جن گھروں میں تین چار جوان لڑکیاں شادی کے لیے بیٹھی ہوں ان کے سرپرستوں کی قلبی کیفیت کا بیان قلم کی گرفت میں نہیں آ سکتا۔ پہلے رشتوں کی فکر، رشتے ہو جائیں تو شادی کے حد سے بڑھے ہوئے اخراجات کی فکر والدین کو گھلا ڈالتی ہے، اکثر قرض لیے بغیر چارہ نہیں ہوتا جس کی ادائیگی برسوں تک وبالِ جان بنی رہتی ہے۔
شادی کے نتیجے میں بھی جو خاندان وجود میں آتا ہے اس کی بنا اکثر ناپائیدار ہوتی ہے۔ مادی بنیادوں پر استوار ہونے والے رشتوں کی بنیاد اتنی مضبوط نہیں ہوتی کہ ان سے زندگی کا تانا بانا بنا جاسکے۔ جن لڑکیوں کی وجۂ انتخاب محض خوبصورتی ہو، ضروری نہیں کہ وہ حسنِ سیرت سے بھی آراستہ ہوں۔ مالی استحکام کے متلاشی مردوں کو اخلاقی تربیت کا وقت اور مواقع کم ہی مل پاتے ہیں۔ اور مل بھی کیسے سکتے ہیں؟ جب زندگی کا نصب العین ہی مادیت کے کنکر چننا قرار پا جائے تو اعلیٰ اخلاقی قدروں کے جواہر سے کون خود کو آراستہ کرے گا۔ ایسی سوچ، ایسے ماحول اور ایسے والدین کی گودوں میں پرورش پانے والے نونہالوں سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ نری مادیت کے تخم سے پروان چڑھنے والے خدا خوفی اور انسان دوستی کے جذبات سے تہی دامن ثابت ہوں گے اور ہو رہے ہیں۔
________