HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

آخری بات

اس تحریر کے آخر میں ہم قارئین کی توجہ اسی چیز کی طرف مبذول کرانا چاہیں گے جہاں سے بات کا آغاز ہوا تھا۔ یعنی ہم لوگ کثرت سے اپنے اخلاقی بگاڑ پر گفتگو کرتے ہیں اور اپنی فکر مندی کا اظہار کرتے ہیں۔ مگر یہ گفتگو کرتے ہوئے ہم اکثر یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ ہم بھی اس قوم اور معاشرے کے افراد ہیں۔ یہ صورتحال اگر پیدا ہو رہی ہے تو ہم اس پر صرف اظہارِ افسوس کرکے اپنی جان نہیں چھڑا سکتے۔ یہ ہماری مذہبی، قومی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم آگے بڑھیں اور کم از کم اپنے دائرے میں غلط رویوں کے خلاف ایک جد و جہد شروع کر دیں۔ اس سلسلے میں جو ہماری ذمہ داری تھی وہ ہم نے حتی الامکان پوری کرنے کی کوشش کی ہے۔ صورتحال کا ایک مکمل تجزیہ کرکے ہم نے یہ بتا دیا ہے کہ مرض کیا ہے، اسباب کیا ہیں اور علاج کیا ہے۔ اب اپنے طرز عمل کا فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔

جو لوگ اپنی قوم کے حالات سے پہلو تہی کرکے اپنی ذات میں مگن ہو جاتے ہیں اور صرف زبانی تبصروں پر گزارا کر لیتے ہیں تاریخ بتاتی ہے کہ وہ خسارے میں پڑ کر رہتے ہیں۔ آج ہم یقیناً اس خسارے کا شکار ہیں۔ اس افسوس ناک صورتحال کا مشاہدہ خاندان کے ادارے سے لے کر قومی اداروں تک ہر جگہ کیا جا سکتا ہے۔ بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اخلاقی معیارات کی پابندی کرنے والے لوگ اب استثنائی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان حالات میں ہم پر فرض کے درجہ میں یہ چیز لازم ہو چکی ہے کہ ہم اس صورتحال کو بدلنے کے لیے جد و جہد شروع کریں۔ اس معاملے میں اپنے لوگوں کی تربیت کریں۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو یقیناً ہمیں بدترین تباہی کا سامنا کرنا ہو گا۔

________

B