں ہو گی اس لیے کہ ان کا تعلق مذہب سے ہے۔ غیر مسلم اپنے لیے علیحدہ قوانین بھی بنا سکتے ہیں اور ان قوانین کو بھی اختیار کرسکتے ہیں۔

کمزور صحت والے فردکو کوڑ وں کی سزا میں رعایت دی جائے گی۔

اسلام نے ثبوت جرم کے لیے کسی خاص طریقے کی پابندی لازم نہیں ٹھہرائی۔ ہر وہ طریقہ، جس سے جرم ثابت ہو سکتا ہو، کام میں لایا جا سکتا ہے۔ اس سے صرف یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ کسی انسان پر زنا کی تہمت لگانے کے لیے چار عینی گواہ ضروری ہیں۔

خوردونوش سے متعلق ہدایات

قرآن مجید کا اصولی قاعدہ یہ ہے کہ پروردگار کی عطا کردہ اشیاء میں ہر طیب وپاکیزہ چیز حلال ہے اور ہر قسم کی گندگی (خباثت) میں آلودہ چیز حرام ہے۔ ہر نشہ آور چیز گندگی ہے ، اسی لیے قرآن مجید نے شراب کو حرام قرار دیا ہے۔

جن چیزوں کو انسان عام طور پر کھاتے ہیں ، ان میں قرآن مجید نے بنیادی طور پر چار چیزیں حرام کر دیں ہیں : مردار، خون، خنزیر اور جس چیز پر ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ مردار سے مراد وہ جانور ہے جسے صحیح طریقے سے ذبح نہ کیا گیا ہو مثلاً گرکر، دم گھٹ کر، چوٹ لگ کر، سینگ الجھ کر مرنے والا اور درندے کا پھاڑ ا ہوا جانور بھی حرام ہے۔ خون سے مراد خون کے ساتھ ساتھ خون خواری بھی ہے۔ یعنی ہر وہ جانور حرام ہے جو دوسرے جانور وں کو چیر پھاڑ کر ان کا گوشت کھاتا اور خون پیتا ہے۔ چنانچہ تمام خون خوار پرندے اور درندے حرام ہیں۔

گدھے اور اسی قبیل کے دوسرے جانوروں سے انسان فطری طو رپر کراہت محسوس کرتا ہے ، اس لیے وہ اپنی خباثت کی بنا پر ممنوع ہیں۔

غیر اللہ کے نام کی تشریح کرتے ہوئے قرآن مجید نے ہدایت کی ہے کہ اگر کسی چیز پر خدا کانام نہ لیا جائے ، یا اسے کسی بت یا بزرگ کے لیے ، یا اس کے نام پر، یا اس کی پرستش گاہ پر ذبح کر دیا جائے تو وہ بھی حرام ہے۔

تمام سمندری جانور بغیر ذبح کے حلال ہیں۔

آداب وشعائر

اسے ہم دوسرے الفاظ میں اسلام کا کلچر بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ وہ آداب ہیں جو حضرت ابراہیمؑ اور ان کی اولادمیں بطور سنت ابراہیمی چلی آ رہی تھی مگر زمانہ سے ان میں گزرنے کے ساتھ ساتھ بعض چیزوں کو فراموش کر دیا تھا اور بعض امور میں کئی بدعات داخل ہوگئی تھیں۔ یہ آداب درج ذیل ہیں :

اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے پینا، ملاقات کے موقع پر السلام علیکم اور اس کا جواب، چھینک آنے پر الحمدللہ اور اس کے جواب میں یرحمک اللہ، نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت، نکاح، نکاح کا خطبہ، جانوروں کے ذبح کا طریقہ، مونچھیں پست رکھنا، زیرِ ناف کے بال کاٹنا، بغل کے بال صاف کرنا، لڑ کوں کا ختنہ کرنا، بڑ ھے ہوئے ناخن کاٹنا، داڑ ھی اور انگلیوں کاخلال کرنا، ناک منہ اور دانتوں کی صفائی، استنجا، میت کا غسل، تجہیز وتکفین، تدفین، اذان واقامت، نماز کے لیے مساجد کا اہتمام، عید الفطر وصدقہ عیدالفطر، عیدالالضحیٰ اور عیدالالضحیٰ کی قربانی، ہدی اور اشہر حرم۔

یہ آداب وشعائر حضورا کرمﷺ نے صحابہ کرامؓ کو سکھائے۔ صحابہ کرامؓ نے بالاتفاق ان پر عمل کیا اور ان کے اجماع سے یہ سب امت مسلمہ میں متفق علیہ چلے آ رہے ہیں۔ جس کلچر میں درج بالا چیزیں شامل ہوں ، وہ اسلامی کلچر ہے۔

درج بالا صفات میں پورے دین کا ایک خلاصہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس دین سے متعلق کئی سوالات ذہن میں جنم لیتے ہیں ، چنانچہ آئندہ صفحات میں انہی سوالات کے جواب دیے جائیں گے اور درج بالا امور سے متعلق قرآن مجید کے حوالے بھی انہی سوالات کے ساتھ ساتھ پیش کیے جائیں گے۔ 

B