ہم ابتدا میں بیان کرچکے ہیں کہ اخلاقی اقدار کا شعور ہر انسان اپنے ساتھ ماں کے پیٹ سے لے کر آتا ہے۔ دنیا میں آنے والا ہر انسان، مدرسۂ فطرت سے، اخلاقیات کے میدان میں فارغ التحصیل ہو کر آتا ہے۔ اسی بنیاد پر قیامت کے دن اس کے اعمال کی جانچ ہو گی۔ تاہم انسان اپنی بعض کمزوریوں کے باعث انحراف کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ انسانوں میں پیدا ہونے والے اس بگاڑ کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں اپنے انبیا اور رسول دنیا میں بھیجے ہیں جو لوگوں کو واپس فطرت کے راستے کی طرف بلاتے ہیں۔
انبیا کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف لوگوں کی بد اعمالیوں پر انہیں تنبیہ کرتے اور صحیح راستے کی طرف ان کی رہنمائی کرتے ہیں بلکہ جولوگ ان کی بات مان لیتے ہیں ان کو راہِ راست پر رکھنے کے لیے کچھ اعمال مقرر کرتے ہیں۔ یہ اعمال دین کا ظاہری ڈھانچہ تشکیل دیتے ہیں۔ یہ ظاہری ڈھانچہ اپنی جگہ عین مطلوب ہوتا ہے مگر، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، اس کا اصل مقصد لوگوں کو شاہراہِ فطرت پر قائم رکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین کے ہر ظاہری حکم کا کوئی نہ کوئی نتیجہ اخلاق اور فطرت کی دنیا میں نکلتا ہے۔
مثلاً خدا کو تنہا معبود اور سب سے بڑا ماننے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ تمام انسان برابر ہیں اور، سوائے اچھے عمل کے، کسی کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ نماز ایک طرف خدا کی یاد ذہنِ انسانی میں زندہ رکھتی ہے تو دوسری طرف فواحش و منکرات سے روکنا بھی اس کی خاصیت ہے۔ روزہ اگر خد اکی نعمتوں کی قدر و قیمت کا احساس دلاتا ہے تو ساتھ ساتھ خدا کے حدود کی پابندی کی تربیت اور غربا و مساکین کے حالات کی طرف بھی انسان کی توجہ دلاتا ہے۔ زکوٰۃ خدا سے محبت کے ساتھ مال و دنیا سے بے رغبتی اور ضعفاء کی مدد کا بھی ذریعہ ہے۔ حج و عمرہ خدا کے شوق کو بھڑکاتا ہے تو ساتھ ساتھ اس اجتماعی زندگی کی تربیت بھی کرتا ہے جس میں لوگ تکلیف دہ حالات کے باجود اپنے اوپر قابو رکھتے اورایک دوسرے کا خیال کرتے ہیں۔
انبیا کی یہ تعلیمات اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بیحد موثر ہیں۔ مگر امتوں پر جب زوال کا دور آتا ہے تو ان کی تمام تر توجہ دین کے ظاہری ڈھانچے کی طرف ہوجاتی ہے۔ خدا پرستی اور اتباعِ شریعت کا معیار کچھ ظاہری اعمال بن جاتے ہیں۔ علامتی چیزوں کو حق و باطل کا معیار قرار دیدیا جاتا ہے۔ دین کا ظاہری ڈھانچہ جو اصلاً دینداری کا نقطۂ آغاز ہوتا ہے دین کا آخری مطلوب قرار دیدیا جاتا ہے۔
اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ دین کے اس سادہ ظاہری ڈھانچے میں لوگ اپنی طرف سے طرح طرح کے اضافے کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ان کی ساری تگ و دو اور دلچسپی کا مرکز اگر کوئی چیز رہ جاتی ہے تو یہی فروعی اور اضافی چیزیں ہیں جن کی کوئی نظری یا عملی اہمیت نہیں ہوتی۔ اس صورتحال کا ایک زیادہ برا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ دین کے ظاہری ڈھانچے سے حاصل ہونے والے اخلاقی نتائج کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔ شریعت کے احکامات سے وابستہ مقاصد جن کا ظہور اخلاقی سطح پر مطلوب ہے وہ معاشرے کا موضوع ہی نہیں رہتے اور نہ کسی کو ان کے پیدا کرنے کی فکر ہوتی ہے۔ نتیجتاًلوگوں کی اخلاقی حس مردہ ہونے لگتی ہے۔ لوگ دین کے تمام ظاہری اعمال کی پابندی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر عین اس کے ساتھ اخلاقی سطح پر وہ بدترین انسان ثابت ہوتے ہیں۔
اس کا سبب یہ ہے کہ دین کا ظاہری ڈھانچہ مشکل سہی مگر ایک دفعہ اسے اختیار کرنے کے بعد یہ انسان کی عادت میں شامل ہوجاتا ہے۔ جس کے بعد اس پر جمے رہنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ دوسری طرف بعض لوگ اس طرح کے ظاہری اعمال پر نجات کا فتویٰ دیدیتے ہیں۔ چنانچہ کوئی بھی شخص اخلاق کی بلند و مشکل گھاٹی کو عبور کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ اور کرے بھی تو کیوں کرے؟ جب جنت بغیر کسی مشکل کے آسانی سے مل رہی ہے تو اخلاقیات کی اس کانٹوں بھری راہ گذرپر کون قدم رکھے جس میں قدم قدم پر اپنے اندر اور باہر لڑنا پڑتا ہے۔ چنانچہ لوگ داڑھی، ٹوپی، نماز روزے اور حج و عمرے کی وہ آسان راہ اختیار کرتے ہیں جو انسان کے باطن کو تو نہیں بدلتی مگر جس کے بعد اخلاقی دنیا کی ہر پستی میں اترنے کا جواز ’’بندۂ مومن‘‘ کو حاصل ہوجاتا ہے۔ اسی صورتحال کا نتیجہ ہے کہ معاشرے میں ایک نیک مسلمان کی حیثیت سے معروف شخص بھی آج اسی اخلاقی پستی کا شکار ہے جس کا گلہ ایک دنیا دار شخص سے کیا جاسکتا ہے۔ یہاں خیال رہے کہ ہماری تنقید دینی عبادات پر نہیں بلکہ ان میں غیر ضروری اضافے اور ان کے مقاصد سے بے پرواہی اختیار کرنے پر ہے۔ عبادات کا یہ ظاہری ڈھانچہ تو خود اللہ اور اس کے رسولوں نے مقرر کیا ہے اور بلاشبہ کسی معجزے سے کم نہیں۔
نزولِ قرآن کے وقت اہل کتاب نے قبلہ کی جو بحث اٹھائی تھی اس پر انہیں تنبیہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے واضح کیا کہ نیکی مشرق و مغرب کی طرف سمت کرنے کا نام نہیں بلکہ ایمان و اخلاق کے تقاضے پورے کرنے کا نام ہے (البقرہ ۲: ۱۷۷)۔ ظاہر پرستی پر زیادہ تفصیلی تنقید ہمیں انجیل میں ملتی ہے۔ کیونکہ بنی اسرائیل اپنے دور زوال میں بری طرح اس مرض میں گرفتار تھے۔ وہ معمولی ظاہری اعمال پر تو خوب زور دیتے تھے مگر بڑے بڑے اخلاقی احکام کے معاملے میں ان پر غفلت طاری تھی۔
ایسے میں ان کی طرف سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت ہوئی۔ آپ نے جس شدت سے بنی اسرائیل کی ظاہر پرستی اور اخلاقی دیوالیے پن پر تنقید کی ہے اسے انجیل میں جگہ جگہ دیکھا جاسکتا ہے۔ ہم سیدنا عیسیٰ کی ایک تقریر کا اقتباس پیش کرکے اس بحث کو ختم کرتے ہیں، جس سے اس مرض کی انتہا اور اس کے بدترین اخلاقی نتائج کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی خط کشیدہ الفاظ میں ہم نے اس مسئلے کا وہ حل بھی واضح کردیا ہے جو سیدنا مسیح نے بیان فرمایا ہے:
’’اے ریاکار فقیہوں اور فریسیوں تم پر افسوس! کہ تم بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھتے ہو اور دکھاوے کے لیے نمازوں کو طول دیتے ہو، تمہیں زیادہ سزا ہوگی ۔۔۔ اے ریاکار فقیہوں اور فریسیوں تم پر افسوس! کہ پودینہ اور سونف اور زیرہ پرتو دہ یکی (یعنی عشر: پیداوار کی زکوٰۃ، مصنف) دیتے ہوپر تم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے۔ لازم تھا کہ یہ بھی کرتے وہ بھی نہ چھوڑتے۔ اے اندھے راہ بتانے والوں جو مچھر کو توچھانتے ہوا ور اونٹ کو نگل جاتے ہو۔ اے ریاکار فقیہوں اور فریسیوں تم پر افسوس! کہ پیالے اور رکابی کو اوپر سے صاف کرتے ہو مگر وہ اندر لُوٹ اور ناپرہیزگاری سے بھرے ہیں۔ اے اندھے فریسی پہلے پیالی اور رکابی کو اندر سے صاف کر تاکہ اوپر سے بھی صاف ہوجائیں۔ اے ریاکار فقیہوں اور فریسیوں تم پر افسوس! کہ تم سفیدی پھری ہوئی قبروں کی مانند ہو جو اوپر سے تو خوبصورت دکھائی دیتی ہیں مگر اندر مردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہیں۔ اسی طرح تم بھی ظاہر میں تو لوگوں کو راستباز دکھائی دیتے ہو مگر باطن میں بے دینی اور ریا کاری سے بھرے ہو۔ (کتاب متی باب ۲۳ آیات ۱۴ تا ۲۸ )
________