HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

نماز اور خدا کی یاد

نماز اسلام کا سب سے زیادہ مطلوب اور بنیادی فریضہ ہے۔ اسی لیے اس کی طرف اکثر توجہ دلائی جاتی ہے۔چنانچہ ہر وہ شخص جو دین کی طرف راغب ہوتا ہے نماز کی پابندی سے اپنی دین داری کا آغاز کرتا ہے۔ اس طرح معاشرے میں نمازیوں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے، مسجدیں آباد ہورہی ہیں، اذان و اقامت کی آوازوں سے فضا معمور ہے۔ مگر اس کے باوجود فرد اور معاشرے میں جو تبدیلی آنی چاہیئے، وہ نہیں آرہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں نماز کی جتنی کچھ اہمیت اور پابندی ہے وہ اس کے ظاہر کے لحاظ سے ہے۔ ہمارے ہاں نمازی وہ ہے جس کے روزمرہ کے معمولات میں نماز ادا کرنے اور مسجد جانے کی مصروفیت بھی شامل ہے۔ بلاشبہ یہ عین مطلوب ہے ۔لیکن درحقیقت یہ نماز کا نقطہ آغاز ہے۔ اس فریضے کی صحیح تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب نماز قرآن کے الفاظ میں ’’خد ا کی یاد‘‘(طہٰ ۲۰: ۱۴) کا ذریعہ بن جائے ۔ نماز ادا کرنے کا عمل انسان پر اس طرح اثر انداز ہوکہ خدا کی ہستی اس کے خیالات پر چھاجائے اور انسان خدا سے رابطے میں آجائے۔مگر دورانِ نماز اکثر ہمارے ذہن میں دوسرے خیالات کا غلبہ رہتا ہے۔ چنانچہ ہماری نماز ہمارے اندر مطلوبہ اوصاف پیدا نہیں کر پاتی ۔ ہم نماز پڑھتے ہیں پھر بھی جھوٹ بولتے ہیں۔ جھوٹی قسم کھاکر مال بیچتے ہیں۔ خدا کے بندوں کے حقوق پامال کرتے ہیں۔ انسانوں کی تحقیر کرتے ہیں۔ غرض وہ سب کچھ جو ایک غیر نمازی کرسکتا ہے ہمارے معاشرے کا نمازی بھی کرتاہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ نماز کے داخلی پہلو یعنی ’’خدا کی یاد ‘‘ کو پوری طرح سے اجاگر کیا جائے تاکہ لوگوں میں اس کی اہمیت کا احساس اور حصول کی خواہش پیدا ہو۔

خدا کی یاد کے حوالے سے نماز میں دو چیزیں نمایاں نظر آتی ہیں۔ اول خدا کی بڑائی ، دوسرے خدا کی پاکی کا بیان .اللہ اکبراور سبحان اللہ، نماز میں سب سے زیادہ دہرائے جانے والے الفاظ ہی نہیں ہیں۔ بلکہ دو ایسی بنیادی حقیقتوں کا بیان ہے۔ جن کاصحیح ادراک انسانی نفسیات اورنتیجتاً اس کے عمل کو یکسر بدل دیتا ہے۔

پہلے اللہ اکبر کو لیجئے۔ یہ کلمہ انسان کو بار بار یاد دلاتا ہے کہ اس کا رب ایک بڑی ہستی ہے۔ اس سے بڑی ہستی ہے۔ سب سے بڑی ہستی ہے۔ انسان جو فطری طور پر کسی بڑے کی پکڑ سے ڈرتا ہے، جب خدا کا یہ تعارف بار بار حاصل کرتا ہے تو پہلے دورانِ نماز ،ذہن کی دنیا میں ، وہ خدا کے سامنے چھوٹا ہوجاتا ہے اور پھر نماز سے باہر عمل کی دنیا میں بھی اس کے سامنے سرجھکائے رکھتا ہے۔ جب کوئی ایسا لمحہ اس کے سامنے آتا ہے جس میں وہ طاقت ور ہوتا ہے کہ ظلم کرے ، آزاد ہوتا ہے کہ نافرمانی کرے، بااختیار ہوتا ہے کہ کسی کا حق مارے تو وہی نماز والا بڑا خدا اسے یاد آجاتا ہے۔ پھر وہ طاقتور ، آزاد اوربااختیار انسان چھوٹا ہوجاتا ہے۔ وہ جان لیتا ہے کہ وہ اس بڑے خدا سے بچ کر کہیں نہیں جاسکتا ۔ پھر مجمع تو درکنار ، تنہائی میں بھی گناہ نہیں ہوتا۔ ظاہر میں تو کجا ، باطن کی گہرائیوں میں بھی معصیت کا گذر نہیں ہوتا۔ وہ خدا کے حقوق پامال کرتا ہے نہ بندوں کے ۔ وہ دین کی حدیں توڑتا ہے نہ فطرت کی ۔ نماز کے ہر رکن کے ساتھ اللہ اکبر کی یاد دہانی انسان کو پابند کردیتی ہے کہ وہ زندگی کے ہر معاملے میں اللہ کی بڑائی کو مانے اور اس کے تقاضے کو پورا کرے۔

تکبیر کے ساتھ نماز کی دوسری یاد دہانی تسبیح سے ہے۔ تسبیح کیا ہے؟ اس بات کا اعتراف ہے کہ خدا بے عیب ہے۔ ہر کمی ، ہر غلطی سے پاک ہے۔ ہر تشبیہ ، ہر تمثیل سے منزہ ہے۔ وہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اس کی اعلیٰ اور عظیم ہستی کو ہونا چاہیئے ۔ انسان نماز کا آغاز اس حقیقت کے اقرار سے کرتا ہے۔ رکوع میں اس بات کو مان کر جھک جاتا ہے اور سجدے میں اس حقیقت کے اعتراف میں اپنا ماتھا زمین پر رکھ دیتا ہے۔

خدا کے سبحان ہونے کو جاننا کوئی معمولی بات نہیں ۔ اس حقیقت کو جانے بغیر ایک طرف انسان خدا سے وہ کچھ منسوب کرتا ہے جو اسے شرک و الحاد تک پہنچادیتا ہے، تو دوسری طرف بندے اور رب کے درمیان جو اعتماد و محبت کا تعلق ہونا چاہیے اور جو درحقیقت روح کی غذا ہے، وہ کبھی پیدا نہیں ہوسکتا۔

انسان ایک ظاہر پرست مخلوق ہے ۔ وہ خالق جو مجسم نہیں اس سے کہیں زیادہ، اپنے جذبۂ عبودیت کی تسکین کے لیے . اسے وہ مخلوق پسند آتی ہے جسے وہ دیکھ سکے ، چھوسکے اور جو اس کے احاطۂ خیال میں آسکے ۔چنانچہ انسان مخلوق کا ایک پیکر لیتا ہے. اس میں خدا کی صفات ڈالتا ہے۔ پھر کبھی خدا سے اس کا نسب ملاتا ہے، کبھی اسے خدا کا مقرب ٹھیراتا ہے۔ پھر نمازی نماز پڑھتا ہے،رب کی تسبیح کرتا ہے مگر اس کے ساتھ غیر اللہ کو بھی پکارتا ہے، اس کے لیے روتا ہے، اس کے حضور میں نذریں پیش کرتا ہے اور اس سے دعائیں مانگتا ہے۔ اس کے بعد غیرت مند خدا اپنے حصے کی عبادت بھی اپنے شریک کو دیدیتا ہے۔

اس حقیقت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان بے حد حساس واقع ہوا ہے۔ پھر وہ ایک ایسی دنیا کا باسی ہے، جہاں ظلم عام ہے۔ یہاں اکثر وہ ہوتا ہے جو نہیں ہونا چاہیے۔یہاں روز ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو ایک حساس انسان کو تڑپا دیتے ہیں۔ وہ کمزوروں کو مظلوم ، اچھوں کو دکھی اوربے قصوروں کوپریشان دیکھتا ہے۔ ایسے میں اگر خدائے سبحان اس کے ذہن میں پورے طور پر زندہ نہ ہوتو وہ ایسے ’’بے حس‘‘خدا کامنکر ہوجاتا ہے۔ وہ اس خدا سے بے نیاز ہوجاتا ہے جو ظلم ہوتے ہوئے دیکھے مگر خاموش رہے ۔ جس کا ہاتھ ظالم کو پکڑنے کے لیے تو نہیں اٹھتا مگر معصوموں پر زلزلے . سیلاب . موت. معذوری اور پریشانی بھیجنے کے لیے خوب حرکت میں آتا ہے ۔ حتیٰ کہ اپنے نام لیواؤں کو بدترین حالات میں بھی تنہا چھوڑدیتا ہے۔

یہ .تسبیح کا عمل ہے جو ہمیں بتاتاہے کہ خدا نہ بے بس ہے نہ بے حس، نہ وہ رعایا سے بے پرواہ بادشاہ ہے ، نہ ثبوت و گواہی کے لیے محتاجِ قانون ،وہ تو پاک ہے، عظیم ہے، اعلیٰ ہے۔۔۔ اس دن کا منتظر جو بہت جلد آنے والا ہے۔ جس دن ہر سرکش اور ظالم کا ٹھکانہ جہنم اور ہر نیکوکار کا مقام جنت کی ابدی نعمتیں ہوں گی۔ چنانچہ تسبیح انسان کو شرک، الحاد ، مایوسی اور بے عملی سے بچاتی اور مشکل ترین حالات میں بھی اس کو خدا کے آگے جھکائے رکھتی ہے۔

اس طرح نماز کے یہ داخلی پہلو یعنی تکبیر و تسبیح .متقی. باعمل . حوصلہ مند اور صاحبِ ایمان انسان کو جنم دیتے ہیں۔ وہ انسان جن کی آج کے دور میں سب سے زیادہ کمی ہے۔

________

B