HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

۴۔ اجتماعی نصب العین کی غیر موجودگی

اخلاقی انحطاط کا چوتھا سبب قومی زندگی میں کسی اجتماعی نصب الین کی عدم موجودگی ہے۔ اخلاقی زندگی اصلاََ قربانی کی زندگی ہے۔ انسان عام حالات میں خود پرستانہ اور ذاتی مفادات پر مبنی زندگی گزارتے ہیں۔ ایسا کرنا ان کے لیے ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے۔ مگر جب سامنے کوئی بلند تر مقصد ہو تو انسان دوسروں کی خاطر دکھ جھیلتا اور ایثار کرتا ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال ایک خاندان اور بچوں کے لیے ماں اور باپ کی قربانیاں ہیں۔ یہ دونوں اگر اپنے بہت سے حقوق سے دستبردار ہوکر اپنا مال، وقت اور محبت بچوں کو نہ دیں اور ان کے لیے مشکلات کا سامنا نہ کریں تو کبھی کوئی خاندان وجود میں نہیں آسکتا۔

ٹھیک یہی معاملہ ایک معاشرے کا ہوتا ہے۔ ایک مضبوط قوم اور مستحکم معاشرہ اس وقت وجود میں آتا ہے جب افراد کسی خارجی دباؤ کے بغیر خود اپنے اوپر کچھ پابندیاں عائد کرلیں۔ خاندان کے معاملے میں تو یہ چیز اس لیے باآسانی حاصل ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی جبلت میں اولاد کی بے پناہ محبت ڈال رکھی ہے۔ مگر قوم کے معاملے میں لوگ ایسا صرف اُس وقت کرتے ہیں جب ان کے سامنے اپنی ذات سے بلند ترکوئی اجتماعی مقصد اور نصب العین ہوتا ہے۔

ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر کوئی ایسا مقصد ہمارے سامنے نہیں۔ دوسری اقوام اس مسئلہ کو قوم پرستی اور حب الوطنی کے جذبے سے حل کرتی ہیں۔ ان کی زبان ایک ہوتی ہے، ان کی تاریخ ایک ہوتی ہے، ان کی تہذیب و ثقافت ایک ہوتی ہے، ان کی نسل ایک ہوتی ہے، ان کا جغرافیہ ایک ہوتا ہے۔ یکجہتی کی اتنی بنیادوں کے بعد ان میں اپنی ایک انفرادی قومی شناخت کا بھرپور احساس پیدا ہوتا ہے۔ وہ اس کی بقا، تحفظ اور فروغ کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ قوم میں اجتماعی اخلاقیات کی وہ اسپرٹ پیدا ہوتی ہے جس میں ہر شخص خوشدلی سے اپنے اوپر عائد ذمہ داریوں کوبلا اکراہ و جبر پورا کرتا اور اجتماعی مفاد کے خاطر انفرادی مفاد کو پیچھے ڈال دیتا ہے۔

جہاں یہ بنیادیں کمزور ہوں وہاں ان کے دانشور ان میں اجتماعیت کا وہ احساس پیدا کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کے مفادات ایک ہوجاتے ہیں۔ ان کے لیڈر سوسائٹی کے ہر طبقہ کے مفادات کو یکساں اہمیت دیتے اور ان کے حقوق و فرائض کے تعیّن میں کسی ناانصافی اورظلم سے کام نہیں لیتے۔ جس کے بعد تھوڑا وقت گزرتا ہے اور قوم پرستی کا احساس افرادِ قوم کے رگ و پے میں سرائیت کرجاتا ہے۔ افراد قوم اپنی انفرادی شناخت بھلاکر خود کو اجتماعیت میں ضم کردیتے ہیں۔ اس عمل سے نکلنے والا نتیجہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔

دوسری طرف ہماری صورتحال یہ ہے کہ دور جدید میں اجتماعیت کی وہ بنیادیں جن پر قوم کی بنا رکھی جاتی ہے، ہم ان سے محروم ہیں یا ان کوپامال کرکے ہم نے اپنے لیے وطن حاصل کیا ہے۔ آزادی کے وقت ہماری زبان، نسل، تاریخ، تہذیب و ثقافت اور جغرافیہ ،کچھ بھی ایک نہیں تھا۔ ایسے میں لازمی تھا اور ہے کہ ہم اپنے قومی وجود کی تعمیر کے لیے کم ا ز کم ایک اجتماعی بنیاد تلاش کرتے۔ جو خوش قسمتی سے اسلام کی صور ت میں ہمیں پہلے سے ہی حاصل تھی۔

ایسے میں ضروری تھا کہ نعروں کے بجائے تعلیم کے ذریعے اسلامی تصورات کو ذہنوں میں راسخ کیا جاتا اور اقتدار اور حکومت کے بجائے معاشرے میں اسلام کے فروغ کو ہدف بنایا جاتا۔ بالخصوص معاشرے کے وہ فعال طبقات جو اصلاََمعاشرے کی سمت اور رفتار کو کنٹرول کرتے ہیں ان کے سامنے اسلام اور شریعتِ اسلامی کا درست چہرہ لایا جاتا اور ان کے ذہنوں کو اس کی علمی برتری سے مرعوب کیا جاتا۔ بدقسمتی سے ایسانہ ہوسکا اور آج تک ایسا نہیں ہورہا۔ اس کے بجائے فرد اور حکومت کی سطح پر چند نمائشی اقدامات اور ظاہری تبدیلیوں کومطلوب قرار دیدیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج اسلام ہماری زندگیوں میں کوئی فعال کردار ادا نہیں کرتا اور اس کی بنیاد پر ایک اجتماعیت کے فروغ کے امکانات دن بدن مدھم پڑتے چلے جارہے ہیں۔ مذہب کاکوئی استعمال اب بچا ہے تو ظاہر پرستی کی اس شکل میں جس پر ہم پیچھے روشنی ڈال چکے ہیں۔

ہمارے جیسی ایک تاریخی قوم (اس بات کی تفصیل سمجھنے کے لیے ہماری کتاب ’’عروج و زوال کا قانون اور پاکستان کا مستقبل‘ ‘کا آخری باب ملاحظہ فرمائیے) جو مختلف گروہوں کے اشتراک سے وجود میں آئی ہے، اور جو فطری قومی بنیادوں سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی اور معاشرتی اعتبار سے بھی ایک زبردست تقسیم کا شکار ہے، اس کی بقا کے لیے ضروری تھا کہ اس کے مختلف گروہوں اور طبقات کے حقوق و فرائض کا تعین عدل و انصاف کے ساتھ کیا جاتا۔ پھر وقتاً فوقتاً ان پر نظر ثانی کا سلسلہ جاری رہتا۔ مگر ہم اس میدان میں بھی مکمل طور پر ناکام رہے۔ جس کا ایک نتیجہ ہم نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں بھگت لیا۔ ہم نے اپنی روش نہ بدلی تو نجانے مزید کیا کچھ سامنے آئے گا۔

اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم ابھی تک اپنی قومی بنیادوں ہی کو متعین نہیں کرسکے۔ کبھی سارے جہاں کا درد ہمارے دل میں سماجاتا ہے اور کبھی سب سے پہلے ہمیں اپنی جان کی پڑ جاتی ہے۔ ہم خود کو دائرۂ اسلام کا مکیں بتاتے ہیں مگر عملاََ ہمارا ہر دائرہ صوبائی سرحدوں اور لسانی حدبندیوں تک محدود ہے۔ ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر اصرار ہے مگر اس کے ساتھ اپنی فرقہ وارانہ شناخت پر بھی ہمیں فخر ہے۔ ہمار اقومی کلچر کیا ہے، ہمیں نہیں معلوم۔ ہمارا ثقافتی چہرہ کیا ہے، ہم نہیں جانتے۔ من حیث القوم ہماری کوئی منز ل نہیں۔ فی الوقت ہماری اجتماعیت مغربی، ہندوستانی اور زوال یافتہ مسلم تہذیب اور مقامی ثقافت کاایک ایسا ملغوبہ ہے جس کی کوئی متعین شکل پچاس سال میں سامنے نہیں آسکی۔ ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہے کہ آزادی کے نصف صدی بعد بھی ہمارا کوئی متفقہ قومی شعور اور کلچر وجود پذیر نہیں ہوسکا۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ فرد کس قوم کے لیے انفرادی مفاد کی قربانی دے۔ یہ بات اس لیے بھی بڑی اہم ہے کہ معاشرہ صرف قانون کے سہارے نہیں چلایا جاسکتا۔ قانون تو چند مجرمانہ ذہنیت کے لوگوں کو قابومیں رکھنے کے لیے ہوتا ہے۔ جبکہ عام لوگ اجتماعی مفاد کے خاطر ایک روایت کے طور پر قانون و اقدار کی پابندی کرتے ہیں۔ مگرہمارے ہاں کسی برتر اجتماعی نصب العین کے نہ ہونے کی بنا پر لوگ اپنی ذات اور مفاد سے آگے دیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ لہٰذا ہمارا ہر گھر، ہر سڑک، ہر دفتر اور ہر فیکٹری اجتماعی اخلاقیات کے اصولوں کی بھر پور خلاف ورزی کا نمونہ بن چکی ہے۔

________

B