مسلمان جب دنیا پرستی کے مرض میں گرفتار ہوتے ہیں تو وہ آخرت کا انکار نہیں کر دیتے۔ بلکہ وہ ایسے ذرائع ڈھونڈ لیتے ہیں، جن سے ان کی آخرت بھی محفوظ رہتی ہے اور ان کی دنیا پرستی پر بھی حرف نہیں آتا۔ یہ ذرائع بالعموم وہ سفارش کرنے والے ہوتے جو ان کی ہر بدعملی کے باجود خدا کی پکڑ سے انہیں بچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح کچھ ایسے آسان اعمال لوگوں میں مقبول ہو جاتے ہیں جو کسی خاص وقت اور طریقے پر اگر ادا کر دیے جائیں تو اس کے بعد انسان کے لیے لازماََ جنت میں جگہ محفوظ اور نارِ جہنم ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔
دین کی تعلیمات پر نگاہ رکھنے والے یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ رویہ سچی دین داری اور فلسفۂ دین کی موت ہے۔ دینی تعلیم کا خلاصہ فکرِ آخرت ہے جس میں ایک انسان قدم قدم پر محتاط زندگی گزارتا ہے۔ وہ مسجد میں ہی خدا کا بندہ نہیں بنتا بلکہ اپنے دفتر، گھر، سڑک اور دکان غرض ہر جگہ خدا کا بندہ بن کر زندگی گزارتا ہے۔ اس کے لیے دین محض ایک ثقافتی مظہر اور دینی شعائر کی پابندی کوئی رسم و عادت نہیں رہتی بلکہ ان کے ذریعے سے وہ اپنے روحانی، حیوانی، عقلی اور اخلاقی وجود کا تزکیہ کرتا اور انہیں پاکیزہ تر بناتا ہے۔ اس کے برعکس ایک دنیا پرست مسلمان نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر دینی اعمال کو محض ایک رسم و عادت کے تحت اختیار کرتا ہے۔ جن کا کوئی اثر اس کے کردار، اخلاق، عادات اور معاملات میں ظاہر نہیں ہوتا۔ چنانچہ ان سب کے ساتھ وہ اخلاق و کردار کی ہر گندگی میں اسی طرح لتھڑا ہوتا ہے جس طرح ایک دنیا دار شخص۔ ہمارا حال، بلا شبہ، اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔
________