HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

۲۔ منفی سوچ کا فروغ

اخلاقی انحطاط کی دوسری وجہ اس منفی سوچ کا فروغ ہے جو ہمارے ہاں بعض طبقات نے عام کردی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک مقتدر طبقات اور اشرافیہ غیر ملکی ایجنٹ ہیں۔ یہی ملک کے تمام مسائل کی جڑ ہیں۔ ہر فتنہ و فساد انہی سے جنم لیتا ہے۔ ان کے خیال میں ان لوگوں سے ملک کو نجات دلادی جائے تو ہمارے سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ مسائل کی اس مقامی جڑ کے علاوہ انہیں ملک و ملت کے ہر مسئلے کے پیچھے یہود و ہنود اور امریکہ و روس کی سازشیں بھی نظر آتی ہیں۔ ان کے نزدیک ہمارے ساتھ دنیا بھر میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا واحد سبب یہی ہے کہ یہ ’’کفار‘‘ ہمارے دشمن ہیں اور ہمیں ہر میدان میں نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ کرنے کا اگر کوئی کام ہے تو یہی ہے کہ ان دشمنوں کو ملیا میٹ کردیا جائے۔

قطع نظر اس کے کہ اشرافیہ، مقتدر طبقات اور بیرونی طاقتیں کیا کررہی ہیں اور ان کے منفی طرز عمل سے نمٹنے کا درست طریقہ کیا ہے، جب یہ روش اختیار کی گئی تو عوام کی تربیت یہ ہوئی کہ ہر خرابی کی جڑ صرف دوسروں میں ہے۔ اصلاح کا واحد طریقہ یہ ہے کہ دوسرے ٹھیک ہوجائیں۔ جب ایسا ہوگا توسب ٹھیک ہوجائے گا۔ اس سوچ کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ اپنی ذمہ داریاں فراموش کرنے لگے۔ ان کی توجہ اپنے دائرے میں عائد شدہ ذمہ داریوں سے زیادہ دوسروں کے اس دائرے پر ہوگئی جس پران کا کچھ اختیار نہیں۔ نتیجتاً لوگوں کے اپنے دائرۂ اختیار میں شر بڑھتا گیا مگر اسے روکنے کے بجائے ان کی توجہ صرف دوسروں کی طرف مبذول رہی۔

پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک عام آدمی نہ ملک کے مقتدر طبقات کی اصلاح کرسکتا ہے اور نہ بیرونی طاقتوں کے خلاف لڑکر حالات بدل سکتا ہے۔ بے بسی کے اس احساس کے تحت اس کے ذہن میں مایوسی کاپیدا ہونا لازمی تھا۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ مایوس آدمی ہمیشہ منفی طرز عمل اختیار کرتا ہے۔ چنانچہ اس مایوسی میں لوگوں نے جب حکمرانوں کو بدعنوانی کا شکار دیکھا تواسے اپنے دائرہ اختیار میں برائی کرنے کاجواز سمجھ کر خود کو ہر اخلاقی بندھن سے آزاد سمجھنا شروع کردیا۔

اس طرح کی منفی سوچ کے نتیجے میں بیرونی طاقتوں کی سازشیں ختم ہوئیں نہ اشرافیہ اور مقتدر طبقات کی اصلاح ہوئی۔ صرف یہ ہوا کہ عوام الناس اپنے اوپر عائد اخلاقی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں کوتاہی کرنے لگے۔ دوسروں کا ہر عیب اپنی غلطی کا ایک عذر بنتا چلا گیا۔ سسٹم کی وہ خرابی جو پہلے بالادست طبقات تک محدود تھی اب گھر گھر پھیل گئی۔

اب ہر شخص کا ذہن کچھ اس طرح بن گیا ہے کہ میری خواہش ہے کہ ملک سے رشوت و بدعنوانی ختم ہوجائے۔ تاہم جب تک ایسا نہیں ہوتا میرے لیے رشوت لینا جائز ہے۔ سب لوگوں کو ٹریفک کے قوانین کی پابندی کرنی چاہیے۔ مگر جب تک ایسا نہیں ہوتا مجھے قانون کی خلاف ورزی کا حق ہے۔ تمام شہریوں کو اجتماعی اخلاقیات کی پابندی کرنی چاہیے مگر جب تک ایسا نہیں ہوتا تو میں اپنے مفاد کے لیے کوئی بھی حد توڑ سکتا ہوں۔

لوگوں نے دیکھا کہ حکمران اور مقتدر طبقات کرپشن میں لتھڑے ہوئے ہیں تو انہوں نے بھی، جہاں موقع ملا، بہتی گنگا سے ہاتھ دھونا بلکہ غسل کرنا ضروری جانا۔ انہیں کہیں انصاف نہ ملا تو انہوں نے دوسروں پرظلم کرنے کو اپنے لیے جائز قرار دے دیا۔ اب یہی سوچ کر ایک کلرک اور کانسٹیبل رشوت لیتا ہے کہ اسے تنخواہ کم مل رہی ہے۔ یہی سوچ کر ایک دکاندار ملاوٹ کرتا اور کم تولتا ہے کہ اس کے بغیر گزارا نہیں ہوتا۔ اسی فکر کے پیشِ نظر ایک غریب دوسرے غریب کا حق اسی طرح مارتا ہے جس طرح کوئی طاقتور کسی کمزورکے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔

لوگوں کا حال یہ ہوگیا ہے کہ امریکہ، برطانیہ، اسرائیل اور بھارت کے ظلم کا رونا روتے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے ہم قوم و ہم مذہب لوگوں کے حقوق پامال کرتے جاتے ہیں۔ تیز رفتار گاڑی چلاکر لوگوں کو مار ڈالنے والے ڈرائیور، کھلے عام رشوت لینے والا ٹریفک سپاہی، بدعنوان سرکاری اہلکار، بددیانت تاجر اور ان جیسے دیگر جیتے جاگتے کردار امریکہ و بھارت کے بدترین ناقد بھی ہوتے ہیں۔ یہ فوج اور سیاستدانوں کی کرپشن کا گلہ بھی کرتے ہیں۔ مگر اپنے دائرۂ اختیار میں یہ سب اتنے ہی بڑے ظالم ثابت ہوتے ہیں۔ اس ظلم کے خلاف اپنے اندر سے جوآواز اٹھتی ہے اسے دبانے کے لیے وہ اسی منفی سوچ کا سہارا لیتے ہیں کہ اس حمام میں جہاں سب ننگے ہوچکے ہیں، ہمارے لیے بھی اخلاقیات کا لباس اتارے بغیر کوئی چارہ نہیں۔

اس رویے کا سب سے برا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ظلم و بدعنوانی جس کا الزام اشرافیہ اور غیر ملکی طاقتوں پر عائد کیا جارہا تھااس میں تو کوئی کمی نہیں آئی البتہ ایک عام آدمی کی زندگی اسی جیسے عام آدمی نے جہنم بنادی ہے۔ اب تو صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ سوسائٹی میں پھیلی بد اخلاقی، ظلم اور بدعنوانی کا شکار ہونے والے اکثر لوگ کسی بڑے آدمی کے نہیں بلکہ اپنے ہی جیسے عام آدمیوں کے ستائے ہوئے ہوتے ہیں۔

یہ سب نتیجہ ہے اس سوچ کا جس میں اپنی جوابدہی کے بجائے دوسروں کی جوابدہی یاد رکھی جاتی ہے۔ جس میں اپنے دائرے کے بجائے دوسروں کے دائرۂ اختیار پر زور ہوتا ہے۔ جس میں اصلاح کا مطلب صرف دوسروں کی اصلاح ہوتا ہے۔ حالانکہ دین نے ہمیں جو تعلیمات دی ہیں وہ بالکل برعکس ہیں۔ حدیث میں بالصراحت حکم دیا گیا ہے کہ جب تمہارے حکمران برے ہوجائیں تواسے تمہاری برائی کا سبب نہیں بننا چاہےئے۔ وہ تمہارے حقوق دیں یا نہ دیں تمہیں اپنے فرائض ہر حال میں پورا کرنے ہیں۔ ان کی کمائی کا وبال ان پر پڑے گااور تم اپنے کاموں کے ذمہ دار ہو۔ (مسلم، باب الامارۃ)۔ بلا شبہ یہ بات حکمتِ نبوی کا شاہکار ہے جس کی خلاف ورزی کے نتائج آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر احادیث میں بھی امرا کے بگاڑ پر صبر اختیار کرنے اور اپنے دائرے میں اصلاح کرنے کا حکم دیا ہے۔

قرآن نے یہ حکیمانہ بات اپنے انتہائی بلیغ اسلوب میں اس طرح فرمائی ہے:

’’اے اہل ایمان تم اپنی فکر رکھو۔ اگر تم ہدایت پر ہوتو جو گمراہ ہوا وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑے گا۔ اللہ ہی کی طرف تم سب کا پلٹنا ہے تو وہ تمہیں بتائے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو‘‘ (المائدہ ۵: ۱۰۵)

جہاں تک اغیار کی سازشوں کا تعلق ہے تو صحابہ کو اسی طرح کی صورتحال کے پیش آنے پر اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا تھا وہ ہم قارئین کے سامنے رکھنا چاہیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اور اگر تم صبر کرو گے اور تقویٰ اختیار کروگے تو ان کی چال تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچاسکے گی۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں بیشک اللہ اس کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔‘‘ (اٰلِ عمران ۳: ۱۲۰)

ان احکامات سے ظاہرہے کہ دین کا زور اس پر ہے کہ تمہاری بنیادی ذمہ داری اپنی اصلاح ہے۔ دوسروں کا بگاڑ کبھی تمہارے بگاڑ کاجواز نہیں بن سکتا۔ اگر برائی پھیل جائے تب بھی تمھیں صبر سے کام لینا ہوگا۔ دین کے اس حکم کا مقصد یہ ہے کہ جب افراد کی اکثریت اپنی اصلاح پر زور دے گی تو اس کے نتیجے میں کسی اقلیت کا بگاڑ اکثریت کے بگاڑ کا سبب نہیں بنے گا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک عام آدمی جس کی زیادہ تر زندگی اپنے جیسے عام آدمیوں کے درمیان گزرتی ہے، کبھی عام آدمی کے ظلم کا شکار نہیں ہوگا۔ ظلم کرنے والے طبقات بہت کم ہوتے ہیں۔ ان کی برائی کا اثر بھی محدود ہوتا ہے۔ مگر جب بگاڑ عوام الناس میں پھیلتا ہے تو پوری سوسائٹی ظلم وفساد سے بھر جاتی ہے۔ ٹھیک یہی کچھ اس وقت ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔

________

B