HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Irfan Shehzad

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

موضوعی استدلالات

باب اول

 

یہ وہ استدلالات ہیں جن کو عام طور پر احمدیت کے دفاع اور رد،  دونوں میں پیش کیا جاتا ہے، لیکن یہ علمی نوعیت کی چیزیں نہیں۔ انھیں ہم موضوعی استدلالات کہہ سکتے ہیں۔  یہ ہمارے مقالے کے لیے طے کردہ احاطۂ علمی کے دائرے میں نہیں آتے۔ تاہم ان پر تبصرہ کر کےیہ بتانا ضروری ہے کہ یہ علمی استدلال بننے کی صلاحیت کیوں نہیں رکھتے۔

خواب و مکاشفات

خواب اور مکاشفات کوئی علمی استدلال کی چیز نہیں ہوتے، مگر احمدی حضرات کے ہاں ان کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ سابق احمدی فاضل، جناب ملک محمد جعفر خان صاحب اپنی کتاب ’’احمدیہ تحریک‘‘میں لکھتے ہیں:

’’ میرے لیے یہ لوگ باوجود اپنی علمی اور عقلی بزرگی کے کوئی سند نہیں ہیں۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ انھوں نے زندگی کو دو الگ شعبوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ مثلاً، اگر یہ جج ہیں توگواہ کی صداقت اور جھوٹ میں تمیز کرنے کےلیے انھوں نے عقلی بنیادوں پر اصول قائم کیے ہوئے ہیں، جن سے وہ استفادہ کرتے ہیں، لیکن جب مرزا قادیانی کا معاملہ درپیش ہو تو ان سب اصولوں کو خیر باد کہہ دیتے ہیں اور خواب، رُویا، استخارہ اور وجدا ن پر انحصار کرتے ہیں اور یہ ذرائع کسی قاعدے یا قانون کے پابند نہیں ہیں... حیرت ہے کہ باطل تو اپنے ثبوت کے لیے حواس کی بیداری پر انحصار کرے اور حق خواب کا محتاج ہو۔‘‘[1]

احمدیت سے متاثر سنجیدہ افراد سے مکالمہ اورمباحثہ کے بعد مذکورہ بالا بیان کی تصدیق ہوتی ہے۔ ان کے ہاں احمدیت کی طرف مائل ہونے اور قائم رہنے کی بڑی اور موثر وجہ تائیدی خواب،مکاشفات اور غیبی اخبار بتائے جاتے ہیں، جو ان کے بقول، ان پر وارد ہوتے رہتے ہیں۔

احمدیت، دراصل ایک صوفیانہ یا انفعالی مزاج کا حامل مذہب ہے۔صوفی حلقوں کی طرح یہاں بھی خواب و مکاشفات ہی عملی طور پر فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں، جب کہ دلائل زیادہ تر مخالفین کے لیے تلاشے اور تراشے جاتےہیں۔

جہاں تک خوابوں اور الہامات کا معاملہ ہے، تو یہ داخلی، ذاتی، نفسیاتی اور مذہبی حوالے سے ما بعد الطبیعیاتی نوعیت کا معاملہ ہے، اس لیے یہ کبھی دوسرے کے لیے حجت نہیں بن سکتے۔ ہمارے نزدیک خواب نفسیاتی اور نفسانی کیفیات ہیں۔ مرزا صاحب نے اپنی کتاب ’’حقیقۃ الوحی‘‘ میں محض خوابوں سے استدلال اور ان پر بھروسا کر لینے کو از خود بھی غلط قرار دیا ہے ۔

عام مشاہدہ ہے کہ ہر مسلک اور فرقے کے لوگوں کو عالم رویا میں اپنے ہی مسلک اور فرقے کے ا کابرین سے ملاقات و تائید و نصرت ملتی ہے۔عالم بالا میں بھی کیا مسلکی تعصب کار فرما ہے یا پھریہ سالکِ سلوک کے اپنے تحت الشعورکی کارستانیاں ہیں؟ مولانا ابو الحسن علی ندوی لکھتے ہیں:

 ’’مصر کی فلاطونیت جدیدہ (Neo-Platonism) کے روحانی مشاہدات اور ربانی مکالمات ملاحظہ ہوں! کیا ان کے مکاشفات اور مکالمات نے اس وقت کے صنمیات اور فلسفیانہ مفروضات کی تصدیق نہیں کی؟‘‘ [2]

پیشین گوئیاں

مرزا صاحب کی نبوت کے اثبات میں ایک دوسرا استدلال مرزا صاحب کی پیشین گوئیوں سے کیا جاتا ہے۔ مرزا صاحب کی پیشین گوئیوں کا معاملہ معروضی ہونے کے باوجود درحقیقت موضوعی نوعیت کاہے، یعنی ان کا وقوع ایسی قطعیت سے خالی ہے جو مخالف پر کوئی حجت قائم کر سکے۔ مخالفین کے نزدیک یہ بعینہ واقع نہیں ہوئیں اور کچھ سرے سے واقع ہی نہیں ہوئیں۔ چنانچہ ان سےمرزا صاحب کے دعویٰ نبوت کا ابطال کیا جاتا ہے، جب کہ مرزا صاحب اور ان کے معتقدین ان پیشین گوئیوں سے متعلق اپنی تاویلات سے مطمئن ہیں[3]۔ اس وجہ سے پیشین گوئیوں کے معاملے کی یہ نوعیت اسے ہمارے مقالے کے مقررہ احاطۂ علمی سے باہر کر دیتی ہے۔

مرزا صاحب کی پیشین گوئیوں کا مطالعہ کرنے سے معلو م ہوتا ہے کہ یہ دو نوعیت کی تھیں: ایک وہ جن میں ان پیشین گوئیوں کے ظہور پذیر ہونے کی مدت کے لیے اتنا وقت رکھا جاتا تھا کہ ان کا وقوع اتفاق قرار دیا جا سکتا تھا، جیسے فلاں صاحب، مرزا صاحب سے پہلے وفات پا جائیں گےیا یہ کہ مرزا صاحب کی دعوت نبوت کے انکار پر لوگوں پر  وبائیں نازل ہوں گی، جب کہ یہ معلوم ہے کہ طب و صحت کے لحاظ سے وہ دور پسماندہ تھا اور وباؤں کےوقتًا فوقتًا پھوٹ پڑنے کا امکان رہتا تھا۔دوسرے وہ پیشین گوئیاں جوایک لحاظ سے قطعیت کا اسلوب رکھنے کے باجود ابہام کی حامل ہوتی تھیں۔ ان میں ’’اگر‘‘ اور ’’مگر‘‘ جیسی کوئی شرط یا استثنا لگا کر  دونوں راستے کھلے رکھے جاتے کہ اگر یہ بعینہ پوری ہوگئیں تو نشان حق قرار پائیں گی اورنہ پوری ہوئیں تو کہا جا سکتا ہے کہ ’’اگر‘‘  کی کسی شر ط یا ’’مگر‘‘کے کسی استثنا کے شامل ہو جانےکی وجہ سے اُس طرح پوری نہ ہوئیں، جس طرح کہی گئی تھیں۔ جیسے پادری عبداللہ آتھم کی موت کی مقررہ تاریخ اور محمدی بیگم  کے ساتھ مرزا صاحب کےنکاح کی پیشین گوئیوں کے معاملے میں پیش آیا کہ پیشین گوئی کے ساتھ یہ بھی تھا کہ اگر وہ حق کی طرف رجوع نہ کر لیں اور توبہ نہ کر لیں تو ایساایسا ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس توبہ اور رجوع کا علم فقط مرزا صاحب کو بذریعۂ الہام ہوااوریہ  علم بھی  انھیں پیشین گوئیوں کا وقت گزر جانے کے بعد ہوا ، جب ان پیشین گوئیوں کی بھد اڑائی گئی۔ یہی معاملہ طاعون کی وبا کی پیشین گوئی میں برتا گیا کہ قادیان اس سے متاثر نہیں ہوگا، مگر کم اور یہ کہ ان کے متعلقین اس سے متاثر نہ ہوں گے، مگر شاذ و نادر[4]۔

نبوت کی روایت کی رو سے ہم جانتے ہیں کہ اثبات نبوت کی پیشین گوئیوں کا مقصود ہی  قطع عذر ہوتا ہے۔ ان میں بھی اگر تاویل کی گنجایش پیدا کر دی جائے توان کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ مرزا صاحب کی پیشین گوئیوں میں اس قسم کے ابہامات حق و باطل کے تنازع میں فیصلہ کن بات تک نہیں پہنچا سکتے ۔ ان کے اس بیان کے باوجود کہ ’’بد خیال لوگوں کو واضح ہو کہ ہمارا صدق یا کذب جانچنے کے لیے ہماری پیش گوئیوں سے بڑھ کر کوئی محک امتحان نہیں ہو سکتا۔‘‘[5]، ان کی پیشین گوئیاں ایسا معیار فراہم نہیں کرتیں کہ  ان کی صداقت کو مرزا صاحب کی نبوت کی تصدیق میں بطور شہادت استدلال کے میدان میں پیش کیا جا سکے۔ دیکھا جائے تو پیشین گوئیوں کی یہ غیرقطعیت ہی دعویٰ نبوت کی نفی کے لیے کافی ہے، اس لیے کہ دعویٰ نبوت کی شہادت میں پیش کردہ پیشین گوئیاں غیر قطعی نہیں ہو سکتیں جو حجت قائم نہ کرسکیں۔

 ہم سمجھتے ہیں کہ انسان کے لیےکچھ ایسی نفسانی طاقتوں کا حصول ممکن ہے جن کی مدد سے کچھ عجیب و غریب کام لیے جا سکتے ہیں اور کسی حد تک درست پیشین گوئیاں کرنا بھی ممکن ہو جاتا ہے، لیکن یہ نفسانی طاقتیں ہر مذہب و ملت کے نفسانی علوم کے ماہرین، بلکہ بعض اوقات عام افراد میں بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ در اصل نفسانی طاقتوں کے ذریعے سےبعض دنیوی امور میں تصرفات کرنے کی صلاحیت ہے، جیسے ٹیلی پیتھی۔ حق و باطل کے فرق و امتیاز سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

پیراسائیکالوجی کے نیم سائنسی مضمون کے تحت یہ نفسانی علوم اور مظاہر اب مستقل مطالعہ کا موضوع ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں ان کے قوانین انسانی ادراک میں آ جائیں گے۔ اتنا بہرحال تقریباً ہر ایک کے مشاہدے میں آتا ہے کہ انسان کی چھٹی حس اسے بعض اوقات قبل از وقت کسی معاملے کے بارے میں آگاہ کردیتی ہے۔اسی طرح بعض ایسے خواب بھی لوگوں کو آ جاتے ہیں جو سچ ثابت ہو جاتے ہیں۔ایسی صلاحیت کسی شخص میں غیر معمولی حد تک موجود ہو سکتی ہے، مختلف نفسانی مشقوں سے اسے بڑھایا بھی جا سکتا ہے، اس کے  باوجود ان ذرائع سے حاصل ہونے والی ہر بات درست نہیں ہوتی، اس لیے مرزا صاحب کی کچھ پیشین گوئیاں اگر درست ثابت ہوئی بھی ہیں  توانھیں اسی زمرہ میں شمار کیا جا سکتا ہے۔

ایسے خوابوں، کشف اور الہامات کی وجہ سے انسان میں خود فریبی پیدا ہوجاتی ہے۔خود فریبی کا تاثر اگر بہت گہرا ہوتو اس سے فرد میں اپنے بارے میں غیر حقیقی اذعان پیداہو جاتا ہے کہ عالم بالا سے اس کا کوئی رابطہ ہے۔ نرم اور انفعالی طبیعت رکھنے والے یا ضعیف الاعتقاد لوگ ایسےمدعی کے لب و لہجے کے تیقن یا اس کی طرف سے مستقبل کے کچھ درست اندازوں کو دیکھ کر اس کے تمام دعاوی کو سچا مان لیتے ہیں۔ برصغیر پاک وہند کے سماج میں صدیوں کی معاشی اور سیاسی بے یقینی، عدم تحفظ اور مستقبل کے بارے میں عدم اطمینان کے شکار عوام میں یہ غیر تنقیدی  تسلیم و رضاکا مزاج کچھ زیادہ  پایا جاتا ہے۔ ایسے دعاوی سے وہ اپنی بے مقصد اور روکھی پھیکی زندگی میں مقصدیت، ولولہ اور امید پاتے ہیں۔  اس پر علامہ اقبال کی نظم، ’’پنجابی مسلمان‘‘  کا تبصرہ بالکل برمحل ہے۔ یہ تبصرہ صرف پنجابی مسلمانوں تک محدود نہیں ہے:

مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبيعت

کر لے کہيں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد

تحقيق کی بازی ہو تو شرکت نہيں کرتا

ہو کھيل مريدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد

تاويل کا پھندا کوئی صياد لگا دے

يہ شاخ نشيمن سے اترتا ہے بہت جلد

انبیا علیہم السلام کو ملنے والی وحی اور خواب اور غیر انبیا کے الہام، خواب اور مکاشفات میں کوئی مماثلت نہیں۔ انبیا کی وحی اور خواب کا قطعی اور متعین طور پر خدا کی طرف سے ہونا نبی کے لیے مصدقہ ہوتا ہے۔ الفاظ ، معنی اور مصداق کے لحاظ سے یہ غیرمبہم ہوتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ ایک نبی کو اپنے خواب کے مصداق اور وقوع خبر کی تعیین میں کوئی ابہام لاحق ہو جائے، مگر متعین ہو جانے کے بعد پیشین گوئی کا مصداق بہرحال تبدیل نہیں ہوتا۔ مثلاً 6؍ ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ آپ طواف کعبہ فرما رہے ہیں۔ آپﷺ نے صحابہ کو ہم راہ لیا اور عمرہ کی نیت سے مکہ وارد ہوئے، مگر عمرہ  ادانہ ہوسکا اور صلح حدیبیہ کر کے آپؐ بغیر عمرہ کیے واپس تشریف لے آئے۔ اس پر صحابہ نے آپؐ  سے عرض کیا کہ یہ کیسے ہوگیا، آپؐ نے تو خواب دیکھا اور نبی کا خواب جھوٹا نہیں ہوتا۔ آپؐ نے فرمایا کہ خواب میں یہ بتایا گیا تھا کہ سب مسلمان عمرہ کریں گے، مگر یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ اِسی سال کریں گے۔ چنانچہ اگلے سال عمرہ ہی ادا کیا گیا۔ چونکہ خواب میں تاریخ کی تعیین نہیں کی گئی تھی، اس لیے اس کی تعیین میں اختلاف ہوا، لیکن عمرے کا مصداق منسوخ نہیں ہوا۔ مرزا صاحب کی پیشین گوئیوں کی یہ شان نہیں ہے۔ وہ یا تو سرے  ہی سے غیر قطعی ہیں یا اپنے اندر اتفاق کا عنصر رکھنے کی وجہ سے حجت قائم نہیں کرتیں۔

تائیدغیبی کے دو رخ

تائید غیبی کامعاملہ  نازک ہے۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ ہر شخص کے لیے وہی راہیں آسان کر دی جاتی ہیں جن پر چلنا وہ اپنی تمنا اور جدوجہدکا مقصد بنا لیتا ہے۔ خدا کی راہ میں اہل ایمان کی مثبت تگ و دو کو پذیرائی ملنا اور ان کے لیےخدا کی راہیں آسان ہونا درج ذیل آیت میں بیان کیا گیا ہے:

وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَاﵧ وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ.(العنکبوت٢٩: ٦٩)
’’(تم میرے بندوں کو بشارت دو، اے پیغمبر کہ) جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں جھیل رہے ہیں، اُن پر ہم اپنی راہیں ضرور کھولیں گےاور کچھ شک نہیں کہ اللہ اُن کے ساتھ ہے جو خوبی سے عمل کرنے والےہیں۔‘‘

جب کہ منفیت کی راہوں پہ  چلتے رہنے پر اصرار کرنے  والوں کو بالآخر شیاطین کے حوالے کر دیا  جاتا ہے جن سے انھیں تائید اور مدد ملتی ہے:

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًاﵐ يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِﵐ وَقَالَ اَوْلِيٰٓـؤُهُمْ مِّنَ الْاِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَّبَلَغْنَا٘ اَجَلَنَا الَّذِيْ٘ اَجَّلْتَ لَنَاﵧ قَالَ النَّارُ مَثْوٰىكُمْ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا٘ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُﵧ اِنَّ رَبَّكَ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ. وَكَذٰلِكَ نُوَلِّيْ بَعْضَ الظّٰلِمِيْنَ بَعْضًاۣ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ.(الانعام ٦: ١٢٨ ـ   ١٢٩)
’’اُس دن کو یاد رکھو، جب وہ اِن سب (مجرموں) کو اکٹھا کرے گا، (پھر فرمائے گا):ا ے جنوں کے گروہ، تم نے تو انسانوں میں سے بہتوں کو اپنا لیا اور انسانوں میں سے اُن کے ساتھی (فوراً) کہیں گے: پروردگار، ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے سے خوب حظ اٹھایا اور (آج) اپنی اُس مدت کو پہنچ گئے ہیں جو تو نے ہمارے لیے مقرر کر دی تھی۔ اللہ فرمائے گا: اب آگ تمھارا ٹھکانا ہے، تم اُس میں ہمیشہ رہو گے، مگر جو اللہ چاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمھارا پروردگار حکیم و علیم ہے۔ ہم ظالموں کو اُن کے کرتوتوں کے باعث اِسی طرح ایک دوسرے پر مسلط کر دیتے ہیں۔‘‘
وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۣ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰي وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰي وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَﵧ وَسَآءَتْ مَصِيْرًا.(النساء ٤: ١١٥)
’’اور جو راہ ہدایت کے اپنے اوپر پوری طرح واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کریں گے اور اُن لوگوں کے راستے کو چھوڑ کر کوئی اور راستہ اختیار کریں گے جو تم پر سچے دل سے ایمان لائے ہیں، اُنھیں ہم اُسی راستے پر ڈال دیں گے جس پر وہ خود گئے ہیں اور بالآخر دوزخ میں جھونکیں گے۔ وہ نہایت برا ٹھکانا ہے۔‘‘

اپنے آپ کو خوابوں اور الہامات کے سپرد کرنے اور اس قسم کے ماحول میں رہنے بسنے والوں کا لاشعور اوہام اور شیاطین کی کارستانیوں کی آماج گاہ بن جاتا ہے۔ ایسے انفعالی مزاج افراد کو اپنے ایجنٹ کے طور پر استعمال کرنا شیطانی قوتوں کے لیے ممکن ہو جاتا ہے۔[6]

مباہلہ کا چیلنج دینے کا اختیار

مباہلہ کا مطلب ہے: ایک دوسرے کے لیے لعنت کی بددعا کرنا۔ قرآن مجید میں مباہلہ کا ذکر سورۂ آل عمران (٣) کی آیت ۶۱ میں آیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے کہا گیا کہ آپﷺ کے مخاطب مسیحی اگر آپؐ کی طرف سے اتمام حجت  ہو جانے کے بعد بھی اپنے عقیدے پر مصر ہیں تو اب احقاق حق کے لیے انھیں مباہلہ کی دعوت دیں کہ جو فریق باطل پر ہے، اس پر خدا کی لعنت ہو۔ انبیا سے چلی آتی روایت کے مطابق خدا کی اس لعنت کا ظہور فوراً ہو جانا تھا۔ بائیبل کی رو سے مسیحی بھی یہ جانتے تھے کہ خدا کا سچا نبی اتمام حجت کے بعد یوں چیلنج دے کر لعنت کر دے تو مخاطبین کی بربادی فوراً ظہور پذیر ہو جاتی ہے، جس سے حق و باطل کا فیصلہ اسی وقت ہو جاتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے قارون  کی  بہتان تراشی کے بعد اس کے لیے بددعا کی تو وہ اپنے حمایتیوں سمیت زمین میں دفن ہو گیا تھا۔انبیا کے  ایسے اور بھی واقعات بائیبل میں مذکور ہیں۔ اس بنا پر روایت کے مطابق نجران کا مسیحی وفد، جو آپ سے مکالمہ کرنے آیا تھا،نے مباہلہ کا یہ چیلنج قبول نہیں کیا تھا۔

مباہلہ کا چیلنج مخاطبین کو آخری درجے میں حق واضح کر دینے کےبعد دیا جاتا ہے، جب مخاطبین کے پاس انکار حق کا کوئی عذر نہ رہے اور ان کے انکار کا محض ضد اور سرکشی پر ہونا خدا کے علم میں متحقق ہو چکا ہو۔ اس بنا پر مباہلہ کی دعوت یا چیلنج ایک رسول بھی اپنے طور پر نہیں دیتا ۔ ایسا وہ صرف خدا کے حکم ہی سے کرتا ہے۔ یہ جاننا کہ مخاطبین پر حق آخری درجے میں واضح ہوگیا ہے یا نہیں اور اب وہ وقت آ گیا ہے کہ خدا کی غیر معمولی مداخلت سے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے حق و باطل واضح کر کے دکھا دیاجائے، اس گھڑی کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں ہو سکتا اور اس کے بتائے بنا معلو م بھی نہیں ہو سکتا۔ لیکن مذہبی مناظرین نے ان حقائق کو نظر انداز کر کے مباہلہ کا چیلنج دینے کا اختیار اپنے لیے بھی فرض کر لیا، انھوں نے ایک دوسرے پر لعنتیں کیں کہ جو باطل پر ہے، وہ تباہ ہو جائے، اس کی موت پہلے واقع ہو جائے یا وہ غیر طبعی موت پائے وغیرہ، مگر نتیجہ ظاہر ہے کہ ان کے حسب منشا نہیں نکلا۔ خدا نے  ان کے مطالبے پر اپنی مداخلت کا ثبوت نہیں دیا، خدا پر ان مناظرین کے زعم اور گمان کو پورا کرنے کی کوئی پابندی نہیں تھی۔ حق و باطل کے لیے میزان اور فرقان اب قرآن مجید ہے، جو اب دلائل کا میدان ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے نئے سرے سے فوق الفطرت مداخلت کا کوئی وعدہ غیر نبی کے لیے نہیں کیا گیا۔

مرزا صاحب چونکہ نبوت کے مدعی تھے، اس زعم میں وہ مباہلہ کا چیلنج دے سکتے تھے کہ ان کا دعویٰ تھا کہ خدا انھیں اپنی مرضی سے آگاہ کرتا ہے، مگر ان کے مخالفین چونکہ اس قسم کا کوئی دعویٰ نہیں رکھتے تھے، اس لیے وہ نہ تو چیلنج دے سکتے تھے اور نہ ان کے چیلنج کو قبول کرنا ان کے لیے مفید ہو سکتا تھا۔ خدا ان کی مرضی کا پابند نہ تھا کہ ان کے کہنے پر کسی پر لعنت بھیجتا، اور یہ خدا کی مرضی جان نہیں سکتے تھے کہ وہ ایسا کرنا چاہتا ہے یا نہیں۔

مرزا صاحب کے ساتھ مباہلہ ان کے مخالفین کے لیے ایک صورت میں حجت بن سکتا تھا کہ مرزا صاحب بغیر اگر مگر کے کوئی ایسا دعویٰ کرتے کہ جسے فوری طور پر وقوع پذیر ہونا چاہیے تھا اور اگر ایسا  نہ ہوتا تو مرزا صاحب جھوٹے قرار پاتے۔ مگر مرزا صاحب مباہلہ کے موقع پر ایسا دعویٰ رکھتے تھے جو ایک تو فوری نوعیت کا نہ ہوتا تھا اور دوسرا اس میں تاویل کی گنجایش رہتی تھی۔ مثلاً یہ کہ جو جھوٹا ہو، وہ اپنے مخالف کی زندگی میں فوت ہو جائے یا قرآن کی تفسیر فصیح عربی میں لکھی جائے جس کی تفسیر زیادہ مفصل اور زیادہ فصیح ہوگی، وہ سچا ہوگا۔ اس قسم کے چیلنج  ثبوت حق کی شہادت نہیں بن سکتے۔ ان میں اتفاق کا امکان کہ کوئی واقعی مرزا صاحب سے پہلے فوت ہوجائے یا انسانی مداخلت، یعنی عربی زبان کی مہارت کاہونا یا فصاحت بیان میں انسان کے موضوعی فیصلے کو بنیاد بنانا، مباہلہ کو فیصلہ کن نہیں بناتا۔ غالب اور مومن میں زیادہ فصیح کون ہے، اس بارے میں ایک سے زائد آرا ہو سکتی ہیں۔ ایسی  باتیں مباہلہ کی کسوٹی نہیں بن سکتیں۔

جہاں تک مرزا صاحب کی عربی کی فصاحت کا معاملہ ہےتو ماہرین زبان اس کی فصاحت کے بھی قائل نہیں، بلکہ ان کی مزعومہ عربی وحی میں گرامر کی اغلاط بھی پائی جاتی ہیں۔ بلکہ ان کی تو اردو نثر بھی کئی جگہوں پر شدیدغیر فصیح ثابت ہوتی ہے۔ اس کا یک گونا اعتراف مرزا صاحب کو بھی ہے کہ بسیار نویسی کی وجہ سے کچھ اغلاط ہونا ان کے نبی ہونے کے منافی نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ وحی کس طرح غیرفصیح اور گرامر کی اغلاط کے ساتھ وارد ہو سکتی ہے،[7] مثلاً مرزا صاحب کو ملنے والی ایک وحی کے الفاظ یہ ہیں:

’ یا مریم اسکن انت و زوجک الجنة...‘ [8]

اس میں مخاطب مریم ہے اور ضمیر مذکر کی استعمال کی گئی ہے!

احمدیوں کی استقامت

احمدیوں کی طرف سے ان کی صداقت کی دوسری شہادت یہ پیش کی جاتی ہے کہ پاکستان میں خصوصاً اور دنیا بھر میں عمومًا مسلمانوں کی طرف سے احمدیت کی شدید مخالفت، ان کے افراد کے ساتھ امتیازی سلوک اور ظلم و زیادتی کے باوجود ان کی استقامت اور تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ یہ بھی کوئی علمی دلیل نہیں ہے۔ استقامت اور مظلومیت بذات خود کوئی معیار حق نہیں ہوتے۔ استقامت کسی بھی نظریے یا عقیدے پر تیقن سے پیدا ہو جاتی ہے۔ استقامت از خود کسی غلط نظریےیا عقیدے کو درست ثابت نہیں کرتی۔

یہ انسانی نفسیات کا مسئلہ ہے کہ مظلوم گروہ میں خود پر ہونے والے مظالم کے خلاف رد عمل کی نفسیات کارفرما ہوجاتی ہے، جس سےاس میں ظلم کے مقابلے کے لیےزیادہ مزاحمت اور استقامت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس سے مظلوم افراد کی گروہی عصبیت اور اتحاد میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کی بے شمار مثالیں ہر مذہب و ملت کی تاریخ میں ملتی ہیں، لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسا ہی کوئی گروہ جب امن اور طاقت حاصل کر لیتا ہے تو اسے بھی آپس کے اختلاف اور افتراق کے وہی مسائل پیش آتے ہیں جو ہر گروہ کو طاقت اور امن کے حصول کے بعد پیش آتے ہیں۔ وہ بھی اپنے سے کم زور افراد اور گروہوں کے ساتھ اس سے مختلف رویہ نہیں دکھا پاتے جس کے شکار وہ خود رہے ہوتے ہیں۔ اس کی نہایت جامع اور دل چسپ مثال یہود ہیں۔

بنی اسرائیل جب تک مصر میں ایک کم زور اقلیت کی حیثیت میں حالت غلامی اور جبر کا شکار رہے، پکے موحّد اور متحد رہے۔ بڑے صبر سے پہاڑوں جیسے مصائب کو جھیلا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی استقامت کی تعریف فرمائی۔ لیکن جیسے ہی یہ مصر سے نکل کر سمندر پار کر گئے، ان کا دشمن غرق ہو گیا، خوف ختم ہوااور امن مل گیا تو مزاحمت کا محرک بھی ختم ہو گیا۔ چھوٹتے ہی انھوں نے اپنے گذشتہ ظالم آقاؤں کی نقالی میں موسیٰ علیہ السلام سے فرمایش کر ڈالی کہ ان کے لیے بھی بت بنائے جائیں، جن کی وہ پوجا کریں۔ اس پر حضرت موسیٰ نے انھیں ڈانٹ پلائی۔ لطف کی بات یہ کہ قرآن مجید میں ان کی اس استقامت اور ان کے اس انحراف کو ایک ہی جگہ بیان کیا گیا ہے:

فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَاَغْرَقْنٰهُمْ فِي الْيَمِّ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَكَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِيْنَ. وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِيْنَ كَانُوْا يُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَاﵧ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰي عَلٰي بَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْلَﵿ بِمَا صَبَرُوْاﵧ وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهٗ وَمَا كَانُوْا يَعْرِشُوْنَ. وَجٰوَزْنَا بِبَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْلَ الْبَحْرَ فَاَتَوْا عَلٰي قَوْمٍ يَّعْكُفُوْنَ عَلٰ٘ي اَصْنَامٍ لَّهُمْﵐ قَالُوْا يٰمُوْسَي اجْعَلْ لَّنَا٘ اِلٰهًا كَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌﵧ قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَ.(الاعراف٧: ١٣٦ـ ١٣٨)
’’سو ہم نے اُن (فرعونیوں) سے انتقام لیا اور اُنھیں سمندر میں غرق کر دیا، اِس لیے کہ اُنھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور اُن سے بے پروا بنے رہے۔ اور اُن کو جو دبا کر رکھے گئے تھے، ہم نے اُس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جس میں ہم نے برکتیں رکھی تھیں۔ بنی اسرائیل پر تیرے پروردگار کا وعدۂ خیر اِس طرح پورا ہوا، کیونکہ وہ ثابت قدم رہے اور ہم نے فرعون اور اُس کی قوم کا سب کچھ برباد کر دیا جو وہ (اپنے شہروں میں) بناتے اور جو کچھ (دیہات کے باغوں اور کھیتوں میں ٹٹیوں پر) چڑھاتے تھے۔  (دوسری طرف) بنی اسرائیل کو ہم نے سمندر کے پار اتار دیا۔ پھر اُن کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جو (اِس قدر احمق تھی کہ) اپنے کچھ بتوں کی پرستش میں لگی ہوئی تھی۔ بنی اسرائیل نے (یہ دیکھا تو) کہا: اے موسیٰ، جس طرح  اِن کے معبود ہیں، اِسی طرح کا ایک معبود ہمارے لیے بھی بنا دو۔ موسیٰ نے کہا: تم بڑے ہی جاہل لوگ ہو۔‘‘

امن و امان پا لینے کے بعد یہود کے آپسی جھگڑے موسیٰ علیہ السلام کے دور ہی میں شروع ہو گئے ۔ ان کے ایک اقلیتی گھرانے کے فرد، طالوت کو ان کا بادشاہ مقرر کیا گیا تو انھوں نے اس کی مخالفت کی۔ انھوں نے اپنے ہی بھائیوں کے خلاف سازشیں کیں، ان کے خلاف دشمنوں کی مدد کی، اسرائیل اور یہودیہ کی دو سلطنتیں بنا کر ایک دوسرے کے ساتھ جنگیں کیں، یعنی جب تک وہ بیرونی دشمن کے ظلم کا شکار رہے، وہ موحّد بھی رہے اور متحد بھی، مگر امن پاتے ہی عقیدہ و عمل ،دونوں کی خرابی میں مبتلا ہوگئے۔ یہی نہیں، بلکہ تاریخ کے جس دور میں بھی یہ کسی بیرونی طاقت کےظلم کا شکار ہوئے، یہ پھر موحّد و متحد ہوتے رہے، یہاں تک کہ دور جدید میں دنیا بھر میں جب یہ ظلم کا شکار ہوئے تو متحد ہو کر انھوں نے اسرائیل جیسی طاقت ور ریاست قائم کر لی۔ دنیا بھر میں صدیوں تک ان کو مٹانے کی کوششیں ہوئیں، مگر وہ آج بھی قائم و دائم ، بلکہ ترقی کر رہے ہیں۔ کیا ان کی استقامت ان کو برحق ثابت کرتی ہے؟

احمدی حضرات مسلسل مزاحمتی دور سے گزر رہے ہیں، اس لیے ان کی استقامت اور یک جہتی مثالی ہے، تاہم اپنے اندر اختلاف رکھنے والوں کے ساتھ ان کا رویہ بھی کچھ کم جارحانہ نہیں۔ احمدیوں کے لاہوری گروپ کے خلاف ان کے جذبات کچھ کم شدیدنہیں۔ چنانچہ استقامت اور مظلومیت سے برحق ہونے پر استدلال بھی ایک غیر علمی استدلال ہے۔

حق و باطل کی پرکھ علم و عقل کے میدان میں ہی ممکن ہے اور یہ اس لیے ممکن ہے کہ ہمارے پاس قرآن مجید کی صورت میں ایک فیصلہ کن اتھارٹی موجود ہے۔ اسی کی روشنی میں ہم اب احمدیت کے دعاوی ٰاور دلائل کو پرکھیں گے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B

حواشی :

[1]۔  احتساب قادیانیت،’’احمدیہ تحریک‘‘،عالمی مجلس تحفظ نبوت، ملتان، ٣٢/ ۲۲۶۔

[2]۔  قادیانیت مطالعہ وجائزہ، مجلس نشریات اسلام، کراچی ، ۱۶۲۔

[3]۔ مثلاً مرزا صاحب کے مناظرانہ دور میں  مرزا صاحب کے دعاوی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ  انھوں نے اپنے طور پر یہ طے کر رکھا تھا کہ ان کے مخالفین کا ان سے پہلے مرجانا، خصوصاً وبائی مرض سے مرجانا مرزا صاحب کے برحق ہونے کا ثبوت ہوگا۔ دین میں اس اذعان کی کوئی بنیاد نہیں کہ نبی یا غیر نبی کے مخالف کا نبی کی زندگی میں مرجانا ضروری ہوتا ہے۔ مسیلمہ کذاب نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں دعویٰ نبوت کیا تھا اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد اپنے انجام کو پہنچا ۔ تاہم، مرزا صاحب کا اپنے دعوی ٰنبوت کی صداقت کا یہ معیار بھی پورا ہو کر نہ دیا۔ان کے جتنے مخالفین  ان کی زندگی میں فوت ہوئے، ان کی وفات تو مرزا صاحب کے دعاوی کی صداقت کا ثبوت قرار دیا گیا، لیکن ان کے سب سے بڑے مخالف مولانا ثناء اللہ امرتسری  جنھیں مرزا صاحب نےچیلنج دیا تھا کہ وہ مرزا صاحب سے پہلے فوت ہو جائیں گے، مرزا صاحب کی وفات کے بعد بھی ایک عرصہ جیتے رہے۔ تاہم،  مرزا صاحب کے متبعین نے ان کے اس چیلنج کی تاویل یہ کر لی کہ یہ دراصل مباہلہ کی دعوت تھی، جسے مولانا نے قبول نہیں کیا تھا، اس لیے یہ پیشین گوئی مرزا صاحب کے بیان کے مطابق واقع نہ ہوئی۔لیکن مرزا صاحب کا یہ چیلنج ان کے اپنے لفظوں میں صاف طور پر بتاتا ہے کہ یہ دعویٰ اور پیشین گوئی تھی، مباہلہ کی دعوت نہیں تھی۔ مرزا صاحب کے الفاظ ملاحظہ ہوں:

’’اگر میں ایسا ہی کذاب و مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاؤں گا، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت و حسرت کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام ہلاک ہو جاتا اور اس کا ہلاک ہونا ہی بہتر ہوتا ہے تا خدا کے بندوں کو تباہ نہ کرے۔
’’اور اگر میں کذاب و مفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ سنت اللہ کے موافق آپ مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے۔ پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ خدا کے ہاتھوں سے یعنی طاعون وغیرہ مہلک بیماریوں سے ہے یعنی طاعون، ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں واردنہ ہوئیں تو میں خدا کی طرف سے نہیں۔‘‘ مرزا صاحب 25 مئی 1908ء میں ہیضہ کا شکار ہو کر فوت ہوئے اور مولانا امرتسری نے 15 مارچ 1948 ءمیں وفات پائی۔ (تبلیغ رسالت 10 / 120، بہ حوالہ قادیانیت مطالعہ و جائزہ، ابو الحسن ندوی، 23-24)

اسی طرح پادری عبد اللہ آتھم کی زندگی ہی میں اس کی تاریخ وفات تک مرزا صاحب نے مقرر کر دی تھی، مگر وہ، باوجود مرزا صاحب اور ان کے مریدوں کی دعاؤں اور وظیفوں کے، مقررہ تاریخ کو فوت نہ ہوا۔ اس ناکامی پر مخالفین نے جشن منائے اور مرزا صاحب کی بہت جگ ہنسائی بھی ہوئی۔ تاہم مقررہ تاریخ گزر جانے کے بعد مرزا صاحب نے متعدد تاویلیں کیں کہ انھیں الہام ہوا کہ اس نے توبہ کر لی تھی، وہ ڈر گیا تھا وغیرہ، اس لیے اس کی موت ٹل گئی۔ اگر ایسا ہی تھا تو مرزا صاحب کو اس کی خبر مقررہ تاریخ کے گزر جانے اور ان کی بات کے جھوٹا پڑ جانے کے بعد ہی کیوں ملی؟ یہ سب تاویلیں مقررہ تاریخ گزرنے کے بعد کی گئیں، اس لیے انھیں تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ پھر بعد میں جب پادری صاحب کا انتقال مرزا صاحب کی زندگی ہی میں ہو گیا تویہ پھر مرزا صاحب کی پیشین گوئی کا پورا ہونا قرار پایا۔

یہی معاملہ محمدی بیگم کے ساتھ نکاح کی پیشین گوئی کا ہوا۔ مرزا صاحب نے اگرچہ قطعی الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ:

’’اس عورت کا اس عاجز کے نکاح میں آجانا یہ تقدیر مبرم ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی۔ کیونکہ اس کے لیے الہام میں یہ کلمہ موجود ہے کہ ’لا تبدیل لکمات اللہ‘ (اللہ کی بات بدل نہیں سکتی) یعنی میری یہ بات ہرگز نہیں ٹلے گی۔ پس اگر ٹل جائے تو خدا کا کلام باطل ہوتا ہے۔‘‘ (اعلان  6؍ ستمبر 1896ء،  مندرجہ تبلیغ رسالت ٣/115، بہ حوالہ حرف محرمانہ، ڈاکٹر  غلام جیلانی برق، الفیصل ناشران و تاجران کتب لاہور،  174)

مگرخاتون کا نکاح مرزا سلطان محمد سے کر دیا گیا۔ اس کے باوجود مرزا صاحب نے دعویٰ کیا کہ لڑکی ان کے نکاح میں لکھ دی گئی ہے۔ یہ بھی کہا کہ لڑکی کا نکاح اس کے لیے تنگی و تفرقہ لائے گا، ہونے والا شوہر اڑھائی سال اور لڑکی کا والد احمد بیگ تین سال کے عرصہ میں فوت ہو جائے گا۔ مرزا صاحب نے اس نکاح کے لیے ہر طرح کے جتن کیے۔ رشتہ داروں کو واسطے دیے کہ یہ نکاح نہ ہوا تو ان کے مخالفین کو ان کی تکذیب کابہانہ مل جائے گا، لڑکی کے گھر والوں پر دیگر رشتہ داروں سے دباؤ ڈلوایا، یہاں تک کہ مرزا احمد بیگ کی بہن کی بیٹی جو مرزا صاحب کے بیٹے، مرزا فضل احمد کی بیوی تھی، کو بیٹے سے طلاق دلوانے کی دھمکی بھی دی، بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ فضل احمد نے ان کی بات نہ مانی تو اسے عاق کر دیں گے۔ پھر اپنی دھمکی پر عمل کرتے ہوئے یہ طلاق دلوا بھی دی۔ یہی نہیں، اپنے دوسرے بیٹے مرزا سلطان احمد کو اس نکاح کی مخالفت کرنے پر عاق کر دیا اور ان کی والدہ اور اپنی پہلی بیوی کو بھی اس نکاح کی مخالفت کرنے پر طلاق دے دی۔ ایک خط میں مرزا صاحب لکھتے ہیں:

’’عید کی دوسری یا تیسری تاریخ کو اس لڑکی (محمدی بیگم) کا نکاح (کسی اور سے) ہونے والا ہے اور اگر آپ کے گھر کے لوگ (بیوی) اس مشورے میں ساتھ ہیں ۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس نکاح کے شریک میرے سخت دشمن ہیں۔ عیسائیوں کو ہنسانا، ہندوؤں کو خوش کرنا چاہتے  ہیں ... اگر  آپ اپنے اراد ے سے باز نہ آئیں اور اپنے بھائی (احمد بیگ) کو اس نکاح سے روک نہ دیں تو پھر ایک طرف محمدی بیگم  کا کسی شخص سے نکاح ہوگا تو دوسری طرف فضل احمد آپ کی لڑکی کو طلاق دے گا۔ اگر نہیں دے گا تو میں اس کو عاق اور لاوارث کر دوں گا۔‘‘ (مکتوب مرزا قادیانی، بہ تاریخ 25 ؍مئی 1891ء، نوشتہ غیب 124-125، بہ حوالہ حرف محرمانہ، ڈاکٹر غلام جیلانی برق، احتساب، عالمی مجلس ختم نبوت، ملتان،٣٢ /124)

مرزا صاحب کو اپنی زندگی کی آخری عمر تک اس نکاح کے ہونے کا یقین رہا اور وہ اس بارے میں پیشین گوئی کا سلسلہ  بھی جاری رکھے ہوئے تھے، یہاں تک کہ دم واپسیں نے انھیں اور اس پیشین گوئی کے پورا ہونے کے منتظر ان کے متبعین کو مایوس کیا۔

پیشین گوئی کے مطابق مرزا احمد بیگ بیٹی کے نکاح کے بعد جلد فوت ہوگئے، جو مرزا صاحب کی صداقت کا نشان ٹھیرا، مگر لڑکی کا شوہر مرزا سلطان بیگ، جسے اڑھائی سال میں مر جانا چاہیے تھا، پہلی جنگ عظیم میں زخمی ہو جانے کے باوجود تقریباً چالیس سال تک زندہ رہا۔ وہ خاتون بھی بہ عافیت اپنے گھر میں بستی رہیں (تفصیل کے لیے دیکھیے حرم محرمانہ، ڈاکٹر غلام جیلانی برق، 169-177، الفیصل ناشران و تاجران کتب، لاہور)

اس پیشین گوئی کے پورا نہ ہونے کی یہ تاویل کی گئی کہ خاتون کا شوہر مرزا سلطان محمد مرزا غلام احمد صاحب کا معتقد ہو گیا تھا، اس لیے موت کی آفت اس سے ٹل گئی اور چونکہ خاتون اس وجہ سے بیوہ نہ ہوئیں، اس لیے مرزا صاحب کے نکاح میں بھی نہیں آ سکتی تھیں، مگر مرزا صاحب کو یہ بات  اپنے آخر وقت تک قطعی طور پر معلوم نہ ہو سکی کہ خاتون ان کے نکاح میں اب نہیں آئیں گی اور نہ انھوں نے اپنے متبعین کوآگاہ کیا۔ اصل سوال یہ ہے کہ جو پیشین گوئی حجت نہ بن سکے، وہ کی ہی کیوں گئی؟

[3]۔ تفصیل کے لیے دیکھے، قادیانیت مطالعہ و جائزہ، ابو الحسن ندوی، مجلس نشریات اسلام، کراچی، 135 و ملحقہ صفحات۔

[4]۔ مرزا غلام احمد قادیانی، کشتی نوح، نظارت نشرو اشاعت قادیان، اشاعت 1998ء، انڈیا، 5 ۔

[5] ۔مرزا قادیانی ،تبلیغ رسالت ١/ 118۔مجموعہ اشتہارات 1 / 159۔

[6]۔ ’وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًاﵐ يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِﵐ وَقَالَ اَوْلِيٰٓؤُهُمْ مِّنَ الْاِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَّبَلَغْنَا٘ اَجَلَنَا الَّذِيْ٘ اَجَّلْتَ لَنَاﵧ قَالَ النَّارُ مَثْوٰىكُمْ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا٘ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُﵧ اِنَّ رَبَّكَ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ . وَكَذٰلِكَ نُوَلِّيْ بَعْضَ الظّٰلِمِيْنَ بَعْضًاۣ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ‘،’’اُس دن کو یاد رکھو، جب وہ اِن سب (مجرموں) کو اکٹھا کرے گا، (پھر فرمائے گا):ا ے جنوں کے گروہ، تم نے تو انسانوں میں سے بہتوں کو اپنا لیا اور انسانوں میں سے اُن کے ساتھی (فوراً) کہیں گے: پروردگار، ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے سے خوب حظ اٹھایا اور (آج) اپنی اُس مدت کو پہنچ گئے ہیں جو تو نے ہمارے لیے مقرر کر دی تھی۔ اللہ فرمائے گا: اب آگ تمھارا ٹھکاناہے، تم اُس میں ہمیشہ رہو گے، مگر جو اللہ چاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمھارا پروردگار حکیم و علیم ہے۔ ہم ظالموں کو اُن کے کرتوتوں کے باعث اِسی طرح ایک دوسرے پر مسلط کر دیتے ہیں۔‘‘(الانعام 6: 128-129)

[7]۔ مرزا صاحب کی تحریروں میں اردو کی اغلاط اور فصاحت کی کمی کے بارے میں تفصیل سے جاننے کے لیے دیکھیے: حرف محرمانہ، ڈاکٹر غلام جیلانی برق ،باب 11۔

[8]۔ مرزا قادیانی ،کشتی نوح، 61۔