ہمارے نزدیک اس مسئلے کی بنیاد یہ ہے کہ ہم نے اپنے معاشرے میں نکاح کو اس کے فطری مقام سے ہٹا دیا ہے۔ خدا نے غذا، پانی اور لباس کی طرح نکاح کو بھی انسان کی بنیادی ضرورت بنایا ہے۔ ہر دور میں لوگوں نے اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے دوسری بنیادی ضرورتوں کی طرح بلوغ کو پہنچنے پر نوجوانوں کے نکاح کا نہ صرف انتظام کیا بلکہ اسے ہر دوسری شے پر مقدم رکھا ہے۔ مگر بد قسمتی سے آج کی مادی دنیا میں غیر ضروری تعیشات اور ثانوی درجہ کی سہولیات، زندگی میں غیر معمولی اہمیت اختیار کرگئی ہیں۔ اب لوگ نکاح کی بنیادی ضرورت کو نظر انداز کر کے ذاتی گھر، گاڑی، اعلیٰ جاب، بینک بیلنس اور دیگر اشیائے تعیش کے حصول کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں تاکہ مادی اعتبار سے کامیاب زندگی گذاری جا سکے۔ نتیجتاً بلوغ کی عمر پر ۵ا سے۰ ۲ سال گزر جانے کے باوجود بھی ایک نوجوان اس قابل نہیں ہو پاتا کہ اس ’’کامیاب‘‘ زندگی کا آغاز کر سکے۔ اس مصنوعی عیش کے پیچھے ایک طرف تو وہ نوجوان ایک پاکیزہ، مستحکم اور پر لطف زندگی سے محروم ہو جاتا ہے جو وقت پر شادی کی صورت میں اسے ملتی، دوسری طرف شادی کی عمر میں اضافے اور لڑکیوں کے لیے رشتوں کے نہ ملنے کا وہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے جو اگر بڑھے گا تو سوسائٹی کے تار و پود بکھیر کر رکھ دے گا۔
________