HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Dr. Farooq Khan

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

امت مسلمہ ۔۔۔۔۔۔ کامیابی کا راستہ

پہلا باب: پہلے حصے کے مضامین کا خلاصہ۔

موجودہ زمانے میں کامیاب ممالک کے تجزیے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آگے بڑھنے اور باوقار زندگی گزارنے کے لیے درج ذیل چار عوامل لازم ہیں۔ 


Oتعلیم سب کے لیے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بچے کی پہلی بارہ سال کی تعلیم مفت لازمی اور یکساں ہو، ملک کے اندر سائنسی تعلیم کا جال بچھا ہوا ہو، عزت کی سب سے بڑی شرط تعلیم ہو اور تعلیم ہی مملکت کی اولین ترجیح ہو۔ 


موجودہ مغربی دنیا کی ترقی بنیادی طور پر 1440میں اُس وقت شروع ہوئی جب گٹن برگ نے جرمنی میں چھاپہ خانہ ایجاد کیا۔ اس ایجاد سے بڑے پیمانے پر کتابوں کی اشاعت ممکن ہوئی۔ چنانچہ عام لوگ بہت تیزی کے ساتھ نئے علوم وفنون سے واقف ہوئے۔ علم کے اس پھیلاؤ سے مذہب، معاشرت اور سائنس سمیت سب میدانوں میں بڑی تبدیلیوں نے جنم لیا۔ نئی ایجادات شروع ہوئیں جس کا نتیجہ صنعتی انقلاب کی شکل میں سامنے آیا۔ اس صنعتی انقلاب سے معاشرے میں دولت آئی، لوگوں کا معیارِ زندگی بلند ہوا، نئے نئے طبقات وجود میں آگئے، ان طبقات میں اپنے حقوق کا احساس پیدا ہوا اور اسی احساس نے جمہوریت کو جنم دیا۔ گویا حالیہ دور کی ابتدا دراصل تعلیم سے ہوئی۔ تعلیم ہی وہ کنجی ہے جسے ترقی کا تالہ کھلتا ہے۔ 


O جمہوری کلچر، جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت عوام کی مرضی سے منتخب ہو، عوام کی مرضی سے ختم ہو، حکومت ہر معاملے میں عوام کے سامنے جواب دہ ہو، ہر چیز کے لیے ادارے قائم ہوں، سارے ادارے پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہوں، سارے حکومتی معاملات شفاف ہوں، ہر اہم معاملے کا فیصلہ مشورے سے ہو، آزاد پریس ہو اور احتساب کا آزاد اور کڑانظام نافذ ہو۔ 


O انصاف، جس کا مطلب یہ ہے کہ عدالتیں آزاد ہوں، انصاف سستا اور جلد ملتا ہو، لوگوں کے اندر ہر اجتماعی معاملے میں احساس ذمہ داری پیدا ہو، وہ ہر خطرے سے بے نیاز ہوکر گواہی دیں، پولیس دیانت دار ہو اور انصاف کسی حالت میں خریدا نہ جاسکے۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ معاشرے کا ہرفرد ہر وقت یہ سوچے کہ کیا وہ ہر عمل انصاف کے مطابق کررہا ہے۔ یعنی سوسائٹی کی ترقی کے لیے یہ ضروری ہے کہ اجتماعی زندگی میں انصاف بطور زندہ قدر(Value)جاری ہو۔ 


O صبروحکمت، یعنی سوسائٹی میں دانش مندی اور مکالمے کا دور دورہ ہو۔ ہر معاملے پر ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ غوروفکر کیا جائے۔ فوری ردعمل (Instant Reaction) نہ کیا جائے۔ جذباتیت سے کام نہ لیا جائے۔ ہر فیصلے کے دور رس نتائج پر نگاہ رکھی جائے۔ ٹکراؤ اور مڈبھیڑ(Confrontation) کے بجائے تدبر کے ساتھ اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے حالات کے بدلنے کا انتظار کیا جائے۔ صبروحکمت کا یہ بھی مطلب ہے کہ حکمران، سیاسی لیڈر، میڈیا اور مذہبی رہنما عوام کے اندر ہیجان اور سنسنی خیزی(Sensationalism)پیدا نہ کریں، بلکہ عوام کو سوچنے سمجھنے اور مکالمے کی ترغیب دیں۔ 


قومیں سپر پاورز کیسے بنتی ہیں۔ 

اگر کوئی قوم درج بالا چار عوامل پر عمل پیرا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ مزید تین چیزیں بھی اُس کو حاصل ہوں، تو وہ قوم سپر پاور بن جاتی ہے۔ وہ تین چیزیں درج ذیل ہیں۔ 


O سائنس اور ٹیکنالوجی پر دوسروں سے بڑھ کر دسترس، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو قوم بھی اپنے آپ کو برتری کے مقام پر فائز دیکھنا چاہتی ہو، اُس کے لیے لازم ہے کہ وہ سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہو۔ 


Oصحیح حکمت عملی، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر وقت عالمی حالات اور اپنی طاقت کا بالکل صحیح تجزیہ کیا جائے اور اُس کے مطابق عمل کیا جائے۔ اپنی کامیابیوں کے بجائے اپنی ناکامیوں کو یاد رکھا جائے اور اُس سے مستقبل کے لیے سبق حاصل کیا جائے۔ 


O بڑا رقبہ، معقول آبادی اور قدرتی وسائل پر دسترس: 


قومیں سپر پاور کے درجے سے کیسے گرتی ہیں۔ 

اگر کسی سپر پاور کے اندر درج بالا سات عوامل میں سے کسی بھی عامل میں کمزوری آجائے تو وہ اپنے مقام سے نیچے گرنا شروع ہوجاتی ہے ۔ یہ زوال غلطی کے حساب سے ہوتا ہے۔ اگر غلطی کرنے کے بعد کوئی قوم اپنی اصلاح کرے تو قدرت پھر اُسے آگے بڑھنے کا موقع دیتی ہے۔ 


چھوٹی اقوام کے لیے باوقار زندہ رہنے کا راستہ 

قدرت نے ایسا انتظام کیا ہے کہ اگر ایک چھوٹی قوم باوقار طریقے سے رہنے کا فیصلہ کرے تو کوئی سپر پاور کوشش کے باوجود اُس کو زیر نہیں کرسکتی۔ وہ یہ کہ اگر کوئی چھوٹی قوم تعلیم، جمہوری کلچر، انصاف اور حکمت و صبر پر پوری طرح عمل پیرا ہوتو قدرت اُسے بڑی اقوام کے ظلم سے بچائے رکھتی ہے۔ 


سپر پاور کی نفسیات: 

دنیا کی پوری تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر سپر پاور یہ چاہتی ہے کہ وہ مستقلاً ایک سپر پاور کے طور پر قائم رہے اور اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے وہ سب کچھ کرنے پر آمادہ رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہرسپر پاور دوسرے ممالک کے معاملے میں دُہرے معیار(Double standard) سے کام لیتی ہے۔ اپنے ملک کے لیے اُسے تعلیم، جمہوریت، انصاف اور صبر وحکمت ضروری معلوم ہوتا ہے، لیکن دوسرے ممالک کے معاملے میں اُس کا نقطہ نظر یہ ہوتا ہے کہ اُن سے صرف اپنے مفاد کے مطابق معاملہ کیا جائے۔ 


اُمت مسلمہ کی موجودہ حالت 

O اُمتِ مسلمہ کا پہلا دور حضورﷺ اور خلفائے راشدین پر مشتمل تھا۔ اس دور میں امتِ مسلمہ کے اندر تعلیم، انصاف، جمہوری کلچر اور حکمت وصبر اپنے بہترین معیار پر تھا۔ اس کے بعد دوسرا دور آیا جو تقریباً آٹھ صدیوں پر مشتمل تھا۔اس دور میں مسلمان حکمرانوں کو بلحاظ مجموعی سیاسی بالادستی حاصل رہی۔ اس دور میں جمہوری کلچر ختم ہوکر رہ گیا، تاہم انصاف اور تعلیم کے حوالے سے یہ امت دوسروں سے بہرحال بہتر تھی۔ 


O اس راقم کے نزدیک تیسرا دور دراصل سیاسی زوال کے آغاز اور آہستہ آہستہ نیچے گرنے کا دور تھا۔ یہ دور 1440ء میں اُس وقت شروع ہوا جب گٹن برگ نے چھاپہ خانہ ایجاد کیا۔ یہاں سے مغرب نے اپنے عروج کا سفر شروع کیا اور عالمِ اسلام زوال کی طرف جانا شروع ہوا۔ یہ دور 1774ء تک جاری رہا۔ یہ وہ سال ہے جب ترکی کی عثمانی سلطنت کو ’’معاہد ہ کوچک کینری‘‘ پر مجبور ہونا پڑا جس کے تحت روس کو ترکی کی مقبوضات میں مداخلت کا حق مل گیا۔ 


O اس راقم کے نزدیک چوتھا اور موجودہ دور مسلمانوں کے سیاسی زوال کا دور ہے۔ یہ دور 1774ء سے لے کر آج تک جاری ہے۔ اور یہ اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک کم ازکم نو مسلمان ممالک یعنی انڈونیشیا، ملائشیا، بنگلہ دیش، پاکستان، ایران، سعودی عرب، ترکی، مصر اور نائیجریا سائنسی اور دفاعی طاقت کے اعتبار سے مغرب کے ہم پلہ نہیں بن جاتے۔ 


موجودہ امریکی حکمت عملی 

پچھلے ایک سو برس سے امریکہ سپر پاور ہے۔ یہ حیثیت اُس نے درج بالا سات عوامل پر عمل کرکے حاصل کیا ہے۔ وہ اسرائیل کو عملاً اپنی اکیاون ویں ریاست سمجھتا ہے، اس لیے اسرائیل کی ہر جائز وناجائز بات کو سپورٹ کرتا ہے اور ہر بجٹ میں اسرائیل کے لیے اپنے ہی ملک کی ایک ریاست جتنی رقم مختص کرتا ہے۔ باقی ساری دنیا سے اُس کا تعلق اپنے مفاد پر مبنی ہے۔ کینیڈا اور مغربی یورپ اُ س سے معاشرتی اور سیاسی طور پر بہت قریب ہیں اس لیے امریکہ اُن کو ایک خاص مقام دیتا ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی میں برازیل، مصر اور پاکستان کو بھی ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ سعودی عرب اور خلیج کے دوسرے ممالک بھی اُس کی خارجہ پالیسی میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ پچھلے چند برسوں سے امریکہ نے بھارت کو بھی اپنی خصوصی مہربانی کا مستحق گردانا ہے۔ اس کی ایک وجہ دراصل بھارت کی ایک ارب سے زیادہ لوگوں پر مشتمل صارفین کی آبادی ہے، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ بھارت بڑی تیزی سے امریکی اقدار کو اپنا رہا ہے۔ 


امریکہ کی خارجی ترجیحات میں مذہب کو کوئی بڑا مقام حاصل نہیں۔ امریکہ نے افریقہ اور لاطینی امریکہ کے غریب عیسائی ملکوں کو کبھی کوئی اہمیت نہیں دی اور نہ ہی کبھی اُن کی کوئی مدد کی ہے۔ فلسطین کے اندر موجود سارے عیسائی اسرائیل کے مخالف ہیں لیکن امریکہ نے کبھی ان عیسائیوں کو اہمیت نہیں دی۔ دوسری طرف امریکہ نے یورپ کے اندر بوسنیا اور کوسوو نامی مسلمان ریاستوں کی آزادی میں عملاً کردار ادا کیاکیونکہ یہاں اُس کے مفادات تھے۔ 


امریکہ نے مذہب کے نام کو وقتاً فوقتاً اپنے مفادات کے لیے ضرور استعمال کیا ہے لیکن اس کی اصل دلچسپی اپنے ملک کی مفادات سے رہی ہے۔ 


نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان کی طالبان حکومت کو الٹی میٹم دیا کہ وہ بن لادن اور اُس کے ساتھیوں کو مقدمہ چلانے کے لیے امریکہ کے حوالے کردے۔ طالبان کے انکار کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرکے طالبان حکومت کو ختم کیا۔ یہ حملہ خود امریکہ کے لیے بھی مفید نہیں تھا۔ اگر اس کے بجائے وہ غیر حربی طریقوں مثلاً اقتصادی ناکہ بندی کے ذریعے طالبان حکومت پر دباؤ ڈالتا تو یہ زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوسکتا تھا۔ نہ بن لادن کو پکڑا جاسکا اور نہ افغانستان کے پشتون علاقوں میں تعمیر نو کا کوئی کام ہوسکا۔ افغانستان کے پشتون علاقے افراتفری اور خانہ جنگی کا شکار ہیں۔ اس حملے نے عالمِ اسلام کے اندر انتہا پسندی کو مزید فروغ دیا۔ 


2002ء کے آواخر میں امریکہ نے دعویٰ کیا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیار موجود ہیں۔ یہ الزام سراسر جھوٹ تھا۔ پھر بھی امریکہ نے اپریل 2003میں عراق پر حملہ کرکے صدام حکومت کا خاتمہ کیا۔ ویت نام جنگ کے بعد یہ امریکہ کی سب سے بڑی غلطی بلکہ جرم تھا جس کی سزا امریکہ سمیت سب نے بھگتی۔ اگر امریکہ کا مقصد صدام حکومت کو ہٹانا تھا تو یہ مقصد پرامن طریقے سے چند مہینوں کے اندر اندر حاصل ہوسکتاتھا۔ 


امریکہ صرف اپنے مفاد کا دوست ہے۔ اپنے مفادات کے لیے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔ اس ضمن میں ہر طرح کی منافقت، دوغلاپن اور دُہرا معیار اُس کے نزدیک جائز ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ ایک سپر پاور ہے۔ اگر ہم چاہیں تو اس امریکی طاقت کو مثبت حکمتِ عملی کے ذریعے اپنے حق میں استعمال کرسکتے ہیں۔ ورنہ کم ازکم اتنا تو کرسکتے ہیں کہ یہ طاقت ہمارے خلاف استعمال نہ ہونے پائے۔ گویا امریکہ کی دوستی بھی خطرناک ہے اور اُس کی دشمنی بھی خطرناک ہے۔ اُس کی دشمنی پاکستان اور اُمتِ مسلمہ کے مفاد میں نہیں ہے کیونکہ وہ ہمارے لیے نا قابلِ بیان مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔ چنانچہ مناسب پالیسی یہ ہے کہ امریکہ سے صرف کام کا تعلق (Working Relation) رکھا جائے۔ اُس سے نہ دوستی رکھی جائے اور نہ دشمنی۔ 


مسئلہ افغانستان 

دسمبر1979ء میں جب روسی افواج افغانستان میں داخل ہوگئیں تو اُس وقت پاکستان کے پاس دو راستے تھے۔ ایک پُرامن راستہ، جو یہ تھا کہ اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے جایا جاتا، اس کو ایک عالمی مسئلہ بنایا جاتا، اقوام متحدہ کے تحت گفت وشنید کا آغاز کیا جاتا اور اس گفت وشنید کے ذریعے روس کو کچھ یقین دہانیاں کرواکر افغانستان سے واپس جانے پر آمادہ یا مجبور کیا جاتا۔ اس صورت میں پاکستان اپنی طرف سے کوئی قدم نہ اٹھاتا بلکہ وہ اقوام متحدہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا۔ پاکستان کے لیے یہی صحیح راستہ تھا۔ 


دوسرا راستہ عملی مزاحمت کا راستہ تھا۔ اس راستے کے اختیار کرنے کا لازمی تقاضا یہ تھا کہ سب سے پہلے ایک متفقہ افغان جلاوطن حکومت بنائی جاتی، اُس حکومت کو دنیا کے اہم ممالک اور اقوام متحدہ سے تسلیم کروایا جاتا۔ پھر اس جلاوطن حکومت کا امریکہ اور پاکستان سمیت دوسرے ممالک سے فوجی مدد کا معاہدہ ہوتا، اس معاہدے کو اقوام متحدہ کی تائید حاصل ہوتی اور پھر اس جلاوطن حکومت کی زیر نگرانی قائم شدہ فوج کے ذریعے افغانستان کی آزادی کی جدوجہد شروع کی جاتی۔یوں کامیابی کے فوراً بعد ایک مستحکم حکومت وجود میں آجاتی۔ 


لیکن پاکستان کی اُس وقت کی فوجی حکومت نے اس سے ہٹ کر ایک تیسرا راستہ اختیار کیا جو انتہائی غلط اور خطرناک تھا اور جس کی کامیابی کی کوئی مثال پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ پاکستان نے سب سے پہلے یہ کیا کہ افغانستان کی مزاحمتی قوتوں کی چھ پارٹیاں بنادیں۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے افغانستان کے اندر صرف ایک ہی مزاحمتی پارٹی تھی جس کا نام جمعیتِ اسلامی تھا، جس کے سربراہ برہان الدین ربانی تھے اور سیکرٹری جنرل گل بدین حکمت یار تھے۔ پاکستان نے افغانستان کی تحریکِ مزاحمت کو اس مقصدکی خاطرچھ حصوں میں تقسیم کیا کہ یہ سب تنظیمیں پاکستان کے قابو میں رہیں اور مستقبل میں افغانستان پر پاکستان کی مضبوط گرفت رہے۔ اس بات کو واضح کرنے کے لیے اُس وقت کے جرنیل حربی گہرائی (Strategic Depth) کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔ پاکستان کے کچھ مذہبی اور سیاسی گروہوں نے بھی اس پالیسی کا خوب ساتھ دیا۔ چونکہ امریکہ کو یہ موقع مل رہا تھا کہ وہ اپنے کسی ایک سپاہی کو بھی مروائے بغیر روس کو شکست دے سکے، اس لیے اُس نے بھی حکومتِ پاکستان کا ہر طرح سے ساتھ دیا اور کوشش کی کہ روس کے خلاف مذہبی جذبات کو زیادہ سے زیادہ بھڑکایا جائے۔ چنانچہ ڈالر اور اسلحہ بہت بڑی مقدار میں پاکستان آنا شروع ہوا۔ امریکی امداد براہ راست پاکستانی ایجنسیوں کو ملتی تھی اور ایجنسیاں اُسے افغان تنظیموں میں تقسیم کرتی تھیں۔ 


اسلامی تعلیمات یہ بتاتی ہیں اور دنیا کی جنگی تاریخ کا متفقہ تجربہ یہ ہے کہ صرف وہی تحریکِ مزاحمت کامیاب ہوتی ہے جو ایک متحد قیادت کے تحت ایک متحد فوج کی طرح لڑے۔ لیکن اُس وقت کے پاکستانی جرنیل اس سبق کو یاد نہ رکھ سکے اورسیاسی مذہبی تنظیمیں بھی اسلام کا یہ اصول فراموش کر بیٹھیں۔ ظاہر ہے کہ جب آٹھ تنظیموں کو اسلحہ اور ڈالر ملیں اور ان سب کے علیحدہ علیحدہ ٹریننگ کیمپس ہوں تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ ہم دراصل افغانستان کو چھ حصوں میں تقسیم کرنے کی ابتداء کررہے ہیں اور وہاں مستقبل میں خانہ جنگی کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ حکومت پاکستان نے افغان مسلح تنظیموں کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اپنے ٹریننگ کیمپس کھولنے سمیت ہر طرح کی آزادی دے دی اور اس کے ساتھ ساتھ افغان مہاجرین کو بھی پاکستان کے ہر علاقے میں جانے کی اجازت دے دی۔ یہ دونوں اقدامات پاکستان کے وجود اور مفادات سے کھیلنے کے مترادف تھے۔ 


گویا افغانستان کے موجودہ حالات کی اصل ذمہ داری روس کے بعد حکومتِ پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔ امریکہ نے اس صورت حال کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا چنانچہ تیسرے نمبر پر وہ ذمہ دار ہے۔ 


فروری 1989میں روسی افواج افغانستان سے نکل گئیں، لیکن اگلے تین برس تک مجاہد تنظیمیں آپس کی خانہ جنگی کی وجہ سے اس قابل نہ ہوسکیں کہ وہ کابل پر قبضہ کرلیں۔ احمد شاہ مسعود صرف اُس وقت کابل پر قبضہ کرسکا جب روس نے افغانستان کو گیس سپلائی روک دی اور ڈاکٹر نجیب کے اپنے مقررکردہ کابل کے دفاع پر مامور جرنیل رشید دوستم نے اُس کے خلاف بغاوت کی۔ جب کابل میں مجاہدین کی حکومت قائم ہوئی تو اگلے چار برس پورا افغانستان لاقانونیت، ظلم ، بے انصافی اور طوائف الملوکی کی تصویر بنارہا۔ اس دور میں افغانستان کے اندر جتنی خونریزی ہوئی، اس سے پہلے نہیں ہوئی تھی۔ 


اس انارکی کے دوران میں نومبر1994ء میں طالبان تحریک نے جنم لے کر قندہار پر قبضہ کرلیا اور اگلے دو برس کے اندر کابل پر بھی اُن کا قبضہ ہوگیا۔ طالبان سب کے سب پشتون تھے اور انہوں نے سب سے پہلے پشتون علاقوں پر قبضہ کیا۔ اُ س وقت افغانستان کے غیر پشتون علاقوں میں امن وامان تھا، اس لیے اس امر کا کوئی جواز نہ تھا کہ طالبان غیر پشتون علاقوں پر حملہ کرتے۔ تاہم طالبان نے یہ بھیانک غلطی کی اور اگلے پانچ سال تک پشتونوں اور غیر پشتونوں کے درمیان لڑائی جاری رہی۔ 


طالبان کا اپنا ایک فہمِ اسلام تھا۔ اس فہمِ اسلام میں اصل اہمیت ان چیزوں کی تھی جن کو پچھلے چودہ سو برس میں اسلام کی پوری تاریخ میں کسی نے بھی بنیادی احکام قرار نہیں دیا اور جن کو بعض مسلمہ فقہی مسالک سرے سے ہی فرائض یا واجبات میں سے نہیں مانتے۔ طالبان کا سب سے بڑا نشانہ مردوں اور عورتوں کی ظاہری ہےئت تھی۔ عورتوں کے سب سکول بند کردئے گئے۔ طالبان کے ہاں جمہوریت، آزادئ رائے اور اپنے مخالفین کے لیے انصاف، عفوودرگزر اور رواداری کا جذبہ مفقود تھا۔ طالبان کا یہ فہمِ اسلام درحقیقت امریکہ اور مغرب کے بہت زیادہ مفاد میں تھا، اس لیے کہ اس کے نتیجے میں مغرب کو اسلام کے خلاف خوب پروپیگنڈے کا موقع ملتا ہے۔ اگر طالبان بن لادن کی سرپرستی نہ کرتے تو امریکہ کو افغانستان پر حملہ کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ 


اُس وقت القاعدہ کا ہیڈکوارٹر افغانستان میں تھا اور اُس کے ٹریننگ کیمپس مختلف جگہوں میں کام کررہے تھے۔ 23فروری1998ء کو بن لادن، ایمن الظواہری اور ابو یزید المصری کی طرف سے خوست کے مقام سے ایک تفصیلی فتویٰ منظر عام پر آیا جس میں امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ امریکہ اور اُس کے اتحادی ممالک کے باشندوں، خواہ وہ سویلین ہوں یا فوجی، کو قتل کرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔ اس اعلان کے بعد کینیا، تنزانیہ اور یمن سمیت کئی ملکوں میں امریکی سفارتخانوں اور بحری جہازوں پر حملے ہوئے۔ القاعدہ نے ان سب کی ذمہ داری قبول کی۔ امریکہ اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے گیا جہاں طالبان حکومت سے یہ متفقہ مطالبہ کیا گیاکہ ملزموں کو امریکہ کے حوالے کیاجائے۔ گویا القاعدہ تنظیم کے ہیڈکوارٹر کی افغانستان میں موجودگی طالبان کے لیے آگ سے کھیلنے کے مترادف تھی۔ جب نائن الیون کا واقعہ پیش آیا تو امریکہ نے بہت واضح الفاظ میں طالبان کو الٹی میٹم دیا کہ القاعدہ کے آٹھ اہم ارکان کو اُس کے حوالے کیا جائے۔ اقوام متحدہ نے بھی اپنی متفقہ قرارداد کے ذریعے طالبان سے یہ مطالبہ کیا کہ ان افراد کو امریکہ کے حوالے کیا جائے۔ تاہم طالبان نے اس سے انکار کیا۔ 


نائن الیون سے پہلے طالبان نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ تین مسلمان ملکوں پر مشتمل ایک عدالت بنائی جائے جس کے سامنے بن لادن کو پیش کیا جائے۔ تاہم جب نائن الیون کے بعد پاکستانی علماء کا ایک وفد طالبان سے ملاقات کے لیے قندہار گیا تو طالبان اپنی اس پیشکش سے پیچھے ہٹ گئے اور کہا کہ اب حالات بدل چکے ہیں، اس لیے اب بن لادن پر صرف طالبان کی عدالت میں ہی مقدمہ چل سکتا ہے۔ نائن الیون کے چند ہفتے بعد امریکہ کے وزیر خارجہ کولن پاؤل نے یہ پیش کش کی کہ بن لادن پر کسی دوسرے غیر جانبدار ملک میں اُس ملک کے قانون کے مطا بق مقدمہ چلایا جائے تو یہ بھی امریکہ کو منظور ہوگا۔ لیکن اس پیش کش کو طالبان نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ دنیا بھر میں شرعی عدالت تو صرف طالبان کی ہے، اس لیے بن لادن کے متعلق صرف اسی کا فیصلہ چلے گا۔ 


نائن الیون کے واقعے کے بعد بن لادن نے اس واقعہ کی ذمہ داری اٹھانے کے متعلق اپنا موقف باربار بدلا۔ مثلاً بارہ ستمبر2001ء کو اپنے ایک بیان میں اس واقعے میں اپنے براہ راست ملوث ہونے سے انکار کیا مگر ان خودکش حملہ آوروں کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اُن کی تائید کی۔ 7اکتوبر کے بیان میں اُنہوں نے کہا کہ یہ خودکش حملہ آور بہت اچھے نوجوان مسلمان تھے جن کو پروردگار نے اس حملے کی توفیق بخشی اور جنت کی ابدی نعمتیں اُن کا انتظار کررہی ہیں۔ 13اکتوبر کو القاعدہ کے ترجمان نے الجزیرہ ٹی وی پر کہا کہ مغرب کے اندر رہنے والے مسلمانوں کو اونچی عمارتوں میں رہنے اور ہوائی سفر سے گریز کرنا چاہیے اس لیے کہ اس طرح کے مزید خودکش حملے بھی ہوسکتے ہیں۔ اس کے بعد بن لادن نے اپنے ایک انٹرویو میں نیوکلئیر، کیمیاوی اور حیاتیاتی ہتھیار رکھنے کا دعویٰ کیا۔ اُنتیس اکتوبر2004 کو بن لادن نے اپنی ایک ویڈیو تقریر میں واضح طور پر کہا کہ یہ حملہ القاعدہ کی طرف سے کیا گیا ہے۔ پاکستان کے ممتاز صحافی حامد میر نے یہ انکشاف کیا کہ جب نائن الیون سے کچھ عرصہ پہلے وہ بن لادن سے ملنے کے لیے گئے تھے تو وہاں القاعدہ کے کمپیوٹرز میں نائن الیون کے مرکزی کردار عطا محمد کی تصویریں اور معلومات موجود تھیں اور وہ یہ بات سمجھ گئے تھے کہ عطا محمد کی کوئی بھاری ذمہ داری سپرد کی گئی ہے۔ بن لادن کے ذاتی معالج ڈاکٹر عامر عزیز کے مطابق بن لادن نے اُن کو بتایا کہ یہ حملے اُن کے حکم پر کئے گئے۔ 2007ء میں نائن الیون کی چھٹی سالگرہ کے موقعے پر بن لادن نے نائن الیون کے ایک خودکش حملہ آور کو خصوصی خراج تحسین پیش کیا۔ اس کے بعد23جولائی کو القاعدہ کے ایک اہم رہنما ابو یزید نے اپنے ویڈیوتقریر میں واضح طور پر کہا کہ نائن الیون کی منصوبہ بندی القاعدہ نے کی۔اب تو القاعدہ کی طرف سے ایسی ویڈیوز منظرِ عام پر آگئی ہیں جن میں نائن الیون کی پوری سکیم اور تربیت کے بارے میں بتایا گیا ہے اور نائن الیون کے بعض خودکش حملہ آوروں کے بیانات بھی شامل ہیں۔ 


طالبان کے پورے دور اقتدار میں پاکستان طالبان حکومت کا حامی رہا۔ ظاہر ہے کہ یہ اندھی حمایت غلط تھی۔ نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت کو سات مطالبات پر مبنی فہرست پیش کی تو جنرل مشرف نے بغیر کسی توقف اور مشورے کے امریکہ کے سارے مطالبات مان لیے۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی بالکل غلط تھا۔ اگر اُس وقت پاکستان میں کوئی کمزور جمہوری حکومت بھی موجود ہوتی تو نہ امریکہ اس رنگ میں یہ مطالبہ کرسکتا تھا اور نہ حکومت ان مطالبات کو اس انداز میں مان سکتی تھی۔ تاہم فوجی حکومت نے یہ کام کیا جس کا نتیجہ پاکستان کے لیے مزید پولر ائزیشن اور تباہی کی صورت میں نکلا۔ 


موجودہ صورت حال یہ ہے کہ افغانستان کے غیر پشتون صوبے اور وہ صوبے جن میں غیر پشتون بڑی تعداد میں موجود ہیں، پرامن ہیں۔ وہاں سیاسی پارٹیاں قائم ہیں جن کی نمائندگی پارلیمنٹ میں موجود ہے۔ افغانستان کا موجودہ آئین بظاہر ایک اچھی دستاویز ہے۔ تاہم پشتون صوبوں میں بدامنی ہے، جگہ جگہ طالبان کا قبضہ ہے، ترقیاتی کام نہیں ہورہا اور سب سے بڑھ کر بدقسمتی یہ ہے کہ حامد کرزئی کے انکار اور حوصلہ شکنی کی وجہ سے پشتون علاقوں میں کوئی حقیقی معتدل سیاسی پارٹی بھی موجود نہیں ہے۔ گویااِس وقت افغانستان کے حوالے سے پاکستان، امریکہ، طالبان اور حامد کرزئی سب کے سب ناکامی سے دوچار ہیں۔ البتہ غیر پشتون علاقے بظاہر کامیاب ہیں، اس لیے کہ وہاں سیاسی عمل اور ترقیاتی کام دونوں جاری ہیں۔ 


سوال یہ ہے کہ اب کیا کیا جائے؟ اس معاملے میں ہماری طرف سے امریکہ کو کوئی مشورہ دینا فضول ہے اس لیے کہ وہ تو اپنے عالمی مفادات کے مطابق کام کرتا ہے۔ بھلا اُسے ہمارا مشورہ پہنچے گا کیسے اور وہ اُن پر کیوں عمل کرے گا۔ تاہم باقی تینوں فریقوں کو ہم اپنی تجاویز پیش کرسکتے ہیں۔ پاکستان کے لیے ہماری تجویز یہ ہے کہ پاکستان حکمت کے ساتھ اس جنگ سے اپنے آپ کو عملی لحاظ سے لاتعلق کرلے ، پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جاری شورش کا خاتمہ کیا جائے، اور قبائلی علاقوں کو پاکستان میں ضم کرکے صوبہ پختون خواہ کا ایک حصہ بنایا جائے۔ طالبان سے ہمارا یہ کہنا ہے کہ وہ مسلح مزاحمت کا راستہ چھوڑ کر اپنے آپ کو ایک سیاسی تنظیم میں ڈھال لیں اور اس کے بعد امریکہ سے مطالبہ کریں کہ چونکہ افغانستان میں کوئی بدامنی نہیں اس لیے اُس کی افواج افغانستان سے نکل جائیں۔ جب کہ حامد کرزئی کے لیے یہ ضروری ہے کہ پشتون علاقوں میں ایک معتدل سیاسی پارٹی کی تشکیل کے ذریعے ایک بھرپور سیاسی عمل کا آغاز کیا جائے اور یہ تجویز پیش کی جائے کہ اگر طالبان مسلح مزاحمت چھوڑ دیں اور انتخاب میں حصہ لیں تو امریکہ کو افغانستان سے واپسی کا ٹائم ٹیبل دینا چاہیے۔ 


موجودہ صورت حال میں اصل نقصان پاکستان اور افغانستان کو پہنچ رہا ہے، اس لیے سب سے بڑھ کر یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے گھر کو ٹھیک کریں۔


مسئلہ عراق 

آج سے تیس برس پہلے 1979ء میں صدام حسین نے ایک فوجی انقلاب کے ذریعے برسراقتدار آکر ظلم وستم اور عراق اور امتِ مسلمہ کی بربادی کا ایک باب خود اپنے ہاتھ سے لکھنا شروع کیا۔اقتدار میں آنے کے ایک برس بعد صدام نے ایران کے خلاف جنگ چھیڑدی جو آٹھ سال تک جاری رہی۔ اس جنگ میں چھ لاکھ ایرانی اور چار لاکھ عراقی جاں بحق ہوئے۔ اس آٹھ سالہ لڑائی میں دونوں ممالک کی معیشت بیٹھ گئی۔ دونوں ممالک نے امریکہ اور اسرائیل سے اسلحہ خرید کر ایک دوسرے کو مارا اور امریکہ اور اسرائیل کو بڑا فائدہ پہنچایا۔ 

اس جنگ کے خاتمے کے دو برس بعداگست1990ء میں صدام نے کویت پر حملہ کرکے اُسے فتح کرلیا۔ ساری دنیا نے عراق کی مذمت کی۔ اقوام متحدہ نے اُسے الٹی میٹم دیا کہ وہ کویت کو خالی کردے ورنہ اُس کے خلاف فوجی کاروائی کی جائے گی۔ ساڑھے پانچ مہینے بعد یعنی جنوری 1991کو امریکہ اور اُس کے اتحادی افواج نے عراقی شہریوں پر بمباری شروع کردی۔ یہ بمباری ایک مہینے جاری رہی اور اُس میں عراق کا تقریباً سارا انفراسٹرکچر تباہ ہوکر رہ گیا، مگر صدام اپنی ضد پر اڑا رہا۔ فروری میں اتحادی افواج نے زمینی حملہ شروع کیا اور دوتین دن کے اندر اندر کویت کو آزاد کرلیا۔ اس جنگ میں عراق کے تقریباً ڈیڑھ لاکھ شہری اور فوجی جاں بحق ہوئے۔ کویت کی ساری دولت جنگی اخراجات کے نام پر امریکہ کے پاس چلی گئی۔ سعودی عرب کا بھی چالیس ارب ڈالر سے زیادہ کا خرچ آیا کیونکہ صدام نے کہہ دیا تھا کہ اس کے بعد وہ سعودی عرب پر بھی حملہ کرے گا۔ 

اس عظیم نقصان سے بھی صدام نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہ بدستور بڑے کروفر کے ساتھ حکمرانی کرتا رہا۔ صدام نے عراقی قوم کو تین حصوں میں تقسیم کردیا۔ چونکہ وہ خود سُنی تھا اس لیے اُس نے عرب سُنی قبائل کو ساتھ ملایا۔ اُس نے ساٹھ فیصد اہلِ تشیع پر بڑے مظالم ڈھائے اور اسی طرح بیس فیصد سُنی کُردوں کو بھی ظلم وستم کا نشانہ بنایا۔ 1987ء میں اُس نے کُردوں کے خلاف کیمیاوی ہتھیار استعمال کرکے ہزاروں لوگوں، بشمول عورتوں اور بچوں ، کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ 

2002ء کے آخری مہینوں میں امریکہ نے اپنی کچھ اغراض کے لیے چاہا کہ وہ صدام حسین کے اقتدار کا خاتمہ کرے۔ امریکہ نے الزام لگایا کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں۔ یہ بات قطعاً جھوٹ تھی۔ سوائے برطانیہ کے سارے مغربی ممالک نے امریکی دعوے کو غلط قرار دیا۔ اقوام متحدہ نے بھی امریکہ کی حمایت کرنے سے انکارکردیا۔ دسمبر2002ء میں امریکہ نے صدام حسین کو یہ الٹی میٹم دیا کہ وہ اپنے قریبی ساتھیوں سمیت عراق چھوڑ دے۔ سعودی عرب نے اعلان کیا کہ وہ صدام اور اُس کے ساتھیوں کو سیاسی پناہ دینے کے لیے تیار ہے۔ اُس وقت راقم نے اپنے ایک مضمون میں یہ لکھا کہ’’ اگرچہ امریکہ کا الزام بالکل غلط ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ عراقی عوام کوامریکہ کے ظلم وستم سے بچایا جائے۔ اس کا حل یہ ہے کہ صدام اقتدارعراقی دانشوروں پر مشتمل ایک عبوری حکومت کے حوالے کرکے خود اپنے خاندان سمیت سعودی عرب چلا جائے اور یہ عبوری حکومت اگلے تین ماہ کے اندر اندر عراق میں انتخاب کرواکر اقتدار منتخب نمائندوں کے سپرد کردے‘‘۔ تاہم صدام آنے والی تباہی کا تجزیہ نہ کرسکا اور اُس نے اس موقعے سے بھی کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔ ویسے بھی بدقسمتی سے عالم اسلام کے اندر وسیع تر مفادات کے لیے اپنی انا کو قربان کرنے کا رجحان بہت کم ہے۔ 

بالآخر امریکہ نے مارچ 2003میں عراق پر حملہ کردیا۔ یہ ایک بہت بڑا جرم تھا۔ یہ لڑائی ابھی تک جاری ہے۔ پچھلے برسوں میں اندازاً چھ لاکھ عراقی اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ کا بھی کچھ کم نقصان نہیں ہوا۔ اُسے اس لڑائی پر ہر مہینے اندازاً ایک ارب ڈالرکی رقم کرنی پڑرہی ہے جس سے اُس کی معیشت کو بڑا نقصان پہنچا ہے۔ اُس کے کم وبیش چار ہزار سپاہی اس جنگ میں کام آچکے ہیں۔ خود امریکی قوم کی واضح اکثریت اس جنگ کے خلاف ہے۔ 

یہ بھی ایک دلخراش حقیقت ہے کہ اس جنگ میں سنیوں اور شیعوں نے بھی ایک دوسرے کا بہت خون بہایا ہے۔ زیادہ تر جانی نقصان ان دونوں گروہوں کی لڑائی سے ہوا ہے۔ عراق کے اندر نوے فیصد خودکش حملے امریکی افواج پر نہیں بلکہ ان دونوں فرقوں نے ایک دوسرے کے خلاف کیے ہیں۔ 

مسئلہ عراق کا واحد حل یہ ہے کہ شیعہ، سُنی اور کُرد بیٹھ کرٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ، کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ایک پُرامن حل پر متفق ہوجائیں۔ صرف اسی طرح وہ غاصب اور جارح غیر ملکی افواج سے اپنا پیچھا چھڑاسکتے ہیں۔ 


مسئلہ فلسطین 

اسرائیلی ریاست کی تخلیق برطانیہ کا ایک بڑا ظلم تھا اور اس ریاست کی مسلسل تعمیر اور حمایت امریکہ کی ایک بڑی بے انصافی ہے۔ اس لیے مشرقی وسطیٰ کی اب تک ساری خونریزی کی اصل ذمہ داری ان دونوں پر عائد ہوتی ہے۔ اسرائیل نے امریکہ کو یہ یقین دلایا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں اُس کے سب مفادات کا رکھوالا ہے اور وہ اپنے کلچر اور اقدار میں امریکہ کی پیروی کررہا ہے۔ اس لیے امریکہ بھی اسرائیل کو عملاً اپنی اکیاون ویں ریاست سمجھتا ہے اور اسی حیثیت سے اُس کے ساتھ امداد اور تعاون کرتا ہے۔ امریکہ ہر معاملے میں اسرائیل کی اندھا دھند حمایت کرتا ہے اور اسرائیل کے صریحاً ناجائز اقدامات پر بھی امریکہ نے کچھ نہیں کیا۔ 


تاہم اسرائیل کے قیام میں سلطنتِ عثمانیہ اور خود عربوں کی عملی مدد کا بھی بڑا کردار ہے۔ اگر سلطنتِ عثمانیہ پہلی جنگِ عظیم میں جرمنی کا ساتھ نہ دیتی تو برطانیہ فلسطین پر حملہ نہ کرتا۔ اگر سرزمینِ عرب کا ہاشمی خاندان انگریزوں کی مدد نہ کرتا تو برطانیہ کبھی فلسطین پر قابض نہیں ہوسکتا تھا۔ اگر مصراور مراکش اپنے ہاں کے یہودیوں کو اسرائیل جانے کی اجازت نہ دیتے تو اسرائیل کی آبادی نہیں بڑھ سکتی تھی۔ 


عالمِ عرب نے اقوام متحدہ کی متعدد قراردادیں تسلیم نہ کرکے بے بصیرتی کا ثبوت دیا۔ اگر عرب ممالک 1948ء کی اقوام متحدہ کی قرار داد مان لیتے تو اسرائیل آج کی نسبت ایک تہائی ہوتا اور 1948ء میں ہی فلسطینی ریاست بھی بن جاتی۔ 1967ء تک آدھا فلسطین اُردن کے قبضے میں تھا اور آدھا فلسطین مصر کے قبضے میں تھا۔ مگر ان دونوں ممالک نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں فلسطینی ریاست نہیں بننے دی۔ اگر 1948ء میں مصر اور اُردن اپنے زیرِ قبضہ علاقوں میں فلسطینی ریاست بنادیتے تو مسجدِ اقصیٰ آج بھی مسلمانوں کے قبضے میں ہوتی اور فلسطینی کم ازکم آج کی نسبت بہتر زندگی بسر کررہے ہوتے۔ فلسطینیوں نے 2000ء کے کیمپ ڈیوڈ مذاکرات میں صدر کلنٹن کا پیش کردہ حل نہ مان کر غلطی کی۔ اس حل کے مطابق مغربی کنارے کا دوتہائی حصہ، آدھا یروشلم بشمول مسجد اقصیٰ اور پورا غزہ فلسطینی ریاست کا حصہ بن جانا تھا۔ 


یہ بات بالکل واضح ہے کہ موجودہ حالات میں اسرائیل کو فوجی شکست دینا ناممکن ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ آج کے حالات کے مطابق ایک عملی سمجھوتہ کیا جائے تاکہ فلسطینی آزاد فضا میں سانس لے سکیں اور مسجد اقصیٰ آزاد ہوجائے۔ مستقبل میں کیا ہوتا ہے، اس کی خبر ہمیں نہیں۔ ممکن ہے امریکہ اور اسرائیل کا اتحاد کمزور پڑجائے، پھر نئے امکانات جنم لیں گے۔ لیکن آج تو ہمیں آج کا مسئلہ حل کرنا ہے۔ 


بدقسمتی سے فلسطینی قوم آزادی سے پہلے ہی پی ایل او اور حماس کے درمیان یوں تقسیم ہوکر رہ گئی ہے کہ دونوں نے ایک دوسرے کے سینکڑوں کارکنوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ غزہ کی پٹی پر حماس کا قبضہ ہے اور مغربی کنارے پر پی ایل او کا۔ 


فلسطین میں صرف اُسی وقت مسلمانوں اور فلسطینیوں کے حق میں کوئی حل نکل سکتا ہے جب فلسطینی اپنے اختلافات بھلا کر آزادی کے لیے متحد ہوجائیں اور اسرائیل کے خلاف متشددانہ کاروائیاں روک دیں، اس لیے کہ ان کاروائیوں سے اسرائیل کو نقصان نہیں پہنچ رہا اور الٹا فلسطینی بدنام ہورہے ہیں۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے فلسطین میں نئے آزادانہ انتخابات اور اس کے مطابق حکومت سازی لازم ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ فلسطینی خالصتاً عدمِ تشدد کی بنیاد پر پرامن طریقے سے مظلومانہ جمہوری جدوجہد شروع کردیں۔ اس طرح مغرب کے اندربھی فلسطین کے حقوق کے لیے آوازیں اٹھنا شروع ہوجائیں گی۔ یوں فلسطین کے لیے آزادی کا مرحلہ قریب تر آجائے گا اور ساری دنیا کے مسلمان بلاروک ٹوک مسجد اقصیٰ جاسکیں گے۔ 


مسئلہ کشمیر 

دنیا کی پوری تاریخ یہ شہادت دیتی ہے کہ کوئی قوم اپنے مطالبات میں صرف اُس وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب وہ ایک متحد قیادت کے جھنڈے تلے جدوجہد کرے۔ اس کے برعکس کشمیر کا معاملہ یہ ہے کہ یہاں تیس کے لگ بھگ سیاسی تنظیمیں قائم ہیں جن کے درمیان نظریاتی اختلافات موجود ہیں لیکن اصل جھگڑا قیادت کا ہے۔ اسی طرح وہاں بیس سے زیادہ مسلح مزاحمتی تنظیمیں موجود ہیں۔ ان میں سے اکثر تنظیمیں فرقہ وارانہ بنیاد پر قائم ہیں۔ ایسی صورت حال میں آزادی تو کیا، محض کچھ حقوق حاصل کرنے کا خواب بھی نہیں دیکھا جاسکتا۔ 


اس ضمن میں دوسری حقیقت یہ ہے کہ بھارت ایک بہت بڑا ملک ہے جس سے جنگ کرکے کشمیر کو آزاد نہیں کرایا جاسکتا۔ اس معاملے میں پاکستان نے جتنی جنگیں لڑیں، اُن کا پاکستان کو بڑا نقصان پہنچا۔ اگست 1988ء میں مجاہد تنظیموں کی طرف سے بھارتی افواج کے خلاف مسلح آپریشن شروع کردیا گیا۔ اس مسلح جدوجہد میں پچاس ہزار سے زیادہ کشمیری اپنی جان، جانِ آفرین کے سپرد کرچکے ہیں، تاہم ہم دیکھتے ہیں کہ اس بیس سالہ لڑائی کا بھی کشمیری مسلمانوں کے حق میں کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا۔ اس کے برعکس بھارت کا رویہ سخت سے سخت تر ہوتا چلا گیا۔ 


تیسری حقیقت یہ ہے کہ بھارت بہرحال ایک جمہوری ملک ہے، جہاں جمہوریت سے فائدہ اٹھاکر مقبوضہ کشمیر کے مسلمان حالات کو اپنے حق میں کرسکتے ہیں۔ وہ چاہیں تو پرامن جدوجہد کے ذریعے مکمل صوبائی خودمختاری کے لیے آواز بلند کرکے پوری دنیا بلکہ بھارت کی رائے عامہ کو بھی اپنے حق میں ہموار کرسکتے ہیں۔ اس طرح وہ محض نقشے پر بھارت کے اندر ہوں گے مگر عملاً آزاد زندگی بسر کریں گے۔ 


چوتھی حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو چھوڑ کر باقی بھارت کے اندر بھی 15کروڑ سے زیادہ مسلمان بستے ہیں۔ ان مسلمانوں کے حقوق کی پاسداری ہمارا فرض ہے کیونکہ انہی کے آباؤجدادکی جدوجہد کی قیمت پر ہمیں پاکستان ملا تھا۔ اگر مقبوضہ کشمیر بھارت سے علیحدہ ہوتا ہے تو بھارتی مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کے غیض وغضب میں بہت اضافہ ہوجائے گا۔ اور اگر مقبوضہ کشمیرآخری حد تک ممکن اندرونی خودمختاری کے ساتھ بھارت کا حصہ رہتا ہے تو یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک پُل کا کردار ادا کرے گا، اور بھارتی مسلمانوں کو بہت آسانیاں مل جائیں گی۔ 


پانچویں حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں کی اب کوئی حیثیت نہیں رہ گئی۔ یہ قراردادیں جنوری 1948ء سے لے کر دسمبر1957ء کے درمیان میں منظور کی گئیں تھیں۔ ان میں کئی قراردادیں نظری طور پر تو پاکستان کے حق میں ہیں لیکن عملاً اُن سے بھارت کو فائدہ پہنچتا ہے۔ یہ تمام قراردادیں اقوام متحدہ کے چارٹر کے شیڈول سات سے تعلق رکھتی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی نوعیت اصل میں سفارشی ہے اور ان پر عمل درآمد لازمی نہیں ہے۔ فریقین میں سے کوئی بھی اسے ماننے سے انکار کرسکتا ہے۔ 


چھٹی حقیقت یہ ہے کہ اس وقت یہ بات بڑی طاقتوں کے مفاد میں ہے کہ بھارت اور پاکستان میں کوئی سمجھوتہ ہوجائے کیونکہ اب یہ دونوں طاقتیں ایٹمی صلاحیت کی حامل بن گئیں ہیں اور اگر دونوں کے درمیان اس مسئلے پر جنگ چھڑ جائے تو اس کے بہت خوف ناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ تاہم بین الاقوامی طاقتوں میں سے کوئی بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ ان دونوں ملکوں پر کوئی حل مسلط کرسکے۔ 


ساتویں حقیقت یہ ہے کہ بھارت پورے کشمیر یا اُس کے کسی حصے کی اپنی ریاست سے کامل علیحدگی کو کبھی قبول نہیں کرے گا۔ ایسا فیصلہ صرف وہ ملک کرتا ہے جو تباہی کی آخری حد پر ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ بھارت کو ایسی کوئی صورت حال درپیش نہیں ہے۔ جب کہ اس کے برعکس پاکستان کو بہت سے حقیقی خطرات کا سامنا ہے۔


آٹھویں حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر نے پاکستان کو بہت سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے، اور اگر یہ مسئلہ جاری رہا تو یہ نقصان بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ مسئلہ کشمیر نے بھارت کو بھی نقصان پہنچایا ہے لیکن ایک بڑا ملک ہونے کی وجہ سے وہ ان نقصانات کو برداشت کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ 


چنانچہ درج بالا حقائق کی موجودگی میں ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ ایسے حل پر بات چیت کرنی چاہیے جس کے ذریعے بھارتی کشمیر اور پاکستانی کشمیر دونوں کو آخری ممکن حد تک اندرونی خودمختاری مل جائے اور ان دونوں خطوں کے درمیان ویزے اور پاسپورٹ کی شرائط کو ختم کردیا جائے۔ ایسے کسی حل کو بڑی طاقتوں اور اقوام متحدہ کی ضمانت حاصل ہونی چاہیے۔ جب تک ایسے کسی حل پر اتفاق رائے نہ ہو، تب تک پاکستان کو خالصتاً پُرامن طریقے سے اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہیے اور اس ضمن میں ہر طرح کی عسکریت پسندی کو خیرباد کہنا چاہیے۔ 


’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ 

اس راقم کے نزدیک دہشت گردی کی تعریف یہ ہے کہ ’’ہر وہ مسلح عمل دہشت گردی ہے جس میں دہشت پیدا کرکے اپنے مقاصد کی حصول کے کوشش کی جائے اور اس عمل میں ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جن کی وجہ سے براہ راست یا جس کے نتیجے کے طور پر جنگ میں غیر شریک افراد کے جان ومال کو نقصان پہنچے‘‘۔ 


تاریخ کے ہر دور میں یہ دہشت گردی موجود تھی اور ہے۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تمیز نہیں تھی۔ یورپی ریاستوں نے صلیبی جنگوں میں مسلمانوں اور یہودیوں کے خلاف بدترین دہشت گردی کا ارتکاب کیا۔ مسلمانوں کی تاریخ میں امیر تیمور اور نادر شاہ جیسے بادشاہ گزرے ہیں جنہوں نے لاکھوں عام افراد کا قتل عام کرکے دہشت گردی کی ارتکاب کیا۔ سپین میں لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرکے اُس وقت کے عیسائی حکمرانوں نے خوف ودہشت کا بازار گرم کیا۔ قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں پوپ اور دوسرے مذہبی رہنماوؤں نے سائنسی اور جمہوری ذہنیت رکھنے والے لوگوں کا قتلِ عام کرکے دہشت گردی کی۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کو شروع کرکے جرمنی، اٹلی اور جاپان نے دہشت گردی کی، جس کے نتیجے میں کروڑوں افراد موت کے گھاٹ اتر گئے۔ دوسری جنگ عظیم میں ہیروشیمااور ناگاساکی نامی شہروں پر ایٹم بم پھینک کر امریکہ نے دہشت گردی کا ارتکاب کیا۔ اسی طرح ویت نام پر امریکی حملہ، ہنگری پر روسی حملہ، انیس سوستر میں پاکستانی فوج کی مشرقی پاکستان میں کاروائیاں، ایران اور کویت پر عراق کا حملہ، افغانستان میں روسی مداخلت، ورلڈ ٹریڈسنٹر پر خودکش حملہ، افغانستان پر امریکی بمباری، عراق پر امریکی حملہ، اور سرزمینِ فلسطین میں یہودیوں کی فلسطینیوں کے خلاف کاروائیاں، یہ سب دہشت گردی کے واقعات ہیں۔اسی طرح سارے کے سارے خودکش حملے بھی دہشت گردی کی ایک قسم ہیں۔ 


اُمتِ مسلمہ کے زیادہ تر مسائل چاروجوہات سے پیدا ہوئے۔ ایک افغانستان میں روسی افواج کی مداخلت اور پاکستان کی طرف سے اُس کے مقابلے کے لیے ایک مخصوص اور غلط سٹریٹیجی۔ دوسرا نائن الیون کا واقعہ۔تیسراعراق میں امریکی مداخلت۔چوتھا القاعدہ کی حکمت عملی۔القاعدہ کی طرف یہ حکمت عملی تیار کی گئی کہ ہر جگہ میں ہر ممکن حد تک امریکی اور یورپی مفادات پر حملے کئے جائیں۔ یہ حملے فوجی اور سویلین دونوں مقامات پر کئے جارہے ہیں۔ القاعدہ جن مسلمان ملکوں کو امریکہ کا اتحادی سمجھتی ہے، اُن کے خلاف بھی حملے کئے جارہے ہیں۔ ان حملوں میں بھی فوجی اور سویلین دونوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ جارحانہ اقدامات کررہا ہے کیونکہ کسی بھی سپر پاور کے اقدامات طاقت کی نفسیات کے تحت طے ہوتے ہیں۔ اگرچہ القاعدہ کی ان سرگرمیوں سے امریکہ اور مغرب کو کچھ نہ کچھ نقصان پہنچا ہے لیکن اس حکمتِ عملی کا اصل نقصان پوری امتِ مسلمہ کو پہنچ رہا ہے۔ اس کی وجہ سے بڑی تعداد میں بے گناہ لوگوں کے جان ومال کا نقصان ہورہا ہے، عالمِ اسلام کے اندر ہر جگہ فساد اور انارکی نے جنم لیا ہے، مغرب میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت بہت بڑھ گئی ہے اور القاعدہ کی اِن سرگرمیوں کی وجہ سے امریکہ کو مزید فوجی مداخلت اور بمباری کا جواز مل رہا ہے۔ 


یہ حکمتِ عملی امتِ مسلمہ کے لیے ہر اعتبار سے نقصان دہ ہے۔ اس کے بجائے ہماری حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ ہم پُرامن راستہ اختیار کریں، امریکہ کو مزید مداخلت کا جواز فراہم نہ کریں، اور جہاں جہاں امریکی مداخلت موجود ہے وہاں پُرامن طریقے سے اس مداخلت کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ 


یہ بات واضح ہے کہ امریکہ کو نصیحتیں کرنے اور سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ سپر پاور ہمیشہ اپنی اندرونی حرکیات (Dyanamics) کے تحت کام کرتی ہے۔ ہمارا اصل کام یہ ہونا چاہیے کہ ہم یک طرفہ طور پر ایسے اقدامات اٹھائیں جن کے ذریعے ہمیں اُمت مسلمہ کی تعمیر کا موقعہ مل سکے۔ 


اُمت مسلمہ کی دو اہم ترین خرابیاں 

اُمت مسلمہ کے اندر سرمایہ داروں اور حکمرانوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جس کو اپنے قومی مفادات کا کوئی خیال نہیں۔ اس طبقے کے پاس اربوں ڈالر موجود ہیں مگر یہ صرف عیاشی کے کام آرہے ہیں۔ اور اس خرابی کو دور کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ امتِ مسلمہ میں شعور پیدا کیا جائے اور ایک ذہنی تبدیلی لائی جائے۔ اگرچہ اس ذریعے سے تبدیلی دیر سے آتی ہے مگر دیرپا ہوتی ہے۔ اس کا حل خونی انقلاب نہیں ہے، اس لیے کہ ایسے انقلاب سے مزید نقصان ہوتا ہے۔ 


اُمت مسلمہ کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس امت سے محبت کرنے والے اور اس کا درد اپنے سینے میں رکھنے والے لوگ زیادہ تر جذباتی روئے کا شکار ہیں۔ یہ طبقہ چاہتا ہے کہ فوری تبدیلی آجائے اور مدِمقابل طاقتوں کو شکستِ فاش سے دوچار کردیاجائے۔ اس روئے کے اثر کے تحت یہ طبقہ عسکریت پسندی اور خفیہ تنظیموں کا راستہ اپنا لیتا ہے۔ امتِ مسلمہ کی پوری تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ایسے عاجلانہ اقدامات نے ہمیشہ ہمیں نقصان پہنچایا ہے۔ ہمیں شعوری طور پر ان دونوں رویوں سے بچنا ہوگا۔ یہ ہماری ضرورت ہے کہ ہم مقابل طاقتوں سے امن کا وقفہ خرید لیں۔ ترقی کرنے کے لیے امن انتہائی ضروری ہے۔ امن کا وقفہ خریدنے سے مراد یہ ہے کہ ہر فرد، ہر گروہ اور ہر مسلمان ملک پرامن راستے پر گامزن ہوجائے۔ ہم یہ یک طرفہ فیصلہ کرلیں کہ ہم تنازعات کے حل میں اپنی طرف سے طاقت استعمال نہیں کریں گے، ہم مکالمے کے ذریعے سے سمجھوتے کی طرف پیش رفت کی کوشش کریں گے۔ کسی بھی سمجھوتے کے لیے ہم ’’منصفانہ‘‘ کی شرط عائد نہیں کریں گے، بلکہ کچھ لو اور کچھ دوکی بنیاد پر عملی حل کی طرف بڑھیں گے۔ جب تک سمجھوتہ نہیں ہوتا تب بھی کسی بھی حالت میں مسلح کاروائی کی طرف قدم نہیں اٹھائیں گے۔ اس نکتے کی بنیاد یہ ہے کہ اس وقت ہم کمزور اور ہماری مقابل قوتیں توانا اور مضبوط ہیں۔ قبل از وقت میدان جنگ میں کود پڑنا خود اپنے ہاتھوں سے ایک اور شکست کو تحریر کرنا ہے۔ نیز یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کو درپیش زیادہ تر مسئلوں کا ممکن پُرامن عملی حل موجود ہے۔ 


مسلمان ممالک کو ایک دفعہ امن کا وقفہ میسر آجائے تو وہ اگلے پچاس برس کے اندر اندر ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ بن سکتے ہیں، اپنے معاشروں کی تعمیر کرسکتے ہیں اور خوشحالی کی نئی منزلوں کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں۔ یہ ایک ایسی حکمت عملی ہے جس پر دنیا کی ہر ہوش مند قوم عمل کرتی ہیں۔ 


امت مسلمہ کے لیے فوری ایجنڈا 

پچھلے صفحات میں کیے گئے تجزئے کے مطابق امت مسلمہ کی نشاطِ ثانیہ یعنی ایک نئی باوقار زندگی کے لیے درج ذیل چار باتوں پر عمل انتہائی ضروری ہے۔ 


O سائنس اور ٹیکنالوجی پر دسترس۔ کیونکہ اس کے بغیر دنیا میں عزت ووقار کے ساتھ جینے کا خواب دیکھنا فضول ہے۔ سائنس پر صرف وہی قوم دسترس حاصل کرسکتی ہے جو یہ تہیہ کرلے کہ اُسے اپنے سب بچوں کو پہلے بارہ برس مفت اور لازمی تعلیم دینی ہے۔ 


O جمہوری کلچر، جس کا مطلب یہ ہے کہ سب مسلم ممالک اپنے ہاں کامل جمہوری کلچر کو بطورِ اصول وقدر اختیار کرلیں۔ درحقیقت جمہوریت ہی امتِ مسلمہ کے اتحاد کی منزل کی طرف جانے والی پہلی سیڑھی ہے۔ مسلم ممالک صرف اُس وقت ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں اور اُن کا تعاون عملی حقیقت میں بدل سکتا ہے جب ان سب کے ہاں جمہوری کلچر وجود میں آجائے۔ 


Oانصاف کی فراہمی، جس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو عدالتوں سے جلد اور سستا انصاف ملے، قانون کے سامنے سب شہری برابر ہوں، حکمران اور ایک عام انسان کے لیے ایک ہی قانون ہو، ہر معاملہ شفاف ہو اور حکمرانوں اور بالادست طبقات کے لیے احتساب کا نظام موجود ہو۔ 


Oحکمت وصبر، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسئلے پر ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ بالکل معروضی (Objective)طریقے سے غوروفکر کیا جائے اور اُس کا پرامن حل تلاش کیا جائے۔ جذباتی نعرے نہ لگائے جائے، جذباتی تقریریں نہ کی جائیں، مقابل طاقتوں کو بلا ضرورت نہ للکارا جائے اور بغیر سوچے سمجھے اقدامات نہ اٹھائے جائیں۔ ہر مثبت بات کی جائے اور منفی بات سے پرہیز کیا جائے۔ ہر احتجاج اور ردِعمل قانون اور اخلاقیات کے اندر ہو۔ دراصل جذباتی اور بلند بانگ نعرے اور دعوے ایک انتہا پسندانہ ردِعمل کی ذہنیت کو جنم دیتے ہیں جس میں انسان بے سوچے سمجھے مرنے مارنے پر اتر آتا ہے۔ اسی کیفیت میں کئے گئے سب جذباتی فیصلے نیم پختہ اور غلط ہوتے ہیں جس کا نتیجہ خود ہمارے لیے زہرِ قاتل ہوتا ہے۔ پچھلے تین سو برس سے ہم سے ایسے ہی غلط فیصلے سرزد ہورہے ہیں۔ اب اس ذہنیت سے نجات ہمارے مستقبل کی کامیابی کے لیے ایک اہم شرط ہے۔  

پاکستان کے لیے فوری ایجنڈا 

درج بالا چاروں امور کی طرف عملی پیش رفت ہر ملک کی طرح پاکستان کی بھی اہم ضرورت ہے۔ تاہم پاکستان کے لیے دو مزید باتوں کی طرف توجہ انتہائی ضروری ہے۔ ایک افغانستان اور کشمیر کے تنازعے کے حقیقت پسندانہ اور پرامن حل کی طرف پیش رفت۔ ان دونوں تنازعات کا پرامن حل موجود ہے جن پرہم پچھلے صفحات میں روشنی ڈال چکے ہیں۔ دوسرا نکتہ مکمل صوبائی خودمختاری ہے۔ صوبائی خودمختاری کا اصل مطلب مالیاتی خودمختاری ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اصلاً ہر صوبہ اپنے وسائل کا خودمالک ہو اور مرکز ہرصوبے کے تناسب سے اپنے حصے کی رقم لے۔ مرکز کے پاس دفاع، امورِ خارجہ اور بین الصوبائی رابطے کی وزارت ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ جن چیزوں میں صوبوں کے درمیان مشترک مفاد ہو، مثلاً مواصلات، تعلیم، صحت اور اسی طرح کے دوسرے مسائل، اُن کو صوبائی رابطے کی وزارت کے ذریعے اتفاق رائے سے حل کیاجائے۔ اسی طرح صوبے آپس میں خود ہی اپنے اپنے مفادات کا خیال رکھتے ہوئے دوسرے صوبوں کو رعایتیں دیں گے۔ صوبائی خودمختاری پاکستان کی اہم ترین ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ صرف اسی طریقے سے قومی یکجہتی پیدا کی جاسکتی ہے۔ 


ہر مسلمان اور پاکستانی کے لیے انفرادی ایجنڈا 

ہم میں سے ہر ایک فرد کا یہ کام تو لازماً ہونا چاہیے کہ ہم درجِ بالا سب امور کے لیے لوگوں کے اندر اور خصوصاً بالادست طبقے کے اندر احساس وشعور پیدا کریں۔ لیکن اس کے علاوہ ہرفرد کی دو مزید ذمہ داریاں بن جاتی ہیں۔ اگر ان ذمہ داریوں کو انفرادی سطح پر پورا کرلیا جائے تو ان کے بہت بڑے اجتماعی نتائج نکلیں گے۔ ان میں سے پہلی چیز غربت کے خلاف جدوجہد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر فرد معاشرے میں پھیلی غربت کے خاتمے لیے کچھ عملی اقدم کرے۔ ہمارے ہاں ہر طرف غربت اور محرومی پھیلی ہوئی ہے۔ ہزاروں بچے بوٹ پالش کرتے ہیں، بھیک مانگتے ہیں اور بالکل چھوٹی عمر میں مکینکوں کے ساتھ بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔ ہمارے اردگرد کتنی ہی بیوائیں، بوڑھے اور یتیم ہیں جن کا کوئی سہارا نہیں۔ کتنے بیمار ہیں جن کے پاس داوؤں کے پیسے نہیں۔ ہماری گلیاں گندگی سے اَٹی پڑی ہیں، حتیٰ کہ ہمارے مساجد میں بھی بسا اوقات صفائی کا مناسب انتظام نہیں ہوتا۔ ان سب چیزوں میں ہر ایک کو آگے بڑھ کر خود اپنے ہاتھوں اور اپنے وسائل سے عملی کام کرنا چاہیے۔ دوسری بات جہالت کے خلاف جدوجہد ہے۔ ہمارے گردوپیش میں ہزاروں بچے تعلیم کے زیور سے محروم ہیں۔ بہت سے طلبہ کے پاس امتحان میں بیٹھنے کی فیس نہیں ہوتی۔ چنانچہ ہم سے ہر ایک کی یہ انفرادی کوشش ہونی چاہیے کہ ہمارے گردوپیش میں ہر بچہ بارہ برس کی تعلیم حاصل کرے ۔اس معاملے میں ہم ذاتی طور پر خود آگے بڑھ کر عملی مدد کریں۔ جہالت کے خلاف جدوجہد کا یہ بھی مطلب ہے کہ ہم قرآن وسنت کی تعلیمات کوزیادہ سے زیادہ سمجھیں،قرآن وحدیث کی اصل تعلیمات اور فقہ کے درمیان فرق کو سمجھیں اور فرقہ وارانہ تعصب کو کم سے کم کرنے کی کوشش کریں۔ یہ سب کام ذاتی طور پر ہمارے کرنے کے ہیں۔ 


ہر فرد کو اپنے آپ سے یہ پوچھنا چاہیے کہ وہ ان دونوں کاموں یعنی غربت کے خلاف جدوجہد اور جہالت کے خلاف جدوجہد میں کیا کردار ادا کررہا ہے۔

____________

B