HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

اصلاح کی فکری اساس

جہاں تک درست فکری اساس کا سوال ہے توہمارے نزدیک یہ اس مقصد کا صحیح شعور ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ امتِ مسلمہ کو پیدا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں مسلمانوں کو اس لیے پیدا نہیں کرتے کہ اسے کچھ نہ کچھ لوگوں کی تو بہرحال ضرورت ہے جو اس کی جنت کو ویران ہونے سے بچا سکیں۔ وہ کردار و اخلاق کا بدترین نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں اور اللہ تعالیٰ اس کے باجود انہیں فردوس کے باغوں میں آباد کردے۔ امت مسلمہ سے جو چیز اصلاََ مطلوب ہے وہ دنیا کے سامنے ایک خدا پرستانہ معاشر ے کا جیتا جاگتااور چلتا پھرتا نمونہ پیش کرنا ہے۔ مسلمانوں کا یہ معاشرہ توحید سے وفاداری اور شریعت کی پاسداری کے اصول پر قائم ہوتا ہے۔ یہی وہ فکری اساس ہے جس کا صحیح ادراک پید اہونے کے بعد مذکورہ بالا چاروں منفی اسباب ختم ہوجاتے ہیں۔

توحید پرست فرد دنیا پرست نہیں ہوسکتا۔ اس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد اپنے رب کو راضی کرنا اور جنت کی اس ابدی بادشاہی کا حصول ہوتا ہے جس میں داخلے کی شرط یہی ہے کہ فرد اپنے وجود کو اخلاق و کردار کی ہر گندگی سے پاک کرکے اپنے رب کے حضور پیش ہو۔ اس کے بعد کیسے ممکن ہے کہ کوئی خدا پرست دنیا کی عارضی نعمتوں کے خاطرخود کو ان اخلاقی برائیوں سے آلودہ کرے جو اسے ابدی جنت سے دور کردیں گی۔

آخرت کی کامیابی کا یہ نصب العین انسان کی نفسیات پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ انسان اپنے اندر ہمیشہ کی زندگی اور ابدی بادشاہی کی جو طلب پاتا ہے، جنت اور اس کی نعمتیں آخری درجے میں اسی تصور کا جواب ہیں۔ جنت کاحسن و جمال؛ اس کی رعنائی و دلکشی؛ سکون و راحت؛ سرور و لذت؛ توقیر و عزت؛ وسعت و رحمت؛ عطا و نعمت؛ خوشی و مسرت؛ آسانی و فراغت؛ دوام و ابدیت اور بخشش و عافیت کے تصورات جب قلبِ انسانی میں راسخ ہوجاتے ہیں تو اس کے لیے وہ اخلاقی زندگی گزارنا بیحد آسان ہوجاتا ہے جو سر تا سر قربانی سے عبارت ہے۔ بالکل اس طالبعلم کی طرح کہ جس کے لیے کامیابی کی امید امتحان کی ہر شدت کو آسان اور تیاری کے ہر مرحلے کو سہل بنادیتی ہے۔

ایسا انسان آخرت کی اس کامیابی کے لیے شریعت پر اس کی صحیح اسپرٹ کے ساتھ عمل کرتا ہے۔ شریعت کا صحیح علم اسے ظاہر پرستی سے بچاتا اور دین کی ترجیحات سے آگاہ کرتا ہے۔ سچی شریعت بتاتی ہے کہ اعمال میں اصل اہمیت تعداد سے زیادہ اخلاص کی ہے۔ جزئیات سے زیادہ اصول کی ہے۔ شریعت کا ہر عمل اوردین کا ہر حکم اخلاقی دنیا میں اپنا ایک نتیجہ چاہتا ہے۔ جو اگر نہ نکلے تو پھر خدا کی بارگاہ میں اس کی قبولیت مشکوک ہے۔ دین و شریعت ایک بندۂ مومن کو قدم قدم پر بتاتے ہیں کہ بندوں کے حقوق مار کر رب کو راضی نہیں کیا جا سکتا۔

پھر جن لوگوں کی زندگی کا مقصد توحید اور اس کا فروغ ہو وہ دوسروں کی ’’سازشوں‘‘ کے پرچار کے بجائے ان تک حق پہنچانے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ وہ دوسروں کے فرائض انہیں یاد دلانے کے بجائے اپنی ذمہ داریاں یاد رکھتے ہیں۔ وہ ان سے دنیاوی امور پر جھگڑے کھڑے کرنے کے بجائے ان کی آخرت کے لیے فکر مند رہتے ہیں۔ وہ نفر ت کے بجائے خیرخواہی اور ذمہ داری کے اس احساس میں جیتے ہیں جو انبیا کا خاصہ ہے۔ وہ لوگوں کی زیادتیاں سہہ کر انہیں اپنا بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

سب سے بڑھ کر توحید کی شکل میں قوم کو وہ اجتماعی نصب العین حاصل ہوجاتا ہے جس کے فروغ کا ارفع مقصد قوم کوایک لڑی میں پرودیتا ہے۔ ہم جیسے بے مقصد و بے منزل گروہ کے ایک قوم بننے کی واحد امید اگر کوئی ہے تو یہی ہے کہ ہم توحید کے فروغ کو اپنا مشن بنالیں۔ توحید و شریعت سے سچی وابستگی نہ صرف ہمارے اخلاقی مسائل کا حل ہے بلکہ بے راہروی اور دنیا پرستی پر مبنی مغربی تہذیب کو دنیا میں جو فروغ حاصل ہورہا ہے اس کے بعد ہم پر لازم ہے کہ ہم توحید اور آخرت کا مشن لے کر میدانِ عمل میں اتر آئیں۔ اس کو اپنے شعور میں آخری حد تک پختہ کریں اور دنیا پرستی کے مقابلے میں ڈٹ جائیں:

بے خبر تو جو ھر ِ آئینۂ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے

اگر ہم نے ایسا نہ کیا توبلاشبہ ہم بارگاہِ احدیت کے مجرم قرار پائیں گے۔

________

B