قادسیہ، مدائن اور جلولاء کے معرکوں کے بعد ۱۶ ہجری میں جنوبی عراق کا علاقہ، جس کو عرب مورخین ’سواد‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں، مسلمانوں کے قبضے میں آ چکا تھا۔ سعد بن ابی وقاص نے مزید پیش قدمی کی اجازت چاہی تو سیدنا عمر نے انھیں اس سے روک دیا۔ طبری کا بیان ہے:
ثم کتب سعد الی عمر بما فتح اللہ علی المسلمین فکتب علیہ عمر ان قف ولا تطلبوا غیر ذلک فکتب الیہ سعد ایضا انما ہی سربۃ ادرکناہا والارض بین ایدینا فکتب الیہ عمر ان قف مکانک ولا تتبعہم. (تاریخ الامم والملوک، ۳/ ۵۷۹)
’’پھر سعد نے خط لکھ کر سیدنا عمر کو مسلمانوں کو حاصل ہونے والی فتوحات کی خبر دی۔ سیدنا عمر نے جواب میں لکھا کہ بس اب رک جاؤ اور مزید علاقے فتح نہ کرو۔ سعد نے ان کو لکھا کہ یہ تو ایک ریوڑ ہے جس پر ہم نے قابو پا لیا ہے (تو جو شکار ہاتھ میں آیا ہے، اسے کیوں جانے دیں؟) اور زمین ہمارے سامنے پڑی ہوئی (اور فتح کی منتظر) ہے۔ سیدنا عمر نے ان کو دوبارہ یہی لکھا ہے کہ بس، اپنی جگہ ٹھہرے رہو اور ان کا پیچھا نہ کرو۔‘‘
ایک روایت کے مطابق الفاظ یہ تھے:
اما بعد فقد جاء نی مابین العذیب وحلوان وفی ذلکم ما یکفیکم ان اتقیتم واصلحتم قال وکتب اجعلوا بینکم وبین العدو مفازۃ. (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۵۶۰۸)
’’اما بعد، عذیب اور حلوان کا علاقہ میرے قبضے میں آ چکا ہے اور اگر تم اللہ سے ڈرتے اور اصلاح احوال کرتے رہو تو یہ علاقہ تمہارے لیے کافی ہے۔ نیز انہوں نے ان کو لکھا کہ اپنے اور دشمن کے علاقے کے درمیان زمینی فاصلہ رکھو۔‘‘
طبری نے دوسری جگہ لکھا ہے:
وکتبوا الی عمر بفتح جلولاء وبنزول القعقاع حلوان واستاذنوہ فی اتباعہم فابی وقال لوددت ان بین السواد وبین الجبل سدا لا یخلصون الینا ولا نخلص الیہم حسبنا من الریف السواد انی آثرت سلامۃ المسلمین علی الانفال.(تاریخ الامم والملوک، ۴/ ۲۸)
’’انہوں نے سیدنا عمر کو خط لکھ کر جلولاء کے فتح ہونے کی خبر دی اور بتایا کہ قعقاع حلوان کے مقام پر مقیم ہیں۔ نیز انہوں نے دشمن کا پیچھا کرنے کی اجازت مانگی لیکن سیدنا عمر نے انکار کر دیا اور کہا کہ میری یہ خواہش ہے کہ سواد اور جبل کے علاقے کے درمیان کوئی ایسی رکاوٹ کھڑی ہو جائے جس کو عبور کر کے نہ وہ ہماری طرف آ سکیں اور نہ ہم ان کی طرف جا سکیں۔ ان شاداب خطوں میں سے ہمارے لیے سواد ہی کافی ہے۔ مجھے مال غنیمت کے مقابلے میں مسلمانوں کی سلامتی زیادہ عزیز ہے۔‘‘
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
کانت الکوفۃ وسوادہا والفروج حلوان والموصل وماسبذان وقرقیسیاء ... ونہاہم عما وراء ذلک ولم یاذن لہم فی الانسیاح. (تاریخ الامم والملوک ۴/ ۵۰)
’’(فتح مدائن کے بعد مسلمانوں کے قبضے میں بس یہ علاقے تھے) کوفہ، سواد ، حلوان، موصل، ماسبذان اور قرقیسیاء۔ اور سیدنا عمر نے ان کو ان سے آگے بڑھنے سے منع کر دیا تھا اور بلاد عجم میں گھسنے کی اجازت نہیں دی تھی۔‘‘
طبری نے یہ بات متعدد جگہوں پر بیان کی ہے کہ سیدنا عمر عراق کے سرسبز وشاداب خطے میں سے صرف سواد کے علاقے پر قناعت کرنا چاہتے تھے:
وکان عمر قد رضی بالسواد من الریف.(تاریخ الامم والملوک ۴/ ۳۱)
’’اور سیدنا عمر عراق کے سرسبز وشاداب علاقوں میں سے صرف سواد کے علاقے پر اکتفا کرنا چاہتے تھے۔‘‘
ابتداء اً اہل فارس نے بھی اس تقسیم کو قبول کر لیا۔ طبری لکھتے ہیں:
وقالوا جمیعا: ولما بلغ اہل فارس قول عمر ورایہ فی السواد وما خلفہ قالوا ونحن نرضی بمثل الذی رضوا بہ. (تاریخ الامم والملوک ۴/ ۳۳)
’’تمام راوی یہ بیان کرتے ہیں کہ جب اہل فارس تک سواد اور اس سے پیچھے کے علاقے کے بارے میں سیدنا عمر کی رائے پہنچی تو انہوں نے کہا کہ ہم بھی اس پر راضی ہیں۔‘‘
الجزیرہ کا علاقہ فتح ہو گیا تو یہاں بھی سیدنا عمر نے اس بات کی پوری کوشش کی کہ پیش قدمی کا سلسلہ کسی طرح سے یہیں رک جائے۔ طبری لکھتے ہیں:
وقد قال عمر حسبنا لاہل البصرۃ سوادہم والاہواز وددت ان بیننا وبین فارس جبلا من نار لایصلون الینا منہ ولا نصل الیہم کما قال لاہل الکوفۃ وددت ان بینہم وبین الجبل جبلا من نار لایصلون الینا منہ ولا نصل الیہم. (تاریخ الامم والملوک ۴/ ۷۹)
’’سیدنا عمر نے کہا: ہم اہل بصرہ کے لیے سواد اور اہواز کا علاقہ کافی ہے۔ کاش ہمارے اور فارس کے علاقے کے درمیان آگ کا کوئی پہاڑ ہوتا ۔ نہ وہ ہم تک پہنچ پاتے اور نہ ہم ان تک پہنچ پاتے۔ اسی طرح آپ نے اہل کوفہ کے بارے میں کہا تھا کہ کاش ان کے اور جبل کے علاقے کے مابین آگ کا کوئی پہاڑ ہوتا۔ نہ وہ اس طرف آ سکتے اور نہ ہم ادھر جا سکتے۔‘‘
علاء بن الحضرمی سیدنا ابوبکرؓ کے زمانے سے بحرین کے گورنر مقرر تھے۔ سیدنا عمر نے اپنے عہد میں انہیں برقرار رکھا اور ان کو تاکید کی کہ وہ سمندر عبور کر کے فارس کے علاقے میں داخل ہونے کی کوشش نہ کریں۔ تاہم انھوں نے اس حکم کی خلاف ورزی کر ڈالی۔ طبری کا بیان ہے:
واستعملہ عمر ونہاہ عن البحر فلم یقدر فی الطاعۃ والمعصیۃ وعواقبہما فندب اہل البحرین الی فارس فتسرعوا الی ذلک ... فحملہم فی البحر الی فارس بغیر اذن عمر وکان عمر لا یاذن لاحد فی رکوبہ غازیا یکرہ التغریر بجندہ استنانا بالنبی صلی اللہ علیہ وسلم وبابی بکر لم یغز فیہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ولا ابوبکر. (تاریخ الامم والملوک ۴/ ۷۹، ۸۰)
’’سیدنا عمر نے ان کو وہاں کا حاکم مقرر کیا اور انھیں سمندر میں مہم جوئی سے منع کیا، لیکن وہ اس حکم کی پابندی یا اس کی خلاف ورزی کی اہمیت اور ان کے نتائج کا ٹھیک ٹھیک اندازہ نہ کر سکے اور اہل بحرین کو اہل فارس پر حملہ کرنے کی دعوت دے دی جس پر وہ فوراً تیار ہو گئے۔ چنانچہ وہ سیدنا عمر کی اجازت کے بغیر ان کو لے کر سمندر میں روانہ ہو گئے۔ سیدنا عمر کسی کو بھی لشکر کشی کی غرض سے سمندر کے سفر کی اجازت نہیں دیتے تھے جس کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ وہ اپنے لشکر کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے اور دوسری یہ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر کے طریقے پر قائم رہنا چاہتے تھے کیونکہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمندر کے راستے سے لشکر کشی کی اور نہ سیدنا ابوبکر نے۔‘‘
سیدنا عمر کو اس کی اطلاع ملی تو وہ شدید ناراض ہوئے اور عمرو کو ان کے عہدے سے معزول کر کے انہیں حکم دیا کہ وہ سعد بن ابی وقاص کے لشکر میں ان کے ماتحت کی حیثیت سے شریک ہو جائیں۹۔
یاقوت حموی لکھتے ہیں:
ان عمر بن الخطاب اراد ان یتخذ للمسلمین مصرا وکان المسلمون قد غزوا من قبل البحرین توج ونوبندجان وطاسان فلما فتحوہا کتبوا الیہ انا وجدنا بطاسان مکانا لا باس بہ فکتب الیہم ان بینی وبینکم دجلۃ لا حاجۃ فی شئ بینی وبینہ دجلۃ ان تتخذوہ مصرا. (معجم البلدان ۱ /۴۳۰)
’’عمر بن الخطاب چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے لیے ایک شہر آباد کریں۔ مسلمانوں نے بحرین کی جانب سے توج اور بندجان اور طاسان پر حملہ کیا تھا۔ جب انھوں نے ان علاقوں کو فتح کر لیا تو امیر المومنین کو لکھا کہ ہمیں طاسان میں (شہر بسانے کے لیے) ایک مناسب جگہ مل گئی ہے۔ امیر المومنین نے جواب میں لکھا کہ میرے اور تمھارے درمیان دِجلہ حائل ہے اور میں کسی ایسی جگہ پر شہر نہیں بسانا چاہتا جس کے اور میرے درمیان دجلہ حائل ہو۔‘‘
فارس کے علاقے میں عام لشکر کشی کی اجازت سیدنا عمر نے ۱۷ ہجری میں احنف بن قیس کی تجویز پر دی۔ سیدنا عمر کو جب اہل فارس کی طرف سے مسلسل شورش اور بغاوت کی اطلاعات ملیں تو انھوں نے اس کے اسباب کی تحقیق کی۔ ان کا خیال تھا کہ شاید مسلمان عمال وہاں کے باشندوں کے ساتھ ناروا سلوک اختیار کرتے ہیں جس سے تنگ آ کر وہ بغاوت پر مجبور ہو جاتے ہیں، لیکن تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ بات درست نہیں۔ تاہم اس کے علاوہ بد امنی اور بغاوت کا کوئی اور واضح سبب بھی ان کے سامنے نہ آ سکا۔ اس موقع پر احنف بن قیس نے اصل صورت حال ان کے سامنے رکھی اور کہا:
یا امیر المومنین اخبرک انک نہیتنا عن الانسیاح فی البلاد وامرتنا بالاقتصار علی ما فی ایدینا وان ملک فارس حی بین اظہرہم وانہم لا یزالون یساجلوننا ما دام ملکہم فیہم ولم یجتمع ملکان فاتفقا حتی یخرج احدہما صاحبہ وقد رایت انا لم ناخذ شیئا بعد شئ الا بانبعاثہم وان ملکہم ہو الذی یبعثہم ولا یزال ہذا دابہم حتی تاذن لنا فلنسح فی بلادہم حتی نزیلہ عن فارس ونخرجہ من مملکتہ وعز امتہ فہنالک ینقطع رجاء اہل فارس ویضربون جاشا. (طبری،تاریخ الامم والملوک ۴/ ۸۹)
’’اے امیر المومنین! میں آپ کو اصل بات بتاتا ہوں۔ آپ نے ہمیں مملکت فارس میں دور تک گھسنے سے منع کر رکھا ہے اور ان علاقوں پر اکتفا کرنے کا حکم دیا ہے جو ہمارے قبضے میں ہیں، جبکہ اہل فارس کا بادشاہ زندہ سلامت ان کے مابین موجود ہے اور جب تک وہ رہے گا، اہل فارس ہمارے ساتھ آمادۂ پیکار رہیں گے۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ ایک سرزمین میں دو بادشاہ اتفاق سے رہیں۔ ان میں سے ایک کو لازماً دوسرے کو نکالنا پڑے گا۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں اہل فارس کی بغاوتوں ہی کے نتیجے میں ایک کے بعد دوسرے علاقے پر قبضہ کرنا پڑا ہے اور ان تمام بغاوتوں کا سرچشمہ ان کا بادشاہ ہے۔ ان کا وتیرہ یہی رہے گا جب تک کہ آپ ہمیں اجازت نہیں دیتے کہ ہم ان کی مملکت میں گھس کر ان کے بادشاہ کو وہاں سے ہٹا دیں اور اس کی سلطنت اور سربلندی کی جگہ سے اس کو نکال دیں۔ اس صورت میں اہل فارس کی امیدیں ٹوٹ جائیں گی اور وہ پرسکون ہو جائیں گے۔‘‘
سیدنا عمر ان کے اس تجزیے پر مطمئن ہوئے اور اس کے بعد بلاد فارس پر لشکر کشی کی اجازت دے دی:
لما رای عمر ان یزدجرد یبعث علیہ فی کل عام حربا وقیل لہ لایزال ہذا الداب حتی یخرج من مملکتہ اذن للناس فی الانسیاح فی ارض العجم حتی یغلبوا یزدجرد علی ما کان فی یدی کسری.(تاریخ الامم والملوک، ۴/ ۱۳۸)
’’جب سیدنا عمر نے دیکھا کہ یزدگرد ہر سال کوئی نہ کوئی معرکہ کھڑا کر دیتا ہے اور ان کو بتایا گیا کہ اگر اسے اس کی مملکت سے نکالا نہ گیا تو وہ یونہی کرتا رہے گا، تب انھوں نے مسلمانوں کی اجازت دی کہ وہ سرزمین عجم میں گھس جائیں اور یزدگرد سے وہ سارا علاقہ چھین لیں جو اس کے قبضے میں ہے۔‘‘
یزدگرد کے بارے میں طبری نے لکھا ہے:
وکاتب من مرو من بقی من الاعاجم فی ما لم یفتتحہ المسلمون فدانوا لہ حتی اثار اہل فارس والہرمزان فنکثوا وثار اہل الجبال والفیرزان فنکثوا وصار ذلک داعیۃ الی اذن عمر للمسلمین فی الانسیاح. (تاریخ الامم والملوک ۴/ ۱۶۷)
’’اور اس نے مرو میں بیٹھ کر ان علاقوں کے اہل عجم سے خط وکتابت کی جن کو مسلمانوں نے فتح نہیں کیا تھا۔ انہوں نے اس کی اطاعت قبول کی، یہاں تک کہ اس نے فارس اور ہرمزان کے باشندوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھار کر معاہدہ توڑنے پر آمادہ کر لیا اور جبال اور فیرزان کے لوگ بھی معاہدے سے منحرف ہو گئے۔ اس صورت حال کے باعث سیدنا عمر کو مسلمانوں کو اجازت دینا پڑی کہ وہ بلاد عجم میں اندر تک گھس جائیں (اور بغاوتوں کو فرو کریں)۔‘‘
خراسان کے فتح ہونے کی اطلاع ملی تو بھی سیدنا عمر نے اس پر کسی خوشی کا اظہار نہیں کیا:
کتب الاحنف الی عمر بفتح خراسان فقال لوددت انی لم اکن بعثت الیہا جندا ولوددت انہ کان بیننا وبینہا بحر من نار فقال علی ولم یا امیر المومنین؟ قال لان اہلہا سینفضون منہا ثلاث مرات فیجتاحون فی الثالثۃ فکان ان یکون ذلک باہلہا احب الی من ان یکون بالمسلمین. (تاریخ الامم والملوک، ۴/ ۱۶۸)
’’احنف نے عمر کو خط لکھ کر خراسان کے فتح ہونے کی اطلاع دی تو انہوں نے کہا: میری خواہش تو یہی تھی کہ میں وہاں کوئی لشکر نہ بھیجتا اور میں تو یہ چاہتا تھا کہ اس کے اور ہمارے درمیان آگ کا کوئی سمندر ہوتا (جسے عبور نہ کیا جا سکتا)۔ سیدنا علی نے کہا: اے امیر المومنین، لیکن کیوں؟ سیدنا عمر نے کہا کہ یہاں کے باشندے تین مرتبہ گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوں گے اور تیسری مرتبہ تو بالکل برباد ہو جائیں گے۔ میں چاہتا تھا کہ یہ آفت انھی لوگوں پر آئے اور مسلمان اس سے محفوظ رہیں۔‘‘
اس موقع پر انھوں نے احنف بن قیس کو مزید پیش قدمی سے روک دیا:
وکتب عمر الی الاحنف ینہاہ عن العبور الی ما وراء النہر وقال احفظ ما بیدک من بلاد خراسان. (البدایہ والنہایہ، ۷/ ۱۲۷)
’’سیدنا عمر نے احنف کو خط لکھ کر انھیں دریا پار کے علاقے میں داخل ہونے سے روک دیا اور کہا کہ تمہارے زیر نگیں جو خراسان کا علاقہ ہے، بس اسی کو سنبھالو۔‘‘
فارس کی فتوحات کے آخری مراحل میں نعمان بن مقرن نے اپنے ساتھیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
قد علمتم ما اعزکم اللہ بہ من ہذا الدین وما وعدکم من الظہور وقد انجز لکم ہوادی ما وعدکم وصدورہ وانما بقیت اعجازہ واکارعہ واللہ منجز وعدہ ومتبع آخر ذلک اولہ. (تاریخ الامم والملوک، ۴/ ۱۳۱)
’’تم اس سربلندی سے بھی اچھی طرح واقف ہو جو اللہ نے تمہیں اس دین کی وجہ سے دی ہے اور غلبہ کے اس وعدے سے بھی جو اس نے تمہارے ساتھ کیا ہے۔ دیکھو، اللہ نے اپنے وعدے کا بڑا حصہ تو پورا کر دیا ہے اور اب اس کا بس تھوڑا سا حصہ باقی رہ گیا ہے۔ اور اللہ اپنے وعدے کو یقیناًپورا کرے گا اور پہلے کی طرح آخری حصے کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچائے گا۔‘‘
سیدنا عمر نے فرمایا:
رایت انہ لم یبق شئ یفتح بعد ارض کسری. (ابو یوسف، الخراج، ص ۲۷)
’’میری رائے یہ ہے کہ کسریٰ کی سرزمین کے بعد اب کوئی علاقہ نہیں بچا جسے فتح کیا جائے۔‘‘
ابن کثیرؒ نے فتوحات کے معاملے میں سیدنا عمر کی پالیسی ان الفاظ میں واضح کی ہے:
والمقصود ان عمر کان یحجر علی المسلمین ان یتوسعوا فی بلاد العجم خوفا علیہم من العجم حتی اشار علیہ الاحنف بن قیس بان المصلحۃ تقتضی توسعہم فی الفتوحات فان الملک یزدجرد لا یزال یستحثہم علی قتال المسلمین وان لم یستاصل شاو العجم والا طمعوا فی الاسلام واہلہ فاستحسن عمر ذلک منہ وصوبہ واذن للمسلمین فی التوسع فی بلاد العجم ففتحوا بسبب ذلک شیئا کثیرا. (البدایہ والنہایہ، ۷/ ۸۸)
’’مطلب یہ ہے کہ سیدنا عمر نے اہل عجم کے خوف کے باعث مسلمانوں کے اس سے روکے رکھا کہ وہ بلاد عجم میں اپنی فتوحات کا سلسلہ بہت زیادہ پھیلائیں، یہاں تک کہ احنف بن قیس نے انھیں مشورہ دیا کہ مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ فتوحات کی توسیع کی جائے، کیونکہ شاہِ فارس یزدگرد مسلسل اپنی قوم کو مسلمانوں کے خلاف قتال پر ابھار رہا ہے اور اگر ان کی ہمت نہ توڑی گئی تو وہ (اپنی سرزمین کے دفاع سے بڑھ کر) خود اسلام اور اہل اسلام کو اپنا نشانہ بنا لیں گے۔ سیدنا عمر نے اس رائے کو پسند کیا اور اس کو درست قرار دے کو مسلمانوں کو وسیع پیمانے پر بلاد عجم کو فتح کرنے کی اجازت دے دی جس کے باعث مسلمانوں نے بہت سے علاقے فتح کر لیے۔‘‘
یزدگرد نے مسلمانوں کے مقابلے میں جن بادشاہوں سے مدد چاہی، ان میں سندھ اور چین کے بادشاہوں کے علاوہ تاتاری بادشاہ خاقان بھی شامل تھا۔ چین کے بادشاہ نے تو یزدگرد کی مدد سے معذرت کر لی، تاہم خاقان نے مسلمانوں کے خلاف اسے بھرپور امداد فراہم کی۔ خراسان کی فتح کے بعد وہ یزدگرد کی مدد کے لیے ایک بڑی فوج لے کر آیا اور بلخ کا قبضہ مسلمانوں سے چھڑا لیا۔ پھر مرو الروذ کے مقام پر ایک معرکہ ہوا۔ تیسرے دن تاتاری فوجیں میدان میں نہیں آئیں۔ اس اس موقع پر احنف بن قیس نے ان کا پیچھا کرنے سے گریز کیا۔ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ ان کا پیچھا کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا کہ اپنی جگہ ٹھہرے رہو اور ان کو جانے دو۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ابن کثیر لکھتے ہیں:
وقد اصاب الاحنف فی ذلک فقد جاء فی الحدیث اترکوا الترک ما ترکوکم. (البدایہ والنہایہ، ۷/ ۱۲۸)
’’احنف کا یہ فیصلہ درست تھا کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ ترک جب تک تمھارے تمھارے مقابلے میں نہ آئیں، ان سے تعرض نہ کرو۔‘‘
سیدنا عمر نے عبد الرحمن بن ربیعہ کو حکم دیا کہ وہ ترکوں کے خلاف جنگ کریں۔ وہ اپنا لشکر لے کر ’باب‘ کو توڑ کر ترکوں کے علاقے میں داخل ہو گئے۔ ابتدا میں تو ترکوں پر رعب کی کیفیت طاری ہو گئی تاہم بعد میں انھوں نے شدید مزاحمت کی اور مسلمانوں کو میدان جنگ چھوڑ کر بھاگنا پڑا اور عبدالرحمن بن ربیعہ اس جنگ میں شہید ہو گئے۱۰۔
اسی طرح سیدنا معاویہ کو جب اطلاع ملی کہ ان کے ایک کمانڈر نے ترکوں پر حملہ کر کے انھیں ایک لڑائی میں شکست دی ہے تو وہ اس پر سخت ناراض ہوئے اور اسے لکھا کہ جب تک میرا حکم نہ آئے، ترکوں سے لڑائی نہ کرنا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ترک عربوں کو نکال کر دور دراز علاقے کی طرف دھکیل دیں گے۱ ۱۔
ایرانیوں کی بغاوتوں کو فرو کرنے کے لیے جب جنگی مہمات کا ہمہ گیر منصوبہ تیار کیا گیا تو ہندوستان میں ایرانی طاقت کے بعض مراکز بھی زیر غور آئے۔ سندھ اور فارس کے سیاسی تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے مشہور مورخ قاضی اطہر مبارک پوری لکھتے ہیں:
’’مکران سے سراندیپ تک کے تمام ہندوستانی راجے مہاراجے شاہان ایران کے باج گزار اور وفادار تھے اور حسب ضرورت اپنے اموال اور رعایا سے ان کی مدد کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ۱۷ ھ کے بعد دیگر مقامات کے حکمرانوں کی طرح ہندوستان کے یہ راجے مہاراجے بھی ایرانیوں کی مدد اور عربوں سے مقابلے کے لیے دوڑ دھوپ کرنے لگے اور ایک راجہ دوسرے راجہ کے پاس اس بارے میں رائے مشورہ کے لیے خطوط اور آدمی بھیجنے لگا یہاں تک کہ ۲۱ھ میں جنگ نہاوند میں ایرانیوں نے اپنی تمام اندرونی اور بیرونی طاقتیں اسلامی فوج کے مقابلے میں جمع کر لیں جن میں سندھ کے راجے اور یہاں کے سپاہی بھی تھے۔ اس واقعہ کے بعد اسلامی فوج نے اپنے حربی نقشہ میں ایران کے اہم مقامات کی طرح ہندوستان کے ان مقامات اور راجوں کو بھی درج کر لیا جہاں سے ان کے خلاف مدد آنے لگی تھی اور کھل کر عربوں کے مقابلہ میں صف آرائی کی نوبت آ گئی تھی۔‘‘ (خلافت راشدہ اور ہندوستان، ص ۶۹)
’’حالات وواقعات کی کڑی ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت کا یہ فیصلہ اور مکران پر حملہ کا منصوبہ ہندوستان کے راجوں کی روش کا عین رد عمل تھا تاکہ ایرانی فوجوں کو یہاں سے مدد نہ مل سکے اور نہ ہی باب الابواب سے لے کر سندھ وہند کی فوجی طاقت منظم ہو کر اسلامی فوج کے مقابلے میں آ سکے۔ مگر ایسے حالات پیدا ہوتے رہے کہ اس فیصلہ کے باوجود خلافت کی طرف سے بلاد فارس اور مکران پر فوج کشی کا موقع نہ مل سکا اور مخالف طاقتیں اس مدت میں پورے طور سے منظم ہو کر ۲۱ھ میں جنگ نہاوند میں مسلمانوں کے مقابلے میں ڈٹ گئیں۔ بالفاظ دیگر مسلمانوں کی طرف سے مزید اتمام حجت ہو گئی اور اب ان ایرانی اور ہندوستانی جنگ بازوں سے نبٹنا بالکل ہی ضروری ہو گیا۔‘‘ (ص ۷۰)
ہندوستان کی طرف سے درپیش اس مسلسل خطرے کے باوجود خلفاے راشدین کی حتی الامکان کوشش یہی تھی کہ اسلامی فوج اس معاملے میں الجھنے نہ پائے۔ چنانچہ ۱۵ ہجری میں بحرین کے گورنر عثمان بن ابی العاص نے مرکز سے اجازت کے بغیر سمندر کے ذریعے سے تھانہ اور دیبل کے علاقوں پر حملہ کروایا تو سیدنا عمرؓ نے اس پر شدید ناراضی کا اظہار کیا۔ آپ نے فرمایا:
یا اخا ثقیف حملت دودا علی عود وانی احلف باللہ لو اصیبوا لاخذت من قومک مثلہم. (بلاذری، فتوح البلدان ۴۳۸)
’’اے ثقفی! تم نے تو ایک کیڑے کو لکڑی پر چڑھا (کر اسے پانی میں ڈال) دیا۔ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر ان کو کوئی نقصان پہنچتا تو میں تمہاری قوم میں سے اتنے ہی افراد کو قصاص میں قتل کر دیتا۔‘‘
اس وقت تک فارس کا علاقہ مفتوح نہیں ہوا تھا۔ فارس کا سارا علاقہ مفتوح ہو گیا اور اسلامی سلطنت کے حدود سندھ تک پہنچ گئے تو بھی ایرانی شورشوں میں سندھی راجاؤں کے کردار کے باوجود سیدنا عمرؓ نے یہی پالیسی برقرار رکھی۔مثال کے طور پر آپ نے قندابیل کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ صورت حال لشکر کشی کے لیے موزوں نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا:
لا یسالنی اللہ عن احد بعثتہ الیہا ابدا.(عیون الاخبار، بحوالہ خلافت راشدہ اور ہندوستان، ص ۶۲)
’’اللہ تعالیٰ مجھ سے کسی ایسے شخص کے بارے میں سوال نہ کرے جسے میں وہاں بھیجوں۔‘‘
ایک اور موقع پر آپ نے مکران کی صورت حال دریافت کی اور اسی نتیجے پر پہنچے کہ وہاں لشکر کشی نہ کی جائے:
فقدم صحار علی عمر بالخبر والمغانم فسالہ عمر عن مکران وکان لا یاتیہ احد الا سالہ عن الوجہ الذی یجئ منہ فقال یا امیر المومنین ارض سہلہا جبل وماؤہا وشل وتمرہا دقل وعدوہا بطل وخیرہا قلیل وشرہا طویل والکثیر بہا قلیل والقلیل بہا ضائع وما وراء ہا شر منہا فقال اسجاع انت ام مخبر؟ قال لا بل مخبر. قال لا واللہ لا یغزوہا جیش لی ما اطعت وکتب الی الحکم بن عمرو والی سہیل الا یجوزن مکران احد من جنودکما واقتصرا علی ما دون النہر. (تاریخ الامم والملوک ۴/ ۱۸۲)
’’صحار فتح کی خبر اور مال غنیمت لے کر سیدنا عمر کے پاس پہنچے تو انہوں نے اس سے مکران کے بارے میں پوچھا۔ اور ان کی عادت تھی کہ جس علاقے سے بھی کوئی آدمی ان کے پاس آتا، وہ اس سے اس طرف کے احوال معلوم کرتے تھے۔ صحار نے کہا کہ اے امیرالمومنین، وہ ایسی سرزمین ہے جس کے میدان پہاڑوں کی طرح دشوار گزار، پانی بہت تھوڑا، کھجوریں بالکل ردی اور دشمن بڑا بہادر ہے۔ وہاں خیر بہت کم اور شر بہت پھیلا ہوا ہے۔ بہت بڑی تعداد بھی وہاں کم پڑ جائے گی جبکہ تھوڑی تعداد تو بالکل ہی ناکارہ ثابت ہوگی۔ اور اس سے آگے کا علاقہ اس سے بھی بدتر ہے۔ یہ سن کر سیدنا عمر نے کہا: تم لفظی تک بندی کر رہے ہو یا ٹھیک ٹھیک حالات بتا رہے ہو؟ صحار نے کہا: بالکل صحیح بتا رہا ہوں۔ سیدنا عمر نے کہا: بخدا، جب تک میرا حکم مانا جاتا ہے، کوئی لشکر حملہ کرنے کے لیے وہاں نہیں جائے گا۔ پھر انہوں نے حکم بن عمرو اور سہیل کو خط لکھا کہ تم دونوں میں سے کسی کا لشکر بھی مکران کی سرحد عبور نہ کرے، بلکہ دریا سے اس پار کے علاقے تک محدود رہو۔‘‘
سیدنا عثمان بھی اپنے عہد حکومت کے آخری ایام سے قبل تک اسی پالیسی پر عمل پیرا رہے، تاہم حالات وواقعات نے آخر کار اس ضبط کو توڑ کر سندھ کی فتح کی راہ ہموار کر دی۱۲۔
مصر کے معاملے کو دیکھیے۔ اس کی فتح کے لیے کیے جانے والے حملے کے بارے میں تاریخی روایتیں دو ہیں:
ایک روایت کے مطابق ۱۸ ہجری میں سیدنا عمر شام کے علاقے جابیہ میں تشریف لائے تو عمرو بن العاص نے انھیں مصر پر حملے کے لیے آمادہ کرنا چاہا اور کہا:
یا امیر المومنین ائذن لی ان اسیر الی مصر وحرضہ علیہا وقال: انک ان فتحتہا کانت قوۃ للمسلمین وعونا لہم وہی اکثر الارض اموالا واعجزہم عن القتال والحرب.
’’اے امیر المومنین! مجھے مصر پر حملے کی اجازت دیجیے۔ انہوں نے سیدنا عمر کو آمادہ کرنے کی بہت کوشش کی اور کہا کہ اگر آپ مصر کو فتح کر لیں گے تو اس سے مسلمانوں کو قوت اور مدد حاصل ہوگی۔ نیز یہ کہ یہ سرزمین مال ودولت سے بھرپور ہے اور وہاں کے لوگ جنگ اور لڑائی کے میدان میں بالکل نکمے ہیں۔‘‘
سیدنا عمر نے مسلمانوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالنا پسند نہ کیا اور اس تجویز کو مسترد کر دیا، تاہم عمرو بن العاص مسلسل ان کے سامنے مصر کی اہمیت اور اس کی فتح میں آسانی کا ذکر کرتے رہے یہاں تک کہ وہ اس کی نیم دلانہ اجازت دینے پر رضامند ہو گئے۔ آپ نے عمرو سے فرمایا:
سر وانا مستخیر اللہ فی مسیرک وسیاتی کتابی الیک سریعا ان شاء اللہ تعالیٰ فان ادرکک کتابی وامرتک فیہ بالانصراف عن مصر قبل ان تدخلہا او شیئا من ارضہا فانصرف وان انت دخلتہا قبل ان یاتیک کتابی فامض لوجہک واستعن باللہ واستنصرہ. (سیوطی، حسن المحاضرۃ، ۱/ ۱۰۶)
’’تم روانہ ہو جاؤ لیکن میں اس معاملے میں اللہ تعالیٰ سے بہتر راہنمائی کی دعا کروں گا۔ جلد ہی میرا خط تمھیں ملے گا۔ پس اگر میں تمھیں واپس پلٹنے کا حکم دوں اور میرا خط تمھیں مصر یا اس کے کسی علاقے میں داخل ہونے سے پہلے مل جائے تو واپس پلٹ آنا۔ اور اگر میرا خط ملنے سے پہلے تم اس میں داخل ہو چکے ہوئے تو اپنی مہم جاری رکھنا اور اللہ سے مدد اور نصرت کے طالب رہنا۔‘‘
عمرو بن العاص لشکر لے کر روانہ ہو گئے تو مصر میں داخل ہونے سے قبل انھیں سیدنا عمر کا خط ملا جس میں انھوں نے انھیں آگے بڑھنے سے روک دیا تھا، لیکن عمرو نے اس خدشے کو محسوس کرتے ہوئے خط کو فوراً پڑھنے کے بجائے اس وقت کھولا جب وہ اپنی فوج کے ساتھ مصر میں داخل ہو چکے تھے ۔۳۱
دوسری روایت یہ ہے کہ عمرو ابن العاص کو سرے سے سیدنا عمرؓ نے اجازت دی ہی نہیں تھی اور انھوں نے بلا اجازت یہ قدم اٹھایا تھا۔ بلاذری لکھتے ہیں:
قالوا وکان عمرو ابن العاصی حاصر قیساریۃ بعد انصراف الناس
من حرب الیرموک ثم استخلف علیہا ابنہ حین ولی یزید بن ابی سفیان ومضی الی مصر من تلقاء نفسہ فی ثلاثۃ آلاف وخمس ماءۃ فغضب عمر لذلک وکتب الیہ یوبخہ ویعنفہ علی افتتانہ علیہ برایہ وامرہ بالرجوع الی موضعہ ان وافاہ کتابہ دون مصر فورد الکتاب علیہ وہو بالعریش. (فتوح البلدان، ۲۱۹)
’’اہل تاریخ بتاتے ہیں کہ عمرو بن العاص نے جنگ یرموک سے فارغ ہونے کے بعد قیساریہ کا محاصرہ کر لیا۔ پھر جب یزید بن ابی سفیان واپس چلے گئے تو اپنے بیٹے کو وہاں اپنا نائب بنا کر خود ہی فیصلہ کر کے ساڑھے تین ہزار کا لشکر لے کر مصر کی طرف روانہ ہو گئے۔ سیدنا عمر نے اس پر سخت ناراض ہوکر ان کو خط لکھا اور ان سے پوچھے بغیر ازخود فیصلہ کرنے پر عمرو کو سخت سست کہا اور انہیں حکم دیا کہ اگر یہ خط انھیں مصر پہنچنے سے پہلے مل جائے تو اپنی جگہ پر واپس چلے جائیں۔ عمرو کو یہ خط اس وقت ملا جب وہ عریش میں تھے۔‘‘
مصر سے آگے افریقہ کی فتح کے معاملے میں بھی یہی صورت حال رہی۔ عمرو بن العاص جب مصر کے علاقوں کو فتح کرتے ہوئے ۲۲ ہجری میں اس کے آخری شہر اطرابلس تک پہنچ گئے تو انھوں نے سیدنا عمر کے نام خط میں لکھا:
انا قد بلغنا طرابلس وبینہا وبین افریقیۃ تسعۃ ایام فان رای امیر المومنین ان یاذن لنا فی غزوہا فعل.(فتوح البلدان، ص ۲۳۳)
’’ہم طرابلس پہنچ گئے ہیں اور یہاں سے افریقہ تک نو دن کا سفر ہے۔ اگر امیر المومنین مناسب سمجھیں تو ہمیں افریقہ پر حملہ کرنے کی اجازت دے دیں۔‘‘
امیر المومنین نے جواب میں لکھا:
لا تدخل افریقیۃ فانہا مفرقۃ لاہلہا غیر مجتمعۃ ماؤہا قاس ما شربہ احد من العالمین الا قست قلوبہم. (یاقوت الحموی، معجم البلدان، ۱/ ۲۲۹)
’’افریقہ کے علاقے میں مت داخل ہونا۔ یہ سرزمین اپنے باشندوں کو اکٹھا نہیں رہنے دیتی بلکہ منتشر کر دیتی ہے۔ اس کے پانی میں ایسی تاثیر ہے کہ دنیا کی جو بھی قوم اسے پیتی ہے، ان کے دل سخت ہو جاتے ہیں۔‘‘
سیدنا عثمان نے بھی اپنے عہد میں ابتداء اً افریقہ میں داخل ہونے سے گریز کی پالیسی کو برقرار رکھا، لیکن بعد میں حالات کو دیکھتے ہوئے اس کو فتح کرنے کی اجازت دے دی اور عبد اللہ بن ابی سرح نے ۲۷ یا ۲۸ ہجری میں افریقہ پر حملہ کیا۔ ۱۴
حبشہ کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق صحابہ نے کوئی پیش قدمی نہیں کی۔ اس ضمن میں صرف ایک واقعہ عہد صحابہ کی تاریخ میں رپورٹ ہوا ہے۔ طبری لکھتے ہیں:
وفیہا بعث عمر رضی اللہ عنہ علقمۃ بن مجزز المدلجی الی الحبشۃ فی البحر وذلک ان الحبشۃ کانت تطرفت فی ما ذکر طرفا من اطراف الاسلام فاصیبوا فجعل عمر علی نفسہ الا یحمل فی البحر احدا ابدا. (تاریخ الامم والملوک ۴/ ۱۱۲)
’’۲۰ ہجری میں عمر رضی اللہ عنہ نے علقمہ بن مجزز مدلجی کو سمندر کے راستے سے حبشہ کی طرف بھیجا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اہل حبشہ نے مسلمانوں کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کی تھی۔ تاہم علقمہ کے ساتھ جانے والی یہ جماعت ہلاک ہو گئی جس پر عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اوپر لازم کر لیا کہ وہ سمندر کے راستے سے کبھی کوئی لشکر نہیں بھیجیں گے۔‘‘
مذکورہ پالیسی کی پابندی کے معاملے میں سب سے زیادہ سخت اور بے لچک رویہ سیدنا عمر کا تھا اور ان کی نسبت سے اس کی معنویت اس تناظر میں بالخصوص دو چند ہو جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض پیش گوئیوں کی بنا پر وہ اس بات سے اچھی طرح واقف تھے کہ ان کی وفات سے مسلمانوں کی قوت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور ان کی قوت وشدت اندر کا رخ کر کے مسلمانوں کے باہمی قتل وقتال کی شکل اختیار کر لے گی۔ ۱۵ ایک موقع پر انھوں نے فرمایا:
واللہ لا یفتح بعدی بلد فیکون فیہ کبیر نیل بل عسی ان یکون کلا علی المسلمین. (ابو یوسف، الخراج، ص ۲۶)
’’بخدا، میرے بعد کوئی علاقہ ایسا فتح نہیں ہوگا جس سے مسلمانوں کو کوئی بڑا فائدہ حاصل ہو، بلکہ الٹا اس بات کا خدشہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے لیے بوجھ بن جائے۔‘‘
________
۹ تاریخ الامم والملوک ۴/ ۸۱۔
۱۰ البدایہ والنہایہ، ۷/ ۱۲۳، ۱۲۴۔
۱۱ مسند ابی یعلی، ۷۳۷۶۔
۱۲ بلاذری، فتوح البلدان ۴۳۸، ۴۳۹۔
۱۳ Philip K. Hitti, History of the Arabs, p.160۔
۱۴ بلاذری، فتوح البلدان ص ۲۳۴۔
۱۵ بخاری، رقم ۵۲۵۔
____________