آج عام تعلیم یافتہ افراد دین کے متعلق بے شمار شکوک وشبہات کا شکار ہیں ، جب کہ ہمارے معاشرے میں ان شکوک کو رفع کرنے کا کوئی قابلِ اطمینان نظام موجود نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ انہی شکوک کے ساتھ زندگی بسر کرتے اور اپنے عمل اور دین کے درمیان خودساختہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت اردو زبان میں ایسی بے شمار کتابیں موجود ہیں جو دین کے کسی ایک پہلو پر قاری کو مکمل معلومات بھی فراہم کرتی ہیں اور اس کی خلش دور کرنے میں مدد بھی دیتی ہیں ، لیکن کوئی ایسی کتاب موجود نہیں ہے جو پورے دین کے متعلق اسے مکمل معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ، اس کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا شافی جواب بھی مہیا کرے۔
چنانچہ ضرورت اس امر کی تھی کہ ایک ہی کتاب میں ایک عام قاری کے سامنے دین کی جامع تصویر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ، اسے اس قابل بھی بنایا جائے کہ وہ نہ صرف اپنے مسائل حل کرسکے ، بلکہ دوسروں کو بھی اعتماد کے ساتھ قائل کرسکے۔
اسی ضرورت کے پیش نظر ایک مدت سے میری خواہش تھی کہ ایسی ہی ایک کتاب مرتب کروں۔ میری زندگی کا ایک عرصہ ایسا گزرا ہے جس میں ، میں نے سوال وجواب کے ذہنی عمل کے ذریعے سے اپنے شعور میں کسی چیز کا واضح تصور بنانے کی سعی کی ہے۔ میرے خیال میں بنیادی سطح پر تفہیم کے لیے یہ طریقہ سب سے زیادہ کارگر ہے۔ چنانچہ اس کتاب کی ترتیب میں ، میں نے یہی طریقہ اختیار کیا ہے۔
اس کتاب کی ترتیب میں ، میں نے قرآن وسنت اور اس کی تفہیم وتبین کے طور پر، حدیث رسولﷺ کو بنایا ہے۔ اسی طرح میں نے کسی ایک مکتب فکر کی پیروی سے بھی اجتناب کیا ہے۔ کسی معاملے میں ، تمام مکاتبِ فکر کا مطالعہ کرنے کے بعد، میں نے جس رائے کو بھی قرآن وسنت کے مطابق سمجھا، اس کے حق میں اپنے دلائل دے دیے ہیں۔ البتہ جن فروعی مسائل میں اس وقت مختلف گروہوں کے درمیان بحث وتمحیص برپا ہے ، اور ایک عام آدمی حیران وپریشان ہے ، ان میں سب گروہوں کی رائے اور دلائل کا ذکر کرنے کے بعد، میں اپنی ترجیح بھی بیان کر دی ہے۔
عین ممکن ہے کہ مجھے کہیں قرآن وسنت کا منشا معلوم کرنے میں غلطی لگی ہو، اس لیے میں ہر معاملے میں اپنی رائے میں غلطی کا امکان تسلیم کرتا ہوں۔ ایسے تمام معاملات میں ہمارے مہربان رب کا ہم پر اتنا کرم ہے کہ اگر خلوص کے ساتھ تفکر، تعقل اور تدبر کے باوجود قرآن وسنت کا حقیقی منشا سمجھنے میں کسی سے غلطی ہوجائے ، تو اس کو بھی ایک اجر مل جاتا ہے اور اگر وہ صحیح نتیجے تک پہنچ جائے تو اس کو دوگنا اجر مل جاتا ہے۔ چنانچہ مجھے بھی پورا یقین ہے کہ اگر کہیں مجھ سے غلطی سرزد ہوئی ہے ، تب بھی میں اپنے رب کی نظر کرم سے محروم نہ رہوں گا۔
اگر کسی معاملے میں آپ اپنے نقطۂ نظر کو میرے موقف سے ہم آہنگ نہ پاتے ہوں ، تو خوب غوروفکر کے بعد جس نتیجے تک بھی پہنچیں ، آپ اسی پر عمل کرنے کے مکلف ہیں۔
چونکہ یہ کتاب ایک عام تعلیم یافتہ مسلمان کو مدنظر رکھ کر لکھی گئی ہے۔ اس لیے اس کی زبان قصداً سادہ رکھی گئی ہے اور کتابوں کے زیادہ حوالے نہیں دیے گئے۔ پیچیدہ مباحث سے اجتناب کیا گیا ہے اور ہر بات کو اختصار کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس لیے علما کرام کو اس کتاب میں تشنگی نظر آئے ، تو یہ اس کتاب کے اسلوب کا تقاضا تھا۔ دعا ہے کہ رب کریم اس سعی کو دنیا اور آخرت میں مقبول فرمائے۔
اسلام کا ایک اصول یہ ہے کہ اس کی بنیاد آسانی پر ہے ، تنگی پر نہیں۔ اس حقیقت کو قرآن مجید میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ
یرید اللّٰہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر (سورۃبقرہ۔ آیت185)
’’اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے ، دشواری نہیں۔ ‘‘
وما جعل علیکم فی الدین من حرج(سورہ الحج۔ آیت78)
’’اللہ نے دین میں تم پر کوئی مشکل یا تنگی نہیں رکھی۔‘‘
قرآن مجید میں کئی دفعہ یہ بات کہی گئی ہے کہ اللہ ہر شخص کو اس کی بساط کے مطابق ہی تکلیف دیتا ہے۔ پروردگار انسان کو تنگی میں نہیں ڈالنا چاہتا اور یہ کہ اللہ انسان پر سے بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے کہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔
(المائدہ آیت6۔النساء آیت28اور کئی دوسری آیات)
اسی لیے حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ دین آسان ہے ‘‘ اور یہ اصولی ہدایت فرمائی کہ ’’لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرو، لوگوں کو مشکلات میں مت ڈالو‘‘۔ (صحیح بخاری)
اس حوالے سے حضورﷺ کے اسوہ حسنہ کو بیان کرتے ہوئے حضرت عائشہؓ نے کہا کہ دوجائز باتوں میں حضورﷺ اس بات کو اختیار کرتے جو آسان تر ہوتی۔
چنانچہ اس کتاب کے مطالعہ سے ایک عام قاری کو معلوم ہو گا کہ دین کا سمجھنا بھی آسان ہے اور اس پر عمل کرنا بھی آسان ہے۔
دین کے مشکل اور پیچیدہ سوالات کے جواب میں ، میں نے سب سے زیادہ استفادہ اپنے محترم استاد جناب جاوید احمد غامدی سے کیا ہے۔ اس کتاب میں آپ دین کا جو واضح تصور (Clear concept)دیکھیں گے ، اس میں سب سے زیادہ حصہ انہی کا ہے۔
ڈاکٹر محمد فاروق خان