HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

صحیح عمر میں نوجوانوں کی شادی

صحیح عمر میں نوجوانوں کی شادی ان میں سے اکثر مفسدات کی جڑ کاٹ دیتی ہے جن کا تذکرہ نتائج کے ضمن میں ہم اوپر کر آئے ہیں۔ یہ ایک پاکدامن معاشرے کو وجود میں لاتی ہے جہاں نفسیاتی طور پر مضبوط شخصیتیں پروان چڑھتی ہیں۔ صحیح عمر میں شادی چونکہ فطرت کی پکار کا جواب ہے۔ اس لیے بالخصوص یہ خوبصورتی کی اس مصنوعی طلب کا بھی خاتمہ کر دیتی ہے جس نے نوجوان لڑکیوں کو ہر سمت سے کاٹ کر آئینے کے سامنے لا بٹھایا ہے۔ ۱۷ سے ۲۲ سال کی عمر کے ایک نوجوان میں ہارمونز پورے طور پر متحرک ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بیوی کی حیثیت سے جو لڑکی بھی اس کی زندگی میں آئے گی وہ اس کے لیے قابل قبول ہو گی چاہے وہ عام شکل و صورت کی ہی لڑکی کیوں نہ ہو۔ اس کے بر خلاف اگر اس عمر میں شادی نہ ہو تو جسم کے اندر کام کرنے والے ہارمونز کے زیر اثر پیدا ہونے والے احساسات اس کے ذہن میں صنف مخالف کا ایک رومانوی خاکہ ترتیب دیں گے جو حقیقت سے بہت زیادہ دلکش ہوگا (جس میں رنگ آمیزی کے لیے مواد فراہم کرنے کی بہت کچھ خدمت ہمارے ذرائع ابلاغ ’’فی سبیل اللہ‘‘ سر انجام دے ہی رہے ہیں)۔ ایسے نوجوان سے کون یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہو گا کہ وہ تیس سال کی عمر میں معمولی شکل کی حامل کسی لڑکی کے ساتھ برضا و رغبت شادی کرنے پر آمادہ ہو جائے۔

نوجوانوں کی جلدی شادی پر بہت سے اعتراضات کئے جاتے ہیں۔ مگر یہ تمام اعتراضات لغو ہیں جو سطحی اندازِ فکر کی بنا پر پیدا ہوتے ہیں۔ اس معاملے میں خدا فطرت کی زبان میں اپنی مرضی کا اظہار کرتا ہے۔۔۔ جب پہلے وہ ایک نوجوان میں بلوغت کے آثار پیدا کرتا ہے اور اس کے چند سال بعد ذہنی طور پر اس میں صنف مخالف کی شدید طلب پیدا کر دیتا ہے۔ فطرت کے ساتھ وہ اپنی کتاب میں بھی اپنی اسی مرضی کو بیان کرتا ہے۔ سورۂ نور کی اُس آیت کو، جو ہم نے اوپر نقل کی ہے، ایک دفعہ پھر ملاحظہ فرمائیے۔ اس میں نہ صرف نکاح پر ابھارا گیا ہے بلکہ اس واحد معقول اعتراض کا بھی جواب دیا گیا ہے جو اس پر وارد ہوتا ہے۔ یعنی نکاح کے بعد پیدا ہونے والا معاشی مسئلہ۔ اس آیت کی تفسیر میں جلیل القدر مفسر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:

’’آدمی جب تک بیوی سے محروم رہتا ہے وہ کچھ خانہ بدوش سا بنا رہتا ہے۔ اور اس کی بہت سی صلاحیتیں سکڑی اور دبی ہوئی رہتی ہیں۔ اسی طرح عورت جب تک شوہر سے محروم رہتی ہے اس کی حیثیت بھی اس بیل کی ہوتی ہے جو سہارا نہ ملنے کے باعث پھیلنے اور پھولنے پھلنے سے محروم ہو۔ لیکن جب عورت کو شوہر مل جاتا ہے اور مرد کو بیوی کی رفاقت حاصل ہو جا تی ہے تو دونوں کی صلاحیتیں ابھرتی ہیں اور زندگی کے میدان میں جب وہ دونوں مل کر جدوجہد کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی جدو جہد میں برکت دیتا ہے اور ان کے حالات بالکل بدل جاتے ہیں۔‘‘ (تدبر قرآن۵/ ۴۰۰)

جو لوگ خدا کے اس اعلان کے بعد بھی اس بات پر معترض ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ ہمارے نزدیک جس معاملے میں خدا اپنا فیصلہ سنا دے وہاں کبھی کوئی دوسری رائے درست نہیں ہو سکتی۔ اگر کبھی اس کے نتیجے میں کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی ذمہ داری صرف غلط انسانی رویوں پر عائد ہوتی ہے مثلاً شادی کو ایک بوجھ اور اس کے بعد آنے والی ذمہ داریوں کو ایک مشکل خدا نے نہیں بنایا یہ عذاب ہمارا اپنا انتخاب ہے۔ جہاں تک اولاد کی ذمہ داریوں کا تعلق ہے تو کثرتِ اولاد کوئی دینی مطالبہ نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ والدین اپنے حالات کے اعتبار سے کر سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ اس بحث سے شادی کی کوئی خاص عمر طے کرنا ہمارا مقصود نہیں۔ سماجی معاملات میں اس طرح کی کوئی حتمی بات کہنا ممکن نہیں ہوتا۔ ہر فرد اور خاندان کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ چنانچہ لوگ اپنے حالات دیکھ کر ہی اس طرح کا کوئی قدم اٹھاتے ہیں۔ ہمارا زور صرف اس پر ہے کہ نوجوانوں کی شادی اس وقت ہو جانی چاہیے جب وہ واقعی نوجوان ہوں۔ بیس بائیس سال کی عمر کے بعد شادی میں جتنی تاخیر ہو اسے تاخیر ہی سمجھنا چاہیے۔

________

B