HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Irfan Shehzad

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

علمی استدلالات

باب دوم

 

تسلسل نبوت پر ہمارا موقف

اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ابتدا ہی میں ان سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ ان کے پاس اگر خدا کی عنایت سے اس کی طرف سے کوئی ہدایت آئی تو ان کی فلاح اسی میں ہے کہ وہ اسے قبول کریں، جان بوجھ کراس کا انکار کرنے والوں کا ٹھکانا ابدی جہنم ہوگا:

قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِيْعًاﵐ فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّيْ هُدًي فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ. وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا٘ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِﵐ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ.(البقرہ٢: ٣٨  ـ٣٩)
’’ہم نے کہا: تم سب یہاں سے اتر جاؤ، پھر میری طرف سے اگر کوئی ہدایت تمھارے پاس آئے تو اُسی پر چلنا، اِس لیے کہ جو لوگ میری اِس ہدایت کی پیروی کریں گے، اُن کا صلہ جنت ہے، سو اُن کے لیے نہ وہاں کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ کبھی غم زدہ ہوں گے۔ اورجنھوں نے (اِس کا) انکارکیا اورہماری آیتوں کو جھٹلا دیا، وہ دوزخ کے لوگ ہیں ، وہ ہمیشہ اُسی میں رہیں گے۔‘‘

دوسری جگہ یہ بتایا گیا کہ یہ ہدایت خدا کے منتخب اور مقرر نمایندے لے کر آئیں گے :

يٰبَنِيْ٘ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْﶈ فَمَنِ اتَّقٰي وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ. وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَاسْتَكْبَرُوْا عَنْهَا٘ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِﵐ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ.(الاعراف ٧: ٣٥   ـ ٣٦)
’’آدم کے بیٹو، (میں نے پہلے دن تمھیں بتا دیا تھا کہ) اگر تمھارے پاس خود تمھارے اندر سے پیغمبر آئیں تم کو میری آیتیں سناتے ہوئے تو اُن کی بات ماننا، اِس لیے کہ جو خدا سے ڈرے اور اُنھوں نے اپنی اصلاح کر لی، اُن کے لیے پھر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ کبھی غم زدہ ہوں گے۔ اِس کے برخلاف جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور تکبر کرکے اُن سے منہ موڑ لیا، وہی دوزخ کے لوگ ہیں، وہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘

خدا کی طرف سے اس کی ہدایت، وحی کی صورت میں انبیا علیہم السلام کے ذریعے سے نازل ہوتی رہی۔ تاہم، یہ خدا کی عنایت تھی، نہ کہ اس کا وعدہ یا ذمہ داری کہ یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا۔ بتایا  یہ گیا تھا کہ ’’اگر‘‘  خدا کی طرف سے ہدایت آئی تو تمھارا رویہ کیا ہونا چاہیے، یہ نہیں کہا گیا تھا کہ ہدایت آتی رہے گی۔ چنانچہ خدا کی حکمت جب چاہتی کہ انبیا بھیجنے کا سلسلہ موقوف کر دیا جائے تو بغیر کسی اعلان کے یہ کیا جا سکتا تھا۔ اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ختم نبوت سے پہلے بھی معاملہ یہ تھا کہ کسی نبی کی آمد کی توقع تو کی جا سکتی تھی مگر اس کا انتظار خدا کی طرف سے اطلاع پائے بنا کوئی جواز نہیں رکھتا تھا۔ رسالت محمدی کے بعد کسی نبی کی آمد کی محض عدم اطلاع ہی ختم نبوت کے لیے کافی تھی۔ اس پر ختم نبوت کے اعلان نے آخری درجے میں کسی نبی کی آمد کے امکان کا سرے سے خاتمہ کر دیا ۔

بنی اسرائیل میں ان کی دینی اور سماجی، بلکہ سیاسی رہنمائی کے لیے  بھی ان میں انبیا  کا سلسلہ جاری کیا گیا۔ یہ سلسلہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد شروع کیا گیا، جب  تورات کی صورت میں کتاب شریعت انھیں دے دی گئی تھی:

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَي الْكِتٰبَ وَقَفَّيْنَا مِنْۣ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ.(البقرہ٢: ۸۷)
’’اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی اور اُس کے پیچھے پے در پے اپنے پیغمبربھیجےتھے۔‘‘

ان انبیا کو نبی، قاضی، غیب دان، غیب بین اور مرد خدا کہا جاتا تھا۔ ان کی تصدیق کے لیے یہ اہتمام کیا گیا تھا کہ پہلے سے موجود نبی آنے والے نبی کی نبوت کی تصدیق پانی یا تیل سے مسح کر کے کرتا۔ موجودانبیا آنے والے انبیا کی نشانیاں اور ذاتی اور صفاتی نام تک بتا کر بنی اسرائیل سے عہد لیتے کہ وہ ان پر ایمان لائیں گے۔ قرآن مجید اور بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ  ان کے انبیا اور نجات دہندگان کی پیدایش  سے پہلے ان کے والدین کو خواب اور الہام کے ذریعے سے بھی آگاہ کیا جاتا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو ان کے تحفظ کے لیے الہام  اور حضرت مریم سے مسیح علیہ السلام کی پیدایش سے متعلق فرشتے کی براہ راست مخاطبت قرآن مجید میں مذکور ہے،جب کہ بائیبل میں  انبیا،مثلاً سیموئیل اور نجات دہندہ ،مثلاً  سیمسون کی پیدایش سے پہلے ان کے والدین کو خواب میں آگاہ کرنے کاذکر  آیا ہے۔

لیکن امت محمدی میں  ختم نبوت کی وجہ سے محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد غیبی خبروں کا کوئی ایسا  سلسلہ جاری نہیں کیا گیا۔ یہ خدا  کی طرف سے اطلاعات  سے لاعلمی ہی تھی جس کی وجہ سےرسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد خلیفہ کے انتخاب سے لے کر صحابہ رضی اللہ عنہم کو  درپیش تمام نازک ترین مسائل میں مشاورت اور اجتہاد سے کام لینا پڑا۔ صحابہ نے کسی غیب دان کو تلاش کیا اور نہ کسی  وحی یا الہام کا انتظار کیا۔ اپنے اقدامات اور فیصلوں کی بنیاد اپنے فہم اور دلائل پر رکھی، کسی الہام کا حوالہ دے کر حجت قائم نہیں کی گئی۔ ختم نبوت کے یہ بدیہی شواہد ہیں۔

ختم نبوت کے بعد صرف سچے خوابوں کا سلسلہ امت محمدی میں جاری رہنے کی بشارت دی گئی ہے، مگر یہ صورت بھی قطعیت سے خالی رہی ، اس لیے خوابوں کو بشارت تو کہا گیا، مگر حجت قرار نہیں دیا گیا۔

کسی نبی معصوم کی بے خطا رہنمائی اگر ناگزیر ہوتی، تو پھر اسے مسلسل  رہنا چاہیے تھا کہ  ہر دور کے لوگوں  کو اس کی ضرورت ہے، پھر اسی بنا پر ایک نبی کا دوسرے  نبی کی تصدیق کا سلسلہ بھی مسلسل رہناچاہیے تھا، جیسے ابراہیم   علیہ السلام سے محمد رسول اللہ ﷺ تک یہ مسلسل  رہا۔ امت محمدی میں نبیوں کا ایسا تسلسل سرے سے موجود ہی نہیں رہا جو مدعی نبوت کا تقرر یا اس کے دعویٰ کی تصدیق کرسکے، نہ خواب و الہام کا ایسا کوئی سلسلہ ہے جو حجت قرار پا سکے۔ اب تمام معاملات کو دلیل و اجتہاد اور فہم و بصیرت کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے لیے اپنے معاملات طے کرنے کے لیے شورائیت کا اصول ختم نبوت کا نتیجہ ہے۔ اس شورائیت کی تربیت دور رسالت ہی میں شروع کرا دی گئی تھی:

وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰي بَيْنَهُمْ.(الشوریٰ ٤٢: ٣٨)
’’ اور اُن کا نظام اُن کے باہمی مشورے پر مبنی ہے۔‘‘

آسمانی خبروں کا سلسلہ اگر جاری رہتا تو شورائیت کی ضرورت نہیں تھی۔

 بنی اسرائیل کے تمام انبیا کی پیشین گوئیاں محمد رسول اللہ ﷺ کی آمد کی پیشین گوئی پر آکر ختم ہو جاتی ہیں۔ آپ کے بعد کسی نئےنبی کی  آمد  کی خبر موجود نہیں ہے۔ اس سے یہ صاف واضح تھا کہ آپ کے بعد کسی اور نبی کو نہیں آنا۔ اب اور کسی نبی کےانتظار کا کوئی جواز نہیں۔ اس پر خودرسول اللہ ﷺ کے ارشادات کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں اور آپ نبوت کی عمارت کی آخری اینٹ ہیں، وغیرہ، نے مزید انبیا کی آمد کےامکان کا بالکلیہ خاتمہ کردیا۔ قرآن مجید سے باہر ختم نبوت کی یہی بنیاد تھی جس کی بنا پر سورۂ احزاب (٣٣)کی آیت ۴۰ میں ختم نبوت کا اعلان کر کے سلسلۂ نبوت کے خاتمے پر حتمی مہر لگا دی گئی ۔

ان نکات کی تفصیل آگے کی جائے گی۔


کیا فرد کی ذاتی صداقت اس کے دعویٰ کی صداقت کے لیےحتمی حجت بن سکتی ہے؟

ہر صادق کے ہر دعویٰ کا سچا ہونا لازم نہیں ہوتا۔ یہ ممکن ہے کہ  کوئی صالح و صادق کسی غلط فہمی یا کسی نفسیاتی عارضے، (مثلاً شیزوفرینیا) کی بنا پر مابعد الطبیعیاتی نوعیت کا کوئی دعویٰ کر بیٹھے، جیسے یہ کہ وہ خدا یا فرشتوں سے مخاطبت رکھتا ہے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے خالی نہیں۔ یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ انسانوں سے جھوٹ نہ بولنے والے بھی بعض اوقات خدا  پر جھوٹ باندھ دیتے ہیں۔ وضع حدیث میں سب سے زیادہ حصہ ’’صالحین‘‘  کا رہا ہے، جن پر محدثین نے سخت جرح کی ہے۔ یہ لوگ بڑی نیک نیتی سے خدا اور رسول سے منسوب کر کے حدیثیں گھڑا کرتے تھے تاکہ لوگوں کو نیکی کی راہ پر لایا جائے۔ ہمارا دور بھی ایسے صالحین سے خالی نہیں۔ وجاہت کے حصول اور سیاسی مقاصد کے لیے بھی ہمارے زمانے کے ’’صالحین‘‘  کی طرف سے مذہبی اور سیاسی قائدین کو رسول اللہ ﷺ کی طرف سے مزعومہ سلام، پیغام اورمقدس خوابوں سے ان کی تائید کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔چنانچہ فرد کا ذاتی صدق و کردار ثابت ہونے کے باوجودبھی  نبوت کی تصدیق کے لیے حتمی حجت اورمعیار نہیں بنایا جاسکتا ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ خدا اور انبیاکی طرف سے انبیاکے ذاتی صدق  و کردارکو ان کی نبوت کی تصدیق کے لیے بطور حجت پیش بھی نہیں کیا گیا۔ مسیح علیہ السلام نے اس بات کو یوں بیان فرمایا ہے:

’’اگر میں صرف اپنے ہی بارے میں گواہی دیتا تو میری گواہی سچی نہ ہوتی، لیکن ایک اور ہے جو میرے بارے میں گواہی دیتا ہے اور میں جانتا ہوں کہ اس کی گواہی سچی ہے۔ آپ لوگوں نے یوحنا کے پاس آدمی بھیجے اور اس نے سچائی کے بارے میں گواہی دی۔ مجھے انسانوں کی گواہی سے کوئی لینا دینا، نہیں مگر یہ باتیں اس لیے کہہ رہا ہوں تاکہ آپ نجات پائیں... لیکن میرے پاس یوحنا کی گواہی سے بھی بڑی گواہی ہے، کیونکہ جو کام میں کر رہا ہوں، وہ گواہی دے رہے ہیں کہ باپ نے مجھے بھیجا ہے۔‘‘ [1]

قرآن مجید کی ایک آیت سے ہمارے ہاں یہ خیال پیدا ہوا کہ اس میں محمد رسول اللہ ﷺ کے کردار کی صداقت کو ان کی نبوت کی گواہی میں پیش کیا گیا ہے:

قُلْ لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا تَلَوْتُهٗ عَلَيْكُمْ وَلَا٘ اَدْرٰىكُمْ بِهٖﵠ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖﵧ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ.(یونس١٠: ١٦)
’’کہہ دو، اگر اللہ چاہتا تو نہ میں یہ قرآن تمھیں سناتا، نہ اللہ اِس کی خبر تمھیں دیتا۔ یہ اُسی کا فیصلہ ہے، اِس لیے کہ میں تو اِس سے پہلے ایک عمر تمھارے درمیان گزار چکا ہوں۔ (میں نے کب اِس طرح کی کوئی بات کبھی کی ہے)؟ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟‘‘

اس آیت کا سیاق صاف بتا رہا ہے کہ آپﷺ کی زبان سےیہ کہا گیا ہے کہ یہ کلام معجز بیان، جواچانک مجھ سے صادر ہونے لگا ہے، اس طرح کی کوئی بات اس تمام عرصے میں جو میں نے تم میں گزارا، کبھی تم نے مجھ سے نہیں سنی، تو کیا یہ عجیب بات یہ سوچنے پر مجبور نہیں کرتی کہ یہ کلام اللہ رب العزت کی طرف سے نازل ہو رہا ہے؟ یہاں آپ کے کردار کی صداقت زیر بحث نہیں ہے۔

اسی طرح کوہ صفا پر جب پہلی بار آپؐ نے برسرعام قریش مکہ کو دعوت  دین دی تو یہاں بھی یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ آپ نے اپنے کردار کی گواہی پیش کر کے قریش کودعوت ایمان دی تھی۔ معاملے کی یہ تفہیم درست نہیں۔ عرب میں روایت تھی کہ کسی د شمن کے ناگہاں حملے کے خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے بستی کا کوئی شخص پہاڑ پر چڑھ اور کپڑے پھاڑ کر ’یاصباحاہ‘  پکار کر خبردار کرتاتھا۔ اسے ’نذیر عریاں‘، یعنی ’برہنہ خبردار کرنے والا‘ کہا جاتا تھا۔ آپ ﷺنے اس  روایت کے مطابق، مگر کپڑے پھاڑنے والی بے ہودگی کے برخلاف، لوگوں کو’ یا صباحاہ‘ پکار کر   اکٹھا کیا تھا اور دشمن کے خطرے کی تمثیل استعمال کرتے ہوئے خدا کی طرف سے آنے والے عذاب سے پیش تر خود کو ایک خبردار کرنے والے نذیر مبین کی حیثیت سے پیش کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک لشکر تم پر حملہ آور ہونے کو ہے تو کیا میری بات کا یقین کرو گے؟ سب نے جواب دیا :

نَعَمْ مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ إِلَّا صِدْقًا. (بخاری، رقم ٤٧٧٠)
’’ہاں، ہم نے آپ کو سچا ہی پایا ہے۔‘‘

اس پر آپ  ﷺنے فرمایا :

فإنّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذابٍ شَدِيد.(بخاری، رقم ٤٧٧٠)
’’تو میں خدا کی طرف سے عذاب شدید سے پہلے تمھیں خبردار کررہا ہوں۔‘‘

عرب کی اس روایت کے مطابق کوئی بھی باخبر شخص پہاڑ پر چڑھ کر  دشمن کے حملے سے  آگاہ کرتا تو لوگ اس کی  بات پر یقین کرتےتھے۔   جنگ کا خطرہ حد امکان میں ہوتا تھا اورایسا گھمبیر مذاق کر کے کوئی شخص سماج میں اپنی حیثیت عرفی کھونے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ یہ موقع آپ کی صداقت کی تمثیل بنانے کا نہیں، بلکہ خطرے کی اہمیت اجاگر کرنے کا تھا۔ تاہم اس منظر نامے میں آپ کی صداقت آخری درجے کی حجت تھی کہ مخاطبین کے پاس اسے مسترد کرنے کا کوئی عذر نہ رہے۔ پھر اہل عرب جانتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے جس عذاب کی وعید سنائی تھی،  وہ عذاب خدا سے غافل ظالم قوموں پر اس سے پہلے بھی وارد ہوتا رہا تھا۔ اس کا حد امکان میں ہونا بھی ان کے نزدیک واضح تھا۔ چنانچہ اس واقعہ میں  موضوع آپ کا کردار نہیں، بلکہ خطرے سے آگاہی تھا۔

یہ معیار کہ ایک شخص جو جھوٹا نہیں، اس کا دعویٰ نبوت بھی سچا ہوگا، مسلم روایت میں غالباً بازنطینی شہنشاہ قیصر اور حضرت ابو سفیا ن رضی اللہ عنہ کے درمیان ہونے والے مکالمے سے داخل ہوا ہے۔ اس مکالمے میں قیصر  نے کہا تھا کہ جو شخص لوگوں کے ساتھ جھوٹ نہیں بولتا، وہ خدا  پر جھوٹ نہیں باندھ سکتا ہے۔ لیکن یہ درحقیقت کوئی کلیہ نہیں ہے۔ یہ قیصر کا ذاتی احساس ہوسکتا ہے، جب کہ حقائق، جیسا کہ پیش تر عرض کیا گیا،اس کے برعکس بھی موجود ہیں۔چنانچہ کسی شخص کے ذاتی صدق کی بنا پر اس کے دعویٰ نبوت کو بھی سچا مان لینا کوئی عقلی اور دینی بنیاد نہیں رکھتا۔ چنانچہ کسی صادق کا دعوی ٰنبوت بھی محض اس کے ذاتی صدق کی بنا پر قابل قبول نہیں  ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ کسی نبی نے اپنے صدق کو اپنی نبوت کی صداقت کی حجت بنا کر پیش نہیں کیا۔ چنانچہ کسی مدعی  نبوت  کا  اپنے صدق کی بنا پر اپنے دعویٰ نبوت کو تسلیم کرنے کا مطالبہ نہ صرف سنت انبیا کے خلاف ہے، بلکہ خود اس کے خلاف حجت ہے کہ اس نے تصدیق نبوت کے لیے انبیا کی سنت کے خلاف معیار کیوں مقرر کیا۔

اس سے ہٹ کرانبیا کی روایت سے ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ تصدیق نبوت کے  لیے خدا کی طرف سے خاص قسم کی تصدیقی اسناد جاری کی گئیں، جن کو جھٹلانا اہل عقل و عدل اور انبیا کی روایت سے واقف لوگوں کے لیے ممکن نہ تھا۔ اس کی تفصیل ذیل میں کی جاتی ہے۔

نبوت کی تصدیقی اسناد

انبیا کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نبوت کی تصدیقی اسناد کی دو صورتیں رہیں:

 ایک یہ کہ جن اقوام میں پہلی بار کوئی نبی آیا،  ان میں نبوت کی روایت موجود نہ تھی یا وہ نبی اور نبوت سے مانوس نہ تھے، وہاں انبیا کو اپنے مخاطبین میں سے متشککین اور مکذبین کے سامنے اپنی بعثت من جانب اللہ ثابت کرنے کے لیے ’’بینات‘‘، یعنی معجزات دیے گئے۔ انھیں ’’برہان‘‘، یعنی نشان کا نام بھی دیا گیا، یہ اسی لیے کہ یہ نبوت کی تصدیق کے لیے نشان الہی کا کام دیتے تھے۔ یہ معجزات، نبی کی قوم کے حالات اور نفسیات کو مد نظر رکھ کر دیے جاتے تھے۔ مثلاً ساحری کے شعبدوں سے متاثر فرعونیوں کو مرعوب اور قائل کرنے کے لیے موسیٰ علیہ السلام کو عصا اور ید بیضا کے دو معجزات دیے گئے:

وَاَنْ اَلْقِ عَصَاكَﵧ فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ وَّلّٰي مُدْبِرًا وَّلَمْ يُعَقِّبْﵧ يٰمُوْسٰ٘ي اَقْبِلْ وَلَا تَخَفْﵴ اِنَّكَ مِنَ الْاٰمِنِيْنَ. اُسْلُكْ يَدَكَ فِيْ جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَآءَ مِنْ غَيْرِ سُوْٓءٍﵟ وَّاضْمُمْ اِلَيْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ فَذٰنِكَ بُرْهَانٰنِ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰي فِرْعَوْنَ وَمَلَا۠ئِهٖﵧ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ.(القصص٢٨: ٣١   ـ٣٢)
’’اور یہ بھی کہ اپنی لاٹھی (زمین پر) ڈال دو۔ پھر جب موسیٰ نے دیکھا کہ لاٹھی بل کھا رہی ہے، گویا کہ سانپ ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگا اور اُس نے مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔ فرمایا: موسیٰ، آگے آؤ اور ڈرو نہیں، تم بالکل مامون ہو۔اپنا ہاتھ ذرا اپنے گریبان میں ڈالو، وہ بغیر کسی مرض کے سفید (چمکتا ہوا) نکلے گا اور اِس کے لیے اپنا بازو اپنی طرف سکیڑ لو، جس طرح خوف سے سکیڑتے ہیں۔ سو تیرے پروردگار کی طرف سے فرعون اور اُس کے درباریوں کے پاس جانے کے لیے یہ دو نشانیاں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑے نافرمان لوگ ہیں۔‘‘

محمد رسول اللہ ﷺ کے دورمیں مکہ میں شعر و ادب کا چرچا تھا۔ عزت و سیادت اسے حاصل ہوتی تھی جو زیادہ فصیح و بلیغ ہو۔ آپس کے جھگڑوں کا فیصلہ خطابت کے جوہر دکھا کر جیتا جاتا تھا۔ نیز اہل کتاب کے برعکس اہل عرب، قرآن کی اصطلاح میں ’’علم‘‘سے تہی تھے۔ عقائد و ایمان کے باب میں ان کے عقائد و نظریات کے لیے ان کے پاس کوئی سند نہیں تھی۔ جو کچھ تھا ،محض ظن و تخمین تھا۔ ان حالات میں قریش کے قائدین  اور عام لوگوں کے لیے آپ ﷺ کی نبوت کی تصدیق میں قرآن مجید کی صورت میں علم وزبان کا معجزہ اس چیلنج کے ساتھ دیا گیا کہ یہ اگر انسانی تصنیف ہے تو اس جیسی ایک سورت ہی بنا کر دکھا دیں۔  اس میں کسی غلطی، کسی اختلاف کی نشان دہی کر کے دکھا دیں۔

اس قسم کے برہان قاطع نبوت کی تصدیق کے لیے مہیا کیے جاتے تھے، لیکن انبیا کے مخاطبین کی طرف سے معجزات کی فرمایشوں کو پورا نہیں کیا گیا۔ یہ اس لیے کہ نبوت کی برہان قاطع نازل کر دیے جانے کے بعد مختلف لوگوں کے ذوق اور بدنیتی پر مبنی معجزات  کی فرمایشوں کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا تھا اور نبوت اپنے کار منصبی سے ہٹ کر ان فضول فرمایشوں کی نذر ہو جاتی۔ ایمان لانےکے لیے عقل و فطرت پر مبنی استدلالات اور خاص برہان قاطع  ہی کافی تھے۔

تصدیقی سند کی دوسری صورت یہ تھی کہ جس قوم ( یہ واحد بنی اسرائیل کی قوم تھی) میں نبوت کی روایت موجود تھی، ان کے پہلے انبیا، جنھیں وہ تسلیم کر چکے ہوتے تھے، آنے والے انبیا کے لیے تصدیقی سند جاری کرتے۔ اس کی دو صورتیں تھیں:

 ایک یہ کہ پہلے انبیا، آنے والے انبیا کے بارے میں پیشین گوئیاں کرتے۔ یہ پیشین گوئیاں آنے والے انبیا کے ذاتی اور مخصوص صفاتی ناموں اور خصوصیات کے ساتھ بیان کی جاتی تھیں۔

تصدیقی سند کی دوسری صورت یہ تھی کہ ایک نبی اگر اپنے سے پہلے نبی کی زندگی میں ہی آ جاتا تو پہلا نبی بعد والے نبی کا پانی یا تیل سے مسح کر کے اس کی نبوت کا اعلان کرتا۔

موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کے مذہبی، سماجی اور سیاسی رہنمائی کے لیے انبیا کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ انھیں نبی ،قاضی،  غیب دان، غیب بین اور مرد خدا  کہا جاتا تھا۔ یہ نبی خدا سےخبر پا کر ان کی رہنمائی کرتے اور ان کے مسائل بھی حل کیا کرتے تھے۔ ان کا تقرر وحی کے ذریعے سے کیا جاتاتھا۔ ان کی آمد اور تقرری کے لیے پہلے سے موجود نبی کو اطلاع دی جاتی اور وہ پانی یا تیل سے مسح کرکے منصب نبوت پر اس کے تقرر کا اعلان کرتا۔ یہ ممسوح (مسح کیے ہوئے) کہلاتے تھے اور ان کی توہین خدا کی طرف سے سخت ترین سزا کی موجب ہوتی تھی۔ اس کے برعکس، محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد،  ختم نبوت کی وجہ سے امت کی دینی ، سماجی اور سیاسی رہنمائی کے لیے براہ راست آسمان سے  وحی نازل نہیں کی گئی۔ وحی کی رہنمائی اگر ختم نبوت کے بعد بھی  ناگزیر ہوتی تو  پھر یہ مسلسل رہنی چاہیے تھی، کیونکہ ہر دور کے لوگوں کو ایسی رہنمائی کی ضرورت ہے جو خطا سے پاک ہو، ایسے ہی جیسے بنی اسرائیل میں رہی۔  پھر یہ کہ ایک نبی دوسرے نبی کی تصدیق کرتا چلا جاتا۔ امت محمدیہ میں   لیکن ایسا کچھ عمل میں نہیں آیا۔ آپ ﷺ کے وصال کے ساتھ ہی سارا معاملہ انسانی فہم و بصیرت کے حوالے ہوگیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کو گھمبیر مسائل کا سامنا تھا، مگر کسی نے کوئی غیب دان تلاش کیا اور نہ خواب و الہام کو حجت بنایا۔ سارے معاملات مشاورت اور اجتہاد سے طے کیے گیے۔ اگر رسول اللہ ﷺ کے دور کے بعد نئی نبوت کی کوئی حاجت محسوس نہیں ہوئی، علما اور صلحا قرآن و سنت کی بنیاد پر تمام معاملات کو حل کرتے رہے، تو  اچانک انیسویں صدی میں، برصغیر میں اس کی ضرورت کا پیدا ہونا بے جوڑ  قضیہ ہے جس کا کوئی جواز نہیں، پھر یہ کہ اس کی تصدیق کے لیے کوئی ما بعد الطبیعی ذریعہ بھی  دستیاب نہیں ہے۔ مسلمانوں میں خدا سے خبریں  وصول کرنے کے دعاوی امت محمدیہ میں بہت بعد میں شروع ہوئے اور ان کی تصدیق کا کوئی ذریعہ نہیں اور جو ایک ذریعہ، قرآن مجید موجود ہے، اس میں کسی نئی نبوت کا ذکر موجود نہیں، بلکہ  وہ ختم نبوت کا اعلان کر رہا ہے۔

 بنی اسرائیل میں شروع میں باقاعدہ حکمرانی کا آغاز اسی لیے نہیں کیا گیا تھا کہ ان کی رہنمائی براہ راست آسمان سے مسلسل ہو رہی تھی، یہاں تک کہ انھوں نے ضد کر کے اپنے لیے بادشاہت کا نظام جاری کرایا اور ان کا حکمران بھی نبی نے منتخب کیا، مگر امت محمدی میں رسول اکرم ﷺ کے رخصت ہوتے ہی عام مسلمانوں کے ذریعے سے نظم اجتماعی کا آغاز ہو گیا۔ دینی اور سیاسی مسائل کا حل مشاورت اور اجتہاد کی مدد سے کیا گیا۔

عیسیٰ علیہ السلام کی یہ خصوصیت رہی کہ ان کے لیے تصدیقی اسناد کی ساری صورتیں جاری کی گئیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام[2] سے یوحنا (یحییٰ علیہ السلام) تک مسیح علیہ السلام کی آمد کے بارے میں مسلسل پیشین گوئیاں ان کے مخصوص صفاتی نام، یعنی ’مسیح‘ اور شخصی خصوصیات کے ساتھ کی گئیں۔ معجزات کی کثرت بھی ان کے ہاتھوں سے دکھائی گئی۔ مسیح علیہ السلام اپنے ذاتی کردار کے بجاے ان پیشین گوئیوں، حضرت یحییٰ کی گواہی اور اپنے معجزات کو اپنی نبوت کی تصدیقی اسناد کے طور پر بنی اسرائیل کے سامنے پیش کرتے تھے۔ اناجیل سے درج ذیل اقتباسات دیکھیے :

’’اگر میں صرف  اپنے ہی بارے میں گواہی دیتا تو میری گواہی سچی نہ ہوتی، لیکن ایک اور ہے جو میرے بارے میں گواہی دیتا ہے اور میں جانتا ہوں کہ اس کی گواہی سچی ہے۔ آپ لوگوں نے یوحنا کے پاس آدمی بھیجے اور اس نے سچائی کے بارے میں گواہی دی۔ مجھے انسانوں کی گواہی سے کوئی لینا دینا نہیں، مگر یہ باتیں اس لیے کہہ رہا ہوں تاکہ آپ نجات پائیں... لیکن میرے پاس یوحنا کی گواہی سے بھی بڑی گواہی ہے، کیونکہ جو کام میں کر رہا ہوں وہ گواہی دے رہے ہیں کہ باپ نے مجھے بھیجا ہے۔‘‘ [3]
’’پس یہودیوں نے آپ کے گرد جمع ہو کر آپ سے کہا تم کب تک ہمارے دل کو ڈانواں ڈول رکھو گے ؟ اگر تم مسیح ہو تو ہم سے صاف کہہ دو۔ سیدنا عیسیٰ نے انھیں جواب دیا کہ میں نے تو تم سے کہہ دیا مگر تم یقین نہیں کرتے۔ جو کام (معجزات) میں اپنے پروردگار کے نام سے کرتا ہوں، وہی میرے گواہ ہیں۔‘‘ [4]
’’جب یوحنا نے قید خانے میں یسوع کے کاموں کے بارے میں سنا تو انھوں نے اپنے شاگردوں کو ان کے پاس بھیجا تاکہ ان سے پوچھیں کہ ’’کیا آپ ہی وہ شخص ہیں جسے آنا تھایا کیا ہم کسی اور کا انتظار کریں؟‘‘ یسوع نے جواب دیا: یوحنا کے پاس واپس جائیں اور انھیں ان باتوں کے بارے میں بتائیں جو آپ دیکھ اور سن رہے ہیں: اندھے دیکھنے لگےہیں، لنگڑے چلنے پھرنے لگے ہیں، بہرے سننے لگےہیں، کوڑھی ٹھیک ہو رہے ہیں، مردے زندہ کیے جا رہے ہیں اور غریبوں کو خوش خبری سنائی جا رہی ہے۔ وہ شخص خوش رہتا ہے جو میرے بارے  میں شک نہیں کرتا۔‘‘ [5]

ان پیشین گوئیوں میں آپ کی آمد کا تذکرہ آپ کے مخصوص صفاتی نام اور خصوصیات سے کیا گیا تھا۔

انبیا کی آمد کے بارے میں کی جانے والی پیشین گوئیوں کی خصوصیات

پیشین گوئیوں کے ذریعے سے نبوت کی تصدیقی سند کا اجرا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریت میں جاری کیا گیا تھا، جن میں نبوت ایک مسلسل روایت کے طور پر ایک مقرر وقت تک جاری رکھی گئی۔ ان پیشین گوئیوں میں اہم بات یہ ہے کہ آنے والے انبیا کی خصوصیات ہی نہیں، ان کے ذاتی اور مخصوص صفاتی ناموں کا بھی ذکر کیا جاتا تھا۔ ان پیشین گوئیوں کو نوشتۂ الہٰی میں درج کیا جاتا تھا۔ انھیں روایت کی صورت میں درجۂ تواتر تک پہنچایا جاتا تھا تاکہ کسی کو کوئی ابہام نہ رہے۔ چنانچہ بنی اسرائیل آنے والے ہر نبی کے نام اور صفات سے واقف اور اس کی آمد سے پہلے سے اس کے منتظر رہتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کواسمٰعیل، اسحٰق، یعقوب، اور محمد علیہم السلام کی بشارتیں، موسیٰ علیہ السلام سے یحییٰ تک ان کی طرف سے مسیح علیہ السلام کی بشارت اور زکریا علیہ السلام کو یحییٰ علیہ السلام کی بشارت، ان سب کے ذاتی اور صفاتی ناموں اور خصوصیات کے ساتھ ملنا بائیبل اور قرآن مجید کے نصوص کی رو سے ہمارے علم میں ہے۔ پھر یحییٰ  علیہ السلام نے مسیح علیہ السلام کی آمد کی خبر ہی نہیں دی، بلکہ باقاعدہ منادی کی اورمسیح علیہ السلام نے محمد رسول اللہ کی آمد کا مستقل اعلان کیا۔

اہم بات یہ ہے کہ انبیا کی آمد کی پیشین گوئیوں کا یہ تسلسل محمد رسول اللہ ﷺ کی آمد کے ذکر پر رک جاتا ہے، اس سے آگے نہیں بڑھتا۔ بنی اسرائیل محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے تک تین انبیا کے منتظر تھے، جن کی صفات ہی نہیں، ان کے نام بھی انھیں معلوم تھے، یعنی ایلیاہ (الیاس)، مسیح اور احمد/محمد۔ آپ ﷺ سے متعلق پیشین گوئیاں ان دونوں ناموں سے ان کے ہاں موجود تھیں۔ ان تینوں موعود شخصیات کا ذکر ایک ہی جگہ یوحنا کی انجیل میں آیا ہے:

’’یہ وہ گواہی ہے جو یوحنا نے اُس وقت دی جب یہودیوں نے کاہنوں اور لاویوں کو اُن کے پاس یہ پوچھنے کے لیے بھیجا کہ ”‏تم کون ہو؟‏“‏ یوحنا نے اُن کی بات کا جواب دینے سے اِنکار نہیں کیا، بلکہ صاف صاف کہہ دیا:‏ ”‏مَیں مسیح نہیں ہوں۔‏“‏ اِس پر اُنھوں نے اُن سے پوچھا:‏ ”‏تو کیا تُم ایلیاہ ہو؟‏“‏ اُنھوں نے جواب دیا:‏ ”‏نہیں۔‏“‏ اُنھوں نے پھر سے پوچھا:‏ ”‏تو کیا تُم وہ نبی ہو جس کے آنے کے بارے میں پیش‌گوئی کی گئی تھی؟‏“‏ اُنھوں نے جواب دیا:‏ ”‏نہیں۔‏“‏ تب اُنھوں نے کہا:‏ ”‏تو پھر تُم کون ہو؟‏ تُم اپنے بارے میں کیا کہتے ہو؟‏ ہمیں کچھ تو بتاؤ تاکہ ہم جا کر اُن کو جواب دے سکیں جنھوں نے ہمیں بھیجا ہے۔‏“‏ یوحنا نے جواب دیا:‏ ”‏جیسا کہ یسعیاہ نبی نے کہا،‏ مَیں وہ آواز ہوں جو ویرانے میں پکار رہی ہے کہ ”‏یہوواہ کی راہ ہموار کرو۔‏“‏ “‏ اُن کاہنوں اور لاویوں کو فریسیوں نے بھیجا تھا۔‏ لہٰذا اُنھوں نے یوحنا سے پوچھا:‏ ”‏اگر تُم مسیح یا ایلیاہ یا وہ نبی نہیں ہو جس کے آنے کے بارے میں پیش‌گوئی کی گئی تھی تو تُم لوگوں کو بپتسمہ کیوں دیتے ہو؟‏“‏ یوحنا نے اُنھیں جواب دیا:‏ ”‏مَیں پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں۔‏ آپ کے درمیان ایک شخص ہے جسے آپ نہیں جانتے۔‏ یہ وہ شخص ہے جو میرے پیچھے آ رہا ہے اور مَیں تو اِس لائق بھی نہیں کہ اُس کے جُوتوں کے تسمے کھولوں۔‘‘[6]

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے محمدرسول اللہ ﷺ کے بارے میں پیشین گوئی آپ  ﷺ کے ذاتی نام’احمد‘ سے کی تھی:

وَاِذْ قَالَ عِيْسَي ابْنُ مَرْيَمَ يٰبَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْلَ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَمُبَشِّرًاۣ بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْۣ بَعْدِي اسْمُهٗ٘ اَحْمَدُﵧ فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ.(الصف٦١: ٦)
’’یاد کرو، جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا: اے بنی اسرائیل، میں تمھاری طرف خدا کا بھیجا ہوا رسول ہوں، تورات کی اُن پیشین گوئیوں کا مصداق ہوں جو مجھ سے پہلے موجود ہیں، اور ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں، جو میرے بعد آئے گا، جس کا نام احمد ہو گا، مگر اُن کے پاس جب وہ کھلی کھلی نشانیاں لے کر آگیا تو اُنھوں نے کہا: یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔‘‘

مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:

’’بائیبل کے مترجمین نے، معلوم ہوتا ہے کہ ’’احمد‘‘ کے نام کے ساتھ کی گئی پیشین گوئیوں میں ’’احمد‘‘ کے نام کا بھی ترجمہ کر دیا۔ چنانچہ کسی نے اس کا ترجمہ ’مددگار‘ کیا ہے، کسی نے ’وکیل‘ کسی نے ’شفیع‘، کسی نے ’سچائی کی روح‘۔ رہا یہ کہ وہ لفظ کیا ہے؟ تو یوحنا میں جو یونانی لفظ استعمال ہوا ہے، وہ (paracletus) بتایا جاتا ہے، جس کے معنی بیان کرنے میں وہ موشگافیاں کی گئی ہیں جو اوپر بیان ہوئیں۔ یہ یونانی لفظ ظاہر ہے کہ کسی سریانی لفظ کا ترجمہ ہو گا،اس لیے کہ انجیل کی اصل زبان سریانی تھی تو اب اس کی تحقیق کون کرے کہ وہ کیا تھی۔ جب ایک لفظ کو گم کرنے کی جدوجہد میں صدیوں سے ایک پوری قوم کی قوم لگی ہو تو اس کا سراغ لگانا کس کے امکان میں ہے! یہ تو قرآن کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس کا کچھ سراغ دیا۔ بعض مسلمان مورخین کی تحقیق یہ ہے کہ اصل سریانی لفظ ’منحمنا‘ ہے جس کے معنی سریانی میں وہی ہیں جو ’محمّد‘ اور ’احمد‘ کے ہیں۔‘‘ [7]

 بائیبل میں سلیمان علیہ السلام کی غزل الغزلات میں آپ ﷺ کا نام ’’محمدیم‘‘ اب تک محفوظ ہے۔ اس کے عبرانی الفاظ یہ ہیں:’’واکُلُّو محمدیم‘‘۔عبرانی قاعدے کے مطابق، محمدیم میں یا  او ر میم جمع بنانے کےلیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ محمدیم میں یہ جمع تعظیمی ہے۔ تعظیم کے لیے واحد کو جمع بنا لینا زبانوں کا عمومی اسلوب ہے۔ چنانچہ محمدیم کا مطلب ’’وہ سراپا محمد عظیم ہیں‘‘ یا ’’وہ سراپا قابل تعریف‘‘ بنتا ہے۔ نیز یہ یہاں اسم معرفہ کے طور پر استعمال ہوا ہے جو شخصیت کےنام پر دلالت کرتا ہے۔[8]

قرآن مجید کے بیان کے مطابق، اہل کتاب قرآن مجید کو ایسے پہچانتے تھے جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے تھے:

اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْﵧ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُوْنَ.(البقرہ٢: ١٤٦)
’’(یہ حقیقت ہے کہ) جن کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اِس چیز کو ایسا پہچانتے ہیں، جیسا اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ اور اِن میں یہ ایک گروہ ہے جو جانتے بوجھتے حق کو چھپاتا ہے۔‘‘

یعنی وہ نہ صرف محمد رسول اللہ ﷺ کو پہچانتے تھے، بلکہ آپ کی لائی ہوئی کتاب سے بھی واقف تھے کہ یہ کتاب الہٰی ہے۔

قرآن مجیداہل کتاب کے سامنےمحمد رسول اللہﷺ کو بار باران پیشین گوئیوں کے مصداق کی حیثیت سے پیش کرتا ہے جن کا ذکر تواتر سے اہل کتاب کی کتب اور روایت میں نقل ہوتا چلا آتا تھا:

وَلَمَّا جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيْقٌ مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَﵱ كِتٰبَ اللّٰهِ وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ كَاَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ.(البقرہ٢: ١٠١)
’’اور جب اللہ کی طرف سے ایک پیغمبراُن پیشین گوئیوں کے مطابق اِن کے پا س آ گیا ہے جو اِن کے ہاں موجود ہیں تو یہ لوگ جنھیں کتاب دی گئی، اِن میں سے ایک گروہ نے اللہ کی اِس کتاب کو اِس طرح اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا، گویا وہ اِسے جانتے ہی نہیں۔‘‘

قرآن مجید میں جہاں ’مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ /  مَعَكُمْ‘ اور’ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَالْاِنْجِيْلِ‘ جیسے الفاظ آئے ہیں ، وہاں گذشتہ کتب کی موجودہ حالت کی تصدیق مراد نہیں ہے، یہ اس لیے کہ یہ موقع نبوت کی صداقت کی دلیل بیان کرنے کا ہے۔ گذشتہ آسمانی کتب کی تصدیق کرنے سے نبوت کی صداقت کی کوئی دلیل قائم نہیں ہوتی۔ قرآن مجید کے ان مقامات میں یہ بتایا گیا ہےکہ یہ نبی ان پیشین گوئیوں کا مُصَدِّق یا مصداق بن کر آ گیا ہے جنھیں وہ اپنی کتاب میں پاتے ہیں،اب وہ اس نبی کو پہچاننے سے انکارنہ کریں۔

صَدَّقَ‘ کسی موجود کی تصدیق کرنے کو بھی کہتے ہیں اور کسی متوقع بات کی تصدیق کرنے یا سچ کر دکھانے کے مفہوم میں بھی اسے استعمال کیا جاتاہے ،جیسے قرآن مجید میں آیا ہے:

وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ اِبْلِيْسُ ظَنَّهٗ فَاتَّبَعُوْهُ اِلَّا فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ.(سبا٣٤ : ٢٠)
’’اِس میں کیا شبہ ہے کہ اُن پر ابلیس نے اپنا گمان سچ کر دکھایا۔ سو وہ اُسی کے راستے پر چلے، ایمان والوں کے ایک گروہ قلیل کے سوا۔‘‘

صَدَّقَ‘ کایہ دوسرا  معنی ہی آیت بالا میں درست ہے۔ یہی معانی ’مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ /  مَعَكُمْ‘ اور’ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ‘میں مراد لینا  درست ہے کہ محمدﷺ اہل کتاب کے ہاں آخری نبی کی پیشین گوئیوں کے مُصدِّق، یعنی مصداق بن کر آئے ہیں۔ آپ ﷺ نے آکر ان پیشین گوئیوں کو سچ کر دکھایا۔ نبوت کی دلیل اگر بن سکتی ہےتو یہی بن سکتی ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی دینی روایت میں آخری دور میں آنے والے انبیا کے بارے میں جو خبر دی گئی، اس میں ان انبیا کی تعداد تین سے آگے نہیں بڑھی۔ آخری خبر’وہ نبی‘، ’احمد‘ اور ’محمدیم‘ کے ناموں سے محمد رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ہے۔

 ابراہیم علیہ السلام سے شروع ہونے والی انبیا کی آمد کی پیشین گوئیوں کی اس مستقل روایت کے برعکس قرآن مجید میں کسی نئے نبی کی آمد کی کوئی پیشین گوئی موجودنہیں ہے۔ کسی نبی کے ذاتی یا مخصوص صفاتی نام  اور اس کی خصوصی نشانیوں کے ساتھ کوئی خبر  نہیں دی گئی ۔ رسالت محمد ی کے بعد کسی اور نبی کی آمد کے بارے میں پیشین گوئی کی غیر موجودگی ختم نبوت کی از خود کافی دلیل تھی۔ اس کو مزید موکدآپؐ کے ان ارشادات نے کیا جن میں آپؐ کے بعد کسی نبی کے آنے کی نفی کر دی گئی۔ پھر ایک موقع پر قرآن مجید میں ختم نبوت کا ذکر پوری قطعیت اور حتمیت کے ساتھ کر کے انبیا کی بعثت پرآخری درجے میں اختتام کی مہر لگا دی گئی۔ نبوت کا خاتمہ علی الاطلاق کیا گیا ہے۔ اس میں کسی قسم کی نبوت کے جاری رہنے کی گنجایش نہیں رہی (آیت ختم نبوت پر تفصیلی بحث آگے آتی ہے)۔

مسیح کی آمد ثانی کی روایت

محمد رسول اللہ ﷺ سے منسوب چند روایات میں آپ کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کا ذکر آیا ہے، جن کی بنیاد پر مرزا غلام احمد صاحب نے اپنی نبوت کا اعلان کیا اور خودکو مسیح موعود اورمثیل مسیح قرار دیا۔

پہلی بات یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کی پیشین گوئی قرآن مجید بیان نہیں کرتا، یوں وہ ان کی آمد کے معاملے کو انبیا کی آمد سے متعلق متواتر روایت کی حیثیت نہیں دیتا، جیسا کہ ذریت ابراہیم انبیا کی آمد کی پیشین گوئیوں کی روایت متواتر درجے میں چلی آتی تھی ۔ مسیح علیہ السلام کی آمد ایسی اہم بات تھی کہ اسے سب سے پہلے قرآن مجید میں بیان ہونا چاہیے تھا۔ کچھ آیات سے اسے ثابت بھی کیا جاتا ہے، مگر اس کے لیے تکلف آمیز تاویلات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ یہ تاویلات کسی طرح فیصلہ کن نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس قدر اہم خبر کو اتنا مبہم کیسے رکھاجا سکتا ہے کہ اس کے لیے تاویلات کرنا  پڑیں؟ اہم امور کے بیان میں قرآن مجید کا یہ طریقہ نہیں ہے۔ اگر قیامت کی نشانی کے طور پر یاجوج اور ماجوج  کا  ذکر قرآ ن مجید میں آ سکتا ہے تو مسیح علیہ السلام کی آمد کا واقعہ تو اس سے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے، اسے پوری وضاحت سے بیان میں آنا چاہیے تھا۔

دوسری بات یہ کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کی خبر، خبر واحد ہے، یہ متواتر روایت کی حیثیت نہیں رکھتی، یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کے دور میں صحابہ رضی اللہ عنہم میں اس کا  چرچا  نہ تھا۔ آپ ﷺ کے بعد کسی دور میں اس کا مشہور ہو جانا دور اول میں اس کی غیر متواتر حیثیت کو تبدیل نہیں کرتا۔

تیسرے یہ کہ یہ انبیا کی آمد کی پیشین گوئیوں کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ آنے والے نبی کاذاتی اور مخصوص صفاتی نام اور خصوصیات بیان کی جاتی تھیں، جیسا کہ پیش تر مذکور ہوا ۔ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے خود کو مثیل مسیح قرار دے کر اپنی نبوت کا دعویٰ کیا۔ مگر نکتۂ اعتراض یہ ہے کہ  اس پر بھی ان کا ذاتی اور صفاتی نام اور خصوصیات کا قرآن مجید یا رسول اللہ ﷺ کی طرف سے احادیث متواترہ کے ذریعے سے معلوم ہونا ضروری تھا۔ محمد رسول اللہ ﷺ بھی مثیل موسیٰ تھے، مگر آپ کا ذاتی نام واضح طور پر بائیبل کی پیشین گوئیوں میں مذکور ہوتا رہا۔ چنانچہ مسیح علیہ السلام سے مراد اگر مسیح ابن مریم نہیں تھے، بلکہ ان کے روپ میں کوئی دوسرا شخص تھا، جو مثیل مسیح تھا، تو ضروری تھا کہ اس کا ذاتی اور صفاتی نام اور خصوصیات بھی بتائی جاتیں۔ محض مثیل مسیح  ہونے کا  دعویٰ کر لینے سے  مرزا صاحب کا  مسیح موعود ہونا ثابت نہیں ہو سکتا۔ یہ دعویٰ کوئی بھی کر سکتا ہے ۔ اس ابہام سے بچنے کے لیے ضروری تھا کہ مثیل مسیح کا نام اور خصوصیات خبر متواتر کی صورت میں امت کو فراہم کی جاتیں۔

مرزا غلام احمد صاحب نے ذخیرۂ احادیث میں مسیح علیہ السلام کی آمد سے متعلق پیشین گوئیوں کے خود پر انطباق میں بے حد دور از کار تاویلات سے کام لیا ہے، جس سے معاملہ اس قدر مشتبہ ہو جاتا ہے کہ پیشین گوئیوں کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے کہ ان سے لوگوں پر کوئی حجت قائم کی جا سکے۔

مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کے اخبار کی مرزا صاحب کی ذات اور حالات پر تطبیق کی مشکلات سے قطع نظر ،ہمارا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ ان روایات کو قرآن مجید قبول نہیں کرتا۔ نہ صرف یہ کہ قرآن مجید ایسی کوئی خبر نہیں دیتا، بلکہ واضح طور پر بتاتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے وفات پائی اور ان کا جسد مبارک بھی اٹھالیا گیا تھا۔ قرآن مجید کا درج ذیل مقام ملاحظہ کیجیے:

اِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسٰ٘ي اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْ٘ا اِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَةِ.(آل عمران٣: ٥٥)
’’اُس وقت، جب اللہ نے کہا: اے عیسیٰ ، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تجھے وفات دوں گااور اپنی طرف اٹھا لوں گا اور تیرے اِن منکروں سے تجھے پاک کروں گا اورتیری پیروی کرنے والوں کو قیامت کے دن تک اِن منکروں پر غالب رکھوں گا۔‘‘

’توفی‘                                                                              کا لفظ اردو کے لفظ ’’انتقال‘‘ کی طرح جب مطلق بولا جائے تو یہ وفات،  یعنی موت کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے ۔ جیسے:

رَبِّ قَدْ اٰتَيْتَنِيْ مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِيْ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِﵐ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِﵴ اَنْتَ وَلِيّٖ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِﵐ تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ.(یوسف١٢: ١٠١)
’’پروردگار، تو نے مجھے اقتدار میں حصہ عطا فرمایا اور باتوں کی تعبیر کر لینے کے علم میں سے بھی سکھا دیا۔ زمین اور آسمانوں کے بنانے والے، دنیا اور آخرت میں تو ہی میرا کارساز ہے۔ مجھے اسلام پر موت دے اور اپنے نیک بندوں کے زمرے میں شامل فرما۔‘‘

پھر جیسے ’’انتقال‘‘ کو وفات کے معنی سے پھیرنے کے لیے کوئی قرینہ چاہیے، جیسے زمین کا انتقال کرانا، اسی طرح ’توفی‘ کو وفات کے معنی سے پھیرنے کے لیے قرینہ درکار ہوتا ہے، جیسے درج ذیل آیت میں موجود ہے، جو نیند کی حالت میں جان کے عارضی قبض کو بیان کرتا ہے:

اَللّٰهُ يَتَوَفَّي الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَاﵐ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰي عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْاُخْرٰ٘ي اِلٰ٘ي اَجَلٍ مُّسَمًّيﵧ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ.(الزمر٣٩: ٤٢)
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی جانیں قبض کرتا ہے، جب اُن کی موت کا وقت آجاتا ہے اور جن کی موت نہیں آئی ہوتی، اُنھیں بھی نیند کی حالت میں اِسی طرح قبض کر لیتا ہے۔ پھر جن کی موت کا فیصلہ کر چکا، اُن کو روک لیتا ہے اور جو باقی ہیں، اُنھیں ایک مقرر وقت تک کے لیے رہا کر دیتا ہے۔ اِس میں، یقیناً اُن لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں۔‘‘[9]

دوسری بات یہ کہ سورۂ آل عمران کی درج بالا آیت میں قرآن مجید نے مسیح علیہ السلام کے لیےقیامت تک کا لائحۂ عمل بیان فرمایا ہے۔ یہ موقع تھا کہ اگر مسیح علیہ السلام نے واپس دنیا میں آنا ہوتا تو یہاں یہ بھی بیان کر دیا جاتا کہ قیامت سے پہلے وہ ایک مرتبہ پھر دنیا میں بھیجے جائیں گے، مگر ایسا نہیں کہا گیا۔ چنانچہ صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا دوبارہ دنیا میں آنا قرآن مجید کے بیانات کی رو سے حد امکان میں نہیں۔

محمد رسو ل اللہ ﷺ سے منسوب مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کی بعض روایات چونکہ سند کے اعتبار سے قوی بھی ہیں، اس لیے ان روایات کے بارے میں ہمارا رجحان یہ ہے کہ یہ تمثیلی رنگ میں ہیں۔ جہاں مسیح علیہ السلام کا ذکر ہے، وہاں مسیح الدجال کا ذکر بھی ساتھ آیا ہے، مثلاً دیکھیے:

وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ’’أَرَانِي اللَّيْلَةَ عِنْدَ الْكَعْبَةِ، فَرَأَيْتُ رَجُلًا آدَمَ كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ مِنْ أُدْمِ الرِّجَالِ، لَهُ لِمَّةٌ كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ مِنَ اللِّمَمِ قَدْ رَجَّلَهَا، فَهِيَ تَقْطُرُ مَاءً مُتَّكِئًا عَلٰى رَجُلَيْنِ أَوْ عَلٰى عَوَاتِقِ رَجُلَيْنِ، يَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ، فَسَأَلْتُ مَنْ هَذَا؟ قِيلَ: هَذَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ، ثُمَّ إِذَا أَنَا بِرَجُلٍ جَعْدٍ قَطَطٍ أَعْوَرِ الْعَيْنِ الْيُمْنَى، كَأَنَّهَا عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ، فَسَأَلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقِيلَ لِي: هَذَا الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ‘‘.[10]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج رات (اللہ نے) مجھے خواب دکھایا کہ میں کعبہ کے پاس ہوں، پھر میں نے ایک گندمی رنگ کا آدمی دیکھا، تم نے جو گندمی لوگ دیکھے ہیں، وہ ان میں سب سے خوب صورت تھا، تم نے کندھوں تک سر کے جو لمبے بال دیکھے ہیں، ان میں سب سے زیادہ خوب صورت اس کے بال تھے جنھیں اس نے کنگھی کیا تھا، پانی کے قطرے اس کے بالوں سے گر رہے تھے، اس شخص نے دو آدمیوں یا ان کے کندھوں پر سہارا لیا ہوا تھا اور بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ بتایا گیا کہ یہ مسیح ابن مریم ہیں، پھر میں نے ایک آدمی دیکھا جو دائیں آنکھ سے کانا تھا اور اس کے بال بہت زیادہ گھنگریالے تھے، اس کی (کانی) آنکھ اس طرح تھی، جیسے پھولے ہوئے انگور کا دانہ ہے، میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ کہا گیا: یہ مسیح دجال ہے۔‘‘

معلوم ہوتا ہے کہ مسیح الدجال کی طرح مسیح بھی تمثیل ہے۔ یعنی مسلمانوں کا کوئی صالح حکمران یا دین کا کوئی خادم یا کوئی فکر ہوگا جس سے دجالی عہد میں دین کی تجدید کا کام لیا جانا مقصود ہے۔ دین ابراہیمی کے ساتھ یہودی فقیہوں اور فریسیوں کے دجل و دسیسہ کاریوں کے مقابل جس طرح مسیح علیہ السلام دین کی اصل روح، ایمان اور اخلاق کا مقدمہ لے کر کھڑے ہوئےتھے، اسی طرح اسلام میں اہل مذہب کی کج فہمی اور الحاد و تشکیک کے فلسفوں کی دجل کاری  کے مقابل کوئی شخص یا فکرمسیح علیہ السلام کی کاوشوں کی طرح دین کے اصل پیغام اور اس کی روح کو ظاہر کرنے کے لیے کارفرما ہوگا۔

 مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کے بارے میں وارد ہونے والی قوی روایات میں وہ تفصیلات نہیں ہیں جو ضعیف روایات میں بیان ہوئی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تفصیلات اہل کتاب میں پائی جانے والی روایات سے حاصل ہوئی ہیں۔ یہود بھی مسیح علیہ السلام کے منتظر رہے، کیونکہ ان کے مطابق وہ جو آئے تھے وہ مسیح علیہ السلام نہ تھے، مسیح علیہ السلام کو ابھی آنا ہے، جب کہ مسیحیوں میں آپ کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد آپ کی آمد ثانی کا عقیدہ رائج ہو گیا تھا۔ پھر ان سے یہ نظریہ مسلمانوں میں اپنی تفصیلات کے ساتھ سرایت کر گیا۔

سورۂ احزاب میں ختم نبوت کا اعلان ضمناً  آنے کی وجہ

انبیا کی آمد کی پیشین گوئیاں، جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، محمدرسول اللہ ﷺ پر آکر ختم ہو جاتی ہیں ۔ اور یہ بھی عرض کیا گیا کہ کسی نبی کی آمد کا انتظار خدا کی طرف  سے اس کی آمد کی خبر پانے کے بعد ہی جواز پیدا کرتا ہے۔مزید یہ کہ آپؐ نے انبیا کی آمد کی پیشین گوئیوں کی پہلے سے موجود روایت کے برعکس اپنے بعد کسی اور  نبی کے آنے کی تردید بھی کر دی ۔ادھر قرآن مجید دین کی تکمیل کا اعلان کر رہا تھا ، اور اس کے بدیہی نتیجے کے مطابق کسی اور نبی اور سلسلۂ نبوت  کے جاری رہنے کے بیان سے  بھی یکسر خالی تھا،  بنی اسرائیل کی روایت کے برعکس کسی آنے والے نبی پر ایمان اور اس کی اطاعت کے لیے کوئی عہد اور اقرار بھی نہیں لیا جارہا تھا۔ قرآن مجید اور اس سے پہلے کی وحی پر ایمان لانے ہی کو فلاح و نجات کے لیے کافی قرار دے رہا تھا، بعد میں آنے والی کسی وحی پر ایمان لانے کے لیے ذہن سازی بھی نہیں کر رہا تھا،ختم نبوت کی یہی بنیادیں تھیں جن کی بنا پر قرآن مجید میں آپ کی ختم نبوت کا ذکر ایک پیش آمدہ مسئلے کے ضمن میں اس طرح کیا گیا، گویا یہ پہلے سے طے شدہ تھا۔ چنانچہ قرآن مجید میں ختم نبوت کے ذکر کا موقع اُس وقت پیدا ہوا جب اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو آپؐ کے منہ بولے بیٹے، حضرت زید رضی اللہ عنہ کی مطلقہ، حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کرنے کا حکم دیا۔ یہ حکم منہ بولے بیٹوں کے معاملے میں جاہلیت کی ایک رسم کہ وہ منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے اور اس کی بیوی کو حقیقی بہو کی طرح سمجھتے تھے، کی اصلاح کے لیے دیا گیا تھا۔ چنانچہ فرمایا کہ آپؐ چونکہ آخری پیغمبر ہیں، اِس لیے ضروری ہوا کہ آپ ہی کے ذریعے سے اِس رسم بد کی اصلاح کی جائے۔ آپ کے بعد اگر کوئی اور نبی آنے والا ہوتا تو ہو سکتا تھا کہ اللہ اِس معاملے کو آیندہ کے لیے اٹھا رکھتا، لیکن اب کوئی اور نبی آنے والا نہیں ہے، اِس لیے یہ ذمہ داری آپ ہی کو پوری کرنی ہے۔ اس اجمال کی تفصیل اپنے موقع پر آتی ہے۔

اب احمدیت کے استدلالات کاتنقیدی جائزہ لیا جائے گا۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B

حواشی :

[1] ۔ یوحنا5: 31-37۔

[2]۔یوحنا8: 56۔’’تمھارا باپ ابراہیم میرا دن دیکھنے کی امید پر بہت خوش تھا، چنانچہ اس نے دیکھا اور خوش ہوا۔ ‘‘

[3]۔ یوحنا 5: 31-37۔

[4]۔  یوحنا 10: 24-25۔

[5]۔ متی  11: 2-6۔

[6]۔ یوحنا1: 19-28۔

[7]۔ تدبر قرآن، تفسیری نوٹ سورۂ صف 61:  6۔

[8] ۔تفصیل کے لیے دیکھیے: محمدر سول اللہ کے بارے میں بائبل کی چند پیشین گوئیاں، عبد الستار غوری، المورد، لاہور، 22        ـ 24۔

[9]۔  ’توفی‘  کی  یہ  توضیح  برادر جناب محمد حسن الیاس صاحب کی  ایک تحریر  سے  ماخوذ   ہے۔

[10]۔ مالک بن انس، امام،موطا مالك، محقق: عبد الباقی،دار احياء التراث العربی، بيروت - لبنان2/920۔