HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

غلط تصورات کا فروغ

شادی سے متعلق بہت سے غلط تصورات معاشرے میں اس طرح جڑ پکڑ چکے ہیں کہ ان کی اصلاح بظاہر بہت مشکل ہے۔ ان کی بنیاد پر لوگوں نے اپنے آپ پر بہت سی خود ساختہ پابندیاں عائد کرلی ہیں چنانچہ ایک مشکل مسئلہ مشکل تر ہوگیا ہے۔ مثلاً شادی کی عمر کو لے لیجئے ۲۳، ۲۴ سال کا کوئی نوجوان شادی شدہ نظر آ جائے تو لوگوں کا پہلا تبصرہ یہ ہوتا ہے کہ بہت چھوٹی عمر میں شادی ہو گئی ہے۔ اسی طرح لڑکیوں کی تعلیم کا مسئلہ ہے۔ جب تک لڑکی پڑھ رہی ہے اس کی شادی نہیں ہو سکتی اور اگر شادی ہو گی تو تعلیم چھوڑنی ہو گی۔ اس لیے دوران تعلیم اکثر والدین کو لڑکیوں کی شادی کا خیال بھی نہیں آتا۔ یوں شادی کی بہترین عمر کا ایک بڑا حصہ بلاوجہ ضائع ہو جاتا ہے۔ حالانکہ خود ہمارے معاشرے میں خواتین کی ایک بڑی تعداد ہے جو شادی شدہ اور کئی بچوں کی ماں ہونے کے باوجود تعلیم سے زیادہ مشکل اور وقت طلب کام یعنی ملازمت کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔

ہندو کلچر کے زیراثر ایک اور غلط تصور پیدا ہو گیا ہے کہ شادی زندگی کا اہم ترین واقعہ ہے۔ لہٰذا جب یہ ہو گی تو بہت دھوم دھام سے ہو گی اور اگر کسی سبب سے ٹوٹ گئی تو دوبارہ نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح کسی مرد کی ایک بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی ایک ناقابلِ برداشت بات ہے۔ قارئین میں سے بعض شاید یہ خیال کریں کہ اس بات کا شادی کے مسائل سے کیا تعلق۔ مگر اس طرح کے تصورات کے فروغ کے بعد معاشرے میں بعض ایسے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں جن کا کوئی حل نہیں ہوتا۔ مثلاََ جس معاشرے میں ایک کنواری نوجوان لڑکی کا نکاح ایک مسئلہ بن چکا ہو وہاں کسی بیوہ یا مطلقہ کو کون غیرشادی شدہ نوجوان سہارا دے گا۔ ہم اپنے معاشرے کی بیوہ اور مطلقہ کو ’ستّی‘ تو نہیں کرتے لیکن اس کی زندگی جہنم بنانے میں کوئی کسر بھی نہیں چھوڑتے۔ یہ مسائل صرف اس تصور کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ عورت کی ایک شادی اگر ٹوٹ گئی ہے تو اسے دوسری شادی کا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ کیونکہ کنوارا مرد اس سے شادی کرے گا نہیں اور شادی شدہ کو کرنے نہیں دی جائے گی۔

اسی طرح ایک اور نامعقول تصور یہ رائج ہے کہ لڑکی والوں کا کسی گھرانے میں اپنی لڑکی کے رشتہ کی تجویز دینا ایک معیوب بات سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں لوگوں کا اپنی لڑکیوں کے لیے کہیں رشتہ دینا کوئی معیوب نہ تھا۔ اور ہونا بھی نہیں چاہیے کیونکہ جس طرح شادی لڑکی کا مسئلہ ہے اس سے کہیں زیادہ لڑکے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر بعض اوقات کسی لڑکی کی طرف لڑکے والوں کا خود دھیان نہیں جاتا یا پھر کسی وجہ سے مثلاً لڑکی کی بلند مالی حیثیت کی بنا پر وہ جھجک میں رشتہ نہیں بھیجتے۔ اگر لڑکی والوں کی پہل کو معیوب نہ سمجھا جائے تو اس طرح کے مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔

________

B