یہ وہ بنیادی اسباب ہیں جو ہمارے اخلاقی انحطاط کے پیچھے کارفرما ہیں۔ جب تک ہم ان وجوہات کو دور نہیں کریں گے اس وقت تک اخلاقی انحطاط کا یہ کینسر ہمیں اندر ہی اندر کھاتا رہے گا اور ایک روز ہمیں کسی بڑی تباہی سے دوچار کر دے گا۔
ہمارے نزدیک اس مسئلے کے حل کے دو پہلو ہیں۔ ایک فکری اور دوسرا عملی۔ انسان کے متعلق یہ بات بالکل واضح ہے کہ وہ حیوانات سے بلند ترایک مخلوق ہے۔ اس برتری کا باعث قلب ونظر کی وہ صلاحیتیں ہیں جو حیوانی جبلتوں کے ساتھ اسے عطا کی گئی ہیں۔ انسان سے جنم لینے والے تمام اعمال، خواہ وہ جبلی تقاضوں سے متعلق ہوں، قلب و ذہن کی بارگاہ سے اجازت طلب کرکے ہی دنیا میں ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ اس لیے بگاڑ جب بھی آتا ہے وہ اولاً فکری طور پر آتا ہے اور پھر عملی دنیا میں اس کا ظہور ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے مذکورہ بالا تجزیے میں دیکھا کہ اخلاقی بگاڑ کے چاروں اسباب فکری سطح پر غلط نقطۂ نظر کے فروغ اور درست نظریہ کی عدم موجودگی سے پیدا ہوئے ہیں۔
چنانچہ اصلاح کی راہ پر پہلا قدم یہ ہے کہ ایک فکری اساس متعین کی جائے جو مذکورہ بالا اسباب کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اس کے ساتھ عام لوگوں کے لیے اس عملی لائحۂ عمل کی نشاندہی بھی ضروری ہے جسے اختیار کر کے وہ اس صورتحا ل کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ اس لیے کہ یہ اخلاقی بگاڑ عوام الناس تک سرایت کرگیا ہے اور جب تک وہ عملاً اصلاح احوال کے لیے پوری قوت سے کوشش نہیں کریں گے کسی اور کے اصلاحی اقدامات کے نتیجے میں صورتحال میں بہتری کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔
________