ہم نے پیچھے جو کچھ بیان کیا اس کے حصول کا عملی ضابطہ بھی دین نے خود ہی بیان کیا ہے۔ اصلاح معاشرہ کے اس ضابطے کے تین بنیادی عناصر ہیں۔ ریاست، علما اور فرد۔ ہم اس تحریر میں اس ضابطے میں بیان کیے گئے صرف فرد سے متعلق طریقۂ کار پر گفتگو کریں گے کیونکہ وہی ہمارا مخاطب ہے۔ نیز اس دور میں اصلاحِ معاشرہ سے متعلق فرد کی ذمہ داریوں کے بارے میں افراط و تفریط کا رویہ بہت عام ہوگیا ہے۔ جس کے نتیجے میں عام لوگوں پر ان کی استعداد سے زیادہ بوجھ ڈالا جاتا ہے اور پھر بھی مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوتے۔ اس لیے بھی فرد کو اس کی ذمہ داریوں کے سلسلے میں باشعور بنانا ضروری کام ہے۔
ایک عام فرد سے، عام حالات میں جو دینی مطالبات لازماََ مطلوب ہیں وہ قرآن کریم کی سورہ العصر میں اس طرح بیان کیے گئے ہیں:
’’زمانہ گواہی دیتا ہے کہ یہ انسان خسارے میں پڑ کر رہیں گے۔ ہاں، مگر وہ نہیں جو ایمان لائے، اور انہوں نے نیک عمل کیے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کی‘‘۔ (العصر ۱۰۳: ۱۔۳)
قرآن کریم کی یہ سورت واضح طور پر یہ بتاتی ہے کہ مذکورہ بالا اعمال خسارے سے بچنے کا یقینی ذریعہ ہیں۔ بلاشبہ یہ خسارہ آخرت کا ہے مگر ایک مسلمان گروہ کے لیے یہ اعمال دنیا میں بھی نجات کے ضامن ہیں۔ اس مضمون میں ایمان اور عمل صالح ہمارا موضوع نہیں۔ البتہ ’تواصو بالحق و تواصو بالصبر‘ (یعنی ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور حق پر ثابت قدمی کی تلقین کرنا) کے حکم پر ہم تفصیل سے گفتگو کرنا چاہیں گے۔
________