HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Ammar Nasir

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

فقہی روایت کا ارتقا (حصہ سوم)

حنفی مکتبہ فکر کے ایک دوسرے جید عالم مولانا شمس الحق افغانی غیر محارب کفار کے ساتھ صلح وامن کی تعلیم دینے والی آیات کو، کلاسیکل فقہی نقطہ نظر کے برعکس، منسوخ قرار نہیں دیتے ، چنانچہ ان سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’خداوند تعالیٰ کا یہ ارشاد: ’وان جنحوا للسلم فاجنح لہا‘ (انفال) ’’اگر کفار کا محارب فریق صلح کے لیے جھک جائے تو تم بھی جھک جاؤ‘‘ اور یہ کیوں نہ فرمایا گیا کہ ’’اسلام یا تلوار‘‘؟ ’لا ینہاکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروہم وتقسطوا الیہم ان اللہ یحب المقسطین‘۔ تم کو اللہ ان کفار کے متعلق جو تم سے دین کی وجہ سے نہیں لڑے اور نہ تم کو تمھارے گھروں سے نکالا، اس سے نہیں روکتا کہ ان کفار سے تم احسان کرو اور ان کافروں سے منصفانہ سلوک کرو۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ ان کافروں سے ایسا کیوں نہ کہا گیا کہ اسلام لاؤ ورنہ تلوار ہے۔ سورہ نساء میں خدا کا حکم قرآنی ہے: ’فان اعتزلوکم ولم یقاتلوکم والقوا الیکم السلم فما جعل اللہ لکم علیہم سبیلا‘۔ ’’اگر وہ کفار تم سے کنارہ کریں پھر نہ لڑیں اور وہ تمھارے سامنے صلح کا پیغام ڈالیں تو اللہ تعالیٰ نے تم کو ان پر حملہ کرنے کی راہ نہیں دی ہے‘‘۔ قرآن حکیم اس قسم کے مضامین سے پر ہے۔‘‘ (مقالات افغانی، ۱/ ۷۸، ۷۹)

اس وقت امت مسلمہ نے بحیثیت مجموعی عالمی سیاست اور قانون بین الاقوام کے دائرے میں اسی نقطہ نظر کو اختیار کر لیا ہے، چنانچہ عالم اسلام کے تمام ممالک دنیا کے اس سیاسی وقانونی نظام کا حصہ ہیں جس کی نمائندگی بین الاقوامی سطح پر اقوام متحدہ کا ادارہ کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں طاقت کے استعمال کے حوالے سے دو اصول واضح طور پر طے کیے گئے ہیں:

ایک یہ کہ اقوام عالم کی مذہبی آزادی اور سیاسی خود مختاری کو مسلمہ اصول کی حیثیت حاصل ہے، چنانچہ اقوام متحدہ کے قیام کے مقاصد کے ذیل میں لکھا ہے:

’’قوموں کے مابین انسانوں کے حق خود ارادیت اور مساوی حقوق کے اصول کے احترام پر مبنی دوستانہ تعلقات کا فروغ ، اور عالمی امن کو استحکام دینے کے لیے دیگر مناسب اقدامات کرنا۔
معاشی، سماجی، ثقافتی یا انسانی نوعیت کے بین الاقوامی مسائل کے حل، انسانی حقوق کے احترام کی حوصلہ افزائی اور فروغ، اور نسل، جنس، زبان یا مذہب کی تفریق کے بغیر تمام انسانوں کے لیے بنیادی آزادیوں کے حصول کے لیے بین الاقوامی سطح پر باہمی تعاون حاصل کرنا۔‘‘ (آرٹیکل ۱، شق ۲ و ۳)

نیز لکھا ہے:

’’تمام رکن ممالک اپنے بین الاقوامی تعلقات میں کسی بھی ملک کی علاقائی سالمیت یا سیاسی آزادی کے خلاف طاقت کے استعمال یا دھمکی سے باز رہیں گے۔ اسی طرح وہ کوئی بھی ایسا انداز اختیار نہیں کریں گے جو اقوام متحدہ کے مقاصد سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔‘‘ (آرٹیکل ۲، شق ۴)

دوسرے یہ کہ اقوام کے باہمی تنازعات میں طاقت اور اسلحہ کے استعمال کا جواز صرف ’دفاع‘ کی حد تک محدود ہے:

’’تمام رکن ممالک اپنے بین الاقوامی تنازعات کو پر امن ذرائع سے اس انداز میں حل کریں گے کہ عالمی امن، تحفظ اور انصاف کو خطرہ لاحق نہ ہو۔‘‘ (آرٹیکل ۲، شق ۳ )
’’اگر اقوام متحدہ کے کسی رکن ملک کے خلاف مسلح حملہ ہوتا ہے تو اس چارٹر کی کوئی شق انفرادی یا اجتماعی دفاع کے حق پر اثر انداز نہیں ہوگی، جب تک کہ سلامتی کونسل عالمی وامن وحفاظت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری اقدامات نہ کر لے۔ دفاع کے حق کو استعمال کرتے ہوئے کوئی بھی ملک جو اقدامات کرے، ان کی فوری طور پر سلامتی کونسل کو اطلاع دی جائے گی اور یہ اقدامات اس چارٹر میں دیے گئے سلامتی کونسل کے اس اختیار اور ذمہ داری کو متاثر نہیں کر سکیں گے کہ وہ عالمی امن وامان کو قائم رکھنے یا بحال کرنے کے لیے کسی بھی وقت ایسا ایکشن لے سکتی ہے جسے ضروری خیال کیا جائے۔‘‘ (آرٹیکل ۵۱)

اقوام متحدہ کے مذکورہ چارٹر پر تمام مسلمان ممالک نے دستخط کر رکھے ہیں اور مسلم ممالک کے اہل علم کی ایک عمومی تائید بھی اس معاہدے کو حاصل ہے۔ اگرچہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی بعض شقوں کے حوالے سے عالم اسلام کے مختلف حلقوں کی جانب سے بعض تحفظات وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں لیکن ہمارے علم میں اسلام کا نمائندہ سمجھے جانے والا کوئی ذمہ دار مذہبی حلقہ یا شخصیت ایسی نہیں ہے جس نے جنگ کے جواز اور قوت وطاقت کے استعمال کے حوالے سے اقوام متحدہ کے اختیار کردہ مذکورہ موقف کو اسلامی فلسفہ جنگ کے منافی قرار دیتے ہوئے اس کی تردید کی ہو یا اس بات کی وضاحت مناسب سمجھی ہو کہ اس معاہدے میں شریک ہونے کا جواز محض معروضی حالات کی حد تک ہے اور جیسے ہی مسلمانوں کو مناسب قوت حاصل ہوگی، اس سے براء ت کا اعلان واجب ہو جائے گا۔

 

جہاد کے توسیعی اہداف؟

جہاد کے کلاسیکی تصور میں اعلاء کلمۃ اللہ کو ہدف اور غایت قرار دے کر اس کے حصول کے لیے جہاد کو فرض کفایہ قرار دیا گیا ہے، تاہم یہ تصور پورے معمورۂ ارضی پر اسلام کا غلبہ قائم کرنے یا دوسرے لفظوں میں ایک عالمگیر اسلامی ریاست قائم کرنے کو اپنا ہدف قرار نہیں دیتا۔ فقہا کی تصریحات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ جہاد کے ذریعے اسلامی سلطنت کی توسیع کو زمان ومکان میں محدود مانتے ہے اور ابتدائی صدیوں میں توسیع سلطنت کا یہ سلسلہ جس جگہ پہنچ کر فطری طور پر رک گیا تھا، اصلاً اسی کی حفاظت اور دفاع کو جہاد کا ہدف قرار دیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے فقہا کے نزدیک عمل جہاد کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے محض علامتی اقدامات پر اکتفا کرنا کافی ہے۔ چنانچہ جہاد کے فرض کفایہ کی ادائیگی کی صورت وہ یہ بتاتے ہیں کہ مسلم حکمران سال میں کم از کم ایک دفعہ حملہ آور ہو کر دشمن کے علاقے میں داخل ہو جائے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ جب تک وہ علاقہ فتح نہ ہو جائے، مسلمان اس محاذ پر مسلسل داد شجاعت دیتے رہیں۔ امام شافعی فرماتے ہیں:

واقل ما یجب علیہ ان لا یاتی علیہ عام الا ولہ فیہ غزو حتی لا یکون الجہاد معطلا فی عام الا من عذر واذا غزا عاما قابلا غزا بلدا غیرہ ولا یتابع الغزو علی بلد ویعطل من بلاد المشرکین غیرہ. (الام، ۴/ ۱۶۸)
’’اس فریضے کی ادائیگی کی کم سے کم صورت یہ ہے کہ کوئی سال ایسا نہ گزرے جس میں دشمن پر حملہ نہ کیا جائے، تاکہ کسی عذر کے بغیر جہاد کا عمل معطل نہ رہے۔ اور جب حکمران آئندہ سال حملہ کرے تو کسی دوسرے علاقے پر کرے اور ایسا نہ کرے کہ ایک ہی علاقے پر بار بار حملہ کرتا رہے اور اس کے علاوہ کفار کے دوسرے علاقوں کو نظر انداز کر دے۔‘‘

یہ جزئیہ اس حوالے سے قابل غور ہے کہ اس میں جہاد کو کسی مخصوص غایت مثلاً کفار کے علاقوں پر غلبہ حاصل کرنے کے ساتھ وابستہ کر کے مسلسل پیش قدمی کو لازم قرار دینے کے بجائے نفس ’قتال‘ کو بذات خود ایک مقصد قرار دے کر اس کی ادائیگی کا ایک طریقہ بتلا دیا گیا ہے۔ اس جزئیے کا مفہوم بین السطور یہ ہے کہ چونکہ قتال مسلمانوں پر لازم کیا گیا ہے، اس لیے اس فریضے کی ادائیگی کے لیے سال میں ایک دفعہ کفار پر حملہ آور ہو جانا کافی ہے۔ کفار کے علاقوں پر مسلسل قبضہ کرتے چلے جانا اور اسلامی سلطنت کی پیہم توسیع ان فقہا کے پیش نظر نہیں ہے۔ اس صورت میں یہ بس ایک علامتی کارروائی بن جاتی ہے جس کا مقصد قتال کے حکم کو محض اس کے ظاہر کے لحاظ سے پورا کر دینا ہے۔

فقہائے متاخرین کی کتب میں اس جزئیے میں بھی مزید ترمیم کر دی گئی اور یہ کہا گیا کہ ’قتال‘ کا فرض کفایہ ادا کرنے کی صورت صرف یہی نہیں کہ دشمن کے علاقے میں داخل ہو کر اس پر حملہ کیا جائے، بلکہ اگر مسلم حکومت محض اپنی سرحدوں پر فوج کی تعیناتی کا اہتمام کرلے تو بھی یہ فرض ادا ہو جائے گا۔ شہاب الدین الرملی اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں:

ویسقط ہذا الفرض باحد امرین اما ان یشحن الامام الثغور بالرجال المکافئین للعدو فی القتال ویولی علی کل نفر امینا کافیا یقلدہ امر الجہاد وامور المسلمین واما ان یدخل علی دار الکفر غازیا بنفسہ بالجیوش او یومر علیہم من یصلح لذلک واقلہ مرۃ فی کل سنۃ. (فتاویٰ شہاب الدین الرملی،بہامش فتاویٰ ابن حجر المکی، ۴/ ۴۴، ۴۵)
’’جہاد کا فرض کفایہ دو میں سے کسی ایک صورت میں ادا ہو جائے گا۔ ایک یہ کہ حکمران سرحدوں پر اتنی فوج جمع کر دے جو لڑائی میں دشمن کا مقابلہ کر سکیں اور ہر گروہ پر ایک ذمہ دار مقرر کر دے جس کو جہاد اور مسلمانوں کے دوسرے امور کی ذمہ داری سونپ دی جائے۔ دوسری یہ کہ حملہ کرتے ہوئے کفار کے علاقے میں داخل ہو جائے، چاہے بذات خود لشکر کی قیادت کرتا ہوا جائے یا کسی اہل آدمی کو ان کا امیر بنا کر بھیج دے۔ اس دوسری صورت میں سال میں کم سے کم ایک دفعہ حملہ کرنا ضروری ہے۔‘‘

اسی رجحان کی جھلک فقہا کے ہاں پیدا ہونے والی اس بحث میں بھی دکھائی دیتی ہے کہ کیا جنگ کرنے سے پہلے کفار کو اسلام کی دعوت دینے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اکابر اہل علم کی رائے یہ تھی کہ اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ابن قدامہ نقل کرتے ہیں:

قال احمد کان النبی یدعو الی الاسلام قبل ان یحارب حتی اظہر اللہ الدین وعلا الاسلام ولا اعرف الیوم احدا یدعی قد بلغت الدعوۃ کل احد والروم قد بلغتہم الدعوۃ وعلموا ما یراد منہم وانما کانت الدعوۃ فی اول الاسلام. (ابن قدامہ، المغنی، مسئلہ ۷۴۳۶)
’’امام احمد فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنگ سے پہلے دشمن کو اسلام کی دعوت دیا کرتے تھے، یہاں تک کہ اللہ نے دین کو غالب کر دیا اور اسلام سربلند ہو گیا۔ میرے خیال میں آج کسی شخص کو دعوت دینے کی ضرورت نہیں، کیونکہ سب تک دعوت پہنچ چکی ہے۔ رومیوں تک بھی دعوت پہنچ چکی ہے اور انھیں معلوم ہے کہ ان سے کیا چیز مطلوب ہے۔ دعوت دینا صرف اسلام کے ابتدائی زمانے میں ضروری تھا۔‘‘
وقد قال بعض الفقہاء والتابعین: انہ لیس احد من اہل الشرک ممن یبلغہ جنودنا الا وقد بلغتہ الدعوۃ وحل للمسلمین قتالہم من غیر دعوۃ.(ابو یوسف، الخراج، ص ۲۰۷)
’’بعض فقہا اور تابعین نے فرمایا ہے کہ جن اہل کفر تک ہمارے لشکر پہنچ چکے ہیں، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس تک دعوت نہ پہنچ چکی ہو۔ اب مسلمانوں کے لیے دعوت دیے بغیر ان کے ساتھ قتال کرنا جائز ہے۔‘‘

یہ نکتہ اس پہلو سے قابل غور ہے کہ مذکورہ فقہا نے جس طرح سے اسلام کی دعوت کو عام قرار دے کر مزید اس کا اہتمام کرنے کو غیر ضروری قرار دیا ہے، اس سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ جہاد وقتال میں ان کے پیش نظر ساری دنیا کے کفار نہیں، بلکہ وہ مخصوص قومیں ہیں جن تک ایک تسلسل کے ساتھ اسلام کی دعوت پہنچ چکی تھی، اس لیے کہ ساری دنیا کے غیر مسلموں تک، بالخصوص جنوبی ایشیا، مغربی یورپ اور وسطی وجنوبی افریقہ کے علاقوں میں، اسلام کی دعوت ان فقہا کے زمانے میں نہیں پہنچی تھی۔ چنانچہ یہ دعویٰ کہ ’’تمام لوگوں تک اسلام کی دعوت پہنچ چکی ہے‘‘، صرف اسی صورت میں درست مانا جا سکتا ہے جب اس کو بعض مخصوص قوموں کے تناظر میں دیکھا جائے۔

ابن حجر نے فرضیت جہاد کی نوعیت متعین کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حین حیات میں مسلمانوں پر عائد ہونے والی ذمہ داری اور آپ کے بعد اس فریضے کی ادائیگی کا حکم مختلف ہے۔ آپ کی حیات میں کچھ گروہ مثلاً انصار اور مہاجرین اس ذمہ داری کے لیے خاص طورپر مسؤل تھے، جبکہ باقی لوگوں کے لیے یہ فرض کفایہ کی حیثیت رکھتا تھا، تاہم آپ کے بعد فقہا کے مشہور قول کے مطابق یہ فرض کفایہ ہے جس کی ادائیگی کا طریقہ جمہور کے نزدیک یہ ہے کہ سال میں ایک مرتبہ کسی نہ کسی محاذ پر کفار کے خلاف جنگ کی جائے یا جب بھی ممکن ہو، ان کے خلاف اقدام کیا جائے۔ ہاں اگر دشمن کسی علاقے پر حملہ آور ہو جائے تو اس صورت میں حکمران جن لوگوں کو اس کے لیے منتخب کرے گا، ان پر فرض عین ہو جائے گا۔ بحث کے آخر میں ابن حجر نے اپنا جو رجحان بیان کیا ہے، وہ توجہ طلب ہے۔ لکھتے ہیں:

والذی یظہر انہ استمر علی ما کان علیہ فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم الی ان تکاملت فتوح معظم البلاد وانتشر الاسلام فی اقطار الارض ثم صار الی ما تقدم ذکرہ.(فتح الباری ۶/ ۳۸)
’’قرین قیاس بات یہ ہے کہ جہاد کی فرضیت کا معاملہ اسی حالت پر رہا جیسے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا، یہاں تک کہ بڑے بڑے ممالک فتح ہو گئے اور اسلام زمین کے اطراف واقطار میں پھیل گیا۔ اس کے بعد اس کے فرض ہونے کی نوعیت وہ ہو گئی جس کا ابھی ذکر کیا گیا۔‘‘

مذکورہ بحث سے واضح ہے کہ کلاسیکی علمی وفقہی روایت میں پوری دنیا پر اسلام کے غلبے کو جہاد کا ہدف قرار نہیں دیا گیا، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی احادیث کی روشنی میں یہ بات ایک پیش گوئی کی حیثیت سے ضرور بیان کی جاتی ہے جو سیدنا مسیح علیہ السلام کے نزول اور امام مہدی کے ظہور کے زمانے میں پوری ہوگی۔ اس حوالے سے علامہ انور شاہ کشمیری کی رائے کا ذکر بھی یہاں دلچسپی کا باعث ہوگا جو اس عام رائے کو غلط قرار دیتے ہیں جس کے مطابق سیدنا مسیح کے نزول ثانی کے موقع پر ساری دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ روایات میں اس موقع پر ساری سرزمین پر اسلام کے غالب آنے کا جو ذکر ہوا ہے، اس سے مراد پوری روے زمین نہیں، بلکہ شام اور اس کے گرد ونواح کا مخصوص علاقہ ہے جہاں ان کا ظہور ہوگا اور جو اس وقت اہل اسلام اور اہل کفر کے مابین کشمکش اور جنگ وجدال کا مرکز ہوگا۔ لکھتے ہیں:

ان الغلبۃ المعہودۃ انما ہی بالارض التی ینزل بہا عیسی علیہ الصلاۃ والسلام لا علی البسیطۃ کلہا وما ذالک الا من تبادر الاوہام فقط. (فیض الباری ۴/ ۳۴۳)
’’جس غلبے کا حدیث میں ذکر ہوا ہے، وہ اس سرزمین میں ہوگا جہاں حضرت عیسیٰ نازل ہوں گے، نہ کہ پورے کرۂ ارضی پر۔ یہ خیال بس یوں ہی لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہو گیا ہے۔‘‘

دیوبندی مکتبہ فکر کے ایک اور جلیل القدر محدث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے ہاں بھی یہی رجحان دکھائی دیتا ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’امام مہدی کی پیدائش اور آمد سے پہلے دنیا میں جو ظلم وجور ہوگا، اللہ کے فضل وکرم سے اقتدار میں آنے کے بعد زیر اثر علاقہ میں وہ عدل وانصاف قائم کریں گے اور نا انصافی کو نیست ونابود کر دیں گے۔‘‘ (ارشاد الشیعہ، ص ۱۹۵)
’’دجال لعین کے قتل کے بعد جس علاقہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اقتدار ہوگا، وہاں بغیر اسلام کے اورکوئی مذہب باقی نہ رہے گا۔‘‘ (ایضاً، ص ۲۰۱)

 

جہاد کی فرضیت

جمہور فقہا کا نقطہ نظر یہ رہا ہے کہ جہاد کا آغاز کرنے کے لیے کفار کی طرف سے کسی جارحیت یا اشتعال انگیز رویے (Provocation) کا پایا جانا ضروری نہیں، بلکہ اگر کوئی غیر مسلم حکومت مسلمانوں کے خلاف کسی قسم کے جارحانہ عزائم نہ رکھتی ہو، تب بھی اس کے ساتھ برسر جنگ ہونا مسلمانوں پر واجب ہے۲۴؂۔ ابن الہمام لکھتے ہیں:

وقتال الکفار ... واجب وان لم یبدء ونا لان الادلۃ الموجبۃ لہ لم تقید الوجوب ببداء تہم. (فتح القدیر ۱۲/ ۳۸۵)
’’کفار کے خلاف جنگ کرنا واجب ہے، اگرچہ وہ ہمارے خلاف اس کا آغاز نہ کریں، کیونکہ جہاد کو واجب کرنے والے دلائل میں اس کے وجوب کو اس سے مشروط نہیں کیا گیا کہ پہل کفار کی طرف سے کی گئی ہو۔‘‘

اسی طرح کسی کافر قوم کے ساتھ صلح کا دائمی معاہدہ فلسفہ جہاد کے منافی ہے، لہٰذا کفار کے ساتھ ’مہادنہ‘ یعنی برابری کی سطح پر صلح کے تعلقات قائم نہیں ہو سکتے اور اگر کوئی غیر مسلم قوم اس کی خواہاں ہو تو اس کی پیش کش قبول نہیں کی جائے گی۲۵؂۔ ہاں، اگر مسلمان ان کے ساتھ جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں یا کوئی دوسری سیاسی یا مذہبی مصلحت پیش نظر ہو تو دو شرطوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا جا سکتا ہے:

ایک یہ کہ معاہدہ محدود مدت کے لیے ہو، کیونکہ دائمی صلح کی صورت میں جہاد کا بالکلیہ ترک کر دینا لازم آتا ہے۔ اس صورت میں بعض فقہا کے نزدیک چار مہینے سے زیادہ مدت کے لیے صلح نہیں کی جا سکتی، بعض کے نزدیک اس کی مدت زیادہ سے زیادہ دس سال ہے، جبکہ بعض کی رائے میں حالات ومصالح کے لحاظ سے کسی بھی مخصوص مدت کے لیے صلح کا معاہدہ کیا جا سکتا ہے، البتہ کوشش یہ کرنی چاہیے کہ کم سے کم مدت کے لیے معاہدۂ صلح کی پابند ی اختیار کی جائے۲۶؂۔

دوسری یہ کہ صلح کا معاہدہ محض اس وقت تک برقرار رکھا جائے گا جب تک کہ وہ مصلحت جس کے پیش نظر صلح کی گئی ہے، باقی ہو یا مسلمانوں کی جنگی استعداد جہاد کی متحمل نہ ہو۔ صورت حال تبدیل ہونے پر معاہدۂ صلح کو ختم کر کے کفار کے خلاف اقدام کرنا لازم ہے۲۷؂۔

تاہم مذکورہ رائے کے برعکس فقہا کے ایک گروہ کی رائے یہ بھی رہی ہے کہ جو کفار مسلمانوں کے خلاف جنگ کی ابتدا نہ کریں، ان کے خلاف قتال فرض نہیں۔ مثال کے طور پر طبری نے ’کتب علیکم القتال‘ ۲۸؂کے تحت جلیل القدر تابعی مفسر عطاء رحمہ اللہ کی یہ رائے تھی کہ مسلمانوں پر جہاد فرض نہیں اور مذکورہ قرآنی حکم صرف صحابہ کے ساتھ خاص تھا۔ اسی طرح عمرو بن دینار کی رائے بھی یہی تھی کہ کفار پر حملہ کرنا واجب نہیں:

عن ابن جریج قال قلت لعطاء اواجب الغزو علی الناس فقال ہو وعمرو بن دینار ما علمناہ. (جصاص، احکام القرآن ۳/ ۱۱۳)
’’ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے پوچھا کہ کیا کفار پر حملہ آور ہونا مسلمانوں پر واجب ہے؟ تو عطاء اور عمرو بن دینار دونوں نے کہا کہ ہماری رائے میں واجب نہیں ہے۔‘‘

سفیان ثوری سے یہ رائے منقول ہے کہ کفار جب تک مسلمانوں کے خلاف قتال کی ابتدا نہ کریں، ان کے خلاف جنگ کرنا لازم نہیں۔ امام محمد ’السیر الکبیر‘ میں لکھتے ہیں:

کان الثوری یقول القتال مع المشرکین لیس بفرض الا ان تکون البدایۃ منہم فحینئذ یجب قتالہم دفعا لظاہر قولہ فان قاتلوکم فاقتلوہم وقولہ وقاتلوا المشرکین کافۃ کما یقاتلونکمکافۃ.(سرخسی، شرح السیر الکبیر، ۱/ ۱۸۷)
’’سفیان ثوری کہتے تھے کہ جب تک کفار جنگ کا آغاز نہ کریں، ان کے ساتھ لڑنا فرض نہیں۔ ہاں اگر وہ حملہ کریں تو پھر دفاع میں ان سے لڑنا فرض ہے۔ ان کا استدلال اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات سے ہے کہ ’’پھر اگر وہ تم سے لڑیں تو انھیں قتل کرو‘‘ اور ’’تم بھی مل کر مشرکین سے لڑو جیسے وہ مل کر تم سے لڑتے ہیں۔‘‘

ان حضرات اور جمہور کے مابین نکتہ اختلاف کی وضاحت کرتے ہوئے جصاص لکھتے ہیں:

وہذا ہو موضع الخلاف بین الفقہاء فی فرض الجہاد فحکی عن ابن شبرمۃ والثوری فی آخرین ان الجہاد تطوع ولیس بفرض. (احکام القرآن، ۳/ ۱۱۳)
’’جہاد کی فرضیت کے باب میں یہ نکتہ فقہا کے مابین محل نزاع ہے، چنانچہ ابن شبرمہ، ثوری اور بعض دیگر اہل علم سے یہ رائے منقول ہے کہ کہ جہاد محض مستحب ہے، فرض نہیں۔‘‘

دوسری جگہ لکھتے ہیں:

موضع الخلاف بینہم انہ متی کان بازاء العدو مقاومین لہ ولا یخافون غلبۃ العدو علیہم ہل یجوز للمسلمین ترک جہادہم حتی یسلموا او یودوا الجزیۃ فکان من قول ابن عمر وعطاء وعمرو بن دینار وابن شبرمۃ انہ جائز للامام والمسلمین ان لا یغزوہم وان یقعدوا عنہم وقال آخرون علی الامام والمسلمین ان یغزوہم ابدا حتی یسلموا او یودوا الجزیۃ. (احکام القرآن، ۳/ ۱۱۴)
’’فقہا کے مابین اختلاف اس صورت میں ہے کہ جب مسلمانوں کا پلہ دشمن کے برابر ہو اور انھیں دشمن سے مغلوب ہونے کا خدشہ بھی نہ ہو تو کیا مسلمانوں کے لیے جائز ہے کہ وہ انھیں قبول اسلام یا جزیہ کی ادائیگی پر مجبور کرنے کے لیے جہاد نہ کریں؟ ابن عمر، عطا، عمرو بن دینار اور ابن شبرمہ کی رائے یہ ہے کہ اس صورت میں بھی مسلمانوں اور ان کے حکمران کے لیے جائز ہے کہ وہ کفار پر حملہ نہ کریں اور آرام سے بیٹھے رہیں، جبکہ دوسرے فقہا کی رائے میں مسلمانوں اور ان کے حکمران پر ان کے ساتھ جنگ کرنا ہمیشہ واجب ہے یہاں تک کہ وہ یا تو اسلام لے آئیں یا جزیہ دینے کے لیے تیار ہو جائیں۔‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ اہل علم ان آیات کو جن میں غیر محارب کفار کے ساتھ جنگ کرنے سے منع کیا گیا ہے، منسوخ نہیں سمجھتے۔ ابوبکر الجصاص لکھتے ہیں:

ومن الناس من یقول ان ہذہ الآیات غیر منسوخۃ وجائز للمسلمین ترک قتال من لا یقاتلہم من الکفار اذ لم یثبت ان حکم ہذہ الآیات فی النہی عن قتال من اعتزلنا وکف عن قتالنا منسوخ وممن حکی عنہ ان فرض الجہاد غیر ثابت ابن شبرمۃ وسفیان الثوری. (احکام القرآن ۲/ ۲۲۲)
’’بعض علما کی رائے یہ ہے کہ یہ آیات منسوخ نہیں ہیں اور مسلمانوں کے لیے جائز ہے کہ جو کفار ان کے ساتھ جنگ نہیں کرتے، ان کے خلاف نہ لڑیں، کیونکہ یہ بات کہیں بھی ثابت نہیں کہ ان آیات میں مسلمانوں کے ساتھ جنگ سے گریز کرنے والے کفار کے خلاف نہ لڑنے کا جو حکم دیا گیا ہے، وہ منسوخ ہو چکا ہے۔ جن اہل علم سے جہاد کے فرض نہ ہونے کی رائے منقول ہے، ان میں ابن شبرمہ اور سفیان ثوری شامل ہیں۔‘‘

ابن رشد اس اختلاف کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

فاما ہل تجوز المہادنۃ؟ فان قوما اجازوہا ابتداء من غیر سبب اذا رای ذلک الامام مصلحۃ للمسلمین وقوم لم یجیزوہا الا لمکان الضرورۃ الداعیۃ لاہل الاسلام من فتنۃ او غیر ذلک...وسبب اختلافہم فی جواز الصلح من غیر ضرورۃ معارضۃ ظاہر قولہ تعالی فاذا انسلخ الاشہر الحرم فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموہموقولہ تعالی قاتلوا الذین لا یومنون باللہ ولا بالیوم الآخر لقولہ تعالیٰ وان جنحوا للسلم فاجنح لہا وتوکل علی اللہ فمن رای ان آیۃ الامر بالقتال حتی یسلموا او یعطوا الجزیۃ ناسخۃ لآیۃ الصلح قال لا یجوز الصلح الا من ضرورۃ ومن رای ان آیۃ الصلح مخصصۃ لتلک قال الصلح جائز اذا رای ذلک الامام وعضد تاویلہ بفعلہ ذلک صلی اللہ علیہ وسلم وذلک ان صلحہ صلی اللہ علیہ وسلم عام الحدیبیۃ لم یکن لموضع الضرورۃ.(بدایۃ المجتہد، ۱/ ۲۸۳، ۲۸۴)
’’رہا یہ سوال کہ کیا کفار سے صلح کرنا جائز ہے تو ایک گروہ کی رائے میں اگر حکمران اسے مسلمانوں کے حق میں مناسب سمجھے تو کسی مجبوری کے بغیر ازخود بھی کفار سے صلح کرنا جائز ہے۔ ایک دوسرے گروہ کی رائے یہ ہے کہ اہل اسلام کو نقصان پہنچنے کے خدشے یا اس طرح کی کسی دوسری مجبوری کے بغیر صلح کرنا درست نہیں۔ اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ’فاقتلوا المشرکین‘ اور ’قاتلوا الذین لا یومنون باللہ‘ کے ارشادات الٰہی بظاہر اس دوسری آیت سے ٹکراتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ ’وان جنحوا للسلم فاجنح لہا وتوکل علی اللہ‘۔ سو جن فقہا کی رائے میں قتال کا حکم دینے والی آیات نے صلح کی آیت کو منسوخ کر دیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ کسی مجبوری کے بغیر کفار سے صلح جائز نہیں۔ اور جن اہل علم کے خیال میں صلح کی آیت قتال کے مذکورہ احکام کے لیے مخصص ہے، وہ کہتے ہیں کہ اگر حکمران مناسب سمجھے تو صلح کرنا جائز ہے۔ نیز یہ آیات کے اس مفہوم کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی پیش کرتے ہیں، کیونکہ حدیبیہ کی صلح آپ نے کسی مجبوری کے تحت نہیں کی تھی۔‘‘

امام طبری بھی غالباً اس رائے کے حق میں رجحان رکھتے ہیں، چنانچہ سورۂ انفال کی آیت ’وان جنحوا للسلم فاجنح لہا‘ میں کفار کی طرف سے صلح کی پیش کش قبول کرنے کرنے کی جو اصولی ہدایت دی گئی ہے، امام طبری اس کو کسی ایک مخصوص صورت میں محصور نہیں سمجھتے، بلکہ ان کے نزدیک اہل کتاب کے ساتھ صلح کی صورتیں تین میں سے کوئی ایک ہو سکتی ہے: یا تو یہ کہ وہ اسلام قبول کر لیں یا جزیہ ادا کر کے دار الاسلام کے باشندے بن جائیں اور یا مسلمانوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ کر لیں۔ لکھتے ہیں:

(وان جنحوا للسلم فاجنح لہا) وان مالوا الی مسالمتک ومتارکتک الحرب اما بالدخول فی الاسلام واما باعطاء الجزیۃ واما بموادعۃ ونحو ذلک من اسباب السلم والصلح (فاجنح لہا) یقول فمل الیہا وابذل لہم ما مالوا الیہ من ذلک وسالوکہ. (تفسیر الطبری، ۱۰/ ۴۱)
’’’وان جنحوا للسلم فاجنح لہا‘ کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ آپ کے ساتھ جنگ کو چھوڑ کر صلح کرنے پر آمادہ ہوں، چاہے اسلام میں داخل ہو کر یا جزیہ ادا کر کے یا صلح کا باہمی معاہدہ کر کے اور اسی طرح صلح کے طریقوں میں سے کوئی طریقہ اختیار کر کے، تو آپ بھی اس پر آمادہ ہو جائیں اور کفار آپ سے صلح کا جو مطالبہ کرتے ہیں، اسے قبول کر لیں۔‘‘

مذکورہ اہل علم کا جو استدلال مذکورہ عبارتوں میں نقل ہوا ہے، وہ دو حوالوں سے تشنہ ہے:

ایک یہ کہ اگر جہاد فرض نہیں ہے تو پھر’فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموہم‘، ’قاتلوا الذین لا یومنون باللہ‘ اور اس مفہوم کی دیگر آیات کا مطلب کیا ہے جو صراحتاً جہاد کی فرضیت پر دلالت کر رہی ہیں؟ عطاء رحمہ اللہ سے ان آیات کی یہ توجیہ تو منقول ہے کہ ان کے مخاطب خاص صحابہ ہی تھے، لیکن یہ بات واضح نہیں کہ ان کے نزدیک اس تخصیص کی بنیاد کیا ہے۔

دوسرا یہ کہ اگر یہ اہل علم اپنے موقف کی بنیاد ’فان اعتزلوکم فلم یقاتلوکم‘ کے حکم قرآنی کو بناتے ہیں تو اس میں تو غیر محارب کفار کے ساتھ جہاد کو ممنوع قرار دیا گیا ہے، جبکہ یہ حضرات، منقول استدلال کے مطابق، اس کو ممنوع نہیں بلکہ جائز مانتے ہیں۔ چنانچہ جصاص کا یہ تبصرہ بالکل درست ہے کہ اس موقف کی رو سے بھی زیر بحث حکم کو لازماً منسوخ ماننا پڑے گا۔

مذکورہ اہل علم کی آرا چونکہ اپنے پورے استدلال کے ساتھ تفصیلی صورت میں ہمارے سامنے نہیں ہیں، اس لیے ہم یقین کے ساتھ یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ان کے نزدیک مذکورہ سوالات کی کیا توجیہ ہوگی۔ یہاں ان آرا کا حوالہ محض اس امر کی نشان دہی کے لیے دیا گیا ہے کہ صلح وامن کی ہدایات کو منسوخ یا مخصوص حالات کے ساتھ محدود ماننے کے عام فقہی رجحان کے برخلاف ، ان نصوص کو محکم اور قابل عمل ماننے کا علمی زاویہ نگاہ بھی ماضی میں موجود رہا ہے، اگرچہ اس کو مین اسٹریم فقہی لٹریچر میں کوئی خاص نمائندگی حاصل نہیں ہو سکی۔

 

جزیہ کے نفاذ میں لچک اور رعایت

قرآن مجید میں جزیہ عائد کرنے کا حکم اصلاً جزیرۂ عرب کے اہل کتاب کے حوالے سے بیان ہوا ہے۔ اگرچہ ان کے علاوہ دوسرے گروہوں پر بھی اشتراک علت کی بنا پر جزیہ کا نفاذ درست تھا، تاہم قرآن مجید میں اس کی تصریح نہ ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ بہرحال ایک اجتہادی معاملہ تھا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں مجوس اور اہل کتاب کے بہت سے گروہوں سے جزیہ وصول کیا، وہاں مصلحت اور تالیف قلب کے پیش نظر بعض مخصوص گروہوں کو اس سے مستثنیٰ بھی قرار دیا۔ مثال کے طورپر تیسری صدی ہجری کے محدث عبد اللہ بن محمد بن جعفر انصاری نے اپنی کتاب ’طبقات المحدثین باصبہان‘ میں ذکر کیا ہے کہ سیدنا سلمان فارسیؓ کے بھائی ذو فروخ کی نسل میں سے غسان نامی ایک شخص کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لکھا گیا ایک عہد نامہ موجود ہے جو سیدنا علی نے رجب ۹ ہجری میں آپ کے حکم پر لکھا اور اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر اور سیدنا علی کی مہر بھی موجود ہے۔ تحریر کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عہد نامہ سلمان فارسیؓ کی درخواست پر ان کے اہل خاندان کے نام لکھا۔ اس تحریر میں لکھا ہے کہ:

قد دفعت عنہم جز الناصیۃ والجزیۃ والحشر والعشر وسائر المون والکلف. (طبقات المحدثین باصبہان ۱/ ۲۳۲)
’’میں نے انھیں پیشانی کے بال کاٹنے، جزیہ ادا کرنے، حشر، عشر اور ساری مالی ذمہ داریوں اور ادائیگیوں سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔‘‘

ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء رحمہ اللہ سے پوچھا کہ کیا مجوس اہل کتاب ہیں؟ انھوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا کہ گھوڑے کی پوجا کرنے والے؟ عطا نے کہا:

وجد کتاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم لہم زعموا بعد اذ اراد عمر ان یاخذ الجزیۃ منہم فلما وجدہ ترکہم قال قد زعموا ذلک. (مصنف عبد الرزاق، ۱۰۰۲۳)
’’جب سیدنا عمر نے ان سے جزیہ لینا چاہا تو انھوں نے کہا کہ ان کے پا س نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نوشتہ موجود ہے (جس میں انھیں جزیہ سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے)۔ جب سیدنا عمر نے یہ تحریر دیکھی تو انھیں چھوڑ دیا۔‘‘

تیسری نظیر مصر کی ہے۔ روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہ کو فتح مصر کی بشارت دی تو ان سے فرمایا کہ اس سرزمین کے باشندوں کے ساتھ تمہاری رشتہ داری ہے، اس لیے ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ ابو ذر بیان کرتے ہیں:

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انکم ستفتحون مصر وہی ارض یسمی فیہا القیراط فاذا فتحتموہا فاحسنوا الی اہلہا فان لہم ذمۃ ورحما او قال ذمۃ وصہرا. (صحیح مسلم، رقم ۴۶۱۵)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب تم مصر کو فتح کرو گے اور یہ وہ سرزمین ہے جس کے سکے کا نام قیراط ہے۔ پس جب تم اس کو فتح کر لو تو وہاں کے باشندوں سے اچھا سلوک کرنا، کیونکہ (ان کا دہرا حق ہوگا) وہ اہل ذمہ بھی ہوں گے اور ان کے ساتھ رشتے داری بھی ہے۔‘‘

زہری کی ایک مرسل روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’لو عاش ابراہیم لوضعت الجزیۃ عن کل قبطی‘ (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ ۱/ ۱۴۴) صحابہ نے اس وصیت پر یوں عمل کیا کہ حضرت ماریہ قبطیہ کی بستی کے لوگوں کو جزیہ سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ بلاذری بتاتے ہیں:

عن الشعبی ان علی بن الحسین او الحسین نفسہ کلم معاویۃ فی جزیۃ اہل قریۃ ام ابراہیم ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بمصر فوضعہا عنہم وکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یوصی بالقبط خیرا. (فتوح البلدان، ص ۲۲۶)
’’شعبی بتاتے ہیں کہ علی بن الحسین یا خود سیدنا حسین نے مصر میں ماریہ قبطیہ کی بستی والوں کے بارے میں سفارش کی تو معاویہ نے ان سے جزیہ ساقط کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قبطیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتے تھے۔‘‘

امام ابوعبید نے اسے جزیۃ الرؤوس کے بجائے خراج پر محمول کیا ہے۔ (الاموال، ص ۱۷۴)

صحابہؓ کے طرز عمل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بالعموم رومی اور فارسی سلطنتوں یا ان کے زیر اثر علاقوں کے ساتھ جزیہ کی وصولی کے بغیر صلح پر آمادہ نہیں ہوئے، چنانچہ مقوقس شاہ مصر نے عمرو بن العاص کو اس صلح کی پیش کش کی تو انھوں نے اس دھمکی کے ساتھ اسے مسترد کر دیا کہ ’قد علمتم ما فعلنا بملککم الاکبر ہرقل‘۲۹؂ تاہم مخصوص علاقوں اور اقوام کے معاملے میں انھوں نے جزیہ کے حوالے سے نسبتاً لچک دار رویہ اختیار کیا۔ اس حوالے سے تاریخ میں متعدد نظیریں ہمیں ملتی ہیں:

عہد صحابہ میں بنو تغلب کے نصاریٰ نے جب اصرار کیا کہ وہ اہل عجم کی طرح ’جزیہ‘ ادا نہیں کریں گے بلکہ ان سے صدقہ یا زکوٰۃ وصول کی جائے تو سیدنا عمرؓ نے ابتداء ان کے اس مطالبے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، تاہم یہ دیکھتے ہوئے کہ بنو تغلب شام کی سرحد کے قریب آباد ہیں اور دشمن کے مقابلے میں ان کے تعاون کی مسلمانوں کو اشد ضرورت ہے، انھوں نے مصلحت اور مجبوری کے تحت ان کے رؤوس پر ’جزیہ‘ عائد کرنے کے بجائے ان کے اموال میں سے صدقہ وصول کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ اس سے معاملے کی حقیقی نوعیت بالکل مختلف ہو گئی تھی، تاہم انھوں نے ان سے یہ کہنا مناسب سمجھا کہ تم اسے جو چاہو نام دے لو، ہم تم سے وصول کی جانے والی رقم کو ’جزیہ‘ ہی کہیں گے۔ ۳۰؂

اسی نوعیت کی مثال جزیرۂ قبرص کی ہے جہاں کے باشندوں سے اس شرط پر صلح طے پائی کہ وہ مسلمانوں کو بھی جزیہ ادا کریں گے اور قیصر روم کو بھی۔ طبری نے نقل کیا ہے:

ان صلح قبرس وقع علی جزیۃ سبعۃ آلاف دینار یودونہا الی المسلمین فی کل سنۃ ویودون الی الروم مثلہا لیس للمسلمین ان یحولوا بینہم وبین ذلک. (الکامل فی التاریخ ۴/ ۲۶۲)
’’قبرص کی صلح اس شرط پر طے پائی کہ اہل قبرض سالانہ سات ہزار دینار مسلمانوں کو اور اتنی ہی رقم رومی سلطنت کو ادا کریں گے اور مسلمانوں کو اس میں رکاوٹ ڈالنے کا اختیار نہیں ہوگا۔‘‘

جزیہ، جیسا کہ ہم تفصیل سے واضح کر چکے ہیں، اس دور میں سیاسی محکومی اور اطاعت کی علامت تھا۔ ظاہر ہے کہ ایک علاقے کے باشندوں کے لیے بیک وقت دو متحارب سلطنتوں کی سیاسی حاکمیت کو قبول کرنا ممکن نہیں۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جزیرۂ قبرص کو اسلامی سلطنت کا ایک باقاعدہ حصہ بنانے کے بجائے اس سے صرف ایک علامتی رقم وصول کرنے پر اکتفا کر لی گئی۔

تیسری مثال جرجومہ شہر کے باسیوں کی ہے جو بیاس اور بوقا کے مابین معدن الزاج کے قریب جبل لکام پر واقع تھا۔ یہ شہر انطاکیہ کے بطریق کے ما تحت تھا۔ سیدنا ابو عبیدہؓ نے جب ان پر لشکر کشی کی تو انھوں نے لڑائی سے گریز کرتے ہوئے صلح کی پیش کش کی۔ مسلمانوں نے ان شرائط پر ان سے صلح کر لی کہ وہ جبل لکام میں مسلمانوں کے مددگار اور جاسوس اور ہتھیار فراہم کرنے والے بن کر رہیں گے اور یہ کہ ان سے جزیہ نہیں لیا جائے گا اور یہ کہ جب وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر دشمن سے جنگ کریں تو جن افراد کو وہ قتل کریں، ان کا سازوسامان بطور انعام ان کو دے دیا جائے گا۳۱؂۔

ان لوگوں کے ساتھ طے شدہ اس شر ط کو بعد کے خلفا نے بھی برقرار رکھا۔ ۸۹ ہجری میں شہر کے باسیوں نے بد عہدی کی تو ولید بن عبد الملک نے دوبارہ اس شہر کو فتح کیا اور صلح میں یہ طے کیا کہ:

ولا یوخذ منہم ولا من اولادہم ونساۂم جزیۃ وعلی ان یغزوا مع المسلمین فینفلوا اسلاب من یقتلونہ مبارزۃ. (فتوح البلدان، ص ۱۶۸)
’’ان سے اور ان کے بیوی بچوں سے جزیہ نہیں لیا جائے گا اور اگر وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگ کریں تو میدان جنگ میں دشمن کے جن افراد کو وہ قتل کریں گے، ان کا سامان انھیں دے دیا جائے گا۔‘‘

بعد میں کسی عامل نے ان پر جزیہ کی ادائیگی لازم کی تو انھوں نے یہ معاملہ عباسی خلیفہ واثق باللہ کے عہد حکومت میں اس کے سامنے پیش کیا اور اس نے سابقہ معاہدے کے مطابق انھیں اس سے مستثنیٰ قرار دیا۳۲؂۔

سرزمین مصر میں رومیوں کے مقبوضہ علاقے سے آگے بڑھ کر نوبہ کے علاقے پر عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح نے حملہ کیا تو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ باہم گفت وشنید سے ایک تجارتی معاہدہ کے ساتھ صلح کا معاملہ طے پا گیا۔

فسالوہ الصلح والموادعۃ فاجابہم الی ذلک علی غیر جزیۃ لکن علی ہدنۃ ثلث ماءۃ راس فی کل سنۃ وعلی ان یہدی المسلمون الیہم طعاما بقدر ذلک. (فتوح البلدان، ص ۲۳۵)
’’انھوں نے صلح کا مطالبہ کیا جسے عبد اللہ بن ابی سرح نے منظور کر لیا۔ طے یہ پایا کہ وہ جزیہ نہیں دیں گے، البتہ صلح کی شرط یہ ہوگی کہ وہ ہر سال تین سو غلام مسلمانوں کے حوالے کریں گے اور مسلمان ان کی قیمت کے برابر انھیں غلہ دے دیں گے۔‘‘

امام لیث بن سعد نے ا س صلح کی نوعیت یوں بیان کی ہے:

انما الصلح بیننا وبین النوبۃ علی ان لا نقاتلہم ولا یقاتلوننا وانہم یعطوننا رقیقا ونعطیہم طعاما. (ابو عبید، الاموال، ۲۳۶)
’’ہمارے اور اہل نوبہ کے مابین صلح اس بات پر ہوئی ہے کہ نہ وہ ہم سے لڑیں گے اور نہ ہم ان سے، اور یہ کہ وہ ہمیں غلام مہیا کریں گے اور ہم اس کے عوض میں انھیں آٹا دیں گے۔‘‘

اسی طرح بعض گروہوں کو اس شرط پر جزیہ سے مستثنیٰ قرار دینے کی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ وہ جنگوں میں مسلمانوں کا ساتھ دیں گے۔۳۳؂

اہل مصر میں سے ایک قبطی نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو یہ پیش کش کی کہ اگر اسے اور اس کے اہل خانہ کو جزیہ سے مستثنیٰ کر دیا جائے تو وہ انھیں ایک ایسی جگہ بتا سکتا ہے جو سمندر کے راستے سے مصر کو مکہ اور مدینہ سے ملا دیں گی اور لوگ کشتیوں سے سفر کر کے وہاں جا سکیں گے۔عمرو بن العاص نے سیدنا عمر کو خط لکھ کر اس کی اجازت طلب کی تو انھوں نے اس کی اجازت دے دی۳۴؂۔

جہاں تک بعد کی فقہی روایت کا تعلق ہے تو فقہا بالعموم اہل ذمہ کے لیے ’جزیہ‘ کی ادائیگی کو لازم قرار دیتے ہیں۔ ’جزیہ‘ ان کے کفر پر قائم رہنے کی سزا اور اسلام کے مقابلے میں ان کی ذلت ورسوائی کی علامت ہے اور اپنی اس علامتی اہمیت ہی کی وجہ سے مسلمانوں کے مقابلے میں اہل ذمہ کی محکومانہ حیثیت کو واضح کرتا ہے۔ فقہا اس کی حکمت یہ بتاتے ہیں کہ جن کفار نے دین حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے، وہ مسلمانوں کے زیردست رہتے ہوئے ہردم اپنی پستی اور محکومی کا مشاہدہ کریں اور انھیں احساس ہو کہ یہ ان کے کفر پر قائم رہنے کی سزا ہے۔ اس طرح ان میں یہ داعیہ پیدا ہوگا کہ وہ اس ذلت سے بچنے کے لیے کفر وشرک کو چھوڑ کر دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں۳۵؂۔ یہ مقصد چونکہ ’جزیہ‘ ہی کے ذریعے سے حاصل ہو سکتا ہے، اس لیے فقہا یہ کہتے ہیں کہ اگر غیر مسلم ’جزیہ‘ کی ادائیگی کے بغیر پر امن تعلقات قائم کرنے کی پیش کش کریں تو قبول نہیں کی جائے گی۳۶؂۔ حتیٰ کہ اگر اس شرط پر صلح کے لیے آمادہ ہوں کہ ان کو قیدی بنائے بغیر اور مسلمانوں کے ذمہ میں داخل کر کے ان سے جزیہ وصول کیے بغیر انھیں اپنے علاقے سے جلا وطن کر دیا جائے تو بھی مذکورہ شرط پر صلح کرنا جائز نہیں۔ البتہ اگر مسلمان قتال کر کے ان سے جزیہ وصول کرنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں تو مذکورہ شرط پر صلح کی جا سکتی ہے۳۷؂۔ اسی بنا پر فقہا سیدنا عمر کے اس فیصلے کو جوانھوں نے بنو تغلب کے نصاریٰ کے بارے میں کیا، بنو تغلب ہی کے ساتھ مخصوص مانتے ہیں اور ان کے علاوہ کسی اور غیر مسلم گروہ سے ’جزیہ‘ کے بجائے صدقہ کی وصولی کو جائز نہیں سمجھتے۔۳۸؂ جبکہ جصاص وغیرہ کی رائے میں یہ بھی درحقیقت ’جزیہ‘ ہی تھا۳۹؂۔

________

۲۴؂ سرخسی، شرح السیر الکبیر، ۱/ ۱۸۸۔

۲۵؂ الشیبانی، کتاب السیر والخراج والعشر، ۱۵۴۔

۲۶؂ ابن قدامہ، المغنی، ۹/ ۷۵۹۰، ۷۵۹۱ ۔ نیز دیکھیے الام ۴/ ۲۰۴۔

۲۷؂ سرخسی، المبسوط، ۱۰/ ۸۶۔

۲۸؂ البقرہ ۲: ۲۱۶۔

۲۹؂ البدایہ والنہایہ ۷/ ۹۹۔

۳۰؂ بلاذری، فتوح البلدان ۱/ ۲۱۶۔

۳۱؂ فتوح البلدان، ص ۱۶۶۔

۳۲؂ فتوح البلدان، ص ۱۶۸۔

۳۳؂ یاقوت حموی، معجم البلدان، ۲/ ۱۲۱۔

۳۴؂ فتوح مصر واخبارہا، ۱/ ۲۸۷۔

۳۵؂ الموسوعۃ الفقہیہ، ’جزیہ‘، ۱۵/ ۱۵۸۔ ابن العربی، احکام القرآن، ۲/ ۴۸۱۔

۳۶؂ جصاص، احکام القرآن، ۳/ ۴۲۸۔

۳۷؂ جصاص، احکام القرآن، ۳/ ۴۲۸۔

۳۸؂ سرخسی، المبسوط ۳/ ۲۵۸۔

۳۹؂ احکام القرآن ۶/ ۴۸۶۔

____________

B