انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو اپنے ساتھ کسی قسم کا اخلاقی وجود لے کرنہیں آتا۔ اس کے اخلاقی وجود کی تشکیل ان افعال و اعمال سے ہوتی ہے جن کا ظہور ، دنیا میں آنے کے بعد ، اس کی ذات سے ہوتا ہے۔ چنانچہ اخلاقی وجود پر کسی قسم کی گفتگو کرنے سے پہلے یہ بہتر ہوگا کہ ہم اس کی تشکیل میں کارفرما عوامل کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان اسباب و محرکات کو معلوم کریں جو انسانی افعال و اعمال کے پسِ پشت کام کرتے ہیں۔ ان بنیادوں کو متعین کریں جن کے اوپر وہ اپنی عملی زندگی کے گھروندے کی تعمیر کرتا ہے۔ انسانی عمل کے یہ محرکات مندرجہ ذیل ہیں۔
انسان کے عمل کا پہلا اور سب سے قوی محرک ضرورت ہے۔ اس دنیا میں ہر انسان کے ساتھ کچھ لازمی ضروریات لگی ہوئی ہیں جن کو پورا کیے بغیر وہ جی نہیں سکتا۔ انسان کو بھوک لگتی ہے۔ وہ پیاس محسوس کرتاہے۔ اسے ایک چھت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اپنے وجود کے تسلسل کے لیے وہ اولاد کا محتاج ہے۔یہ اور اس جیسی دیگر کئی ضروریات ہیں جن کی عدم تکمیل اس کی بقا کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ چنانچہ انسان ان کی تکمیل کے لیے تگ ودو شروع کردیتا ہے۔ اور اسی تگ و دو سے حیاتِ انسانی کا سب سے ضخیم باب تشکیل پاتا ہے۔ بھوک کو ہی لے لیجیے ۔زمانہ قبل از تاریخ میں شکار کے پیچھے بھاگنے سے لے کر آج دفتر وں میں بیٹھ کر فائلوں کی ورق گردانی کرنے تک انسان نے جو کچھ کیا ہے اس کے پیچھے یہی ضرورت کارفرما رہی ہے جس کی تسکین اس کے وجود کی بقا کے لیے نا گزیر ہے۔ بلکہ کارل مارکس نے تو معاش کوبنیاد بناکر انسانی تاریخ کو متعین کرنے کی کوشش تک کرڈالی ہے۔
انسان کی سعی و کاوش کا یہ سلسلہ ضروریات کی تکمیل پر ختم نہیں ہوجاتا بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان میں خواہشات کا ایک ایسا تلاطم بھی برپا رہتا ہے جو اسے خوب سے خوب تر کی جستجو پر مجبور رکھتا ہے۔ وہ صرف اپنی ضرورت پوری ہونے پر ہی قانع نہیں رہتا بلکہ خواہش کرتا ہے کہ بہتر سے بہترطریقے پر اسے اپنی مراد حاصل ہو۔یہی خواہشات کی وہ زنجیر ہے جو اس حیوانِ ناطق کو کشاں کشاں جھونپڑی سے محل اور گھر کے سکون سے تختِ شاہی کے ہنگاہوں تک ہنکاتی ہوئی لے جاتی ہے اور دال سبزی سے پیٹ کی آگ بجھانے والا انسان لذتِ کام و دہن کا ایک ایسا خوانِ نعمت سجاتا ہے جس کی وسعت سات سمندر سے زیادہ ہے۔
ضروریات و خواہشات کے یہ محرکات اس کے میدانِ عمل کی حد بندی کا آخری نشان نہیں بلکہ جذبات و احساسات کی رنگین اور جادوئی دنیا بھی انسان کی توانائیوں کو دعوتِ عمل دیتی ہے۔ انسان کو غصہ آتا ہے۔ بالکل ایسے ہی اسے پیار بھی آتا ہے۔وہ عہدوفا کی پاسداری کرتا ہے اور دوستی او محبت کے تقاضوں کو بھی نبھاتا ہے۔ وہ بغض و حسد کی آگ میں جلتا ہے اور نفرت و عداوت کے صحرا میں بھی جھلستا ہے۔ وہ عقیدت کی شمع جلاتا ہے اور اطاعت کے پھول بھی نچھاور کرتا ہے۔ وہ سرکشی کا لاوہ اگلتا ہے اور بغاوت کی آندھی بھی اٹھاتا ہے۔ اور یوں بھی ہوتا ہے کہ اس کے جذبات اسے اس مقام پر لے آتے ہیں جہاں وہ اپنی جان دے دیتا ہے اور دوسروں کی جا ن لے لیتا ہے۔
اصولی طور پر انسانی عمل کو مہمیز لگانے والے عناصر کی کہانی یہیں ختم ہوجانی چاہیے مگر انسانی جذبوں میں ہی ایک جذبہ ایسا بھی ہے جو اپنی اہمیت، انسانی شخصیت میں اپنی گہری اساسات اور عملی زندگی میں اپنے اثرات اور نتائج کے اعتبار سے بالکل منفردحیثیت کا حامل ہے اور اس بات کا مستحق ہے کہ اس کا ذکر الگ کیا جائے۔یہ جذبہ شہوت یا جنس کا جذبہ ہے۔ جنس کا جذبہ انسانی اعمال اور رویوں پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے، اگر اسے دیکھنا ہے تومثال کے طور پر کسی مخلوط تعلیمی ادارے میں چلے جائیے ۔یہی جذبہ اشتہار کی صنعت میں خواتین کے جا وبیجا استعمال کی واحد توجیہ ہے ۔انسان آج ہی ایسا نہیں ہوا ۔انسان کی مجموعی تاریخ میں اس کے اثرات دیکھنے ہوں تو ادب اور آرٹ کی تاریخ ملاحظہ کرلیجیے ۔ فنونِ لطیفہ کی داستان پڑھ لیجیے۔ مصوری و مجسمہ سازی، شعرو شاعری، فلم و موسیقی غرض کسی بھی شعبے میں ہونے والے کام کو دیکھ لیجیے۔آپ جان لیں گے کہ انسان کے اعصاب پر کس طرح یہ جذبہ سوار رہا ہے۔ فرائڈ نے جو کچھ کہا اس سے کلی ا تفاق تو نہیں کیا جاسکتا مگر اس کی کلی تردید بھی ممکن نہیں۔
ضروریات، خواہشات، جذبات اور شہوات کے یہ چار بنیادی محرکات ہیں جو انسانی عمل کی اساس ہیں اور جن کی بنیاد پر انسان اپنی دنیا آباد کرتا ہے۔تاہم اس مرحلے پر ایک اور اہم سوال کا جواب دینا ضروری ہے ۔ وہ سوال یہ ہے کہ خود یہ محرکات کہاں سے آتے ہیں؟ ان کا منبع اور سرچشمہ کہاں ہے؟اس بات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم انسانی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیں اور ان عناصر کو دریافت کریں جن سے مل کر ایک انسانی وجود تشکیل پاتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم قرآن کی سورۂ السجدہ ۳۲ ، کی آیات ۷۔۹ سے مدد لیتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کے عمل کو اس طرح بیان فرمایا ہے۔
’’وہی ہے جس نے جو چیز بھی بنائی خوب بنائی اور انسان کی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی پھر اس کی نسل کو حقیر پانی کے ست سے چلایاپھر اسے درست کیا اور اس میں اپنی روح پھونکی اور تمھارے کان آنکھ اور دل بنائے ۔ تم کم ہی شکر کرتے ہو۔‘‘
یہ اور اس موضوع سے متعلق دیگرآیات بتاتی ہیں کہ انسانی وجود کی تخلیق میں تین عناصر بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک اس کا حیوانی وجود، دوسرا روحانی اور تیسرا اس کا عقلی وجود۔ اس کا حیوانی وجود دیگر جانداروں کی طرح مادی عناصر کی آمیزش سے تشکیل پاتا ہے ۔ تمام حیوانی جبلتیں اور نظام اس کے وجود کا اسی طرح حصہ ہیں جس طرح دوسرے حیوانات کا حصہ ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تخلیقِ آدم سے لے کر آج تک ہر انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو اس کا کل سرمایہ صرف ایک حیوانی وجود نہیں ہوتا بلکہ وہ خدا کی طرف سے پھونکی گئی ایک اور شے بھی لے کر اس دنیا میں آتا ہے۔اس پھونک کی حقیقت کو تو ہم متعین نہیں کرسکتے البتہ یہ بات ہم جانتے ہیں کہ اس پھونک کے باعث انسان اپنے اندرایک روحانی شعور اور شخصیت محسوس کرتا ہے جس کا ادراک حیوانی جسم رکھنے والا کوئی دوسرا جانور نہیں کرسکتا۔ حیوانی اور روحانی وجود دونوں مل کر انسان کی بنیادی شخصیت کی صورت گری کرتے ہیں۔ان کے ساتھ ساتھ جو تیسری چیز انسان کو عطا کی گئی ہے وہ سوچنے سمجھے، غور وفکر اور بصیرت و تعقل کی وہ استعداد ہے جسے قرآن اکثر کان، آنکھ اور دل کے اسلوب سے تعبیر کرتا ہے۔ یہی انسان کا عقلی وجود ہے۔
انسانی شخصیت انہی تین رنگوں سے مرکب ہے۔اور اس دنیا میں جب کبھی وہ اپنی ذات کا اظہار کرتا ہے تو انہی تین پہلوؤں میں سے کسی ایک یا ان تینوں کے مجموعے کا کوئی عکس صفحۂ ہستی پر نمودارہوتا ہے۔ انسان کی شخصیت کے یہی پہلو ہیں جن سے وہ محرکات پھوٹتے ہیں جن کاکچھ تذکرہ ہم اوپر کرچکے ہیں۔چنانچہ بھوک اس لیے ہے کہ انسان کے حیوانی وجود کا یہ تقاضہ ہے ۔ اسے اپنی بقا کے لیے خوراک چاہیے۔ پھر انسان اس کے لیے معاش کی جدوجہد کرتا ہے۔ اس کا روحانی وجود مادی تقاضوں سے بلند ہوکر کچھ دوسری حقیقتوں کا متلاشی رہتا ہے۔ یہ تلاش اس کے روحانی وجود کا لازمی تقاضہ ہے۔ جس کے نتیجے میں مذہبیت کا پورا کارخانہ وجود میں آتا ہے۔ انسان کو قلب و نظر دیے گئے ہیں جن کی مدد سے وہ چیزوں پر غور وفکر کرتا ہے۔ ان کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنی ذہنی صلاحیتوں کا اظہار کرتا ہے۔چنانچہ علم، فکر اور فن کی دنیا وجود پاتی ہے۔ مختصر یہ کہ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہم دیکھتے ہیں وہ اصلاََ انسان کی اس سہہ جہتی شخصیت کے اثرات ہیں جو زمین کے ہر اس خطے پر نقش ہیں جہاں اس کا قدم پہنچا۔
انسان کی تخلیق کردہ یہی سہہ رنگی دنیا جو مذکورہ بالا محرکات کی چار دیواری میں قائم ہے انسان کے اخلاقی وجود کی دنیا ہے۔ یہی وہ دنیا ہے جہاں انسان اپنا اظہار کرتا ہے اور یہی وہ دنیا ہے جس کی نوعیت کل قیامت کے دن یہ فیصلہ کرے گی کہ یہ انسان خدا کی رحمت کا مستحق ہے یا غضب کا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کی حیوانی، روحانی اور عقلی شخصیت کو اپنے ہاتھوں سے وجود دینے کے بعد رب کائنات کیا اس کی اخلاقی دنیا سے بالکل بے نیاز ہوگیا ہے۔ حالانکہ یہی وہ دنیا ہے جہاں وہ انسان کا امتحان لیتا ہے۔ کیا اس معاملے میں انسان کو کوئی رہنمائی دی گئی ہے جس کی بنیاد پر انسان کا امتحان ہوگا یا اسے ضروریات، خواہشات، جذبات اور شہوات کے اندھے کنویں میں با لکل تنہا چھوڑ دیا گیاہے۔کیا حیوانی اور روحانی وجود میں توازن کی کوئی راہ نہیں دکھائی گئی ہے؟ کیاانسان کے قوائے عقلیہ کو کوئی رہنما اصول نہیں دیے گئے ہیں؟کیا انسان کو بے آسرا کرکے اس کے ماحول کے حوالے کردیا گیا ہے ؟ کیا اس کی باگ وراثت کے ہاتھ میں چھوڑ دی گئی ہے کہ جہاں چاہے بگٹٹ اسے دوڑاتی پھرے؟کیا انسان کو معلوم ہے کہ اس کے لیے کیا اچھا ہے اور کیا برا؟ کیا نیکی ہے اور کیا بدی؟ کیا خیر ہے اور کیا شر؟ اسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے؟
قرآن اس سوال کا جواب بڑے واضح انداز میں یہ دیتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کو بھیجتے وقت جس طرح اسے ایک مکمل حیوانی اور روحانی وجود دیا گیا اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں زادِ راہ کے طور پر اس کے ہمرکاب کی گئی ہیں اسی طرح انسان اس دنیا میں خیر و شر کے مکمل شعورکے ساتھ بھیجا جاتاہے۔ وہ اس مادی دنیا میں اجنبی ضرور ہوتا ہے مگر اخلاقیات کی دنیا کا کوئی گلی کوچہ اسکے لیے اجنبی نہیں ہوتا۔ یہ شعور اس درجہ کا ہوتا ہے کہ کسی پیغمبر کی رہنمائی نہ ہو تب بھی اسی کی بنیاد پر قیامت کے دن انسان کی فلاح یا ہلاکت کا فیصلہ ہوجائے گا۔قرآن صراحت کے ساتھ کہتا ہے۔
’’قسم ہے نفس انسانی کی اور جیسا کہ اسے ٹھیک بنایا۔ پھر اس کی بدی اور تقویٰ اسے الہام کیا، کامیاب ہوا وہ جس نے اس نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا جس نے اسے گھٹیا بنایا‘‘ الشمس ۹۱: ۷۔۱۰
اسی طرح البلد ۹۰: ۱۰ میں بالصراحت کہا گیا ہے کہ ہم نے انسان کو (خیر و شر) دونوں راہیں دکھادیں۔ انسانی فطرت میں یہ اساسات اتنی واضح اور راسخ ہیں کہ انسانی تاریخ میں کبھی یہ حادثہ نہیں ہوا کہ خیر شر بن گیا اور شر خیر قرار پایاہو۔انسان انفرادی طور پر فطرت کی اس پکار پر کان دھرے نہ دھرے لیکن انسانیت کے اجتماعی ضمیر نے افراد کے عملی انحراف کو کبھی معیار نہیں بنایا۔جھوٹ اور سچ میں سے کون سی راہ درست ہے، مرد کے لیے انتخاب ایک عورت ہے یا ایک دوسرا مرد، انسانی جان کا احترام لازمی ہے یا نہیں، کمزور اور ضعیف رحم کے مستحق ہیں یا نہیں، بول برازکی نجاست اور درندوں کا گوشت وغیرہ دستر خوان پرسجانے کی چیزیں ہیں یا نہیں۔یہ اور ان جیسے کتنے ہی امور ہیں جن میں انسان عملی طور پرٹھوکر کھاجاتا ہے ،مگر وہ یہ نہ جان سکے کہ کیا راستہ درست ہے اور کیا غلط ایسا کبھی نہیں ہوتا۔یہ بہرحال ہوا ہے کہ وقتی طور پر بعض معاشروں میں انسانی فطرت مسخ ہوئی اور فطرت سے انحراف معاشرے کا عرف بن گیا مگر جیسا کہ ہم آگے چل کر دکھائیں گے خدا نے فوراََ مداخلت کی اور ایسی قوموں کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا اور پوری انسانیت فطرت کی پگڈنڈی پر پہلے کی طرح چلتی رہی۔ اور آج کے دن تک ان قوموں کے رویے کو بگاڑ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
چنانچہ یہ بات بالکل واضح رہنی چاہیے کہ خیر و شر انسانی فطرت کے وہ بدیہات ہیں جن کے تعین میں انسان کبھی ٹھوکر نہیں کھاتا۔حتیٰ کے ہم وحی کی جس ہدایت سے واقف ہیں اس کی اپنی اساس یہی دین فطرت ہے۔ نبی اور رسول بھی جب آتے ہیں تو اپنی دعوت کی اساس اسی کو بناتے ہیں۔ وہ خود بھی اسی اساس پر کھڑے ہوتے ہیں۔ نبی ہونے کی کوئی علمی شرط ہمارے علم میں نہیں لیکن ہم یہ بات باوثوق طریقے سے جانتے ہیں کہ وہ نخل فطرت کا اعلیٰ ترین ثمر ہوتے ہیں۔ ان کے دشمن بھی ان کی اخلاقی حیثیت کو چیلنج نہیں کرسکتے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ جب میں بندوں کے معاملے میں جھوٹ نہیں بولتا تو خدا کے معاملے میں جھوٹ کیوں بولوں گا؟میں جب انسانوں کے معاملے میں امین ہوں تو خدا کے معاملے میں خیانت کیوں کروں گا؟وہ جب دعوت حق پیش کرتے ہیں تو انسانی فطرت کے ان بدیہات کو اپنی دعوت کی اساس بناتے ہیں۔ وہ ایمان و اخلاق کی درستگی سے آغاز کرتے ہیں۔وہ لوگوں کو اسی کی یاددہانی کراتے ہیں۔ اس معاملے میں اگر کوئی انحراف ہوتا ہے تو اس کو درست کرتے ہیں، کوئی اختلاف ہوتا ہے تو اسے دور کرتے ہیں، کوئی چیز کم ہوجاتی ہے تو اسے بحال کرتے ہیں اور کچھ زیادتی ہو تو اسے حرف غلط کی طرح مٹادیتے ہیں۔ وہ جو کچھ بھی شریعت پیش کرتے ہیں وہ اس کے بعد آتی ہے۔آپ دیکھ لیں کہ قرآن جب نازل ہوا تو ابتدا میں کونسی سورتیں نازل ہوئیں۔ ان تمام سورتوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصلاََ ان میں فطرت میں موجود اخلاق وایمان کے تصور کودعوت کی بنیاد بنایا گیا ہے۔
یہاں دو باتوں کی وضاحت کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔اول یہ کہ دین فطرت سے جو کچھ رہنمائی انسان کو ملتی ہے تمام مسلمہ اخلاقی اقدار اس میں شامل تو ہیں لیکن اخلاقیات کے علاوہ بھی دینِ فطرت سے انسانوں کو بہت کچھ رہنمائی ملتی ہے ۔مگر وہ ہمارے موضوع سے خارج ہے اس لیے ہم ان کی تفصیل میں نہیں جارہے۔دوسرے یہ کہ ایمانیات میں سے توحید اصلاََ اسی اخلاقی رہنمائی کا حصہ ہے جو ہمیں دینِ فطرت سے ملتی ہے۔قران میں جہاں کہیں اخلاقیات کا تذکرہ ہے اس کے ساتھ اکثر توحید کا ذکر ملتا ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال سورہ بنی اسرائیل ۷۱:۲۲ تا ۹۳ ہے۔ اس کے علاوہ البقرہ:۲:۳۸ اور النساء ۴:۶۳ اور قرآن کے کئی دیگر مقامات بھی اس حوالے سے پیش کیے جاسکتے ہیں۔
ان آیات میں سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ توحید اخلاقیات کا رکنِ اول ہے۔ یہ تمام خیر کا سرچشمہ اور دوسری اخلاقیات کی طرح فطرت انسانی میں پیوست علم ہے۔ قرآن کی سورۂ الاعراف ۷: ۱۷۲۔۱۷۴ میں عہدِ الست کے حوالے سے بالصراحت اس بات کا ذکر ہے کہ توحید کا علم انسانیت کے لیے اجنبی چیز نہیں۔یہی وجہ ہے کہ خدا کے وجود کے بارے میں کبھی انسانیت کو کوئی مسئلہ نہیں ہوا اور نہ ہی خدا اپنے وجود کو ثابت کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ البتہ چونکہ شیطان کو آزادی ہے کہ وہ لوگوں کو بہکائے اس لیے وہ انہیں شرک کے بگاڑمیں مبتلا کرتا رہا ہے ۔اور انبیاء اکرام اسی بگاڑ کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انسان کا اخلاقی وجود محض علمی نوعیت کی کوئی چیز نہیں جس پر فلسفیانہ انداز میں بحث و تمحیص کے بعد یہ معاملہ ختم ہوجائے۔ یہ وہ پرچۂ امتحان ہے جس کی بنیاد پر کل خداوندِ دوعالم انسانوں کے اعمال کو جانچے گا اور ان کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ اور جن قوموں میں نبیوں کی دعوت محفوظ نہیں رہی وہاں تو نجات کی واحد کسوٹی یہی ہے۔چنانچہ ضروری ہے کہ اس پرچہ کے صحیح جوابات کی حفاظت کا اہتمام کیا جائے۔جیسا کہ اوپر ہم نے بتایا ہے کہ اس سلسلے کا ایک بندوبست تو یہ کیا گیا ہے کہ انسانی فطرت خوشبو اور بدبو کی طرح خیر و شر کے امتیاز میں کبھی دھوکا نہیں کھاتی۔دوسری طرف انبیاء کے ذریعے انسانی فطرت میں پیدا ہونے والے انحرافات کی بار بار تصیح کی جاتی رہی ہے اور تیسری طرف جب کبھی شیاطینِ جن و انس کی دراندازی کے نتیجے میں کسی انسانی معاشرے میں فطرت کے معیارات ہی بدلنے لگیں تو ایسی صورت میں اس پورے معاشرے کو ایک ناسور کی طرح انسانی وجود سے کاٹ کر پھینک دیا گیا۔ تاریخِ انسانی میں یہ واقعہ اتنا معروف ہے کہ فلسفۂ تاریخ کے بانی ابن خلدون نے اس بات کو قوموں کے عروج و زوال کے ایک مسلمہ اصول کے طور پر بیان کیا ہے کہ اخلاقِ حمیدہ کے زوال کے ساتھ قوم کا زوال لازمی ہے۔ اس کی ایک بالکل حالیہ مثال سوویت یونین کا انہدام ہے۔ اس سلطنت میں فطرت انسانی کی بنیادی اساس یعنی وجودِ خداوندی کے تصور کو جبر کے ساتھ مٹانے کی کوشش کی گئی۔چنانچہ خدا کا قانون حرکت میں آیا اوردنیا نے دیکھا کہ کس طرح چند دنوں میں دنیا کی طاقتور ترین حکومت کے پرخچے محاورتاََ نہیں حقیقتاََ اڑگئے۔
یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجا نی چاہیے کہ جب کوئی قوم اخلاقی انحطاط کا شکار ہونے لگے تواصلاحِ احوال کی کوشش کرنے والے ہر شخص کو اپنی ترجیحات میں اسے سب سے اوپر رکھنا چاہیے۔ کیونکہ اس بات کا براہِ راست تعلق قوم کی بقا سے ہوتا ہے۔اخلاقی بحران کا شکار قوم اگر مسلمان ہے تو معاملہ اور بھی سنگین ہوجاتا ہے۔ حاملِ کتاب ہونے کی بناپر ان کے پاس اس انحراف کا کوئی عذر نہیں ہوتا۔ بنی اسرائیل اور مسلمان دونوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب کبھی انہوں نے انحراف کی روش اختیار کی قدرت نے غیر معمولی مستعدی کے ساتھ ان کی سرزنش کی۔بنی اسرائیل پر بخت نصر کی یورش سے لے کر مسلمانوں پر موجودہ مغربی غلبہ تک ہر واقعہ گو عالمِ اسباب میں پیش آیا مگر اس کی جڑیں اس اخلاقی انحطاط تک جاتی ہیں جس میں مبتلا ہونے کے بعدوہ حاملِ کتاب ہونے کی ذمہ داری ادا کرنے کے قابل نہیں رہے۔
آج بحیثیت ایک پاکستانی مسلمان کے ہمارے لیے کرنے کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ اپنے اخلاقی وجود کی اہمیت کو محسوس کریں اور اخلاقی اقدار کو اپنی ذاتی زندگی اور معاشرے میں بحال کرنے کے لیے پوری قوت سے کوشش کریں ۔وہ اقدار جودینِ فطرت اور دین وحی دونوں کی بنیاد پر ہمیں ملی ہیں مگر بدقسمتی سے ہم نے انہیں پس پشت ڈال دیا ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ڈر ہے کہ کہیں قدرت ہماری بھی سرزنش پر اسی طرح آمادہ نہ ہوجائے جو اس سے پہلے مسلمان قوموں کے ساتھ اس کا دستور رہا ہے۔
________