دستیاب رشتوں کا محدود دائرہ مزید تنگ کر دینے والی ایک اہم چیز لوگوں کے وہ جاہلی تعصبات ہیں جنہیں لوگ اپنی روشن خیالی اور اسلام پسندی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ذات پات، برادری، قومیت اور زبان وغیرہ آج بھی بہت سے لوگوں کے لیے اصل معیار ہیں۔ ان دائروں سے باہر کتنے ہی اچھے رشتے مل سکتے ہیں مگر ان کا تعصب اور ہٹ دھرمی انہیں اس مصنوعی خول سے باہر نکلنے نہیں دیتا، چاہے شادی کی عمر نکل جائے یا بے جوڑ شادیاں کرنی پڑیں۔ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ (اللہ کے نزدیک تم میں عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ الحجرات ۴۹: ۱۳) کے ماننے والوں کو یہ رویہ کس حد تک زیب دیتا ہے اس کا فیصلہ وہ اگر آج نہیں کریں گے تو کل روزِ قیامت خداوند یہ فیصلہ خود کر لے گا۔ دنیاوی اعتبار سے بھی دیکھیں تو جدید سائنسی تحقیق نے مخصوص خاندانوں اور برادریوں تک محدود رہنے کے مضر نتائج کو بہت واضح کر دیا ہے۔ جس کے مطابق ایسی شادیوں کے نتیجے میں جنم لینے والے انسان بتدریج کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ والدین اولاد اور خاص طور پر لڑکیوں کا رشتہ کرتے وقت اس چیز کا لحاظ ضرور کرتے ہیں کہ آیا ان کے لیے دوسرے خاندان کے عمومی رہن سہن سے ہم آہنگ ہونا ممکن ہوگا یا نہیں۔ اس میں دوسرے پہلوؤں کے علاوہ ذات برادری وغیرہ بھی دیکھی جاتی ہے۔ یہ کوئی قابلِ مذمت بات نہیں۔ کیونکہ مستقبل کی ذہنی ہم آہنگی کے لیے اس کی رعایت ضروری ہے۔ مگر یہ رویہ اس وقت انتہائی قابل مذمت ہو جاتا ہے جب ان چیزوں کو اصولی طور پر رشتے ناطوں کا معیار قرار دے دیا جائے۔ دوسری ہر بات پر اطمینان ہونے کے باوجود صرف ذات، برادری اور قومیت وغیرہ کی بنیاد پر کسی رشتہ سے انکار کرنا ایک جاہلانہ فعل ہے جس کی تائید، دین اور عقل کی بنیاد پر نہیں کی جا سکتی۔
________