تاہم ایک رائے یہ بھی موجود ہے کہ اگر عملی صورت حالات کسی غیر مسلم گروہ کے ساتھ اسی شرط پر صلح کرنے پر مجبور کر رہی ہو کہ ان سے جزیہ کے بجائے زکوٰۃ لی جائے تو ایسا کرنا جائز ہے۔ ابن قدامہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ان بنی تغلب کانوا ذوی قوۃ وشوکۃ لحقوا بالروم وخیف منہم الضرر ان لم یصالحوا ولم یوجد ہذا فی غیرہم فان وجد ہذا فی غیرہم فامتنعوا من اداء الجزیۃ وخیف الضرر بترک مصالحتہم فرای الامام مصالحتہم علی اداء الجزیۃ باسم الصدقۃ جاز ذلک اذا کان الماخوذ منہم بقدر ما یجب علیہم من الجزیۃ او زیادۃ. (المغنی، ۹/ ۲۷۷)
’’بنو تغلب قوت وشوکت کے حامل تھے اور اہل روم کے ساتھ مل گئے تھے، اور اگر ان کے ساتھ صلح نہ کی جاتی تو ان کی جانب سے نقصان پہنچنے کا خدشہ تھا۔ یہ وجہ کسی اور گروہ میں نہیں پائی جاتی۔ ہاں، اگر کسی اور میں بھی یہ وجہ پائی جائے اور وہ جزیہ دینے سے انکار کریں اور ان کے ساتھ صلح نہ کرنے کی صورت میں ضرر کا خدشہ ہو اور حکمران صدقہ کے نام سے ان سے جزیہ وصول کرنے پر صلح کرنے کو مناسب سمجھے تو ایسا کرنا اس کے لیے جائز ہے، بشرطیکہ ان سے وصول کی جانے والی رقم جزیہ کے مساوی یا اس سے زیادہ ہو۔‘‘
اس ضمن میں ایک فقہی رائے یہ بھی ہے کہ اگر غیر مسلم جزیہ کے بجائے صدقہ کے نام سے رقم ادا کرنا چاہیں تو پھر بنو تغلب کی نظیر کے مطابق ان سے دوہری رقم وصول کی جانی چاہیے۴۰۔
اس پس منظر میں امام شافعیؒ کے ہاں اس حوالے سے پایا جا نے والا توسع کا رویہ خاص طور پر قابل توجہ ہے، اس لیے کہ وہ مجبوری کی کسی حالت کے بغیر عام حالات میں بھی خاص ’جزیہ‘ کے نام سے کسی رقم کی وصولی کو لازم نہیں سمجھتے، بلکہ ان کے نزدیک اگر غیر مسلم کسی بھی شکل میں اتنی رقم کی ادائیگی پر آمادہ ہوں جو جزیہ کے مساوی ہو تو ان کے ساتھ صلح جائز ہے۔ فرماتے ہیں:
فاذا غزا الامام قوما فلم یظہر علیہم حتی عرضوا علیہ الصلح علی شئ من ارضہم او شئ یودونہ عن ارضہم فیہ ما ہو اکثر من الجزیۃ او مثل الجزیۃ فان کانوا ممن توخذ منہم الجزیۃ واعطوہ ذلک علی ان یجری علیہم الحکم فعلیہ ان یقبلہ منہم. (الام، ۴/ ۱۸۲)
’’جب امام کسی قوم پر حملہ کرے اور ان پر غالب آنے سے پہلے ہی وہ اس شرط پر صلح کی پیش کش کر دیں کہ اپنی سرزمین یا اس کی پیداوار کا کچھ حصہ، جو قیمت میں جزیہ سے زیادہ یا اس کے مساوی ہو، مسلمانوں کو دیں گے تو اس صورت میں اگر وہ قوم ایسی ہو جس سے جزیہ لینا جائز ہے اور اس کے ساتھ وہ یہ شرط بھی مان لیں کہ ان پر مسلمانوں کا حکم جاری ہوگا تو امام پر لازم ہے کہ ان کی یہ پیش کش قبول کر لے۔ ‘‘
واذا صالحوہم علی ان الارض کلہا للمشرکین فلا باس ان یصالحہم علی ذلک ویجعلوا علیہم خراجا معلوما اما شئ مسمی یضمنونہ فی اموالہم کالجزیۃ واما شئ مسمی یودی عن کل زرع من الارض کذا من الحنطۃ او غیرہا اذا کان ذلک اذا جمع مثل الجزیۃ او اکثر. (الام، ۴/ ۱۸۲)
’’اور کفار اس شرط پر صلح کرنا چاہیں کہ زمین ساری کی ساری ان کی ملکیت ہوگی تو صلح کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس صورت میں ان پر ایک متعین خراج عائد کر دیا جائے، خواہ وہ ان کے اموال میں جزیہ کی شکل میں کوئی متعین رقم ہو یا زمین کی پیداوار مثلاً گندم یا کسی اور فصل کی کوئی متعین مقدار ، بشرطیکہ اس کی مجموعی قیمت جزیہ کے مساوی یا اس سے زیادہ ہو۔‘‘
اس صورت میں اصل مقصد محض ایک مخصوص رقم کی وصولی قرار پاتا ہے اور اس کی وہ علامتی اہمیت، جس کے پیش نظر قرآن مجید میں اصلاً اسے منکرین حق پر عائد کرنے کا حکم دیا گیا، ثانوی ہو جاتی ہے ، کیونکہ جزیہ کے اصل تصور کی رو سے حقارت اور ذلت کے بغیر وصول کی جانے والی کسی بھی رقم کو ’جزیہ‘ نہیں کہا جا سکتا۔ جصاص لکھتے ہیں:
ومتی اخذناہا علی غیر ہذا الوجہ لم تکن جزیۃ لان الجزیۃ ہی ما اخذ علی وجہ الصغار. (احکام القرآن، ۳/ ۱۰۱)
’’اگر ہم ذلت اور عار کے بغیر وصول کریں گے تو وہ ’جزیہ‘ نہیں ہوگا کیونکہ ’جزیہ‘ کہتے ہی اس رقم کو ہیں جو ذلت اور حقارت کے ساتھ وصول کی جائے۔‘‘
جزیہ کے نفاذ کے سلسلے میں ہندوستان میں قائم ہونے والی مسلم سلطنتوں میں جو طریقہ اختیار کیا گیا، وہ بھی اس کی فقہی حیثیت متعین کرنے کے ضمن میں اہم نظیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اوپر ہم نے سیدنا عمر کے فقہی رجحان کی وضاحت کرتے ہوئے یہ اخذ کیا ہے کہ وہ قتل مشرکین اور نفاذ جزیہ میں سے کسی بھی حکم کو اصلاً قابل تعمیم نہیں سمجھتے تھے، چنانچہ انھوں نے مجوس سے اس وقت تک جزیہ وصول نہیں کیا جب تک ان کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ نہیں آ گیا۔ یہ رجحان کہ اہل کتاب اور مجوس کے علاوہ دوسرے غیر مسلم گروہوں سے جزیہ لینا ضروری نہیں، اگرچہ فقہی بحثوں کا باقاعدہ حصہ نہیں بن سکا، تاہم کم از کم ہندوستان کی حد تک یہ اصول عملاً مان لیا گیا۔ چنانچہ عرب فاتحین کی طرف سے تو بعض علاقوں کے باشندوں سے جزیہ وصول کیے جانے کی مثالیں ملتی ہیں۴۱، لیکن ہندوستان میں باقاعدہ قائم ہونے والی مسلم حکومتوں میں بعض مخصوص ادوار مثلاً فیروز شاہ تغلق اور اورنگ زیب عالمگیر کے دور حکومت کے علاوہ عمومی طور پر اہل اقتدار نے یہاں کے غیر مسلموں پر جزیہ نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مقالہ نگار نے لکھا ہے:
’’دہلی کی اسلامی سلطنت میں جزیہ عائد کرنے کا تذکرہ شاذ ونادر ہی ملتا ہے، تاہم جزیہ اور خراج کے الفاظ اس عہد سے متعلق کتب تاریخ میں ملتے ہیں، لیکن شرعی لحاظ سے نہیں، بلکہ عرفی لحاظ سے مالیے کا مفہوم ادا کرنے کے لیے۔ مثلاً امیر حسن سجزی (م ۷۲۲ھ) صاحب فوائد الفواد۴۲ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے عہد میں ا س ٹیکس کو بھی جزیہ کہا جاتا تھا جو ہندو راجہ مسلمانوں سے وصول کرتے تھے۔ البتہ فیروز شاہ تغلق نے اپنے عہد حکومت میں یہ حکم دیا تھا کہ بیت المال کی آمدنی کے ذرائع صرف وہی ہوں گے جو شرع محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور دینی کتابیں ان پر شاہد ہیں۔‘‘ (اردو دائرۂ معارف اسلامیہ، مقالہ ’’جزیہ‘‘، ۷/ ۲۴۷، ۲۴۸)
اے بی ایم حبیب اللہ اپنی فاضلانہ تصنیف میں لکھتے ہیں:
’’یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کہ ابتدائی دور کے روزنامچوں نے مفتوحہ ہندوؤں پر نافذ کیے جانے والے جزیے کا ذکر کہیں نہیں کیاہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ عام ٹیکس وصول نہیں کیا جا تا تھا۔ اس بات کا جواز ضرور ہے کہ اس وقت جزیے کی اصطلاح کے معنی محض انفرادی طورپر لیے جانے والے امدادی محصول کے نہیں تھے جیسا کہ آج بھی سمجھا جاتا ہے یا بعد کے آنے والے مورخین نے اس کی تشریح کی تھی۔ اس قسم کے ٹیکس کا سب سے پہلا نفاذ فیروز خلجی نے کیا تھا جس نے ہندوؤں پر یہ ٹیکس عائد کرنا تسلیم کیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ عملی طور پر اس ٹیکس کو ہمیشہ اس کی تمام باریکیوں اور ضوابط کے ساتھ نہیں نافذ کیا گیا تھا۔‘‘ (ہندوستان میں مسلم حکومتوں کی اساس، مترجم: مسعود الحق، ص ۳۲۳، ۳۲۴)
فیروز شاہ کے زمانے میں ’جزیہ‘ عائد کیے جانے کا ذکر ’تاریخ فیروز شاہی‘ کے مصنف سراج عفیف نے یوں بیان کیا ہے:
’’فیروز شاہ سے پیشتر کسی بادشاہ کے عہد میں غیر مسلم رعایا پر جزیہ نہیں عائدکیا گیا تھا اور ان فرماں روایان قدیم نے اس محصول کو معاف کر دیا تھا۔ فیروز شاہ نے تمام علما ومشایخ کو جمع کیا اور ان سے فرمایا کہ یہ عام غلطی ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے کہ غیر مسلم افراد سے جزیہ نہیں وصول کیا جاتا۔‘‘ (تاریخ فیروز شاہی، مترجم: محمد فدا علی طالب، ص ۲۶۰)
فیروز شاہ نے علماے شریعت ومشایخ طریقت کے مشورے سے ہندوؤں پر جزیے کے نفاذ کا اعلان کیا، تاہم اس کے مشیروں کی ’ثقاہت‘ کا اندازہ دو باتوں سے کیا جا سکتا ہے۔ ایک یہ کہ انھوں نے پجاریوں سے جزیہ لینے پر اصرار کیا، حالانکہ عبادت گاہوں میں مقیم پروہتوں اور پجاریوں کو جزیہ سے مستثنیٰ رکھنے کی روایت اسلامی تاریخ میں آغاز ہی سے چلی آ رہی ہے۔ دوسرے یہ کہ انھی علما ومشایخ کے مشورے پر فیروز شاہ نے ایک مندر کے پروہت کو مندر قائم کرنے اور اس میں بتوں کی پرستش کرنے پر آگ میں زندہ جلا دیا۔ سراج عفیف کا بیان ہے:
’’ایک راست گفتار مخبر نے بادشاہ کو اطلاع دی کہ دہلی قدیم میں ایک ناہنجار بت پرست پیدا ہوا ہے جس نے اپنے خاص مکان میں مندر بنایا ہے اور ہر قوم اور ہر طبقے کے اشخاص پرستش کے لیے اس شخص کے مکان میں جاتے ہیں۔ اس زنار دار نے ایک مہرہ چوبیں بنایا ہے اور اس کو مختلف اقسام کے نقش سے درست کر دیا ہے اور تمام ہندو معین روز اس کے قریب جمع ہو کر پرستش کرتے ہیں۔‘‘ (ص ۲۵۸)
’’علما و مشایخ ومفتیان شرع نے تمام کیفیت معلوم کرنے کے بعد مسئلہ شرعی بیان فرمایا اور عرض کیا کہ شرع شریف کا حکم یہ ہے کہ پیشتر اس زنار دار کو اسلام لانے کی ہدایت کی جائے۔ اگر قبول نہ کرے تو اس کو زندہ جلا دیا جائے۔ ... زنار دار نے اضطراب کی حالت میں سینہ سے آہ کھینچی اور اس درمیان میں سر کے جانب سے بھی آگ بے حد روشن ہوئی اور یہ شخص جل کر خاک سیاہ ہو گیا۔‘‘ (ص ۲۵۹)
سلطان علاؤ الدین نے اپنے عہد میں قاضی مغیث الدین بیانوی سے ہندوؤں کے متعلق شرعی احکام دریافت کیے تو انھوں نے بتایا کہ امام ابوحنیفہ کے علاوہ باقی ائمہ کے نزدیک ہندوؤں سے جزیہ قبول کرنا جائز نہیں اور ان کے لیے حکم یہ ہے کہ اگر وہ اسلام نہ لائیں تو انھیں قتل کر دیا جائے۔ ’’آب کوثر‘‘ کے مصنف نے سلطان کا جواب یوں نقل کیا ہے:
’’سلطان علاؤ الدین قاضی مغیث کے جواب پر بہت ہنسا اور کہا کہ یہ باتیں جو تم نے کہیں، میں نہیں جانتا۔ مجھے صرف اتنا پتا ہے کہ خوط اور مقدم (یعنی دیہات کے ہندو نمبردار وغیرہ) اچھے اچھے کپڑے پہنتے ہیں۔ ولایتی کمانوں سے تیر اندازی کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ محاربہ کرتے اور شکار کھیلتے ہیں،لیکن جہاں خراج، جزیہ، کری (مکانوں کے ٹیکس) اور چرائی (یعنی چراگاہوں کے ٹیکس) کا تعلق ہے، وہ ایک چیتل بھی ادا نہیں کرتے۔‘‘ (شیخ محمد اکرم، آب کوثر، ص ۱۶۴)
اورنگ زیب عالمگیر نے اپنے دور حکومت میں شریعت اسلامی کی ترویج کی جو کوششیں کیں، ان کے ضمن میں ہندووں پر جزیہ عائد کرنے کا ذکر بھی ملتا ہے۴۳۔ غیر مسلموں کے حوالے سے عالمگیر کا طرز عمل مورخین میں ہمیشہ زیر بحث رہا ہے اور اگرچہ بعض مسلم اہل علم نے ا س کے جملہ اقدامات کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے۴۴، لیکن مسلم مورخین ہی میں اس کے برعکس رجحان کے حامل ایسے اہل علم موجود ہیں جو عالمگیر کو کسی نہ کسی حد تک غیر روادارانہ رویے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۴۵۔ چنانچہ جزیہ کے اجرا سے متعلق اس کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا سید محمد میاں لکھتے ہیں کہ:
’’جزیہ لینے میں اورنگ زیب نے اجتہادی غلطی کی۔‘‘
مزید لکھتے ہیں:
’’واقعہ یہ ہے کہ جزیہ کا اجرا ہوا ہی نہیں۔ جس کو جزیہ کہا جاتا ہے، وہ جزیہ ہی نہ تھا۔‘‘ (علماء ہند کا شاندار ماضی، ۱/ ۵۷۳)
ہندوستان کے بعض دوسرے علاقوں میں بھی کبھی جزیہ عائد کرنے اور کبھی اسے موقوف کر دینے کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے۔ مثلاً کشمیر کے فرماں روا سلطان زین العابدین بڈ شاہ کے بارے میں مورخین بتاتے ہیں کہ اس نے ہندوؤں سے جزیہ لینا موقوف کر دیا تھا اور گاؤ کشی بند کرا دی تھی۴۶۔
کلاسیکی فقہی روایت چونکہ بنیادی طور پر صدر اول میں جزیرۂ عرب اور اس کے گرد ونواح میں قائم ہونے والی اسلامی سلطنت کے قانونی تعامل اور فقہی نظائر پر مبنی ہے، اس لیے دور دراز علاقوں مثلاً ہندوستان میں اختیار کیے جانے والے فقہی اجتہادات کو اس میں کوئی جگہ نہیں مل سکی، چنانچہ اس روایت کے تسلسل میں خود ہندوستان میں تصنیف کی جانے والی فقہی کتابوں میں بھی اسلامی ریاست کے غیر مسلم باشندوں کے لیے ’اہل ذمہ‘ کے عنوان سے دوسرے درجے کے شہریوں کی مخصوص حیثیت مقرر کی گئی اور ان کے لیے ’جزیہ‘ کی ادائیگی کے علاوہ مخصوص امتیازی قوانین کی پابندی بھی لازم قرار جاتی رہی ہے۔ کلاسیکی روایت کے مطابق غیر مسلموں کے ساتھ اسلامی ریاست کے تعلق کی آئیڈیل صورت عقد ذمہ ہی ہے جس میں ان پر جزیہ کی ادائیگی اور دیگر شرائط کی پابندی لازم ہو اور وہ کفر واسلام کے اعتقادی تناظر میں اہل اسلام کے محکوم اور ان کے مقابلے میں ذلیل اور پست ہو کر رہیں۔ فقہا کے نزدیک یہ اصول تمام غیر مسلموں پر لاگو ہوتا ہے، خواہ وہ جنگ کے نتیجے میں مفتوح ہوئے ہوں یا صلح کے کسی معاہدے کے تحت مسلمانوں کے زیرنگیں آئے ہوں یا دار الحرب کی شہریت سے دستبردار ہو کر دار الاسلام میں قیام پذیر ہونا چاہتے ہوں۔ تاہم یہ تصور فقہی اورنظری بحثوں میں زندہ رہنے کے باوجود، خلافت عثمانیہ کے ایک بڑی اور مستحکم سیاسی طاقت کے طور پر رونما ہونے کے بعد بتدریج تغیر پذیر ہوتا چلا گیا۔ سلطنت عثمانیہ نے بدلتے ہوئے عالمی حالات اور سیاسی وقانونی تصورات کے تحت جہاں یورپی جمہوریت کے دوسرے بہت سے تصورات کو اپنے نظام میں جگہ دی، وہاں سلطنت کی غیر مسلم رعایا کے لیے مذہب اور نسل کی تفریق کے بغیر مساوی شہری اور مذہبی حقوق سے بہرہ مند ہونے کا حق بھی تسلیم کیا اور مختلف معاہدوں میں یورپی طاقتوں کو اس کی باقاعدہ یقین دہانی کرائی۴۷۔
عثمانی خلیفہ سلطان عبد المجید اول نے ۱۸ فروری ۱۸۵۶ء کو ’’خط ہمایوں‘‘ کے نام سے ایک فرمان جاری کیا جس کے تحت ’جزیہ‘ کے پرانے قانون کو، جو غیر مسلموں کے دوسرے درجے کے شہری ہونے کے لیے ایک علامت کی حیثیت رکھتا تھا، ختم کر کے اس کی جگہ ’’بدل عسکری‘‘ کے نام سے ایک متبادل ٹیکس نافذ کیا گیا جو اقلیتوں کی مساوی شہری حیثیت کے جدید جمہوری تصورات کے مطابق تھا۴۸۔
خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد دنیا کے سیاسی نظام میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے مسلمانوں کے غلبہ اور تفوق اور اس کے تحت پیدا ہونے والے قانونی وسیاسی تصورات کو بالکل تبدیل کر دیا ہے۔ بیسویں صدی میں یورپی نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کی جو قومی ریاستیں وجود میں آئیں، ان میں سے کسی میں بھی، چاہے وہ مذہبی ریاستیں ہوں یا سیکولر، غیر مسلموں کو ’اہل ذمہ‘ کی قانونی حیثیت نہیں دی گئی اور نہ ان پر جزیہ نافذ کیا گیا ہے۔ ان میں سعودی عرب، ایران، اور طالبان کی ٹھیٹھ مذہبی حکومتیں بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں بھی، جہاں اسلام مملکت کا سرکاری مذہب اور قانون سازی کا اعلیٰ ترین ماخذ ہے، غیر مسلموں کو ’اہل ذمہ‘ قرار نہیں دیا گیا اور نہ اہل علم کی جانب سے اس کا مطالبہ ہی کبھی سامنے آیا ہے، حتیٰ کہ سید سلیمان ندوی، مولانا مفتی محمد شفیع اور سید ابو الاعلیٰ مودودی جیسے اہل علم نے بھی اپنی تحریروں میں نظری طور پر جزیہ کے قانون کی وضاحت کرنے کے باوجود جب ۱۹۵۲ء میں ۳۱ سرکردہ علما کے ساتھ مل کر اسلامی ریاست کے لیے رہنما ۲۲ دستوری نکات مرتب کیے تو ان میں غیر مسلموں کی قانونی حیثیت پر گفتگو کرتے ہوئے ’جزیہ‘ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
معاصر تناظرمیں اسلامی ریاست کے عملی ڈھانچے اور اس کے خط وخال کو موضوع بحث بنانے والے اہل علم نے بھی بالعموم اس موقف سے اتفاق کو ضروری نہیں سمجھا اور یہ نقطۂ نظر عام ہے کہ جدید اسلامی ریاستوں میں غیر مسلموں کی حیثیت ’اہل ذمہ‘ کی نہیں ہے، چنانچہ ان پر جزیہ عائد کرنے پر اصرار نہیں کیا جا سکتا، تاہم اس نقطہ نظر کے ترجمان اہل علم کے ہاں روایتی فقہی تصور سے اختلاف کی بنیاد کے حوالے سے مختلف رجحانات دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً ایک نقطہ نگاہ یہ ہے کہ عقیدہ ومذہب کی بنیاد پر اسلامی ریاست کے باشندوں کے مدنی حقوق میں امتیاز کا رویہ مخصوص تاریخی اسباب کا نتیجہ تھا اور سیدنا عمر نے اس وقت کی معاصر اقوام میں محکوم ومفتوح قوموں کے لیے رائج قانونی نظام ہی کو اہل ذمہ پرنافذ کر دیا تھا۴۹۔ تاہم یہ بات درست دکھائی نہیں دیتی، کیونکہ ’اہل ذمہ‘ اور ان کی مخصوص محکومانہ حیثیت کے فقہی تصور، بالخصوص انھیں محکوم بنا کر ان پر جزیہ عائد کرنے کی نہایت واضح اساسات خود قرآن وسنت کے نصوص میں پائی جاتی ہیں اور اگر جدید معاشرے میں اس کا تسلسل ضروری نہیں تو بھی شرعی و عقلی طور پر اس تصور کی توجیہ تاریخی نہیں، بلکہ مذہبی بنیادوں پر کی جانی چاہیے۔
اس ضمن میں ایک رائے یہ سامنے آئی ہے کہ جزیہ عائد کیے جانے کا حکم اصلاً اسلامی ریاست کے ایسے غیر مسلم باشندوں کے لیے ہے جو جنگ کے نتیجے میں مفتوح ہوئے ہوں یا جنھوں نے صلح کا معاہدہ کرتے وقت ’جزیہ‘ کی ادائیگی کی شرط منظور کی ہو۔ مولانا مودودی لکھتے ہیں:
’’اسلامی حکومت میں غیر مسلموں سے جزیہ لینے کا حکم اس حالت کے لیے دیا گیا ہے جبکہ وہ یا تو مفتوح ہوئے ہوں یا کسی معاہدہ کی رو سے جزیہ دینے کی واضح شرط پر اسلامی حکومت کی رعایا بنائے گئے ہوں۔ پاکستان میں چونکہ یہ دونوں صورتیں پیش نہیں آئی ہیں، اس لیے یہاں غیر مسلموں پر جزیہ عائد کرنا میرے نزدیک شرعاً ضروری نہیں ہے۔‘‘ (رسائل ومسائل، ۴/ ۲۴۶)
سید حامد عبد الرحمن الکاف لکھتے ہیں:
’’معاصر اسلامی ریاستوں میں غیر مسلموں کے قانونی اور مدنی حقوق کے بارے میں وہی پرانا موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ وہ ’’ذمی‘‘ ہیں اور انھیں ’’جزیہ‘‘ ادا کر کے فوجی خدمات سے اپنے آپ کو مستثنیٰ کرنا ہے۔ یہ موقف ان دستوری اور قانونی دور رس تبدیلیوں کے عدم ادراک کا نتیجہ ہے جو خود مسلم معاشروں میں صدیوں تک بیرونی سامراج کی حکومت کے بعد وقوع پذیر ہوئی ہیں۔ ان معاشروں کی مسلم اکثریت اور غیر مسلم اقلیت دونوں سامراج کے مظالم اور لوٹ کھسوٹ کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ دونوں ہی نے سامراجی نظاموں سے گلو خلاصی کی خاطر برابر کی جدوجہد کی اور قربانیاں دی ہیں۔ جب آزادی مل گئی تو مسلم اکثریت کیونکر اور کس طرح اچانک حاکم اور غیر مسلم اقلیتیں محکوم بن گئیں؟ حالانکہ جنگ آزادی میں دونوں برابر کے شریک تھے اور سامراج کے ظلم وستم کا دونوں ہی خمیازہ بھگت رہے تھے۔
ان تاریخی تبدیلیوں کو نہ سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس آیت کے معنی ومفہوم کو بھی نظر انداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کو ’’آیت جزیہ‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔...آیت بالا صاف صاف جنگ کے بعد شکست خوردہ لوگوں پر جزیہ عائد کرنے کا حکم دیتی ہے۔ اس طرح جزیہ جنگ میں شکست کا نتیجہ ہوا۔ بالفاظ دیگر جنگ کے بغیر اور شکست کے بغیر نہ تو جزیہ فرض ہی کیا جا سکتا ہے اور نہ وصول ہی کیا جا سکتا ہے۔ صلح کے معاہدے کی شرائط میں یہ کوئی شکل ہو تو یہ بالکل الگ بات ہے۔ یہ صلح اور اس کی شرائط کا نتیجہ ہے نہ کہ جنگ کا۔ بات چیت میں شرائط پر اتفاق اسی وقت ہوتا ہے جب فریقین لین دین اور سودے بازی کریں، ورنہ بات چیت ناکام ہو جاتی یا کم از کم رک جاتی ہے۔ بعد میں، سیاسی فضا سازگار ہونے پر، اسے پھر شروع کیا جاتا ہے۔ جنگ آزادی کے طویل عرصوں میں مسلمانوں نے سامراجی طاقتوں اور حکومتوں سے جاں گسل کش مکش کی بلکہ بعض وقت ان سے جنگ بھی کی۔ بہرحال انھوں نے اپنے ہی ملک کی غیر مسلم اقلیتوں سے جنگ نہیں کی تھی اور نہ ان کو شکست دی تھی اور نہ ان پر فتح ہی پائی تھی کہ ان کو ’’ذمی‘‘ قرار دے کر جزیہ عائد کیا جا سکتا۔ اس وجہ سے اس آیت کے احکام کا اطلاق مسلمان ممالک کی موجودہ صورت حال پر نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ (ماہنامہ ترجمان القرآن، دسمبر ۲۰۰۲، ص ۶۵، ۶۶)
تاہم نہ تو اس رائے میں قرآن مجید کی آیت سے کیا جانے والا استدلال درست ہے اور نہ فقہی ذخیرے میں اس طرح کی کوئی قید بیان کی گئی ہے۔ قرآن مجید کے حکم سے واضح ہے کہ اہل کتاب پر ’جزیہ‘ کرنے کے لیے قتال کو بطور ایک شرط کے ذکر نہیں کر رہا، بلکہ جزیہ کے نفاذ کو مقصود قرار دے کر ان اہل کتاب کے خلاف قتال کا حکم دے رہا ہے جو اس کو ادا کرنے سے انکار کریں۔ اس سے یہ کسی طرح اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ جو اہل کتاب قتال کے بغیر صلح کریں، ان پر جزیہ عائد نہ کیا جائے، چنانچہ نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حوالے سے مفتوح اور غیر مفتوح گروہوں میں کوئی فرق کیا ہے اور نہ صحابہ نے، بلکہ تاریخی بیانات سے واضح ہے کہ صحابہ صلح کے لیے پہلی شرط ہی یہ پیش کرتے تھے کہ ’اسلام قبول کرو یا جزیہ دو۔‘
ایک اور رائے یہ ہے کہ ’جزیہ‘ کے قانون میں فی ذاتہ یہ گنجایش موجود ہے کہ اگر اسلامی ریاست کے غیر مسلم معاہدین اس حوالے سے کسی حساسیت کا شکار ہوں تو ازروے مصلحت ان پر جزیہ کے نفاذ پر اصرار نہ کیا جائے۔ فقہا کے ہاں، بنو تغلب کے نصاریٰ کے ساتھ کیے جانے والے معاملے کی روشنی میں، ایک رائے یہ موجود رہی ہے کہ اگر عملی صورت حالات کسی غیر مسلم گروہ کے ساتھ اسی شرط پر صلح کرنے پر مجبور کر رہی ہو کہ ان سے جزیہ کے بجائے زکوٰۃ لی جائے جس کی مقدار جزیہ کے مساوی ہو تو ایسا کرنا جائز ہے۵۰۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے اس معاملے میں مزید وسعت پیدا کرتے ہوئے اسے ایک عمومی ضابطہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’اگر وہ اس بات پرمصر ہوں کہ ان پر بھی اسی طرح کے مالی واجبات عائد کیے جائیں جو مسلمانوں پر عائد ہیں تو حکومت ان سے اپنی صواب دید کے مطابق اس شرط پر بھی معاہدہ کر سکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس فرق کو یوں سمجھیے کہ اگر جزیہ کی ادائیگی میں وہ عار اور ذلت محسوس کریں تو ان کو اس سے مستثنیٰ کر کے ان کے لیے کوئی اور مناسب شکل اختیار کی جا سکتی ہے۔‘‘ (تدبر قرآن، ۵/ ۵۶۱)
یہی نقطہ نظر الدکتور یوسف القرضاوی نے اختیار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’موجودہ دور میں اسلامی ممالک کے غیر مسلم (اہل کتاب) ’جزیہ‘ نہیں دیتے بلکہ اس لفظ پر بھی ناک بھوں چڑھاتے ہیں تو کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ جزیہ کے بدلے بطور ٹیکس ان سے زکوٰۃ لی جائے، اگرچہ نام اس کا زکوٰۃ نہ ہو مگر شرح زکوٰۃ کی ہو۔ بنی تغلب کے عیسائیوں کے بارے میں حضرت عمر کا جو موقف محدثین، مورخین اور فقہائے اسلام نے بیان کیا ہے، اس سے ہمیں اس معاملے کا اصل صورت حال اور مصلحت کے پیش نظر جائزہ لینے کی گنجایش نظر آتی ہے۔‘‘ (فقہ الزکوٰۃ، مترجم: ساجد الرحمن صدیقی، ۱/ ۱۳۶)
’’اس فیصلے کے پیش نظر دور جدید میں اگر اسلامی ممالک میں غیر مسلموں پر جزیہ کی جگہ کوئی ایسا ٹیکس عائد کر دیا جائے جو مسلمانوں پر اسلامی نظام کی جانب سے عائد شدہ دو فرائض کے مساوی درجے کا ہو۔ یعنی مسلمان ایک فریضہ -جہاد- میں جان کی قربانی دیتے ہیں اور دوسرے فریضہ زکوٰۃ میں مال کی قربانی دیتے ہیں تو کیا ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا؟ اگر مسلمانوں کے اور غیر مسلموں کے مشورے سے غیر مسلموں پر ایسا کوئی ٹیکس عائد کیا جائے اور اس کو زکوٰۃ اور صدقہ کا نام بھی نہ دیا جائے، جیسا کہ حضرت عمرؓ نے ان کے مطالبے پر دے دیا تھا تو کیا یہ اقدام جائز نہیں ہوگا؟‘‘ (ایضاً ص ۱۳۸)
بعض دیگر اہل علم اس ضمن میں عملی حالات کی رعایت اور ’مصلحت‘ کے عمومی اصول کو بنیاد بناتے ہیں۔ اس نقطہ نظر کی نمائندگی ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے یوں کی ہے:
’’دور جدید میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے سیاسی اور مدنی حقوق کا مسئلہ بھی نازک اور اہم ہے اور اگرچہ تحریک اسلامی کے رہنماؤں نے اس بارے میں خاصا حقیقت پسندانہ موقف اختیار کیا ہے مگر عام ذہنوں پر مغرب کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا کافی اثر ہے۔ موجودہ موقف یہ ہے کہ رائے دہندگی اور مجالس قانون ساز کی رکنیت نیز دوسرے مدنی حقوق میں ان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ برتا جائے گا، البتہ یہ مجالس ازروے دستور اس بات کی پابند ہوں گی کہ وہ قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتیں۔ اسلامی ریاست کا صدر مملکت لازماً مسلمان ہوگا اور اس کی شوریٰ صرف مسلمانوں پر مشتمل ہوگی۔ غیر مسلموں سے جزیہ لینا ضروری نہیں اور انھیں فوجی خدمات سے مستثنیٰ رکھنا مناسب ہوگا۔‘‘ (اسلام، معاشیات اور ادب، ص ۴۱۹)
’’مسلمانوں اور اسلام کے کسی اہم مفاد کو مجروح کیے بغیر غیر مسلموں کو ان تمام سیاسی اور مدنی حقوق کی ضمانت دی جا سکتی ہے جو دور جدید کی کسی ریاست کے شہریوں کو حاصل ہوتے ہیں یا جن کا شمار مجلس اقوام متحدہ نے بنیادی انسانی حقوق میں کیا ہے۔ اپنے موقف کی تعیین اور اس کے بیان میں مزاج عصر کی رعایت رکھنے میں اس حد تک کوئی حرج نہیں معلوم ہوتا جس حد تک نہ کسی متعین شرعی حکم کی خلاف ورزی لازم آتی ہو نہ اسلام اور مسلمانوں کا کوئی اہم مفاد مجروح ہوتا ہو۔
اس بارے میں مسلم ممالک میں اٹھنے والی اسلامی تحریکوں کے موقف کی تعیین میں دنیا کی رائے عامہ اور غیر مسلم ممالک میں بسنے والی مسلمان اقلیتوں کے مفاد ومصالح کی رعایت رکھنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ دنیا میں اسلام کے مجموعی مفاد کا ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کو جملہ سیاسی اور مدنی حقوق اور اسلام کی طرف دعوت دینے کے آزادانہ مواقع حاصل ہوں۔ زیر غور مسئلہ میں، شریعت کی حدود کے اندر رہتے ہوئے فراخ دلانہ پالیسی اختیار کرنے اور اس کو مزاج عصر سے مناسبت رکھنے والے انداز میں سامنے لانے سے اس مفاد کے تحفظ میں مدد ملے گی۔‘‘ (اسلام، معاشیات اور ادب، ص ۴۲۰)
خلافت عثمانیہ کے آخری دور میں اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں کے لیے مسلمان شہریوں کے مساوی سیاسی ومعاشرتی حقوق تسلیم کرنے کا اصول صرف جزیہ کے اسقاط تک محدود نہیں رہا، بلکہ بعض دوسرے اہم امتیازات کے حوالے سے بھی کلاسیکی فقہی قوانین پرنظر ثانی کی گئی۔ مثال کے طو پر فقہا نے مسلمان کے خلاف کسی غیر مسلم کی گواہی کو اس بنیاد پر ناقابل قبول قرار دیا ہے کہ اس سے مسلمانوں پر غیر مسلموں کی بالادستی قبول کرنا لازم آتا ہے جو کہ درست نہیں، تاہم ’’مجلۃ الاحکام العدلیہ‘‘ میں فقہی ذخیرے میں بیان ہونے والے، گواہ کے مطلوبہ اوصاف میں سے مسلمان ہونے کی شرط حذف کر دی گئی ہے۵۱۔ جدید جمہوری تصورات کے تحت قائم ہونے والی بعض اسلامی ریاستوں، مثلاً پاکستان میں اسی کے مطابق قانون سازی کی گئی ہے اور حدود وقصاص کے علاوہ کسی معاملے میں مسلم اور غیر مسلم گواہوں کے مابین تفریق نہیں کی گئی۔
اسی طرح روایتی فقہی تصور میں قاضی کا مسلمان ہونا اس منصب کے لیے اہلیت کی بنیادی شرائط میں شمار کیا گیا ہے اور ایک اسلامی ریاست میں کسی غیر مسلم کے منصب قضا پر فائز ہونے کی کوئی گنجایش تسلیم نہیں کی گئی۔ تاہم ’’مجلۃ الاحکام العدلیہ‘‘ میں قاضی کے مطلوبہ اوصاف کے ضمن میں، کلاسیکی فقہی موقف کے برعکس، اس کے مسلمان ہونے کی شرط کا سرے سے کوئی ذکر نہیں کیا گیا۵۲۔ اسی بنیاد پر بہت سے مسلم ممالک میں غیر مسلموں کو منصب قضا پر فائز کرنے کا طریقہ اختیار کر لیا گیا ہے۵۳۔ مثال کے طور پر پاکستان میں دستوری طور پر صدر اور وزیر اعظم کے لیے تو مسلمان ہونے کی شرط موجود ہے، لیکن کسی دوسرے منصب کے لیے ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ غیر مسلم ججوں کا اعلیٰ ترین مناصب پر تقرر عملاً بھی قبول کیا گیا ہے اور کم از کم ایک قانونی ایشو کے طور پر یہ مسئلہ کبھی نہیں اٹھایا گیا، بلکہ اسلامی نظریاتی کونسل نے ۲۰۰۷ء اپنی سفارشات میں باقاعدہ یہ تجویز کیا ہے کہ ’’قانون کی باقاعدہ تدوین کے بعد جج کے مسلمان ہونے کی شرط غیر ضروری ہے۔ غیر مسلم جج بھی قانون کو پوری طرح سمجھ لینے کے بعد ہر نوعیت کے مقدمات کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔‘‘۵۴
گزشتہ سطور میں ہم نے امت مسلمہ کی علمی وفقہی روایت کے بعض ایسے پہلووں کا ذکر کیا ہے جن سے واضح ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے اپنے دور میں منکرین حق کے خلاف جو قتال کیا، اس کی خاص نوعیت اور اس پر مرتب ہونے والے نتائج کو اہل علم کسی نہ کسی زاویے سے عمومی طور پر محسوس کرتے چلے آ رہے ہیں۔ تاہم اس بحث کو بالعموم چونکہ فقہی تناظر میں دیکھا گیا اور اس کو نسخ وتخصیص کی فنی اصطلاحات کے اسلوب میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی، اس وجہ سے الجھن برقرار رہی اور ہر دور میں اہل علم اس کے حل کے لیے نئی سے نئی توجیہات پیش کرنے پر مجبور ہوتے رہے۔ اس کے برعکس مولانا حمید الدین فراہی نے اس سارے معاملے کو پہلی مرتبہ فقہی اصطلاحات کے محدود اور ناکافی دائرے سے نکال کر قرآن مجید میں بیان کردہ سنن الٰہیہ کے دائرے میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کی۔ مولانا نے رسولوں کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی ایک خاص سنت کو قرآن مجید سے دریافت کیا اور اس کے روبہ عمل ہونے کے مختلف مراحل نصوص کی روشنی میں متعین کیے۔ اس بحث کو بعد میں ان کے طریقے پر قرآن مجید پر غور کرنے والے اہل علم، مثلاً مولانا امین احسن اصلاحی اور جاوید احمد غامدی نے مزید منقح کیا اور اس کی روشنی میں احکام قتال کی ایک نئی تعبیر پیش کی۔ رسولوں کے باب میں زیر بحث سنت الٰہی کی وضاحت فراہی مکتب فکر کے نمائندہ تینوں اہل علم، مولانا فراہی، مولانا اصلاحی اور جاوید احمد غامدی نے کی ہے۔ ان حضرات کے ہاں اس حوالے سے اجمال وتفصیل کا فرق بھی موجود ہے اور مولانا فراہی سے جاوید احمد غامدی تک اس قانون کی تشریح وتفصیل میں ایک ارتقا بھی واقع ہوا ہے جس کے لیے ان اہل علم کی تصانیف کا براہ راست مطالعہ مفید ہوگا۔
جناب جاوید احمد غامدی نے اپنی مختلف تحریروں میں عہد نبوی وعہد صحابہ میں جہاد وقتال کے مختلف پہلووں پر جو بحث کی ہے، اس کا حاصل درج ذیل نکات کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے:
۱۔ منصب رسالت پر فائز کوئی ہستی جب کسی قوم میں مبعوث کر دی جاتی ہے تو اس فیصلے کے ساتھ کی جاتی ہے کہ رسول اور اس کے پیروکار اپنے مخالفوں پر بہرحال غالب آ کر رہیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جزیرہ نماے عرب میں مبعوث کیا گیا تو اس سنت الٰہی کے مطابق یہ دوٹوک اعلان کر دیا گیا کہ آپ کی مخالفت کرنے والے تمام مذاہب کے پیروکاروں کے لیے مغلوبیت اور محکومیت مقدر ہو چکی ہے۔
۲۔ اس غلبے کے حصول کی حکمت عملی میں دعوت وتبلیغ کے ساتھ ساتھ ’جہاد وقتال‘ بھی ایک لازمی عنصر کے طور پر شامل تھا، چنانچہ یہ ہدف ’ویکون الدین للہ‘ کے الفاظ میں آغاز ہی میں واضح کر دیا گیا تھا۔ البتہ اس وعدے کا عملی ظہور دو مرحلوں میں ہوا۔ جزیرۂ عرب کی حد تک تو اس دین کو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں غالب کر دیا گیا، چنانچہ مدنی عہد نبوت میں غلبہ دین کی جدوجہد مختلف ادوار سے گزرنے کے بعد جب اپنے آخری مراحل کو پہنچی تو باطل ادیان پر دین حق کے غلبہ کی دو صورتیں متعین طور پر واضح کر دی گئیں۔ مشرکین کے لیے تو لازم کیا گیا کہ وہ دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں، ورنہ انھیں قتل کر دیا جائے گا، جبکہ اہل کتاب سے کہا گیا کہ وہ جزیہ دے کر مسلمانوں کی محکومی اور زیردستی قبول کر لیں۔ جزیرۂ عرب سے باہر روم، فارس اور مصر کی سلطنتوں تک اس غلبے کی توسیع کی ذمہ داری صحابہ کرام پر عائدکی گئی جنھیں اس مقصد کے لیے ’شہادت علی الناس‘ کے منصب پر فائز کیا گیا تھا۔
۳۔ قانون رسالت کی رو سے پیغمبر کی مخاطب اقوام پر مذکورہ سنت الٰہی کا نفاذ خدا کے براہ راست اذن کے تحت کیا جاتا ہے اور اس میں انسانوں حتیٰ کہ پیغمبروں کے اجتہادی فیصلے کا بھی کوئی دخل نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ رسول اور اس کے پیروکاروں کا یہ غلبہ پوری دنیا کی قوموں پر نہیں، بلکہ ان مخاطبین پر ہوتا ہے جن پر اتمام حجت کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا نافذ کرنے کا اذن مل جاتا ہے۔ اس اصول کے تحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے متبعین نے جو جہاد کیا، وہ غلبہ دین کے اسی وعدے کی تکمیل کے لیے اور انھی اقوام تک محدود تھا جن کے خلاف اقدام کی اجازت اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی تھی اور جن کی تعیین نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سربراہوں کو خطوط لکھ کر، کر دی تھی۔ چنانچہ اسلامی تاریخ کے صدر اول میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروکاروں کے ہاتھوں جزیرۂ عرب اور روم وفارس کی سلطنتوں پر دین حق کا غلبہ قائم ہو جانے کے بعد غلبہ دین کے لیے جہاد وقتال کے حکم کی مدت نفاذ خود بخود ختم ہو چکی ہے۔ یہ شریعت کا کوئی ابدی اور آفاقی حکم نہیں تھا اور نہ اس کا ہدف پوری دنیا پر تلوار کے سائے میں دین کا غلبہ اور حاکمیت قائم کرنا تھا۔ اس کے بعد قیامت تک کے لیے جہاد وقتال کا اقدام دین کے معاملے میں عدم اکراہ اور غیر محارب کفار کے ساتھ جنگ سے گریز کے ان عمومی اخلاقی اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی کیا جائے گا جو قرآن مجید کے نصوص میں مذکور ہیں۔
اس ضمن میں جناب جاوید احمد غامدی کی متعلقہ تصریحات حسب ذیل ہیں:
قرآن مجید کو ’’پیغمبر کی سرگزشت انذار‘‘ کا عنوان دیتے ہوئے انھوں نے عہد نبوی وعہد صحابہ میں جہاد وقتال کے مخصوص پس منظر اور ان احکام کی تحدید وتخصیص کی علمی اساس کو یوں واضح کیا ہے:
’’اپنے مضمون کے لحاظ سے قرآن ایک رسول کی سرگزشت انذار ہے۔ اسے شروع سے آخر تک پڑھیے۔ یہ حقیقت اس کے ہر صفحے پر ثبت نظر آئے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے محض ایک مجموعہ قانون وحکمت نہیں، بلکہ پیغمبر کے لیے اپنی قوم کو انذار کا ذریعہ بنا کر نازل کیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے:
وَأُوحِیَ إِلَیَّ ہَذَا الْقُرْآنُ لأُنذِرَکُمْ بِہِ وَمَنْ بَلَغَ.(الانعام ۶: ۱۹)
’’اور میری طرف سے یہ قرآن اس لیے وحی کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے سے میں تمھیں انذار کروں اور ان کو بھی جنھیں یہ پہنچے۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق معلوم ہے کہ آپ نبوت کے ساتھ رسالت کے منصب پر بھی فائز تھے۔ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو خلق کی ہدایت کے لیے مبعوث فرماتے ہیں اور اپنی طرف سے وحی والہام کے ذریعے سے ان کی رہنمائی کرتے ہیں، انھیں نبی کہا جاتا ہے۔ لیکن ہر نبی کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ رسول بھی ہو۔ رسالت ایک خاص منصب ہے جو نبیوں میں سے چند ہی کو حاصل ہوا ہے۔ قرآن میں اس کی تفصیلات کے مطابق رسول اپنے مخاطبین کے لیے خدا کی عدالت بن کر آتا ہے اور ان کا فیصلہ کر کے دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ رسولوں کی دعوت میں یہ فیصلہ انذار، انذار عام، اتمام حجت اور ہجرت وبراء ت کے مراحل سے گزر کر صادر ہوتا اور اس طرح صادر ہوتا ہے کہ آسمان کی عدالت زمین پر قائم ہو جاتی ہے، خدا کی دینونت کا ظہور ہوتا ہے اور رسول کے مخاطبین کے لیے ایک قیامت صغریٰ برپا کر دی جاتی ہے۔ اس دعوت کی جو تاریخ قرآن میں بیان ہوئی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر بالعموم دو ہی صورتیں پیش آتی ہیں: ایک یہ کہ پیغمبر کے ساتھ بھی تعداد میں کم ہوتے ہیں اور اسے کوئی دار الہجرت بھی میسر نہیں ہوتا۔ دوسرے یہ کہ وہ معتد بہ تعداد میں اپنے ساتھیوں کو لے کر نکلتا ہے اور اس کے نکلنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کسی سرزمین میں اس کے لیے آزادی اور تمکن کے ساتھ رہنے بسنے کا سامان کر دیتے ہیں۔ ... نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں یہی دوسری صورت پیدا ہوئی۔ چنانچہ آپ کی طرف سے انذار، انذار عام، اتمام حجت، ہجرت وبراء ت اور اپنے مخالفین وموافقین کے لیے جزا وسزا کی یہ سرگزشت ہی قرآن کا موضوع ہے۔ اس کی ہر سورہ اسی پس منظر میں نازل ہوئی ہے اور اس کے تمام ابواب اسی لحاظ سے مرتب کیے گئے ہیں۔ قرآن کی شرح وتفسیر میں جو چیزیں اس رعایت سے اس کے ہر طالب علم کے پیش نظر رہنی چاہییں، وہ یہ ہیں:
اولاً، اس کی ہر سورہ میں تدبر کر کے اس کا زمانہ نزول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے انھی مراحل کے لحاظ سے اس طرح متعین کرنا چاہیے کہ اس کے بارے میں یہ بات پورے اطمینان کے ساتھ کہی جا سکے کہ مثال کے طور پر، یہ زمانہ انذار میں نازل ہوئی ہے یا زمانہ ہجرت وبراء ت اور جزا وسزا میں، اور اس کی ہر آیت کامدعا اسی پس منظر میں سمجھنا چاہیے۔
ثانیاً، اس کی ہر سورہ کے بارے میں یہ طے کرنا چاہیے کہ اس کے مخاطب اصلاً زمانہ رسالت کے مشرکین ہیں، اہل کتاب ہیں، منافقین ہیں یا پیغمبر اور اس کے ساتھیاہل ایمان یا ان مخاطبین کی کوئی خاص جماعت۔ اسی طرح طے کرنا چاہیے کہ تبعاً ان میں سے کس کی طرف اور کہاں کوئی التفات ہوا ہے۔ چنانچہ اس کی ہر ضمیر کا مرجع، ہر لام تعریف کا معہود اور ہر تعبیر کا مصداق پھر اسی روشنی میں واضح کرنا چاہیے۔
ثالثاً، اس میں غلبہ حق، استخلاف فی الارض اور جہاد وقتال کی آیات سے متعلق یہ بات بالخصوص پوری تحقیق کے ساتھ متعین کرنی چاہیے کہ ان میں کیا چیز شریعت کا حکم اور خدا کا ابدی فیصلہ ہے اورکیا چیز اسی انذار رسالت کے مخاطبین کے ساتھ خاص کوئی قانون ہے جو اب لوگوں کے لیے باقی نہیں رہا۔‘‘ (میزان، ص ۴۸، ۴۹)
’’قرآن میں یہ اسلوب جگہ جگہ اختیار کیا گیا ہے کہ بظاہر الفاظ عام ہیں، لیکن سیاق وسباق کی دلالت پوری قطعیت کے ساتھ واضح کر دیتی ہے کہ ان سے مراد عام نہیں ہے۔ قرآن ’الناس‘ کہتا ہے، لیکن ساری دنیا کا تو کیا ذکر، بارہا اس سے عرب کے سب لوگ بھی اس کے پیش نظر نہیں ہوتے۔ وہ ’علی الدین کلہ‘ کی تعبیر اختیار کرتا ہے، لیکن اس سے دنیا کے سب ادیان مراد نہیں لیتا۔ وہ ’المشرکون‘ کے الفاظ استعمال کرتا ہے، لیکن انھیں سب شرک کرنے والوں کے معنی میں استعمال نہیں کرتا۔ وہ ’ان من اہل الکتاب‘ کے الفاظ لاتا ہے، لیکن اس سے پورے عالم کے اہل کتاب مراد نہیں ہوتے۔ وہ ’الانسان‘ کے لفظ سے اپنا مدعا بیان کرتا ہے، لیکن اس سے ساری اولاد آدم کا ذکر مقصود نہیں ہوتا۔ یہ قرآن کا عام اسلوب ہے جس کی رعایت اگر ملحوظ نہ رہے تو قرآن کی شرح ووضاحت میں متکلم کا منشا بالکل باطل ہو کر رہ جاتا ہے اور بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے، لہٰذا ناگزیر ہے کہ اس معاملے میں قرآن کے عرف اور اس کے سیاق وسباق کی حکومت اس کے الفاظ پر ہر حال میں قائم رکھی جائے۔‘‘ (میزان ص ۲۳، ۲۴)
جزیرۂ عرب سے باہر صحابہ کے جہاد کی نوعیت اور اس کی شرعی اساس کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’قرآن نے بتایا ہے کہ شہادت کا یہ منصب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ذریت کو بھی اسی طرح حاصل تھا۔ لہٰذا آپ پر ایمان لانے کے بعد وہ جب ’’خیر امت‘‘ بن کر اٹھے تو ان کے ذریعے سے یہ جزیرہ نماے عرب سے باہر کی اقوام پر بھی قائم ہو گئی۔ قرآن نے صراحت کی ہے کہ ذریت ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے اس شہادت کے لیے اسی طرح منتخب کیا تھا، جس طرح وہ بنی آدم میں سے بعض جلیل القدر ہستیوں کو نبوت ورسالت کے لیے منتخب کرتا ہے۔‘‘ (اشراق، مئی ۲۰۰۳، ۴۱، ۴۲)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت جزیرہ نماے عرب سے باہر قریب کی تمام قوموں کے سامنے بھی پیش کر دی اور ان کے سربراہوں کو خط لکھ کر ان پر واضح کر دیا کہ اب اسلام ہی ان کے لیے سلامتی کی ضمانت بن سکتا ہے۔ اس کے معنی یہ تھے کہ خدا کی جو حجت آپ کے ذریعے سے عرب کے مشرکین اور یہود ونصاریٰ پر قائم ہوئی ہے، وہ آپ کے دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے جزیرہ نما سے باہر کی ان قوموں پر بھی قائم ہو جائے گی۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد دنیا ہی میں جزا وسزا کے قانون کا اطلاق ان قوموں پر بھی کیا جائے۔ چنانچہ یہی ہوا اور جزیرہ نما میں اپنی حکومت مستحکم کر لینے کے بعد صحابہ کرام اس اعلان کے ساتھ ان اقوام پر حملہ آور ہو گئے کہ اسلام قبول کرو یا زیردست بن کر جزیہ دینے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ اس کے سوا اب زندہ رہنے کی کوئی صورت تمھارے لیے باقی نہیں رہی۔‘‘ (میزان، ص ۶۰۱)
جاوید احمد غامدی کے نزدیک یہ اقدامات چونکہ دراصل ایک سنت الٰہی کا نفاذ تھے، اس لیے ان سے شریعت کا کوئی عمومی حکم اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ لکھتے ہیں:
’’اس کا حکم قرآن میں دو صورتوں کے لیے آیا ہے:
ایک، ظلم وعدوان کے خلاف،
دوسرے، اتمام حجت کے بعد منکرین حق کے خلاف۔
پہلی صورت شریعت کا ابدی حکم ہے اور اس کے تحت جہاد اسی مصلحت سے کیا جاتا ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے۔ دوسری صورت کا تعلق شریعت سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے قانون اتمام حجت سے ہے جو اس دنیا میں ہمیشہ اس کے براہ راست حکم سے اور انھی ہستیوں کے ذریعے سے رو بہ عمل ہوتا ہے جنھیں وہ ’’رسالت‘‘ کے منصب پر فائز کرتا ہے۔ ... اس قانون کی رو سے اللہ کی حجت جب ان رسولوں کے ذریعے سے کسی قوم پر پوری ہوتی ہے تو ان کے منکرین پر اسی دنیا میں عذاب آ جاتا ہے۔ یہ عذاب آسمان سے بھی آتا ہے اور بعض حالات میں اہل حق کی تلواروں کے ذریعے سے بھی۔ پھر اس کے نتیجے میں منکرین لازماً مغلوب ہو جاتے ہیں اور ان کی سرزمین پر حق کا غلبہ پوری قوت کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد یہی دوسری صورت پیش آئی۔ چنانچہ آپ کو اور آپ کے صحابہ کو جس طرح ظلم وعدوان کے خلاف قتال کا حکم دیا گیا، اسی طرح اس مقصد کے لیے بھی تلوار اٹھانے کی ہدایت ہوئی۔ یہ خدا کا کام تھا جو انسان کے ہاتھوں سے انجام پایا۔ اسے ایک سنت الٰہی کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے۔ انسانی اخلاقیات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ’یعذبہم اللّٰہ بایدیکم‘ (اللہ انھیں تمھارے ہاتھوں سے سزا دے گا) کے الفاظ میں یہی حقیقت بیان ہوئی ہے۔‘‘ (میزان، ص ۵۷۹، ۵۸۰)
’’یہ محض قتال نہ تھا، بلکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب تھا جو اتمام حجت کے بعد سنت الٰہی کے عین مطابق اور ایک فیصلہ خداوندی کی حیثیت سے پہلے عرب کے مشرکین اور یہود ونصاریٰ پر اور اس کے بعد عرب سے باہر کی اقوام پر نازل کیا گیا۔ لہٰذا یہ بالکل قطعی ہے کہ منکرین حق کے خلاف جنگ اور اس کے نتیجے میں مفتوحین پر جزیہ عائد کر کے انھیں محکوم اور زیر دست بنا کر رکھنے کا حق ان اقوام کے بعد اب ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔ قیامت تک کوئی شخص اب نہ دنیا کی کسی قوم پر اس مقصد سے حملہ کر سکتا ہے اور نہ کسی مفتوح کو محکوم بنا کر اس پر جزیہ عائد کرنے کی جسارت کر سکتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے قتال کی ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے، اور وہ ظلم وعدوان کے خلاف جنگ ہے۔ اللہ کی راہ میں قتال اب یہی ہے۔ اس کے سوا کسی مقصد کے لیے بھی دین کے نام پر جنگ نہیں کی جا سکتی۔‘‘ (میزان، ص ۶۰۱)
________