دین کے اس بنیادی حکم پر عمل کرتے ہوئے چند باتیں واضح رہنی چاہییں۔ پہلی یہ کہ نماز روزے کی طرح اس حکم کے کوئی مخصوص اوقات متعین نہیں ہیں بلکہ ایک مسلمان کو اس فریضے کی ادائیگی کے لیے ہمیشہ ذہناََ تیار رہنا چاہیے۔ جب کبھی حق سے کوئی انحراف اس کے سامنے آئے تو ضروری ہے کہ وہ کسی مفا دیا اندیشہ کی پروا کیے بغیر اپنی ذمہ داری پوری کرے۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ عمل دوطرفہ ہوتا ہے۔ یعنی ایک وقت میں اگر ایک آدمی دوسرے کو کسی حق کی تلقین و نصیحت کررہا ہے تو کسی اور وقت دوسرا پہلے کی توجہ اس کی کسی کوتاہی کی طرف دلا سکتا ہے۔ آج ایک شخص کی کسی برائی کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے تو کل یہی شخص دوسرے کو اس کی غلطی پر نصیحت کرے گا۔ اس طرح مسلم معاشرہ کا ہر شخص دین و اخلاق پر عمل کرنے والا بھی بن جاتا ہے اور اس کی رکھوالی کرنے والا بھی۔ ہم بتاچکے ہیں کہ کسی معاشرے میں برائی کو پھیلنے سے روکنے کا اس سے زیادہ مؤثر ذریعہ کوئی نہیں ہوسکتا۔
تیسری بات یہ ہے کہ یہ کام اصلاََ اپنے ماحول اور حلقے میں کرنے کا ہے۔ یعنی اس کام میں انسان کا دائرۂ عمل وہ ہے جہاں وہ خود بنفسِ نفیس موجود ہوتا ہے۔ یعنی اس کا گھر، دفتر، دوست احباب کی مجلس اور محلہ وغیرہ۔ اس میں کوئی خیر نہیں کہ ایک انسان دنیا بھر میں تو نیکی کو عام کررہا ہو مگر اس کا اپنا قریبی حلقہ اس کے فیض سے محروم رہ جائے ۔
چوتھی بات یہ ہے کہ اس حلقے میں بھی جو جتنا قریب ہوگا اسی قدر یہ ذمہ داری زیادہ ہوگی۔ یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ انسان سے سب سے قریب اس کے گھر والے ہوتے ہیں جن میں اس کے وقت کا بیشتر حصہ بسر ہوتا ہے۔ چنانچہ اپنے گھر والوں کی اصلاح و ہدایت کے لیے انسان کو سب سے زیادہ حساس ہونا چاہیے۔
پانچویں بات یہ ہے کہ جس قریبی حلقے اور ماحول کو انسان کا دائرۂ عمل قرار دیا گیا ہے وہیں اس کا ایک دائرہ اختیار بھی ہوتا ہے۔ مثلاََ شوہر کے لیے بیوی اور ماں باپ کے لیے اولاد وغیرہ۔ چنانچہ اس دائرے کے بارے میں ہدایت دی گئی ہے کہ یہاں انسان اپنا اختیار استعمال کرکے ہر منکر کو روکنے کی کوشش کرے۔ یہ بات ایک حدیث میں اس طرح بیان ہوئی ہے:
حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو شخص (اپنے دائرۂ اختیار میں) کوئی منکر دیکھے اس کو ہاتھ سے روک دے۔ اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے روکے۔ اگر اس کی طاقت بھی نہ رکھتا ہو تو دل سے برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ (مسلم)
اس حدیث میں طاقت رکھنے کے الفاظ اپنے اختیار کو نافذ کرنے کے حوصلہ وہمت کو بیان کررہے ہیں۔ اس سے یہ مراد قطعاََ نہیں کہ اپنے دائرۂ اختیار سے باہر انسان کو طاقت استعمال کرنی چاہیے اور ایسا نہ کرے تو یہ اس کے ضعفِ ایمان کی نشانی قرار پائے۔ مثلاََ ایک باپ کے لیے بیٹی اس کے اس دائرۂ اختیار میں ہے۔ چنانچہ اس کے کسی غلط عمل کو دیکھ کر باپ کو اسے روکنا چاہیے۔ مثلاً اگر وہ گھر سے باہر جسم کشا لباس پہن کر نکلتی ہے تو بیٹی کو روکنا اس کی ذمہ داری ہے۔ حدیث کا یہ حکم اِس باپ سے متعلق ہے۔ اگر وہ اپنی بیٹی کونہیں روکتا تو اپنے ضعفِ ایمان کا ثبوت دیتا ہے۔ اس حکم کا کوئی تعلق اس بات سے نہیں کہ ایک عام آدمی کسی راہ چلتی لڑکی کو، جس نے تنگ و باریک لباس پہن رکھا ہو زبردستی چادر پہنانے کی کوشش کرے۔ اتنی طاقت نہیں تو اسے برا بھلا کہے اوراتنی طاقت بھی نہیں تو اسے دل سے برا سمجھے اور اس حالت میں وہ کمزور ترین ایمان کا حامل ہوگا۔ اس منطق کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔
چھٹی بات یہ ہے کہ قرآن میں بیان کردہ معروف و منکر کے الفاظ سے مراد عقل و فطرت اور دین و شریعت کے مسلمات ہیں۔ مثلاً امانت و دیانت مسلمہ اخلاقی اقدار ہیں۔ جھوٹ ایک ثابت شدہ برائی ہے۔ زنامذہب و معاشرے کی نگاہ میں یکساں طور پر جرم ہے۔ اسی طرح عبادات میں نمازمسلمہ طور پر شریعت کا حکم ہے۔ لیکن وہ معاملات جن پر علمی طور پر ایک سے زیادہ آرا پائی جاتی ہیں اس دائرے میں نہیں آتے۔ لہٰذا ایسے کسی معاملے میں کوئی شخص ایک نقطۂ نظر کا حامل ہونے کے باوجود اپنے حلقۂ اختیار میں اسے منوانے کا مکلف نہیں۔ مثلاََ عصر کی نماز کے وقت کے بارے میں امت میں ایک سے زیادہ آرا پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ نماز کا حکم تو زیردستوں کو دینا چاہیے۔ مگر وقت کے سلسلے میں کسی جبر سے احتراز کرنا چاہیے کیونکہ یہ کوئی دینی مسلمہ نہیں۔
ساتویں اور آخری بات یہ ہے کہ ایمان اور عملِ صالح کے برخلاف جو انسان کا ذاتی فعل ہے، حق کی نصیحت اور اس پر صبر کی تاکید کا عمل چونکہ دوسروں سے متعلق ہے اس لیے اس میں حکمت کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے۔ اس حکمت میں مخاطب کی ذہنی استعداد اور اس کی نفسیات وغیرہ کا لحاظ رکھنا بہت اہم ہے۔ اسی طرح اپنی حد کو پہچاننا اور اسی تک محدود رہنا بھی ضروری ہے۔ مخاطب کے لیے دل میں محبت وخیر خواہی کا جذبہ اور گفتگو میں نرمی اور حکمت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ان چیزوں کو نظر انداز کرکے جب یہ کام کیا جائے گا تو ہمیشہ الٹے نتائج پیدا کرے گا اور لوگوں کے دل میں دین کی بے وقعتی اور معاشرے میں فساد پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔
________