HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

ا۔ دنیا پرستی

اخلاقی بگاڑ کا سب سے بنیادی سبب دنیا پرستی کی وہ لہر ہے جس میں لوگ وقتی مفاد کے آگے ہر چیز کو ہیچ سمجھتے ہیں۔ دنیا جتنی حسین آج ہے اتنی کبھی نہیں تھی۔ خصوصاً جن سہولتوں تک ایک عام آدمی کی پہنچ آج ممکن ہے وہ پہلے کبھی ممکن نہ تھی۔ تاہم یہ دنیا بلا قیمت دستیاب نہیں۔ اس کے حصول کے لیے مال چاہیے۔ چنانچہ مال کمانا اور اس سے دنیا حاصل کرنا اب ہر شخص کا نصب العین بن چکا ہے۔ مگر یہ مال آسانی سے نہیں ملتا۔ خاص طور پر اس شخص کو جو حلال و حرام، جائز و ناجائز، عدل و ظلم ا ور خیر و شر کو اپنا مسئلہ بنا لیتا ہے۔ چنانچہ ایک انسان جس کا سب سے بڑا مسئلہ مال و دنیا بن جائے، اپنے مفادات کے خاطر اخلاقی اقدار سے چشم پوشی شروع کردیتا ہے۔ جب کبھی کوئی اخلاقی قدر حصولِ زر کے عمل میں رکاوٹ بنتی ہے تو وہ پرِ کاہ کے برابر بھی اسے اہمیت نہیں دیتا۔ رفتہ رفتہ اس کا اخلاقی وجود کمزور ہوتا چلا جاتا ہے اور ایک روز دم گھٹ کر مر جاتا ہے۔

انسانوں کے اخلاقی وجود کی موت کے بعد زمین فساد سے بھر جاتی ہے۔ رشوت و بدعنوانی کا باعث یہی ہے۔ ظلم و ناانصافی اسی کی پیداوار ہے۔ خیانت و بددیانتی یہیں سے پھوٹتی ہے۔ ملاوٹ و جعل سازی اسی طرح جنم لیتی ہے۔ جھوٹ اور دروغ گوئی اسی کا نتیجہ ہے۔ غرض دنیا پرستی اخلاقی زندگی کی عمارت کے ہر ستون کو دیمک کی طرح کھاجاتی ہے۔ خاص طور پر نوجوان جو کسی بھی قوم کی امیدوں کا مرکز ہوتے ہیں اور بلند مقاصد کے لیے قربانی دینے میں سب سے آگے ہوتے ہیں، جب ان کی منزل صرف مادی منفعتوں کا حصول بن جائے تو اس سے بڑا سانحہ کوئی نہیں ہوسکتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ساتھ یہ سانحہ بھی ہورہا ہے۔

ہوسِ زر کس طرح انسانی اخلاقیات کی دشمن ہے اس کا اندازہ اس تنقید سے ہوتا ہے جو قرآن نے قریش کی قیادت پرکی ہے۔ملاحظہ ہو:

’’لیکن یہ انسان، اس کا رب جب اسے آزماتا ہے، اور عزت بخشتا اور نعمتیں عطا کرتا ہے، تو کہتا ہے کہ میرے رب نے میری شان بڑھائی ہے۔ اور جب اسے آزماتاہے اور اس کی روزی تنگ کردیتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کرڈالا، ہرگز نہیں، بلکہ (یہ سب تمھیںآزمانے کے لیے ہوتا ہے مگر اس آزمائش سے بے پرواہ اس طرح زندگی بسر کرتے ہو کہ) یتیم کی قدر نہیں کرتے، اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کے لیے ایک دوسرے کو نہیں ابھارتے اور وراثت کو سمیٹ سمیٹ کر ہڑپ کر جاتے ہو اور (تمہارا یہ رویہ اس لیے ہے کہ تم) مال کی محبت میں متوالے ہوئے رہتے ہو۔‘‘ (الفجر ۸۹: ۱۵۔۲۰)

دنیا پرستی کے یہی وہ نتائج ہیں جس پر قرآن و حدیث اور انبیا کی تعلیمات میں شدید ترین تنقید کی گئی ہے۔ قرآ ن میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

’’جان رکھو کہ دنیا کی زندگی۔لہو و لعب، زیب و زینت اور مال و اولاد کے معاملے میں باہمی فخر و مسابقت۔ کی مثال اس بارش کی ہے جس سے ہونے والی فصل کافروں کے دل کوموہ لے، پھر وہ پک جائے اور تم اسے زرد دیکھو، پھر وہ ریزہ ریزہ ہوجائے۔ اور آخرت میں ایک عذاب شدید بھی ہے اور اللہ کی طرف سے مغفرت اور خوشنودی بھی۔ اور دنیا کی زندگی تو بس دھوکے کی ٹٹی ہے۔‘‘ (الحدید۵۷: ۲۰)
’’لوگوں کی نگاہوں میں مرغوباتِ دنیا: عورتیں، بیٹے، سونے چاندی کے ڈھیر، نشان زدہ گھوڑے، چوپائے اور کھیتی کھبادی گئی ہیں۔ یہ دنیاوی زندگی کے سر و سامان ہیں اور اللہ کے پاس اچھا ٹھکانہ ہے۔ ان سے کہو : کیا میں تمہیں ان سے بہتر چیزوں کا پتہ دوں؟ جو لوگ تقویٰ اختیار کریں گے ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغ ہیں، جن میں نہریں جاری ہوں گی، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور اللہ کی خوشنودی ہوگی اور اللہ اپنے بندوں کی خبر رکھنے والا ہے۔‘‘ (آل عمران۳: ۱۴۔۱۵)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس بات کی بڑی وضاحت فرمائی ہے۔ فرمایا کہ ہلاک ہوا درہم اور دینار کا بندہ (بخاری)۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر دنیا کی اہمیت مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہیں دیتا (ترمذی)۔ ایک اور روایت میں فرمایا کہ ہر امت کا ایک فتنہ ہوتا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے (مسند احمد)۔

حضرت عیسیٰ نے دولت کے فتنے کے متعلق فرمایا :

’’اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولتمند خدا کی بادشاہی میں داخل ہو۔‘‘ (کتاب متی باب۱۹: ۲۳)

دنیا کی یہ مذمت اس لیے نہیں ہے کہ مال و دنیا اصلاََ کوئی ناپسندیدہ شے ہے۔ یہاں مذمت مال اور دنیا کی نہیں بلکہ ہوسِ زراور دنیا پرستی کے اس فتنہ کی ہورہی ہے جس میں مبتلا انسان ہر اخلاقی حد کو پھلانگ جاتا ہے۔ اور یہی چیز قابل مذمت ہے۔

________

B