HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Irfan Shehzad

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

احمدی حضرات کے استدلالات کا جائزہ

باب سوم


احمدیت کا بنیادی دعوی ٰمحمد رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی تسلسلِ نبوت کا ہے۔ دوسرا دعویٰ  پہلے دعویٰ کی بنیاد پرمرزا غلام احمد صاحب کے مسیح موعود ہونے کا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ خاتم النبیین کے اعلان سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کمالِ نبوت کا اختتام ہوا ہے، نہ کہ سلسلہ ٔنبوت کااختتام۔ ان کے مطابق، آپﷺکے بعد، آپ کے تابع، آپ سے کم تر درجے کے انبیا آتے رہیں گے، ایسے ہی جیسےبنی اسرائیل میں موسیٰ علیہ السلام جیسے صاحب شریعت رسول کے بعد ان کی شریعت کےتابع نبی بنی اسرائیل کی رہنمائی کے لیے آتے رہے۔

ان کے مطابق محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد مرزا غلام احمد صاحب سے پہلے بھی صاحبان وحی اس امت میں گزرے ہیں۔مرزا صاحب کا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے نبوت کا باقاعدہ دعویٰ بھی کیا اور اپنے نہ ماننے والوں کی تکفیر بھی کی۔ان کے مطابق یہ تکفیر کسی مسلمان کو اسلام کے دائرے سے خارج نہیں کرتی، لیکن احمدیت کے دائرے سے خارج کر دیتی ہے۔ تاہم یہ تاویل بے بنیاد معلوم ہوتی ہے۔ یہ معلوم ہے کہ کسی ایک نبی کا انکار بھی خدا کاانکار ہے،اس لیے یہ ممکن نہیں کہ مرزا صاحب کو خدا کا نبی ماننے والے، ان کا انکار کرنے والوں کو کسی طرح مسلمان باور کر سکیں۔ مرزا صاحب کی تحریروں سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ غیر احمدی مسلمانوں کے پیچھے نماز پڑھنے ،اہل کتاب کی طرح ان کے ساتھ مناکحت کو صرف ان کی خواتین تک محدود رکھنے کے قائل اور دنیا اور آخرت میں ان کے خسران کی پیشین گوئیاں کرتے تھے۔

آیت ختم نبوت کے بارے میں احمدی موقف

آیت ختم نبوت پر احمدی حضرات کے ملاحظات درج ذیل ہیں:

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا٘ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيّٖنَﵧ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمًا.(الاحزاب٣٣: ٤٠)
’’محمد تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، بلکہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔ اور اللہ ہر چیز سے با خبر ہے۔‘‘

احمدی حضرات کے ترجمے میں بھی’خاتم‘ کو مہر ہی کے معنی میں لیا گیا ہے:

’’نہ محمد تم میں سے کسی مرد کے باپ تھے نہ ہیں (نہ ہوں گے) لیکن اللہ کے رسول ہیں بلکہ (اس سے بڑھ کر) نبیوں کی مہر ہیں اور اللہ ہر ایک چیز سے خوب آگاہ ہے۔‘‘ (تفسیر صغیر)

اس ترجمے میں قوسین میں محمد رسول اللہ ﷺ کے  بارے میں آیندہ کے لیے بھی کسی مرد کے باپ ہونے کے امکان کی نفی کی گئی ہے۔ اس کی دلیل ان کی طرف سے یہ دی جاتی ہے کہ ’مَا کَانَ‘ کے الفاظ عربی زبان میں صرف یہی معنی نہیں دیتے کہ آپ ﷺ صرف اِس وقت کسی مرد کے باپ نہیں، بلکہ یہ معنی بھی دیتے ہیں کہ آیندہ بھی کسی مرد کے باپ نہیں ہوں گے، جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے: ’كَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا‘ (النساء٤: ١٥٨) ،یعنی اللہ تعالیٰ عزیز و حکیم تھا، ہے اور آیندہ بھی رہے گا۔

آیت کی تشریح میں صاحب ’’تفسیر صغیر‘‘  لکھتے ہیں:

’’ختم نبوت کے یہ معنے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا مقام سب نبیوں سے افضل ہے۔‘‘ [1]

پوری آیت کی تشریح احمدیت میں کچھ یوں کی جاتی ہے:

جب حضرت زید رضی اللہ عنہ کی مطلقہ حضرت زینب سے رسول اللہ ﷺ کے نکاح کا واقعہ پیش آیا تو لوگوں نے باتیں بنائیں۔ اپنے متبنیٰ کی مطلقہ سے شادی عرب کے رواج کے خلاف تھی، کیونکہ وہ اسے بھی حقیقی بہو کی طرح ہی سمجھتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم جو سمجھتے ہو کہ زید (رضی اللہ عنہ) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ہیں، یہ غلط ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو کسی بالغ جوان مرد کے باپ ہیں ہی نہیں اور صرف اِس وقت باپ نہیں، بلکہ آیندہ بھی کسی مرد کے باپ نہیں ہوں گے۔ اس اعلان پر قدرتًا   لوگوں کے دلوں پر  ایک اور شبہ پیدا ہونا تھا کہ مکہ میں تو سورۂ کوثر کے ذریعے سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تو اولاد نرینہ سے محروم رہیں گے، مگر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم محروم نہیں رہیں گے، لیکن اب سالہا سال کے بعد مدینہ میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نہ تو کسی بالغ مرد کے باپ ہیں نہ آیندہ ہوں گے، تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ سورۂ کوثر والی پیشین گوئی (نعوذباللہ) جھوٹی نکلی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت مشکوک ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’


و

َلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيّٖنَ

‘،  یعنی ہمارے اس اعلان سے لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہوا ہے، باوجود اس اعلان کے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، بلکہ خاتم النبيين ہیں، یعنی نبیوں کی مہر ہیں۔ پچھلے نبیوں کے لیے بطور زینت ہیں اور آیندہ کوئی شخص نبوت کے مقام پر فائز نہیں ہو سکتا، جب تک کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر اس پر  نہ لگی ہو۔ ایسا شخص آپ کا روحانی بیٹا ہو گا اور ایک طرف سے ایسے روحانی بیٹوں  کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں پیدا ہونے سے اور دوسری طرف اکابر  مکہ کی اولاد کے مسلمان ہو جانے سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ سورۂ کوثر میں جو بتایا گیا تھا، وہ ٹھیک تھا۔ ابو جہل، عاص اور ولید کی اولاد ختم کی جائے گی اور وہ اولاد اپنے آپ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کر دے گی اور آپ کی روحانی اولاد ہمیشہ جاری رہے گی اور قیامت تک ان میں ایسے مقام پر لوگ فائز ہوتے رہیں گے جس مقام پر کوئی عورت کبھی فائز نہیں ہو سکتی، یعنی نبوت کا مقام، جو صرف مردوں کے لیے مخصوص ہے... پس اگر خاتم النبيين کے یہ معنی کیے جائیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی بالغ مرد کے باپ نہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور آیندہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا تو یہ آیت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے اور سیاق و سباق سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہتا اور کفار کا وہ اعتراض، جس کا سورۂ کوثر میں ذکر کیا گیا ہے، پختہ ہو جاتا ہے۔


[

2]


اس بیان میں درج ذیل نکات ہیں:

·     كَانَ‘ کی خبر حال کے ساتھ مستقبل کے لیے بھی موثر ہے۔ ’’تفسیر صغیر‘‘  کے ترجمے میں بھی اسی کو اختیار کیا گیا ہے۔

·     لٰكِنْ‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی ابوّت کی نفی سے پیدا ہونے والے شبہ کہ اولاد نرینہ نہ ہونے کی بنا پر آپ کا نام لیوا کوئی نہ ہوگا، کو ’لٰكِنْ‘ کے بعد کے بیان سے دور کرنا ضروری ہے، چنانچہ اسے آپؐ کی روحانی اولاد کے مفہوم سے دور کیا گیا ہے جو آپ کے نام لیوا ہوں گے اور نبیوں کی شکل میں بھی آتے رہیں گے۔

·     ان آنے والے نبیوں پر آپ کی مہر تصدیق لگی ہوگی۔ مہر تصدیق کے لیے نقش پیدا کرتی ہے، جس پر آپ کی نبوت کا پرتو ہوگا، وہ گویاآپ کی طرف سےتصدیق شدہ نبی ہوگا۔

·     خَاتَم‘  کا لفظ مہر کے ساتھ زینت اور افضلیت کے اضافی مفاہیم بھی رکھتا ہے۔ اسی بنا پر آپ زینت الانبیا اور افضل الانبیا ہیں۔

·     ’خَاتَم‘ کے معنی اختتام کمال کے ہیں، نہ کہ مطلق اختتام کے۔ یعنی خاتم النبیین کا مفہوم کمال نبوت کا اختتام ہے، یعنی آپ جیسا کامل درجے کا کوئی اور نبی اب نہیں آئے گا، البتہ آپ سے کم تر درجے کے انبیا آ سکتے ہیں۔ اس پر دلیل یہ دی جاتی ہے کہ خاتم الشعرا  اور خاتم الاولیا جیسی تراکیب میں ’خاتم‘ سے مراد آخری نہیں،  بلکہ مجازی معنی کے اعتبار سے درجۂ  کمال میں آخری فرد مراد لیا جاتا ہے۔ 



نقد

پہلی بات یہ ہے کہ ’کَانَ‘ کی خبر میں دوام اور استقرار اس کا ایک پہلو ہے جو عام ہے نہ لازم، یعنی اسےہر جگہ لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً ’كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً ‘،’’لوگ ایک ہی امت تھے‘‘(البقرہ٢: 213)، تو کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ ایک ہی امت رہیں گے؟

 دوام و استقرار کا معنی خبر کی خصوصیت کے سبب سےپیدا ہوتا ہے، نہ کہ ’کَانَ‘ کے فعل میں ایسی کوئی خصوصیت ہے۔ اس لیے ختم نبوت والی آیت میں ’مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا٘ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ‘سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ رسول اللہ ﷺ آیندہ بھی کسی مرد کے باپ نہ ہو سکیں گے، یہ وہم آیت کے الفاظ سے پیدا نہیں ہوتا جس کے تدارک کے لیے رسول اللہﷺ کو روحانی باپ بنانے کا استدلال درست قرار دیا جا سکے۔ چنانچہ اس آیت کے بعد آپ اگر کسی نرینہ اولاد کے باپ بن جاتے اور وہ بلوغت کو بھی پہنچ جاتی تب بھی آیت کے بیان میں فرق نہیں پڑناتھا، کیونکہ مسئلہ زیر بحث میں معترضین کا یہ اعتراض رفع کرنا تھا کہ حضرت زید سمیت آپ کسی مرد کے باپ نہیں، زید کی مطلقہ آپ کی حقیقی بہو نہیں، اس لیے آپ پر بہو سے نکاح کا اعتراض لغو ہے۔ یہ آیت یہ خبر نہیں دے رہی کہ آپ مستقبل میں بھی کسی مرد کے باپ نہ ہوں گے، اس لیے سورۂ کوثر سے منسوب ’


اَبْتَر‘ والے طعنے کی تردید کا یہاں کوئی پہلو نہیں نکلتا۔یہ الگ بات ہے کہ آپ کسی مرد کے باپ نہ ہوئے، لیکن اس امر واقعہ کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں۔

حرف استدراک ’لٰكِنْ

احمدی حضرات کا حرف استدراک ’لٰكِنْ‘ کی بناپر اس آیت سے یہ مفہوم لینا کہ محمد رسول اللہ کسی مرد کے باپ نہیں، لیکن وہ آنے والے انبیا کے روحانی باپ ہیں، یہ مفہوم لفظاً اور معناً، دونوں طرح لینا ممکن نہیں۔ ’لٰكِنْ‘ کے بعد’رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ کہا گیا ہے، اسے زبان و بیان کے کسی قاعدے سے ’’روحانی باپ‘‘ کے معنی میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ بالفرض محال یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ ’لٰكِنْ‘ کے بعد رسول اللہ ﷺکی روحانی ابوّت کا ذکر یہاں کسی طرح شامل ہے تو اس لحاظ سے روحانی ذریت کے ذکر سے بھی کسی نئے نبی کے آنے کا مفہوم قطعیت سے بہرحال ثابت نہیں ہوتا۔ روحانی اولاد سے صالح مومنین مراد لینا بھی کفایت کرتا ہے، نبی ہونا ہی کیوں ضروری ہو؟

حرف استدراک ’لٰكِنْ‘ سے پیدا ہونے والے مفہوم کو درست طور پر سمجھنے کے لیے ضروری  ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ ’لٰكِنْ‘ کے بعد جو مذکور ہوا ہے،  اس سے کون سا وہم دور ہوا ہے، نہ کہ یہ ’لٰكِنْ‘ سے پہلے کے بیان سے کوئی وہم پیدا کر کے اسے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ احمدی حضرات نے یہاں فہم کلام کا یہی معکوس طریقہ اختیار کیا ہے، اس لیے نتیجہ بھی الٹ نکلا ہے۔ غلط فہمی یہاں یہ پیدا کی جا رہی ہے کہ ’لٰكِنْ‘ سے پہلے ابوّت کے ذکر سے یہ لازم سمجھا گیا ہےکہ ’لٰكِنْ‘ کے بعد جو بیان آ رہا ہے، وہ بھی ابوّت سے متعلق ہی کسی وہم کو دور کرنے کے لیے آیا ہے، حالاں کہ حرف استدراک ’لٰكِنْ‘ سے ہرگز یہ ضروری نہیں کہ وہ ایسے کسی وہم کو دور کرنے کے لیے آئے جو ’لٰكِنْ‘ سے پہلے لفظاً موجود ہو۔ یہ اس ذہنی وہم کو دور کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو لفظاً مذکور نہ ہو۔ اس بات کو زبان کے عام استعمال کی مثالوں سے سمجھتے ہیں۔ ایک شخص اپنے دوست سے کہتا ہے:

’’میں آپ کے گھر نہیں آ سکتا، لیکن آپ کے دفتر آ سکتا ہوں۔‘‘

یہاں ’’لیکن‘‘ کے بعد والے بیان سے معلوم ہوا کہ پہلے والے بیان میں یہ وہم تھا کہ اگر میں دوست سے ملنے گھر نہیں جا سکتا تو کیا اس سے ملنے کہیں اور بھی نہیں جا سکتا۔ اس وہم کو ’’لیکن‘‘ کے بعد دور کیا گیا کہ ملنے کےلیے دفتر آ سکتا ہے۔ یہاں لفظوں میں دونوں بار ’’آنے‘‘  کا ذکر آنے سے معاملہ واضح ہوا۔

 اب دوسری مثال لیجیے:

’’میں کل تم سے ملنے آیا ، لیکن تم گھر نہیں تھے۔‘‘

یہاں ملنے آنے سے کوئی ایسا وہم پیدا نہیں ہوا جس کا تدارک ’’لیکن‘‘ کے بعد’’ تم گھر نہیں تھے‘‘ سے کیا گیا ہے۔ یہاں ایک ذہنی وہم پیدا ہوا ہے جس کا ذکر لفظوں میں نہیں ہے، مگر کلام کے محل سے متبادر ہو رہا ہے اور وہ یہ کہ آدمی جب دوست سے ملنے اس کے گھر گیا تو خیال یہ تھا کہ وہ گھر ہوگا، لیکن وہ گھر نہیں تھا۔ یہ ’’لیکن‘‘  کے بعد کا بیان ہے جس سے قاری کو اس وہم کا علم ہوا۔

چنانچہ یہ استدلال کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ آیت ختم نبوت میں حرف ’لٰكِنْ‘ سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی ابوّت کے ذکر سے یہ لازم آتا ہو کہ ’لٰكِنْ‘ کے بعد کوئی ایسا وہم ہی دور کیا گیا ہے جس کا تعلق ابوّت سے ہی ہے۔ پھر ’’رسول‘‘ کو روحانی باپ کے معنی میں بھی لے لیا جائے، یہ لفظاً ممکن نہیں۔ یہ سب زبان و بیان کے مسلمہ قواعد سے بے نیاز ہو کر ہی کیا جا سکتا تھا۔

دوسری بات یہ کہ’’لیکن‘‘، ’’بلکہ‘‘ کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے جس کا ایک مفہوم’’اس کے برخلاف‘‘ اور دوسرا ’’مزید برآں ‘‘ہوتا ہے۔ پہلے مفہوم کے لحاظ سے حرف استدراک اپنے سے پہلے والے بیان کے برخلاف ایک دوسری بات پیش کرتا ہے۔ مثلاً قرآن مجید میں ارشاد ہے:

مَا كَانَ اِبْرٰهِيْمُ يَهُوْدِيًّا وَّلَا نَصْرَانِيًّا وَّلٰكِنْ كَانَ حَنِيْفًا مُّسْلِمًاﵧ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ.(آل عمران٣: ٦٧)
’’ابراہیم نہ یہودی تھا اور نہ نصرانی، بلکہ ایک حنیف مسلم تھا اور وہ اِن مشرکوں میں سے بھی نہیں تھا۔‘‘

’’تفسیر صغیر‘‘  میں بھی یہاں ’لٰكِنْ‘                          کا ترجمہ ’’بلکہ‘‘ سے کیا گیا ہے:

’’نہ تو ابراہیم یہودی تھا نہ نصرانی، بلکہ وہ خدا کی طرف جھکا رہنے والا اور فرمان بردار  تھا اور مشرکوں میں سے نہ تھا۔‘‘

دوسرے مفہوم کے لحاظ سے ’’بلکہ‘‘ اپنے سے پہلے چلے آ رہے مفہوم کی مزید تائید و  تاکید کرتا ہے۔ اس کی مثال قرآن مجید ہی سے یہ ہے:

اُولٰٓئِكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ.(الاعراف٧: ١٧٩)
’’وہ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ اُن سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔‘‘

ختم نبوت سے متعلق آیت مذکورہ میں ہم دکھائیں گے کہ ’لٰكِنْ‘ یہاں ’بَلْ‘،  یعنی ’’بلکہ‘‘ کے معنی میں آیا ہے اور معطوف اور معطوف علیہ، دونوں جگہ مذکورہ بالا دونوں مفاہیم میں آیا ہے اور یہ ایسے وہم کو دور کر رہا ہے جو ذہنی ہے، لفظاً موجود نہیں۔ یہ سب آیت زیر بحث کے سیاق و سباق سے بالکل واضح ہو جاتا ہے۔

 یہ آیت حضرت زید رضی اللہ عنہ، جو کہ آپ ﷺ کے منہ بولے بیٹے تھے، کی مطلقہ سے آپ کے نکاح کے سلسلے میں وارد ہوئی ہے۔ یہ حکم پہلے نازل ہو چکا تھا کہ منہ بولے بیٹے حقیقی بیٹے نہیں ہیں، جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ ان کی بیویاں بھی حقیقی بہوئیں نہیں ہیں کہ جن سے نکاح کرنا میں حرام ہو:

مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَيْنِ فِيْ جَوْفِهٖﵐ وَمَا جَعَلَ اَزْوَاجَكُمُ الّٰٓـِٔيْ تُظٰهِرُوْنَ مِنْهُنَّ اُمَّهٰتِكُمْﵐ وَمَا جَعَلَ اَدْعِيَآءَكُمْ اَبْنَآءَكُمْﵧ ذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاهِكُمْﵧ وَاللّٰهُ يَقُوْلُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيْلَ. اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآئِهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِﵐ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْ٘ا اٰبَآءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ وَمَوَالِيْكُمْﵧ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيْمَا٘ اَخْطَاْتُمْ بِهٖ  ﶫوَلٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْﵧ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا.


(ال
احزاب ٣٣ :٤ـ٥)



’’
اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں رکھے ہیں (کہ ایک ہی وقت میں وہ دو متضاد باتوں کو مانتا رہے)۔ چنانچہ نہ اُس نے تمھاری بیویوں کو جن سے تم ظہار کر بیٹھتے ہو، تمھاری مائیں بنایا ہے اور نہ تمھارے منہ بولے بیٹوں کو تمھارا بیٹا بنا دیا ہے۔ یہ سب تمھارے اپنے منہ کی باتیں ہیں، مگر اللہ حق کہتا ہے اور وہی سیدھی راہ دکھاتا ہے۔ تم منہ بولے بیٹوں کو اُن کے باپوں کی نسبت سے پکارو۔ یہی اللہ کے نزدیک زیادہ قرین انصاف ہے۔ پھر  اگر اُن کے باپوں کا تم کو پتا نہ ہو تو وہ تمھارے دینی بھائی اور تمھارے حلیف ہیں۔ تم سے جو غلطی اِس معاملے میں ہوئی ہے، اُس کے لیے توتم پر کوئی گرفت نہیں، لیکن تمھارے دلوں نے جس بات کا ارادہ کر لیا، اُس پر ضرور گرفت ہے۔ اور اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔‘‘


منہ

بولے بیٹے کی مطلقہ یا بیوہ سے منہ بولے باپ کا نکاح نہ کرنا عرب کی ایک سماجی رسم، بلکہ بدعت تھی، جو دین ابراہیمی میں لوگوں نے داخل کر دی تھی۔ یہ بدعت محض حکم دینے سے ختم ہوتی نظر نہیں آ رہی تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ سماجی اور ثقافتی عادات اتنی آسانی سے نہیں بدلتیں۔ مثلاً برصغیر پاک و ہند میں مسلم بیوہ کے نکاح ثانی کا رواج آج تک ایک مسئلہ ہے، حالاں کہ اس پر نہ صرف قرآن مجید کی نص موجود ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ کا عمل بھی تمام امت کے سامنے ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہوا کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ یا بیوہ سے منہ بولے باپ کے نکاح کو درست نہ سمجھنے کی اس خود ساختہ رسم کو ختم کرنے کے لیے حکم نازل کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کے ذریعے سے عملی طور پر بھی اسے ختم کر کے دکھا دیا جائے۔

آیت کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلے کی نزاکت اور سماجی ردعمل کا یہ عالم تھا کہ قرآن مجید میں پہلے سے اس بیان کے باوجود کہ منہ بولے بیٹے حقیقی بیٹے نہیں ہوتے، رسول اللہ ﷺ کو اس نکاح پر لوگوں کی طرف سے باتیں بنانے کی پریشانی لاحق تھی۔ اس پر اللہ نے آپ ﷺ سے فرمایا کہ آپؐ سے پہلے بھی ہم رسولوں سے ایسی خدمات لے چکے ہیں۔ آپؐ کو بھی لوگوں کی باتوں کا اندیشہ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اللہ ہی سے ڈرنا چاہیے جیسے گذشتہ رسول صرف اللہ سے ڈرتے تھے۔ لوگوں کا اعتراض بے بنیاد ہے۔ آپؐ زید رضی اللہ عنہ سمیت کسی مرد کے حقیقی باپ نہیں۔ آپؐ اللہ کے رسول ہیں اور رسولوں سے ایسے کام لیے ہی جاتے ہیں۔ چونکہ آپؐ آخری نبی ہیں، اس لیے یہ کام آپؐ ہی سے کرانا پیش نظر ہے۔

اس مفہوم کوآیت ختم نبوت کے نظم کلام میں دیکھیے:
وَاِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِيْ٘ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَاَنْعَمْتَ عَلَيْهِ اَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللّٰهَ وَتُخْفِيْ فِيْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِيْهِ وَتَخْشَي النَّاسَﵐ وَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰىهُﵧ فَلَمَّا قَضٰي زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَهَا لِكَيْ لَا يَكُوْنَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ حَرَجٌ فِيْ٘ اَزْوَاجِ اَدْعِيَآئِهِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًاﵧ وَكَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا. مَا كَانَ عَلَي النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيْمَا فَرَضَ اللّٰهُ لَهٗﵧ سُنَّةَ اللّٰهِ فِي الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُﵧ وَكَانَ اَمْرُ اللّٰهِ قَدَرًا مَّقْدُوْرَا. اِۨلَّذِيْنَ يُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰهِ وَيَخْشَوْنَهٗ وَلَا يَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰهَﵧ وَكَفٰي بِاللّٰهِ حَسِيْبًا. مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا٘ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيّٖنَﵧ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمًا.(الاحزاب ٣٣: ٣٧           ـ ٤٠)
’’(اِنھوں نے یہ فتنہ اُس وقت اٹھایا)، جب تم اُس شخص سے بار بار کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے انعام کیا اور تم نے بھی انعام کیا کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس روکے رکھو اور اللہ سے ڈرو، اور تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جس کو اللہ ظاہر کرنے والا تھا۔ اور تم لوگوں سے ڈر رہے تھے،حالاں کہ اللہ زیادہ حق دار ہے کہ تم اُس سے ڈرو۔ پھر جب زید نے اپنا رشتہ بیوی سے منقطع کر لیا تو ہم نے اُس کو تم سے بیاہ دیا تاکہ مسلمانوں پر اُن کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملے میں کوئی تنگی نہ رہے، جب وہ اپنا رشتہ اُن سے منقطع کر لیں۔ اور خدا کا حکم تو ہو کر ہی رہنا تھا۔نبی کے لیے جو بات اللہ نے ٹھیرا دی ہو، اُس میں اُس پر کوئی تنگی نہیں ہے۔ (اُس کے پیغمبر) جو پہلے گزرے ہیں، اُن کے معاملے میں بھی اللہ کی یہی سنت رہی ہے اور اللہ کا حکم ایک طے شدہ فیصلہ ہوتا ہےوہ جو اللہ کے پیغام پہنچاتے تھے اور اُسی سے ڈرتے تھے اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔ (لہٰذا تم بھی اُسی سے ڈرو، اے پیغمبر اور مطمئن رہو کہ) حساب کے لیے اللہ کافی ہے(حقیقت یہ ہے کہ) محمد تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، (اس لیے تمھارا اعتراض محض بے بنیاد ہے)، بلکہ (اس کے برخلاف) اللہ کے رسول اور (مزید برآں) خاتم النبیین ہیں۔  (اِس لیے یہ ذمہ داری اُنھی کو پوری کرنی تھی)، اور اللہ ہر چیز سے با خبر ہے۔‘‘

یہ واضح ہو جاتا ہے کہ آیت زیر بحث میں حرف استدراک ’لٰكِنْ‘ کے ذریعے سے ابوّت سے پیدا ہونے والے کسی وہم کو دور نہیں کیا گیا، بلکہ یہ وہم دور کیا گیا ہے کہ محمدرسول اللہ ﷺ نے اپنے متبنیٰ کی مطلقہ سے نکاح کیوں کیا۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ محمد ﷺ زید سمیت کسی مرد کے باپ نہیں ہیں کہ ان پر اپنی بہو سے نکاح کا طعن کیا جائے، نہ صرف یہ کہ کسی مرد کے باپ نہیں، اس کے برخلاف ان پر اللہ کا رسول ہونے کی ذمہ داری بھی عائد ہے، اور اس حیثیت سے ایسی اصلاحات کرنا رسولوں کی سنت رہی ہے، مزید برآں یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ آپ ﷺ آخری نبی ہیں ، اس لیے اس رسم باطل کی جڑ آپ ہی کے ہاتھوں سے کٹنا ضروری ہے۔ یعنی ’لٰكِنْ‘ یہاں ’بَلْ‘، یعنی ’’بلکہ‘‘، یعنی’’اس کے برخلاف ‘‘ ،اور پھر ’’مزید برآں‘‘ کے مفہوم میں ہے۔ یہ مفہوم آیت زیربحث کے سیاق و سباق سے واضح ہو جاتا ہے اور خارج سے اس میں کچھ داخل نہیں کرنا  پڑتا۔

’’خاتَم‘‘                                      کا مفہوم

’’خاتَم‘‘  کا لفظ  مہر بند، خاتمیت، اور آخری کےمعانی میں مستعمل  ہے۔ قرآن مجید میں اس کے تمام مشتقات مہر بندی اور خاتمیت پر دلالت کرتے ہیں۔

خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰي سَمْعِهِمْ. (البقرہ٢: ٧)
’’اُن کے دلوں اور کانوں پر اب اللہ نے (اپنے قانون کے مطابق) مہر لگا دی ہے۔‘‘

یعنی، ان کے دلوں پر مہر لگ گئی اب حق بات ان کے دل کے اندر نہیں جا پائے گی۔

اَلْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰ٘ي اَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا٘ اَيْدِيْهِمْ وَتَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ. (یٰس ٣٦: ٦٥)
’’آج ہم اِن کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور اِن کے ہاتھ ہمیں بتائیں گے اور اِن کے پاؤں شہادت دیں گے جو کچھ یہ کرتے رہے ہیں۔‘‘

یعنی، منہ پر مہر لگ جانے کے بعد ان کا منہ بند ہو جائے گا کوئی بات وہ منہ سے نکال نہ سکیں گے۔

کلام عرب میں ’خاتم البرید‘ (ڈاک کی مہر)، ’خاتم الکتاب‘(کتاب پر مہر) جیسی تراکیب مستعمل ہیں جو یہی مفہوم دیتی ہیں کہ مہر لگنے کے بعد اس میں مزید کسی چیز کے دخول کی گنجایش نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ ’خاتَم‘ کے لفظ میں زینت، افضلیت یا کمال درجہ کے اختتام کا اضافی معنی پیدا کرنے کی کوئی گنجایش نہیں۔ نیز یہاں مہر سے نقش پیدا کرنے کے مفہوم کے استعمال کا بھی کوئی موقع نہیں۔

تیسرے یہ کہ ’خاتَم‘ کا معنی انگوٹھی یا مہر ہے، انگوٹھی کو بھی مہر کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے، اس لیے یہ ایک ہی لفظ دونوںمعنوں کے لیے مستعمل ہو گیا۔ ’خاتَم‘  کا اصل مطلب مہر ہے۔ اس میں زینت کا مفہوم آپ سے آپ شامل نہیں، جب تک کہ زینت کے لیے الگ لفظ اس کے ساتھ نہ لایا جائے جو ’خاتَم‘ کو موصوف قرار دے کر اس کی صفت بنے ۔ جیسے کتاب کہہ دینے سے کوئی کتاب دل چسپ کتاب نہیں بن جاتی، جب تک اس کے دل چسپ ہونے کا مفہوم دینے والا لفظ بطور صفت ساتھ موجود نہ ہو، اسی طرح محض مہر کہنے سے مہر کی زینت بیان نہیں ہو جاتی جب تک اس کی زینت بیان کرنے کے لیے کوئی دوسرا                     لفظ ساتھ موجود نہ ہو یا پھر اس کے لیے کوئی واضح قرینہ ہو، جیسے ’خاتم المَلِک‘ ،یعنی بادشاہ کی انگوٹھی، جس کا خوب صورت ہونا محل قیاس میں ہے۔ مہر کے لیے تو زینت کا مفہوم ویسے بھی موزوں نہیں، یہ انگوٹھی کے لیے ہی موزوں ہو سکتا تھا، لیکن سیاق و سباق کے لحاظ سے یہاں انگوٹھی کا مفہوم کوئی مناسبت ہی نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ بشمول احمدی حضرات کے کسی نے بھی ’خاتم‘ کا مفہوم انگوٹھی نہیں لیا۔ یعنی یہ کہنےکا کوئی محل نہیں کہ یہ رسول، نبیوں کی انگوٹھی ہیں، اور اس کا مزین ہونا بھی بیان میں نہیں آیا،  اس لیے بالاتفاق ’خاتَم‘ سے یہاں ’مہر‘ کے معنی ہی لیے جا سکتے ہیں جس میں زینت کامفہوم شامل نہیں۔

چوتھے یہ کہ مہر میں افضلیت کا مفہوم زینت کے مفہوم پر منحصر ہے۔ جب زینت کا مفہوم یہاں مفقود ہے تو افضلیت کا مفہوم بھی موجود نہیں ۔

پانچویں یہ کہ ’خاتَم‘ میں کمال درجہ کے اختتام کا بھی کوئی مفہوم پایا نہیں جاتا۔ یہ مفہوم پیدا کرنے کے لیے جو استدلال کیا جاتا ہے، اس کی حقیقت بھی دیکھ لیجیے:

یہ غلط فہمی ’خاتِم الشعرا ‘ اور ’خاتِم الاولیا ‘ جیسی تراکیب سے پیدا ہوئی ہے۔ استدلال یہ کیا گیا ہے کہ ’خاتِم الشعرا ‘ یا ’خاتِم الاولیا ‘  کا مفہوم آخری شاعر یا آخری  ولی نہیں ہوتا ، بلکہ صاحب خطاب کے کمال پر دلالت کا یہ مجازی اسلوب ہے کہ اس جیسا باکمال شاعر یا ولی دوبارہ نہیں آئے گا، لیکن اس سے کم تر درجے کے لوگ آ سکتے ہیں۔ اس استدلال میں غلطی یہ ہوئی ہے کہ یہ ترکیب ’ت‘ کے کسرہ یعنی زیر کے ساتھ مستعمل ہے، فتحہ یعنی زبر کے ساتھ نہیں۔ یعنی یہ ’خاتِم الشعرا‘ اور ’خاتِم الاولیا‘ ہے نہ کہ ’خاتَم الشعرا‘ اور ’خَاتَم الاولیا‘۔ کلامِ عرب میں یہ ترکیب کمال درجہ کے اختتام کے مفہوم میں لفظ ’خَاتَم‘ کے ساتھ مستعمل نہیں ہے، جب کہ قرآن نے لفظ ’خاتَم‘ استعمال کیا ہے۔

میری بساط بھر تلاش و تحقیق کے بعد معلوم یہ ہوا ہے کہ تائے مکسورہ کے ساتھ ’خاتِم الشعراء‘ جیسی تراکیب جو کمال درجہ کے اختتام پر دلالت کرتی ہوں، زمانۂ جاہلیت کے کلام عرب کے اسالیب میں بھی نہیں پائی گئیں۔پورے کلام عرب سے فقط ایک ہی شعر خاتم بفتح’ ت‘ بمعنی اختتام کمال کے مفہوم میں پیش کیا جا سکا ہے اور یہ بھی تیسری صدی ہجری کا ہے:



فُجِعَ القَريضُ بخاتَمِ الشُّعراءِ ...

وغَديرِ رَوْضَتِهَا حَبيبِ الطَّائي

یہ شعر حسن بن وہب نے شاعر ابو تما م کے مرثیے کے طور پر کہا۔ ابو تمام کی وفات 228 ہجری میں ہوئی۔[3] قرآن مجید پر کلام عرب سے استشہاد پیش کرنے کا اصول یہ ہے کہ وہ قرآن مجید سے قبل کے کلام میں ہو اور معروف بھی ہو۔ اختتام کمال کے مفہوم میں یہ ترکیب اوّل تو’ خاتم‘ کی ’ت‘ کے کسرہ کے ساتھ مستعمل ہے، جب کہ قرآن میں یہ تائے مفتوحہ کے ساتھ آئی ہے، دوسرے یہ کہ یہ ترکیب ایجاد بھی قرآن مجید کے بعد ہوئی ہے۔حسن بن وہب کے کلام میں یہ تائے مفتوحہ کے ساتھ پائی گئی ہے تو اس میں دو احتمالات ہیں: ایک یہ کہ یہ کاتب کی خطا ہو سکتی ہے، شاعر نے اسے تائے مکسورہ کے ساتھ ہی برتا ہوگا، دوسرے یہ کہ شاعر نے تائے مفتوحہ کے ساتھ اس کا یہ استعمال قرآن مجید سے متاثر ہوکر کیا ہے۔ مزید یہ کہ تائے مفتوحہ کے ساتھ یہ ترکیب اس مفہوم میں رواج بھی نہیں پا سکی۔ رواج پا بھی جاتی تو بھی قرآن مجیدکے بعد کے دور کی ہونے کی بنا پر یہ قرآن پر استشہاد نہیں بن سکتی۔

احمدی حضرات کی طرف سے پورے ذخیرۂ حدیث میں صرف ایک روایت ہے جس میں ’خاتم‘ بفتح ’ت‘ کو اختتام کمال کے معنی میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس روایت میں رسول اللہﷺ کی طرف منسوب کر کے ا ن کے چچا حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کو’ خاتَم المھاجرین‘ کہا گیاہے۔ احمدی حضرات کا استدلال یہ ہے کہ ’

خاتَم المھاجرین‘ کا مطلب یہ نہیں ہو سکتا کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بعد کوئی اور مہاجر نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ یہ الفاظ ’أفضل المھاجرین

‘ کے معنی میں ہی آئے ہیں۔ روایت ملاحظہ کیجیے:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ مُوسَى بْنِ شَيْبَةَ الأَنْصَارِيُّ السُّلَمِيُّ، قثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَدْرٍ وَمَعَهُ عَمُّهُ الْعَبَّاسُ، قَالَ لَهُ : يَا رَسُولَ اللهِ، لَوْ أَذِنْتَ لِي فَخَرَجْتُ إِلَى مَكَّةَ فَهَاجَرْتُ مِنْهَا، أَوْ قَالَ: فَأُهَاجِرُ مِنْهَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’يَا عَمِّ، اطْمَئِنَّ، فَإِنَّكَ خَاتَمُ الْمُهَاجِرِينَ فِي الْهِجْرَةِ، كَمَا أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ فِي النُّبُوَّةِ‘‘.[4]
’’رسول اللہ ﷺ جب بدرسے واپس تشریف لائے تو آپ کے ساتھ آپ کے چچا حضرت عبا س بھی تھے۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول، اگر آپ مجھے مکہ جانے کی اجازت دیں تو میں وہاں سے ہجرت کر کے آؤں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے چچا، اطمینان رکھیے، آپ خاتم المہاجرین ہیں جیسے میں نبوت میں خاتم النبیین ہوں۔‘‘

سند کے لحاظ سے یہ ایک منفرد اورغریب روایت ہے، یعنی یہ فقط ایک ہی سند سے منقول ہے۔ اس کے راوی اسمٰعیل بن قیس بن سعد بن زید بن ثابت انصاری خزرجی کو محدثین نے ضعیف، منکر الحدیث اور متروک قرار دیا ہے۔[5] چنانچہ اس روایت سے کوئی استدلال نہیں کیا جا سکتا۔

 سند کی غرابت سے قطع نظر، متن کے لحاظ سے دیکھیں تو یہ روایت اُس ہجرت کے خاتمے کا اعلان سنا رہی ہے جسے فتح مکہ سے قبل مسلمانو ں پر فرض قرار دیا گیا تھا۔ یہ معلوم ہے کہ حضرت عباس فتح مکہ سے کچھ ہی وقت پہلے ہجرت کر کے مدینہ آئے تھے۔ اس کے فوراً بعد ہی مکہ فتح ہو گیااور لازمی ہجرت کا حکم بھی ختم ہو گیا تھا۔ گویا حضرت عباس حقیقتاً آخری مہاجر تھے، جنھوں نے فتح مکہ سے کچھ پہلے ہجرت کی تھی۔ چنانچہ اس روایت میں ’خاتم المہاجرین‘  سے بھی حقیقی اختتام ہی مفہوم ہو رہا ہے، نہ کہ ’افضل المہاجرین‘              کا مفہوم۔ ویسے بھی یہ بات معقول معلوم نہیں ہوتی کہ وہ لوگ جنھوں نے اسلام کے شروع کے مشکل دور میں اپنی جان و مال کو خطرے میں ڈال کر ہجرت کی، جہاد اور اس کی مشکلات کا کشٹ اٹھایا، ان کی ہجرت سے اس آخری وقت کی ہجرت کو افضل قرار دے دیا جائے، جب کہ حالات مسلمانوں کے حق میں پلٹ چکے تھے۔

’خاتَم‘ کو افضل کے معنی میں استعمال کرنے کےضمن میں احمدی حضرات کی طرف سے صوفیانہ حلقوں میں مشہورایک اور روایت بھی پیش کی جاتی ہے جس میں حضرت علی بن ابی طالب کو خاتم الاولیا کہا گیا ہے:

أنا خاتم النبیین و أنت، یا علي، خاتم الأولیاء.



’’
میں خاتم النبیین ہوں اور تم، اے علی، خاتم الاولیا ہو۔‘‘


یہ

روایت موضوع ہے۔ اس سے کوئی استدلال قابل اعتنا ہی نہیں۔

مرزا صاحب کی طرف سےیہ استدلال بھی پیش کیا گیا کہ آیت ختم نبوت میں خاتَم، یعنی مہر ایسی چیز ہے جو جس چیز پر لگتی ہے، اس پر اپنا نقش پیدا کر دیتی ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ کے بعد جو بھی نبی ہوگا، وہ آپ کی مہر تصدیق سے نبی بنے گا۔ یہ محض نکتہ آفرینی ہے۔ سیاق و سباق میں اس مفہوم کو لینے کی کوئی گنجایش نہیں۔

 کسی کلام کو اس کے سیاق و سباق سے کاٹ دینے کے بعد اس میں کوئی بھی مفہوم پیدا کیا جا سکتا ہے، لیکن اس قسم کا استدلال زبان و بیان کے اس مسلمہ اصول کے خلاف ہےکہ  کلام اپنے سیاق و سباق ہی میں اپنا مفہوم واضح کرتا ہے۔ چنانچہ اس قسم کا استدلال قابل لحاظ نہیں۔

’’خاتم النبیین‘‘                          کا مطلب

خاتم، یعنی مہر کے دو مفاہیم پیش کیے جا سکتے ہیں: seal ،یعنی مہر بند اورstamp۔  اس کا ایک معنی یہ ہو سکتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ نبیوں کے سلسلے کے لیے مہربند ہیں، اب ان کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا، ہمارے نزدیک سیاق و سباق کے لحاظ سے یہی مفہوم درست ہے۔ سیاق و سباق کو نظر انداز کر کے دوسرا معنی یہ لیا جا سکتا ہے کہ محمد ﷺ نبیوں کے تصدیق کرنے والی مہر، یعنی stamp ہیں۔

کلام عرب میں ’خاتم‘  کا لفظ مہر کے معنی میں مستعمل ہے اور آیت زیر بحث میں یہ مہر، یعنی مہر بند کے علاوہ کسی اور معنی کے لیے موزوں نہیں۔

 برسبیل تنزل یہ مفہوم تسلیم کر بھی لیا جائے کہ مہر نقش کے لیے اور نقش تصدیق کے لیے ہوتا ہے اور جو بھی نبی ہوا یا ہوگا، وہ آپ ﷺ  کی تصدیق سے تسلیم کیا جائے گا تو سوال یہ ہے آپؐ کے بعد آنے والا کوئی نبی اپنی نبوت کی تصدیق کی سند آپؐ سے کیسے لا کر دکھائے گا؟ کیا آپؐ نے اس کا نام پتہ بتایا ہے؟

 یہ کہنا کہ وہ شخص سیرت و کردار میں  محمدرسول اللہ ﷺکے مشابہ ہوگا اور گویا آپؐ کا نقش ثانی ہوگا، ایک بڑا اور موضوعی دعویٰ ہے۔ جہاں تک مرزا صاحب کی سیرت و کردار کا تعلق ہے تو مناظرہ اور مکالمہ کے وقت ان کے زبان و بیان کی غیرشایستگی، مناظرانہ اسلوب کلام، کسی اتمام حجت کے بنا ہی اپنے مخالفین پر لعنتیں، بددعائیں ، بلکہ بازاری گالیاں، محمدی بیگم کے ساتھ اپنے نکاح کی کوشش میں مخالفت کرنے پر اپنے بیٹے کو عاق کرنے، اپنی پہلی بیوی کو طلاق دینے، اور دباؤ ڈلوانے  کے لیےدوسرے  بیٹے کی بہو کو طلاق دلوانے جیسے افعال و اخلاق کسی طرح انھیں عام اخلاقیات سے بھی بلند نہیں دکھاتے، چہ جائیکہ ان کے لیےمحمد رسول اللہ ﷺ کے سیرت و کردار کا پرتو ہونے کا دعویٰ کیا جائے!

خبر، جسے عربی میں ’نبأ‘ کہتے ہیں، یہ جس پر خدا کی طرف سے بھی آئے ، اسے لفظی اور اصطلاحی، دونوں اعتبار سےنبی کہا جا سکتا ہے۔  لیکن قرآن مجید میں یہ لفظ فقط اصطلاحی معنی میں آیا ہے، یعنی وہ شخص جسے خدا اپنی وحی ہدایت پہنچانے کے لیے چن لے،جس کے ذریعے سے انھیں دین اور اخلاق سے متعلق ہدایت دینا مقصود ہو۔ یہی وجہ ہے کہ شہد کی مکھی پر آنے والی فطری وحی


[6] یا شیطان کے چیلوں پر شیطانوں کی طرف سے وحی[7] ملنے کی بنا پر شہد کی مکھی یا شیطان کے چیلوں کو نبی اور اس عمل کو نبوت نہیں کہا گیا۔

قرآن مجید میں ’’نبوت‘‘ کا لفظ بھی اپنے لغوی معنی، یعنی کوئی بھی خبر، میں استعمال نہیں کیا گیا، یہ خاص  مخاطبۂ الہٰی کے لیے استعمال ہوا ہے جو صرف انبیا کے ساتھ پیش آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ام موسیٰ اور مریم علیہما السلام کے ساتھ مخاطبت کے باوجود انھیں نبی نہیں کہا گیا۔


[8]

نبوت کی کوئی اقسام نہیں ہیں۔نبوت بس ایک ہی قسم ہے۔ تشریعی اور غیرتشریعی کی تقسیم بھی خود ساختہ ہے۔ ہر نبی تابع شریعت نبی ہی ہوتا ہے ۔ صاحب شریعت نبی بھی خود پر نازل کردہ شریعت کا پابند ہوتا ہے۔   رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جو شریعت نازل کی گئی تھی، اللہ تعالیٰ نے قیامت تک اس کی حفاظت کا ذمہ لے لیاتھا۔ چنانچہ اب مزید کسی شریعت اور صاحب شریعت کی آمد کا سوال ہی نہیں رہا تھا ۔اس کے باوجود بھی اگر ختم نبوت کا اعلان کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی تو اس سے لازمی طور پر مراد بغیر نئی شریعت کے تابع شریعت انبیا کے سلسلے کا اختتام ہے، کیونکہ بنی اسرائیل میں یہ روایت موجود تھی کہ وہاں موسیٰ علیہ السلام کے بعد شریعت کے ہوتے ہوئے بھی انبیا کا سلسلہ جاری رہا تھا۔ختم نبوت کے اعلان سے اس امکان کا خاتمہ مقصود ہے کہ شریعت کی موجودگی میں اب مزید انبیا نہیں آئیں گے۔

ختم نبوت، یعنی مخاطبۂ الہٰی کے اختتام کا اعلان رسول اللہ ﷺ نے بڑی وضاحت سے درج ذیل روایت میں فرمایا  ہے:



لم یبق من النبوة إلا المبشرات. قالوا: وما المبشرات؟ قال: الرؤیا الصالحة.[9]
’’نبوت میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہی، صرف بشارت دینے والی باتیں رہ گئی ہیں۔ عرض کیا گیا: وہ بشارت دینے والی باتیں کیا ہیں؟ فرمایا: اچھا خواب۔‘‘

رویا کا اطلاق حالت نیند میں پیش آنے والے قلبی احوال پر ہوتا ہے۔ اسے حالت بیداری پر لاگو منطبق نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ کوئی قرینہ ہی اس کی طرف اشارہ کرے۔ جیسے دن میں خواب دیکھنا۔ قرینہ نہ ہو تو اسے حالت نیند پر بیان ہی سمجھا جائے گا۔ یہ زبان کا مسلمہ اصول ہے کہ لفظ کا استعمال جس معنی میں معروف ہو ، اس سے پھیرنے کے لیے قرینہ لفظ کے ساتھ ہی موجود ہونا چاہیے۔ حدیث میں ایسا کوئی قرینہ نہیں، اس لیے اس سے نیند کے احوال ہی مراد ہیں۔

سچا خواب نبوت ہی کا خاصہ نہیں، یہ ہمیشہ سے غیر انبیا کو بھی آتے رہے ہیں۔ قرآن مجید کی سورۂ یوسف میں مشرک بادشاہ اور غیر مسلم قیدیوں کو سچے خواب آنا مذکور ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اس موقع پر، جب کہ آسمانی خبروں کے سلسلے کے خاتمے کااعلان فرما رہے تھے، ساتھ ہی یہ بھی واضح فرما دیا کہ سچے خوابوں کا سلسلہ جو پہلے سے چلا آرہا تھا ،وہ بہرحال جاری رہےگا۔اس کا نبوت سے کوئی تعلق نہیں۔



یہ خواب کسی کو نبی نہیں بنا سکتے، ان کی حد یہی ہے اور نہ یہ کسی کو کسی نئے نبی کی نبوت پر ایمان لانے کی ترغیب دے سکتے ہیں، کیونکہ وہ حقیقت میں موجودہی نہیں رہی۔ رحمانی خواب اور شیطانی یا نفسانی خواب میں بھی حد امتیاز اور فیصلہ کن اتھارٹی خدا کے کلام کا بتایا ہوا یہی معیارہے ۔ جو خواب وحی کی تصریحات کے خلاف ہو، وہ سچا ہے اور نہ خدا کی طرف سے۔

خلاصہ یہ ہے کہ آیت زیربحث میں لفظ ’’خاتم‘‘ میں زینت، افضلیت، کمال درجہ کے اختتام اور نقش پیدا کرنا کے معانی نہیں پائے جاتے۔ اس کا ایک ہی مفہوم متعین طور پر ثابت ہوتا ہے اور وہ ہے: خاتمیت۔لہٰذا ثابت ہوا ہے کہ سورۂ احزاب کی آیت ختم نبوت، خاتمیت نبوت کے مفہوم میں قطعی اور محکم آیت ہے۔ختم نبوت قرآن مجید سے قبل طے ہو چکا تھا، جسے قرآن مجید نے قطعی طور پر موکد کردیا۔



 اس بنیاد کو محکم کرنے کے بعد تسلسل نبوت سے متعلق کوئی استدلال درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔تاہم، چونکہ دیگر استدلالات بھی کیے گئے ہیں اور احمدیت میں ان کو بھی خصوصی اہمیت دی جاتی ہے،اس لیے ہم ان کا تنقیدی جائزہ بھی علم و عقل اور زبان و بیان کے مسلمات کی روشنی میں پیش کرتے ہیں۔

سورۂ جمعہ (۶۲٦ کی آیت ۲ اور۳

مرزا غلام احمد  سورۂ جمعہ (٦٢) کی آیت2 اور 3 کے تحت اپنے دعویٰ نبوت پر استدلال کرتے ہیں۔ یہ استدلال ان کے دعویٰ نبوت کا گویا مدار المہام ہے۔ وہ بڑے اعتماد سے اسے اپنی کتب اور بیانات میں جگہ جگہ پیش کرتے ہیں۔ احمدیت کے تعارفی اور دعوتی لٹریچر میں اسے ایک بنیادی استدلال کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے۔ ’’روحانی خزائن‘‘ کی ہر جلد کے دیباچےمیں اسے رقم کیا گیا ہے۔ اسی استدلال پرمہدی اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ مرتب کیا جاتا ہے۔ گویا مرزا غلام احمد صاحب کے دعویٰ نبوت کی ساری عمارت اس استدلال پر قائم ہے۔  استدلال ملاحظہ کیجیے:



قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے:

هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَﵯ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ. وَّاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْﵧ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ.(الجمعہ٦٢: ٢ـ٣)

ان آیات کا ترجمہ احمدی حضرات کی نمایندہ تفسیر، ’’تفسیر صغیر‘‘  میں یوں کیا گیا ہے۔ (ترجمے کے خط کشیدہ الفاظ پر نظر رہے):

’’وہی خدا ہے، جس نے ایک ان پڑھ قوم کی طرف اسی میں سے ایک شخص کو رسول بنا بھیجا (جو باوجود ان پڑھ ہونے کے) ان کو خدا کے احکام سناتا ہے، اور ان کو پاک کرتا ہے، اور ان کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے۔ گو وہ اس سے پہلے بڑی بھول میں تھے۔ اور ان کے سوا ایک دوسری قوم میں بھی وہ اس کو بھیجے گا جو ابھی تک ان سے ملی نہیں اور وہ غالب (اور) حکمت والا ہے۔‘‘

اس آیت کی تفسیر بخاری( رقم 4897 )کی ایک روایت سے یوں کی جاتی ہے :

’’اس آیت میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جس میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ سے صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ آخرین کون ہیں؟ تو آپ نے سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:’ لو كان الإيمان معلقا بالثريا لناله رجل او رجال من فارس ‘(بخاری) یعنی اگر ایک وقت ایمان ثریا تک بھی اڑ گیا تو اہل فارس کی نسل سے ایک اور ایک سے زیادہ لوگ اسے واپس لے آئیں گے۔ اس میں مہدی معہود کی خبر ہے۔‘‘ [10]

مرزا صاحب کے مطابق اس پیشین گوئی کے مصداق خودمرزا صاحب ہیں، جب کہ خود ان کے بقول وہ مغل خاندان سے تھے، فارس سے ان کا کوئی تعلق نہیں، البتہ انھیں الہام سے یہ بتایا گیا تھا کہ فارسی النسل ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

’’میرے پاس فارسی ہونے کے لیے بجز الہام الہٰی کے اور کچھ ثبوت نہیں۔‘‘[11]

علم کے میدان میں مرزا صاحب کا یہ دعویٰ  یہیں ختم ہو جاتا ہے، کیونکہ مرزا صاحب کا فارسی الاصل نہ ہونا مسلم تھا۔ نسب بدلنا ممکن تھا اور نہ  ہی مناسب تھا۔ چنانچہ مذکورہ استدلال کسی درجے میں بھی درست ہوتا تب بھی وہ اس کے مصداق نہیں بنتے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ استدلال اپنے ہر مقدمے میں بے بنیاد ہے۔ اس کی تفصیل ذیل میں پیش کی جاتی ہے:

استدلال یہ ہے کہ آیت کے بموجب دوبارہ بعثت محمدی ہوگی، مگر روحانی صورت میں ہوگی۔ یہ روحانی بعثت مرزا غلام احمد صاحب کی صورت میں ظاہر ہوئی۔مرزا صاحب کی بدولت ایمان و اسلام کی تجدید ہوئی، نبی اور صحابیت کے درجات دوبارہ لوگوں کو ملے۔ نیز یہ روحانی بعثت محمدی مستقبل میں بھی ہوتی رہے گی تاکہ بعد کے ادوار کے لوگ بھی بموجب آیت بالا اُس درجے میں شامل ہو سکیں جو محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کا ہے۔

مرزا صاحب نے ان آیات سے دو استدلالات کیے ہیں: ایک یہ کہ ایک دوسری بعثت محمدی ہوگی (جو مرزا صاحب کی صورت میں ظہور پذیر ہوئی) اور دوسرے یہ کہ ’منھم‘ میں ھم کی ضمیر میں عجمی اقوام بھی شامل ہیں تاکہ یہ بعثت محمدی ان کے افراد میں بھی ہو سکےاور وہ خود بھی اس میں شامل ہیں۔ لکھتے ہیں:

’’...آیت ’و آخرین منھم لما یلحقوا بھم ‘ اس بات کو ظاہر کر رہی تھی کہ گویا آں حضرت ﷺ کی حیات اور ہدایت کا ذخیرہ کامل ہوگیا مگر ابھی اشاعت ناقص ہے اور اس آیت میں ’منھم‘  کا لفظ وہ ظاہر کر رہا تھا کہ ایک شخص اس زمانہ میں جو تکمیل اشاعت کے لیے موزوں ہے، مبعوث ہوگا جو آں حضرت کے رنگ میں ہوگا اور اس کے دوست مخلص صحابہ کے رنگ میں ہوں گے ۔‘‘[12]

بعض مفسرین نے ’وَ آخَرِيْ


نَ‘  کا عطف ’يُعَلِّمُهُمْ‘ پر مانا ہے، جس سے مفہوم یہ پیدا ہوجاتا ہے کہ ان میں سےان دوسروں کو بھی رسول کتاب اور حکمت کی تعلیم دے گا جو ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے۔ مرزا غلام احمد نے اپنے دعویٰ نبوت کی تائید میں یہ دوسرا مفہوم بھی پیش کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’خدا وہ ہے جس نے امیوں میں انھی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب اور حکمت سکھلاتا ہے۔ اگرچہ وہ پہلے اس سے صریح گم راہ تھے اور ایسا ہی وہ رسول جو ان کی تربیت کررہا ہے ۔ ایک دوسرے گروہ کی بھی تربیت کرے گا جو انھی میں سے ہوجاویں گے...۔‘‘
’’گویا تمام آیت معہ اپنے الفاظ مقدرہ کے یوں ہے :’ھوالذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوا علیھم آیاتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمة ویعلم آخرین منھم...‘ یعنی ہمارے خالص اور قابل بندے بجز صحابہؓ کے اور بھی ہیں جن کا گروہ کثیر آخری زمانہ میں پیدا ہوگا۔ اور جیسی نبی کریم ﷺ نے صحابہ ؓ کی تربیت فرمائی۔ ایسا ہی آں حضرت ﷺ اس گروہ کی بھی باطنی طور پر تربیت فرمائیں گے۔‘‘ [13]

اور یہ دوسرے آں حضرت مرزا صاحب تھے جنھوں نے اپنے صحابہ کی تربیت فرمائی۔

یہ استدلال، درحقیقت، مسلم تفسیری روایات سے اٹھایا گیا ہے ۔ مفسرین کا ایک طبقہ تو ’اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ‘ سے عرب کے امیین ہی مراد لیتا ہے ، لیکن ایک دوسرا طبقہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ آیت کے مصداق میں تاقیامت عجمی اقوام بھی شامل ہیں[14]۔ مرزا صاحب نے اسی دوسرے مفہوم کو اختیار کر کےاس پر اپنے استدلال کی بنا رکھی ہے۔

اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ‘ میں عجمی اقوام کی شمولیت کے موقف پر نقد

زبان و یبان کے اصولوں کی رو سےغور کیجیے تو آیت میں ’اٰخَرِيْنَ‘ (دوسرے) کے بعد ’مِنْهُمْ‘ (ان میں سے) میں ’هُمْ‘ کی ضمیر ’اُمِّيٖيْن‘ کی طرف راجع ہے۔ ’أمیین


‘ عرب کا مخصوص لقب ہے۔ آیت میں صاف طور پر کہا جا رہا ہے کہ وہ (دوسرے) بھی ’امیین‘ میں سے ہی ہوں گےجو (لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ) ابھی تک ایمان لا کر مومنین کی جماعت میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ یہ بات اتنی واضح ہے کہ یہاں غیر عرب،عجمی اقوام مراد لینے کی کوئی گنجایش کسی طرح نہیں نکلتی۔ یہاں لفظ ’اُمِّيٖيْن‘ مذکور ہوا ہے، ’مسلمین‘ یا’ مومنین‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔ بعد والے ایمان لا کر مسلمین اور مومنین تو کہلائیں گے، لیکن انھیں ’أمیین


‘ نہیں کہا جا سکتا۔ چنانچہ عجمی اقوام یہاں کسی طرح بھی مراد نہیں لی جا سکتیں۔

پھر یہ دیکھیے کہ  ’اٰخَرِيْنَ‘  سے پہلے واؤ عاطفہ ہے۔ عطف کے بعد ’بَعَثَ‘ کا فعل ماضی ہی معطوف ہوا ہے،یعنی ’بعث محمدًا في آخرین منھم، أي من أمیین


۔ چنانچہ اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ محمدﷺکو ان دوسرے 

امیوں میں بھی رسول بنا کر بھیجا ،نہ کہ مستقبل میں بھیجے گا۔ لیکن ’’تفسیرصغیر‘‘ کے ترجمے میں دیکھا جا سکتا ہے کہ انھوں نے عطف کے بعد جب دوسری بار ’بَعَثَ‘  کا ترجمہ کیا تو اسے ماضی، ( یعنی رسول بنا کر بھیجا) کے بجاے مضارع، (یعنی رسول بنا کر بھیجے گا) کر دیا ہے۔ مرزا صاحب نے بھی یہی مفہوم مراد لیا ہے،’’ ایک شخص اس زمانہ میں جو تکمیل اشاعت کےلیے موزوں ہے، مبعوث ہوگا جو آں حضرت کے رنگ میں ہوگا‘‘۔عطف کے بعد فعل ماضی کوفعل مضارع میں تبدیل کر نا زبان و بیان کے قواعد کی رو سے صراحتاًغلط ہے۔

تیسری اہم بات یہ کہ یہاں ’بَعَثَ فَی الْاُمِّيٖيْن‘، (ان امیوں میں رسول بھیجا) آیا ہے، ’بعث إلی الأمیین أو الی الناس


(ان امیوں کی طرف یا لوگوں 

کی طرف رسول بھیجا)نہیں آیا۔ ہم جانتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی بعثت جزیرۂ عرب کے امیوں میں ہوئی، لیکن آپ ﷺ کی بعثت عامہ تما م انسانیت کی طرف ہوئی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں جب یہ کہنے کا موقع آیا کہ آپ کی بعثت تمام لوگوں کی طرف ہے تو ’


اِلٰی‘ (کی طرف)استعمال کیا گیا:

قُلْ يٰ٘اَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَا.(الاعراف٧: ١٥٨)
’’کہہ دو، (اے پیغمبرکہ) لوگو، میں تم سب کی طر ف اُس خدا کا رسول ہو کر آیا ہوں۔‘‘

لیکن آیت زیر بحث میں ایسا نہیں کہا گیا، یہاں یہ کہا گیا ہے کہ آپ جزیرہ نماے عرب کے امیوں میں مبعوث ہوئے ہیں۔ چنانچہ ’وَاٰخَرِيْنَ‘ کے بعد ’بَعَثَ فِيْ‘  ہی معطوف ہوا ہے، جو صاف بتا رہا ہے کہ ان دوسرے غیر مومن امیوں ہی میں آپ ﷺ کی بعثت ہوئی ہے، جو ایمان لا کر مومن امیوں میں ابھی شامل نہیں ہوئے تھے۔

خلاصۂ کلام  یہ کہ آیت زیر بحث میں کسی طور پر بھی مستقبل میں محمد رسول اللہ ﷺ کی نئی بعثت کی بات نہیں ہوئی۔ ’


بَعَثَ‘ کا فعل ماضی ایسے کسی معنی کو لینے سے قطعی طور پر مانع ہے۔امیوں کے علاوہ دوسری کسی قوم میں دوسری بعثت محمدی کا امکان یہاں نہیں پایا جاتا۔

اس وضاحت کے بعد یہ بالکل واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ مرزا صاحب کا یہ استدلال ہرگز کوئی درست علمی بنیاد نہیں رکھتا ۔ یہ ایک تفسیری روایت کی بنیاد پر پیش آنے والامغالطہ ہے جو انھیں لاحق ہوا۔

تفسیری روایت پر تبصرہ

آیت زیر بحث کے مصداق میں عجمی اقوام کی شمولیت کی خبر دینے والی مذکورہ بالا روایت سند کے اعتبار سےبخاری کی صحیح روایت ہے، لیکن دیکھا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ اسےکسی طور قبول نہیں کرتے ۔

یہ اصول پیش نظر رہنا چاہیے کہ روایت راویوں کے شعوری یا لاشعوری تصرفات سے آزاد نہیں ہوتی۔ چنانچہ سنداً صحیح ہونے کے باوجود وہی روایت قبول کی  جا سکتی ہے جس کی اجازت قرآن مجید کےالفاظ دیتے ہوں، یہ اس لیے کہ معیار اور کسوٹی قرآن مجید ہے۔ روایت کی اگر کوئی توجیہ ممکن ہو توکی جائے گی، ورنہ اسے فہم انسانی خطا کا نتیجہ قرار دے کر رد کرنا ہوگا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اس روایت کی توجیہ ممکن ہے۔ تفحص سے معلوم ہوا کہ یہ روایت درج بالا تناظر کے علاوہ دیگر دوتناظرات کے ساتھ بھی نقل ہوئی ہے اور یہ دونوں روایات بھی قابل احتجاج ہیں۔ اسی مفہوم کی ایک روایت قرآن مجید کی ایک دوسری آیت کے شان نزول کے طور پربیان ہوئی ہے،جب کہ اس کا ایک دوسرا متن اسےرسول اللہ ﷺ کے خواب کی تعبیر کے تناظر میں پیش کرتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: ﴿وَاِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْﶈ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْ٘ا اَمْثَالَكُمْ﴾ (محمد ٤٧: ٣٨)، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، مَنْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ إِنْ تَوَلَّيْنَا اسْتُبْدِلُوا بِنَا، ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَنَا؟ فَضَرَبَ عَلَى فَخِذِ سَلْمَانَ الْفَارِسَيِّ، ثُمَّ قَالَ: ’’هَذَا وَقَوْمُهُ لَوْ كَانَ الدِّينُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَتَنَاوَلَهُ رِجَالٌ مِنْ فَارِسٍ‘‘.[15]
’’حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿وَاِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْﶈ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْ٘ا اَمْثَالَكُمْ﴾ (محمد ٤٧:  38)، صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول، یہ کون لوگ ہیں کہ اگر ہم نے رو گردانی کی تووہ ہماری جگہ آ جائیں گے، پھر وہ ہماری طرح نہ ہوں گے؟ تو آپ ﷺ نے سلمان فارسی کی ران پر ہاتھ مار کر فرمایا: یہ اور اس کی قوم؛ دین اگر ثریا کے پاس بھی ہوگا تو فارس کے لوگ اس تک رسائی حاصل کر لیں گے۔‘‘ [16]

ایک دوسری سند سے یہ بات یوں مروی ہے:

عن ابن عمر: ’’رأيت غنمًا كثيرة سوداء، دخلت فيها غنم كثيرة بيض‘‘، قالوا: فما أولته يا رسول الله؟ قال: ’’العجم، يشركونكم في دينكم وأنسابكم‘‘. قالوا: العجام يا رسول الله؟ قال: ’’لو كان الإيمان معلقًا بالثريا لناله رجال من العجم، وأسعدهم به الناس‘‘. [17]
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”‏‏‏‏میں نے خواب میں سیاہ رنگ کی بہت زیادہ بکریاں دیکھیں، ان میں بڑی تعداد میں سفید رنگ کی بکریاں داخل ہو گئیں۔“ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول، آپ نے اس خواب کی کیا تعبیر کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عجمی لوگ تمھارے دین اور نسب میں شریک ہوں گے۔“ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول، عجم؟ (‏‏‏‏ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر ایمان ثریا ستارے کے ساتھ معلق ہوتا تو عجم کے بعض لوگ اس تک بھی رسائی حاصل کر لیتے، (‏‏‏‏ذہن نشین کر لو کہ) وہ انتہائی سعادت مند لوگ ہوں گے۔‘‘[18]

تینوں روایات کو سامنے رکھ کردیکھیے تومعلوم ہوتا ہے کہ اصل روایت رسول اللہ ﷺ کے خواب کی روایت ہے۔ پھر کسی وقت آپ نے عجمی اقوام کی امت مسلمہ میں شمولیت کی خبر کوسورۂ محمد(٤٧) کی آیت ۳۸ کے تناظر میں بھی بیان کر دیا، جس کے الفاظ اس روایت کو قبول کرتے ہیں۔ پھر کسی راوی کے وہم سے یہ سورۂ جمعہ(٦٢) کی آیت 3 کے تناظر میں بیان ہو گئی ۔یوں جو غلط فہمی پیدا ہوئی جو ہماری تفسیری روایت میں بیان ہوگئی اور وہاں سے مرزا صاحب نے اسے بغیر جانچے اختیار کر لیا۔



ا

ن ملاحظات کی روشنی میں سورۂ جمعہ کی متعلقہ آیات کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے:



’اُسی نے امیوں کے اندر ایک رسول اُنھی میں سے بھیجا ہے جو اُس کی آیتیں اُنھیں سناتا اور اُن کا تزکیہ کرتا ہے، اور اِس کے لیے اُنھیں قانون اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس سے پہلے یہ لوگ کھلی گم راہی میں تھے ۔ اور امیوں میں سے اُن دوسروں میں بھی یہ رسول بھیجا ہے جو (ایمان لا کر) ابھی اُن میں شامل نہیں ہوئے ہیں۔ اللہ زبردست اور حکیم ہے۔ ‘‘

دیکھا جا سکتا ہے کہ سورۂ جمعہ کی زیر بحث آیت اپنے مفہوم میں بالکل بے غبار ہے۔



آیت کےاس اسلوب سے چند فوائد حاصل ہوتے ہیں:

 ایک یہ کہ اُن امیوں میں سے اس وقت تک جو ایمان نہیں لائے تھے، انھیں گویا ترغیب دی گئی کہ تم جس کا انکار کر رہے ہو، وہ تمھیں میں سے ایک شخص ہے جسے رسول بنا کر بھیجا گیاہے۔ اس نعمت کی قدر کرو۔ تم میں سے کچھ لوگ اس پر ایمان لا چکے ہیں، تم بھی ایمان لا کر ان کے ساتھ اس سعادت میں شامل ہو جاؤ۔

دوسرے یہ کہ آیت میں یہ بشارت بھی ہے کہ ان امیوں میں سے وہ جو ابھی تک ایمان نہیں لائے، وہ بھی ایمان لا کر مومنین کی جماعت میں شامل ہو جائیں گے۔

تیسرے یہ کہ مومن امیوں کےلیے اس میں تنبیہ تھی کہ ان میں سے جو ایمان لا چکے ہیں، وہ نہ بھولیں کہ وہ بھی اس سے پہلے گم راہی میں تھے، پھر ایمان سے مشرف ہوئے۔ چنانچہ ان کی قوم میں سے جو لوگ ابھی تک گم راہی میں ہیں، ان کی گم راہی بھی کسی وقت ختم ہو سکتی ہے، وہ بھی صاحب ایمان ہو سکتے ہیں، اس لیے ان سے مایوسی اور ان کے بارے میں بد گمانی نہیں کرنی چاہیے۔

یہاں یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ مرزا صاحب اگر واقعی خدا کے نبی ہوتے تو قرآن مجید سے اپنے دعویٰ نبوت کے بنیادی اور مرکزی استدلال میں ایسی فاش غلطی کے مرتکب نہ ہوتے۔ خدا انھیں ایسی فاش غلطی کرنے ہی نہ دیتا، اور اگر  وہ ایسا کر ہی بیٹھے تھے تو انھیں فوراً متنبہ کر دیتا۔ ایک نبی کے ہاں یہ امکان نہیں پایا جاتا کہ وہ کسی دینی معاملےمیں خطا کرے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کا فہم قرآن ایک عام خطا کار انسانی فہم ہی تھا، نہ کہ خدا سے حاصل ہونے والی وحی سے ان کے پاس کوئی قطعی علم آیا تھا، جس میں غلطی کا امکان نہیں ہو سکتا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ انصاف پسند طبائع کے لیے مرزا صاحب کی یہی ایک فاش خطا ان کے دعویٰ نبوت کی حقیقت جاننے کے لیے کفایت کرتی ہے۔

سورۂ آل عمران ( ٣) کی آیت ۸۱



احمدی حضرات کی طرف سےتسلسل نبوت کے اثبات میں قرآن مجید کی درج ذیل آیت سے بھی استدلال کیا جاتا ہے:

وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ النَّبِيّٖنَ لَمَا٘ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّحِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٗﵧ قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰي ذٰلِكُمْ اِصْرِيْﵧ قَالُوْ٘ا اَقْرَرْنَاﵧ قَالَ فَاشْهَدُوْا وَاَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِيْنَ.(آل عمران٣: ٨١)
’’یاد کرو، اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ، ’’آج ہم نے تمھیں کتاب اور حکمت و دانش سے نوازا ہے، کل اگر کوئی دوسرا رسول تمھارے پاس اُسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمھارے پاس موجود ہے، تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی‘‘ یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا،’’کیا تم اِس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟‘‘ اُنھوں نے کہا ’’ہاں ہم اقرار کرتے ہیں۔‘‘ اللہ نے فرمایا، ’’اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمھارے ساتھ گواہ ہوں‘‘۔‘‘ (مودودی)

احمدی حضرات اس آیت میں مذکور میثاق کو نبیوں سے لیا گیا میثاق قرار دیتے ہیں، جیسا کہ مولانا مودودی کے ترجمے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے، اور پھر درج ذیل سورۂ احزاب کی آیت میں مذکور نبیوں کے میثاق سے اس کا تعلق جوڑتے ہیں اور یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ سے بھی یہی میثاق لیا گیا تھا کہ ان کے بعد بھی اگر کوئی رسول آئے تو وہ بھی اس کی تصدیق کریں گے، دوسری آیت یہ ہے:



وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِيّٖنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُّوْحٍ وَّاِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰي وَعِيْسَي ابْنِ مَرْيَمَﵣ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا.(٣٣: ٧)
’’اور یاد رکھو، جب ہم نے سب نبیوں سے اُن کا عہد لیا اور تم سے بھی اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ ابن مریم سے بھی، اور ہم نے اُن سے نہایت پختہ عہد لیا۔‘‘

آیت بالا میں’’میثاق النبیین‘‘ سے ’نبیوں سے میثاق‘          کا مفہوم جوعلما کے ایک طبقے نے لیاہے، ہمارے نزدیک یہ مفہوم لینا درست نہیں۔ آیت کا سیاق و سباق اسے قبول نہیں کرتا۔ ملاحظہ کیجیے:

وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِيّٖنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُّوْحٍ وَّاِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰي وَعِيْسَي ابْنِ مَرْيَمَﵣ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا. لِّيَسْـَٔلَ الصّٰدِقِيْنَ عَنْ صِدْقِهِمْﵐ وَاَعَدَّ لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابًا اَلِيْمًا.(الاحزاب٣٣: ٧    ـ ٨)
’’اور یاد رکھو، جب ہم نے سب نبیوں سے اُن کا عہد لیا اور تم سے بھی اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ ابن مریم سے بھی، اور ہم نے اُن سے نہایت پختہ عہد لیا (کہ ہمارا پیغام بے کم و کاست پہنچا دو)۔ تاکہ اللہ راست بازوں سے اُن کی راست بازی کے بارے میں سوال کرے (اور منکروں اور منافقوں سے اُن کے کفر و نفاق کے بارے میں)، اور منکروں کے لیے تو اُس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘

پہلی بات یہ کہ سورۂ آل عمران کی درج بالا آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں نہ انبیا۔ آیت کا سیاق و سباق اسےبہت واضح طور پر متعین کرتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:



وَمِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ يُّؤَدِّهٖ٘ اِلَيْكَﵐ وَمِنْهُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِدِيْنَارٍ لَّا يُؤَدِّهٖ٘ اِلَيْكَ اِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَآئِمًاﵧ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْاُمِّيّٖنَ سَبِيْلٌﵐ وَيَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُوْنَ. بَلٰي مَنْ اَوْفٰي بِعَهْدِهٖ وَاتَّقٰي فَاِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ. اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَاَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيْلًا اُولٰٓئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ وَلَا يَنْظُرُ اِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَلَا يُزَكِّيْهِمْﵣ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ. وَاِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيْقًا يَّلْوٗنَ اَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتٰبِ لِتَحْسَبُوْهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتٰبِﵐ وَيَقُوْلُوْنَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِﵐ وَيَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُوْنَ. مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّؤْتِيَهُ اللّٰهُ الْكِتٰبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُوْلَ لِلنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّيْ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰنِيّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ. وَلَا يَاْمُرَكُمْ اَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلٰٓئِكَةَ وَالنَّبِيّٖنَ اَرْبَابًاﵧ اَيَاْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ اِذْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ. وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ النَّبِيّٖنَ لَمَا٘ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّحِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٗﵧ قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰي ذٰلِكُمْ اِصْرِيْﵧ قَالُوْ٘ا اَقْرَرْنَاﵧ قَالَ فَاشْهَدُوْا وَاَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِيْنَ. فَمَنْ تَوَلّٰي بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ. اَفَغَيْرَ دِيْنِ اللّٰهِ يَبْغُوْنَ وَلَهٗ٘ اَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْهًا وَّاِلَيْهِ يُرْجَعُوْنَ. قُلْ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَا٘ اُنْزِلَ عَلَيْنَا وَمَا٘ اُنْزِلَ عَلٰ٘ي اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَا٘ اُوْتِيَ مُوْسٰي وَعِيْسٰي وَالنَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْﵣ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْﵟ وَنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ. وَمَنْ يَّبْتَغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُﵐ وَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ. كَيْفَ يَهْدِي اللّٰهُ قَوْمًا كَفَرُوْا بَعْدَ اِيْمَانِهِمْ وَشَهِدُوْ٘ا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّجَآءَهُمُ الْبَيِّنٰتُﵧ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ.(٣: ٧٥ـ٨٦)
’’اور اہل کتاب میں وہ لوگ بھی ہیں کہ اگر تم مال و دولت کا ڈھیر اُن کے پاس امانت رکھ دو تو وہ تمھیں ادا کر دیں گے اور اِن میں وہ بھی ہیں کہ اگر تم ایک دینار بھی اُن کی امانت میں دے دو تو جب تک اُن کے سر پر سوار نہ ہوجاؤ ، وہ اُس کو تمھیں ادا نہ کریں گے۔ یہ اِ س وجہ سے کہ اُنھوں نے کہہ رکھا ہے کہ اِن امیوں کے معاملے میں ہم پر کوئی الزام نہیں ہے۔ اور (حقیقت یہ ہے کہ) وہ جانتے بوجھتے اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔ ہاں، کیوں نہیں؟ جو اُس کے عہد کو پورا کرے اور پرہیز گار رہے، (وہ اُسے محبوب ہے)، اِس لیے کہ اللہ پرہیز گاروں سے محبت کرتا ہے۔(اِس کے برخلاف ) جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ دیتے ہیں، اُن کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے، اور اللہ قیامت کے دن نہ اُن سے بات کرے گا، نہ اُن کی طرف نگاہ التفات سے دیکھے گا اور نہ اُنھیں (گناہوں سے) پاک کرے گا، بلکہ وہاں اُن کے لیے ایک درد ناک سزا ہے۔ اور اِن میں وہ لوگ بھی ہیں کہ اللہ کی کتاب کو پڑھتے ہوئے اپنی زبان کو اِس طرح توڑتے مروڑتے ہیں کہ تم سمجھو کہ (جو کچھ وہ پڑھ رہے ہیں)، وہ کتاب ہی کی عبارت ہے، دراں حالیکہ وہ کتاب کی عبارت نہیں ہوتی، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، دراں حالیکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہوتا، اور (اِس طرح) جانتے بوجھتے اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔ (پھر یہی نہیں، وہ اللہ کے پیغمبر پر بھی جھوٹ باندھتے ہیں اور نہیں سوچتے کہ) کسی انسان کی یہ شان نہیں ہے کہ اللہ اُس کو اپنی کتاب دے اور(اُس کے مطابق) فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور نبوت عطا فرمائے، پھر وہ لوگوں سے یہ کہے کہ اللہ کے بجاے تم میرے بندے بن جاؤ۔ (نہیں)، بلکہ (وہ تو یہی کہے گا کہ لوگو)، اللہ والے بنو، اِس لیے کہ تم اللہ کی کتاب پڑھتے اور پڑھاتے ہو۔ اور نہ وہ تم سے یہ کہے گا کہ فرشتوں اور نبیوں کو اپنا رب بنا لو۔ تمھارے مسلمان ہو چکنے کے بعد کیا وہ تمھیں کفر اختیار کر لینے کی ترغیب دے گا؟ اور (اِنھیں یاد دلاؤ)، جب اللہ نے نبیوں کے بارے میں(اِن سے) عہد لیا کہ میں نے جو شریعت اور حکمت تمھیں عطا فرمائی ہے، پھر تمھارے پاس کوئی رسول اُس کی تصدیق کرتے ہوئے آئے جو تمھارے پاس موجود ہے تو تم اُس پرضرور ایمان لاؤ گے اور اُس کی مدد کرو گے۔ (اِس کے بعد ) پوچھا: کیا تم نے اقرار کیا اور اِس پر میرے عہد کی ذمہ داری اٹھا لی ہے؟ اُنھوں نے جواب دیا کہ ہم نے اقرار کیا تو فرمایا کہ پھر گواہ رہو اور میں بھی تمھارے ساتھ گواہ ہوں۔ (فرمایا کہ) پھر اِس کے بعد جو ( اِس عہد سے) پھریں گے تو وہی نافرمان ہیں۔ تو کیا یہ لوگ (اب) اللہ کے دین کے سوا کسی اور دین کی تلاش میں ہیں، دراں حالیکہ زمین اور آسمانوں میں طوعاً و کرہاً، سب اُسی کے فرماں بردار ہیں اور اُسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ اِن سے کہہ دو کہ ہم نے اللہ کو مانا ہے اور اُس چیز کو مانا ہے جوہم پر نازل کی گئی اورجو ابراہیم، اسمٰعیل، اسحٰق اور یعقوب اوراُن کی اولاد پر نازل کی گئی، اورجوموسیٰ اورعیسٰی اوردوسرے سب نبیوں کو اُن کے پروردگار کی طرف سے دی گئی۔ ہم اِن میں سے کسی کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے۔ (یہ سب اللہ کے پیغمبر ہیں) اور ہم اُسی کے فرماں بردار ہیں۔ (یہی اسلام ہے)، اور جو اسلام کے سوا کوئی اوردین اختیارکرنا چاہے گا تو اُس سے وہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور قیامت میں وہ نامرادوں میں سے ہوگا۔ (تم اِن کی ہدایت چاہتے ہو)؟ اللہ اُن لوگوں کو ہدایت کس طرح دے گا جو ماننے کے بعد منکر ہوگئے، دراں حالیکہ وہ اِس بات کے گواہ ہیں کہ یہ رسول سچے ہیں اور (اِن کی سچائی پر گواہی کے لیے) اُن کے پاس کھلی ہوئی نشانیاں بھی آچکی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ اِس طرح کے ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘

آیت میں ڈانٹ کے سخت لہجے میں کہا جارہا ہےکہ اگر انھوں نے اس عہد کو کہ وہ ہر آنے والے رسول پر ایمان لائیں گے، پورا نہ کیا تووہ فاسق کہلائیں گے، نیز یہ بھی کہا گیا کہ کیا وہ خدا کے دین کو چھوڑ کر نیا دین بنا لینا چاہتے ہیں؟ ڈانٹ کا یہ انداز بنی اسرائیل کے لیے ہی موزوں ہو سکتا ہے، نہ کہ انبیا کے لیے۔ اس پیرا کی آخری آیت سے معاملہ بالکل واضح ہو کر سامنے آجاتا ہے جہاں بنی اسرائیل کی طرف سے محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت کے انکار کی صورت میں اس میثاق اور عہد کو توڑنے کی وجہ سے اسی عذاب الہٰی کا مژدہ ان کو سنایاگیا ہے:

’’ اللہ اُن لوگوں کو ہدایت کس طرح دے گا جو ماننے کے بعد منکر ہوگئے، دراں حالیکہ وہ اِس بات کے گواہ ہیں کہ یہ رسول سچے ہیں اور (اِن کی سچائی پر گواہی کے لیے) اُن کے پاس کھلی ہوئی نشانیاں بھی آچکی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ اِس طرح کے ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘

سورۂ احزاب کی مذکورہ بالا آیت میں انبیا کے میثاق کا ذکر ہے اور اس کے نتیجے میں کہا گیا ہے کہ ’’تاکہ اللہ راست بازوں سے اُن کی راست بازی کے بارے میں سوال کرے‘‘، یعنی اس میثاق کا یہ نتیجہ نکلنا چاہیے۔ یہ نتیجہ تب ہی نکل سکتا ہے جب خدا کے پیغام اور ہدایت کا ابلاغ، بلکہ اتمام حجت ہوجائے۔اس کی وضاحت سورۂ  مائدہ  کے ایک مقام سے ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ روز قیامت عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھیں گے کہ آپ کے بعد آپ کے پیروکاروں نے جو غلط عقائد بنا لیے تھے، کیا آپ نے انھیں ایسا کرنے کا  کہا تھا؟ عیسیٰ علیہ السلام عرض کریں گے کہ انھوں نے تو توحید کے درست پیغام کا ابلاغ ہی کیا تھا۔ ان کے رخصت ہو جانے بعد کیا ہوا، اس کی ذمہ داری ان پر نہیں۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اپنے عقیدے میں جو دیانت دار تھے، سچے تھے، ان کو ان کی سچائی کاصلہ بہرحال ملے گا۔ آیات ملاحظہ کیجیے:



و
َاِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسَي ابْنَ مَرْيَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَاُمِّيَ اِلٰهَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِﵧ قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا يَكُوْنُ لِيْ٘ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَيْسَ لِيْﵯ بِحَقٍّﵫ اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗﵧ تَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِيْ وَلَا٘ اَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِكَﵧ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ. مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَا٘ اَمَرْتَنِيْ بِهٖ٘ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّيْ وَرَبَّكُمْﵐ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْﵐ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْﵧ وَاَنْتَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ. اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَﵐ وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ. قَالَ اللّٰهُ هٰذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصّٰدِقِيْنَ صِدْقُهُمْﵧ لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا٘ اَبَدًاﵧ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُﵧ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ. 
(المائدہ٥: ١١٦   ـ  ١١٩)
 ’’اور جب( اِنھیں یاد دلا کر) اللہ پوچھے گا: اے مریم کے بیٹے عیسیٰ، کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا تم مجھے اور میری ماں کو معبود بنالو؟ وہ عرض کرے گا: سبحان اللہ، یہ کس طرح روا تھا کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں ہے۔ اگر میں نے یہ بات کہی ہوتی تو آپ کے علم میں ہوتی، (اِس لیے کہ) آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے اور آپ کے دل کی باتیں میں نہیں جانتا۔ تمام چھپی ہوئی باتوں کے جاننے والے تو آپ ہی ہیں۔ میں نے تو اُن سے وہی بات کہی تھی جس کا آپ نے مجھے حکم دیا تھا کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمھارا بھی۔ میں اُن پر نگران رہا، جب تک میں اُن کے درمیان تھا۔ پھر جب آپ نے مجھے وفات دی تو اُس کے بعد آپ ہی اُن کے نگران رہے ہیں اور آپ ہر چیز پر گواہ ہیں۔اب اگر آپ اُنھیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ ہی زبردست ہیں، بڑی حکمت والے ہیں۔اللہ فرمائے گا: یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کی سچائی اُن کے کام آئے گی۔ اُن کے لیے باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ اُن سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘

سورۂ احزاب کی آیت بالا میں بتایا گیا ہے کہ سچوں سے ان کی سچائی کے بارے میں پوچھا جائے گا اور سورۂ مائدہ کے اس بیان میں ذکر ہے کہ روز قیامت سچوں کو ان کی سچائی کی وجہ سے صلہ ملے گا، چنانچہ معلوم ہوا کہ یہ مواخذہ اتمام حجت کی وجہ سے پیش آئے گا ۔چنانچہ سورۂ آل عمران میں ’مِيْثَاقَ النَّبِيّٖنَ ‘                       کا ترجمہ ’نبیوں سے میثاق‘ لینا درست نہیں ہو سکتا۔ مولانا اصلاحی لکھتے ہیں کہ آیت میں اضافت فاعل (انبیا: راقم) کی طرف نہیں، بلکہ مفعول (بنی اسرائیل: راقم) کی طرف ہے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ انبیا  سے میثاق لیا گیا ،بلکہ یہ مطلب ہے کہ انبیا کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے میثاق لیا۔


[1

9]



ہمارے نزدیک ان مفسرین کی بات درست ہے جو ’میثاق النبیین‘ سے  

وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ الْمِيثَاقَ الَّذِيْ وَثَّقَهُ اللّٰهُ للأنبياء على أممهم(جب اللہ نے وہ میثاق لیا جو اس نے انبیا کی امتوں سے ان کے انبیا کے لیے لیا) لیتے ہیں۔[20]

خدا کےاس مطالبہ کا یہ نتیجہ تھا کہ ہر نبی نے اس میثاق کے تحت اپنی امت سے محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہاں اس آیت کو لانے سے مقصود محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت پر ایمان لانے کا وہی مطالبہ ہے۔ چونکہ انبیا کا بعثت محمدی کےوقت زندہ ہونا حدامکان میں سے نہیں تھا، اس لیے ان سے محمد رسول اللہ ﷺ کی آمد پر ان کی تصدیق کرنے کے مطالبے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ یہ مطالبہ، لا محالہ، انبیا کی اس امت، یعنی بنی اسرائیل سے تھا، جن سے محمد رسول اللہ ﷺ کی آمد پر ان کی تصدیق کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ آیت کا سیاق و سباق بھی، جیسے کہ پیش تر عرض کیا گیا، اس کی تصدیق کرتا ہے کہ اس سلسلۂ کلام کے مخاطب سراسر بنی اسرائیل ہیں۔ اس لیے ’میثاق النبیین‘ کی درست تالیف وہی ہے جو ہم نے اپنے موقف کی تائید میں پیش کی ہے۔



اس مفہوم کی تائید درج ذیل آیت سے بھی ہوتی ہے:

وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ بَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْلَﵐ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيْبًاﵧ وَقَالَ اللّٰهُ اِنِّيْ مَعَكُمْﵧ لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوةَ وَاٰتَيْتُمُ الزَّكٰوةَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِيْ وَعَزَّرْتُمُوْهُمْ وَاَقْرَضْتُمُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَلَاُدْخِلَنَّكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُﵐ فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِيْلِ.(المائدہ٥: ١٢)
’’اللہ نے (اِسی طرح) بنی اسرائیل سے بھی عہد لیا تھا اور (اُس کی نگرانی کے لیے) ہم نے اُن میں سے بارہ نقیب اُن پر مقرر کیے تھے اوراللہ نے اُن سے وعدہ کیا تھا کہ میں تمھارے ساتھ رہوں گا۔ اگر تم نے نماز کا اہتمام کیا اور زکوٰۃ ادا کی اور میرے رسولوں کو مانا اور اُن کی مدد کی اور اللہ، (اپنے پروردگار) کو قرض دیتے رہے، اچھا قرض تو یقین رکھو کہ میں تمھاری لغزشیں تم سے دور کردوں گا اور تمھیں ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ پھر اِس (عہد و میثاق) کے بعد بھی جو تم میں سے منکر ہوں تو (اُنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) وہ سیدھی راہ سے بھٹک گئے ہیں۔‘‘

اس آیت میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عہدبھی وہی ہے، لب و لہجہ بھی وہی، تنبیہ بھی ویسی ہی ہے اور مخاطبت بھی اہل کتاب سے قطعی طور پر واضح ہے۔

اس بحث سے ثابت ہوتا ہے کہ سورۂ احزاب (٣٣)کی درج بالا آیت سے تسلسل نبوت کا استدلال درست نہیں، اس لیے کہ یہاں مذکور میثاق بنی اسرائیل سے لیا جانے والا میثاق نہیں اور سورۂ آل عمران (٣)کی آیت 81 میں جس میثاق کا ذکر ہے، وہ بنی اسرائیل سے اس بات کا لیا گیا ہے کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت پر ان کی نبوت کا اقرار کریں گے۔



س

ورۂ حج (٢٢)  کی آیت ۷۵



درج ذیل آیت سے بھی تسلسل نبوت کا استدلال کیا گیا ہے:


اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰٓئِكَةِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِﵧ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۣ بَصِيْرٌ.(الحج٢٢: ٧٥)
’’اللہ فرشتوں میں سے بھی (اپنے)  پیغام بر چنتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ سمیع و بصیر ہے۔‘‘

اس آیت سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ یہاں فعل مضارع کا استعمال ہوا ہے، جو استمرار کے لیے بھی آتا ہے، اس لیےاللہ تعالیٰ  کی طرف سے انسانوں میں سے کاررسالت کےلیے انتخاب کا سلسلہ جاری رہے گا۔

اس آیت کواس کے پورے سیاق و سباق میں دیکھتے ہیں:
اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰٓئِكَةِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِﵧ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۣ بَصِيْرٌ. يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْﵧ وَاِلَي اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ. يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَاسْجُدُوْا وَاعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ. وَجَاهِدُوْا فِي اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖﵧ هُوَ اجْتَبٰىكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍﵧ مِلَّةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَﵧ هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِيْنَﵿ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ هٰذَا لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِيْدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَي النَّاسِﵗ فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰهِﵧ هُوَ مَوْلٰىكُمْﵐ فَنِعْمَ الْمَوْلٰي وَنِعْمَ النَّصِيْرُ.(الحج٢٢: ٧٥ـ            ٧٨)
’’اللہ فرشتوں میں سے بھی (اپنے) پیغام بر چنتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔ (اِس سے وہ خدائی میں شریک کیوں ہو جائیں گے)؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ (خود) سمیع و بصیر ہے۔ اِن (فرشتوں) کے آگے اور پیچھے جو کچھ ہے، وہ اُس سے واقف ہے اور تمام معاملات اُسی کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔ایمان والو، (اِن کا عہد تمام ہوا، اب تمھارا دور شروع ہو رہا ہے تو) رکوع و سجود کرو اور اپنے پروردگار کی بندگی کرو اور نیکی کے کام کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ اور (مزید یہ کہ اپنے منصب کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے) اللہ کی راہ میں جدوجہد کرو، جیسا کہ جدوجہد کرنے کا حق ہے۔ اُس نے تمھیں چن لیا ہے اور (جو) شریعت (تمھیں عطا فرمائی ہے، اُس) میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ہے۔ تمھارے باپ ــــ ابراہیم ــــ کی ملت تمھارے لیے پسند فرمائی ہے۔ اُسی نے تمھارا نام مسلم رکھا تھا، اِس سے پہلے اور اِس (قرآن) میں بھی (تمھارا نام مسلم ہے)۔ اِس لیے (چن لیا ہے) کہ رسول تم پر (اِس دین کی) گواہی دے اور دنیا کے سب لوگوں پر تم (اِس کی) گواہی دینے والے بنو۔ سو نماز کا اہتمام رکھو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور اللہ کو مضبوط پکڑو۔ وہی تمھارا مولیٰ ہے۔ سو کیا ہی اچھا مولیٰ ہے اور کیا ہی اچھا مددگار!‘‘

فعل مضارع ہمیشہ استمرار کے لیے نہیں آتا، بیان واقعہ کے لیے بھی آتا ہے، یعنی’’ہوتا ہے‘‘، لیکن ’’ہوتا رہے گا‘‘ یہ اس فعل کا لازمہ نہیں۔ یہاں اس بیان کے آنے کی دو وجوہات ہیں، جو نظم کلام سے متبادر ہیں۔ یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ فرشتے، جن کو تم معبود بنائے بیٹھے ہو، ان کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ انھیں خدا اپنے پیغامات کی ترسیل کے لیے ایک ذریعہ کے طور پر انھیں چنتا ہے۔اسی طرح  انسانوں میں سے بھی وہ افراد اور اقوام کو چنتا ہے۔اس دوسری بات کا تعلق آگے کی آیات سے ہے، جن میں اس انتخاب کی نعمت کا ذکر کر کے بنی اسمٰعیل کو باور کرایا جارہا ہے کہ اب انھیں اس منصب شہادت کے لیے چنا گیا ہے۔ یہ نعمت ایک بڑی ذمہ داری ہے، اس کے لیے خدا کی راہ میں ایسے جہدوجہد کرو، جیسا اس کا حق ہے۔

اقوام کے انتخاب کا سلسلہ قرآن مجید کے مطابق ذریت ابراہیم سے شروع ہوا۔ پہلے بنی اسرائیل کو اس کے لیے چنا گیا۔ ان کے بعد بنی اسمٰعیل کا انتخاب ہوا ۔ اس آیت میں تسلسل نبوت کا اعلان نہیں ہے، بلکہ اس سنت الہٰی کا بیان ہے کہ خدا ایسا کرتا ہے اور پھر سورۂ احزاب (٣٣) کی آیت ۴۰ میں اس نے خود بتا بھی دیا کہ وہ اب یہ سلسلہ بند کررہا ہے۔



اللہ تعالیٰ کی سنت یہ رہی ہے کہ وہ آنے والے انبیا کی طرح  کار رسالت کے لیےاقوام کے انتخاب کے بارے میں بھی پیشین گوئی اپنی کتاب میں بیان کرتا ہے۔ قرآن سے پیش تر اس نے قدیم صحائف میں پیشین گوئیوں کی صورت میں پہلے سے یہ بتا دیا تھا کہ وہ ذریت ابراہیم کو کار رسالت کےلیے چنے گا، پھر بتایاکہ بنی اسرائیل کو اس نے منتخب کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، پھر بتایا کہ بنی اسمٰعیل کو اس کام کے لیے چنے گا۔ محمد رسول اللہ کے بارے میں چند پیشین گوئیوں کا ذکر پیش تر ہوچکا، یہاں بائیبل کی کتاب استثنا سے بنی اسمٰعیل کے انتخاب کی پیشین گوئی ملاحظہ ہو:

’’میں اُن کے لیے اُن ہی کے بھائیوں، (یعنی بنی اسمٰعیل) میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اُسے حکم دوں گا، وہی وہ اُن سے کہے گا ۔اور جو کوئی میری اُن باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سُنے تو میں اُن کا حساب اُس سے لوں گا ۔‘‘ [21]

اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب،قرآن مجید میں مزید ایسے کسی فرد یا قوم کا ذکر نہیں جسے محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد چنے جانے کا اعلان کیا گیا ہو، بلکہ وہاں نبوت کےسلسلے ہی کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا ہے ۔

سورۂ نساء (٤) کی آیت ۶۹ سے استدلال



وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰلِحِيْنَﵐ وَحَسُنَ اُولٰٓئِكَ رَفِيْقًا.

(النساء ٤: ٦٩)
’’جو اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کریں گے، وہی ہیں جو اُن لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین۔ کیاہی اچھے ہیں یہ رفیق!‘‘

اس آیت سے مرزا صاحب نے یہ استدلال کیا ہے کہ سورۂ فاتحہ میں انعام یافتہ لوگوں کے راستے پر چلنے کی دعا مانگی گئی تھی۔ سورۂ نساء کی یہ آیت اس دعا کا جواب ہے۔ پھر یہ استدلال کرتے ہیں کہ ان انعام یافتہ لوگوں کے ساتھ ہونے کا مطلب ان لوگوں جیسا ہونا بھی ہے۔ چنانچہ بعد کے لوگ بھی جس طرح صدیق، شہید اور صالح ہو سکتے ہیں، انبیا بھی ہو سکتے ہیں۔ کتاب، ’’جماعت احمدیہ کا تعارف‘‘ کے مصنف لکھتے ہیں:



اس آیت میں آیندہ نبی، صدیق، شہید اور صالح بننے کےلیے اللہ اور آں حضرت ﷺ کی اطاعت کو لازمی شرط قرار دیا گیا ہے۔ جس کے معنی ہیں کہ آں حضرت ﷺ کے بعد نبوت، صدیقیت، شہادت اور صالحیت کی چاروں نعمتیں آپ کی اطاعت سے وابستہ ہیں اور نبی، صدیق، شہید اور صالح بننے کے لیے آپ                                کی اطاعت شرط ہے۔‘‘[22]

یہ استدلال نہایت کم زور ہے۔ ’’مع‘‘، یعنی ساتھ ہونے کا مطلب ان جیسا ہونا لازم نہیں، ایسا ہے تو خدا کے اس ارشاد کا مطلب کیا ہوگا؟

وَاللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ.(البقرہ٢: ٢٤٩)
’’اور اللہ تو ثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘

گویا صابرین خدا بن سکتےہیں یا خدا ن صابر بندوں جیسا ہو جائے گا؟

چنانچہ یہ کوئی استدلال نہیں کہ  اگر بعد از ختم نبوت صدیقیت، شہادت اور صالحیت کے درجات میں شامل ہونا ممکن ہے تو نبی کے درجے میں شامل ہونا بھی ممکن ہے۔ جب سلسلۂ انبیا کا خاتمہ متعین ہوچکا، جیسا کہ نصوص سے قطعی طور پر ثابت ہے، تو نبی کا درجہ ملنے کا امکان ہی باقی نہیں رہتا۔ چنانچہ نبوت کے علاوہ دیگر درجات میں شمولیت سے نبوت کے درجے میں شمولیت کا استدلال کسی طرح درست نہیں ٹھیرتا۔



انبیا کی سرگذشتوں سے یہ بات طے ہے کہ نبوت کا منصب عطیہ خداوندی ہے۔ اسے کسب اور دعا سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس خیال کی کوئی بنیاد نصوص میں نہیں ہے۔ کسی نبی کو نبی بننے سے پہلے نبی بننے کا گمان بھی نہیں ہوتا تھا، چہ جائیکہ یہ سمجھا جائے کہ عام لوگوں کو سورۂ فاتحہ کی اس دعا سے نبی بننے کا راستہ دکھایا گیا ہے۔ مذکورہ بالا آیت میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ عام لوگ بھی جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے، وہ دین میں اعلیٰ درجات حاصل کر لینے والوں کی معیت سے بہرہ مند ہوں گے۔ ادھر اعلی ٰ درجات کی حدبندی کر کے یہ بتا دیا گیا ہے کہ نبوت کے درجے میں داخلہ بند ہے۔



کیاجھوٹا نبی طبعی موت نہیں مر سکتا؟

مرزا صاحب کی طر ف سےقرآن مجید کی درج ذیل آیت سے یہ استدلال کیا  جاتا  ہے کہ کوئی  جھوٹا نبی طبعی موت نہیں مر سکتا، وہ خدا کی پکڑ میں آ جاتا  ہے اور غیرطبعی موت مرتا ہے:

تَنْزِيْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ. وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ. لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ. ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ.(الحاقہ ٦٩: ٤٣  ـ٤٦ )
’’یہ رب العٰلمین کی طرف سے نازل ہوا ہے۔(ہمارا) یہ (پیغمبر) اگر اپنی طرف سے کوئی بات ہم پر بنا لاتا۔ تو ہم اِس کو قوی ہاتھ سے پکڑ لیتے۔ پھر اِس کی رگ گردن کاٹ دیتے۔ پھر تم میں سے کوئی (ہمیں) اِس کام سے روک نہ سکتا۔‘‘

احمدی حضرات کا استدلال یہ ہے کہ یہ آیت بتاتی ہے کہ اگر کوئی نبوت کا  مدعی دنیا  میں خدا  سے سزا  پائے  بغیر  بہ عافیت رخصت ہوا  ہے تو یہ خود اس کی  صداقت  پر دلیل ہے۔اس کا بدیہی مطلب یہ ہے کہ جو نبی بھی غیر طبعی وفات پائے، وہ سچا نہیں ہو سکتا۔ آیت سے یہ استدلال کسی طرح درست نہیں۔

  پہلی بات تو یہ کہ آیت بالا محمد رسول اللہ ﷺ کے حق میں آپ     کی نبوت کی صداقت اور دین کی بہ حفاظت منتقلی کے اہتمام پر دلالت کر رہی ہے، نہ کہ مدعیان نبوت کے دعویٰ نبوت کی صداقت کو  پرکھنے کا کوئی پیمانہ بیان  کر رہی ہے۔ اس اہتمام کا ذکر ایک اورجگہ یوں ہوا ہے:

فَاِنَّهٗ يَسْلُكُ مِنْۣ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًا. لِّيَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّهِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَاَحْصٰي كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا. (الجن٧٢: ٢٧ـ  ٢٨)
’’رہے وہ جن کو وہ رسول کی حیثیت سے منتخب کر لیتا ہے، وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ سکتے، اُن کے آگے اور پیچھے تو وہ پہرا لگا دیتا ہے تاکہ معلوم رہے کہ اُنھوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے ہیں، اور وہ اُن کے ماحول کو گھیرے میں اور اُن کی ہرچیز کو گنتی میں رکھتا ہے۔‘‘

یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی سرکاری عہدے دار کے لیے اپنےاختیارات کے غلط استعمال کرنے پر باقاعدہ سزا بیان کی جاتی ہے، لیکن اگر کوئی عام آدمی اسی نوعیت کا کوئی جرم کرے تو قانون اس کے جرم کے لحاظ سےجو سزا دینا مناسب سمجھے گا، دے گا، لیکن سرکاری عہدےدار کی سزا  کا  الگ سے متعین ہونا طے ہوتا ہے اور ایک کو دوسرے پر قیاس نہیں کیا جاتا۔

اس آیت میں بتانا یہ مقصود ہے کہ دین کے ابلاغ میں آپ ﷺ     کی طرف سے کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی، اور چونکہ آپ ﷺ سے کوئی کوتاہی نہیں ہوئی، اسی لیے آپ خدا کی رحمت کے سائے میں اس کا پیغام بے کم وکاست پہنچا رہے ہیں۔ اس میں ایسا کوئی بیان نہیں کہ کوئی بھی شخص جوخدا پر جھوٹ باندھے گا، خدا اس کی گردن مار ڈالے گا۔ ایسا ہوتا تو طرز بیان رسول اللہ ﷺ کو مخصوص کرنے کے بجاے عمومی ہوتا، یعنی جو بھی خدا پر ایسا جھوٹ باندھے گا ،اس کا انجام یہ ہوگا۔

اس کی تائید اس طرح بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی اجتہادی آرا کی خطا پر اللہ کی طرف سے فوراً درستی کر دی جاتی تھی تاکہ دین بغیر کسی ادنیٰ کجی کے امت کو پہنچے، لیکن آپ ﷺ کے بعدمجتہدین کی خطاؤں پر خدا کی طرف سے اس طرح اصلاح کرنےکا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔ یہ اس لیے کہ مجتہدین کی خطاؤں کے باوجود اصل دین محفوظ ہے۔اس کے اصولوں کی روشنی میں اجتہادی خطاؤں کو  پرکھنا ممکن ہے۔یہی اصول یہاں بھی کارفرما ہے کہ دین جب محفوظ طور پر منتقل ہو گیا، تو اب اللہ تعالیٰ کو دین کی حفاظت کے لیے مزید اس قسم کے غیر معمولی انتظامات کی ضرورت نہیں کہ کسی جھوٹے نبی کو لازمًا دنیا ہی میں عبرت کا نمونہ بنا دیا جائے۔ بعد از نبوت جس طرح اجتہادی معاملات عقل و دانش کی آزمایش کا میدان ہیں، اسی طرح یہ بھی آزمایش کا محل ہےکہ لوگ دین کے درست اور محفوظ ذریعۂ علم کے ہوتے ہوئے اپنے عقل و فہم کی بنیاد پر حق و باطل کی پہچان کریں، اس معاملے میں خدا کی محسوس مداخلت اب کسی معاملے میں نہیں ہوگی۔ خدا نے ایسا کوئی اعلان یا وعدہ نہیں کیا ۔



دوسری بات یہ ہے کہ سچے نبیوں کابھی غیر طبعی وفات پانا  معلوم  ہے۔ بنی اسرائیل کے ہاتھوں نبیوں کے قتل کا ذکر قرآن مجید اور بائیبل، دونوں میں بہ صراحت موجود ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے بعد سے بنی اسرائیل کی رہنمائی کے لیے نبیوں کا سلسلہ جاری کیا گیا تھا۔ ان انبیا میں سے ایک بڑی تعداد کو ان کے بادشاہوں نے قتل کیا تھا:

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَي الْكِتٰبَ وَقَفَّيْنَا مِنْۣ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِﵟ وَاٰتَيْنَا عِيْسَي ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ وَاَيَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِﵧ اَفَكُلَّمَا جَآءَكُمْ رَسُوْلٌۣ بِمَا لَا تَهْوٰ٘ي اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْﵐ فَفَرِيْقًا كَذَّبْتُمْﵟ وَفَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ.

(البقرہ٢: ٨٧)
’’اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی اور اُس کے پیچھے پے در پے اپنے پیغمبربھیجے تھے، اور مریم کے بیٹے عیسیٰ کو (اِن سب کے بعد) کھلی کھلی نشانیاں دیں اور روح القدس سے اُس کی تائید کی  (تو جانتے ہو کہ اُن کے ساتھ تمھارا رویہ کیا رہا)؟ پھر کیا یہی ہوگا کہ جب بھی (ہمارا) کوئی پیغمبر وہ باتیں لے کر تمھارے پاس آئے گا جو تمھاری خواہشوں کے خلاف ہوں گی، تو تم (اُس کے سامنے) تکبر ہی کرو گے؟ پھر ایک گروہ کو جھٹلا دو گے اور ایک گروہ کو قتل کرو  گے۔‘‘
وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِﵧ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَيَقْتُلُوْنَ النَّبِيّٖنَ بِغَيْرِ الْحَقِّﵧ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ.

 (البقرہ٢: ٦١)
’’اور اُن پر ذلت اور محتاجی مسلط کردی گئی اور وہ اللہ کا غضب کما لائے۔ یہ اِس وجہ سے ہوا کہ وہ اللہ کی آیتوں کو نہیں مانتے تھے اور اُس کے نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے۔ یہ اِس وجہ سے ہوا کہ اُنھوں نے نافرمانی کی اور وہ (اللہ کی ٹھیرائی ہوئی) کسی حد پر نہ رہتے تھے۔‘‘

بائیبل کے بیان کے مطابق، اسرائیل کے بادشاہ اخی اب کی ملکہ ایزبل نے انبیا کے قتل کی باقاعدہ مہم شروع کی تھی۔ اخی اب کے محل کا انچارچ، عبدیاہ، حضرت الیاس (ایلیاہ) سے مخاطب ہو کر کہتا ہے:

’’کیا میرے آقا تک یہ خبر نہیں پہنچی کہ جب ایزبل (بادشاہ اخی اب کی بیوی) رب کے نبیوں کو قتل کر رہی تھی تو میں نے کیا کیا؟ میں دو غاروں میں پچاس پچاس نبیوں کو چھپا  کر انھیں کھانے پینے کی چیزیں پہنچاتا رہا۔‘‘ [23]

حضرت الیاس (ایلیاہ) جس وقت ملکہ ایزبل کی نبی کش مہم سے بچنے کے لیے ایک غار میں چھپے تھے  توانھوں نے خدا سے عرض کیا:

’’اسرائیلیوں نے تیرے عہد کو ترک کر دیا ہے۔ انھوں نے تیری قربان گاہوں کو گرا کر تیرے نبیوں کو تلوار سے قتل کر دیا ہے۔ میں اکیلا ہی بچا ہوں اور وہ مجھے بھی مار ڈالنے کے درپے ہیں۔‘‘ [24]

اوریاہ نبی کو خدا کی طرف سے تنبیہات سنانے پر یہوداہ کے بادشاہ یہولقیم نے قتل کیا۔[25]

انجیل میں بھی بنی اسرائیل کے ان جرائم کو دہرایا گیا ہے:

’’اور تم کہتے ہو، ’اگر ہم اپنے باپ دادا کے زمانے میں زندہ ہوتے تو نبیوں کے قتل کرنے میں شریک نہ ہوتے۔‘ لیکن یہ کہنے سے تم اپنے خلاف گواہی دیتے ہو کہ تم نبیوں کے قاتلوں کی اولاد ہو۔‘‘[26]

زکریا علیہ السلام کے قتل کا ذکر مسیح علیہ السلام کی زبانی یوں آیا ہے:

’’...تم تمام راست بازوں کے قتل کے ذمہ دار ٹھہرو گےــــ راست باز ہابیل کے قتل سے لے کر زکریاہ بن برکیاہ کے قتل تک جسے تم نے بیت المقدس کے دروازے اور اس کے صحن میں موجود قربان گاہ کے درمیان مار ڈالا۔‘‘[27]

جب کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو ہیرودیس بادشاہ نے قید خانے میں قتل کرایا۔ [28]

چنانچہ اس دعویٰ کی کوئی حقیقت نہیں کہ سچا نبی غیر طبعی وفات نہیں پاتا اور جھوٹا طبعی وفات نہیں پاتا۔ مرزا صاحب اپنے لیے تابع نبی کے جس منصب کے مدعی ہیں،  بنی اسرائیل میں ان انبیا میں سے ایک کثیر تعداد کوقتل کیا گیا تھا۔

رسول کی کسی کوتاہی پر خدا کی طرف سے بھی سزاے  موت کا اعلان کیا گیا ہے، جس کی ایک صورت کا بیان آیت بالا میں آیا۔ قرآن مجید کے مطابق یونس علیہ السلام کی ایک کوتاہی پر یہ سزا ابتدائی طور پر ان پر نافذ ہوگئی تھی۔ قرآن مجید کے مطابق اگر وہ توبہ و تسبیح نہ کرتے تو مچھلی کا پیٹ ان کا مدفن بن گیا تھا:

فَالْتَقَمَهُ الْحُوْتُ وَهُوَ مُلِيْمٌ. فَلَوْلَا٘ اَنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِيْنَ. لَلَبِثَ فِيْ بَطْنِهٖ٘ اِلٰي يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ.(الصافات٣٧: ۱۴۲ ـ ۱۴۴)
’’پھر اُس کو مچھلی نے نگل لیا اور وہ سزاوار ملامت ہوچکا تھا۔ سو اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتا تو اُس دن تک مچھلی کے پیٹ ہی میں پڑا رہتا، جب لوگ اٹھائے جائیں گے۔‘‘

چنانچہ  یہ کوئی استدلال، کوئی بنیاد ہی نہیں کہ سچا نبی غیر طبعی وفات نہیں پاسکتا۔

مرزا صاحب کے دور،انیسویں، بیسویں صدی کے ہندوستان میں دعویٰ نبوت کی وبا  کافی عام ہو گئی تھی۔ تقریباً بیس سے زائد لوگوں نےاس دور میں دعاوی نبوت کیے، مگر ان میں سے ایک دو کے علاوہ جو طاعون کی وبا میں طاعون سے فوت ہوئے، اکثر طبعی موت سے ہم کنار ہوئے۔ ان میں سے غلام محمد لاہوری (احمدیہ بلڈنگس) نے 1931ء میں دعویٰ نبوت کیا اور1952ء میں طبعی وفات پائی۔ مولوی عبداللطیف نے 1921ء میں دعویٰ نبوت کیا اور1943 ء یا 1945 ءمیں طبعی وفات پائی۔[29]

ان استدلالات کے علاوہ بھی مرزا صاحب کے استدلالات ہیں، لیکن وہ اس قدر دور از کار تاویلات اور نکتہ آفرینیاں ہیں کہ کسی معقول ذہن کو اپیل نہیں کرتے اور نہ وہ مخالفین کے لیے کوئی حجت قطع قرار پاتے ہیں۔ اس قسم کی نکتہ آفرینیاں چونکہ ہمارے مقالہ کے لیے مقرر کردہ واضح اور قطعی استدلالات کے معیار پر پوری نہیں اترتیں، اس لیے انھیں شامل بحث نہیں کیا گیا۔ جو مقامات استدلال کے پہلو سے قابل اعتنا تھے، انھیں ہی شامل مقالہ کیا گیا ہے۔ فہیم قارئین سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ بنیادی استدلالات طے کر لینے کے بعد ضمنی استدلالات اور نکتہ آفرینی کی قسم کی باتوں کی حقیقت خود جان سکتے ہیں۔

خلاصۂ کلام



وحی اور نبوت  خدا کی عنایت تھی۔خدا نے اس کا کوئی وعدہ یا اعلان نہیں کیا کہ وہ انھیں مسلسل بھیجتا رہےگا۔ کسی نبی کی آمد کی توقع اور امکان کا جواز خدا سے اس کی آمد کی خبر پا کر ہی پیدا ہو سکتا ہے۔ چونکہ ایسی کوئی خبر قرآن مجید اور خبر متواتر جیسے قطعی ذرائع سے نہیں دی گئی، اس لیے کسی نبی کی آمد کی توقع رکھنا کوئی جواز ہی نہیں رکھتا۔

قرآن مجید تسلسل نبوت کے ذکرسے یکسر خالی ہے۔ اس سے بدیہی طور پر یہ طے ہو جاتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے بعدکوئی نبی آنے والا نہیں۔ یہ فہم اگر غلط ہوتا تو قرآن مجید اس غلط فہمی کے امکان کو مد نظر رکھتے ہوئےلازماً واضح اور قطعی طور پر اسے دور کرتا اور نئے انبیا کی آمد مع ان کے ناموں اور نشانیوں کے ذکر کرتا، جیسا کہ ذریت ابراہیم کی اسرائیلی شاخ میں یہ روایت موجودتھی۔

ابراہیم علیہ السلام سے چلی آتی انبیا کی روایت میں آنے والے انبیا کی پیشین گوئیاں محمد رسول اللہ ﷺ پر آکر ختم ہو جاتی ہیں، اس سے بھی یہ طے ہوجاتا ہے کہ مزید کوئی نبی نہیں جس کی خبر دی جائے۔  رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں، اس قضیے کو حتمی طور پر ثابت کر دیتا ہے کہ آپ کےبعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ سورۂ احزاب (٣٣) کی آیت ۴۰ میں ختم نبوت کا ذکراس پر مستزاد ہے جس نے تسلسل نبوت کے کسی بھی امکان پر مہر لگا دی ہے۔



مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کی روایات سے اس نوعیت کے اہم مسئلے میں کوئی فیصلہ کرناکوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ سب سے پہلے قرآن مجید کا موضوع بننا چاہیے تھا جو کہ نہیں ہے۔ مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کا امکان قرآن مجید کی روشنی میں موجود نہیں۔  اس پرمثیل مسیح کا دعوی تو بالکل بے بنیاد ہے۔ جو کچھ روایات میں بیان ہوا ہے،  وہ ہمارے نزدیک تمثیلی رنگ میں ہے ۔ جس طرح مسیح علیہ السلام نے اپنے دور کے فقیہوں اور فریسیوں کی حاشیہ آرائیوں سے دین کو نکال کر اس کی اصل صورت میں پیش کیا، اسی طرح کوئی شخصیت ، فکر یا تحریک دین اسلام کی غلط اور ناقص تعبیرات کی ملمع کاریوں کے حجاب سےدین کی حقیقی روح کو نمایاں کرے گی۔ یہ کام چیدہ چیدہ علما کرتے رہے ہیں۔لیکن اس کے لیے کسی نئی وحی اور نبوت  کی ضرورت نہیں ہے۔

خواب، الہام اور مکاشفہ اس معاملے میں کوئی حجت اور حیثیت نہیں رکھتے۔

 دین کی تکمیل، اس کےماخذات: قرآن مجید اور سنت متواترہ کے محفوظ اور رشد و ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد انسانوں کی آزمایش کا آخری دور شروع کیا گیا ہے۔ یہ  دلیل و استدلال کا دور ہے۔حق و باطل کی کسوٹی قرآن مجید ہے۔ یہ خدا کی اسکیم ہے۔اسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔حق و باطل کی پہچان کے لیے اب کسی فوق الفطرت ذریعہ کی توقع اور دعویٰ کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B

حواشی :

[1]۔ مرزا بشیر الدین محمود،تفسیر صغیر، دار المصنفین، ربوہ، جھنگ،  551۔

[2]۔ عدیم احمد (احمدی)، بہ ادنیٰ تصرف راقم، فیس بک مکالمہ۔

[3]۔ اسماعيل بن عمر بن كثير ،البدايۃ والنہايۃ، دار هجر للطباعۃ والنشر والتوزيع والاعلان، 2003ء، 14/ 299۔

[4]۔ احمد بن حنبل، امام،فضائل الصحابة ، مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: الاولىٰ، 1983ء ، 2/ 941۔

[5]۔ ابو عبد الله محمد بن احمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748ھ)،ميزان الاعتدال فی نقد الرجال،   دارالمعرفة للطباعة والنشر، بيروت – لبنان،الطبعة: الاولىٰ 1963ء ، 1/ 245۔

[6]۔ ’وَاَوْحٰي رَبُّكَ اِلَي النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِيْ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُوْنَ‘، ’’(تم دیکھتے نہیں ہو کہ)، تمھارے پروردگار نے شہد کی مکھی پر وحی کی کہ پہاڑوں اور درختوں میں اور لوگ جو اونچی اونچی ٹٹیاں بنا لیتے ہیں، اُن میں چھتے بنا‘‘(النحل16: 68)۔

[7]۔ ’وَاِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰ٘ي اَوْلِيٰٓـِٕهِمْ لِيُجَادِلُوْكُمْ‘،’’اور متنبہ رہو کہ شیاطین اپنے ایجنٹوں کو القا کر رہے ہیں کہ وہ (اِس معاملے میں بھی) تم سے جھگڑیں‘‘ (الانعام 6: 121)۔

[8]۔ یہاں یہ نکتہ بھی خاص اہمیت کا حامل ہے کہ غیر انبیا کے ساتھ مخاطبت کسی نبی سے متعلق کسی ضرورت کے پیش آ جانے کی وجہ ہی سے کی گئی  اور ضرورت پوری ہو جانے کے بعد نہیں کی گئی۔ اس سے غیر نبی کے لیے مخاطبۂ الہٰی کا امکان سمجھ لینا غلط ہے۔ قرآن مجید اور بائیبل میں کہیں بھی کسی غیر نبی سے خدا کی مستقل مخاطبت کی ایک بھی مثال موجودنہیں۔ خدا جب بھی مخاطبت کرتا ہے، نبی سے کرتا ہے جسے اس نے منصب نبوت پر فائز کیا ہوتا ہے اور اسی نبی کی وجہ سے ہی کوئی ضرورت پیش آ جانے پر کسی غیر نبی سے وقتی مخاطبت کی گئی ہے۔ 

[9] ۔بخاری، رقم ۶۹۹۰۔

[10]۔ مرزا بشیر،تفسیر صغیر، 745۔

[11] ۔مرزا غلام احمد قادیانی، ’’تحفہ گولڑویہ‘‘، روحانی خزائن، نظارت اشاعت ربوہ، جھنگ، 17/ 116۔

[12]۔ ایضاً، 261۔

[13]۔ مرزا غلام احمد قادیانی، ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘،روحانی خزائن، نظارت اشاعت ربوہ، جھنگ، 5/  20٨           ـ 20٩  ۔

[14] ۔دیکھیے مثلاً ’’زاد المسیر‘‘ کا تفسیری نوٹ، زاد المسير فی علم التفسير، جمال الدين ابو الفرج عبد الرحمٰن بن علی بن محمد الجوزی (المتوفى: 597ھ)، دار الكتاب العربی – بيروت، الطبعة: الاولىٰ - 1422 ھ، 4/ 281۔

[15]۔ محمد بن حبان (المتوفى: 354ھ) ، صحيح ابن حبان، مؤسسة الرسالة، بيروت، طبع اول،1988ء، رقم، 7123۔

[16]۔ علامہ ناصر الدین البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے(سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها، رقم  1018) ۔

[17] ۔ابو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله (المتوفى: 405ھ)، المستدرك على الصحيحين للحاكم،دار الكتب العلمية – بيروت، الطبعة: الاولىٰ، 1411 ھـ 1990ء، رقم، 8194۔

[18]۔ علامہ البانی نے اسے حسن بشواہد قرار دیا ہے، یعنی یہ بھی قابل احتجاج ہے(سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها ، رقم1018) ۔

[19] ۔ دیکھیے، سورۂ آل عمران (٣) کی آیت 81 کے تحت تفسیری نوٹ، تفسیر’’تدبر قرآن‘‘ از مولانا اصلاحی۔

[20]۔ ابو عبد الله محمد بن عمر الرازی الملقب بفخر الدين الرازی (المتوفى: 606ھ)،مفاتيح الغيب ،دار إحياء التراث العربی – بيروت،الطبعة: الثالثة - 1420 ھ،  8/ 274۔

[21]۔  کتاب استثنا، 18:18-19۔

[22]۔ مبشر احمد خالد، جماعت احمدیہ کا تعارف، ضیاء الاسلام پریس ربوہ، 2010ء، 100۔

[23]۔ سلاطین  18: 13۔

[24]۔ سلاطین  19: 10۔

[25]۔ یرمیاہ  26: 20-24۔

[26]۔ متی  23: 30-31۔

[27]۔ ایضاً  35۔

[28]۔ مرقس 6: 16-29۔

[29] ۔ڈاکٹر غلام جیلانی برق ،’’حرف محرمانہ‘‘، احتساب قادیانیت، عالمی مجلس تحفظ نبوت، ملتان، 32/ 54-55۔